Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ڈرینج میں گرا ہوا قلم

احمد ہمیش

ڈرینج میں گرا ہوا قلم

احمد ہمیش

MORE BYاحمد ہمیش

    ایک دستاویزی سیاہ رات کی تاریخ ختم ہوتے ہی جب ہم صبح کو اٹھنے کا ارادہ کرتے ہیں تو پیٹ کی روایتی خرابی ہمیں بستر سے ایک انچ بھی حرکت نہ کرنے پر بے بس کر دیتی ہے۔ اس کے باوجود ہمیں ایک قلم دیاجاتا ہے کہ ہم اس سے آنے والی رات کا ویسا ہی من وعن پروگرام لکھیں، جو پچھلی دستاویزی سیاہ رات کا رہا ہوگا۔

    ہمارے پیٹ میں ایک تیزابی مروڑ ہوئی۔ جلن کے ساتھ درد ایک خاص حصہ میں یکایک رک گیا۔ یعنی اگر رکتا نہ تو کسی طرح باہر ضرورخارج ہو جاتا۔ درد اور گاڑھا ہو گیا۔ لیکن ہمیں پہلی بار انتہائی غصہ آیا۔ ہم نے قلم کو مٹھی میں بھینچ لیا۔

    ’’ہم پروگرام میں تبدیلی چاہتے ہیں۔‘‘ ہم نے سوچا۔

    ’’قلم میں کتنی روشنائی موجود ہے؟‘‘ سوال کسی مصروف کونے سے اٹھا اور اگلی مصروفیت کے رہرسل کے لیے تیار ہو گیا۔

    یعنی سیاہی ابھی موجو د ہے، رہرسل ممکن ہے۔

    ہم نے مٹھی کی ابتدائی گرفت غصہ کے رد عمل میں بدل لی۔ قلم کو انگوٹھے اوراس کے ساتھ کی دو انگلیوں کے درمیان مضبوطی سے دبا لیا اور خود سے اعلان کیا کہ پہلے ہم تمام خراب پیٹوں کے نام ایک اہم مسودہ تیار کریں گے۔ سیاہ دستاویز سے بالکل مختلف۔

    سارا عمل روشنی میں ہوگا۔

    ’’لیکن عمل کاتعلق کس سے ہے؟‘‘ کوئی بھی پوچھ سکتا ہے۔

    کیا ان خود سر محبوباؤں سے، جو محض اپنے پیٹ کی خرابی کی بنا پر ہی ہمارے لیے تنگ ہوئیں حتیٰ کہ وہ مخالف ہوا، جوان کے پیٹ سے نکل کر باہر کھلی ہوا میں ملنا چاہتی ہوگی، دوبارہ انکے دماغ کی طرف پلٹ گئی۔ انہوں نے چہرے سکوڑ لیے، انکی آنکھوں کا رنگ بدل گیا۔ دراصل یہ سب کچھ ہمارے خلاف ہوا۔ حالانکہ اس سے ہمار ے قلم میں کافی روشنائی تھی۔ کیوں کہ ہم اب بھی جو کچھ خارج کرتے ہیں، پھیل جاتے ہیں۔ ہم توا ن عورتوں کے پیٹوں میں بھی تنگ نہیں ہوئے، جب ہم ان میں دردزہ تھے۔ وہ عورتیں جو بےوقوف تھیں۔ کیوں کہ وہ مرچکی ہیں۔ لیکن ان کے پیٹوں کو ہم نے نہیں، ان کے شوہروں نے خراب کیا تھا۔

    ’’ہم کسی مری ہوئی ذمہ داری کو جھیلنا نہیں چاہتے۔‘‘ ہم نے یہ اعلان بنا مائیکروفون کے کیا تھا۔ سو، برا یہ ہوا کہ منہ سے نکلی ہوئی آواز دور تک نہ پھیل سکی۔ جب کہ ہم کچھ چھپانا بھی نہیں چاہتے تھے، ہم کچھ بول بھی نہ سکے۔ اپنے ہی ہاتھوں کا بوجھ اپنے گردزدہ چہرے پر رکھے، ہم ان سوالوں کا انتظار کرتے رہے، جو ہم سے کسی وقت بھی کیے جا سکتے ہیں (مطلب یہ کہ ابھی کئے نہیں گئے۔)

    اس عمل میں ہم سوالوں کو تو سن سکتے ہیں لیکن سوال کرنے والے چہروں کو نہیں دیکھ سکتے۔ اس کے لیے ہمیں اتنا عرصہ درکار ہوگا جتنی دیر میں وہ چہرے ہمارا ضمیر بن جائیں۔

    گویا ہمیں ضمیر کا سفر یاد ہے۔ اترپردیش کے ضلع بلیا میں ایک گھنی مگر کچی سڑک پر ہم نے جس گنوار کو جواور مٹر کے ستو کے ساتھ اس میں تین گنی دھول ملاکر کھاتے دیکھا۔ اس کا کھردرا میلا چہرہ ہم سے پوچھ سکتا تھا کہ ہم اس کی طرح دھول خور کیوں نہیں بن جاتے۔

    ہم دھول بھی نہ کھا سکے۔ ہمارے پاس سے بہت سی چیزیں اور عورتیں نکل گئیں۔ ہم انہیں پہچان بھی نہ سکے۔ ورنہ ہم سے وہ بیمار گدھا بہ درجہا بہتر تھا، جس کی ٹانگوں کے بیچ میں ایک بڑا سا ناسور تھا اور جلد کی سیاہی ادھڑ ادھڑ کر ناسور کے بدگوشت کے ساتھ جھولنے لگی تھی۔ وہ لنگڑا لنگڑاکے چل رہا تھا۔ ایسے میں ہمارا یہ سمجھنا لازم ہوگا کہ وہ اپنے آس پاس چرتے صحت مند گدھوں کی برابری نہیں کر سکتا۔ وہ اپنی نسل نہیں پیداکر سکتا۔ لیکن اس کے برعکس وہ ضرورت پڑنے پر صحت مند گدھوں کی بہ نسبت زیادہ ہی بہک جاتا ہے۔ اپنی نسل پیدا کرنے کے لیے دوڑتا ہے صحت مند گدھوں پر حملہ کرتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کی چھپی ہوئی توانائی جانے کیسے بدگوشت کے ڈھیر سے نکلتی ہے اور دوڑ کے نتیجے سے جاملتی ہے۔

    دھول خوار گنوار اور بیمار گدھا۔۔۔، یہ ہمیں، ہماری بساط سے کہیں زیادہ حیرت میں ڈال دیتے ہیں ورنہ ہم تو مدتوں سے محض چوہوں کے محکوم ہیں اور اتفاق سے یہ چوہے بہت چالاک ہیں۔ کیونکہ انہوں نے بہت پہلے ہی ہماری بساط معلوم کرلی تھی کہ ہمارا پیٹ کسی طرح بھی بھر دیا جائے بشرطیکہ ہم ان کی پہرے داری کریں۔

    سو جنوبی شہر میں ہمیں چوہوں کی پہرے داری ملی۔ تب چوہوں کے دم برداروں نے کہا، ’’چلو روٹی کا توانتظام ہوا۔‘‘

    ہمیں بتایاگیا کہ فلاں چوہے کا فلاں بل ہے اور فی الحال ہمیں وہیں پہرے داری کرنی ہے۔

    گویا ایک چوہا اس مرتبہ پر پہنچ چکا ہے یوں ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہ ائیر کنڈیشنڈ بل میں بیٹھا ہے۔ اس کے ہاتھوں میں ایک قیمتی پنسل ہے، جسے وہ کتر رہا ہے اور اس کے پہلے سے کی گئی مینگنیاں میز پر پڑے کاغذ پر بکھری ہوئی ہیں۔ ہم اس کی میز کے پاس ہی کھڑے ہیں۔ جانے وہ ہم سے کب مخاطب ہو۔ اس کا بوڑھا چپراسی اس کے حکم کے ساتھ ہی ’’پانی لاؤ‘‘ پندرہ منٹ سے پرچ میں پانی کا گلاس لیے کھڑا ہے۔ بڑھاپے کی کمزوری سے اس کا ہاتھ کپکپا رہا ہے۔ لیکن چوہا اتنے انہماک میں مبتلا ہے کہ اس کو پندرہ منٹ سے پرچ میں پانی کا گلاس لیے کھڑا چپراسی نظر نہیں آتا۔ اگرچہ دم بردار اور ہم پاس ہی کھڑے دیکھ رہے ہیں کہ مبادا بوڑھے کے ہاتھ میں گلاس چھوٹ جائے لیکن سب مصلحتاً چپ ہیں۔ حسب عادت صاحب مرتبہ چوہے کا پیٹ خراب ہے۔

    ہم چاہتے ہیں کہ مسودہ روشنی میں تیار کیا جائے۔

    لیکن پہلے تو ہمیں خود بسترسے اٹھنا ہے۔ خود ہمارے پیٹ میں جو کچھ ہے اسے کہیں نہ کہیں خارج کرنا ہے اور ہمیں جو قلم دیا گیا ہے اسے پورے دن سے گذرنا ہے۔ ممکن ہو، قلم میں روشنائی موجود ہو۔۔۔، ہمیں شام سے پہلے ہی تمام خراب پیٹوں سے گذر جانا ہے۔

    سوالوں کے انتظار میں ہم اس روایتی ضمیر سے مایوس ہو چلے ہیں۔ جس کی بنا پر ہم مسودہ ترتیب دینے میں خود سے آمادہ ہوئے ہوں گے لیکن سوال جب اپنے انتہائی لازمی کرب کے باوجود بھی ادا نہ ہو سکے تو اچانک ہمیں ادھورے رہ جانے کا احساس ہوا اور اس نا گہانی ادھورے پن میں ہمیں یہ اندازہ نہ ہوا کب بستر سے اٹھے۔ حالانکہ شہر میں کچھ دن سے پھر لاکھوں خراب پیٹوں کے پرانے ذخیروں کا مسئلہ سڑکوں پر دہرایا جا رہا تھا۔

    ’’ذخیرے کہاں ہیں؟‘‘

    گوداموں میں جمع ہیں۔

    ’’تو کیا لاکھوں لوگوں کی بھیڑ ان ذخیروں کو گوداموں سے باہر نکال لےگی؟‘‘ مسئلے کا دباؤ بہرحال ہم پر پڑتا ہے۔

    آخر کچھ لوگ ایسے بھی تو ہیں جو پرانی خراب سہ سہ کر اس کے عادی ہو گئے ہیں۔ بلکہ ان کے کولہوں پر بار بار دہرائے ہوئے تجربوں کے نشان ہیں۔ وہ کئی کئی دن تک خالی پیٹ اپنے کولہوں پر ضرب جھیل سکتے ہیں۔ انکے چوگرد مطالبوں کی تختیاں لگی رہتی ہیں۔ وہ چلاتے ہیں کہ انہیں انکی گم شدہ غذاؤں کے ذخیرے سونپ دئیے جائیں۔ لیکن مصیبت یہ ہے کہ جو کبھی مطالبہ منظور نہیں کرتے وہ محض ضرب لگاتے ہیں۔ کانوں میں آوازیں نہیں بلکہ پھٹے ہوئے نرخرے سنائی دیتے ہیں اورہم جبراً اس لیے سن لیتے ہیں کہ کل یہ بھی نہیں سنائی دیں گے۔ ہم کہتے ہیں کہ اس ملک کے لوگ صدیوں سے محض فضلہ ہیں، انہیں کسی طرح بحرہند میں اٹھا کر پھینک دیا جائے۔ مگرکون پھینکے گا؟ پھر یہ کہ ہم خود ٹریفک سے بچ بچ کر سڑک پر چل رہے ہیں اور یوں چلنے کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ جس قدر ہم خود کو محفوظ سمجھنے کی غلط فہمی میں ہیں اتنے ہی تناسب سے ہم اپنی قیمت ادا کر رہے ہیں۔ ہم کون ہوتے ہیں لوگوں کو بحر ہند میں پھنکوانے والے؟

    نظامیہ دوا خانہ کے پاس ہم رک جاتے ہیں۔ ہمیں یاد آتاہے کہ پچھلے سال جب ہم اس شہر میں نئے نئے آئے تھے تو ہم نے لوگوں سے درخواست کی کہ ہمارے پاس بھی ایک قلم ہے لہذا ہمیں بھی پہچانا جائے۔ ہم خالی ہیں، ہمیں کچھ بھر دیا جائے۔ لوگوں نے ہماری درخواست منظور کی اور ہمیں مذکورہ دوا خانہ کے ایک وارڈ میں داخل کرا دیا اوریوں روٹی اور رہائش کا مسئلہ حل ہوا تو ہم نے بھی فاضل حکیموں اور وارڈ کے کارکنوں کو اچھی طرح یقین دلا دیا کہ ہم کون ہیں؟

    ایک سال کا عرصہ کچھ زیادہ تو نہیں۔ دوا خانہ کے کارکن تو ہمیں پہچانتے ہی ہوں گے۔ وہاں برآمدہ میں ایک فلش ہے اس سے بہتر اور کون سی جگہ ہو سکتی ہے جب کہ میونسپلٹی کے بیت الخلاء عام طور پر خالی نہیں ہوتے۔ پھروہاں خاکروب صفائی کے لیے تھوڑے سے پانی کے عوض پانچ نئے پیسے لیتے ہیں اور اتفاق سے اتنے پیسے بھی ہمارے پاس نہیں (گویا پیٹ خالی کرنے کے لیے بھی پیسے چاہیئے)۔ کم از کم دواخانہ کے فلش کے لیے تو ہمیں پیسے نہیں دینے پڑیں گے۔ ہاں ممکن ہے، کوئی کارکن اجنبی سمجھ کر ہمیں روکے۔ پھر بھی ہم بڑے اعتماد سے اسے پرانی جان پہچان یاد دلائیں گے۔ ہم اسے قائل کریں گے کہ ہم دراصل مسائل سے بس کچھ ہی دیر کے لیے بھاگ کر آئے ہیں، ہمیں پھر مسائل ہی میں شامل ہو جانا ہے۔

    برآمدہ میں کوئی کارکن دکھائی نہیں دیتا۔ فلش کا دروازہ پہلے سے ہی کھلاہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ہم سے پہلے لوگوں نے کئی بار ڈرینج کو استعمال کیا ہے۔ لوگ بڑی عجلت میں ہوں گے۔ شایدوہ فلش کی زنجیر کھینچ کروہ سب کچھ بہانا بھول گئے، جسے ہم چاہیں تو بہا سکتے ہیں۔ سو، ہم زنجیر کھینچتے ہیں مگرفلش کام نہیں کر رہا ہے۔ ٹنکی میں محض پانی کے قطروں کے رک رک کر گرنے کی آواز سنائی دیتی ہے، جس کا صاف مطلب ہے کہ پانی اپنی ایک مقررہ سطح تک نہیں پہنچ رہا ہے۔ یا بار بار کے استعمال سے پانی بہت کم رہ گیا ہے۔ اس کے باوجود ہم اپنے ایک جانے پہچانے آسن کے سہارے ڈرینج کے نشیبی سوراخ کا احاطہ کرکے بیٹھ جاتے ہیں۔

    ہماری ٹانگیں کانپ رہی ہیں۔ اس کے باوجود بھی ہم جلد سے جلد فلش سے باہر نکلنا چاہتے ہیں کیوں کہ اس عرصہ میں غالباً کئی باردواخانہ کے کارکن فلش کے دروازے کو کھٹکھٹاتے رہے ہیں۔ ظاہر ہے، انہیں اختیار حاصل ہے یا انہیں پتہ لگ گیا ہے کہ ہم باہر سے آکر فلش میں بغیرکسی اطلاع کے داخل ہو گئے ہیں۔ اس لیے انہیں اختیار ہے کہ پرانی جا ن پہچان کی پروا کئے بغیر ہمیں جبراً باہر نکال دیں۔ اس خوف کوضرورت سے زیادہ محسوس کرتے ہوئے ہم عجلت میں اٹھتے ہیں۔ اٹھتے ہی سر چکرانے لگتاہے، ٹانگیں لڑکھڑاتی ہیں اور اچانک جیب سے قلم پھسل کر ڈرینج کے سوراخ میں گر جاتا ہے۔ ہم بہت زور سے چلاتے ہیں، ’’افسوس ہماراقلم۔۔۔!‘‘ آواز ہمارے سر میں چکرا رہی ہے۔ مطلب یہ کہ ہم اپنے اندر ہی چلاتے ہیں۔ آواز فلش سے باہر نہ جا سکی۔ یوں بھی دروازہ کے ساتھ فلش کی کھڑکیاں بھی بند ہیں۔ اب تک تو ہم اشتہاری مرد می کے وہم میں رہے۔ لیکن باہر مسائل بہت طویل ہیں۔ ہم ان میں شامل ہوں تو کیسے ہوں۔ یہ بھی ممکن نہیں کہ ہم خود سوراخ میں ہاتھ ڈال کر کسی طرح قلم کو ٹٹولیں اور اسے باہر نکال لیں یوں ہم سوراخ میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر جھانک رہے ہیں لیکن قلم نظر نہیں آتا۔

    بنا قلم کے ہم پھر ٹریفک سے بےربط سڑک پر چلنے لگتے ہیں۔ اگرچہ موسم اور شہر کے درمیان ایک طرح کی تجارتی خنکی کا معاہدہ سا ہے۔ ایسے میں چالاک لوگ کافی فائدہ اٹھاتے ہیں کیوں کہ انہیں درمیانہ یا آہستہ رفتار سے چلنے میں کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ ٹریفک اس لیے بے ربط ہے کہ شہر کا مزاج صنعتی نہیں۔ بھیڑ تو محض اطمینان اور تفریح کی ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ لوگ ہر حال میں مطمئن دکھائی دینے کی کوشش کر رہے ہیں اور اتنی کثرت سے کہ ہم شمار نہیں کر سکتے۔ معطل خاندانوں کی عورتیں آٹو رکشوں میں سوار شہر کے پل سے دوسری طرف جا رہی ہیں۔ کچھ ہی دیر میں وہ انتہائی قیمتی ہو جائیں گی، فلاں ہال میں ساٹھ سال کاایک فلاں بوڑھا، سامعین اور تماشائیوں کے سامنے اسٹیج پرا پنی عملی سوانح عمری دہرا رہا ہے۔ درجنوں دانشور ادیب اور اخبار نویس بڑے مزے سے اس کو اس وہم میں مبتلا کر رہے ہیں کہ اس کی عمر پھر ایک بار پیچھے کو گھوم گئی ہے۔ نوجوان عورتیں چونک چونک کراسے دیکھ رہی ہیں اور ہم جو خون کی کمی کی بناپر یہ سب کچھ برداشت نہیں کر سکتے، حسد کے مارے اسے گالیاں دینے لگتے ہیں۔ مگر ہال میں جتنے لوگ بھی موجود ہیں ان کے چہروں پر فاضل رطوبت مل دی گئی ہے۔ گویا ملک میں کہیں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ سبھی تفریح میں مبتلا ہیں۔ تھری ایسز بار کے مقابل مین روڈ پرجو شانتا بائی مٹرنٹی ہوم ہے، اس میں دیسی زبان کے ایک ادھیڑ شاعر کی لڑکی کے پیٹ سے ایک لڑکا پیدا ہوا ہے۔ اتفاق سے لڑکی کے شوہر کا باپ بھی دیسی زبان کا ادھیڑ شاعر ہے۔ دونوں ادھیڑ شاعر، مٹرنٹی ہوم کے گول برآمدے میں بیٹھے ہیں۔ دونوں بہت خوش ہیں اورانہیں بدھائی دینے کے لیے شہر کے کئی دیسی زبان کے ادھیڑ بوڑھے شاعر وہاں جمع ہو رہے ہیں۔ یہ منظر کچھ ایسا ہے کہ حقدار ہیجڑے اپنی حق تلف دیکھ کر واپس چلے گئے ہیں اور ہم تو ایسے ناکارہ ہیں کہ ہمیں ہیجڑوں سے بھی ڈر لگتا ہے۔

    حالانکہ اس عرصہ میں ہم نے ڈرینج صاف کرنے والے گاڑھے کپڑے کی ملگجی وردی پہنے کئی خاکروبوں کوراہ میں روک روک کر پوچھاکہ کیا ان میں سے کوئی ہماراقلم ڈرینج سے نکال سکتاہے؟ لیکن ہر خاکروب ہمیں چونک کر دیکھتاہے، بلکہ پاگل سمجھتا ہے۔ اس کے باوجود جب ہم ان سے باربار درخواست کرتے ہیں تو ان میں سے کچھ خاکروب ہم پر رحم کھا کر ہمیں اپنی یونین کے سکریٹری کے پاس لے جاتے ہیں۔ سکریٹری جو اپنے لباس سے کسی سیاسی پارٹی کارکن معلوم ہوتاہے، ہمیں سر سے پاؤں تک گھورتا ہے، ’’فرمائیے؟‘‘

    یہ ایک ایسا انداز ہے جو ایک طرح کی تفریحی ناگواری ظاہرکرتا ہے۔ ایسے میں اگر ہم اس پراصل واقعہ واضح کردیں تووہ ضرور ہمارامذاق اڑائے گا۔ لہٰذا ہم فوراً طے کرتے ہیں کہ ہم اس سے عام باتیں کریں۔ مگر پتہ یہ چلتاہے کہ وہ خود پہلے سے تیار ہے کہ وہ بھی کوئی خاص بات نہیں کر سکتا۔ اگراس حد تک ہی ہمیں یہ علم ہوجائے کہ ایک بے ربط آبادی کے لاکھوں پیٹوں کا فضلہ صاف کرنے والے بھی پیٹ کے مسائل میں مبتلاہیں تو ظاہرہے ہمارا مقصد حل نہیں ہوتا۔ اس طرح توہم میں آئندہ اپنے گم شدہ قلم کی خواہش بھی نہیں رہ جائے گی۔ کم ازکم اتنا فرق توباقی رہنا چاہیے کہ ہم اس کی ضرورت محسوس کریں، اسے تلاش کریں۔

    سو ہم تلاش کرتے ہیں۔ حالانکہ کئی بار ہمیں، شہر کامزاج بالکل ست کر دیتا ہے۔ ہمیں بھلا وادیتاہے کہ ہم ہراس شے سے لاپروا ہو جائیں جس کا تعلق ہم سے ہو۔ اس کے باوجود ہم مصر ہوتے ہیں کہ اصل واقعہ کا دھیان جب تک باقی ہے، تعلق بھی باقی رہ سکتاہے۔

    ڈرینج سیکشن کا انچارج فیصلہ دیتاہے۔ ’’ناممکن۔‘‘

    اسے معلوم ہے کہ واقعہ رونما ہوا، لیکن جس کے لیے ہوا، وہ ڈرینج کے اختیار میں ہے۔

    ’’تو کیا ہم اسے حاصل نہیں کر سکتے؟‘‘ ہماری مایوسی میں تجسس باقی ہے، ڈرینج کاانچارج محسوس کرتاہے۔ ’’فضول!‘‘

    مطلب یہ کہ اب کچھ باقی نہیں ہے۔ انچارج کا فیصلہ بہت حد تک درست ہوگا۔ کیوں کے اتناتوہمیں بھی معلوم ہے کہ ڈرینج لائن بالکل سیدھی جاتی ہے یوں جب لوگ پیٹ بھرنے یا پیٹ خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ٹیڑھی تدبیریں کرتے ہیں۔ ہر موڑ پر مین ہول بناتے ہیں اورانہیں ڈھانپ دیتے ہیں۔ لیکن ڈرینج کو عام طورپر کھلا رکھتے ہیں تاکہ ان کے پیٹ کی خرابیاں کہیں نہ رکیں۔ سیدھی لائن میں بہ جائیں شایدہمارا قلم بھی ہمارے پیٹ کی خرابی ہوگا، جو سیدھی لائن میں بہ گیا۔ شاید مسودہ ترتیب دیتے ہوئے ہم نے ٹیڑھی تدبیروں سے کا م لیا ہوگا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے