Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دلہن

MORE BYایس کے پوٹے کاٹ

    بارش کے بعد آسمان کچھ صا ف ہوا۔

    اب قدرت کا حسن نکھر آیا تھا۔ شام بادلوں میں ڈوب ڈوب کر ابھر رہی تھی۔

    پٹامبی اور کوٹی پورم کی طرف جانے والی ریل کی پٹریوں کے دونوں طرف کھیت تھے۔

    ہریالی اوڑھے ہوئے ٹیلے، پھولوں سے لدے درخت اور اس کے بعد بھارت ور ش کا ریتیلا کنارہ دیکھتے دیکھتے میں اور گوپی چل رہے تھے۔ گوپی تین مہینے کی چھٹی لے کر ملایا سے میرے پاس آیا ہے۔ وہ شادی کرنے آیا ہے۔ گوپی کو یہاں سے گئے آٹھ برس ہو گئے تھے۔ اس کے بعد وہ اب پہلی بار گاؤں آیا ہے۔ وہ ہمارے گاؤں کے ایک بہت مشہور اور پرانے خاندان کا فرد ہے۔ اب اس کے گھروں میں کوئی نہیں ہے، اس لیے مکان کرایے پر اٹھا دیا گیا ہے۔ گوپی کا بڑا بھائی مدراس میں کہیں سیلز آفیسر ہے۔ گھر کی اس حالت کی وجہ سے ا س نے اپنی شادی کی ساری ذمہ داری مجھ پر ڈال دی ہے۔ کیونکہ میں اس کا ساتھی ہوں۔ کلاس فیلورہ چکا ہوں اور اس گاؤں کا رہنے والا بھی ہوں۔

    گوپی نے اپنے خط میں ہونے والی بیوی کی خصوصیات مجھے لکھ بھیجی تھیں۔ وہ تھیں۔۔۔ کچے کیلے کاسا رنگ۔۔۔ بڑی بڑی کالی آنکھیں۔۔۔ سڈول خوبصورت ناک۔۔۔ لمبے گھنے بال۔ بالوں والے الفاظ کے نیچے اس نے ایک لکیر کھینچ کراسے نمایاں کر دیا۔۔۔ تھوڑی لمبی ہو، مگر بہت زیادہ نہیں۔ جسم مناسب۔۔۔ عمر سترہ سے بیس کے درمیان ہونا چاہئے۔ بڑے خاندان کی یادولت مند نہیں ہونا چاہئے۔ اگر کچے کیلے کے رنگ کی نہ ملے تو تھوڑی سی سانولی ہونے میں کوئی ہرج نہیں ہے۔ بال گھنے ہونے کے ساتھ ساتھ گھنگھریالے نہ بھی ہوں تو کوئی بات نہیں۔ باقی سب اسی طرح ہونا چاہئے۔

    گوپی کی ہونے والی دلہن کا ذکر پڑھتے وقت مجھے تِردر اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر ایک پھل بیچنے کی پکار ایک دم یاد آ گئی۔ خوبصورت عورت کارنگ کیلے جیسا ہونا چاہئے۔ گوپی کا خط میں نے دوتین بار پڑھا۔ مجھے ایسا لگا جیسے ا س نے مذاق کیا ہو۔ گوپی کو میں اس وقت سے جانتا ہوں جب ہم دونوں مدراس میں بی اے میں پڑھتے تھے۔ وہ ایک شرمیلا نوجوان ہے۔ اس نے بڑے غوروفکر کے بعد ہی اپنی ہونے والی بیوی کا سراپا مجھے لکھا ہوگا۔ پھر بھی آخر اس نے ایک ایسے مثالی پیکر کے خواب کیوں دیکھے۔۔۔؟

    گوپی نے اپنی ہونے والی بیوی کا ذکر غیرمعمولی اہمیت کے ساتھ کیا ہے۔ گوپی کا مقصد اب میری سمجھ میں آ گیا ہے۔ ملایا میں وہ ملایا کے لوگوں اور چینی دوستوں کے آگے ملیالی خوبصورتی کوپیش کرنا چاہتا ہے۔ اسی لیے اس نے بال۔۔۔ ناک اوربالوں کے بارے میں اتنا زور دیا ہے۔ ’’تمہارے دل کی طلب بہت خوبصورت ہے گوپی۔۔۔‘‘

    میں نے جب اس کے خط کا جواب دیا تو دو سوال کیے۔

    ’’عینک والی ہوتو ٹھیک رہےگی کیا؟ کچھ موسیقی سے لگاؤ رکھتی ہو تو مناسب رہےگی یا نہیں۔۔۔؟‘‘

