کمرشل مارکیٹ میں عموماً گرمیوں کی شاموں میں شاپنگ کرنے والوں کا رش قدرے بڑھ جاتا ہے۔ گرمی اور لوڈشیڈنگ کے مارے لوگ گھروں سے باہر نکلنے کے بہانے ڈھونتے ہیں۔ اس شام بھی نئے شاپنگ مال پر گاہکوں کا رش دھیرے دھیرے بڑھتا جا رہا تھا۔ جیولرز، کراکری، گارمنٹس، ٹیلرنگ، کلاتھ مرچنٹ، بیکری، الیکٹرونکس، جنرل سٹور اور کھانے پینے کی تمام دکانیں آنے جانے والوں کی چہل پہل سے مصروف ہو گئی تھیں۔
ہل ویو الیکٹرونکس کی نئی دکان کو کھلے بمشکل ایک ہی ماہ ہوا تھا مگرانہوں نے آتے ہی مارکیٹ میں رونق لگا دی تھی۔ شام ہوتے ہی وہ بڑی بڑی پلازما ٹی وی سکرینیں شوروم سے باہر نکال کر گاہکوں کی دلچسپی کے لیے ان پر مختلف ٹی وی چینل بیک وقت آن کر دیتے۔ جنہیں دیکھنے کے لیے راہ چلتے شائقین بھی رک جاتے۔ ان کے شوروم کے سامنے تماشائیوں کا ہجوم یوں جمع ہو جاتا جیسے کوئی مداری یا کھیل تماشا ہو رہا ہو۔ اکا دکا گاہک دکان میں آ جا رہے تھے۔ اسی اثناء میں ایک سفید رنگ کی گاڑی شوروم کے سامنے آ رکی جس میں سے ایک میم اور صاحب برآمد ہوئے۔ خاتون کی عمر کوئی چالیس کے لگ بھگ ہوگی جبکہ صاحب کوئی پچاس کے پیٹے میں تھے۔ ان کے ملبوسات خاصے شاندار اور قیمتی تھے اور ان کی شخصیات بھی رعب دار تھیں۔ وہ باہر آویزاں بڑی سکرینوں پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالتے ہوئے اک شانِ بے نیازی سے چلتے ہوئے اندر کاؤنٹر پر آئے۔ جہاں میاں صاحب اور ان کے ساتھیوں نے خوش دلی سے ان کا استقبال کیا۔
‘’جی فرمائیے سر۔۔۔ آپ کی کیا خدمت کی جائے؟‘‘ میاں صاحب نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
‘’دیکھئے چھتیس انچ فلپس ٹی وی کی کیا پرائس ہوگی؟‘‘ خاتون نے پوچھا۔
‘’جی بیگم صاحبہ! آپ کے لیے راؤنڈ فگر میں پچاس ہزار ہو جائےگی‘‘۔ میاں صاحب نے جواب دیا۔
‘’بیگم فی الحال اکیس انچ سکرین والا ٹی وی لے لو‘‘۔ صاحب نے بیگم کو مشورہ دیا۔
‘’نہیں۔۔۔ نہیں، مسز اکرام بھی چھتیس انچ والا ٹی وی لے کر گئی ہیں۔ میں چھوٹا ٹی وی نہیں لے سکتی’‘۔ خاتون نے حتمی انداز میں جواب دیا۔
‘’اور۔۔۔ اکیس انچ ٹی وی کتنے کا ہے؟‘‘ اب کے ان صاحب نے اپنی بیگم کو نظر انداز کرتے ہوئے پوچھا۔
’’جی صاحب! وہ آپ کو پینتس ہزار میں مل جائےگا’‘۔ میاں صاحب کا جواب سن کر وہ صاحب جیب سے نوٹ نکال کر گننے لگے۔
‘’میں نے آپ سے کہہ دیا ناں کہ میں چھتیس انچ سے چھوٹا ٹی وی ہرگز نہیں لوں گی‘‘۔ خاتون نے صورت حال کو بھانپتے ہوئے پیش قدمی کی۔
‘’بیگم! اگلے ماہ شکیل بیٹے کے باہر سے پیسے آ جائیں گے پھر آپ بڑا ٹی وی لے لینا‘‘۔ خاوند نے بیوی کو نرمی سے سمجھانے کی کوشش کی۔ میاں صاحب اور ان کے سیلزمین خاموشی اور بڑی دلچسپی سے یہ تکرار دیکھ رہے تھے۔ خاوند بیوی کو بازو سے پکڑ کر تقریباً کھینچتے ہوئے زبردستی کار میں لے آیا۔ کار میں بیٹھے بیٹھے بھی دونوں میں کافی دیرسرد و گرم نوک جھونک جاری رہی۔ تھوڑی دیر بعد خاتون کار سے اتر کر واپس میاں صاحب کے پاس آئی اور کہنے لگی۔
’’دیکھئے یہ میرا قیمتی ہار ہے آپ ابھی اس کی قیمت لگوائیے اور بڑا ٹی وی پیک کر دیجئے‘‘۔ خاتون نے سونے کا ہار اتار کر میاں صاحب کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ میاں صاحب پہلے تو ہچکچائے مگر خاتون کے اصرار پر مجبور ہو گئے۔
‘’ندیم! سامنے آئیڈیل جیولرز سے اس ہار کا وزن کراؤ اور آج کے گولڈ ریٹ کے مطابق اس کی مالیت ایک چِٹ پر لکھوا لاؤ۔‘‘ میاں صاحب نے سیلز مین کو حکم دیا۔ سیلز مین ہار لے کر جیولر کے پاس گیا اور دس منٹ کے بعد ہار کی مالیت ایک لاکھ پچیس ہزار روپے لکھوا کر لے آیا۔ اسی دوران وہ صاحب گاڑی سے نکل کردوبارہ بیوی کے ساتھ کاؤنٹر پر آ کھڑے ہوئے ۔ ان کے چہرے سے لگ رہا تھا کہ وہ غصے، خجالت اور شرمندگی کے ملے جلے اثرات کے زیر اثر انتہائی کش مکش کا شکار ہیں۔ میاں صاحب نے وہ چِٹ خاتون کو دے دی۔
‘’جناب! یہ ٹھیک ہے، آپ بڑا ٹی وی پیک کر دیں‘‘۔ خاتون نے جیولر کی چٹ بغور دیکھتے ہوئے دکاندار کو واپس دیتے ہوئے کہا۔
‘’مگر بیگم، یہ ہار ہماری شادی کی قیمتی نشانی ہے، آپ اسے نہیں بیچ سکتیں۔‘‘ ان صاحب نے بیگم کو ایک بار پھر روکنے کی کوشش کی۔
‘’آپ مجھے میری مرضی سے کیوں نہیں جینے دیتے، یہ ہار میرا ہے اور میں اس کا جو چاہوں کروں؟‘‘ خاتون نے جھنجھلا تے ہوئے کہا۔
یہ سنتے ہی خاوند اشتعال میں آ گیا اور اس نے بیگم کو تھپڑ جڑ دیا۔ خاوند نے میاں صاحب کے ہاتھ سے ہار لیا اور گاڑی کی طرف لپکا۔ تھپڑ پڑتے ہی خاتون نے چیخنا چِلانا شروع کر دیا۔ اب تک دکان سے باہر سکرینوں پر انواع و اقسام کے مناظر سے لطف اندوز ہوتے ناظرین نہایت خشوع و خضوع سے میاں بیوی کی ‘’لائیو وار‘‘ کی جانب متوجہ ہو چکے تھے۔ خاوند ہار سمیت کار میں بیٹھ کر جا چکا تھا۔ بیوی نے بھی اسی تیزی سے ایک ٹیکسی روکی اور گھر کی جانب روانہ ہو گئی۔ ادھر دکان پر میاں صاحب ایک جاننے والے بزرگ سے یوں گویا تھے۔
’’دیکھیں صاحب! کیا زمانہ آ گیا ہے۔ میاں بیوی، آپس کے جھگڑے گھر سے نکال کر سڑکوں پر لے آئے ہیں‘‘۔
‘’میاں صاحب! ہمارے وقتوں کی بیویاں خاوند کے ایک اشارۂ ابر وپر کٹ مرنے کو اپنے لیے باعث فخر سمجھتی تھیں‘‘۔ ان بزرگوں نے اپنا فلسفہ بیان کیا۔
‘’اجی صاحب! یہ سب میڈیا کا کیا دھرا ہے، سٹارپلس نے ہمارے روائتی پاکستانی کلچر کا حلیہ بگاڑ کے رکھ دیا ہے’‘۔ میاں صاحب نے ان بزرگوں کی بات کو گویا بڑھا وا دیا۔
‘’ہاں جی! یہ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ پڑوسی ملک کے کلچر نے تو گھر گھر ناچ گانے اور فحاشی کو عام کر دیا ہے’‘۔ ان بزرگوں نے ایک بار پھر بیان جاری کیا۔
‘’ویسے میں حیران ہوں، ہمارے ملک کے حکمران اس طرف کیوں نہیں توجہ کرتے۔۔۔ شرم ناک بدیسی کلچر کی یلغار سے ہماری نئی نسل بالکل تباہ ہوکر رہ گئی ہے۔۔۔‘‘ میاں صاحب کے لہجے میں مستقبل کا سیاسی لیڈر صاف جھلکنے لگا تھا۔
