Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دوسرا کبوتر

حمید قیصر

دوسرا کبوتر

حمید قیصر

MORE BYحمید قیصر

    انعام ابھی نیند سے پوری طرح بیدارنہیں ہوا تھا۔سکون کا نرم و گرم احساس لیے ابھی رضائی اس کے اوپر تھی کہ سرکنڈوں والی جھاڑو کی سرڑ،سر، سرڑ۔۔۔سر، کی سر سراہٹیں صبح دم مشکی کے آنے کا اعلان کرنے لگی تھیں۔

    انعام کو عابد اور خسرو کے ساتھ چھڑوں کے اس چوبارے میں آئے چند مہینے ہی گزرے تھے۔ عابد ایک مل میں سٹور کیپر تھا جبکہ خسرو نے ایک عدد معشوق پال رکھی تھی۔ عابد کی مِل رہائش سے بہت دور تھی اس لیے وہ صبح جلدی نکل جاتا اور خسرو نے تانیہ کو کالج چھوڑنا ہوتا تھا۔ وہ ایک ماہ پہلے بی۔ اے۔ کے امتحان سے فارغ ہوکر آج کل عشق کے امتحان کی تیاری میں مگن تھا۔ دونوں علیٰ الصبح ناشتہ کئے بغیر چوبارہ چھوڑ دیتے۔ انعام ایک انگریزی روزنامہ میں آخری شفٹ کا صحافی ہونے کی وجہ سے رات دو بجے اخبار کی آخری کاپی پریس بھیج کے واپس لوٹتا۔ ایسے میں اس کے ساتھی دوستوں کے ساتھ تاش کھیل رہے ہوتے یا تھک ہار کر سونے کی تیاری کر رہے ہوتے۔ انعام تھکا ہوتا تو وہ بھی پڑ کر سوتا رہتا اور اگر موڈ میں ہوتا تو سوتوں کو جگا کر نئے سرے سے بازی سجاتا۔ یوں شب کے آخری پہر کی بجھتی شمع پھر سے لو دے اٹھتی۔ نئے دور چلتے، لمبی لمبی بازیاں جمتیں، یوں قہقہوں اور خوش گپیوں کے درمیان رات دم توڑ دیتی۔ ایسے میں جو وہ گھوڑے بیچ کر سوتے تو اگلے دن سورج کو سہ پہر کی سرحد پر چھوڑ کر لوٹتے۔ ایسی صورت میں عابد اور خسرو کی دیہاڑی تو ماری جاتی مگر انعام کو کوئی فرق نہ پڑتا۔ اس کی ڈیوٹی ویسے ہی شام سات بجے شروع ہوتی تھی۔ دونوں ساتھیوں سے ڈیڑھ دو سال بڑا ہونے کی وجہ سے انعام کا سبھی احترام کرتے، اس کے بغیر ہر محفل نا مکمل سمجھی جاتی۔ وہ اپنی خاموش طبیعت اور عینک کے عقب سے سوچتی آنکھوں کی وجہ سے دانش ور مشہور تھا۔

    چو بارے پر مشکی آ پہنچی تھی۔ نام تو اس کا بِلو تھا مگر پکے سانولے رنگ کی نسبت سے چوبارے پر اسے مشکی کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ وہ تیکھے نین نقش والی بائیس سالہ پرکشش جمعدارنی تھی۔ جس کی جوانی کے کچے پکے سر چھڑوں کی بیٹھّکوں، چوباروں کی اڑتی دھول مٹی اور جھاڑو کی سرڑ۔۔۔ سر،سرڑ۔۔۔ سر میں مدھم پڑتے جا رہے تھے۔ کبھی کبھی بلو کو غور سے دیکھ کر یوں بھی محسوس ہوتا جیسے جوانی اس پر آئی تو تھی مگر ساون بدلی کی مانند جلد لوٹ گئی۔ پھر بھی اس کا رنگ رُوپ پھول دار ریشمی اور چست سوتی کپڑوں میں چھپائے نہ چھپتا تھا۔ وہ اٹھتے بیٹھتے قمیض کھینچ تان کر یوں درست کرتی جیسے مورنی کو ناچتے ہوئے اچانک اپنے پاؤں یاد آ جائیں۔ جب جھاڑو دینے میں مصروف ہوتی تو چھڑے اسے ایک دوسرے سے نظریں بچا کر تکا کرتے۔ وہ اٹھلا کر چلتی تو بڑے بڑوں کی سٹی گم ہو جاتی۔

    شروع شروع میں چوبارے کی صفائی کے لیے بِلو کی ماں آیا کرتی۔ ساتویں بچے کی پیدائش کے بعد وہ بیمار پڑ گئی تو بلو کے ساتھ اس کا چھوٹا بھائی آنے لگا۔ دس بیس روز میں جب گھر والوں کو تشفی ہوئی تو انسانوں کے جنگل میں بلوکو کھلا چھوڑ دیا گیا۔ وہ زیادہ ترچوبارے پر صبح سویرے آجاتی کیونکہ اسے اور بھی کئی جگہ جانا ہوتا تھا۔ کبھی کبھی شام کو ہی جھاڑو پھیر جاتی۔ بڑا ہونے کے سبب انعام چوبارے پر سب کا راز داں بھی تھا۔ اسی لیے خسرواسے ملاقاتوں میں حائل اپنے مسائل اور تانیہ سے ہونے والی گفتگو کا ایک ایک لفظ بتا دیتا۔

    ‘’انعام بھائی! کیا بات ہے آج کل کچھ پھیکا پھیکا نہیں چل رہا۔۔۔؟؟‘‘

    ‘’کیا مطلب۔۔۔؟؟‘‘

    ‘’مطلب یہ کہ زندگانی سے رنگینیاں ہی ختم ہو چلی ہیں۔۔۔ اول تو ہم تینوں چوبارے پر اکٹھے ہی نہیں ہوتے۔۔۔؟

    اگر خوش قسمتی سے ہوجائیں تو تب تلک رنگینیوں کے سارے دَر بند ہو چکے ہوتے ہیں۔۔۔’‘

    انعام وقفے وقفے سے لمباکش لگاکر خسرو کویوں دیکھتا جیسے اس کی باتوں میں شامل لذت بےگناہ کی چاشنی اس تک بھی پہنچ رہی ہو۔

    ’’یار انعام بھائی! اپنی اس مُشکی گھوڑی کے بارے میں کیا خیال ہے آپ کا، سواری کے قابل ہے کہ نہیں؟‘‘ اب کے خسرو شارٹ کٹ پہ آ گیا۔

    ‘’کبھی سواری کو جی نہیں چاہا۔۔۔؟‘‘

    ’’ایمان سے بہت سادہ ہیں آپ بھی، باہر خوار ہوتے پھرتے ہیں ادھر شکار روز خود چل کر آتا ہے اور بچ کر صاف نکل جاتا ہے۔۔۔‘‘ اس سے نِچلا نہ رہا گیا۔

    ‘’اوئے خسر ے کیا بکواس کیے جاتے ہو اتنی دیر سے۔۔۔؟‘‘ وہ خسرو کو مصنوعی ڈانٹ پلاتے ہوئے بولا۔

    ’’یہ بکواس نہیں انعام بھائی، آپ کو کیا پتہ ہم دونوں تو سواری بھی کرچکے ایمان سے، بڑا مزہ آیا تھا!‘‘

    اب انعام حجاب میں آکر لاتعلق سا دکھنے لگا۔

    ‘’بس ذراسی توجہ چاہیے آپ کی۔۔۔ مشکی گھوڑی کی طرح ایک تو اتھری بہت ہے، اوپر سے سالی ہے بےلگام۔۔۔ ذرا گردن سے ہاتھ نیچے کھسکا نہیں کہ تن کر کھڑی ہو جاتی ہے۔۔۔ پاس نہیں پھٹکنے دیتی کسی کو۔۔۔ اللہ جانے گردن سے نیچے کون سی شے چھپا رکھی ہے اس نے؟‘‘

    ’’کیا بتاؤں کہ ہم دونوں نے آپ سے چوری چھپے کتنے پاپڑ بیلے ہیں اس بھنگن کی بچی کے لیے۔۔۔‘‘

    ’’ایمان سے بڑی خواری کی ہے۔۔۔ تب کہیں جاکر سواری نصیب ہوئی’‘۔

    ’’واہ! کیا سواری تھی۔۔۔ کاٹھی کے بغیر ہوتی تو اور ہی لطف آتا مگر یہ سالی کاٹھی پہ ہاتھ دھرنے دے تو تب ہے ناں!‘‘

    انعام کو رضائی کے اندر رہ رہ کر خسر و کی تمام بکواس،اس کی بنتی بگڑتی شکلوں سمیت یاد آرہی تھی۔۔۔ اوپر سے بِلوکی بچی کے ‘’سرڑ۔۔۔ سر۔۔۔ سرڑ۔۔۔ سرکے بےتکے الاپ دماغ چاٹ رہے تھے، اب نیند کیا خاک آتی؟

    تھوڑی دیر بعد بلو کے جھاڑو کی سر سراہٹ بہت قریب سے آنے لگی۔ معاً اسے خیال آیا کہ مشکی منع کرنے کے باوجود کچی نیند سے بیدار کرنے کمرے میں گھسی چلی آئی تھی، انعام یہ سب سوچتے ہوئے رضائی کے اندر ہی اندر پیچ و تاب کھانے لگا تھا۔

    ابھی سورج نکلنے میں خاصا وقت تھا۔ عابد اور خسر و حسب معمول اسے سوتا چھوڑ کر نکل گئے تھے اوراب چو بارے پر بلو جمعدارنی کا راج تھا۔ بےخوابی، بے زاری، تنہائی، خسرو کی بکواسیات اور ایسے میں مشکی گھوڑی کی موجودگی کے احساس نے انعام کے غصے کو ٹھنڈا مگر جذبات میں انگارے بھرنے شروع کر دئیے۔

    اتھری اور منہ زور گھوڑی۔۔۔ بلو بھنگن۔۔۔’‘ اسے بار بار خسر و منہ چڑاتا نظر آنے لگا۔ انعام نے اس سے پہلے کبھی مُشکی کی طرف توجہ ہی ناں دی تھی۔۔۔ مگر اس روز نہایت غیرمحسوس انداز میں بلو اس کے اعصاب پر چھانے لگی تھی۔

    ‘’ارے اوبلی! تجھ سے کتنی بار کہہ چکا ہوں، جب میں سو رہا ہوتا ہوں تو کمرے میں جھاڑو مت لگایا کر، نیند خراب ہوتی ہے۔۔۔ مگر تو سنتی کہاں ہے؟۔۔۔ سیدھی اندر گھسی چلی آتی ہے‘‘ انعام نے پہلی بار مصنوعی رعب جھاڑ تے ہوئے سر رضائی سے باہر نکال لیا،تب بلو کا ردھّم سے چلتا ہوا ہاتھ تھم گیا۔

    ‘’اے ہے صاحب جی! آپ تو بڑے گسے والے ہیں۔۔۔ کبھی تو پیارسے بھی بول لیا کریں ہم گریبوں سے۔۔۔’‘

    بلو جھاڑو کی ہتھی دیوار سے ٹھونکتے ہوئے اک ادا سے مسکرائے جا رہی تھی۔ اس کے سانولے سلونے چہرے پر لاٹیں مارتا کو کا ،جھٹ پٹے کا ستارہ معلوم ہوتا تھا۔ کام کرتے ہوئے لمبے بالوں کو سنبھالنے کے لیے دوپٹہ کمر پے کَس لیتی تو اس کا سراپا اور بھی قیامت ڈھانے لگتا۔

    ’’آج تو میں نے آپڑیں صاب جی سے پورے مہینے کی تنکھا وصولنی ہے۔۔‘‘ وہ جھاڑو پھینک کر ہاتھ نچاتی اور اٹھلاتی ہوئی چار پائی کی پائنتی کے قریب پہنچ گئی، جیسے انعام کی نگاہوں کی جادوئی کش اسے اپنی طرف کھینچے چلی جاتی ہو۔۔۔ بلو اچانک آگے بڑھی اور رضائی کا کونہ پکڑکر ایک ہی جھٹکے سے پرے اچھال دی۔ انعام ہکا بکارہ گیا۔ اس کے بدن کے بیچ اک لہرسی اٹھی اور اس کا رواں رواں کھڑا ہو گیا، وہ سمٹنے لگا مگر بلو نے پھیلنا شروع کر دیا۔ تھوڑی ہی دیر میں انعام کے جسم کی ٹکور اینٹھن میں بدلنے لگی۔ اس کے اندر میٹھے میٹھے جذبوں نے خواہش کا روپ دھار لیا۔

    ’’کیوں ناں پہلے اس انار کلی کے ڈربے میں بند کبوتروں کو ہی آزاد کر دیا جائے۔۔۔’‘ انعام نے ڈربے میں سے جھانکتے، غٹرغُوں غٹرغُوں کرتے کبوتروں کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ مشکی بدک کر پَرے جاکر کھڑی ہوئی۔ انعام اٹھ کر لپکا تو بلونے کونے میں سمٹ کر بانہوں کے پٹ مضبوطی سے بھیڑ لیے۔ انعام نے ایک ہی جھپٹے میں بانہوں کے نازک پٹ توڑ کر الگ کر دیئے۔ دوسرے لمحے بلوکا چاک گریبان انعام کے ہاتھ میں تھا۔ وہ یکدم سکتے میں آ گیا۔ اس کی خواہش کی موم بتی پل بھر میں پگھل کر پانی ہو گئی۔ تب اس نے دیکھا کہ بِوراج کماری کا جسم کٹھالی میں پگلتے سونے کی ماند دہک رہا تھا۔ اس کی بانہوں کے ادھ کھلے دروازے میں سے پھڑکتا ہوا کبوتر باہر جھانکنے لگا اور روئی کے گالے جیسا دوسرا کبوتر ،بےبس بلوکی طرح فرش پر مردہ پڑا انعام کا منہ چڑا رہا تھا۔ بلوکم مائیگی کے کرب میں اپنی بانہوں کے شکنجے کو یوں بھینچ رہی تھی جیسے دوسرے زندہ کبوتر کو بھی مسل دینا چاہتی ہو۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے