دوزخ کی سیر
(۱)
’’مگر دنیا کیا خیال کرے گی۔۔۔؟ مجھ پر تہمت لگائے گی۔۔۔؟ مجھ سے بدگمان ہوجائے گی۔ مگر میں اس بدگمانی سے ڈروں یا اپنے والد کو اس نازل ہونے والی مصیبت سے محفوظ رکھنے کی تدبیر کروں؟ والد کی حفاظت، والد کی بہتری کے لیے مجھے دنیا کے ہر عیش و راحت سے منہ موڑ لینا چاہیے۔ مجھے اپنی تمام عشرتوں اور مسرتوں کو والد کے آرام پر قربان کردینا چاہیے۔۔۔ ضرور کردینا چاہیے۔۔۔ میں ایسا ہی کروں گی۔
میرا ضمیر صاف ہے۔ میرا ارادہ پاک ہے، میرا مقصد ایک نیک کام کی تکمیل ہے۔۔۔ دنیا کی میں پروا نہ کروں گی۔۔۔ وہ اگر بدگمان ہوتی ہے تو ہوجائے۔ وہ اگر بدنام کرنا چاہتی ہے تو کردے۔ مجھے ذرا بھی فکر نہیں۔ میرا دامن بدگمانیوں کی وجہ سے کسی عیب سے آلودہ نہیں ہوسکتا۔ گو لوگ لاکھ چاہیں مگر جب تک خود میرا ارادہ نہ ہو، میری عصمت کو کوئی ضرر نہیں پہنچا سکتا۔۔۔ اور میں کہوں گی کس سے؟ کسی اجنبی سے نہیں۔ کسی آوارہ انسان سے نہیں۔ کسی زرپرست سے نہیں، کسی دغاباز سے نہیں، بلکہ اپنے ایک عزیز سے، اپنے ایک بھائی سے، اپنے ایک رشتہ دار سے۔ پھر اس میں دنیا کا مجھ سے بدگمان ہونا کیا معنی؟
ہاں مگر خود میرا ہی دل ہچکچاتا ہے۔۔۔ میری نسائی فطرت ڈرتی ہے۔ مجھے جرأت نہیں ہوتی کہ میں اس سے جاکر یہ سب زبانی کہہ دوں، آہ پھر کیا کروں؟ خط بھیجوں؟ ہاں یہی ٹھیک ہے۔ بے پروا ہوجائے گا۔ زیادہ خیال نہ کرے گا۔ مجھے چل کر خود کہنا چاہیے۔۔۔ ضرور جانا چاہیے۔ نہیں اگر ماموں سے کہوں۔۔۔؟ وہ نہ سنیں گے۔۔۔ ممانی سے جاکر ملوں۔۔۔؟ وہ بھی ٹال دیں گی۔ بس سلیم سے کہنا مناسب ہے۔ بھائی ہے اپنی ایک بہن کی حالتِ زار پر ضرور ترس کھائے گا۔ میرا دل گواہی دیتا ہے کہ وہ ضرور قرض دلادے گا، وہ ضرور ماموں سے سفارش کرے گا۔۔۔ لیکن اگر سلیم کو یہاں بلاکر کہوں تو۔۔۔؟ نہیں ابا جان کی موجودگی میں کہنا ٹھیک نہیں۔۔۔ اور وہ معلوم نہیں کیا سمجھے؟ شاید آنے سے بھی انکار کردے۔‘‘
(۲)
چاند کی ضیاء پاش کرنیں بساطِ عالم کو اپنی لامتناہی وسعت میں چھپائے ہوئے تھیں اور فضا میں ہلکا سا سکوت چھایا ہوا تھا۔ اس وقت سلیم اپنے کمرے میں ایک کھلے ہوئے دریچے کے قریب کرسی پر بیٹھا تھا۔ چاندنی اس کے تمام جسم پر پڑ رہی تھی۔ دریچے کے سامنے ہی پائیں باغ تھا اور اس کے اختتام پر مکان کے اندر داخل ہونے کا بڑا دروازہ۔ وہ سڑک پر آنے جانے والی گاڑیوں کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ ایک بگھی آئی اور پھاٹک کے سامنے آہستہ ہوتی ہوئی آگے چل کر ٹھہر گئی۔ اس کے ساتھ ہی ایک شخص دروازے میں داخل ہوا اور اندر آگیا۔ اس کے بعد ملازم نے سلیم کو ایک لفافہ لاکر دیا۔ سلیم نے جلد جلد کھولا اور پڑھنے لگا،
’’عزیز بھائی سلیم۔ مودّبانہ تسلیم قبول کیجیے۔۔۔ اپنی ایک غمگین بہن کی طرف سے! اس وقت ایک شدید ضرورت مجھے آپ کے پاس کھینچ لائی ہے اور میں آپ سے پانچ منٹ کے لیے گفتگو کرنا چاہتی ہوں۔ لیکن میری اس آمدکی خبر ماموں یا ممانی صاحبہ کو نہ ہونے پائے۔ میں خلوت میں صرف پانچ منٹ آپ سے گفتگو کرکے چلی جاؤں گی۔۔۔ بھائی میرے آپ اس سے بدگمان نہ ہوں۔۔۔ میری اس آمد سے آپ گھبرائیے نہیں۔ اور اگر اس وقت موقع ہو تو مجھے ضرور ملنے کی اجازت دیجیے۔۔۔ میں ہوں آپ کی آفت زدہ بہن قمر جہاں۔‘‘
سلیم نے نہایت بے چینی سے یہ خط پڑھا۔ اس نے خیال کیا کہ کیوں قمر اس سے ملنا چاہتی ہے اور خلوت میں ملنے کی کیا وجہ ہے۔۔۔ شاید کوئی سخت مشکل درپیش ہے اور ہاں آفت زدہ بھی تو لکھا ہے۔ خواہ کوئی وجہ ہو، مجھے اس وقت انکار نہ کرنا چاہیے۔ اس کے چہرے پر ایک تبسم دوڑنے لگا۔ اس نے ٹوپی سر پر رکھ لی۔ باہر گیا اور گاڑی کو اپنے ساتھ لایا اور اسے اپنے کمرے کے سامنے ٹھہرادیا۔
قمرجہاں، نسائیت کی ایک قابل قدر ہستی، حسن معصوم کا فردوسی مجسمہ نزاکت و حسن کی زندہ دیوی، ایک سفید برقعے میں لپٹی گاڑی سے اترکر کمرے میں داخل ہوگئی۔ سلیم نے دروازہ بند کردیا اور ملازم سے تاکید کردی کہ جو شخص ملنے آئے، اس سے کہہ دے کہ وہ اس وقت نہیں مل سکتا۔
(۳)
سلیم: قمر کہو اس وقت کیسے آئیں؟ تمہارے خط نے مجھے گھبرادیا۔
قمرجہاں: بھائی زمانے کے انقلابات مجھے یہاں گھسیٹ لائے ہیں۔ واقعات نے مجبور کیا کہ اب میں ایک بھائی سے مدد طلب کروں۔ سلیم دنیا میں جب ایک لڑکی کو مدد کی ضرورت ہوتی ہے اور جب ماں باپ مجبور ہوجاتے ہیں اور عزیز و اقارب بھی انکار کرتے ہیں تو وہ بھائی سے مدد کی امیدوار ہوتی ہے۔ سلیم، وہ بھائی سے مدد مانگتی ہے جو دنیا میں اس کی امیدوں کا خدا کے سوا آخری سہارا ہوتا ہے۔۔۔ وہ بھائی کادامن تھامنے کے لیے مجبور ہوجاتی ہے۔ وہ بھائی کے آگے ہاتھ پھیلادیتی ہے۔
سلیم: قمر، سلیم ہر طرح اپنی بہن کی مدد کے لیے تیار ہے۔ خواہ دنیا مجھ سے برگشتہ ہوجائے۔ زمانہ مخالفت کی ٹھان لے۔ مگر خاندانی شرافت اور جوش ہمدردی اور مروت جو سینہ بسینہ چلی آئی ہے، اسے میں اپنے دل سے نہیں نکال سکتا۔ میں اسے بھلا نہیں سکتا۔۔۔ میری بہن، اگر تمام عزیز و اقارب نے مدد دینے سے انکار کردیا ہے۔ اگر ان کے خون سفید ہوگئے ہیں، اگر وہ سنگ دل بن گئے ہیں، اگر انھوں نے خاندانی جوہر مٹادیا تو سلیم کو بھی انھیں لوگوں میں نہ سمجھو۔۔۔ میری بہن سلیم تمہارا بھائی ہے اور ہر طرح اس پر تمہارا حق ہے۔ تم کہو اسے کسی بات سے دریغ نہ ہوگا۔
قمرجہاں: (حسرت کے انداز سے) سلیم وعدہ کرتے ہو کہ تم ہر طرح میری مدد کروگے؟
سلیم: قمرتمہیں شک ہے؟ اس کامیرے پاس کوئی علاج نہیں۔
قمر جہاں: نہیں بھائی۔ میں ہر گز تمہاری باتوں کو جھوٹ نہیں سمجھتی۔ لیکن شاید میری التجا کو منظور کرنے میں تمہیں پس و پیش ہو۔ اس لیے کہ اس کی تکمیل تمہاری ذات سے وابستہ نہیں مگر تمہارے ذریعہ سے بیشک میری مصیبت رفع ہوسکتی ہے۔
سلیم: قمرجہاں، اب زیادہ انتظار میں رکھنے سے کیا فائدہ۔ جلد اپنا مقصد بیان کرو۔ میں اب ایک لمحے بھی تمہیں مصیبت اور خفیہ ہول سے پریشان ہوتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتا۔
قمر جہاں: میرے والد غیرمعمولی واقعات اور تجارت میں نقصانات کی وجہ سے مقروض ہوگئے ہیں۔ اگر دودن میں ان کا قرض ادا نہ ہوا تو مہاجن دعویٰ کریں گے اور سارا کارخانہ نیلام ہوجائے گا۔ اس وقت کہیں سے روپیہ نہیں مل سکتا۔ والدہ مرحومہ کا جتنا زیور تھا سب رہن رکھ کر اب تک کام چلایا گیا۔ لیکن پھر مجبوراً اباجان نے ماموں صاحب سے قرض مانگا تو انہوں نے دینے سے انکار کردیا۔ اب میں تم سے التجا کرتی ہوں۔۔۔ سلیم اپنے ایک بھائی سے عرض کرتی ہوں کہ ماموں سے بیس ہزار روپیہ قرض دلادو۔۔۔ ورنہ سلیم، ہم لوگوں کا دنیا میں کہیں ٹھکانا نہ رہے گا۔
یہ کہہ کر قمر جہاں کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ سلیم جو اب تک قمر جہاں کی کرسی کے سامنے کھڑکی کے قریب کھرا تھا اور نہایت بے چینی سے یہ واقعات سن رہا تھا، قمرجہاں کی بیتابانہ کیفیت کو دیکھ کر بہت پریشان ہوگیا اور آنسو دیکھ کر اس کے دل پر ایک چوٹ سی لگی۔ اس نے نہایت ہمدردانہ لہجہ میں تسلی دیتے ہوئے کہا،
میری پیاری بہن تم رنجیدہ نہ ہو۔۔۔ تم رو رہی ہو۔۔۔ نہیں ابھی نہیں۔ ابھی سلیم زندہ ہے، ابھی تمہارا ایک بھائی زندہ ہے، اس کی زندگی تک غمگین نہ ہو۔ وہ اپنی موجودگی میں اپنی ایک عزیز بہن کو اشکباراور مغموم نہیں دیکھ سکتا۔ تم اس امر کی زیادہ فکر نہ کرو۔ میں والدسے روپیہ دلانے کی ضرور کوشش کروں گا۔
قمرجہاں: مگر بھائی یقینی طور سے تم نہیں کہہ سکتے؟
سلیم: (کچھ سوچتے ہوئے) یقینی طور سے۔۔۔؟ ہاں قمر یقین کے ساتھ کہہ رہا ہوں۔۔۔ انشاء اللہ ضرور روپیہ دلادوں گا۔۔۔ تم اپنے آپ کو اس قدر پریشان نہ کرو۔۔۔ کیا اسی وجہ سے مضطرب تھیں؟
قمر جہاں: آہ کیا یہ مصیبت کم ہے؟ تم نہیں سمجھ سکتے میری اس مصیبت کو۔۔۔ آہ بھائی اس قرض کی وجہ سے جو جو بھیانک اور تاریک اوہام اور خیالات دماغ اورنظر میں سماتے رہتے ہیں، ان کا تصور کپکپی پیدا کردیتا ہے۔ سلیم آہ اگر کارخانہ نیلام ہوگیا تو ہم پر کتنی مصیبتیں نہ آجائیں۔ سوچو تو سہی۔۔۔ ہمارا گھر چھن جائے گا، ہماری امیرانہ زندگی کاخاتمہ ہوجائے گا اور ہماری حالت ایک فقیر سے بھی بدتر ہوجائے گی۔ سلیم ہم کسی لایق نہ رہیں گے۔
سلیم: (تسکین دیتے ہوئے) میری عزیز بہن! اب خدا کے لیے ان خیالات کو بھول جاؤ، ان اوہام کو دل سے نکال ڈالو۔ میں ہر ممکن مدد کے لیے تیار ہوں اور مجھے امید ہے کہ میں اس کام میں کامیاب بھی رہوں گا۔ تم میری طرف سے مطمئن رہو۔۔۔ مگر روپیہ کی کب تک ضرورت ہے؟
قمرجہاں: پرسوں تک قرض خواہوں کو پہنچ جانا چاہیے۔
سلیم: میں کل ابا جان سے ضرور کہوں گا۔
قمرجہاں: کل تک مجھے رقم مذکور مل جانی چاہیے۔۔۔ اگر دیر ہوئی تو مجھے پھر آنا پڑے گا۔
سلیم: نہیں مجھے امید ہے کہ ایسا نہ ہوگا۔
قمرجہاں: پیارے بھائی تمہارا یہ احسان کبھی نہ بھولوں گی۔ خداحافظ۔
سلیم: خداحافظ۔
(۴)
سلیم گزشتہ واقعات پر غور و خوض کر رہا تھا اور طرح طرح کے خیالات اس کے دماغ میں آرہے تھے۔ اس نے ارادہ کرلیا کہ خواہ کچھ بھی ہو، وہ قمرجہاں کی التجا پوری کرنے میں کوئی بات فروگزاشت نہ کرے گا۔ وہ اس وقت اپنے والد کے کمرے میں ایک کرسی پر بیٹھا تھا اور سامنے کی دیوار پر لٹکے ہوئے ایک کیلنڈر کو، جس میں ایک حسین لڑکی کی تصویر بنی ہوئی تھی، دیکھ رہا تھا۔ قمر جہاں کی بھولی صورت اور اس کااضطراب اس کی آنکھوں میں رقصاں تھا اور وہ اس میں بالکل محو تھا۔ اس نے اپنے دل سے سوال کیا، ’اگر والد نے روپیہ دینے سے انکار کردیا تو۔۔۔؟‘
یہ کہتے ہی وہ گھبراگیا اور اس پر بدحواسی طاری ہوگئی۔ قمرجہاں اور اس کے والد کے مستقبل کا جگرفگار اور وحشت ناک منظر اس کی محبت ریز نگاہوں میں بجلی کی سی تیزی سے کوندنے لگا اور سلیم کو پریشان کرنے لگا۔ اسے ایسا محسوس ہونے لگا جیسے وہ کانٹوں پر گھسیٹا جارہا ہے۔ ’اگر انکار کردیا تو؟‘ اس نے مکرر اپنے دل سے سوال کیااور اک دم اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ اس نے دیکھا کہ عابد اپنی میز پر بیٹھے سگار پی رہے ہیں اور کاغذات الٹ پلٹ کر رہے ہیں۔ وہ آکر باپ کے سامنے کھڑا ہوگیا۔
سلیم: ابا جان، کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔
عابد: کیا کہنا چاہتے ہو؟
سلیم: ابا جان۔ اس میں کوئی نقصان کی بات نہیں ہے کہ آپ پھوپا میاں کو بیس ہزار قرض دے کر مصیبت سے بچالیں۔
عابد: سلیم تم نے ایسی بات کہی جو مجھے کسی طرح بھی منظور نہیں۔ مگر تم سے پھوپا کی سفارش کرنے کو کس نے کہا؟
سلیم: سفارش؟ ابا جان ان کی موجودہ حالت اور پریشانیاں دیکھ کر مجھے خود مجبوراً سفارش کرنی پڑی۔
عابد: مگربیٹا تم نہیں جانتے کہ اس وقت میرے پاس اتنا روپیہ نہیں ہے اور اگر ہوتا بھی تو شاید میں دینے سے انکار کردیتا، اس لیے کہ آج کل قرض دینے کا زمانہ نہیں۔ اگر دے دیا تو پھر ہمیشہ کو اس سے ہاتھ دھولینا چاہیے۔
سلیم: نہیں ابا جان! یہ کیسے ہوسکتا ہے، ان کا کارخانہ چلنے لگے گا تو وہ ضرور ادا کریں گے۔ آپ انکار نہ کیجیے، بنک میں پڑے رہنے سے تو یہ بہتر ہے کہ اس روپیہ سے اپنے ایک عزیز کی امداد کی جائے۔
عابد: (سختی سے) میں کہہ رہا ہوں کہ اس وقت بنک میں بھی نہیں ہے اور اس کے متعلق کچھ نہیں کرسکتا۔
یہ جواب سن کر سلیم کے چہرہ پر افسردگی چھاگئی۔ وہ اس انکار سے بیتاب ہو رہا تھا۔ اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کس طرح باپ کو راضی کرے۔ اس کی زبان بند ہوگئی تھی۔ اس کا تمام جسم غصے سے کانپ رہا تھا مگر وہ ضبط کیے ہوئے خاموش کھڑا تھا۔ اس اثناء میں خادمہ نے عابد سے آکر کہا کہ قمر جہاں اس سے ملنا چاہتی ہیں، اندر انتظار کر رہی ہیں۔
عابد: ابھی مجھے اندر جانے کی فرصت نہیں، اگر ضروری کام ہے تو ان سے کہو کہ یہاں آکر مل لیں۔ کمرے کے دروازے بند کردیے گئے۔ قمرجہاں داخل ہوئی۔ چہرے سے نقاب سرکاکر اس نے ماموں کو سلام کیا اور پھر عابد کے قریب آگئی۔ سلیم ہٹ کر دور چلا گیا اور دیوار کی طرف منہ کرکے خاموشی سے سننے لگا۔
قمرجہاں: ماموں جان خدا کے لیے ہمیں آنے والی مصیبت سے بچائیے اور والد کو روپیہ قرض دے دیجیے۔ اگر آپ نے انکار کردیا تو دنیا میں کہیں ہمارا ٹھکانا نہ ہوگا۔
عابد: قمر تمہاری درخواست منظور کرنے میں مجھے کوئی عذر نہ ہوتا۔ مگر مجھے سخت افسوس ہے کہ اس وقت میرے پاس روپیہ موجود نہیں۔
قمرجہاں: ماموں جان آپ یہ نہ فرمائیے۔ آپ چاہیں تو سب کچھ کرسکتے ہیں۔ خدا کے لیے اپنی ایک بھانجی پر رحم کیجیے۔ اسے آنے والی مصیبت سے بچائیے۔ قمریہ کہہ کر رونے لگی۔ سلیم نے کن انکھیوں سے دیکھا اور تڑپ کر رہ گیا۔
عابد: تمہارا کہنا بالکل درست ہے مگر میں مجبور ہوں۔
قمرجہاں: (خفیف سی نفرت اور غصہ سے) ماموں جان آپ انکار کر رہے ہیں مگر مجھے معلوم ہے کہ آپ کے پاس کافی دولت ہے۔ یاد رکھیے کہ اگر میرے والد کو کوئی صدمہ پہنچا تو اس کا سارا عذاب آپ کے سر ہوگا۔ ہمارا خدا مالک ہے۔ یہ کہتی ہوئی قمر جہاں کمرے سے باہر نکلی اور چلی گئی۔ سلیم قمر جہاں کی جنون زاکیفیت اور آنسوؤں کے تصور سے سیماب کی طرح بیتاب ہو رہاتھا۔ قمرجہاں کی پُرنم آنکھیں اس پر قیامت ڈھارہی تھیں اور باپ کا انکار اسے لخطہ بہ لخطہ برہم کرتا جارہا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ پھر عابد کے پاس جاپہنچا۔
سلیم: ابا جان اگر آپ اس روپے سے ایک عزیز کی مدد نہ کریں گے تو یہ پھر کس کام آئے گا؟
عابد: (غصے سے) سلیم تو پاگل ہوگیا ہے جو ایسی باتیں کر رہا ہے۔ تونے بیس ہزار کھیل تماشہ سمجھ لیا ہے؟
سلیم: کھیل تماشہ نہ سہی، مگر ابا جان مجھے معلوم ہے کہ نہ دینے کا انجام اچھا نہ ہوگا۔
عابد: (برہم ہوکر) خبردار زیادہ زبان درازی ٹھیک نہیں۔۔۔ جا تو میرے سامنے سے دور ہوجا۔ میں اب تیری صورت دیکھنا بھی نہیں چاہتا۔
سلیم: لیجیے میں تو جاتا ہوں۔ مگر آپ دیکھیے گا اس حرص کا نتیجہ۔
سلیم دروازے کی طرف بڑھامگر اس اثناء میں حمیدہ بانو آگئیں۔ سلیم کو جاتے دیکھ کر اس کا دامن پکڑ لیا اور عابد سے مخاطب ہوکر بولیں، کیوں کیا بات ہے؟ یہ کیسا غصہ ہے؟
عابد: جانے دو اس بدزبان کو۔ اسے میرے گھر میں رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
حمیدہ بانو: کیوں آخر کوئی وجہ بھی ہے؟
سلیم: امی جان آپ جانتی ہیں کہ اس وقت پھوپا صاحب کو روپے کی ضرورت ہے، میں نے قرض دینے کے متعلق کہا تو ابا برافروختہ ہوگئے۔
حمیدہ بانو: یہ تو کوئی غصے کی بات نہیں تھی۔
عابد: غصے کی بات نہیں۔۔۔ تم نے کیا سمجھ رکھا ہے اپنے بیٹے کو۔ یہ بہت بدزبان ہوگیاہے۔ بیس ہزار روپے اس نے کنکر پتھر سمجھ لیے ہیں۔ چاہتا ہے کہ لٹادوں۔ پھینک دوں۔ اس پر طرہ یہ کہ لڑنے پر تیار ہے۔ بس میں کہہ رہا ہوں کہ اسے فوراً گھر سے نکل جانے دو۔
حمیدہ بانو: اس نے بری بات نہیں کہی تھی۔
عابد: تو گویا تم بھی یہی چاہتی ہو کہ بیس ہزارایسی جگہ پھینک دوں جہاں سے واپس ملنے کی کوئی امید نہیں۔
سلیم: امی اس بحث کو رہنے دیجیے۔ دیکھا جائے گا۔
وہ دروازے کی طرف تیزی سے جھپٹا۔ حمیدہ بانو کی تمام کوششیں اسے روکنے میں بیکار ثابت ہوئی۔ وہ بہت جلد نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ حمیدہ بانو لڑکے کی اس جدائی سے بہت مضطرب ہوگئیں اور منہ لپیٹ کر ایک کرسی پر پڑگئیں۔ عابد کرسی پر بیٹھ کر نہایت غصے اور بے چینی سے موجودہ واقعات پر نظر دوڑانے لگا۔
(۵)
چاندنی کی سنسان رات میں قمر جہاں محروم و مایوس اپنے گھر لوٹی۔ اس کا دل ٹوٹ گیا تھا۔ ماموں کی طرف سے صاف انکار تھا۔ اور اب ہر طرف سے پوری طرح ناامیدی ہوچکی تھی۔۔۔ صرف سلیم کی طرف سے ایک موہوم سی امید باقی تھی۔ وہ اس وقت نہایت بے چین اور مضطرب ہو رہی تھی۔۔۔ جیسے خونی مجرم قتل کا حکم سن کر اپنی زندگی سے مایوس ہوجاتا ہے اور اس دن کا نہایت پریشانی سے انتظار کرنے لگتا ہے جب اسے پھانسی دی جائے گی اور قیدخانے کے تاریک گوشے میں بیٹھ کر وہ دنیا بھر کے خیالات میں سرگرداں رہتا ہے اور ایک ایک بات کے خیال سے تڑپ تڑپ جاتا ہے۔۔۔ اسی طرح قمرجہاں اپنے دل کو چٹکیوں میں مسل رہی تھی، اپنے جذبات آزردہ کے تلاطم کو روکنے کی سعی کر رہی تھی او ربے کل ہوئی جارہی تھی۔
اس نے اپنی پریشانیوں کو ایک حدتک چھپانے کی کوشش کی اور اس میں کامیاب بھی ہوئی۔ پھر دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ باپ کے کمرے کی طرف آئی۔ چپکے سے دروازہ کھول کر اندر دیکھا۔۔۔ وہ یکایک دیکھ کر گھبرا اٹھی تاہم خاموش رہ کر دیکھنے لگی۔۔۔ اقبال نے پستول میں کارتوس بھرلیے اور پھر اسے میز کے ایک خانے میں رکھ کر بند کردیا۔ اس کا چہرہ بہت اترا ہوا تھا اور اس کے ہر انداز اور حرکت سے ایک وحشت اور بے قراری ٹپک رہی تھی۔ اس نے گھڑی پر نظر دوڑائی اور پھر دونوں ہاتھوں سے سرپکڑ کر ایک کرسی پر گرپڑا۔
قمرجہاں اندر داخل ہوئی۔ باپ کے پاس پہنچ گئی اور اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہنے لگی، ابا جان اس وقت آپ کا مزاج کیسا ہے؟ آپ زیادہ غمگین ہیں؟
اقبال: آہ، قمر پیاری قمر نہ پوچھو۔۔۔ کہیں سے روپیہ ملنے کی امید نہیں ہے۔ عابد نے تو سب سے پہلے انکار کردیا تھا۔ اب قرض خواہ آتے ہوں گے۔ انھیں میں کیا جواب دوں گا۔ اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ ہمیں فوراً گھر خالی کردینا پڑے گا، کارخانہ قرق ہوجائے گا اور ہمارا کہیں بیٹھنے کا بھی ٹھکانا نہ ہوگا پھر ایسی زندگی سے تو مرجانا بہتر ہے۔
قمرجہاں: ابا جان خدا کی ذات سے یہ بات بعید نہیں کہ وہ اس وقت تک کوئی ذریعہ پیدا کردے۔ آپ کو اس قدر مایوس نہ ہونا چاہیے۔ اس نے جس طرح اوروں کی مصیبتیں ٹالی ہیں ہماری مشکل بھی آسان کردے گا۔ مگر ابا جان کیا کل تک وہ اور نہیں ٹھہر سکتے؟
قمرجہاں باتیں کرتے کرتے میز کے قریب آگئی۔ ہاتھ پیچھے لے جاکر میز کا خانہ کھولا۔ پستول نکال لیا اور چپ کھڑی رہی۔ اقبال کو پتہ نہ چلا، وہ سرجھکائے غمگین بیٹھا تھا۔
اقبال: نہیں وہ اب ہرگز نہ مانیں گے۔ یہ آخری وعدہ ہے، وہ ضرور کسی نہ کسی طرح آج اپنا روپیہ وصول کرلیں گے۔
قمرجہاں: اباجان میں ہاتھ جوڑ کر، منت اور عاجزی کرکے، غرض کسی طرح بھی انھیں کل تک کے لیے رضامند کرلوں گی۔ آپ نہ گھبرائیے مجھے امید ہے کہ کل تک روپیہ کہیں نہ کہیں سے مل جائے گا۔
اقبال: کل تک۔۔۔ کہاں سے مل جائے گا۔۔۔ عابد نے دینے کا وعدہ کرلیا ہے؟
قمرجہاں: اباجان یہ نہ پوچھیے۔ مگر کل تک مل جائے شاید۔
اقبال: قمر۔ قمر۔ میرے کان کیا سن رہے ہیں مجھے یقین نہیں آتا۔
قمرجہاں: اباجان۔۔۔ ہاں ماموں نے۔۔۔ شاید کل تک دے دیں۔
یہ کہہ کر قمرجہاں پستول چھپائے ہوئے نکل کر چلی گئی۔
(۶)
سلیم اپنے باپ کے کمرے میں مضمحل اور متفکر داخل ہوا۔ اس کے ہاتھ میں ایک کتاب تھی۔ وہ میز کے پاس پہنچ گیا اور کرسی پر ایک محویت کے عالم میں بیٹھ گیا، جیسے کوئی نیند کی حالت میں بیٹھنے کے لیے مجبور کردیا جائے اور نیند کی وجہ سے سونے کے لیے بے قرار ہورہا ہو۔۔۔ اسی طرح سلیم بے قرار ہو رہاتھا۔ پھر اس نے میز پر رکھا ہوا برقی لیمپ روشن کیا اور کتاب کے چند اوراق الٹے، کچھ دیر ایک صفحہ پر نگاہیں جمائے رہا۔ پھر اس نے کتاب بند کردی۔ اسے بیچ میز پر رکھ کر اٹھا اور آہستہ آہستہ کمرے سے نکل گیا۔
اب رات کے نو بج چکے تھے۔
عابد تھکا ہوا اپنے کارخانے سے پلٹا تھا۔ اس کے دماغ پراگندہ میں گزشتہ واقعات اب تک گردش کر رہے تھے اور اس نے تمام دن بے چینی کے ساتھ گزارا تھا اور اسی وجہ سے آج جلد گھر آگیا تھا۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی اس کی نظر سب سے پہلے اس کتاب پر پڑی جو میز پر رکھی ہوئی تھی اور جس پر سرخ اور جلی حروف میں ’دوزخ کی سیر‘ لکھا ہوا تھا۔ عابد کتاب کا نام پڑھ کر کچھ ایسا متاثر ہوا کہ بلا کسی استفسار کے کپڑے پہنے ہوئے کرسی پر بیٹھ گیا۔ پنکھا کھول دیا اور کتاب اٹھاکر پڑھنے لگا۔۔۔ اور ہمہ تن محو ہوگیا۔۔۔
سلیم: ابا جان پھوپا میاں کی بربادی اور تباہی میں نہیں برداشت کرسکتا۔ خدا کے لیے آپ اُن کی مدد کیجیے۔
عابد: سلیم تم ابھی بچے ہو۔ روپے کے معاملات سے محض نابلد ہو۔ تم نہیں جانتے کہ روپیہ کس محنت سے حاصل ہوتا ہے۔ پھر اتنی بڑی رقم قرض دینا کہاں کی عقل مندی ہے؟ تم مجھ سے ناحق سفارش کرتے ہو۔ میں آخری بار کہتا ہوں کہ میں اس معاملے میں کچھ نہیں کرسکتا۔
سلیم: مگر شاید آپ کو معلوم نہیں کہ پھوپا میاں کو اگر راحت نصیب نہ ہوئی تو مجھے بھی چین نہ ملے گا۔
عابد: اس کے کیا معنی؟ سلیم اس کے کیا معنی؟
سلیم: اباجان یہ نہ پوچھیے۔ میں معنی نہیں بتاسکتا۔
عابد: سلیم تمہیں اپنے والد سے کوئی بات نہ چھپانی چاہیے۔ جو بات ہو سچ سچ کہہ دو۔ کس نے تمہیں اس ہمدردی کے لیے مجبور کیا؟
سلیم: اباجان آپ ناراض ہوں گے۔۔۔ مگر مجبوراً عرض کرتا ہوں کہ قمرجہاں ایک نہایت شریف لڑکی ہے اور اسی کی محبت مجھے مجبور کر رہی ہے۔
عابد: (برہم ہوکر) سلیم تو ایک بے حد دولت مند بے انتہا امیر سوداگر کالڑکا ہے۔ قمر ایک مفلس باپ کی چھوکری سے محبت کرتا ہے۔ نہیں نہیں یہ ہرگز نہیں ہوسکتا۔ یہ بات تمام عمر نہ ہوگی۔۔۔ سلیم یہ غور سے سن لے کہ قمر سے تیری شادی تاقیامت نہیں ہوسکتی اور تجھے اس لغوخیال کو دماغ سے نکال دینا چاہیے۔ تیرے لیے شہر کے بڑے بڑے تجار خواہش مند ہیں۔ وہ اپنی لڑکیاں تجھے دینے کو تیار ہیں۔۔۔ لڑکیاں اور بے انتہا دولت بھی۔
سلیم: اباجان دولت کو جھونکیے جہنم میں۔ مجھے سوداگروں کی پروا ہے نہ ان کی لڑکیوں کی۔ نہ دولت کی۔۔۔ اس وقت میں آپ سے صرف یہی دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ کیا آپ کو قرض دینے سے انکار ہے؟
عابد: ہاں انکار۔ بالکل انکار۔
سلیم: ابا جان انکار نہ کیجیے۔ اس کا انجام بہت برا ہوگا۔ اپنوں کی بددعا نہ لینی چاہیے۔ میں آپ کے اس انکار کو آپ کی تباہی کے مترادف سمجھتا ہوں۔ یاد رکھیے کہ بعد میں کفِ افسوس ملنے کا موقع بھی نہ رہے گا۔
عابد: بدزبان خاموش رہ۔ تیری طرح بدذات لڑکے میں نے بہت دیکھے ہیں اور مجھے اس بات کا ذرا بھی افسوس نہیں کہ تو بھی انھیں نالایقوں میں شامل ہوگیا۔ اگر تو اپنی زندگی چاہتا ہے تو میرے سامنے سے دور ہوجا نکل جا۔
سلیم: ہاں میں جانے کو تیار ہوں لیکن بغیر روپیہ لیے نہیں ٹل سکتا۔
عابد: (قہرآگیں نگاہوں سے دیکھ کر) بدذات روپیہ لے گا؟
یہ کہتے ہی عابد طوفان کی طرح اٹھا اور اس طرح سلیم پر جھپٹاجیسے ایک عقاب، جو پہاڑ کے کسی درّے میں بیٹھا شکار کی تلاش میں نظریں ہر طرف دوڑایا کرتا ہے، اسے بیٹھے بیٹھے کئی دن گزرجاتے ہیں اور وہ بھوک سے بیتاب ہونے لگتا ہے اور جب کوئی شکار اسے نظر آتا ہے تو وہ نہایت خوف اور غصے سے اس پر جھپٹتا ہے اور اسے پکڑ لیتا ہے۔۔۔ اسی طرح عابد جھپٹا اور سلیم کی گردن پکڑ لی۔ اس اثناء میں حمیدہ بانو دوڑ پڑیں اور دونوں کو الگ کرنے لگیں۔ عابد غصے سے دیوانہ ہو رہا تھا۔ الگ ہوتے ہی وہ دوسرے دروازے کی طرف لپکا۔ اور ساتھ ہی ایک زناٹے کی آواز کمرے میں گونج اٹھی۔ حمیدہ بانو زخمی ہوکر گرپڑیں اور ان کی روح پرواز کرگئی۔ دوسرا فائر ہوا مگر گولی خالی گئی۔ تاہم سلیم جان بچانے کی غرض سے زمین پر گرپڑا اور ساکت ہوگیا۔
عابد نے طمنچہ پھینک دیا اور اسی دیوانگی کے عالم میں ننگے سر گھر سے نکل کر بھاگا اور ایک تاریک اور سنسان راستے پر جہاں انتہائی خاموشی اور دہشت برس رہی تھی، بے ساختہ بھاگنے لگا۔ یکایک اسے رونے کی ایک نہایت دل فگار آواز سنائی دی۔ وہ اس آواز کی طرف بڑھا۔ اس میں ایک کشش تھی۔ عابد آپ ہی آپ اس کی طرف کھنچنے لگا۔ جیسے ایک جہاز، جو بے حد طوفانی موجوں اور آندھیوں میں ہچکولے لیتا رہا ہے اور جب وہ وہاں سے باہر نکلتا ہے تو اس کے قریب ہی ایک مقناطیس کا پہاڑ بھی ہوتا ہے اور وہ آپ ہی آپ اس پہاڑ کی طرف بہنے لگتاہے۔۔۔ اسی طرح عابد بھی اس آواز کی طرف قدم اٹھانے لگا۔
اور آخر اسے وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ یہ آواز اقبال کے مکان سے آرہی ہے۔ وہ بلا پس و پیش اندر داخل ہوگیا۔ وہاں کا قلب شکن منظر دیکھ کر وہ سکتے میں آگیا۔ اس نے دیکھا کہ ایک پلنگ پر اقبال لیٹا ہے اور اس پر ایک سفید چادر پڑی ہوئی ہے۔ اس سے کچھ فاصلے پر ایک الماری کی آڑ سے قمر جہاں کھڑی زاروقطار رو رہی ہے۔۔۔ وہ یہ دیکھ کر خوف زدہ ہوگیا۔ اسے قدم اٹھانے کی جرأت نہ ہوئی۔ اسے معلوم ہونے لگا کہ کسی نے اس کے پاؤں زمین میں گاڑ دیے ہیں۔ اسے ایسا محسوس ہونے لگا کہ جیسے چلنے کی طاقت سلب کرلی گئی ہے۔۔۔ تاہم وہ کوشش کرکے آگے بڑھا اور قمرجہاں کے پاس پہنچ گیا۔
عابد: آہ، قمر جہاں تم اس غم میں مبتلا ہو۔ مجھے سخت افسوس ہے۔
قمرجہاں: (دردناک لہجے میں) اب افسوس سے کیا فائدہ؟ آپ ہی میرے والد کی موت کاباعث ہوئے ہیں۔ اگر آپ قرض دے دیتے تو کیوں اس غم کا منہ دیکھنا پڑتا اور میرے والد کیوں خودکشی کرتے۔
عابد: میں اس وقت غافل ہوگیا تھا۔۔۔ مگر چلو قمرجہاں چلو اب تم میرے ساتھ چل کر رہو۔ آہ، اب میں تمہیں عمر بھر اپنے پاس سے جدا نہ کروں گا۔ چلو قمر پیاری قمر، اس خوفناک مقام پر زیادہ نہ ٹھہرو۔ اب میں تمہارے لیے سب کچھ کرنے کو تیار ہوں۔
قمرجہاں: ماموں جان اب جاکر کیا کروں گی۔ جب وقت پر آپ نے مدد نہ ی تو میں اب آپ کی عنایت کیا کروں گی۔۔۔ آپ جائیے۔ میں یہاں سے نہ جاؤں گی۔ آہ اب مجھے نہ چھیڑیے۔
عابد بہت دیر تک قمرسے چلنے کے لیے کہتا رہا لیکن وہ راضی نہ ہوئی۔ مجبوراً وہ چپ ہوگیا۔ اس کی نگاہوں میں موت کی تصویر منعکس ہوگئی۔ وہ دیکھنے لگا۔۔۔ متحیر اور حوف زدہ ہوکر دیکھنے لگا۔
’’فرشتے اقبال کو کشاں کشاں لے گئے۔ انھوں نے اسے ایک ایسے خوفناک مقام پرپہنچادیا جہاں بے شمار انسان آگ میں جل رہے تھے اورآسمان سے بھی آگ برس رہی تھی۔ فرشتے بعض انسانوں کو گزوں سے مار مارکر خون کے ابلتے ہوئے حوضوں میں گرا رہے تھے۔‘‘ وہ چپ چاپ دیکھتا رہا، ’’آخر فرشتے اقبال کو لے کر اوپر کی طرف اڑے اور اسے خون کے ایک کھولتے ہوئے حوض میں چھوڑدیا۔‘‘
عابد یہ دردناک منظر دیکھ کر بدحواس ہوگیا۔ دیوانہ وار گھر سے نکلا اور اپنے کارخانے کی سمت بھاگنے لگا۔ ابھی وہ بہت دور نہ گیا تھا کہ کارخانہ کی طرف تمام آسمان شعلوں سے روندھا ہوا نظر آیا۔ وہ یہ دیکھ کر بہت پریشان ہوگیا اور زیادہ تیزی سے دوڑنے لگا۔ اب اسے ایک شور محشر سنائی دینے لگا تھا۔۔۔ وہ بہت زور زور سے دوڑنے لگا اور اس مقام پر پہنچ گیا، جہاں اس کے عالیشان کارخانے کی عمارت میں، جس میں بنک بھی شامل تھا، آگ لگی ہوئی تھی۔ ہر طرف لوگوں کا مجمع تھا اور بالائی منزلوں سے عورتیں، بچے، جوان اور بڈھے جان بچانے کی غرض سے نیچے کود رہے تھے اور پانی کے انجن آگ بجھانے میں مصروف تھے۔ وہ بیتابانہ، لوگوں کے مجمع کو چیرتا پھاڑتا آگے بڑھا اور مکان کے سامنے پہنچ گیا۔ وہ اپنے آپ کو آگ میں گرادینا چاہتا تھا کہ پولیس کے دو کانسٹبلوں نے اس کے بازو پکڑ لیے جو اس کی تلاش میں پھر رہے تھے اور اسے لے کر چلے گئے۔
عدالت نے خون کے جرم میں پھانسی کا حکم دے دیا۔۔۔ عابد کو پھانسی دے دی گئی۔۔۔
’’فرشتوں نے اسے ہر طرف سے پکڑ لیا اور کھینچتے اور مارتے ہوئے جہنم کی طرف لے چلے۔ وہ ایک راستے سے گزرا، جہاں کروڑوں انسان آگ میں ادھر اُدھر بھاگ رہے تھے۔ ہر طرف آگ روشن تھی اور فرشتے ان پر گزوں کی بارش کر رہے تھے جن سے شرارے نکل رہے تھے۔ پھر وہ ایسے مقام پر پہنچا جہاں لوگوں کے کاندھوں پر بہت بڑے بڑے وزنی پتھر تھے۔ ان کے پاؤں اور کمر میں بوجھل زنجیریں پڑی ہوئی تھیں اور فرشتے جانوروں کی طرح انہیں ایک سمت سے دوسری سمت ہنکاتے پھر رہے تھے۔ پھر وہ ایک اور گوشے سے گزرا جہاں بہت حسین عورتیں بیتابانہ بھاگ رہی تھیں اور ان پر آگ آسمان سے برس رہی تھی۔۔۔ وہ پھر ایک ایسی جگہ پہنچا جہاں لوہے کی سلاخوں پر عورتوں اور مردوں کو لٹایا جارہا تھا اور فرشتے ان کو بجلی کے تازیانوں سے مار مار کر گرارہے تھے۔۔۔ آخر وہ ایک نہایت خوفناک، مہیب شکل اور کوہ پیکر فرشتے کے پاس لایا گیا، جس کی آنکھیں خون کی طرح سرخ اور تاباں تھیں۔ اس کی پیشانی پر سیکڑوں بل پڑے ہوئے تھے۔ اور اس کے ہاتھ میں ایک بہت بڑا گز تھا۔ ایک فرشتے نے کہا،
’’یہ انسان بہت دولت مند تھا مگر اس نے کبھی خیرات نہ کی۔ اس نے کبھی غریبوں کی امداد نہ کی نہ کبھی بنی نوع انسان کے فائدے کے لیے ایک پیسہ خرچ کیا، یہ بہت حریص تھا اور زرپرست واقع ہوا تھا۔ اس کے علاوہ اس نے ایک بے گناہ انسان کا بلاوجہ خون کیا ہے۔۔۔‘‘ اس ہیبت ناک فرشتے نے ہاتھ اٹھاتے ہوئے کہا، اسے آگ میں ڈال دو۔‘‘
فرشتوں نے اسے گھسیٹنا شروع کیا۔ اور دوسرے فرشتے اس پر گز کی بوچھار کرنے لگی۔ ایک فرشتہ اسے لے کر بہت اوپر اڑا، اور وہاں سے اسے دہکتی ہوئی آگ کے ایک حوض میں چھوڑدیا، جس کی گہرائیوں کی کوئی انتہا نہ تھی۔
(۷)
اقبال نہایت غمگین اور مایوس قمرجہاں کے مجبور کرنے سے آخری بار اور آخری وقت عابد کے پاس آیا۔ وہ اپنے قرض خواہوں کو بھی اپنے ساتھ لایا تھا۔ قمرجہاں کو یہ خیال تھا کہ شاید قرض خواہوں کو دیکھ کر عابد کو کچھ رحم آجائے اور شاید وہ کوئی مفید فصیلہ کردے یا شاید روپیہ دینا گوارا کرلے۔
اقبال اسی لیے آیا تھا۔ وہ اکیلا عابد کے کمرے میں داخل ہوا۔ اس نے دیکھا کہ عابد ایک بڑی سی کتاب پر سررکھے ہوئے پڑا ہے اور اس کی آنکھیں بند ہیں۔ اقبال نے اس کے قریب پہنچ کر اس کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔ عابد اک دم کرسی سے اچھل پڑا اور متوحش و مبہوت ہوکر بے ساختہ چلا اٹھا، ’’آہ فرشتوں اب مجھے نہ پکڑو۔‘‘
اقبال: (متعجب ہوکر) عابد کیوں اس قدر گھبرائے ہوئے ہو، تم آسمان کی باتیں کر رہے ہو مگر ابھی تو تم زمین پر ہو۔
عابدیہ سن کر اقبال کے چہرے کو غور سے دیکھنے لگا۔ پھر اس نے خوشی کا نعرہ لگاتے ہوئے کہا، ’’کیا میں زندہ ہوں؟‘‘ اور اقبال سے لپٹ گیا۔ پھر اقبال کو چھوڑ کر اندر کی طرف دوڑا۔ اس نے دیکھا کہ سلیم ایک طرف سرجھکائے کھڑا ہے اور حمیدہ بانو الماری کھول کر نوٹ نکال رہی ہیں۔ وہ دوڑ کرسلیم سے لپٹ گیا اور پھر اپنی بیوی سے۔ اس وقت اس کی مسرت کی کوئی انتہا نہ تھی۔ حمیدہ بانو کو عابد کی ان حرکتوں سے سخت تعجب ہوا لیکن سلیم سمجھ رہا تھا کہ ضرور اس کتاب نے عابد کو متاثر کردیا ہے۔ عابد بیوی اور بیٹے سے مل کر باہر آیا اور پھر اقبال کو ایک مرتبہ لپٹا لیا۔
عابد: اقبال میں پشیمان ہوں۔ میں شرمندہ ہوں۔ مجھے معاف کردو۔ اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔
اقبال: کیوں کیسی شرمندگی؟ عابد کیوں پشیمان ہو؟
عابد: اقبال مجھے معاف کردو۔ میں نے بہت بے انصافی کی جو تمہارا دل دکھایا۔ لیکن اب معاف کردو۔ میں اسی وقت مطلوبہ رقم دینے کو تیار ہوں۔
اقبال: عابد تم نے کوئی قصور نہیں کیا، تاہم میں معاف کرتا ہوں۔ تمہارا یہ احسان عمر بھر نہیں فراموش کیا جاسکتا۔ اس وقت تم نے ایک بڑی بھاری مصیبت سے بچالیا ہے۔ خدا تمہیں اس کا نیک اجر دے۔
عابد: اقبال میں اپنے لڑکے سلیم کو تمہاری دامادی میں پیش کرتا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ تم منظور کروگے۔
اقبال: اوہ، مجھے کب انکار ہوسکتا ہے۔ میں بہت مسرت سے اس کارِخیر کی تکمیل کے لیے حاضر ہوں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.