دوسرا راستہ
کہانی کی کہانی
ملک کے سیاسی حالات پر مبنی کہانی ہے۔ ایک شخص ڈبل ڈیکر کی بس کی بالائی منزل پر بیٹھا بس میں موجود لوگوں اور بس سے باہر کی تصاویر ایک کیمرہ مین کی طرح پیش کر رہا ہے۔ بس میں ایک کتبہ والا شخص ہے جس کے کتبے پر لکھا ہے ’’میرا نصب العین مسلمان حکومت کے پیچھے نماز پڑھنا ہے‘‘ پھر وہ شخص بس میں بیٹھے لوگوں کو مخاطب کر کے سیاسی حالات بیان کرنے لگتا ہے۔ اچانک ایک جلوس راستہ روک لیتا ہے۔ واحد متکلم اور اس کا دوست پریشان ہوتے ہیں کہ منزل تک پہنچ سکیں گے یا نہیں۔ افسانے میں پیش کردہ حالات تشکیک، بے چینی، بے یقینی اور تذبذف کی کیفیت کو واضح کرتے ہیں۔
میرا نصیب العین۔۔۔ مسلمان حکومت کے پیچھے جمعہ ادا کرنا۔۔۔ وہ بہت چکرایا، یہ کیسا نعرہ ہے مگر کتبے پر تو یہی کچھ لکھا ہوا تھا۔
اس وقت وہ ڈبل ڈیکر کی بالائی منزل میں دریچے کے برابر کی نشست پر بیٹھا تھا، اور باہر دیکھ رہا تھا، سفر میں خواہ وہ بس کا سفر ہو یا لاری کا، یا ریل گاڑی کا، اس نے ہمیشہ دریچے کے برابر بیٹھنا پسند کیا کہ یوں آدمی اندر کے اچھے برے لوگوں کے ہجوم کا حصّہ بننے سے بچ جاتا ہے اور باہر کے تیزی سے بدلتے ہوئے منطر سے رشتہ استوار کر لیتا ہے۔ وہ جب جب سفر میں دریچے سے دور بیٹھا، یہ سمجھا کہ وہ ہجوم کے نرغے میں ہے اور ہجوم کا حصّہ بن گیا ہے مگر آج ڈبل ڈیکر کی بالائی منزل کی نشستیں اچھی خاصی تعداد میں خالی پڑی تھیں، اسے تھوڑا تعجب ہوا کہ بس اتنی دیر کے بعد آئی ہے پھر بھی ایسارش نہیں ہے مگر اس نے دریچے کے برابر بیٹھ کر باہر دیکھنا شروع کر دیا اور جلد ہی اندر کے منظر سے بے خبر ہو گیا۔ اگر ظفر اس کے ساتھ نہ بیٹھا ہوتا تو وہ شاید اندر کے منظر سے مکمل بے تعلقی پیدا کر لیتا، مگر ظفر نے بیٹھے بیٹھے اسے پھر ٹہوکا۔ ’’امتیاز، دیکھ رہے ہو؟‘‘
اس نے باہر دیکھتے دیکھتے اندر اپنے سے اگلی نشست پر نظر ڈالی جس کی طرف ظفؔر نے اشارہ کیا تھا، اسے تو پتہ چلا نہیں تھا، جانے وہ آدمی کس وقت آ بیٹھا تھا، ہاتھ میں لمبی سی چھڑی، چھڑی سے ٹنگی ہوئی گتّے کی تختی، تختی پر لکھا ہوا، ’’میرا نصب العین۔۔۔ مسلمان حکومت کے پیچھے جمعہ ادا کرنا۔‘‘ دونوں نے کتبہ پڑھا، پھر ایک دوسرے کو دیکھا اور مسکرائے۔
اب بس کی سب نشستیں پر ہو چکی تھیں، بلکہ کچھ لوگ تو زینے کے قریب ڈنڈا پکڑے کھڑے تھے، رفتہ رفتہ کتبہ سے بے تعلق ہوکر وہ پھر باہر دیکھنے لگا تھا کہ اچانک کتبے والے آدمی نے جھر جھری لی اور کھڑا ہو گیا، اس طرف سے اس طرف تک، اس کونے سے آخری نشست تک بیٹھے ہوئے لوگوں کو دیکھا، کھنکھارا، اور شروع ہو گیا۔
ظلم کی ٹہنی کبھی پھلتی نہیں
ناؤ کاغذ کی کبھی چلتی نہیں
اے میرے مسلمان بھائیو، عرصہ گزر گیا ہے انصاف مانگتے، انصاف، احتساب، یاد کرو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کرتے پر اعتراض، مگر جہاں مسلمان آزاد نہ ہوں، وہاں شہ زور بھی کمزور ہے، کچھ نہیں کر سکتا، تڑپنے کے سوا جیسے محمدّ علی کلے۔۔۔‘‘ برابر کی نشست پر بیٹھا ہوا شخص جس نے قدرے اجلا قدرے میلا سوٹ پہن رکھا تھا اور زانو پر ایک کالا چرمی بیگ رکھا ہوا تھا، کچھ کسمسایا کچھ سٹپٹایا۔ ’’محمد علی کلے؟‘‘
کتبے والا آدمی اس کا سٹپٹانا دیکھ کر طنزیہ ہنسی ہنسا۔ ’’میرے عزیز نے محمد علی کلے کا نام سن کر تعجب کیا مگر کیوں تعجب کیا، ذات باری کی قسم، محمد علی کمزور آدمی ہے کس لیے؟ اس لیے کہ وہ محکوم ہے اور اب تم پوچھو گے کہ پھر چینی کیوں نایاب ہوئی اور آٹا کیوں مہنگا ہوا۔ تو یاد کرو حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا چھنے ہوئے آٹے کی روٹی دیکھ کر گریہ کرنا، مسلمانو! عرصہ گزر گیا انصاف مانگتے، انصاف نہیں ملا مجھے، مگر حضرت عمر بن عبد العزیز، کیوں؟ مجھے اس کا علم چاہئے، میرا سوال پاکستان کے چھ اخباروں میں شائع ہوچکا ہے۔ ایمان والو! مجھے جواب دو سات پیسے کا کارڈ لکھ کر، کیونکہ زبانی بحث میں جھگڑے کا ڈر ہے اور فساد منع ہے ازروئے اسلام۔ جہالت کا عمل اور علم کا عمل، عمل کا علم اور عمل کی جہالت، جہالت کے عمل سے کیسے بچا بجائے، مجھے اس کا علم چاہئے۔۔۔‘‘
ظفر نے مسکراتے ہوئے اسے پھر ٹہوکا، ’’امتیاز سن رہے ہو؟‘‘
’’سن رہا ہوں۔‘‘ وہ بیزار ہوکر بولا، پھر باہر دیکھنے لگا، باہر دیکھتے دیکھتے دفعتاً چونکا، ’’یار ہم کدھر جا رہے ہیں؟‘‘ ظفر اس کی گھبراہٹ پر تھوڑا چکرایا، ’’کیوں، کیا ہوا؟‘‘
’’یار، یہ تو بہاول پور روڈ پر مڑ گئی۔‘‘
کسی پیچھے کی نشست پر بیٹھے بیٹھے کسی آدمی نے اونچی آواز سے پوچھا، ’’کنڈیکٹر یہ بس کدھر جا رہی ہے؟‘‘ پھر کسی غصیلی آواز میں کہا، ’’کیا ڈرائیور کا دماغ چل گیا ہے؟‘‘ کنڈیکٹر نے سٹپٹا کر باہر جھانکا، پھر جواب دیےبغیر کسی قدر گھبراہٹ میں ایک عجلت کے ساتھ نیچے اتر گیا، کتبے والا آدمی بولتے بولتے چپ ہوگیا تھا اور اپنی نشست پر آ بیٹھا تھا۔ بس بہاول پور روڈ پر مڑی اور تھوڑی دور چل کر کھڑی ہوگئی، وہ پھر چونکا، ’’یار یہ کون سا بس سٹینڈ ہے؟‘‘ بیگ والے شخص نے باہر جھانک کر دیکھا، پھر کہا، ’’یہاں کوئی سٹینڈ نہیں ہے، پتہ نہیں کیوں کھڑی ہوگئی ہے۔‘‘
’’ڈرائیور کوئی نیا آدمی معلوم ہوتا ہے۔‘‘ کسی نے ٹکڑا لگایا۔ کنڈیکٹر سیڑھیاں چڑھ کر تیزی سے اوپر آیا، اعلان کیا، ’’گاڑی ریگل نہیں جائےگی جسے اترنا ہو اتر جائے۔‘‘
’’ریگل نہیں جائے گی؟‘‘ تعجب، پھر غصّہ ’’کیوں نہیں جائے گی۔‘‘
’’اُدھر گڑبڑ ہے جی۔۔۔ ریگل والے جلدی کریں، اُتر جائیں۔‘‘ گھبراہٹ کی ایک لہر پیدا ہوئی، چند سواریاں اٹھیں اور ہبڑد بڑ نیچے اتر گئیں۔
’’مگر سٹیشن تو جائے گی؟‘‘ بیگ والے شخص نے سوال کیا۔
’’سٹیشن جائے گی۔‘‘ آہستہ کہتے کہتے کنڈیکٹر کی آواز نے پھر اعلان کا رنگ اختیار کیا، ’’ سٹیشن والی سواریاں بیٹھی رہیں۔‘‘
اسے ڈر سا لگا، سوچا کہ بس تو ان دنوں بہت غیر محفوظ سواری ہے، یہاں اتر پڑو اور ٹیکسی کرکے آگے چلو، پھر اس نے تامل کیا، ظفر میرے بارے میں کیا سوچے گا، ظفر کے خیال سے اس نے اپنے خوف پر قابو پا لیا، اس نے مزید سوچا، گڑ بڑ تو ریگل کی طرف ہے۔ میں نے ریگل کا راستہ ہی چھوڑ دیا ہے، بس ڈرائیور نے عاقبت اندیشی دکھائی ہے، اس نے ڈرائیور کو اس کی عاقبت اندیشی پر دل ہی دل میں داد دی۔ پھر وہ دریچے سے باہر جھانکنے لگا۔ وہ دیر تک دریچے سے باہر دیکھتا رہا، کئی بار دریچے سے منہ نکال کر جھک کر نیچے دیکھا، پھر منہ اندر کرتے ہوئے بولا، ’’یار سمجھ میں نہیں آتا کہ بس کدھر جا رہی ہے اور ہم کدھر جا رہے ہیں۔‘‘
ظفر نے اسے جھڑکا، ’’تم کس چکر میں پڑے ہوئے ہو، بس کو سٹیشن پہنچنا ہے جس رستے بھی پہنچے بہر صورت پہنچ جائے گی۔‘‘ دوسری طرف کی نشست پر دریچے کے برابر بیٹھے ہوئے اس شخص نے جس نے بھینسیا رنگ کی ملگجی سی اچکن پہن رکھی تھی یہ سنا، سن کر دریچے سے باہر دیکھا اور تشویش کے ساتھ اونچی آواز میں سوال کیا، ’’کنڈیکٹر ہم کدھر جا رہے ہیں؟‘‘ کنڈیکٹر جواب میں دریچے سے باہر منہ نکال کر دیکھنے لگا، پھر منہ اندر کرتے ہوئے اطمینان بھرے لہجہ میں بولا، ’’ٹھیک جا رہے ہیں جی۔‘‘ اچکن والا آدمی مطمئن ہو بیٹھا، پھر برابر بیٹھے ہوئے، ثقہ صورت فرنچ کٹ ڈاڑھی والے شخص سے مخاطب ہوا، ’’صاحب کیا خیال ہے آپ کا، حالات بگڑتے ہی چلے جا رہے ہیں۔‘‘
ثقہ آدمی نے گمبھیر لہجہ میں کہا، ’’عزیز، حالات اس وقت بہت خراب ہیں۔‘‘ اگلی نشست پر بیٹھے ہوئے جوان العمر شخص نے جس نے عینک لگا رکھی تھی اور صاف ستھرا سوٹ پہن رکھا تھا، مڑ کر ثقہ آدمی کو دیکھا اور پھر سامنے دیکھنے لگا۔ اچکن والے آدمی نے تائیدی لہجے میں کہا، ’’صاحب میرا بھی یہی خیال ہے، اور کل ایک عجب واقعہ ہوا۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’صاحب عجب سا واقعہ ہے، کل میری ایک مرغی نے یکایک بالکل مرغ کی طرح بازو پھٹپھٹائے، گردن پھلائی اور بانگ دینی شروع کردی۔‘‘
بیگ والے آدمی نے چونک کر پوچھا، ’’مرغی نے؟‘‘
’’جی ہاں مرغی نے، میں نے فی الفور اس کی گردن پر چھری پھیر دی۔‘‘
’’حیرت کی بات ہے۔‘‘ بیگ والا بولا جیسے اسے یقین نہیں آرہا۔
’’حیرت کی بات ہے اور تشویش کی بھی، اللہ ہم سب پر رحم کرے۔‘‘ اچکن پوش نے ٹھنڈا سانس بھرا اور چپ ہوگیا۔ عینک والے آدمی نے ایک بار پھر مڑ کر دیکھا، غور سے اچکن پوش پر نظر کی اور ایک دھیمی سی مسکراہٹ کے ساتھ نظریں پھیرتے ہوئے اپنے رخ دیکھنے لگا۔ اچکن پوش کو عینک والے آدمی کا مسکرانا کچھ بھایا نہیں، ’’کیوں جناب آپ ان باتوں کو نہیں مانتے؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’آپ مت مانیں مگر ایسا ہوتا ہے، میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں، ہمارے تایا جان کی ایک خلیا ساس تھیں، وہ دلّی کی تھیں، کہا کرتی تھیں کہ قلعہ سے رمضان کے رمضان افطاری کے خوان جمعہ مسجد جایا کرتے تھے۔ اس برس بھی گئے مگر ایک شام کو کیا ہوا کہ خوان قلعہ سے باہر نکلے ہی تھے کہ جانے کس طرف سے چیلیں منڈلاتی آئیں، ایسا جھپٹا مارا کہ خوان اوندھے ہوگئے۔ کسی کی سمجھ میں نہ آیا کہ یہ ہوا کیا۔ اس شام مسجد میں افطاری تقسیم نہیں ہوئی، اسی رمضان میں عید سے پہلے پہلے دلّی میں قیامت برپا ہوگئی، پھر غدر مچ گئی، پھر کال پڑا ایسا کال۔۔۔ بس یہ سمجھ لو کہ زبردست کال پڑا تھا۔‘‘
ثقہ آدمی توجہ سے سنتا رہا پھر کہنے لگا، ’’ہاں عزیز یہ اشاراتِ غیبی ہوتے ہیں، قدرت رزق چھیننے سے پہلے کسی نہ کسی رنگ میں اشارہ ضرور کرتی ہے، اب کوئی سمجھے یا نہ سمجھے۔‘‘
بیگ والے آدمی نے جھر جھری لی، ’’جناب آپ کی اس بات پر مجھے اپنا ایک خواب یاد آگیا، جیسے میں اپنے صحن میں بیٹھا کھانا کھا رہا ہوں، تھالی میں روٹیاں رکھی ہیں، آپ کو یقین نہیں آئے گا، پیشاوری پراٹھے سے بڑی ر وٹیاں اور ایسی سفید جیسے میدے کی ہوں اور ایسی نرم جیسے لوچیاں۔ اتنے میں ایک موٹا سا بندر دیوار سے کودتا ہے، میرے سامنے سے ساری روٹیاں اٹھاتا ہے اور یہ جا وہ جا۔‘‘
اچکن پوش نے کچھ تعجب، کچھ افسوس سے پوچھا، ’’ساری روٹیاں؟‘‘
’’جی ساری روٹیاں۔‘‘ بیگ والے نے تاسف بھرے لہجہ میں کہا، ’’کوئی روٹی نہیں چھوڑی، تھالی خالی۔۔۔ اور جناب آپ کو شاید بات یہ عجیب سی نظر آئے مگر یہ واقعہ ہے کہ اس کے بعد میں پنپا نہیں، کاروبار پٹ ہوگیا، سارا اثاثہ غارت ہو گیا، یہ نوبت آگئی کہ موٹر بھی بک گئی، اب میں بس میں سفر کرتا ہوں۔‘‘
ثقہ آدمی نے کچھ سوچتے ہوئے سوال کیا، ’’یہ خواب تم نے کب دیکھا تھا؟‘‘
’’کوئی دس بارہ برس پہلے کی بات ہے، شاید اس سےبھی پہلے کی، یا شاید اس کے بعد کی۔‘‘
’’صدقہ دیا تھا؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’دے دینا چاہئے تھا۔‘‘
ثقہ آدمی کا لہجہ تشویش ناک تھا، بیگ والے شخص نے اس آدمی کی تشویش بھری صورت دیکھی اور سوچ میں پڑ گیا، اچکن پوش نے کہ غور سے سب کچھ سن رہا تھا، کہا، ’’بھائی جان، شاید آپ اس بات کو مبالغہ سمجھیں مگر اس میں بالکل مبالغہ نہیں ہے ایسی روٹی جو آپ بیان کر رہے ہیں ہم نے بچپن میں سچ مچ کھائی ہے مگر بھائی اب نہ ویسا گیہوں نہ ویسی روٹی۔‘‘
ثقہ شخص افسردہ لہجہ میں کہنے لگا، ’’صاحب خدا کی قدرت ہے، ہم ہی نے وہ زمانہ بھی گزارا ہے جب ایک روپے کے گیہوں کے لیے مزدور کرنا پڑتا تھا اور مزدور منڈی سے گھر تک آتے آتے پسینہ میں شرابور ہو جاتا تھا۔ ہم ہی یہ زمانہ دیکھ رہے ہیں کہ روپے کا آٹا خدا جھوٹ نہ بلوائے مٹھی میں آ جاتا ہے۔‘‘
بس کی رفتار اچانک بہت تیز ہو گئی، اس نے دریچے سے باہر دیکھتے دیکھتے بے چین ہوکر ظفر کو دیکھا، ’’یار ظفر، مارے گئے۔‘‘
’’کیوں کیا بات ہے؟‘‘
’’لگتا ہے کہ کوئی جلوس ہے۔‘‘
کنڈیکٹر نے اعلان کیا، ’’باشاؤ، اپنے اپنے سر اندر کر لو۔‘‘ جو جو آدمی گردن نکالے باہر دیکھ رہا تھا، اس نے گردن اندر کرلی، سب اس طرح سکڑ سمٹ گئے جیسے وہ پوٹلی بن گئے ہیں، عینک والا آدمی ہنوز سر نکالے باہر دیکھ رہا تھا۔ ثقہ شخص نے متانت سے کہا، ’’عزیز، سر اندر کرلو، اینٹ سر دیکھ کر آتی ہے۔‘‘ عینک والے آدمی نے قدرے توقف کے بعد، بغیر کسی عجلت کے آہستہ سے سر اندر کر لیا جیسے کسی کے کہنے پر نہیں بلکہ اپنے طور پر اس نے یہ اقدام کیا ہے۔
اس کا دل دھک دھک کرنے لگا تھا، اگر اینٹ میری طرف آئی تو؟ اس نے اپنی صورت ِ حال کا جائزہ لیا، دریچے کے برا بر میں بیٹھا ہوں، ظفر میری اوٹ میں ہے، تو گویا میں اینٹ کی زد میں ہوں، میں نے ہی بیٹھنے میں عجلت کی، جیسے ہم دونوں بس میں چڑھے تھے، مجھے چاہئے تھا کہ تھوڑے رسمی تکلف سے کام لیتا۔ اس صورت میں ظفر دریچے کے برابر ہوتا اور میں اس کی اوٹ میں ہوتا، اب میں دریچے کے قریب ہوں اور اینٹ کی زد میں ہوں، اور اینٹ نہ بھی لگے، یہ کمبخت شیشہ جب ٹوٹ کر بکھرے گا تو خونم خون کر دے گا۔
’’باشاؤ سر اندر کرلو، اے بھائی ٹوپی والے بابو، سر اندر۔‘‘ کنڈیکٹر نے پچھلی نشست پر کسی کو باہر جھانکتے دیکھا تھا اور تنبیہ کر رہا تھا۔ اس نے جھر جھری لی، ’’یار ظفر، عجب سی بات ہے۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’وہی زمانہ واپس آگیا۔‘‘
’’کون سا؟‘‘
’’ہماری سپیشل رات کے وقت مشرقی پنجاب سے گزری تھی، میں رات بھر سگریٹ نہیں پی سکا، ایک دفعہ ماچس جلائی تھی کہ ڈبے والوں نے شور مچایا، ماچس بجھاؤ، روشنی پر گولی آتی ہے۔‘‘
’’امتیاز، گھپلا مت کرو۔‘‘ ظفر نے کسی قدر سنجیدگی کے ساتھ کہا، ’’وہ قصہ اور تھا یہ قصہ اور ہے۔‘‘
’’کیسے؟‘‘
’’وہ ہندو مسلمان کا قصہ تھا۔‘‘
’’اور یہ؟‘‘
’’یہ پیدل سوار کا قصہ ہے۔‘‘
’’میں نہیں سمجھتا۔‘‘
’’سیدھی صاف بات ہے، اس وقت ہم بس میں سوار ہیں اور بالائی منزل میں بیٹھے ہیں اس لیے اینٹ کی زد میں ہیں۔‘‘
اس نے سوچا پھر کہا، ’’اگر میں اگلے بس سٹاپ پر اتر جاؤں پھر؟‘‘
’’پھر تم بھی اینٹ مار نے والوں میں ہوگے۔‘‘
’’ہرگز نہیں۔‘‘
’’تو پھر تماشائیوں میں ہوگے۔‘‘
وہ اس بات کا جواب دینے لگا تھا کہ بس دفعتاً رک گئی، وہ چونکا، ’’کیا بات ہوئی؟بس رک گئی۔‘‘
’’کوئی سٹاپ ہوگا۔‘‘ ظفر بولا۔
’’جب اپنے روٹ ہی پر نہیں چل رہی ہے تو سٹاپ پر رکنے کا کیا سوال ہے۔ اور یہ کہتے کہتے اس نے دریچے سے پوری گردن باہر نکال نیچے دیکھا، شاید سٹاپ ہی تھا، یا شاید کوئی سٹاپ نہیں تھا، ایک شخص دھوتی باندھے، میلا کرتا پہنے زور زور سے سیڑھیاں چڑھتا آیا اور قریب کی نشست پر بیٹھ گیا، بیٹھ کر بولا، ’’باؤجی، کون سا نمبر ہے یہ؟‘‘ ظفر نے اسے دیکھا اور کہا، ’’جب یہ بس چلی تھی تب تو اس کا ایک نمبر تھا اور وہ ہمیں معلوم تھا، اب پتہ نہیں کہ اس کا کیا نمبر ہے؟‘‘ وہ شخص اس جواب سے کچھ چکرایا، رکا، پھر سیدھا سوال کیا، ’’باغبانپورے جائے گی؟‘‘
’’اب یہ بس کسی بھی رخ جا سکتی ہے‘‘ ظفر کہنے لگا، ’’ہو سکتا ہے، یہ باغبانپورے ہی کی طرف نکل جائے۔‘‘ وہ شخص ان جوابوں سے کچھ شک میں پڑ گیا، کچھ سوچ کر ایکاایکی اٹھ کھڑا ہوا اور عین اس وقت جب کنڈیکٹر کی سیٹی بج چکی تھی، وہ تیزی سے سیڑھیاں اتر گیا۔
’’یار ظفر‘‘ اسے بھی اب بے چینی ہونے لگی، ’’ہم آج سٹیشن پہنچ بھی جائیں گے۔‘‘
’’کہیں نہ کہیں تو پہنچیں گے۔‘‘
ظفر کی یہ بات اس نے سنی اور جواب دیے بغیر کسی قدر فکر کے ساتھ دریچے سے باہر جھانکنے لگا، ’’پتہ نہیں بس کس کس راستے سے جا رہی ہے، کوئی بہت ہی آڑا ترچھا روٹ اختیار کیا ہے۔‘‘ رکا پھر بولا، ’’مجھے تو ایسا لگ رہا ہے کہ اس وقت اس بس کی کوئی سمت نہیں ہے، بس اندھا دھند چلے جا رہی ہے۔‘‘ ثقہ شخص نے یہ فقرہ سن کر کسی بے چارگی کے ساتھ کہا، ’’آج تو ہم ڈرائیور کے رحم و کرم پر ہیں۔‘‘ عینک والے نے تھوڑی برہمی سے کہا، ’’ڈرائیور کوئی نہایت غلط قسم کا آدمی معلوم ہوتا ہے۔‘‘
’’ارے صاحب میں اس ڈرائیور کو جانتا ہوں۔‘‘ اچکن پوش نے اپنی واقفیت عامہ کا ثبوت فراہم کیا، ’’یہ ڈرائیور کئی حادثے کر چکا ہے، کمال ہے اس کا کہ سواریوں کی ہڈیاں پسلیاں تڑوا ڈالتا ہے، خود صاف بچ نکلتا ہے۔‘‘ ثقہ شخص نے ٹھنڈا سانس بھرا، ’’غلط ڈرائیور سے ڈرنا چاہئے۔‘‘ عینک والے نے پھر اپنی برہمی کا اظہار کیا، ’’بہت ہی پھیر دے کر لیے جا رہا ہے۔‘‘ اچکن پوش بولا، ’’اماں، پھیر سے بھی پہنچ جائیں تو غنیمت سمجھنا۔‘‘ عینک والا بولا، ’’رستہ تو سیدھا تھا، بجائے اس طرف آنے کےمزنگ چونگی سے جیل روڈ پر مڑ جاتی، جیل روڈ سے ریس کورس روڈ، ریس کورس روڈ سے ڈیوس روڈ۔ ڈیوس روڈ سے نکل کر شملہ پہاڑی، شملہ پہاڑی سے سیدھی سٹیشن۔‘‘
بیگ والے آدمی نے عینک والے کو غور سے دیکھا پھر کہا، ’’بابو صاحب، سیدھے رستے اس وقت سب بند ہیں۔‘‘ ثقہ شخص نے اِردگرد دیکھا، ’’کنڈیکٹر کہاں گیا؟‘‘
’’کنڈیکٹر ابھی تو یہاں تھا، شاید نیچے اتر گیا ہے۔‘‘
’’کنڈیکٹر کو گولی ماروجی۔‘‘ اچکن پوش غصّہ سے بولا، ’’نیچے جاکے دیکھنا چاہئے کہ ڈرائیور بھی ہے یا نہیں، مجھے تو یوں لگتا ہے کہ بس اس وقت بغیر ڈرائیور کے چل رہی ہے۔‘‘
کتبے والے نے اچانک جھر جھری لی، کھڑا ہوا اور شروع ہو گیا، ’’مجھے اپنے مسلمان بھائی کی بات سن کر افسوس ہوا، بس کا چلنا بغیر ڈرائیور کے ناممکن، یہ کلمہ کفر ہے، مسلمانو کلمہ کفر سے احتراز کرو، مگر شاعر نے کیا خوب کہاہے۔
جہازِ عمرِ رواں پر سوار بیٹھے ہیں
سوار کاہے کو بے اختیار بیٹھے ہیں
مگرشاعر نے یہ بات کہاں سے لی، ایہا الناس! اے لوگو، تم ایسے او نٹوں پر سوار ہو جن کی باگیں تمہارے ہاتھوں میں نہیں، سوار اور اونٹ دونوں سو رہے ہیں اور چل رہے ہیں، بے سمت بے منزل، مگر مسلمانو! حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ تو نہیں سو سکتے تھے کیونکہ اونٹ کی پیٹھ ننگی تھی۔ مجھے اپنے مسلمان بھائی کی بات سن کر بہت افسوس ہوا۔
انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ چھنے ہوئے آٹے کی روٹی دیکھ کر کیوں روئے، ہاں کیوں روئے، میرا جواب، حضرت علی شیر خدا کے دستر خوان پر رکھی ہوئی، بھوسی کی روٹی، پھر کیا ہوا؟ صدیاں گزر گئیں انصاف مانگتے انصاف نہیں ملا۔ مجھے حضرت عمر ابن العزیز کے بعد، آج ہم کدھر جا رہے ہیں؟یہ میرا سوال ہے، مجھے جواب دو، سات پیسے کا کارڈ لکھ کر کیونکہ زبانی بحث میں جھگڑے کا ڈر ہے اور فساد منع ہے۔
از روئے اسلام، چھنے ہوئے آٹے کی روٹی، بھوسی کی روٹی، نانِ جویں، حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کرتا اور فرمایا اس جناب کا کہ کاش ایران اور عرب کے درمیان آگ کا پہاڑ حائل ہوتا۔ اور ٹکڑے کرنا ایرانی قالین کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا کہ نثار ہوں، ہماری تمہاری جانیں ان پر سے، اگر جانیں ہم تم میں باقی ہیں، مگر حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ داخل ہوئے دارالامارۃ میں تو روئے دیکھ کر دیبا و حریر کو۔ کیوں؟جواب دو مجھے سات پیسے کا کارڈ لکھ کر کہ زبانی بحث۔۔۔‘‘
سنتے سنتے وہ کسمسایا، ’’ظفر یار، اس شخص کی باتوں میں تمہیں کوئی ربط نظر آتا ہے؟‘‘
’’ربط آج کل کس کی باتوں میں نظر آتا ہے۔‘‘ ظفر لاپروائی سے بولا اور پھر اپنی پہلی سی دلچسپی کے ساتھ کتبے والے آدمی کی تقریر سننے لگا، ’’ہاں سات پیسے کا کارڈ لکھ کر کہ زبانی بحث میں جھگڑے کا کا ڈر ہے اور فساد منع ہے از روئے اسلام، جہالت کا عمل اور علم کو عمل اور عمل کا۔۔۔‘‘
ثقہ شخص نے کہ اپنی ہی سوچ میں گم تھا اچانک بیگ والے آدمی کو مخاطب کیا، ’’میرے عزیز ایک بات بتاؤ۔‘‘
’’جی۔ فرمائیے۔‘‘ بیگ والا آدمی ایک ساتھ مؤدب ہو بیٹھا۔
’’کچھ یاد ہے کہ وہ دن کون سا تھا؟‘‘
’’دن؟ کون سا دن؟‘‘ بیگ والا چکرایا۔
’’جب تم نے خواب دیکھا تھا۔‘‘
’’اچھا جب خواب دیکھا تھا۔‘‘ سوچا، سوچ کر بولا، ’’صاحب یہ تو اب مجھے یاد نہیں۔‘‘
’’وقت یاد ہے؟‘‘
’’نہیں صاحب، خاصہ ہی عرصہ ہوگیا اس بات کو، بس اتنا یاد ہے کہ وہ بہت موٹا بندر تھا، میں سہم گیا، اس نے ساری روٹیاں سمیٹیں اور غائب، پھر میری آنکھ کھل گئی۔‘‘
ثقہ شخص سوچ میں پڑ گیا، بیگ والا آدمی جواب کے انتظار میں اسے تکتا رہا، پھر جب کچھ جواب نہ آیا تو کہنے لگا، ’’ویسے صاحب عجیب بات ہے، میں خواب میں بندر بہت دیکھتا ہوں اور عجیب عجیب صورتوں میں دیکھتا ہوں، ایک دفعہ میں نے خواب میں دیکھا کہ جیسے کارخانہ ہے، کارخانے میں بہت سا ریشم ہے اور بندر ہیں۔‘‘
’’جی کیا کہاریشم اور بندر؟‘‘ اچکن پوش نے بہت تعجب سے ٹوکا۔
’’جی ہاں۔‘‘ بیگ والا بولا، ’’یہی تو مجھے تعجب ہورہا تھا کہ کارخانے میں ریشم ہی ریشم اور بندر، جیسے ہر بندر نے ریشم کی ایک ایک گچھی لے رکھی ہے اور دانتوں سے جیسے اسے سلجھانے کی کوشش کر رہا ہےاور جیسے میں کہہ رہا ہوں کہ یہ کیا سلجھائیں گے، یہ تو ریشم برباد کر رہے ہیں، ایک بندر نے ریشم دانتوں سے کاٹتے کاٹتے میری طرف غرّا کے دیکھا جیسے اب مجھ پر لپکا، میں بھاگا۔۔۔ اور بندر میرے پیچھے پیچھے۔۔۔ بس ایک ساتھ میری آنکھ کھل گئی۔‘‘
’’آنکھ کھل گئی؟‘‘ اچکن پوش نے ایسے افسوس کے ساتھ پوچھا جیسے اچھی بھلی فلم چلتے چلتے اچانک ریل کٹ جائے۔
’’ہاں بس پھر میری آنکھ کھل گئی۔‘‘ بیگ والے نے پھر اپنی بات دہرائی، اورچپ ہو گیا۔
اچکن پوش کچھ سوچتا رہا، پھر ہنسا، ’’ویسے صاحب، یہ بندر بھی عجیب جانور ہوتا ہے، یہاں تو خیر ہوتا نہیں، مگر ہم نے اسے ہندوستان میں دیکھا ہے کہ۔۔۔‘‘ بیگ والے نے فوراً بات کاٹی، ’’کیا فرمایا، پاکستان میں بندر نہیں ہوتے۔‘‘ ثقہ شخص کو خطاب کرتے کرتے ہنسا، ’’صاحب آپ سن رہے ہیں۔‘‘ ثقہ شخص نے غور سے اچکن پوش کو دیکھا، بیگ والا آدمی زور زور سے ہنس رہا تھا، ’’صاحب آپ کہاں کے رہنے والے ہیں؟‘‘
اچکن پوش بہت کھسیانا ہوا، کچھ جواب دینے کی بجائے کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔ ثقہ شخص نے کہ جواب سنتے سنتے کسی سوچ میں پڑ گیا تھا، سر اٹھایا، کہا، ’’کچھ یاد ہے یہ خواب آپ نےکب دیکھا تھا؟‘‘ بیگ والا آدمی ذہن پر زور ڈال کر کچھ یاد کرنے کی کوشش کرنے لگا، پھر افسوس کے لہجے میں بولا، ’’صاحب یہی تو میرے ساتھ خرابی ہے، خواب بالکل ذہن سے اتر جاتاہے، پھر یونہی بلاوجہ، بلا سبب کسی وقت یاد آجاتا ہے۔ مگر پورا کہاں یاد آتا ہے، یہی کوئی یہاں کی بات کوئی وہاں کی بات، اورکب دیکھا تھا، یہ تو بالکل ہی یاد نہیں آتا۔۔۔‘‘
ثقہ شخص نے بہت سنجیدگی سے کہا، ’’یہ بری بات ہے، خواب یاد رکھنا چاہئے۔‘‘
’’ہاں یاد رکھنا چاہئے۔‘‘ بیگ والے آدمی نے کسی قدراحساس ندامت کے ساتھ کہا، چپ ہوا، پھر بولا، ’’ ویسے صاحب بندر کو خواب میں دیکھنا کیسا ہے؟‘‘
’’بندر کو خواب میں دیکھنا۔۔۔‘‘ ثقہ شخص نے تامل کیا، وہ آگے کچھ کہنے لگا تھا کہ اچکن پوش نے باہر دیکھتے دیکھتے اچانک اندر کی طرف دیکھا۔ چہرے پر تشویش کے آثار، آواز گھبرائی ہوئی، ’’اس بس کے تو سب شیشے ٹوٹے ہوئے تھے۔‘‘
’’جی؟‘‘ سب نے گھبراکر اچکن پوش کو دیکھا۔
’’جی ہاں سب شیشے ٹوٹے ہوئے تھے۔‘‘
ثقہ شخص نے تحمل سے پوچھا، ’’بھائی تم کون سی بس کی بات کر رہے ہو۔‘‘
’’یہی ڈبل ڈیکر جو ابھی گزری ہے، خالی پڑی تھی اور سب شیشے چکنا چور تھے۔‘‘
’’اس کا مطلب یہ ہے کہ۔۔۔‘‘ بیگ والا آدمی تشویش سے بولا، ’’آگے گڑ بڑ ہے۔‘‘
ثقہ شخص نے دکھی لہجہ میں کہا، ’’سمجھ میں نہیں آتا کہ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے۔‘‘
عینک والے آدمی نے پلٹ کر ثقہ شخص کو دیکھا اور برہمی سے کہا، ’’کیا فرمایا؟لوگوں کو کیا ہوگیا ہے؟‘‘
ثقہ شخص آہستہ سے بولا، ’’ہاں لوگوں کو ہی کہا جائے گا اور کس کو کیا کہا جائے۔‘‘
’’لوگوں کو؟‘‘ عینک والاآدمی غصے سے کانپنے لگا، ’’لوگوں کو کیوں کہا جائے۔ آپ کو پتہ ہے آج صبح کیا ہوا ہے؟‘‘
’’آج صبح؟‘‘ بیگ والے آدمی نے تعجب سے پوچھا۔
’’ہاں آج صبح میں خود وہاں موجود تھا۔‘‘ یہ کہتے کہتے عینک والے آدمی نے یوں جھر جھری لی جیسے کوئی عجب سا منظر اس کی آنکھوں کے سامنے پھر گیا ہے، پھر وہ دانتوں میں ہونٹ چباتے ہوئے بڑ بڑایا، ’’حرام زادے۔‘‘ اور چپ ہوگیا۔ تھوڑی دیر کے لیے سب ہی چپ ہوگئے، پھر بیگ والے آدمی نے برابر والے سے دبی سی آواز میں پوچھا، ’’صبح کیا ہوا تھا؟‘‘
’’پتہ نہیں صاحب میں تو ابھی گھر سے نکلا ہوں۔‘‘
اچکن پوش بڑ بڑانے لگا، ’’عجب زمانہ ہے، صبح کچھ، دوپہرکچھ، شام کچھ، عقل حیران ہے کہ ہو کیا رہا ہے۔‘‘ ثقہ شخص نے افسردگی کا لہجہ اختیار کیا، بولے، ’’بہر حال حالات اچھے نہیں ہیں۔‘‘ اس فقرے نے اس مرتبہ عجب اثر کیا، بس ایک تشویش بھری خاموشی چھا گئی۔ اچکن پوش، بیگ والا آدمی، خود عینک والا غرض سب چپ ہو گئے۔
اس نے باری باری سب چہروں کو دیکھا، چہرے دفعتاً عجب سے ہو گئے تھے جیسے انہیں کسی بڑے خوف نے آ لیا ہو، بس ایک شور کے ساتھ دوڑے چلی جا رہی تھی، اور اب اسے احساس ہوا کہ بس چلتے ہوئے کتنا شور کرتی ہے، اس وقت اس کی خواہش یہ تھی کہ بس کی رفتار دھیمی ہوجائے۔ اس کی تیز پُر شور رفتار اسے خواہ مخواہ ڈرا رہی تھی، پھر اسے اس ڈبل ڈیکر کا خیال آیا، جو ابھی مقابل سے آتی ہوئی برابر سے گزری تھی۔ کیا واقعی اس کے شیشے ٹوٹے ہوئے تھے؟اصل میں ڈبل ڈیکر جب گزر رہی تھی وہ اندر بیگ والے آدمی کو دیکھ رہا تھا اور حیران ہو رہا تھا کہ آخر اتنی ہنسی کی کون سی بات ہوئی جو وہ یوں ہنسے جا رہا ہے۔ گزرتی ہوئی بس پر اس کی نظر ضرور پڑی تھی مگر چھچھلتی سی نظر، اگر اس بس کے شیشے واقعی ٹوٹے ہوئے تھے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آگے۔۔۔ اور یہ سوچتے سوچتے اس نے ایک بار پھر بڑی بے چینی سے اپنی صورتِ حال کا جائزہ لیا۔ میں تو دریچے کے برابر بیٹھا ہوں، بالکل اینٹ کی زد میں ہوں۔
’’مسلمانو! مبادا میرا سوال یاد نہ رہے۔‘‘ کتبے والا آدمی پھر شروع ہوگیا تھا، ’’مبادا تم نے میرا سوال اخباروں میں نہ پڑھا ہو کیونکہ اخبار والوں نے، یہاں کوئی اخبار والا آدمی ہو تو مجھے معاف کر دے، اخبار والوں نے اسی روز یہود نواز جانسن کی تصویر پہلے صفحہ پر چھاپی مگر میرا سوال اندر کے اس صفحہ پر جہاں منڈیوں کے بھاؤ چھپتے ہیں، ضرورت رشتہ کے اشتہار کے نیچے شائع کیا۔ فاعتبروا یا اولیٰ الابصار، مگر مجھے اخبار والوں سے کوئی گلہ نہیں ہے، گلہ کیوں ہو، حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں تو کوئی اخبار نہیں تھا۔ بس مسجد نبوی تھی، تو میں نے اپنا سوال الگ چھپوا لیا ہے، آپ یہ اشتہار گھر لے جا کر غور سے پڑھیں۔‘‘ یہ کہتے کہتے کتبے والے آدمی نے اپنی نشست پر رکھا ہوا ٹاٹ کا تھیلا اٹھا، اس میں سے اشتہاروں کا ایک پلندہ نکالا، ’’تو اہلِ اسلام میرا سوال غور سے پڑھیں اور سات پیسے کے کارڈ پر جواب لکھ بھیجیں کیونکہ زبانی بحث میں جھگڑے کا ڈر ہے اور۔۔۔‘‘
ایک اینٹ اچانک اس کے اور ظفر کے پیچھے والی سیٹ پر شیشے پر آکر پڑی۔ شیشہ ایک تیز شور کے ساتھ چکنا چور ہوکر بکھر گیا اور اس نے بجلی کی سی سرعت کے ساتھ اپنے آپ کو سمیٹ، سر ظفر کی کمر اور نشست کی پشت کے درمیان ٹھونس لیا۔ پھر اسے کچھ پتہ نہ رہا کہ کہاں کیا ہو رہا ہے، ہاں اس نے اسی طرح آنکھیں بند کیے ظفر کی کمر اور نشست کی پشت کے درمیان منہ ٹھونسے محسوس کیا کہ بس ایک جھٹکے کے ساتھ رک گئی ہے۔ اور لوگ ہبڑ و دبڑ سیڑھیوں سے اتر رہے ہیں، لوگ ہبڑ دبڑ اتر رہے تھے اور دل اس کا دھڑ دھڑ کر رہا تھا، بس ٹھہر گئی تھی اور وقت بھی۔
ظفر نے اسے ٹہوکا اور اس نے سر اٹھایا، جانے کتنی دیر کے بعد، مگر یہ کہ بس اب چل پڑی تھی، اس نے اِرد گرد، آگے پیچھے نظر ڈالی، اس طرف سے اس طرف تک سب نشستیں خالی پڑی تھیں۔ اس کی نشست کے آس پاس شیشے کے کچھ بڑے بڑے ٹکڑے اور بہت سی کرچیاں بکھری پڑی تھیں، ہاں کتبے والا آدمی اپنی نشست کا سہارا لیے بت بنا کھڑا تھا۔ اس کتبہ، اس کے اشتہار نیچے گرے پڑے تھے، کتبے والا آدمی جھکا، احتیاط سے اشتہار بٹورے، انہیں درست کرکے تھیلے میں رکھا، پھر تھیلا نشست پر اپنے برابر رکھ اور کتبہ ہاتھ تھام، خاموش بیٹھ گیا، اب پھر کتبہ اپنے جلی حروف کے ساتھ اس کے اور ظفر کے بالمقابل تھا، ’’میرا نصب العین۔۔۔ مسلمان حکومت کے پیچھے جمعہ ادا کرنا۔‘‘
رفتہ رفتہ اس کا حوصلہ بحال ہوا، اس نے پھر باہر جھانک کر دیکھا، سڑک دور تک خالی پڑی تھی، کبھی کبھار گزرتی، شور کرتی، رکشا، کوئی سٹ پٹ کرتا تیزی سے گزرتا پیدل آدمی، جابجا بکھری ہوئی اینٹیں، کہیں کہیں پڑے ہوئے شکستہ شیشے، نظروں کے سامنے گزرتا ہوا سٹاپ، سٹاپ بے آدم، سائبان خالی، نہ کوئی برقعہ پوش عورت، نہ کوئی اونگھتا ہوا بوڑھا۔ سامنے ساری سڑک پر اینٹیں بکھری پڑتی تھیں اور ایک گرے ہوئے بڑے سے سائن بورڈ سے ہلکا ہلکا دھواں اٹھ رہا تھا، اسے لگا کہ گاڑی کسی دور دراز کے ویران سنسان سٹیشن سے گزر رہی ہے۔
’’یار ظفر ہم سٹیشن ہی کی طرف جا رہے ہیں؟‘‘
’’کچھ پتہ نہیں چل رہا۔‘‘ اب ظفر کے لہجے میں بھی تشویش کا رنگ پیدا ہو چلا تھا۔ آگے کی نشست پر کتبے والا آدمی بے حِس و حرکت بیٹھا تھا اور اس کاکتبہ اسی طرح اپنے جلی حروف کے ساتھ اس کے اور ظفر کے بالمقابل تھا، ’’میرا نصب العین۔۔۔ مسلمان حکومت کے پیچھے جمعہ ادا کرنا۔‘‘
اس نے پھر ظفر کو ٹٹولا، ’’یار ظفر؟‘‘
’’ہوں!‘‘
’’ہم سلامت نکل جائیں گے؟‘‘
ظفر سوچ میں پڑ گیا، پھر لمبے تامل کے بعد بولا، ’’کیا کہا جا سکتا ہے۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.