‘’میاں صاحب! ہمارے حکمران بھی کیا کریں؟ توانائی کے بحران، مہنگائی، بے روزگاری، دہشت گردی اور انکل سام کے دخل در معقولات جیسے مسائل، وطن عزیز کے نو قیمتی سال ضائع کرنے والا ایک آمر ورثے میں چھوڑ گیا ہے۔ اب ہمارے حکمران کس کس مسئلے سے نمٹیں؟‘‘
‘’یہ آپ نے انکل سام کی خوب کہی، جو ہمارا چھپا ہوا ازلی دوست نما دشمن ہے۔۔۔’‘ ابھی میاں صاحب اور ان بزرگوں کے درمیان سیاسی بھاشن بازی جاری تھی کہ وہی قیامت بیگم ایک بار پھر اپنے قیمتی ہار سمیت کسی آفت ناگہانی کی مانند آن نازل ہوئیں۔ خاتون نے کاؤنٹر پر پہنچتے ہی اپنا سونے کا ہار میاں صاحب کے سامنے دھرا اور گویا ہوئیں۔
‘’آپ نے میرا ٹی وی پیک کر دیا؟‘‘ میاں صاحب اور ان کے سیلز مین سوالیہ نظروں سے خاتون کو گھورنے لگے۔ خاتون دوبارہ گویا ہوئیں۔
‘’پلیز جلدی کریں، اس سے پہلے کہ میرا شوہر دوبارہ آ جائے آپ چھتیس انچ کا ٹی وی میری گاڑی میں رکھوائیں اور جلدی سے بقیہ رقم گن دیں تاکہ میں جاسکوں‘‘۔ خاتون کی آواز اور آنکھیں بتا رہی تھیں کہ وہ بہت روئی ہے۔ اس کے بال بھی کچھ الجھے ہوئے تھے۔
میاں صاحب نے نازک صورت حال کے پیش نظر سیلز مین کو ٹی وی پیک کر کے گاڑی میں رکھوانے کا حکم دیا اور خود جلدی جلدی کیش بکس سے پچہتر ہزار روپے کی بقیہ رقم پوری کرنے لگے۔ ایک دوسرے سیلز مین کو میاں صاحب نے پچاس ہزار روپے کی رسید اور گارنٹی کارڈ بنانے کے لیے پہلے ہی کہہ دیا تھا۔ انہوں نے جلدی سے رقم گن کر خاتون کے حوالے کی، جو اس نے ٹی وی کی رسید اور گارنٹی کارڈ سمیت جلدی سے بغیر گنے اپنے پرس میں ٹھونسی اور میاں صاحب کا شکریہ ادا کر کے جس تیزی سے آئی تھی اسی تیزی سے شوروم سے نکل کر اپنی گاڑی میں جا بیٹھی۔ خاتون نے پچاس کا ایک نوٹ گاڑی میں ٹی وی رکھ کر جانے والے دو سیلز مینوں کی طرف بڑھایا اور فشوں ہو گئی۔ خاتون کے تیزی سے آنے اور کارروائی کر کے واپس جانے میں بمشکل دس منٹ لگے تھے۔
’’ہاں تو جناب! بالآخر آج کی عورت اپنے مرد سے جیت گئی۔ اس خاتون نے خاوند کے منع کرنے کے باوجود ہار بیچ کر بڑا ٹی وی خرید لیا تاکہ مال دار سہیلیوں کے سامنے اپنی ناک اونچی کر سکے۔۔۔‘‘ میاں صاحب کے لہجے میں ایک مرد کی ہار سے زیادہ اپنی پچاس ہزار کی سیل کا نشہ جھلک رہا تھا۔ انہوں نے سیلز مین ندیم کو ہار اور تخمینے والی چٹ دیتے ہوئے کہا کہ جاؤ جاکر جیولر سے ایک لاکھ پچیس ہزار روپے گن کر لے آؤ۔ تیسرے کو چائے کا آرڈر دیا تاکہ وہ ان بزرگوں کے ساتھ حالات حاضرہ پر بےلاگ تبصروں کا ٹوٹا سلسلہ پھر سے جوڑ سکیں۔ جیولر کے ہاں سے ندیم دوسرے ہی لمحے کھوٹے سکے کی مانند پلٹ آیا۔
‘’میاں جی! جیولر کہتا ہے وہ پہلے والا ہار لاؤ یہ دوسرا تو نقلی ہے‘‘ سیلز مین نے تو بڑی آسانی سے کہہ دیا مگر میاں صاحب کی موٹی موٹی آنکھیں یہ سنتے ہی حلقوں سے نکل کر مزید باہر کو آ گئیں۔
’’اوئے۔۔۔ کیا بکتا ہے؟‘‘ ان کے منہ سے اتنا ہی نکل سکا۔ دوسرا ہار کاؤنٹر پہ دھرا سب کا منہ چڑا رہا تھا۔ دکان کے لوگ یوں سکتے میں تھے جیسے سب کو سانپ سونگھ گیا ہو۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.