    لیکن میرا خط ملنے کے بعد وہ ان ساری خصوصیات کی حامل، ہونے والی بیوی کو پیار کرنے کے لیے چل دیا تھا۔ کوئی معمولی سا انسان اتنا بڑا عزم نہیں کر سکتا۔ پکے ہوئے کیلے کا سا رنگ، کیلے کے پھول کو نیچا دکھانے والے ناک، ہرنی جیسی آنکھیں، گنے کی چھڑی سی لمبی اور سڈول جسم والی۔ بال اتنے لمبے اورگھنے کہ پھیلا دینے پر ایسے لگیں جیسے چینی ریشم سے بنا پردہ۔۔۔ مگر اس کے بدن کی رنگت کالے چینی ریشم کو شرما دینے کے لیے کافی ہو۔ گوپی کی بات پر ایک لمبی آہ بھرنے میں مجھے کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔ کیونکہ یہ بالکل سچی اورفطر ی بات تھی۔ اگر ایسا ہو جائے تو یہ خدا کی مہربانی تھی۔

    گوپی کے آئیڈیل کے برخلاف ایک خوبصورت لڑکی سے میری شناسائی تھی۔ وہ دوتین میل دور ایک جگہ رہتی تھی۔ وہ سونے کا رنگ۔۔۔ سڈول اور لمبا بدن۔۔۔ گال۔۔۔ پیشانی۔۔۔ ٹھوڑی وغیرہ سب کارنگ سنہرا۔ بالوں کا انوکھا اسٹائل، کالے اور چمکتے ہوئے بالو ں کا جوڑا جنہیں کھول دینے پربال زمین کو چھوتے تھے۔ اس کی چال میں نزاکت ہے۔ جب چلتی ہے تو اس کی ایڑی کی سرخ جلا دکھائی دیتی ہے۔ اس حسینہ کو میں نے گوپی کے لیے انتخاب کیا تھا۔

    وہ ایک کسان کی بیٹی ہے۔ خاندان تو اچھا ہے مگر ایک کمی ہے۔ وہ کنواری نہیں ہے۔ سات آٹھ برس پہلے اس کی شادی ہو چکی تھی۔ لیکن اس نے شوہر کو چھوڑ دیا، یا شوہر نے اسے، یہ نہیں معلوم۔۔۔ مگر اس کے بعد اس نے بھی شادی نہیں کی۔

    آج کل وہ سوت کاتتی ہے۔ ہندی پڑھتی ہے اور گرووایورپن کا فوٹو سامنے رکھ کر اس کی پوجا کرتی ہے۔ ان سب کاموں میں اس کی آخری مصروفیت ہی اس کے ماما کو پسند ہے۔ اس کے والدین کا انتقال ہو چکا ہے۔ ا س کا نام اموکٹی ہے۔ اس کے ماماجی اس کے ان کاموں کو پسند نہیں کرتے لیکن پھر بھی اس سے کچھ نہیں کہتے۔

    چند سال اسی طرح گزر گئے۔

    لیکن اتنی عمر گزرنے پربھی اس کی خوبصو رتی میں کوئی فرق نہیں آیا۔ اب اس کی عمر سترہ اٹھارہ برس ہو گئی تھی۔

    ان ساری باتوں کو جانتے ہوئے۔۔۔ اب گوپی کی بات دوہرانے کی کیا ضرورت ہے۔۔۔؟ لیکن اس کامطلب غلط نہ سمجھئےگا۔ گول پتھر جیسی کچھ لڑکیاں ہیں۔ ان کی بڑھی ہوئی عمر کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کیونکہ وہ بہت پھرتیلی ہوتی ہیں۔ ان ہی میں سے ایک اموکٹی بھی ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ گوپی اگر ایک نظراسے دیکھ لے تو پھر مجھ سے کچھ نہیں کہےگا۔

    مجھے اگر تھوڑا سا خدشہ ہے تو وہ اموکٹی کی طرف سے ہے۔ اگر وہ شادی کے لیے تیارنہ ہوئی تو۔۔۔؟ اس کے علاوہ ان دونوں کی شادی میں اور کوئی رکاوٹ نہیں ہو سکتی۔

    گوپی دیکھنے میں سڈول ہے۔ تھوڑا سا سانولا ہے، لمبا قد ہے۔ ملایا میں رہنے سے کچھ موٹا ہو گیا ہے۔ اس کے بال خوب کالے ہیں۔ البتہ داہنے کان کے پاس چندبال سفید ہو رہے ہیں۔ اس کے کام کے بارے میں کیا کہوں؟ وہ ملایا میں بڑا آفیسر ہے اور’’اسٹیٹ‘‘ میں مہینے میں نو سو چاندی کے سکے پاتا ہے۔ کار ہے۔ مکان ہے۔۔۔ اور کچھ کنجوس ہونے کی وجہ سے بنک میں اچھی خاصی رقم بھی ہے۔۔۔ اور کیا چاہئے؟ شادی کے بعد زندگی گزارنے میں اسے کوئی دشواری نہیں ہوگی۔ اگر ہندی پڑھنا اور سوت کا تنا بہت ضروری ہے تب بھی اموکٹی ملایا میں بھی یہ کام کر سکتی ہے۔ اپنے گرووایورپن کا فوٹو بھی اپنے ساتھ لے کر جا سکتی ہے۔ گوپی بھی خدا کو تھوڑا بہت مانتا ہے۔ جب ہم مدراس میں بڑھتے تھے تو وہ روزانہ سونے سے پہلے بھگوت گیتا پڑھا کرتا تھا۔

    ہمارے اموکٹی کے گھر جانے کے پروگرام سے وہ لوگ واقف نہیں تھے۔ حالانکہ ایسی باتیں لڑکی والوں کو پہلے بتادینی چاہئیں تاکہ اگر لڑکی لڑکے کو پسند نہ آئے تو لڑکی والوں کو اس کا افسوس نہ ہو۔ لڑکی کے خاندان کے بارے میں گوپی کچھ نہیں جانتا تھا۔ میں تو گوپی کو اس ارادے سے لیے جا رہا تھا کہ اگر لڑکی پسند آ گئی تو اسے سب باتیں بتا دوں گا۔

    ہم چلے جا رہے تھے۔

    مسلمان عورتیں ہرے کھیتوں میں سر نیچا کیے کام کر رہی تھیں۔ کام کرتے وقت وہ کالا کپڑا اور سفید کرتا پہن لیتی ہیں۔ ایک قطار میں کھڑی ہوئی ان عورتوں کودور سے دیکھو تو ایس الگتا ہے جیسے کھیتوں میں لمبا کالا کڑا باندھ دیا گیا ہو۔ چمکتے ہوئے انجن جیسے رنگ والی ایک ادھیڑ عمر کی عورت دوسرے دھان کے کھیت میں اکیلی کام کر رہی تھی۔ اس کے سیاہ جسم پر لال موتیوں کی مالا، اسے بڑی حسین بنا رہی تھی۔ گوپی سامنے کھیت کو دیکھتا ہو اچل رہا تھا۔

    میں نے کہا، ’’اس ضلع میں اور یہاں کی چیزوں میں اتنے برسوں بعدتمہیں کوئی فرق محسوس ہوا؟‘‘

    ’’کوئی فرق نہیں آیا۔۔۔ یہ کہنا تو غلط ہے۔ ہر چیز میں تبدیلی ہی تبدیلی ہے۔‘‘ گوپی نے کھڑے ہوکر میری طرف دیکھا۔

    گوپی کی آنکھیں کالی اور بڑی ہیں۔

    ’’ٹھیک ہے، تبدیلی کی قوت کو روکنے میں انسان اور شاستر ناکام ہو چکے ہیں۔ میلے میں گھومنے والے چکر کی طرح سب آتا اور چلا جاتا ہے۔ برہما، قدرت اور انسان یہ سب اس تبدیلی کے حصے ہیں۔‘‘ میں سمجھ گیا کہ گوپی اپنی قابلیت کا مظاہرہ کرنے کے لیے ایک لمبی چوڑی تقریر کے موڈ میں ہے۔ قدرتی مناظر سے متاثر ہوکر اگر وہ فلسفی بن جائے تو بحث کرنا بےسود ہے۔ میں نے ایک سگریٹ نکال کر سلگائی۔

    گوپی سگریٹ نہیں پیتا۔ گوپی نے پھر بولنا شروع کیا، ’’انسان کی زندگی میں تبدیلی کا احساس واضح طور پر ہوتا ہے اور ہماری چھوٹی سی زندگی پر بھی اس کا اثر پڑتا ہے۔ مگر ہمیں اس کا احساس نہیں ہوتا۔ اسی لیے ہم اس پر دھیان بھی نہیں دیتے۔‘‘

    نیچے کے کھیت سے مسلمان عورتوں کا ایک غول آ رہا تھا۔ شاید وہ شادی میں شرکت کے لیے جا رہی ہوں گی۔ ایک نئی عورت کو لانے جا رہی ہوں گی۔ ان کے ہرے، پیلے، نیلے اور سرخ رنگ کے ریشمی کپڑے دھنک کا سماں پیش کر رہے تھے۔ گوپی نے آگے بڑھتے ہوئے ہاتھ کے اشارے سے اپنی تقریر جاری رکھی۔ جب ہم لوگ ریل کے پل کے پاس پہنچے تو وہ سب عورتیں چھتری کھول کر ریل کی پٹری پر کھڑی ہو گئیں۔ ان کے جانے کے بعد میں نے گوپی سے کہا، ’’یہ نیک شگون ہے۔ شادی کے بعد نئی لڑکی کو ساتھ لے جا رہی ہیں۔‘‘

    گوپی چپ رہا۔

    ’’وہ عورتیں ہیں۔ نوکا عدد بھی مبارک ہے۔‘‘ میں نے گن کر گوپی سے کہا۔ گوپی اس بار بھی چپ رہا۔ میں نے کھسیاکر گوپی کی طرف دیکھا تو کانپ گیا۔ گوپی کا چہرہ پیلا ہلدی ہو رہا تھا اور آنکھیں مری ہوئی مچھلی کی طرح باہر نکل آئی تھیں۔

    ’’گوپی۔۔۔ گوپی۔۔۔‘‘ میں نے سگریٹ پھینک کر گوپی کو پکڑ لیا۔

    اس کا ہاتھ چھلے ہوئے کیلے کی طرح ٹھنڈا ہو رہا تھا۔

    جب ہم لوگ مدراس میں تھے تو دو تین بار گوپی کو اس قسم کے دورے پڑے تھے۔ میں سمجھا کہ شاید اب بھی اسی بیماری کا حملہ ہوا ہے۔ میں نے گوپی کو سیدھا پکڑکر زمین پر بیٹھا دیا۔ پانچ منٹ بعد گوپی کو ہوش آنے لگا۔ آنکھوں میں جان سی آ گئی۔ مجھے اطمینان ہوا۔ دورہ نہیں تھا۔

    ’’یہی جگہ۔۔۔ یہی پل۔۔۔‘‘ گوپی نے عبادت کرنے کے انداز میں کہا۔۔۔ پھر ماتھے پر پسینہ پونچھ کرایک طرف کو دیکھنے لگا۔ پھر میری جانب یوں دیکھا جیسے میں اچانک اسے مل گیا ہوں۔

    ’’گوپی۔۔۔ تھکاوٹ دور ہو گئی۔۔۔؟‘‘ میں نے دوسری سگریٹ سلگاتے ہوئے پوچھا۔ گوپی بڑی اداسی سے مسکرایا۔ پھر دور کہیں دیکھنے لگا۔ بادل ہٹ جانے سے دھیرے دھیرے روشنی پھیلنے لگی۔

    ’’گوپی۔۔۔ وہی مدراس والی بیماری تھی کیا۔۔۔؟‘‘

    گوپی نے انکار میں سر ہلاکر کہا، ’’نہیں۔۔۔ وہ بیماری ملایا جانے کے بعد کبھی نہیں ہوئی۔‘‘

    ’’لیکن ابھی جوہوئی اس کا نام کیا ہے۔ یہ ملایائی ہسٹیریا ہے کیا؟‘‘

    منہ پر آنے والے سگریٹ کے دھوئیں کو ہٹاکر گوپی چپ رہا۔

    ’’یہ جگہ۔۔۔ یہی پل، سے تمہارا کیا مطلب ہے! کیا تم اس جگہ سے پہلے سے واقف ہو؟‘‘

    کوئی جواب نہیں۔

    کچھ دیر بعد ٹیلے کے اوپر نظر ڈالتے ہوئے گوپی نے مدھم لہجہ میں کہا، ’’یہ ایک پرانی کہانی ہے۔ جہاں ہم ابھی بیٹھے تھے، یہاں میرے ساتھ ایک بھیانک حادثہ ہوا تھا۔‘‘

    وہ پھر کچھ سوچ کر چپ ہو رہا۔

    ’’بتاؤ تو کیا حادثہ ہوا تھا۔۔۔ کب ہوا تھا۔۔۔؟‘‘ میں نے گھڑی دیکھی۔ ساڑھے پانچ بج رہے تھے۔ رات ہونے سے پہلے وہاں پہنچنے کے لیے ابھی دو گھنٹے باقی ہیں۔ اس حادثے کا ذکر کرنے میں گوپی کو کچھ ہچکچاہٹ ہو رہی تھی۔ جب میں نے بہت اصرار کیا تو وہ سنانے لگا۔

    ’’میں نے بی اے پاس کرنے کے بعد ایل ٹی کرنے کے خیال سے ایک پرائیویٹ اسکول میں ٹیچر کی حیثیت سے کام کیا تھا۔ وہ اسکول یہاں سے دو میل دور ہے۔‘‘

    ’’تم ماسٹر بن گئے ہو، یہ مجھے معلوم تھا۔ مگرتم نے یہاں کام کیا تھا، یہ بات آج معلوم ہوئی۔‘‘ میں نے کہا۔

    ’’ہاں میں یہیں تھا۔ لیکن ان دنوں تم گاؤں میں نہیں تھے۔‘‘

    ’’ہاں۔۔۔ میں یہاں نہیں تھا۔ پھر کیا ہوا؟‘‘

    ’’میں ایک دکان کے اوپر ایک کوٹھری میں رہتا تھا۔ کسی سے دوستی نہیں تھی۔ شام کواسکول سے آنے کے بعد کھیتوں میں ٹہلنے چلا جاتا تھا۔ کبھی ندی کنارے جا بیٹھتا تھا۔ اندھیرا ہونے لگتا تو گھر واپس آ جاتا تھا۔ ہوٹل میں کھانا کھاکر بارہ بجے تک سوامی وویکانند کی کتابیں پڑھتا رہتا تھا۔‘‘

    ’’سونے سے پہلے شری مد بھگوت گیتا بھی تو پڑھا کرتے تھے تم۔۔۔؟‘‘

    ’’شری مد بھگوت گیتا۔۔۔! ان دنوں کی طرح آج بھی بھگوت گیتا میری زندگی ہے۔‘‘

    میں نے دل میں سوچا۔۔۔ ٹھیک ہے۔۔۔ ہائی اسکول۔۔۔ کمرہ۔۔۔ ٹہلنا۔۔۔ ہوٹل۔۔۔ اور پھر قسمت کا کھیل۔۔۔ رہ گئی محبت۔۔۔ توو ہ محبت بھی اب پنکھ پھیلاکر آ ہی جائےگی۔

    ’’ایک دن شام کے وقت میں نے ایک لڑکی کو دیکھا۔۔۔ اور دیکھتا ہی رہ گیا۔ بے انتہاحسین تھی وہ۔۔۔ جیسے کوئی حسن کی دیوی ہو۔‘‘

    ’’آسمان سے گری ہوئی یا اسی زمین کی پیدا کی ہوئی۔۔۔؟‘‘

    ’’استر کے گیت گانے والے کی طرح خود ہی پوچھا ہوگا۔‘‘

    ’’جی ہاں۔۔۔ اس کے خوب صورت تعارف کے لیے۔۔۔‘‘

    ’’نہیں اس کا تعارف کراکے موڈ مت بگاڑو۔۔۔‘‘ میں نے گوپی کو روک دیا۔

    ’’سب سے خوبصورت لڑکی کو میں دل کی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہوں۔‘‘

    ’’ہم ہر روز شام کو ملا کرتے تھے۔ اس کی بڑی بڑی کالی آنکھوں کی لمبی پلکوں نے میرے دل میں ہلچل سی مچا دی تھی۔ وہ ایک ٹیچر تھی۔‘‘

    ’’اچھا تو معاملہ یوں تھا۔۔۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’اور روز ایک خاص جگہ پر ملنا مشکل تھا۔۔۔ کیا نام تھا اس کا؟‘‘

    ’’اس کا نام مجھے آج تک نہیں معلوم ہوا۔‘‘ گوپی نے آنکھیں بند کرکے کہا۔

    ’’ٹھیک ہے، کہانی کہتے رہو۔ پراسرار محبوبہ کی کہانی۔۔۔‘‘ میں نے کہا۔

    ’’اس طرح ہم اکثر ملتے رہے۔ وہ اسکول سے گھر کی طر ف چلی جاتی تھی اور میں ٹہلنے کا بہانہ کرتا تھا۔ وہ ریل کی پٹریوں کے پاس سے جاتی تھی۔ روز ہم ایک دوسرے کے دیکھتے تھے۔ مگر کبھی بات چیت نہ ہوئی تھی۔۔۔ اگرچہ ہم آپس میں باتیں نہیں کرتے تھے مگر ہماری آنکھیں سب کچھ کہہ دیتی تھیں۔‘‘

    ’’آنکھوں سے۔۔۔؟‘‘ میں نے آنکھوں کے بارے میں ایک مصرعہ موزوں کرکے اسے سنایا۔

    ’’ایک دن میں اس کا گھر دیکھنے کے لیے اس کے پیچھے چلنے لگا۔۔۔‘‘

    گوپی اپنی کہانی میں مست تھا۔ ’’مجھے دو تین میل چلناپڑا۔‘‘

    میں نے بیچ میں روک کر پوچھا، ’’اس نے تمہیں نہیں دیکھا۔۔۔؟‘‘

    ’’دیکھا۔۔۔ جب وہ گھر میں داخل ہونے لگی تو اس نے پیچھے مڑکر دیکھا تھا۔‘‘

    ’’دوسرے دن ملنے پھر اس نے تم سے کچھ نہیں کہا۔۔۔؟‘‘ میں نے پوچھا۔

    ’’نہیں۔۔۔ صرف ایک بار میری طرف دیکھا۔۔۔ دو مہینے بیت گئے اس طرح۔۔۔‘‘

    ’’اور ان دو مہینوں میں تم دونوں صرف ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔۔۔؟‘‘

    ’’ہاں صرف دیکھا دیکھی چلتی رہی۔۔۔‘‘

    ’’اور ان دومہینوں میں وہ ایک بار مسکرائی بھی نہیں۔۔۔؟‘‘

    گوپی ہنسنے لگا۔۔۔ میں نے سگریٹ سلگائی۔

    ’’اور پھر چند دن بعد وہ نظر نہیں آئی۔۔۔‘‘ گوپی نے اچانک موڈ بدل کر اداس لہجے میں کہا۔

    ’’کیوں۔۔۔؟ کچھ بیمار ہو گئی تھی۔۔۔؟‘‘ میں نے ہمدردی کے ساتھ کہا۔

    ’’ایک بار رات میں پڑھ رہا تھا کہ اچانک میری نگاہ کھڑکی سے باہر گئی۔۔۔ کھیتوں میں چاندنی پھیلی ہوئی تھی۔ جھرنے کے کنارے کیتکی کے پودے ہوا سے ناچ رہے تھے۔ جی چاہا چاندنی میں گھومنے کے لیے جاؤں۔ قمیض پہن کر سردی سے بچنے کے لیے ایک رومال بھی سر سے باندھ لیا۔ دروازہ بند کرکے باہر نکل آیا۔ کھیت پار کرکے ریلوے لائن پر پہنچ گیا۔ اچانک وہ یاد آئی۔۔۔ جی چاہا اس کے گھر پہنچ جاؤں۔‘‘

    گوپی کی بات سن کر میں نے سوچا، محبت میں مبتلا ہوکر محبت کرنے والے ریل کی پٹری پر سر رکھنے سے بھی نہیں ہچکچاتے۔

    ’’میرے پاؤں آگے بڑھ رہے تھے۔ میرے دل میں اس کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔ اس کا گھر چاندنی میں نہا رہا تھا۔ اس کا خوبصورت چہرہ میرے دل میں تھا۔ وہ سو رہی ہوگی۔۔۔ سوتے وقت اس نے اپنے گھنے بال پھیلا دیے ہوں گے۔ وہ دھیمے دھیمے خراٹے لے رہی ہوگی۔۔۔ اس کی آواز کیسی ہوگی۔۔۔؟‘‘

    میں نے اچانک کہا، ’’کانسی کے برتن میں دودھ دوہنے کی آواز جیسی۔‘‘ اتنا کہتے ہی مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا۔ سگریٹ کے آخری کش کالطف لیتے ہوئے میں نے کہا، ’’پانچ چھ سال پہلے مدراس جاتے ہوئے مجھے سیکنڈ کلاس میں جگہ مل گئی۔ میں لیٹ گیا۔ کچھ غنودگی کے سے عالم میں ایک خواب دیکھا۔۔۔ میں نے ایک گاؤں میں ایک گھر کے آگے کھڑا ہوں۔ سویرا ہو رہا ہے۔۔۔ پاس ہی گاؤں کے طویلے میں ایک دوشیزہ دودھ دوہ رہی ہے۔ کانسی کے برتن میں دودھ گرنے کی دھیمی دھیمی آوازیں سن رہا ہوں۔ تب اچانک میری پیٹھ کو دھکا لگا۔۔۔ میں چونک پڑا۔۔۔ آنکھیں کھول کر دیکھا۔۔۔ گاڑی آرناکوٹم پہنچ چکی تھی۔۔۔ کانسی کے برتن میں دودھ گرنے کی آواز اب بھی سن رہا تھا۔ میں نے چاروں طرف دیکھا۔۔۔ اگلی سیٹ پر سونے والی ایک عورت کی آواز تھی۔‘‘

    میری کہانی سن کر گوپی مسکرایا۔ دور سے ٹرین کی آواز آئی۔

    ’’مدراس میل ہوگی۔۔۔ ہم اس پل سے کچھ ہٹ جائیں۔۔۔‘‘ میں نے گوپی کو آگاہ کیا۔

    اس جگہ۔۔۔ گاڑی پل کو ہلاتی ہوئی چلی گئی۔ ہم لوگ اترکی کی جانب چل دیے۔

    ’’چلاہوں دور بہت

    درد سے بےچین ہوکر

    اب خوبصورتی کو ظاہر کرنے

    کھڑا ہوں سامنے تیرے

    محبت کی ناؤ بن کر

    آیا ہوں پیاری۔۔۔ میں۔‘‘

    فصل کاٹتے وقت کایہ لوک گیت مجھے یاد آ گیا۔۔۔ میں نے گوپی کو گاکر سنایا۔

    ’’اس طرح پٹری پٹری چلتے اس کے گھر کے پاس پہنچ گئے ہوگے؟ کیوں گوپی۔۔۔؟‘‘

    ’’پہنچ نہیں سکا۔۔۔‘‘ گوپی نے پل کے آخری سرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ‘‘ پل کے قریب پہنچاہی تھا کہ۔۔۔ کہ۔۔۔ تب۔۔۔ ایک۔۔۔‘‘ گوپی کو اپنی بات کہنے کے لیے الفاظ نہیں مل رہے تھے۔

    ’’تب کیا ہوا۔۔۔؟‘‘ میں نے بےقراری سے پوچھا۔

    ’’تب کالے بھوتوں کایک جتھا کھیتوں میں سے وہاں چڑھ آیا۔‘‘

    ’’کالے بھوت۔۔۔؟‘‘

    ’’ہاں سرسے پیر تک کالے کپڑے پہنے ہوئے۔ کل ملاکر نو تھے۔ وہ سب نہایت خاموشی کے ساتھ میرے سامنے آکر کھڑے ہو گئے۔ اس وقت میں بالکل تھک گیا تھا۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا۔۔۔ وہ ڈاکو تھے۔۔۔ کالی ٹوپیاں پہنے۔۔۔ بھالے ہاتھ میں لیے کسی زمیندار یا دولت مند آدمی کا گھر لوٹنے کی تیاری میں تھے۔ کالی نقاب میں دیکھنے کے لیے جو سوراخ سے تھے، اس میں سے کئی آنکھیں ایک ساتھ مجھے دیکھ رہی تھیں۔‘‘

    ’’کو ن ہے۔۔۔؟‘‘ ایک بھوت نے پوچھا

    ’’کہاں جارہے ہو؟‘‘ دوسرا بھوت بولا۔

    ’’تب مجھے ہوش آیا کہ میں کون ہوں۔ انہیں کیا جواب دوں! وہاں کی کسی جگہ کانام مجھے نہیں معلو م تھا۔ جھوٹ بولنے پروہ مجھے مارتے۔ میرا انہیں دیکھنا ایک جرم تھا۔ وہ اپنے ہاتھ والے لوہے کے ڈنڈے کے ایک ہی وار سے میرا کام تمام کر سکتے تھے۔ لاش کو وہیں ریل کی پٹری پر ڈال دیتے۔۔۔ صبح گاڑی آنے پر دو ٹکڑے۔۔۔ سر پٹری پر ہوتا اس لیے کوئی پہچان بھی نہ پاتا۔۔۔ صبح لوگ دیکھتے۔۔۔ اسکول جاتے وقت بھی وہ دیکھتی۔۔۔ ایک بار دیکھتی ہوئی بےتعلقی کا اظہار کرتی ہوئی چلی جاتی۔۔۔ مگر وہ مجھے کیوں ماریں گے۔۔۔ میرے پاس گھڑی، قلم کچھ نہیں ہے۔ جیب میں ایک پیسہ تک نہ تھا۔۔۔ شاید اس وجہ سے وہ مجھے مار ڈالیں، جیب میں ایک پیسہ نہ رکھنے والا شیطان کہہ کر وہ وار کر سکتے ہیں۔ سارا کا م تمام ہو جاتا۔ اس ایک پل میں سیکڑوں خیالات میرے دل میں آئے اور آ گئے۔ ایک بھوت نے ہاتھ بڑھاکر میرے سر کا کپڑا اتار لیا۔‘‘

    ’’کافر ہے۔۔۔‘‘ سر کا کپڑا اتارنے والا بولا۔

    ’’کہاں جا رہا ہے۔۔۔‘‘ پہلے بھوت نے پوچھا۔

    ’’مجھے یہاں سے دومیل دور کی ایک جگہ کا نام یاد آ گیا۔

    میں نے بتا دیا۔

    ’’کیوں جاتا ہے۔۔۔؟ کس کو دیکھنے۔۔۔؟‘‘ اگر ایسا سوال کریں گے تو میں مصیبت میں پڑ جاؤں گا۔ آہستہ سے میں گیتا کے اشلوکوں کو پڑھنے لگا۔

    ان میں سے ایک نے بڑھ کر میرا منہ اچھی طرح دیکھا۔

    ’’چھوڑ دو۔۔۔ بیٹے کا ماسٹر ہے۔۔۔‘‘

    اس جان بخشنے والے کی طرف میں نے دیکھا۔۔۔ اور پھر میں نے اپنی کلاس کے تمام مسلمان طالب علموں میں سے ہر ایک کے بارے میں سوچا۔

    ’’ابے سیدھا چلاجا۔۔۔‘‘ پہلے بھوت نے کہا، ’’اوریہ بھی لے جا۔‘‘ میرا کپڑا اس نے پیر سے اچھالتے ہوئے کہا۔ زمین سے اپنا کپڑا اٹھاکر میں ریل کی پٹری کی طرف سے چلا گیا۔

    ’’نایر کٹی کوئی چھپ کر ملنے جاتاہ ے۔‘‘ اس نے پیچھے سے فقرہ کسا اور پھر سب مل کر ہنسنے لگے۔

    میں پیچھے دیکھے بغیر چلا گیا۔

    ’’اب ہم چلیں۔۔۔؟‘‘ میں نے گھڑی دیکھ کر گوپی سے کہا۔ مگر گوپی پل کی طرف دیکھتے ہوئے وہیں کھڑا رہا۔

    ’’کچھ دیر پہلے جانے والی عورتوں کی قطار دیکھ کر مجھے وہی حادثہ یاد آ گیا تھا۔ اب تم سمجھے کہ مجھ پر کون سا بھوت سوار تھا۔۔۔؟‘‘

    ’’اسے بھول جاؤ۔۔۔ دیر ہو گئی۔۔۔ اب ہم چلیں!‘‘

    گوپی میرے ساتھ چار پانچ قدم آگے بڑھا۔ پھر پیچھے مڑکر کے اس جگہ کو دیکھنے لگا جہاں میرے پھینکے ہوئے سگریٹ کے ٹکڑے سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ کچھ دور چلنے کے بعدمیں نے گوپی سے پوچھا، ’’اس رات پھر تم نے کیا کیا۔ کہاں تک گئے؟‘‘

    ’’بتاؤں۔۔۔؟‘‘ گوپی نے اپنے سفید بالوں پر ہاتھ پھیرا، پھر چلتے چلتے ہنسنے لگا۔ یہ ایک لمبی کہانی ہے۔‘‘

    اسے سننے کے لیے تیاری کے طور پر میں نے چوتھی سگریٹ سلگائی۔

    گوپی نے کہا، ’’میں آگے کی جانب چلا۔۔۔ لوٹنے میں خطرہ تھا کہ کہیں وہ پھر نہ مل جائیں۔ نئی زندگی پاکر میں بہت خوش تھا۔ میں نے اسے یاد کیا۔ اسے دیکھنے کی خواہش بڑھنے لگی۔ میں اپنی نئی زندگی اسے دے دوں گا۔۔۔ میں نے طے کیا۔ اس دن مجھے روح پر یقین نہیں تھا۔ لیکن اس وقت وہی مجھے آگے کی طرف لیے جا رہی تھی۔ میں اس کے گھر پہنچ جاؤں گا۔ دروازہ کھٹکھٹاؤں گا۔ نہیں تو زور زور سے چلاؤں گا۔ گھر والے دروازہ کھول کر دیکھیں گے۔ ڈاکوؤں کے بیچ سے بچ کر آیا ہوں۔ سچ سچ کہہ دوں گا۔۔۔ رات میں سونے کے لیے جگہ مانگو ں گا۔۔۔ دروازے پر وہی کھڑی ملےگی۔

    ’’بال کھولے کھڑی ہوگی۔۔۔اس کے بارے میں سوچتے ہوئے میں چلنے کی تکلیف بھول گیا۔۔۔ ریل کی پٹری سے اتر کر ایک تنگ راستے سے چلتا ہوا اس کے گھر کے سامنے والے کھیت میں پہنچ گیا۔ میں جیسے خواب دیکھ رہا تھا۔ وہ گھر نیلے رنگ سے نہا رہا تھا۔ بڑی بڑی بتیاں جل رہی تھی۔ لوگ باتیں کرتے ادھر ادھر گھوم رہے تھے۔ شادی کی تیاری ہو رہی ہے کیا؟ تھوڑی دیر دیکھتا رہا۔۔۔پھربڑے پر سکون انداز میں اندر چلا گیا۔ مجھ پر کسی نے توجہ نہیں دی۔ شادی۔۔۔؟ میں نے منڈپ میں کھڑے ہوکر چاروں طرف نظر دوڑائی۔۔۔چراغ کے سامنے کھڑی ہوکر وہ ایک ادھیڑ مرد کے گلے میں مالا ڈال دیتی ہے۔۔۔اس دھوم دھام میں۔۔۔میں نے بھی حصہ لیا۔

    مجھ پر کسی نے دھیان نہیں دیا۔۔۔وہاں کوئی آدمی میری پہچان کا نہیں تھا۔ دعوت شروع ہوئی۔ ایک نوجوان نے آکر میرے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا، آئیے۔۔۔کھانا لیجیے۔ میں پہلی صف میں بیٹھ گیا۔۔۔اس منڈپ کو بھی نگل جانے کی بھوک تھی۔ اگلی صبح ہونے سے پہلے میں اپنے کمرے میں آیا اور اس کے دوسرے مہینے ملایا چلا گیا۔

    گوپی کی کہانی ختم ہوئی تو میں صرف ’’ہوں‘‘ کرکے رہ گیا۔ میرے دل میں مختلف خیالات تھے۔ میرے دل میں کچھ شک سا تھا کہ شاید میں اس وقت گوپی کواس کی محبوبہ کے گھر ہی لیے جا رہا ہوں۔

    شادی سے پہلے وہ ٹیچر تھی یانہیں، اس کا مجھے علم نہیں تھا۔ لیکن گوپی نے اپنے خط میں ہونے والی بیوی کی خوبصورتی کا ذکر اسی لڑکی کو آئیڈیل بناکر کیا ہوگا لیکن میں نے گوپی سے اس کا ذکر نہیں کیا۔ جب ہم پٹریوں پر یونہی چل کر سڑک پر آئے تو شام ہو چکی تھی۔ دوسری سڑک پہنچتے ہی گوپی متفکر ہوکر رک گیا۔

    ’’تم مجھے کہاں لیے جا رہے ہو۔۔۔؟‘‘

    میں نے ہنس کر کہا، ’’گوپی تم میرے ساتھ تو چلو۔۔۔ باقی باتیں بعدمیں کر لینا۔‘‘

    سڑک سے ہم کھیت میں پہنچے اور اس جگہ کی طرف دیکھا۔ اس گھر کے پاس عجیب و غریب منظر تھا۔ ادھر ادھر لوگ چپ چاپ بیٹھے تھے۔ گھر کے آنگن میں ایک لاش رکھی تھی۔ بائیں کندھے پر ایک بڑی سی رسی رکھے، دائیں ہاتھ میں ایک کلہاڑی لیے، گندہ سا انگوچھا پہنے ایک کالا موٹا سا آدمی ہمارے سامنے والے کھیت کی طر ف سے سڑک پر جا رہا تھا۔

    میں نے اس آدمی سے پوچھا، ’’کون ہے وہ۔۔۔؟‘‘

    ’’یہاں کے پٹیل کی بھانجی ہے۔ کوئی بیماری نہیں تھی۔ کل رات ایک دم۔۔۔‘‘

    میں نے گوپی کی طرف دیکھا۔۔۔ وہ شمشان کی طرف دیکھتا ہوا چپ چاپ کھڑا تھا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے