لالی کے ناتواں کندھے بڑے بڑے ٹو کرانما پنجروں میں پرندوں کا بوجھ اٹھائے اٹھائے شل اور ٹانگیں تھک کر چور ہو گئی تھیں۔ اب اس کے لیے مزید چلتے رہنا دشوار ہو رہا تھا۔ اوپر سے پریشانی یہ کھائے جارہی تھی کہ سورج سر پر آگیا اوراب تک بونی بھی نہ ہوپائی تھی۔ اگربونی بھی نہ ہوپائی تو دوپہر کا کھانا کہاں سے کھائے گا اور اگر سارا دن یونہی گزر گیا تو رات کو طورے خان کے غیض و غضب کا سامنا کون کرےگا؟ یہ سب سوچ کر وہ چارو ناچار کالج روڈسے نکلا اور تاج کمپنی والے بڑے بتی چوک کو راجہ بازار کی سمت کراس کر کے دال چاول والی ریڑھی کے قریب فٹ پاتھ پر نڈھال ہوکر بیٹھ گیا۔ سخت گرمی اورحبس کی وجہ سے پنجروں میں قید پرندے بھی بے حال ہو رہے تھے۔ پیاس کے مارے ان کی زبانیں لٹک کر گز گز بھر کی ہو رہی تھیں۔ دال چاول کی ریڑھی سے اٹھتی اشتہا انگیز مہک نے لالی کے قدم جیسے جکڑ لیے تھے۔ تب اس نے فٹ پاتھ پر ڈیرے ڈال دیئے۔ تھوڑی دیر سانس بحال کرنے کے بعد قریبی نل سے دونوں پنجروں میں پرندوں کے لیے مٹی کی ڈولیوں میں پانی بھرا اور پھر اپنے خالی پیٹ کوبھی رزق کی آس میں پانی سے بھر لیا کہ شاید کوئی اللہ کا بندہ، چند معصوم پرندوں کی آزادی کا پروانہ اور اس کے رزق کا دانہ لے کر آ جائے؟
لالی کو ٹھیک سے یاد نہیں تھا کہ اس کے والدین یا بہن بھائی تھے بھی کہ نہیں؟ جب اس نے ہوش سنبھالا تو ایک کچی آبادی کی چھوٹی سی چار دیواری میں بہت سارے بچوں اور ایک عورت کو ساتھ رہتے ہوئے پایا۔ بڑی بڑی مونچھوں اور پگڑیوں والے تین دہشت ناک چہروں والے مرد شیطان کی طرح ہر لمحہ ان کی نگرانی اور ڈانٹ ڈپٹ میں لگے رہتے۔ البتہ بات بےبات گالیاں دیتی زبانوں اور بےرحمی سے برستی لاتوں نے بہت جلد لالی کو اپنے اور ان کے درمیان رشتوں کی پہچان کرا دی تھی۔ اس ڈیرے پر صبح کا آغاز بہت جلد ہو جاتا تھا۔ طورے خان کے شکاری، صبح صادق کے وقت پرندوں کی پہلی ’’حق ہو‘‘ پرہی انہیں یکمشت قید کر لیتے۔ طورے خان کی جیپ کی آواز ہی ڈیرے پر گویا صبح کا اعلان ہوتی۔ سبھی بچے اور بڑے جاگ جاتے ایسے میں صاحب جان سب سے پہلے اٹھتی اور چائے کا بڑا دیگچہ لکڑیوں کے چولہے پر چڑھا دیتی، رات کی بچی ہوئی روٹی سے سب ناشتہ کرتے اور ٹھیک سات بجے اپنے اپنے دھندوں کو نکل جاتے۔ سات سال سے کم عمر کے بچوں کو گھر پر کڑی نگرانی میں رکھا جاتا اور بڑی عمر کے لڑکوں کو دن بھر کے لیے مختلف کاموں پر شہر میں جگہ جگہ بھیج دیا جاتا۔ کوئی کسی سکول یا کالج کے سامنے مکئی کے بھٹوں کی ریڑھی لگاتا، کوئی کسی مقامی فیکٹری کی سستی قسم کی دل بہار آئس کریم بیچتا، کوئی ریوڑی مونگ پھلی، تو کوئی پرندوں کے پنجروں کی ٹانگی کاندھے پر لٹکائے مارا مارا پھرتا یا پھر یوں کہہ لیں کہ ایک ننھا غلام معصوم قیدی پرندے بیچتا۔ روزانہ سورج ڈھلنے سے پہلے پہلے ڈیرے پر پہنچنے کا سختی سے حکم تھا۔ دیر سے پہنچنے والے کو فرار کا مرتکب گردانا جاتا اور طورے خان کے کارندے آناً فاناً اس کے سر پر پہنچ جاتے۔ واپسی پر رات کو سب باری باری طورے خان کو دن بھر کی کمائی کا حساب دیتے۔ اس کمائی میں سے سب کو صرف پانچ پانچ روپے د وپہر کے کھانے کے لیے خرچ کرنے کی اجازت تھی۔ ڈیرے پر صاحب جان واحد خاتون تھی جو گھریلو کام کاج، کھانے پینے اور ڈیرے کی صفائی کا فریضہ سر انجام دیتی۔
رات کو طورے خان کے سر میں تیل ڈال کر مالش کرتی اور اس کی ٹانگوں اور بازؤوں کی مچھلیاں دبانا اس کی اضافی ذمہ داریوں میں شمار ہوتا تھا۔ گھر میں گل شاہ اور خان بادشاہ، طورے خان کے خاص آدمی تھے جن کی نگرانی میں درجنوں آدمی جگہ جگہ کام کرنے والے بچوں کی نگرانی کرتے تھے۔ نہیں معلوم صاحب جان کا طورے خان سے کیا رشتہ تھا مگر اس کے ہونٹوں پہ پڑا چپ کا جھندرا یہ ظاہر کرتا تھا کہ وہ بھی سب ہی کے جیسی کوئی قسمت کی ماری ہے جو ان ظالموں کے رحم و کرم پر تھی۔ چو بیس گھنٹوں میں صرف رات ہی ایسی دیوی تھی جو ماں کی گود کی طرح ہم سب کو آغوش میں بھر کے تھپک تھپک کر سلا دیتی تھی۔ طورے خان نے اپنی شہنشاہیت کا ایک ایسا ان دیکھا نظام ترتیب دے رکھا تھا کہ اگر کہیں سے کوئی لڑکا فرار ہونا چاہتا بھی تو ایسا نہ کر سکتا کیونکہ فرار ہونے اور پھر پکڑے جانے کی سزا کے طور پر اس لڑکے کے ہاتھ پاؤں توڑ کر فٹ پاتھ پر بھیک مانگنے کے لیے بٹھا دیا جاتا۔ یہ ایسی سزا تھی کہ کوئی بھی فرار ہونے کی جرأت نہ کرتا۔ کام کرنے والے لڑکوں کی نگرانی پر مامور آدمیوں کو کوئی نہیں جانتا تھا مگر وہ سب لڑکوں کو اچھی طرح جانتے اور پہچانتے تھے۔ ایک دن ایک لڑکے مراد نے ایک شام دن بھرکی کمائی کے ساتھ فرار کی کوشش کی وہ ڈیرے پر واپس آنے کے بجائے کسی دوسرے شہر کی بس پر بیٹھ کر نکل گیا۔ اس کا خیال تھا کہ کوئی نہیں دیکھ رہا اور اس کے پیچھے آنے والا بھی کوئی نہیں ہوگا مگر ابھی وہ شاید آدھے ہی راستے میں ہوگا کہ بس ایک اڈے پر رکی اور تعاقب کرتے طورے خان کے آدمی اسے کار میں ڈال کر ڈیرے پر لے آئے۔ بڑے کمرے میں لڑکے تھک ہار کر بے سدھ سو رہے تھے کہ معاً ساتھ والے کمرے سے مراد کی چیخوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ بڑی بےدردی سے مرادکی پٹائی ہورہی تھی اور ہم سب اپنی اپنی گدھڑیوں میں یوں سہمے اور دبکے ہوئے تھے جیسے ڈر بے میں چھری کے ڈر سے دوسری مرغیاں اور چوزے۔ساتھ والے کمرے میں تادیر کچہری لگی رہی۔ صبح پتہ چلا کہ مراد کی دونوں ٹانگیں اور ایک ہاتھ توڑ کر اسے معذور بنا دیا گیا ہے۔ کچھ عرصہ بعد زخم ٹھیک ہونے پر اسے شہر کے ایک فٹ پاتھ پر بھیک مانگنے کے لیے بٹھا دیا گیا۔ اس واقعہ کے بعد پھرہم میں سے کسی کو فرار ہونے کی جرأت نہ ہوئی۔
اچانک اس واقعے کے یاد آتے ہی خوف اور دہشت سے جیسے لالی کی بند آنکھیں کھل گئیں۔ پاس کھڑی ایک کار میں میم صاحب ہارن بجا بجاکر اسے متوجہ کر رہی تھی۔ لالی اٹھ کر ان کے پاس گیا۔ بیگم صاحبہ نے سو روپے کا نوٹ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا کہ میرے بچوں کے صدقے دو پرندے آزاد کر دو۔ لالی نے نوٹ لیتے ہوئے ممنونیت بھری نگاہوں سے نیک دل میم صاحب اور پچھلی سیٹ پر بیٹھے چینی توتوں ایسے ننھّے مُنے معصوم بچوں کو دیکھا اور پلٹ کر ایک پنجرے میں ہاتھ ڈال دیا۔ ایسا کرتے ہوئے ہمیشہ اس کا جی چاہتا تھا کہ سارے پرندے ایک ساتھ آزاد کر د ے لیکن دوسرے ہی لمحے طورے خان کی لال انگارہ آنکھیں اس کے ذہن کی سکرین پر ناچنے لگتیں۔ کاش! یہ سب اس کے اختیار میں ہوتا۔ لالی اپنا دل مسوس کر رہ گیا۔ پھر اس نے آنکھیں بند کر کے ایک ہاتھ سے دو پرندے پکڑے اور انہیں آزاد فضا میں اچھال دیا۔ آنکھیں وہ اس لیے بند کرتا کہ اس میں باقی رہ جانے والے قیدی پرندوں کی آنکھوں میں ناچتی بے بسی کا سامنا کرنے کی تاب نہ تھی۔ دو پرندوں کی آزادی سے اس کے دل کا بوجھ قدرے ہلکا ہو گیا۔ پرندوں کو آسمان کی وسعتوں کی جانب اڑتا دیکھ کر گاڑی میں بیٹھے بچوں نے تالیاں بجا کر اپنی خوشی کا اظہار کیا ان کی گاڑی چل پڑی اور لالی وہیں فٹ پاتھ پر اپنی سوچوں میں غلطاں و پیچاں رہ گیا۔
’’مجھ سے تو اس پنجرے کے قیدی پرندے ہی اچھے ہیں، جو کبھی نہ کبھی کسی سخی کے سرصدقے میں آزاد ہو جائیں گے مگر میں ایک ایسے پنجرے کا قیدی ہوں جو بہت بڑا ہے، اتنا بڑا کہ جس کی دیواریں طورے خان کے عقوبت خانے سے لے کر اس پورے شہر اور پھر پورے معاشرے تک پھیلی ہوئی ہیں۔کوئی بڑے پنجرے کا تو کوئی چھوٹے کا قیدی ہے۔ اللہ جانے اس قید سے کیونکر آزادی ممکن ہو سکےگی؟۔۔۔‘‘
لالی کی عمر یہی کوئی تیرہ چودہ برس ہوگی مگر اس نے اشرف المخلوقات انسان کو یونہی، اسی حالت میں دیکھا تھا، جبر کے مضبوط شکنجے میں کسا ہوا، مسائل میں جکڑا ہوا، مشکلات کی بھاری چکی میں گھن کی طرح پستا ہو، ذہنی و جسمانی غلامی کے گٹھا ٹوپ اندھیروں میں بھٹکتا ہوا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ وہ اپنی عمر سے کہیں زیادہ بڑی باتیں سوچنے لگا تھا۔ بےرحم سماج لالی کے بچپن کے ست رنگے موسموں کی تتلیاں اور جگنو ایک ہی جست میں ہڑپ کر گیا تھا۔ والدین سے بچھڑتے وقت وہ اس قدر چھوٹا تھا اس کے ذہن کی سکرین پر والدین کے نقش ابھی پختہ نہیں ہو پائے تھے کہ طورے خان کی وحشت کا منحوس سایہ اس کے وجود پر چھا گیا تھا۔
گاڑی میں بیٹھے تالیاں بجاتے معصوم بچوں نے لالی کے ذہن میں یادوں کے ٹھہرے پانی کے گہرے تالاب میں لمحہ بھر کو ارتعاش سا پیدا کر دیا تھا لیکن کروٹیں لیتی بھوک کا غلبہ اسے فوراً حقیقی دنیا میں واپس لے آیا اور تھوڑی دیر بعد وہ سب کچھ بھول بھال کر دال چاول چمچ کے بغیر یوں کھانے لگا جیسے اگر ذرا بھی دیر کی تو طورے خان کا کوئی نادیدہ کارندہ آکر اس سے چھین لےگا۔ لالی کو وہاں بیٹھے شاید دو گھنٹے ہو چلے تھے۔ اس نے دال چاول کے پیسے دے کر وہاں سے کوچ کرنے میں ہی عافیت جانی کہ طورے خان کی بادشاہی میں ایک جگہ بیٹھ کر مزدوری کرنے کی بھی اجازت نہ تھی۔ اب اس کا رخ راجہ بازار کی طرف تھا۔ کھانا کھا کر جیسے اس کی جان میں جان آ گئی تھی اور وہ ترنگ میں آکر سیٹی بجاتا چلا جا رہا تھا۔ وہ جب بھی ترنگ میں آکر ایک مخصوص سیٹی بجاکر پرندوں کو مخاطب کرتاتو جواباً ان کی سیٹی جیسی کھسر پھسر میں اضافہ ہو جاتا۔ لمحہ بھر کو لالی یہ سوچ کر اداس ہو گیا کہ ان پرندوں کو طورے خان کی قید میں آج تیسرا دن تھا۔ عموماً یوں ہوتا تھا کہ جس صبح پرندے جال میں پھنستے اس سے اگلے ہی روز وہ اللہ کے نیک بندوں کے ہاتھوں آزاد ہو جاتے مگر اللہ جانے آج وہ نیک بندے کہاں مصروف ہو گئے تھے؟ یا پھر ان پرندوں کی قسمت بھی شاید میرے جیسی ہو گئی تھی؟ چلتے چلتے اب بازار میں لالی کی پسندیدہ دکانیں شروع ہو گئی تھیں۔ ان دکانوں میں خاص طور سے الیکٹرونکس کی وہ دکانیں جہاں گاہکوں کی تفریح کے لیے بڑی بڑی سکرینوں والے ٹی وی سیٹ آن کر کے رکھے ہوتے تھے۔ ان پر کبھی خبریں، کبھی کرکٹ، فٹ بال یا پھر کبھی کوئی انڈین فلم چل رہی ہوتی۔ لالی تھوڑی دیر کے لیے اپنی ایک پسندیدہ دکان کے سامنے پرندوں کے پنجرے رکھ دیا کرتا اور خبریں بڑے تجسّس اور دلچسپی سے دیکھتا۔ چار بجے کی خبریں آدھی نکل چکی تھیں۔ پھر جونہی خبریں ختم ہوئیں، ٹی وی سکرین پر تلاش گمشدہ کے ایک اشتہار کا متن آواز کے ساتھ چلنے لگا۔ ’’ایک بچہ جس کا نام لئیق الرحمن ولد فضل الرحمن عمر تقریباً چار سا ل رنگ گورا ہے۔ کالے رنگ کی نیکر اور آسمانی رنگ کی شرٹ پہن رکھی ہے۔ کل شام والدہ کے ساتھ بازار میں خریداری کے دوران گم ہو گیا ہے۔ اگر کسی کو ملے تو براہ کرم اس کی اطلاع فلاں پتہ اور ٹیلی فون نمبر پر دیں۔ بچے کے گھر والے پریشا ن ہیں اور اس کی والدہ صدمے سے پاگل ہو چکی ہیں۔‘‘
’’کتے کے بچے۔۔۔ کسی طور ے خان نے پھر کسی کا ہنستا بستا گھر اجاڑا ہے، کبھی تو جاگےگا ناں اوپر والا؟ ‘‘ اعلان ختم ہوتے ہی لالی نے خود کلامی کے انداز میں دانت پیستے ہوئے، پنجرے اٹھائے اور آہستہ آہستہ ڈیرے کی طرف چل دیا۔ اس کے ذہن ودل میں طورے خان کے خلاف طرح طرح کی انقلابی سوچیں امنڈنے لگتیں۔ کبھی کبھی اس کا جی چاہتا پولیس اسٹیشن گھس جائے اور انہیں طور ے کے قید خانے کی ساری داستان سنا ڈالے مگر اسے پولیس والوں سیبڑاڈر لگتا تھا اوریہ بھی خیال آتا تھا کہ پولیس بھی طورے خان سے ملی ہوئی ہے اور اسی کی طرف داری کرتے ہوئے اگر اسے طور ے خان کے حوالے کر دیا گیا تو مراد کی طرح مار مار کے اس کے بھی ہاتھ پاؤں تو ڑ دیئے جائیں گے۔ یہ سب سوچ کر اسے جھر جھری سی آ گئی۔ وہ زندہ رہنا چاہتا تھا، ایک فعال اور ثابت و سلامت شخص کے طور پر، اسے امید تھی جیسے وہ لوگوں کی فرمائش پر روزانہ درجنوں معصوم پرندوں کو آزاد کرتا ہے۔ اس کی زندگی میں بھی وہ خوش نصیب دن ضرور آئےگا جب وہ اور اس جیسے بےشمار معصوم بچے بھی طورے خان کی قید سے ضرور آزادی پائیں گے۔ افق پر ابھی خاصی روشنی باقی تھی کہ وہ اپنی دنیا میں مگن ڈیرے پر پہنچ گیا۔
اس روز خلاف معمول طورے خان اپنے دونوں قریبی ساتھیوں سمیت گیٹ پر موجود تھا ’’تم نے آج نذیر ے کو کہیں دیکھا ہے؟‘‘ طورے خان نے مونچھوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے خلافِ معمول، پوچھا۔ سوال سن کر وہ یوں سہم گیا جیسے گویا نذیرکے فرار کا منصوبہ اسی نے بنایا ہو؟ بڑی مشکل سے اس کے خشک حلق سے انکار کا لفظ نکلا اور وہ اپنی گلو خلاصی پرتیزی سے اندر چلا گیا۔ پرندوں کے پنجرے حساب و کتاب کرنے والے کارندے کے حوالے کر کے اندر جاکر پیسے گننے میں محو ہو گیا۔ ساتھ ہی ساتھ اسے فرار ہونے والے نذیرے کا خیال آیا جو اس کے ساتھ ہی کا تھا اور لاری اڈے پر بسوں میں ٹافیاں اور بسکٹ بیچتا تھا۔ اس نے پیسے گن کر طورے خان کے آدمی کے حوالے کیئے اور آکر چولہے کے پاس بیٹھ گیا جہاں صاحب جان کھانے کی تیاری کے آخری مرحلے میں توے پر سرگرمی سے روٹیاں پکا رہی تھی۔اس نے صاحب جان سے نظریں چار کیں اور یوں جیسے نذیرے کے بارے میں دریافت کرنا چاہتا ہو مگر صاحب جان کی غزال کی مانند کالی آنکھوں میں دور تک پھیلی صحراؤں کی سی ویرانی تھی۔ اسے دیکھ کر ایسا لگتا تھا جیسے جذبات سے عاری کوئی عورت ہو، جس کی ہر شے لوٹ لی گئی ہو۔ پھر اس نے محسوس کیا جیسے صاحب جان نے اسے روٹیوں ک چھکور اندر لے جانے کا اشارہ کیا ہو اور دوسرے ہی لمحے وہ اندر آ گیا جہاں بڑے کمرے میں سب لوگ کھانے کے منتظر تھے۔ دو تین لڑکے آمنے سامنے چار قطاروں میں بیٹھے قیدیوں کے سامنے پلیٹوں میں سالن اور روٹیاں تقسیم کر رہے تھے، دوسرے کونے پر طورے خان اپنے آدمیوں کو نذیرے کے فرار پر ابھی تک ڈانٹ ڈپٹ رہا تھا۔ ایسے میں اس کے دل سے نذیرے کی کامیابی کے لیے دعا نکلی اور اگر وہ پکڑا گیا۔۔۔؟ اس سے آگے وہ اور کچھ نہ سوچ سکا۔ کھانا اس کے سامنے آیا تو وہ کھانے میں محو ہو گیا۔
دوسرے روز صبح صبح طورے خان کی کچہری گرم تھی۔ اس نے چاروں اطراف میں اپنے گھوڑے دوڑا دیکھے تھے مگر نذیرے کا کوئی پتہ نہیں چل سکا تھا۔ پہلی بار طورے خان کے چھوٹے بڑے تمام شہروں میں پھیلے نیٹ ورک کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ایک پرندہ دن دہاڑے طورے خان کی مونچھوں کے بال نوچ کر، آنکھوں میں دھول جھونک کر اڑ گیا تھا اور وہ بے بسی کے ساتھ ادھر ادھر ہاتھ پاؤں مار رہا تھا مگر کہیں سے کوئی کامیابی نہیں مل پا رہی تھی۔ طورے خان کے نزدیک نذیرے کے کامیاب فرار سے پولیس یا سیکورٹی ایجنسیوں کے چھاپے کے امکانات بڑھ گئے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ سارے مرد طورے خان کے ارد گرد بیٹھے غور وفکر کر رہے تھے۔ ناشتے کے بعد سبھی لڑکے تیز ی سے اپنی اپنی تیاری میں جت گئے تھے۔ کام پر جانے سے کسی کو نہ روکا گیا۔ سبھی خوش تھے کیوں کہ باہر نکل کر کام کرنے سے ان کا دم نہیں گھٹتا تھا بلکہ دل بہل جاتا تھا۔ لالی بھی دونوں پنجروں میں پچاس پچاس پرندے لیے اپنی اور ان کی آزادی کی آرزو دل میں بسائے اللہ کا نام لے کر نکل کھڑا ہوا۔ اس نے جو نہی چار دیواری سے قدم باہر نکالا نذیرے کے کامیاب فرار کے واقعہ سے اس کا دل خوشی سے جھوم اٹھا اور وہ بےاختیار ہو کر اپنی مخصوص سیٹی بجانے لگا۔ پرندے بھی شاید لالی کے دل کی خوشیبھانپ کر اس کے ساتھ کورس میں شامل ہو گئے۔
لالی حسب معمول ریلوے پھاٹک عبور کرکے شہر کی بڑی سڑک پر نکل آیا تھا۔ اسے یاد آیا کہ آج اقبال روڈ کے دکاندار کو پچاس پرندوں کا آرڈر بھی سپلائی کرنا تھا۔ وہ گھنٹے بھر میں پرندے اقبال روڈ کے دکاندار کو دے چکا تھا۔ اب اس کا رخ شہر کے قدیم کمپنی باغ کی جانب تھا جہاں کوئی بڑا سرکس آیا ہوا تھا اور خوب رونق تھی۔ لالی کو یقین تھا آج اس کے سارے پرندے آزاد ہو جائیں گے۔ وہ تیز گام چلتا تھوڑی ہی دیر میں کمپنی باغ پہنچ گیا۔ واقعی وہاں ہر طرف میلے کا سا سماں تھا شاید اتوار کا دن تھا اور بچوں کو سکول سے چھٹی تھی۔ ہزاروں بچے جھولے جھولنے، کھیل تماشے اور سرکس دیکھنے کے لیے اپنے والدین کے ساتھ آئے ہوئے تھے۔ ایک جگہ بہت بڑا مجمع لگا تھا۔ لالی نے دیکھا کہ سنیاسی نے ایک اژدھانما سانپ ہجوم کے بیچوں بیچ اپنے گلے میں لٹکا رکھا ہے اور اس کے آس پاس طرح طرح کی دیسی دوا ؤں کے ڈبے پڑے ہیں اور وہ لوگوں کو باآواز بلنددواؤں کے فوائد بتا رہا تھا۔ بہت سے لوگ سنیاسی کے بیان سے متاثر ہوکر دوائیں خرید رہے تھے۔ لالی نے زندگی میں اس سے پہلے اتنا بڑا سانپ نہیں دیکھا تھا اسی لیے وہ بھی ایڑیاں اچک اچک کر سانپ دیکھنے لگا۔ ابھی لالی کا من سانپ کو دیکھنے سے پوری طرح نہیں بھرا تھا کہ معاً اسے سامنے کی قطار میں فقیرا الوداعی اداس مسکراہٹ کے ساتھ ہاتھ ہلاتا نظر آیا جیسے یہ اس کا آخری سلام ہو۔ ابھی لالی نے جواباً اپنا ہاتھ بلند کیا ہی تھا کہ فقیرا اچانک ایک زور دار دھماکے کے ساتھ پھٹ گیا اور لالی کے کانوں کے پردے جیسے پھٹ گئے ہوں۔ اس پر جیسے کنکریٹ کی پوری چھت گر پڑی ہواور اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا سا چھا گیا ہو۔ دھماکے کے بعد قیامت صغرا کا منظر تھا۔ دھماکہ تماشائیوں کے عین وسط میں ہوا تھا۔ تماشائی ایک دوسرے کے اوپر ڈھیر ہو گئے تھے۔ مرنے یا زخمی ہونے والوں کا فوری طور پر اندازا لگانا آسان نہ تھا۔خوش نصیبی سے بچ جانے والے دہشت اور خوف کے مارے بھگدڑکا شکار تھے۔
قانون نافذ کرنے والوں کی گھنٹہ بھر کی امدادی کارروائیوں کے بعد پتہ چلا کہ پندرہ افراد ہلاک اور تیس کے قریب زخمی ہوئے تھے۔جبکہ خود کش فقیرے کا سر ٹی وی سکرینوں پر نمایاں تھا۔ خوش نصیبی سے لالی دھماکے میں مرنے والوں کے نیچے دب کر بے ہوش ہو گیا تھا اور زخمی ہونے سے بھی بالکل بچ گیا تھا اور اس کے پرندے بھی قید میں محفوظ رہ گئے۔مگر حلیے کی وجہ سے پولیس نے اسے شک کی بنا پر بہت سے لوگوں کے ساتھ حراست میں لے لیا تھا۔ تب لالی کے دل میں طورے خان کے خلاف نفرت کا ایک بھونچال سا آ گیا۔ شیطان کی اولاد طورے خان معصوم لڑکوں کو خودکش دھماکوں میں بھی استعمال کرتا ہے۔ وہ بہت خوش تھا کہ اسے طورے خان کی شکایت کا موقع ملےگا۔ ابتدائی تفتیش کے بعد پندرہ آدمیوں کو چھوڑ دیا گیا تھا مگر لالی سمیت ابھی چھ افراد زیر حراست تھے۔ وہ رات لالی اور زیر حراست دوسرے افراد نے تھانے میں گزاری۔ لالی ساری رات سو نہ سکا۔ رات بھر فقیرے کا اداس چہرہ اسے الوداع کہتا دکھائی دیتا رہا۔
اگلی صبح انہیں فوجی چھاؤنی کے نا معلوم تفتیشی مرکز میں منتقل کر دیا گیا۔ جہاں چار باوردی افسروں نے ان سے الگ الگ تفتیش شروع کی۔ لالی کے پرندے بھی اس کے ساتھ زیر تفتیش تھے۔ لالی کے پاس کسی قسم کی کوئی شناخت نہ تھی۔ اس نے بتایا کہ میں پرندے بیچتا ہوں۔ میں اور یہ پرندے ایک خرکار طورے خان کی قید میں ہیں۔ اب بھی اس کی قید میں لگ بھگ ایک سو معصوم بچے ہیں اور اس دھماکے کا خود کش بھی ہمارے ساتھ قید تھا۔ باوردی فوجی افسران کو دیکھ کر لالی کے دل سے پولیس کا ڈر جاتا رہا تھا اور اس نے افسران کو طورے خان کے ڈیرے کی پوری تفصیل بتا دی۔ اسی شام عین اس وقت جب طورے خان اپنے ساتھیوں کے ساتھ خفیہ میٹنگ میں مصروف تھا۔ عسکری چھاپہ ماروں نے بڑے پیمانے پر چاروں طرف سے کمانڈو ایکشن کر کے طورے خان کے عقوبت خانے سے سب کودہشت گردی ایکٹ کے تحت گرفتار کر لیا۔
دوسرے روز جب طورے خان اور اس کے ساتھیوں کو بیرک سے نکال کر تفتیش کے لیے لایا جا رہا تھا تو لالی راستے میں بیٹھا پنجروں سے ایک ایک قیدی پرندہ نکال کر آزاد فضا میں یوں چھوڑ رہا تھا جیسے آزاد ہونے والے پرندوں کے پروں پر لالی کا دل بھی خوشی سے پنچھی بن کر اڑنے لگا ہو۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.