Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دوسری نماز

MORE BYذیشان الحسن عثمانی

    ساجدہ کی عمر بیس سال سے کچھ ہی شرما رہی ہو گی کہ گھر پر ناگہانی آفت آن پڑی۔ اس کے باپ کو فالج ہو گیا، اس نے ساری زندگی ریڑھی لگاکر جیسے تیسے اپنی بیوی اور اکلوتی بیٹی کا پیٹ پالا تھا مگر آج دوسروں کے رحم و کرم پر تھا۔ غریب کے تو نہ پہلے ہوتے ہیں نہ دوسرے، نہ اپنے نہ غیر، اوپر خدا نیچے خود۔ ساجدہ پر سارے گھر کی ذمہ داریاں آن پڑیں۔ شرم و حیاء کی پیکر، تہجد گزار، برقع پوش جائے تو جائے کہاں اور کرے تو کرے کیا؟ لاہور جیسے شہر میں نوکری تلاش کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ کئی دن گزر گئے، گھر میں فاقوں کی نوبت آ گئی مگر کام نہ بنا۔ سفید پوشی کی اذیت سفید کفن سے زیادہ ہوتی ہے کہ اس کے نیچے زندگی سسک رہی ہوتی ہے۔ ساجدہ نے اللہ کا نام لے کر باپ کی ریڑھی نکالی اورمال روڈ پر آ گئی، بچپن سے وہ باپ کو دیکھ کر ادھ دکاندار تو ہو ہی چکی تھی۔ پہلے ہی چوک پر پنجاب کی مستعد پولیس نے دھر لیا اور کہا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں عورتوں کو ریڑھی چلانے کی اجازت نہیں۔ اس سے کلچر پر برا اثر پڑےگا، رو دھو کے ساجدہ نے بڑی مشکل سے خلاصی پائی۔

    جون کی جھلستی دھوپ میں ساجدہ سر جھکائے گھر کی جانب رواں دواں تھی کہ اسے اچانک اپنی ایک سہیلی کا خیال آیا جس نے اسے ایک بیوٹی پارلر کا پتہ بتایا تھا کہ وہ لڑکیوں کو روزانہ اجرت پر رکھ لیتے ہیں۔ ساجدہ کے پائوں کسی مشین کی طرح اسی طرف چلنے لگے۔ دل نے ہزار بار کچوکے لگائے کہ یہ راستہ ٹھیک نہیں مگر پیٹ بھوکا ہو تو وہ منطق بھی کھا جاتا ہے۔

    بیوٹی پارلر والی ‘‘باجی‘‘ نے پانچ ہزار روپے اپنا کمیشن بتایا اور کہا کہ پانچ ہزار فی گاہک اسے ملیں گے اور یوں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جسم بیچنے کی اجازت مل گئی۔ اس کے بعد کے کچھ گھنٹے ساجدہ کو صحیح طرح سے یاد نہیں، کچھ خیال سا پڑتا ہے کہ اس کے باپ کی عمر کا ساہوکار تھا یا شاید گدھ جو اسے مردہ سمجھ کر نوچ رہا تھا۔ ساجدہ تو ویسے بھی سن تھی بس زبان سے مسلسل نکل رہا تھا کہ ‘‘اللہ معاف کر دینا، باپ بھوکا ہے۔‘‘

    کچھ دیر بعد ساجدہ مٹھی میں پانچ ہزار روپے دبائے گھر کی طرف بھاگتی چلی آ رہی تھی، گھر پہنچتے ہی اس نے غسل کیا اور جا نماز پر کھڑی ہو گئی۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ نماز لمبی تھی یا بعد میں مانگے جانے والی دعا۔ جب زبان نے جذبات کا ساتھ چھوڑ دیا اور آنسوئوں نے آنکھوں کے بند توڑ دیئے۔ تب شاید ساجدہ نے سجدے سے سر اٹھایا۔ وہ اٹھی اور ملحقہ کمرے میں جا کے باپ کی چارپائی کے سرہانے بیٹھ گئی اور مٹھی کھول کے پیسے باپ کی جھولی میں ڈال دیئے۔

    ماں نے اچنبھے سے پوچھا، ارے واہ میری بیٹی، پیسہ کہاں سے کما کے لائی۔

    ساجدہ نے بڑی مشکل سے بدن پر رینگتی چیونٹیوں کے احساس کو دباتے ہوئے جواب دیا۔ ماں تو چھوڑ ان باتوں کو، بس ابھی نماز پڑھ کر آ رہی ہوں۔

    ماں نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے مسکراکر کہا۔

    ارے پگلی، پھر تو جا کے دوسری نماز بھی پڑھ لے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے