Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دکان کی چابی

پونکنم ورکی

دکان کی چابی

پونکنم ورکی

MORE BYپونکنم ورکی

    درگیس اور کوشی دونوں نے مل کر ایک دکان کھولی۔

    انہوں نے بہت دنوں پہلے اس کا پلان بنایا تھا، کیونکہ گھر اور زمین سے جو کچھ آمدنی ہوتی تھی اس سے بڑھتے ہوئے اخراجات پورے نہیں ہو پاتے تھے۔

    ’’روپیہ پھینکنے سے روپیہ ملتا ہے۔‘‘ درگیس نے صلاح دی۔

    ’’گھر اور زمین رہن رکھ کر کوشی نے ڈھائی سو روپے سود پر لیے۔ درگیس نے بھی اتنا ہی پیسہ جمع کیا۔ چاول، مرچ، دھنیا اور اسی طرح کی دوسری چیزوں کی دکان کھول لی۔ خوش قسمتی سے راشن کارڈ بھی ا ن کو مل گئے اور راشن کی وجہ سے ان کا کاروبار بہت اچھی طرح شروع ہو گیا۔

    کوشی اس قابل نہیں تھاکہ دکان پر بیٹھ سکے کیونکہ جب بھی کوئی دکان پر آکر اپنی مصیبتیں سناتا تو کوشی فوراً اس پر اعتبار کر لیتا۔ وہ ہمیشہ انسان پر بھروسہ کرتا تھا۔ اس کے برخلاف درگیس دوسروں کے چکر میں نہیں آتا تھا۔ دکان کا سامان لوگوں میں بانٹ کر گھر جانے کو وہ قطعی تیار نہیں تھا۔ وہ ایک پیسہ کا بھی ادھار نہیں دیتا تھا۔

    ’’ادھار خطرہ ہے۔۔۔ مہربانی کرکے ادھار لینے مت آئیے۔‘‘

    اس طرح کے بہت سے بزنس کے اصول اس نے دکان میں لٹکا دیے تھے۔ ادھار نہ دو تو پہلے تھوڑی سی خفگی ضرور ہوگی مگر پھر سب ٹھیک ہو جائےگا۔ لیکن ادھار دے دو تو پھر زندگی بھر کی خفگی باقی رہےگی۔۔۔ درگیس نے اپنے کاروبار کایہ اصول مقرر کر لیا تھا۔ دکان پر درگیس ہی بیٹھتا تھا، البتہ راشن لانے کا انتظام کوشی کرتا تھا۔ آنے جانے کا حساب لگاکر وہ کاغذدرگیس کے ہاتھ میں تھما دیتا۔

    ’’افوہ۔۔۔ اتنی تفصیل لکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ بتا دیا کرو کہ اتنے پیسے خرچ ہوئے ہیں۔۔۔‘‘ درگیس کہتا۔ مگر کوشی کا مقصد یہی ہوتا کہ دوست کو ایک پیسے کے ادھر ادھر ہو جانے کا بھی شک نہ ہونے پائے۔

    اگرچہ دکان میں دونوں برابر کے حصے دارتھے مگر لوگ پھر بھی ’’درگیس کی دکان۔۔۔ درگیس کی دکان‘‘ ہی کہا کرتے تھے۔ کوشی نے اس بات پر کبھی کوئی دھیا ن نہیں دیا تھا۔ مگر کوشی کی بیوی کویہ بات پسند نہیں تھی۔ کبھی وہ کوشی سے کہتی تھی مگر کوشی نے بیوی کو سمجھایا، ’’تم اس پر دھیان مت دو۔ لوگ اپنی سہولت کے لیے کہتے ہوں گے۔‘‘

    ’’تو کوشی کہنا کون سا مشکل کام ہے؟‘‘ اس کی بیوی اصرار کیے گئی۔

    اپنے دوست کے خلاف بیوی کی اس بات میں اگرچہ سچائی تھی مگر اس کے باوجود وہ بڑے پرسکون اندازمیں آنکھیں بند کر لیتا تھا۔ بیوی کے اس فضول سے شک کے مقابلے میں وہ دوستی کو زیادہ اہمیت دیتا تھا۔ درگیس پر کوشی کو بڑا اعتماد تھا۔۔۔ درگیس تو مجھ سے زیادہ دکان کے لیے محنت کرتا ہے۔ حساب کتاب کے بارے میں کبھی کچھ کہنے کی درگیس سے ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ کوشی نے سوچا کہ میں کم سے کم بیڑی تو پیتا ہی ہوں۔ درگیس کوتو اس کی ضرورت نہیں ہے۔ نہ اس کی کسی سے خاص دوستی ہے۔ سنجیدگی کے ساتھ تجارت کرنے اور حساب کتاب سے مکمل واقفیت رکھنے میں درگیس ماہر ہے۔ لین دین کرنے میں اور لوگوں سے برتاؤ کرنے میں بھی وہ کوشی سے زیادہ ہوشیار ہے۔

    ایک دن کوشی درگیس کی دکان پر بیٹھاتھا۔ اس بار راشن کی دکان پر جو اناج آیا، اس میں کافی ملاوٹ تھی۔

    ’’ایسا اناج ہم لوگوں کو کیسے دیں گے۔ یہ تو گائے کو کھلانے کے قابل ہے۔‘‘ کوشی نے کہا۔

    ’’پہلے آدمی کھا لیں پھر جانوروں کی باری آتی ہے۔‘‘ درگیس نے کہا۔

    ’’جب یہ آدمیوں کے کھانے قابل نہیں تھا تو سرکار نے کیوں دیاہے۔۔۔؟ اور پھر راشنگ آفیسر ہم سے جواب طلب کر سکتے ہیں۔‘‘

    سننے والے سب لوگ بھی درگیس کی رائے سے متفق ہو گئے تو کوشی کو چپ ہو جانا پڑا۔

    ایک آدمی نے ایک سو پچیس گرام پیاز مانگی۔ ورگیس کا ہاتھ خالی نہیں تھا۔ وہ اچھے اور خراب چاول ملانے میں مشغول تھا۔ ایسا نہ کرے تو خراب چیز کس کودیں؟ سب کی نظریں اچھی چیز پر ہی لگی رہتی ہیں۔

    پیاز تولنے کے لیے کوشی ترازو کے پاس آیا تو ورگیس نے ترازو کی جانب دیکھا۔ ترازو کی زنجیر کے اوپروالے حصے میں ایک پیاز اٹکا دینے سے اس کا پلہ برابر ہو جاتا تھا۔ مگر کوشی نے ترازو ٹھیک کیے بغیر ہی پیاز تولنا شروع کر دی۔ اس طرح چار پانچ پیاز کی ڈلیاں زیادہ تل سکتی تھیں اور درگیس یہی دیکھ رہا تھا۔

    ’’نہیں نہیں۔۔۔ پہلے زنجیرکے بیچ میں ایک پیاز اٹکا دو۔‘‘ درگیس نے کوشی کو مشورہ دیا۔ پسینے کی شدت سے گھبراکر درگیس اٹھ کھڑا ہوا۔ کرتا اتارا تو جیب سے چابی’’چھن‘‘ کرتی ہوئی نیچے گر پڑی۔

    ۲

    اس بار کا راشن لینے درگیس گیا تھا۔

    راشن خریدنے کے علاوہ اور بھی کئی باتیں تھیں جوسیدھے سادے کوشی کے بس کی نہیں تھیں۔ درگیس راشن لینے چلا گیا تو کوشی نے سوچا کہ اتنی دیر وہ دکان سنبھالے مگر دکان بند تھی۔ چابی درگیس کے پاس جو تھی!

    کوشی نے سوچا کہ مجھے تکلیف ہوگی، اس خیال سے درگیس خودراشن لانے گیا اور شاید اسی وجہ سے اس نے دکان بھی بند کر دی ہے۔

    بس اتنی ہی سی بات ہے۔

    اس بار راشن میں نوتھیلے چاول تھا۔ اس میں سے چھے تھیلے چاول اس نے وہیں خریدے اور اس طرح دو سو چالیس روپے ہاتھ آئے۔ درگیس نہ تھکا نہ اسے پسینہ آیا۔ اس کے ہاتھوں کو دھول تک نہیں لگی۔ لوگوں کو راشن دیتے وقت درگیس نے سمجھایا، ’’ان کانگریسیوں کے راج میں ہمارا دیش اجڑ گیا۔‘‘

    راشن کی دکان ٹھیک طرح چل رہی تھی۔ کوشی چاہتا تھا کہ دکان سے ہونے والی آمدنی سے کچھ پس انداز بھی کرے۔ اس نے درگیس سے کہا کہ ایک ہزار روپے کا زندگی کا بیمہ کرانا چاہئے مگر درگیس نے اسے آگاہ کرتے ہوئے کہاکہ ایک دو برس تو دکان چلنے دو۔ جو کچھ پیسے ہیں انہیں اگر ابھی بانٹ لیں تو دکان ہی ڈوب جائےگی۔ روپیہ پھینکنے سے ہی روپیہ ملےگا۔‘‘

    کوشی درگیس کی بات سے متفق ہو گیا۔ ورگیس ٹھیک ہی کہتا ہے۔ دکان ان ہی پیسوں سے چل سکتی ہے اور ضرورت پڑے تو دس پانچ روپے بھی لے سکتا ہوں اور پھر دوبرس بعد نفع بانٹنے کی بات اس نے درگیس سے طے کر لی۔

    ایک بار کوشی کی بیوی نے نوکر کو چاول اور مٹی کاتیل لانے کے لیے دکان پر بھیجا۔ نوکر بہت دیر کے بعد لوٹا تو مر یا کٹی نے غصہ میں اس سے پوچھا کہ اتنی دیر کیوں لگائی؟

    ’’ابھی ابھی دیا ہے۔‘‘ نوکر نے جواب دیا۔

    ’’اچھا۔۔۔ وہ بہت پیسے والا ہو گیا ہے تو تم لوٹ کیوں نہیں آئے؟‘‘ مریاکٹی نے سخت غصہ بھرے لہجہ میں کہا۔

    دوسرے دن بھی نوکر دکان سے دیرمیں لوٹا۔ درگیس ان لوگوں کو چیزیں دیتا رہا جو پیسے دےکر خرید رہے تھے۔ نوکر کھڑے کھرے اکتا گیا۔ اتنی دیر ہو گئی۔۔۔ چاچی کیا کہےگی۔۔۔؟ چاچی کے غصہ کووہ اچھی طرح جانتا تھا۔

    وہ لوٹ آیا۔ اس دن مریاکٹی کو سخت غصہ آیا۔

    کوشی نے بیوی کو سمجھایا۔

    ’’دکان ہمار ی ہے۔ سامان بھی ہمارا ہے۔ لینے والوں کی بھیڑ ہو جائے تو ہمیں پیچھے کھڑا رہنا چاہئے۔‘‘

    ’’جی نہیں۔۔۔ یوں کام نہیں چلےگا اب۔۔۔ یہ دوتین دن کی بات نہیں ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ یہ چیزیں وہ مفت دے رہا ہے۔‘‘ مریاکٹی نے کہا۔

    جب کوشی نے پوچھا تو درگیس نے کہا، ’’میں نے اسے پہلے دیکھا ہی نہیں۔ راشن کی دکان ہے۔ بہت بھیڑ ہوتی ہے۔ جب میں نے اسے دیکھا تو وہ چلا آیا۔‘‘

    ’’اسے دیر ہو رہی تھی تو ضروری چیزیں لے جا سکتا تھا۔ میں نے کب اس کا ہاتھ پکڑا تھا؟‘‘

    چاول وغیرہ درگیس نے ایک آدمی کے ہاتھ کوشی کے ہاں بھیج دیے۔

    ادھر تو درگیس بچارا اتنی محنت کر رہا تھا۔ ادھر کوشی کو بیوی اور درگیس کے طعنے سننے پڑتے تھے۔ جب بھی وقت ملتا کوشی دکان پر جا بیٹھتا کیونکہ اس کی بیوی اصرار کرتی تھی کہ کوشی کویا اس کے کسی آدمی کو دکان پر بیٹھنا چاہئے۔

    راشن بھی اب درگیس ہی لا رہا تھا۔ راشن لینے جاتے وقت وہ چابی بھی دکان کی اپنے ساتھ ہی لے جاتا تھا۔ کوشی کے لیے اس بات کی کوئی اہمیت نہ تھی مگر اس کی بیوی اس کو برداشت نہیں کر سکتی تھی۔ پر وہ بس کوشی پرہی غصہ کرکے رہ جاتی تھی۔

    بیوی کی ضد کے آگے ہار مان کر کوشی چند دن تک لگاتار دکان پر بیٹھتا رہا۔ درگیس کام کرتا تھا۔ یہ اسے اچھا نہیں لگتا تھا۔ درگیس نے اپنے کچھ اصول بنا رکھے تھے۔ اب کوشی کچھ کرتا تو وہ درگیس کے اصولوں کے خلاف ہو جاتا، کیونکہ کوشی ان مسائل سے واقف نہیں تھا۔

    مثلاً ایک بار ایک خریدار درگیس کے پاس شکر لینے آیا۔ اسے راشن میں دو پونڈ شکر ملتی تھی۔ کوشی نے کارڈ دیکھ کر شکر تولنے کے لیے کاغذ اٹھایا تو اپنے دوست کو دھوکا دینے والے اس آدی پر درگیس کو غصہ آ گیا، ’’ارے۔۔۔ کیا شکر کے بغیر تمہارے حلق سے کوئی چیز نہیں اترتی!‘‘ درگیس نے کہا۔ ’’جاؤ جاؤ۔۔۔ مجھے معلوم ہے کہ تمہیں شکر کی کچھ ضرورت نہیں ہے۔ کوئی دوا کھانا ہو تو یہاں آ جانا۔‘‘ درگیس نے اس خریدار کو سیدھا گھر بھیج دیا۔ حالانکہ کوشی اسے دو پونڈ شکر دینے جا رہا تھا۔

    درگیس لوگوں کو پہچانتا تھا اور وہ اس گھر سے واقف تھا کہ کس سے کس طرح کا برتاؤ کرنا ہے۔ کوشی میں چاہے کتنی ہی خوبیاں ہوں، پھر بھی درگیس کی سی سوجھ بوجھ اسے بالکل نہیں تھی۔ ایک بار گاؤں کے کسی آفیسر کا نوکر شکر لینے آیا تو شکر دینے کے بعد کوشی نے پیسے مانگے، ورگیس نے فوراً کہا، ’’نہیں نہیں۔ وہ صاحب کا آدمی ہے۔ اس سے پیسے لوگے تو اچھانہیں ہوگا۔‘‘

    سچ تو یہ ہے کہ دکان چلانے میں کوشی بالکل ہوشیار نہیں تھا۔ اسے توحساب کتاب لکھنا بھی ٹھیک طرح سے نہیں آتا۔ اسی لیے وہ سوچتا ہے کہ میں دکان پر کیوں بیٹھوں! اور پھر دوست پر تنقید کرتا تو اور بھی بری بات ہے۔

    ’’اصل بات تو یہ ہے کہ تجارت میرے بس کا روگ نہیں ہے۔‘‘ کوشی نے یہ بات اچھی طرح سمجھ لی تھی۔ چیزیں کاٹنا ہوں تو اس کے لیے دکان میں ایک چاقو رکھا رہتا تھا۔ اس چاقوکے دونوں سرے ہموار تھے اور دو تین جگہ سے دھار ٹوٹ سی گئی تھی۔ اس کے آخری سرے پر ایک رسی باندھ کر اسے میز کے پائے سے باندھ دیا گیا تھا۔

    ’’یہاں آنے والے سب لوگ ہم پر اعتبار نہیں کرتے ہیں۔‘‘ چاقو کو اپنے ہاتھ میں لیے ہوئے کوشی نے کہا۔

    ’’نہ کریں۔۔۔‘‘ درگیس نے کہا، ’’آنے والوں پر اعتبار کرنے کے لیے یہ گرجاگھر ہے؟ بڑے بڑے رسٹورانوں میں بھی دیاسلائی کی ڈبیہ اندر رکھی جاتی ہے اور ضرورت پڑنے پر ہی کسی کو دیتے ہیں۔۔۔ یہ کیوں ہوتا ہے۔۔۔؟ بینکوں میں اور دوسری جگہوں پر پنسل اور قلم کیوں باندھ کر رکھتے ہیں اورپھر اس دکان ہی میں قفل کنجی کیوں ہے۔۔۔؟‘‘

    پہلے سب پر اعتبار کرنا ہی اچھا ہے۔۔۔ مگر اوروں پر بھروسہ نہ کرنے والا درگیس کبھی چابی کونہیں بھولتا۔ ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتا ہے۔

    ۳

    اس دن وہاں کے گرجاگھر میں میلہ تھا۔

    درگیس اور کوشی کے گھرکے سب لوگ وہاں اکٹھے ہوئے تھے۔ پادری نے بائبل کے اہم نکات کو موضوع بناکر ایک خوبصورت لیکچر دیا۔ کوشی کی بیوی کی نگاہ درگیس کی بیوی کے گلے میں پڑے ہوئے ہار اور ہاتھ کی انگوٹھی پر تھی۔ اپنے شوہر کے دکان میں نہ جانے کا فائدہ اسے درگیس کی بیوی کے زیوروں میں نظر آ رہا تھا۔ درگیس کے بچے بھی اچھے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ مریاکٹی یہ سہہ نہ سکی۔ اس کے دل میں غم وغصہ کا طوفان سااٹھ رہا تھا۔ وہ چرچ کا پروگرام ختم ہونے سے پہلے ہی چلی گئی۔

    چند دنوں بعد کہیں شادی میں دونوں دوستوں کی بیویاں پھر ملیں۔ ایک عورت اپنے شوہر کے لیے ہر چیز برداشت کر سکتی ہے لیکن کسی دوسری عورت کی بڑھتی ہوئی خوبصورتی اس کے لیے ناقابل برداشت ہوتی ہے۔ گھر میں سب کچھ تھا مگر پھر بھی درگیس کی بیوی مریاکٹی کی طرح خوبصورت اور دلکش نہیں تھی۔ اسی لیے وہ بناؤ سنگار کرکے ہی اپنے آپ کو خوبصورت بنا لیتی تھی۔

    اسی لیے آج بھی وہ خوب میک اپ کرکے آئی تھی۔ اس کے پیروں میں سانپ کے کھال سے بنی چپلیں تھیں۔ کبھی نہ پہننے والی چھوٹے قد کی عورت اگر اونچی ایڑی کا جوتاپہن کر چلے اور دھلے ہوئے شرٹ میں صبح کو خواہ مخواہ اٹھلاتی پھرے توان باتوں سے بلا وجہ بھی غصہ آ جاتا ہے۔ عوتوں کی خوبصورتی برداشت کی جا سکتی ہے مگرجب انہیں اپنے حسن کے بارے میں خوش فہمی ہو جائے تو یہ ناقابل برداشت بات ہوتی ہے۔ اسی لیے درگیس کی بیوی کی اس خودپرستی کی نمائش سے مریاکٹی جیسی عورتیں ہنس پڑیں تو ان کا کیا قصور۔۔۔؟

    درگیس کی بیوی کی ساڑی، زیوروں اور گھڑی پر مریاکٹی کی نگاہیں کالے بھنوروں کی طر ح منڈلا رہی تھیں۔ جب اس کے زیوروں اور ساری کے بارے میں کسی نے پوچھا تو وہ خودہی بتانے لگی۔ وہ اپنے زیور اور کپڑوں کے بارے میں جب تک کسی سے بات نہ کر لیتی تھی اسے نہ تو چین پڑتا اور نہ رات کو نیند آتی تھی۔ چنانچہ اسے عورتوں کا ایسا ایک گر وہ مل ہی گیا جو کھڑے کھڑے زیوروں کے بارے میں باتیں کر رہی تھیں۔ ان کے پاس ہی کھڑی مریاکٹی ایک عورت سے باتیں کر رہی تھی۔

    اور وہ دونوں آپس میں درگیس کی بیوی کا کلیجہ نوچنے والا طنز کر رہی تھیں۔ دونوں دوستوں میں اتنے قریبی تعلقات کے باوجودان کی بیویاں ایک دوسرے سے بات چیت نہیں کرتی تھیں۔ جب درگیس کی بیوی اپنے زیوروں کی قیمت بتا رہی تھی تو مریاکٹی نے سہیلی سے کہا، ’’نایر کے پاس کھیتی ہے تو اس کے پاس پیسہ بھی ہوگا۔ مجھے کہیں سے ایک کالی بندریا مل جائے تو میں اسے کپڑے پہنا دوں۔‘‘ اس طرح کے طنز درگیس کی بیوی تھوڑی دیرسنتی رہی، پھر جب ناقابل برداشت باتیں ہونے لگیں تو بولی، ’’اری بندریا کو ڈھونڈنے کی کیا ضرورت ہے؟ تیرے گھرمیں جو ہے۔۔۔ کیا آنکھوں کے لیے کسی علاج کی ضرورت ہے۔۔۔ میرا شوہر میرے لیے سب چیزیں لایا ہے۔ شوہر ہی بیوی کے لیے ہر چیز لاتا ہے مگر جاکر۔۔۔‘‘

    ان دونوں میں جب توتو میں میں بڑھ گئی تو کچھ سمجھدار خواتین نے بیچ بچاؤ کرکے دونوں کو ٹھنڈا کیا۔

    ۴

    جولائی کی تیس تاریخ کو درگیس نے کوشی کو ایک ہزار روپے دیے۔

    ’’ہم دونوں ایک ایک ہزار روپے اپنی رقم میں سے لیتے ہیں۔ سات آٹھ مہینے میں راشن سے کوئی منافع نہیں ہوا ہے۔ پھر بھی ایک دو ہزار لینے میں کوئی نقصان نہیں ہوگا۔‘‘ روپے دینے کے بعد اس نے کہا۔

    ’’اب مجھے تم سے ایک بات کہنی ہے!‘‘

    ’’ہماری بیویاں آپس میں لڑتی جھگڑتی ہیں۔ انہیں ہم ہی روک سکتے ہیں۔ میں نے تو کبھی خواب میں بھی تمہیں دھوکا نہیں دیا ہے مگر تمہاری بیوی شک کرتی ہے۔‘‘ سوجی ہوئی بائیں داڑھ کو دباتے ہوئے درگیس نے کہا۔ اپنی بیوی کی بات سن کر دوست کے سامنے کوشی کاسرشرمندگی سے جھک گیا۔ اس نے کہا، ’’میرا دل تمہاری طرف سے صاف ہے۔ بیویاں چاہے کچھ کہیں، تم ایسی باتوں پر دھیان مت دیا کرو۔‘‘

    گھر آکر کوشی نے سوچا۔۔۔ سات سو روپے سے کاروبار شروع ہوا تھا۔۔۔ دکان کی چیزوں کی وجہ سے ہزاروں روپیہ آیا ہوگا۔ اب ایک ہزار روپیہ ملا ہے۔ اس دن کوشی نے بیوی کو بہت ڈانٹا۔

    ’’تمہیں تو صرف میرے کہنے سے ہی تکلیف ہوتی ہے۔ دوسرے چاہے کچھ ہی کہتے پھریں، اگرتم میری بات ہی نہیں سنتے تو میں بھی آئندہ کچھ نہیں کہوں گی۔ تم گڑھوں کو بند کر ڈالوگے مگر لوگوں کی زبان نہیں روک سکتے۔‘‘

    ’’اچھا اچھا۔۔۔ گڑھے بندہوں یا نہ ہوں۔ تم اپنا منہ بند رکھو۔‘‘ اس نے ڈانٹ کر کہا۔

    کوشی کو نفرت سی ہو گئی۔ کیونکہ اکثر کوئی نہ کوئی درگیس کے بارے میں کہتا۔ بچارا سیدھا سادہ آدمی ہے۔ درگیس اسے ضرور دھوکہ دےگا۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ سا جھے کی ہنڈیا چوراہے پر پھوٹتی ہے۔ اپنا کام ہمیشہ خود کرنا چاہئے۔ بہرحال اسی طرح کی باتیں کوشی اکثر سنتا رہتا تھا۔

    درگیس جانتا تھا کہ لوگ کس کس طرح اس پر الزام لگاتے ہیں۔ جب ان کی دال یہاں نہیں گلتی تو وہ میرے خلاف ہو جائیں گے۔ اس نے کہیں پڑھا تھا کہ جنتاکی رائے پانی کے اوپر تیرنے والی مکڑی جیسی ہوتی ہے۔

    درگیس کے باپ کا ’’شرادھ‘‘ ہوا۔

    اس نے سوچا کہ راشن کی دکان ہوتے ہوئے کیا میں چار پانچ لوگوں کو کھانا نہیں کھلا سکتا اور اس نے اپنے گاؤں کے بہت سے لوگوں کو بلاکر ایک اچھی دعوت کھلا دی۔ ایک بار بیمار ہوا تو اس نے چرچ کو ایک بھنڈارا دینے کے بارے میں طے کیا۔ اس نے چرچ کے احاطے میں ایک کر اس بھی بنوا دیا اور اس کے افتتاح کے وقت تین بڑے اور چالیس معمولی سے پادری وہاں موجود تھے۔

    راشن کی دکان ترقی کر رہی تھی مگر درگیس کو اپنا علاج کروانا ضروری ہو گیا۔ اب چند مہینے پہلے اسے دانت کا درد شروع ہوا تھا۔ مسوڑے پر سوجن آ گئی تھی۔ ڈاکٹر نے کینسر بتایا تھا۔ کینسر کا نام سن کر وہ چونک پڑا تھا۔ آپریشن کے ڈر سے اس نے یونانی علاج ہی کو ترجیح دی۔ مسلسل پر ہیزی غذا کی وجہ سے وہ دبلا ہو گیا اور بیماری بڑھتی گئی۔

    ڈاکٹر نے کہا، ’’تری ویندرم جانا چاہئے۔ علاج بدلنے سے فائدہ ہوگا۔ میں ایک خط دیتا ہوں۔‘‘

    درگیس کو اندازہ نہیں تھا کہ اتنی جلدی مرض بڑھ جائےگا۔ مجبوراً وہ کوشی کے ساتھ تری ویندرم گیا۔ جاتے وقت کوشی کی بیوی نے کہا، ’’اب تک کاروبار میں حصہ تھا۔ اب بیماری میں حصہ لے رہے ہو کیا؟‘‘ درگیس کا معائنہ کرکے ڈاکٹر نے کہا، ’’کچھ دن یہیں رہنے دو۔ مجھے کوئی اچھی امید نہیں ہے ان کی طرف سے۔‘‘

    ڈاکٹر کی رائے سن کر درگیس کی تو جان نکل گئی۔

    دکان بند ہوگی تو راشن کے لیے لوگ شور مچائیں گے۔ اس لیے کوشی نے جانے کا ارادہ ظاہر کیا تو درگیس راضی ہو گیا۔ کوشی نے درگیس کے رہنے سہنے کاسب انتظام کر دیا۔ جب کوشی نے جانے کی اجازت چاہی تو درگیس رونے لگا۔ حالانکہ کوشی کی آنکھوں میں آنسو نہیں تھے مگر یہ منظر اتنا ناقابل برداشت تھا کہ اس کا دل بھر آیا۔ اپنے دوست کی زندگی بچانے کے لیے وہ سب کچھ کرنے کو تیار تھا۔

    ’’کیا دیوانے ہوئے ہو!‘‘ کوشی نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا، ’’اتنا ڈرنے کی کیا بات ہے۔ ہمیں مصیبتوں کا مقابلہ بھی ہمت سے کرنا چاہئے۔‘‘

    ’’میں نے تمہارے ساتھ۔۔۔‘‘ درگیس نے گہرے دکھ کے ساتھ کہا، ’’کئی ناانصافیاں کی ہیں۔ خدا کے لیے مجھے معاف کرنا۔۔۔ میرے بچوں کو مت ستانا۔‘‘

    ’’کون سی غلطی؟‘‘ اس اچھے آدمی نے کون سی ناانصافی کی۔ کوشی کچھ نہ سمجھ سکا۔ کوشی گھر کی جانب چل دیا۔

    دکان دیکھتے ہی اسے چابی یاد آئی۔

    چابی کا گچھا درگیس کے ہاتھ میں تھا۔ رخصت کے وقت اس رقت انگیز ماحول میں دب کر وہ چابی لینا بھول گیا تھا۔ درگیس بھی دینا بھول گیا ہوگا۔ اس نے سوچا کہ اب لوہار کو بلواکر قفل تڑوانا پڑےگا۔ مگر پھر اس نے سوچا کہ لوہار سے قفل تڑوانا اچھی بات نہیں ہے۔ اس لیے وہ کچھ پیسے جمع کرکے راشن لایا اور دکان کے تختے پر رکھ کرسب کو بانٹ دیا۔ کئی لوگوں نے کوشی سے پوچھا کہ دکان کھولنے میں کیا برائی ہے۔

    وہ چپ رہا۔ برائی تو کچھ نہیں تھی۔ پھر بھی تالا توڑے بنا دکان نہیں کھل سکتی تھی اور وہ تالا نہیں توڑنا چاہتا تھا۔ چنددن بعد تری ویندرم سے ڈاکٹر کا تار آیا۔ کوشی فورا وہاں پہنچ گیا۔ اس کے ساتھ درگیس کی بیوی بھی تھی۔

    سب علاج ناکام ہو چکے تھے۔ درگیس موت کے قریب ہوتا جا رہا تھا۔ اس کی بیوی چلاکر رو پڑی۔ دوست کی ایسی حالت دیکھ کر کوشی کی آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے۔ درگیس ہر لمحہ موت کے قریب ہوتا جا رہا تھا۔

    ’’انہیں جلدی لے جائیے۔‘‘ ڈاکٹر نے کہا۔

    ایک ٹیکسی میں کوشی اپنے دوست کو گھر لے آیا۔ گھر آنے کے دوسرے دن درگیس اپنے گھر سے، بیوی سے، بچوں سے اور دکان سے دور چلا گیا۔ اس کی آخری رسومات بڑی اچھی طرح اداکی گئیں اور پادری نے تقریبا ًڈھائی گھنٹے تک اس جنت نصیب انسان کی خوبیاں بیان کیں۔ اس ’’کراس‘‘ بنوانے والے انسان کے لیے پادری کے دل میں بڑی عزت تھی۔

    اس کی بیوی کی کوشی نے بہت عزت کی۔ یتیم بچوں کواس نے بہت چاہا۔ کیونکہ کوشی کا خیال تھا کہ دنیا میں دوست سے بڑا آدمی کوئی نہیں ہے۔ راشن کی دکان کی چابی کوشی کو درگیس کے مردہ جسم پر ملی تھی۔

    کوشی اب اپنا سارا وقت دکان ہی میں گزارنے لگا۔ حساب کتاب لکھنے کے بہی کھاتے درگیس کے گھر میں تھے۔ اس لیے کہ حساب درگیس اکیلا رات کو اپنے گھر میں لکھتا تھا۔ درگیس کی بیوی نے بھی اپنے سرپرست کی حیثیت سے کوشی کی بہت عزت کی۔ ویسے بھی اس کی نفرت کوشی سے نہیں بلکہ اس کی بیوی تھی۔

    اس دن اتوار تھا۔ چرچ جانے کے بعد کوشی قبرستان گیا اور درگیس کی قبر کے پاس کچھ دیر خاموش کھڑا رہا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ سوکھی زمین نے انہیں بڑی لالچ کے ساتھ پی لیا۔ ’’کوشی میں نے کئی غلطیاں کیں۔ خدا کے لیے مجھے معاف کر دو۔ میرے بچوں کو مت ستانا۔‘‘ درگیس کے یہ آخری الفاظ کوشی کے کانوں میں گونج رہے تھے۔ درگیس نے کیا غلطی کی۔۔۔؟ کچھ نہیں۔۔۔ اس نے یوں ہی کہہ دیا ہوگا۔

    کوشی کو حساب کے بہی کھاتے کی ضرورت تھی۔ آخر کتنے دن حساب کاغذ پر لکھتا رہے۔ روپیہ دینے والے سے روپیہ لینے کے لیے حساب تو ہوناہی چاہئے۔

    چند دن اور گزر گئے۔

    ایک دن کوشی نے بہی کھاتہ لانے کے لیے ایک آدمی درگیس کے گھر بھیجا۔۔۔ اور ان کاپیوں کو پڑھنے کے لیے کوشی گھر لے گیا اور رات کو وہ انہیں پڑھنے بیٹھا۔ ہر صفحہ الٹنے پر اس کا دل تکلیف سے کراہ اٹھتا تھا۔ چراغ کے سامنے شوہر کو ورق الٹتے پلٹتے دیکھ کر اس کی بیوی ہنس پڑی، اگر وہ باربار دیکھتی تو ناراض ہوتا۔ لیکن وہ اچھی طرح سمجھ رہی تھی کہ ان کا بھید اس کے شوہر کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے۔ یہ دیکھ کر وہ دل ہی دل میں بہت خوش ہوئی۔

    ’’کوشی میں نے بڑ اظلم کیا ہے۔۔۔ خدا کے لیے معاف کر دینا۔ میرے بچوں کو مت ستانا۔‘‘

    وہی الفاظ۔۔۔

    عموماً تاجروں کے حساب دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک صحیح اور دوسرا گورنمنٹ کو دھوکا دینے کے لیے ہوتا ہے۔

    ساتھی کو دھوکا دینے کے لیے تیسرا حساب۔

    کوشی کے سر میں سانپ رینگنے لگا۔

    میں ابھی تک زندہ ہوں۔۔۔؟ اس بات پر اسے شک ہونے لگا۔ دنیا اندھیرے سے بھری ہے۔ اس اندھیرے سے بے فکر ہوکر میں ایک جگہ بیٹھ گیا تھا۔ کوشی کو ایسا محسوس ہوا۔

    درگیس دکان کی رقم سے چار ہزار کا چٹ فنڈ چلایا کرتا تھا۔ اپنی بیوی کے نام اس نے چھے ہزار روپے لکھے تھے جو اس کے پاس رکھے گئے تھے۔ درگیس کی پہلی رقم پانچ سوتھی۔ کوشی کے گھر کے سامان وغیرہ میں تین ہزار روپے دکھائے گئے تھے۔ اندھیرے آسمان پر چاند نکل رہا ہے۔۔۔ مگر کوشی کو نیند نہیں آ رہی ہے۔۔۔ وہ کروٹوں پر کروٹیں لے رہا ہے۔

    ’’تم سوتے کیوں نہیں؟‘‘ مریاکٹی پوچھتی ہے۔

    ’’کیوں نہیں سوتے؟‘‘ وہ پھر سوال کرتی ہے۔

    ’’نیند نہیں آتی۔۔۔‘‘

    ’’نیند نہ آنے کی وجہ مجھے تو نظر نہیں آتی۔‘‘

    ’’کچھ یاد کر رہا ہوں۔۔۔‘‘

    ’’اتنا سوچنے کی کیا بات ہے۔۔۔؟ لڑکوں کو بھیجنے کے لیے کیا روپے نہیں ہیں؟ کیا قرض دینے والے لوگ آنگن میں کھڑے ہیں؟‘‘

    بیوی کے اس طرح پوچھنے پر کوشی شرمند ہ ہو گیا۔ کچھ دیر چپ رہنے کے بعد بولا، ’’تونے جو کچھ کہا تھا۔۔۔ سب سچ ہے۔‘‘

    ’’کیا۔۔۔؟‘‘

    ’’درگیس کے بارے میں۔‘‘

    ’’مجھے پہلے ہی سب معلوم تھا۔ سات برس تک ماں کادودھ پی کر میں بڑی ہوئی ہوں۔ اب تو اعتبار آ گیا؟‘‘ مریاکٹی نے کہا۔

    ’’آ گیا۔۔۔‘‘

    ’’اگر یہ کچھ پہلے آ جاتا تو۔۔۔‘‘

    کچھ دیر چپ رہنے کے بعد کوشی نے کہا، ’’وہ نہیں ہو سکتا۔ مجھ سے ایسا نہیں ہوتا۔ پہلے اعتبار کرنا چاہئے۔‘‘

    ’’مگر تمہارے ساتھی کو تو تم پر اعتبار نہیں تھا۔ اسے کسی پر اعتبار نہیں تھا۔‘‘

    ’’ہاں۔۔۔ اس کا برتاؤ ایسا ہی تھا۔۔۔‘‘ کوشی نے کہا، ’’مگر مرنے کے بعد وہ اعتبار کرتا ہوگا کیا؟‘‘

    اس کی بیوی ہنسنے لگی۔ یہ کوشی سے برداشت نہیں ہوتا تھا۔

    دوسرے دن کوشی دیر سے سوکر اٹھا۔

    پوسٹ مین لائف انشورنس کمپنی کا لفافہ دے گیا۔ درگیس نے دوسوروپے کی پالیسی اپنے چھوٹے بچے کے نام کی تھی۔ کوشی نے درگیس کی بیوی کو بلانے کے لیے ایک آدمی کو بھیجا۔ وہ کوشی کے ہاں آنا پسند نہیں کرتی تھی مگر پھر بھی وہ بیوہ تھی۔ وہ اپنے سرپرست کے پاس جانے کے لیے مجبور تھی۔

    ’’کوشی میں نے غلطیاں کی ہیں۔ خدا کے لیے مجھے معاف کر دینا۔ میرے بچوں کو مت ستانا۔‘‘

    یہ الفاظ کوشی کے کانوں میں رہ رہ کر گونج رہے تھے۔

    کوشی کے سامنے اس کے دوست کی بیوہ سر جھکائے کھڑی تھی۔ اس کی جانب ہاتھ بڑھاتے ہوئے کوشی نے کہا، ’’لو دکان کی چابی۔ آج سے دکان تمہاری ہے۔ مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کا سبب جاننے کی کوشش مت کرنا۔ چاہو تو دکان چلاؤ۔ ورنہ بند کر دو۔ میں آج سے دکان سے اپنا کوئی تعلق نہیں رکھوں گا۔‘‘

    درگیس کی بیوی چابی لینے میں کچھ ہچکچائی تو کوشی چابی اس کے سامنے پھینک کر باہر چلا گیا۔

    آسمان پر ایک کالا بادل چھایا تھا۔۔۔ وہ ہٹ گیا۔

    کوشی کے دل سے ایک بوجھ اتر گیا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے