Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دوسرے دکھ

حمید قیصر

دوسرے دکھ

حمید قیصر

MORE BYحمید قیصر

    جب میں تمہارے خط کا جواب لکھنے بیٹھاتو دیر تلک یہ سوچتا رہا کہ کہاں سے شروع کروں اور کیا لکھوں؟ جانے کتنا وقت بیت گیا، احساس نہ رہا کہ اچانک دم توڑتی شب کے سینے پر اک دھماکہ ہوا، ایک اور دھماکہ اور پھر ایک اور۔۔۔ تو کھلا کہ آج 23 مارچ ہے۔۔۔ نیند کے متوالوں کو آج صبح سے ذرا پہلے صبح آزادی کا پیغام دیا جا رہا ہے۔۔۔ انہیں وہ لمحہ یا د دلایا جارہا ہے۔ جب قرار دادِ پاکستان پیش ہوئی تھی اور جس کی بنیاد پر ایک پاک دھرتی کا وجود دُنیا کے نقشے پر ابھرا اور پاکستان نام پایا۔۔۔ فضا میں اکیس توپوں کی سلامی ہو رہی تھی اور میرا وجود بےاختیار ہو کر اپنے مالکِ حقیقی کے سامنے سربسجود ہوتا چلا گیا۔ میرے ذہن کے سوئے ہوئے سرد خانے جاگ اٹھے ہیں۔۔۔ اور منجمد برف پگھلنے لگی ہے۔۔۔ پھر آہستہ آہستہ حرف اترنے لگے اور اب میں لکھنے لگا ہوں۔۔۔

    ’’رات بھر بارش ہوتی رہی ہے اور میں اس آزاد دھرتی کی آزاد فضا میں اپنے چھوٹے سے بالائی کمرے کی روشنیاں گل کئے۔۔۔ ڈھیروں کتابوں کے درمیان محوِ خواب رہا ہوں۔ سحری کے لیے اٹھا تو پھر سونے کو دل نہ چاہا اور جی چاہا کہ تمہیں خط لکھوں۔۔۔‘‘ اکیس توپوں کی سلامی نے میرے حُب الوطنی کے جذبات اور خیالات کو زبان دے دی ہے اور میں نے آزادی کی نعمت سے مسرور ومعمور ہوکر سجدۂ شکر ادا کیا۔ آزادی کا احساس بھی ایک انمول خزانہ ہے، جانے کتنی دیر میں یو نہی سرشار رہتا کہ باہر پرندوں کے چہچہے نے دستک بن کر مجھے سردی کے باوجود کھڑکیوں کے پٹ کھولنے پر مجبور کر دیا۔۔۔ بارش تھم چکی تھی۔۔۔ پرندے آزاد۔۔۔ میں آزاد، اس دھرتی کا ہر ذی روح آزاد۔۔۔یہ محسوس کر کے میرے جسم کا رواں رواں جاگ اٹھا۔۔۔ کھڑکی سے باہر نور ہی نور ہے۔ رنگ ہی رنگ ہیں۔۔۔ پرندوں کی مترنم اور میٹھی آوازیں کانوں میں رس گھول رہی ہیں۔ بارش میں ساری دھرتی دھلی دھلی اور نکھری نکھری ہے۔۔۔ کائنات کے مالک نے کائنات کی تمام آلائشوں کو دھو ڈالا ہے۔ شاید آج نئے دن کا آغاز ہے۔ بارش کل صبح سے وقفے وقفے کے ساتھ جاری ہے۔۔۔ رات تو شاید رکی ہی نہیں لیکن دھرتی کے بیٹوں نے بھیگی فضا میں کھلے آسمان تلے دھرتی ماں کو توپوں کی سلامی دی تو ان کا عز م و استقلال دیکھ کر دھرتی کے خالق نے اشارہ کیا اور بارش تھم گئی، بارش ہو آندھی یا طوفان ہو، دھرتی کے رکھوالوں نے تو اپنا فرض نبھانا ہوتا ہے۔ پچھلے برس بھی بارش ان کا کچھ نہ بگاڑ سکی اور آج بھی ایک گھنٹہ بعد انہوں نے پریڈ کرنا ہے اور دشمن کو یہ باور کرانا ہے کہ ہم قطعی غافل اور کم زور نہیں، شاید تمہیں کوئی گمانِ غلط ہو، اس دھرتی کی طرف اپنی نظر نہ کرنا ورنہ رونددیئے جاؤگے، کچل دیئے جاؤ گے‘‘۔۔۔’’ہاں تو میں کہہ رہا تھا۔۔۔ کہ فضا دھلی دھلی ہے، کمرے میں خاموشی ہے، صرف کاغذ کی سرسراہٹ اور وال کلاک کی ٹِک ٹِک ہے۔۔۔ اور میں ہوں۔

    باہر پرندوں کی بولیاں ان کی نرم خو آوازیں صبح دم بہار کی آمد کا بھی اعلان کر رہی ہیں۔۔۔ تم نے کوئٹہ کی بہار کا لکھا ہے، اب میں یہاں کی بہار کا کیا لکھوں؟ خالق کائنات نے اتنے رنگ بکھیرے ہیں کہ ان کا شمار ناممکن ہو گیا ہے۔۔۔ اب میں باہر ٹیرس پر آ گیا ہوں کہ قدرت کے کرشموں کا نظارہ کر سکوں۔ جنگلے پر ہاتھ رکھا تو بوگن ویلیا کے لمس نے اپنی موجودگی اور تازگی کا احساس دلایا، جس کے لہو رنگ پھولوں پر بارش کے قطرے ذرا سا ہاتھ لگنے پر غیر محسوس انداز میں فضا میں تحلیل ہو گئے، بارش نے ان پر شب خون مارا اور اب ان کی زندگی چند لمحوں تک محدود ہے۔ سامنے ہوا سفیدے کے درختوں پر جھولا جھول رہی ہے، دائیں جانب ہائی سکول کا بڑا گراؤنڈ ہے جس پر زندگی کی امنگوں سے سرشار نوجوان چہل قدمی اور جسمانی ورزشوں میں مصروف ہیں۔ ایک طرف دو چار آوارہ کتے، اٹھکیلیاں کرتے پھر رہے ہیں، فٹ پاتھ پر ایک عمر رسیدہ جوڑا خاموشی سے چہل قدمی کرتا ہوا چلا آ رہا ہے۔ شاید ان کے ہاں بھی زندگی کی رمق ابھی باقی ہے، مگر جانے کتنے برس اور؟ سڑک پر اکا دکا گاڑی یا موٹر سائیکل گزر جاتی ہے۔ آج تعطیل ہے مگر زندگی تو آج بھی ہے، کل سے زیادہ متحرک اور مصروف، بہار اور عید کی آمد آمد ہے، دونوں خوشیاں ایک ساتھ، بظاہر پرندے خوش، انسان خوش۔۔۔ مگر کہاں خوش؟ اندر خوش ہو تو سارا جہاں خوش لگتا ہے لیکن ذرا ٹٹولو، تو کہا ں کی خوشی۔۔۔ کہاں کی بہار؟؟ اس پار سبزہ زار کی طرف نگاہ جاتی ہے تو دل مسوس کر رہ جاتا ہوں، پوش سیکٹر کے اس طرف ایک نشیب ہے، سینکڑوں غریبوں اور کمیوں کی بستی جو پت جھڑ کے بعد اچانک ننگی ہو گئی ہے، جہاں شب و روز کی بارش کے بعد کچے مکان گر گئے ہیں۔ نشیب میں بہتی گندے پانی کی ندی ان کے گھروں میں گھس گئی ہے۔ ان کا قیمتی اثاثہ، ان کا ساز و سامان اپنے ساتھ بہا لے گئی ہے لیکن یہ غریب انسان، آسمان کی جانب دیکھ کر خاموش ہیں، مالک کی رضا پر راضی اور اپنے گھر وں کے بکھرے شیرازے کو پھر سے سمیٹنے میں مصروف ہیں۔۔۔ میرا جی چاہ رہا ہے، میں بھی گھر سے نکلوں اور ان کی مدد کروں اور نہیں تو ان کے ننگ دھڑنگ روتے کالے بچوں کو اٹھا لوں، انہیں پیار کروں، لیکن ناں ناں۔۔۔ دنیا کیا کہے گی اور پھر میرا اسٹیٹس کہاں جائےگا، یہ تو کمی کمین ہیں ان کا کیا آج یہاں تو کل وہاں۔۔۔ لیکن میرے تو اسٹیٹس کا مسئلہ ہے، میں نے تو اسی شان دار گھر، صاف ستھرے ماحول میں سفید کپڑے پہن کر جینا ہے، زندگی بسر کرناہے، اسی بناوٹ و تصنع کے ساتھ، میں بھلا اپنے ہاتھ، پاؤں کیچڑ میں لت پت کیوں کروں؟ ہاں اب میں سمجھا شاید یہی خود غرضی ہے ،جو انسان کو اپنے جیسے انسانوں سے لمحہ بہ لمحہ دور کرتی جاتی ہے۔ ہر کوئی اپنی اپنی زندگی جی رہا ہے۔۔۔ کوئی کسی کے دکھوں کا حصہ دار نہیں بننا چاہتا، ہم اپنے مذہب سے دور ہو چکے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہم نفرتوں کا شکار ہو کر فرقوں، ذاتوں اور برادریوں میں بٹ گئے ہیں، اشرف المخلوقات ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں، اللہ نے تو ہمیں ایک جیسا پیدا کیا تھا، پھر یہ تمیز کیسی؟

    اب تم ہی بتاؤ عالیہ! میں تمہیں یہاں کی بہار کا کیا احوال لکھوں؟ یہاں کی مخمل میں ٹاٹ کے پیوند جو لگے ہیں، میں انہیں کیسے چھپاؤں؟ میں اس حقیقت سے صرف نظر کیسے کروں؟ تمہیں اچھا لگے یا نہ لگے لیکن میں بہار کی خوب صورتیوں کے ساتھ خزاں کی دی ہوئی بد صورتیوں کا تذکرہ کئے بنا نہیں رہ سکتا۔ میں اب کی بہار سے ذرا پہلے بائیں طرف نشیب میں اس سبزہ زار کے درمیان بہتی ندی کے مترنم پانی کا جل ترنگ سنا کرتا تھا، جہاں سے ٹیرس پر کھڑے، چائے پیتے ہوئے کبھی کبھی پاس کے شفاف چشمے سے الہڑ ناروں کے پانی بھرنے اور آپس میں چہلیں کرنے کی آوازیں سنا کرتا تھا لیکن سمجھ نہ پاتا تھا کہ ماجرا کیا ہے؟ لیکن پھر ہوتے ہوتے خزاں آئی، سبز گھنے درختوں کے پتے تیز دھوپ نے چاٹ لئے، وہ سبز سے پیلے ہوئے اور پھر ہوا انہیں اڑا لے گئی، یوں دیکھتے ہی دیکھتے یہ پوشیدہ بستی چیتھڑا چیتھڑا ننگی ہو گئی، خزاں نے عجب ظلم ڈھایا کہ وہ سب کچھ جو نظروں سے اوجھل تھا، اب پوری طرح بےنقاب ہو چکا ہے، مخمل میں قدرت کا لگایا ہوا ٹاٹ کا وہ پیوند جو کسی کو نظر نہ آتا تھا اب صاف دکھنے لگا ہے۔ اب اس کی اور تفصیل کیا لکھوں دوسری محبت کا یہ بوجھل خط اور بوجھل ہو جائےگا۔ تم پھر سے رو دوگی۔۔۔ میں ہر گز ایسا نہیں چاہتا کہ تم مزید روؤ! میں پہلے ہی بہت دکھی ہوں کہ میرے افسانے نے تمہیں بہت رلایا۔ یہ فطری بات ہے کہ ہم زندگی کے حقائق کا سامنا کرتے ہوئے کبھی ہنستے ہیں تو کبھی روتے ہیں۔ میں تمہارے احساسات و جذبات کو اچھی طرح جانتا ہوں کہ میرا اور تمہارا سٹار ایک ہے۔ میری سال گرہ کا دن بھی گزرے زیادہ دن نہیں ہوئے، مارچ کا وہ دن بڑی خامشی سے گزرا، نہ اس کے آنے کی خبر ہوئی اور نہ جانے کی، اس روز صبح ایک سرکاری خط پر دست خط کرتے ہوئے تاریخ ڈالی تو مارچ کی وہ تاریخ کچھ مانوس سی لگی، غور کیا تو یادآیا کہ آج تو میرا جنم دن ہے۔ میں نے ٹھیک چالیس سال پہلے آج کے روز آنکھ کھولی تھی۔ چندھیاتی آنکھوں سے روشنی کو دیکھا تھا تو رو دیا تھا۔ جنم دینے والی ماں تو بہت پہلے میری اڑانوں کے خواب دیکھتے دکھاتے، منوں مٹی تلے جا سوئی اور مجھے تنہا چھوڑ گئی۔۔۔ کمال کی عورت تھی، اتنے بڑے خواب دیکھے اور ان کی تعبیر دیکھنے کے لیے زندگی کے دن چار لائی تھی بے بس اور بےچاری ماں! جو اپنوں کے دیئے ہوئے دکھوں سے نجات کے لیے اپنے بچوں کے بڑے ہونے کا انتظار کیا کرتی تھی میرا مجید بڑا ہوگا۔ میرا مجید پائلٹ بنےگا اور پھر ایک تپتی دوپہر خود ہی خاموشی سے کوچ کر گئی۔

    ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ایک سائن کرتے ہوئے سال گرہ کا دن یاد آیا، شام کو سو پچاس کا ایک کیک خریدا افطاری کے بعد نہایت خاموشی سے گھر والوں نے اپنے اپنے الفاظ میں سال گرہ کی مبارک باد دی لیکن کسی لفظ اور کسی بھی جملے نے دل کے تاروں کو نہ چھوا، ایک تخلیق کار کا یہی المیہ ہے، یہی اثاثہ ہے جو رب نے مجھے بخشا ہے اور شاید یہی سال گرہ کا تحفہ بھی! کہ ایک لکھنے والے کو ہروقت مہمیز درکار ہے جس کے طفیل تخلیق جنم لیتی ہے، جسے پڑھ کر تجھ جیسا بے لوث اور پیارا دوست بےاختیار رو دیتا ہے۔ میرا خیال ہے میں نے تمہیں بہت بور کیا، مجھے ڈر ہے تم مجھے آئندہ خط نہیں لکھوگی۔۔۔ کیونکہ تم نے اپنے خط میں جو کچھ پوچھا تھا ان باتوں کا جواب تو میرے خط میں عنقا ہے۔ مجھے اقرار ہے کہ میں محبت نامہ نہیں لکھ سکتا۔ میں بے بس ہوں اور مجبور بھی کہ بہار اور ملن رت میں ’’اس معلوم ‘‘کا کیا کروں؟ جو ذہن کی سکرین پہ برف کی مانند جم گیا ہے۔ جہاں سے آگے دیکھنا ناممکن ہے۔ ’’معلوم ‘‘ کے کڑوے نوالے نگلے بغیر بات نہیں بنتی اور انہیں اگل دینا میرے لئے محال ہے۔ میں تو کہتا ہوں کہ تم بھی۔۔۔ سرابوں کے پیچھے بھاگنا چھوڑ دو۔۔۔ ہر شے کو جاگتی آنکھ سے دیکھ کر سچ کی کسوٹی پر پرکھنا شروع کر دو۔۔۔ پھر تمہیں بھی بہت کچھ ’’معلوم‘‘ ہو جائےگا، جو ابھی نامعلوم ہے۔ کائنات کی سفید مخملیں چادر پر خالق کے لگائے ہوئے ٹاٹ کے کئی پیوند نظر آ جائیں گے۔ ممکن ہے یہ پیوند تمہاری آنکھ میں نہ جچیں لیکن میں جانتا ہوں کہ دراصل یہی کائنات کا حسن ہیں۔ تم بھی ان حقائق کا ادراک کرنا سیکھ لو، شانت ہو جاؤگی۔ تم ایک لڑکی ہو اور وہ جو برسوں سے ان دیکھے ساجن کی آس لگائے، بنا جہیز کے پیا دیس سدھارنے کی آس لگائے چاندی ہوئی جاتی ہیں وہ بھی لڑکیاں ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کائنات کی اس چادر پر تم مخمل ہو اوروہ ٹاٹ کا پیوند۔۔۔ رہا میں، تو میں اب تمہیں دھوکے میں نہیں رکھنا چاہتا۔۔۔ مجھے یہ بھی اقرار ہے کہ میں تم سے محبت کرتا ہوں۔ مگر یہ جو پیوند ہیں ناں! یہ مخمل اور کم خواب کا ملاپ کبھی نہ ہونے دیں گے۔ یہ زندگی ایسی ہی ہے۔۔۔ شطرنج کی بساط۔۔۔ اور ہم طرح طرح کے مہرے۔۔۔ طرح طرح کے سوار۔۔۔ اور ان سواروں کی باگیں کسی اور کے ہاتھ میں ہیں۔۔۔ اس لیے میری جان! یہ زندگی ایسی ہی ہے۔۔۔ اس کا منتظم اعلیٰ میں نہیں، تم نہیں۔۔۔ وہ خالق کائنات ہے ہم جس کی کائنات میں اختیار ہوتے ہوئے بھی بے اختیار ہیں، اس لئے۔۔۔عالیہ اگر ہو سکے تو مجھے معاف کر دینا!!۔۔۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے