Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دوسری تدفین

حمید قیصر

دوسری تدفین

حمید قیصر

MORE BYحمید قیصر

    اب کے میں نے تہیہ کر لیا تھا کہ میلینیم کارگو والے کسٹم ایجنٹ کی پکی چھٹی کروا دوں گا، حیرت ہے کراچی سے برطانیہ آئے اسے بیس سال ہو چلے تھے مگر مجال ہے جو اس میں ذرا سی بھی کوئی تبدیلی آئی ہو؟ کام کرنے کا وہی دیسی سٹائل۔ کارگو ٹرمینل پر واقع اس کے چھوٹے سے آفس کے ساتھ گوروں کے بیسیوں خوبصورت دفاتر تھے مگر وہ سالا ایسا چکنا گھڑا تھا کہ اس پر ذرا برابر بھی کسی گورے یا گوری کا رنگ نہ چڑھا تھا۔ آج صبح کیتھلے ٹاؤن سے مانچسٹر ائیرپورٹ کے لیے نکلنے سے پہلے اس کے ساتھ دفتر اور پھر موبائل پر رابطہ کی بار بار کوشش کی۔ بالآخر میں نے ائیروے بل کی تفصیل اس کے موبائل پر ٹیکسٹ کر دی اور یہ سب سوچتے ہوئے گھنٹے بھر کی ڈرائیو کے بعد میں ائیر پورٹ پہنچ گیا۔ کارگو ٹرمینل کے فسٹ فلور پر اس کا دفتر جا کر دیکھا تو لاک تھا۔ اب میرے لیے اور کوئی چارہ نہ تھا کہ پارکنگ میں کھڑی گاڑی میں بیٹھ کر سگریٹ پھونکوں، دل جلاؤں یا پھر گاڑی کی سیٹ پیچھے کی طرف کھینچ کر کے لمبی تان کر سوجاؤں لیکن سونے میں تاخیر کا خطرہ تھا۔ چنانچہ سامنے لگی کافی مشین میں چند سکے ڈال، کڑوی کسیلی کافی کا کپ لے کر میں گاڑی میں ٹیپ ریکارڈر آن کر کے بیٹھ گیا کہ اگر تھوڑی دیر کے لیے اس ایجنٹ کو بھول جاؤں تو صحت کے لیے مفید رہےگا۔ یہ سوچتے ہوئے میں نے بلیک کافی کا لمبا سپ لیا اور کپ ڈیش بورڈ پر رکھ کر سیٹ کے ساتھ ٹیک لگا لی۔

    نومبر کی سہ پہر میں جزیرہ نما برطانیہ کی سمندر ی طوفانی اور سرد ہواؤں کے نرغے میں تھا۔ ہوا کے تھپیڑ ے آکے گاڑی میں بار با ر ارتعاش پیدا کر رہے تھے۔ کار پارکنگ سے ملحقہ دور تک پھیلے کارگو ٹریک پر بڑے بڑے ٹرالر کھڑے تھے اور چھوٹی چھوٹی ویٹ لفٹر گاڑیاں چند ٹرالرز میں سے سامان کی لوڈنگ اَن لوڈنگ میں مصروف تھیں۔ میری طرح اور بھی بہت سے لوگ اپنی اپنی گاڑیوں میں مال کی وا گزاری کا انتظار کر رہے تھے مگر میرا یہ انتظار شیطان کی آنت کی طرح کچھ زیادہ ہی طویل ہوتا جا رہا تھا۔ اس خیال سے کہ شاید وہ کمنجت ایجنٹ کہیں سے ٹپک پڑا ہو۔ میں سیڑھیاں چڑھ کر اس کے دفتر پہنچا تو وہ خلاف توقع دفتر میں بیٹھا کان سے فون لگائے کمپیوٹر پر کچھ ٹائپ کیے چلا جا رہا تھا۔ مجھے دیکھ کر اس نے تیار شدہ کاغذات میری طرف بڑھا دئیے، میں نے بھی کوئی بات کئے بغیر ادائیگی کی اور چلا آیا کہ اسے کچھ کہنا تو دیوار سے ٹکریں مارنے کے مترادف تھا۔ نیچے واپس آکر میں نے جلدی جلدی کسٹم کلیرنس کے لیے کاغذات کاؤنٹر منیجر کے حوالے کیے اور ضروری کارروائی کے بعد مال کی وا گزاری کا انتظار کرنے لگا۔

    سردی آہستہ آہستہ بڑھ رہی تھی ا ور نومبر کی جلد چھا جانے والی شام اپنی سلیٹی شال چاروں اور دھیرے دھیرے پھیلا رہی تھی۔ کارگو ایجنٹ کی لاپرواہی اور انتظار کی کلفت نے میرا سارا دن خراب کرکے رکھ دیا تھا۔ لوگ سچ ہی تو کہتے ہیں۔ ہم دیسی لوگ، جتنے پڑھ لکھ جائیں اور دنیا کے کسی بھی کونے میں چلے جائیں، اپنے آپ کو بدلنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ اگر یہ کارگو ایجنٹ میرے ٹیلی فون، ای میل یا ایس ایم ایس کا مختصر سا جواب ایس ایم ایس کر دیتا کہ ائیر پورٹ فلاں وقت پہنچ جائیں آپ کے کاغذات تیار ملیں گے تو میرا سارا دن یوں غارت نہ جاتا۔ گنجا سالا و لائتی زمین پر دیسی ٹینڈا۔۔۔! میرا غصہ کسی طور کم نہیں ہو رہا تھا۔ ابھی میں اسی ادھیڑبن میں مبتلا تھا کہ میری گاڑی کے برابر ایک ’’مورچری وین’‘ آکر رکی جس میں لکڑی کا تابوت صاف نظر آ رہا تھا۔ ڈرائیور پر نظر پڑی تو وہ بھی ادھر ہی متوجہ تھا۔ جوچال سے اٹک کا لگتا تھا۔ ڈیڈ باڈی دیکھ کر میری دن بھر کی ذہنی کوفت، تھکن اور غصہ جاتا رہا۔ یہ سوچ کر میرا دل بھر آیا کہ جانے کس ماں کا لعل ہے؟ جو سہانے خواب لے کر پردیس آیا ہوگا۔ اس نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ وہ زندہ آیا تھا مگر کیا بےبسی ہے کہ اب اس کی ڈیڈباڈی وطن واپس جا رہی ہے۔ یہ سوچتے ہوئے میں گاڑی سے باہر آ گیا اور وین ڈرائیور سے استفسار کرنے لگا۔

    ‘’بھائی یہ کس کی ڈیڈ باڈی ہے۔۔۔؟‘‘

    ‘’جی تا کوئی میر پوری، یہ صندوق بریڈ فورڈ سے آیا ہے اور پاکستان واپس جا رہا ہے‘‘۔ ڈرائیور نے نیم پشتون لہجے میں کچھ ایسے انداز سے کہا کہ میرا تجسس اور بڑھ گیا۔

    ‘’بھائی یہ کون تھا اور اسے کیا ہوا؟‘‘

    ‘’جی صاب! اس کا نام خادم حسین ہے اور شوگر کا مرض میں مبتلاتا‘‘۔ ڈرائیور نے اسی انداز میں جواب دیا۔ میرا دل رنج سے بھر گیا اور میں اس سے اظہار افسوس کرنے لگا۔

    ‘’او ہو! صاب جی! خادم حسین مرا نہیں، زندہ ہے اور اس کی صرف ٹانگ کٹی ہے‘‘۔

    ’’تو پھر یہ ڈیڈ باڈی؟؟‘‘ میرا تجس اپنی آخری حدوں کو چھونے لگا۔

    ’’او سرجی ! اس صندوق میں خادم حسین کا ڈیڈ باڈی نہیں، اس کی ایک ٹانگ ہے، ٹانگ۔‘‘ ڈرائیور نے ہنستے ہوئے گویا میری معلومات میں اضافہ کیا اور میں حیرت کے سمندر میں غوطے لگانے لگا۔

    ’’یعنی کیا مطلب ہے، صرف ٹانگ۔۔۔؟ اور خادم حسین؟‘‘ میں نے اسی انداز میں پوچھا۔

    ‘’جی۔ خادم حسین بریڈ فورڈ کے کسی ہسپتال میں ہے۔’‘ ڈرائیور نے سگریٹ جھاڑتے ہوئے کہا۔

    ’’تو پھر یہ ٹانگ اتنی دور بھیجنے کا کیا مطلب ہے؟ یہاں بھی تو دفن کی جا سکتی تھی۔۔۔‘‘میری حیرت برقرار تھی۔

    ‘’اوہو سرجی! یہاں ایک ٹانگ کی تدفین پر بھی اتنا ہی خرچہ آتا ہے جتنا پوری ڈیڈ باڈی پر اور وہ بھی پونڈوں میں! یہ سارا چکر ہی رقم بچانے کا ہے۔‘‘ ڈرائیور ہاتھ نچا کر بولا۔ میں پل بھر کے لیے خاموش ہو گیا۔

    ’’یار! بڑی عجیب بات ہے، جو کم از کم میری سمجھ میں تو نہیں آ رہی’‘۔ میرا استعجاب برقرار رہا۔

    ‘’او جناب! ہسپتال میں ان کے گاؤں کا ایک بند ہ تو یہ بھی کہتا تا کہ خادم حسین میر پور میں قتل کے ایک مقدمے میں مطلوب تھا اور کسی طرح یہاں بھاگ آیا۔ اب اس تابوت کے جانے سے سب کو یہ اطلاع ہوئیگا کہ وہ مر گیا ہے اور مقدمہ ختم ہو جائےگا’‘۔ ابھی ڈرائیور کی گفتگو یہیں تک پہنچی تھی کہ ویٹ لفٹر گاڑی پاکستان سے آئی تادیب کے تازہ شمارے کی پیٹیاں لے کر باہر آ گئی۔ میں نے ساری پیٹیاں گن کر کار بوٹ میں اور کچھ پچھلی سیٹ پر رکھیں۔ وین ڈرائیور نے بھی میری مدد کی۔ میرے پوچھنے پر اس نے اپنا نام نذیر گل بتایا اور یہ کہ وہ ‘’مسلم فیونرل سروس بریڈ فورڈ’‘ میں وین ڈرائیور کے طور پر کام کرتا ہے۔ میں ائیر پورٹ سے فارغ ہو گیا تھا مگر نذیر گل کو اپنی باری پر صندوق کی بکنگ کے لیے ابھی اور انتظار کرنا تھا۔ ادھر واپسی کے لیے موٹروے کی ویک اینڈ کی مصروف ترین اور صبر آزما ڈرائیو میری منتظر تھی۔ سرما کے کالے بادلوں نے آسمان کو پوری طرح سے ڈھانپ لیا تھا اور تیز سمندری ہوائیں یوں چل رہی تھیں جیسے بلائیں اور چڑیلیں دیوانہ وار ایک دوسرے کے پیچھے بھاگ رہی ہوں۔ موٹر وے پر دوڑتی ماچس کی ڈبیا جیسی کار یوں محسوس ہوتا تھا جیسے ابھی ٹیک آف کر جائےگی ادھر میرے اندر کروٹیں لیتے تجسّس کو کسی بھی پل قرار نہیں آ رہا تھا، ڈرائیور نذیر کے بیان سے میری تسلی نہیں ہو رہی تھی۔

    اگلے روز میں ڈرائیور نذیرکے بتائے ہوئے پتہ پر ‘’مسلم فیونرل سروس‘‘ کے دفتر پہنچ گیا۔ جہاں سے میں نے خادم حسین کے گھر کا پتہ لیا اور اسی شام اس کے گھر سے معلوم ہوا کہ وہ ابھی تک رائل انفرمری ہسپتال میں ہے۔ دوسرے روز ڈیوٹی سے فارغ ہو کر جب میں شام کو ہسپتال کے سرجیکل وارڈ میں داخل ہو اتو خادم حسین تکیے سے ٹیک لگائے سیب چھیل رہا تھا۔ پچپن ساٹھ کے پیٹے میں سادہ سے اس شخص نے مجھے پہلی بار دیکھا تو اجنبیت کے باوجود اس کی آنکھوں میں خلوص کی چمک دکھائی دی۔ اس نے مجھے ذرا بھی اجنبیت کا احساس نہ ہونے دیا۔ میں نے اپنا تعارف کرایا۔ اس کی گفتگو کے انداز اور رویے نے میرے ابتدائی تاثر کو آہستہ آہستہ دھونا شروع کر دیا۔ میرا دل کہتا تھاکہ یہ شخص کسی بھی صورت قاتل نہیں ہو سکتا میں نے اصل بات کی تہہ تک پہنچنے کے لیے اس کی عیادت کرتے ہوئے ٹانگ کے آپریشن کے بارے میں دریافت کیا۔ تو اس نے جواباً بتایا کہ ایک سال پہلے کار کے حادثے میں اس کی ایک ٹانگ بری طرح کچل گئی تھی اور پھر شوگر کے موذی مرض نے ٹانگ کے زخم کو دوبارہ مندمل ہی نہ ہونے دیا۔ بہت علاج کروایا مگر بالآخر ٹانگ کٹوانے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔

    اچانک اس کے چہرے پر میرے بارے میں تجس کی لکیریں ابھر آئیں اور اس نے پوچھا۔ ’’آپ کو کس نے بتایا اور آپ کیسے میرا پتہ کرتے ہوئے یہاں تک آ گئے۔۔۔؟‘‘ میں اس اچانک بازپرس کے لیے تیار نہ تھا مگر ذرا توقف کے بعد سنبھلا تو مجھے اپنا منتہا ئے مقصود صاف دکھائی دینے لگا۔ میں نے اسے بتایا کی دو روز قبل جب اس کی ‘’مردہ ٹانگ کا صندوق’‘ جہاز سے وطن بھیجا جا رہا تھا، تو میں بھی وہیں تھا اور وین ڈرائیور اور مسلم فیونرل سروس کے دفتر سے حاصل کردہ معلومات کی بناء پر آپ سے ملنے چلا آیا، شاید وہ میری ذہنی کیفیت بھانپ چکا تھا، خود ہی کہنے لگا۔

    ‘’آپ بھی شاید دوسروں کی طرح یہ سمجھتے ہوں گے کہ میں ایک کنجوس آدمی ہوں اور تدفین کے اخراجات سے گھبرا کہ ایسا کر رہا ہوں۔ قطعی نہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔’‘ یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گیا جیسے اپنے الجھے خیالات کا تانا بانا سلجھانے میں مصروف ہو۔ میں خاموش رہا۔

    پھر وہ خودہی کہنے لگا: ’’کہانی تو بہت طویل ہے مگر ضروری تفصیل سے آپ اس حقیقت کا پس منظر بآسانی جان جائیں گے۔ مجھے اپنا وطن میر پور چھوڑے ہوئے پچاس سال سے زیادہ عرصہ ہو چلا ہے۔ جب میں اپنے ماں باپ اور دو بڑی بہنوں کے ہمراہ یہاں آیا تو شاید میری عمر پانچ چھ سال ہوگی۔ معلوم نہیں اس سرزمین کی مٹی اور آب و ہوا میں کوئی جادوئی تاثیر ہے یا برطانوی پاؤنڈ میں کوئی طاقت ہے جو ایک بار کسی کو اپنے حصار میں لے لے تو پھر آسانی سے چھوڑ تی نہیں۔ اس طویل عرصے میں میرے خاندان کا بہانے بہانے سے وطن جانا ہوتا رہا مگر جوں جوں وقت گزرتا گیا ہمارے پاؤں یہاں کی دلد ل میں دھنستے چلے گئے۔ میری بڑی بہنیں رشتہ داروں میں شادی کے بعد اپنے اپنے گھروں کی ہور ہی ہیں۔ اس عرصے میں پہلے میری ماں اور پھر باپ دونوں رخصت ہو گئے۔ میں نے دونوں بار بہت زور لگایا کہ ماں باپ کی میتیں اپنے وطن کی مٹی کے سپرد کر سکوں مگر میرے اور میری بہنوں کے بچوں نے پرُ زور مخالفت کر کے مجھے ایسا نہ کرنے دیا۔ آپ کو تو پتہ ہی ہے، یہاں پیدا ہونے والی اولاد جب خود مختار ہوجاتی ہے تو دوسرے ان کے سامنے اختیار رکھتے ہوئے بھی بےاختیار ہو کر رہ جاتے ہیں۔ والد کا چھوڑا ہوا اچھا خاصا کاروبار اب بھی میری سرپرستی میں ہے مگر اپنے دو بیٹوں اور دو بیٹیوں پر میرا کوئی اختیار نہیں۔ وہ جو چاہتے ہیں ہو جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب ہم نے وطن واپس جاکر مستقلاً رہنا ہی نہیں تووہاں بزرگوں کی قبریں کیوں بنائی جائیں؟ اور جب آپ کے بزرگوں کے،بزرگوں کی قبریں، ان کی نشانیاں، ان کے کچے اور پرانے گھرمنگلہ ڈیم نے نگل لیے تو کل کلاں ہمارے بزرگوں کی قبریں ڈیم کی بار با رتوسیع کی وجہ سے کہاں سلامت رہ سکیں گی؟‘‘

    ’’بس ان کی اس دلیل کے بعد میرے پاس کوئی جواز نہ تھا کہ میں ان کے اس فیصلے کو رد کر سکتا۔ اسی تناظر میں اب جب دیکھتا ہوں کہ میرے مرنے کے بعد کیا ہوگا؟ تو دل سے اک ہوک سی نکلتی ہے کہ ساری زندگی، بچوں کے بہتر مستقبل کے لالچ میں دیس سے پردیس ہوئے اور یہاں دوسرے اور تیسرے درجے کے شہری کی حیثیت سے زندگی بسر کی۔ ماں دھرتی سے دور رہے اور بزرگوں کا وطن کی جس مٹی سے خمیر اٹھا تھا۔ انہیں مرتے وقت مٹی کی خوشبو سے محروم رکھا۔ انہیں دیار فرنگ کی بےوفا مٹی کے سپرد کرکے میں نے بڑا پاپ کیا۔ آج میں اپنے آپ کو والدین کا مجرم سمجھتا ہوں اور یہ خیال کرتا ہوں کہ ایک دن اس جرم کی پاداش میں میری اولاد میری میت بھی اسی گناہ آلود سیاہ مٹی کے سپرد کرےگی۔ یہی سوچ کر میں آئندہ تین چار روز میں یہاں سے فارغ ہو کر مستقلاً اپنے وطن کشمیر جا رہا ہوں تا کہ اپنی تجہیز و تکفین میں شریک ہو سکوں‘‘۔ خادم حسین یہ کہہ کر خاموش ہو گیا اور میں نے دیکھا۔

    اس کی آنکھیں خوشی کے آنسوؤں سے لبریز ہو گئی تھیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے