Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دنیاداری

اقبال حسن آزاد

دنیاداری

اقبال حسن آزاد

MORE BYاقبال حسن آزاد

    ’’عورت دنیادار ہوتی ہے۔ اس کے پاس بہت سارا سامان ہوتا ہے بچے ہوتے ہیں۔ اس کی خودداری ہوتی ہے، انا ہوتی ہے، حیا ہوتی ہے۔ کوئی داب نہ دے کوئی کچھ کر نہ دے اس لیے کبھی بھی کسی ایسی برتھ پر بیٹھنے کی کوشش نہ کرنا جس پر پہلے سے کوئی ایسی عورت بیٹھی ہو جو تمہاری بیوی نہیں ہے۔‘‘

    احسان کو بھائی نصوح کی یہ نصیحت اچھی طرح یاد تھی مگر مجبوری یہ تھی کہ اس کچھا کھچ بوگی میں صرف وہی ایک برتھ ایسی تھی جس پر بیٹھنے کی تھوڑی بہت جگہ تھی۔ اس نے نہایت عاجزی کے ساتھ پوچھا۔

    ’’بہن جی، کیا میں یہاں پر بیٹھ سکتا ہوں‘‘؟ مگر بہن جی نے کوئی جواب دینے کے بجائے اپنی ٹانگیں اور پھیلا دیں۔ ٹانگ پھیلانے کے عمل میں بہن جی کی ساڑی ذرا اوپر اوٹھ گئی اور ان کی گوری گوری پنڈلیاں جھلکنے لگیں۔ ان گوری پنڈلیوں کو دیکھ کر اسے راحت کی یاد آ گئی۔ اس روز اس نے راحت کے پیر سہلاتے ہوئے دھیرے سے پوچھا تھا۔

    ’’شادی میں چلنا ہے نا!‘‘اور راحت نے جھنجلا کر فوراً پیر نیچے کھینچ لیے تھے۔

    ’’تم جانا اپنے ہوتوں سوتوں کے یہاں۔میں کون ہوتی ہوں اور پھر ہم لوگ وہاں جاکر کریں گے کیا۔ جیب میں نہیں دانے ،امّاں چلیں بھنانے۔ ان بڑے لوگوں کے بیچ ہماری جگہ کہاں...؟‘‘

    راحت بڑبڑاتی رہی اور وہ چپ چاپ سنتا رہا۔ جاہل اور کم پڑھی لکھی عورتوں کی یہی تو فطرت ہے۔ دل کے پھپھولے پھوڑنے کے لئے طعنے دینے لگتی ہیں۔ راحت گو دل کی بری نہیں تھی مگر تنگ دستی اور مفلسی نے اسے چڑ چڑا بنا دیا تھا۔ احسان شش و پنچ میں پڑ گیا۔ جاؤ تو مصیبت، نہ جاؤ تو شکایت، کھائیں کدھر کی چوٹ بچائیں کدھر کی چوٹ۔ بڑے بھیا ریٹائرڈ اے۔ ڈی۔ ایم تھے۔ کنکڑ باغ میں تین کمروں کا فلیٹ لے رکھا تھا۔ ان کی چھوٹی بیٹی شگفتہ کی شادی تھی۔ بڑے بھیا کا بڑا بیٹا دبئی میں، منجھلا امریکہ میں اور چھوٹا قطر میں تھا۔ داماد سعودی عرب میں۔ سبھی اس شادی کے موقع پر آئے ہوئے تھے۔ اس دن بھیا سے فون پر بات ہوئی تھی تو انہوں نے بتایا تھا اور ایک بار پھر پوچھا تھا۔

    ’’شادی میں آ رہے ہو نا؟‘‘

    ’’ہاں ہاں کیوں، نہیں ضرور‘‘۔

    ’’اور راحت اور بچوں کو بھی لانا۔‘‘

    ’’وہ تو نہیں آ سکتی ہیں۔ ‘‘ احسان نے دھیرے سے کہا

    ’’کیوں ؟‘‘

    ’’وہ بات دراصل یہ ہے کہ آجکل ان کی طبعیت ناساز ہے۔‘‘ احسان کے لہجے کی ہچکچاہٹ بھیا نے محسوس کر لی تھی۔

    ’’کیا ہوا ہے اسے؟‘‘

    ’’کچھ خاص نہیں۔ بس بیٹھے بیٹھے چکر آ جاتا ہے۔‘‘ احسان نے بڑی مشکل سے جھوٹ بولا تھا۔

    ’’اچھا اچھا ، تو کم از کم بچوں کو لے آؤ۔‘‘

    ’’نہیں بچوں کو لاؤں گا تو راحت اکیلی ہو جائیں گی۔‘‘

    ’’خیر! خیر!! لیکن تم ضرور آنا۔ نہیں تو تمہاری بھابھی کو بڑی شکایت ہوگی۔‘‘

    اور اب وہ برہمپتر میل کی اس بوگی میں کھڑا دزدیدہ نگاہوں سے ان گوری گوری پنڈلیوں کو تکے جا رہا تھا کیونکہ روکھی سوکھی زندگی میں اگر تھوڑا بہت لطف نہ ہو تو پھر جینے سے کیا فائدہ۔ وہ جانتا تھا کہ یہ سب بس فریب ہی فریب ہے لیکن:

    ع

    اگر نہ ہو یہ فریب پیہم تو دم نکل جائے آدمی کا

    احسان جب بھیا کے فلیٹ میں پہنچا تو دن کے دو بج رہے تھے۔ بڑے شہر کا چھوٹا سا فلیٹ آدمیوں سے بھرا پڑا تھا۔ منجھلے بھیا فیضان Irrigation Dept میں Exceutive Engineer تھے۔ سنجھلے عرفان Neoru surgeon تھے اور راجندر نگر میں ان کا ذاتی کلنک تھا اور سب سے چھوٹا وہ یعنی احسان... پروفیسر احسان اشرف... بڑے بہنوئی ارشاد حیدر Bajaj Auto کے ڈیلر تھے اور رانچی میں رہتے تھے۔ چھوٹے بہنوئی عنایت کریم Builder تھے اور پٹنہ، رانچی، دھنباد اور مظفر پور جیسے شہروں میں بلڈنگیں کھڑی کرتے تھے۔ سبھی اپنی اپنی فیملی کے ساتھ موجود تھے۔ اسے دیکھ کر ان لوگوں نے خوشی کا اظہار کیا۔ پھر بھیا نے گاؤں سے آئے ہوئے غفور سے کہا۔

    ’’احسان کو اوپر والے فلیٹ میں پہنچا دو‘‘۔ پھر وہ احسان سے مخاطب ہو کر بولے۔

    ’’یہ بلڈنگ نئی بنی ہے۔ ابھی کئی فلیٹ خالی ہیں میں نے آٹھ فلیٹ کرائے پر لے لیے ہیں... مہمانوں کے لئے۔ نیچے پارکنگ لاٹ کے پاس کھانا بن رہا ہے۔ تم نے دیکھا ہوگا۔ تھوڑی دیر بعد تیار ہو کر نیچے آ جانا‘‘۔

    اتنا کہ کر وہ دوسری طرف متوجہ ہو گئے۔ غفورنے احسان کا سوٹ کیس اٹھایا اور وہ دونوں لفٹ میں سوار ہوکر اوپری منزل پر پہنچے۔ یہ بہت بڑا کشادہ فلیٹ تھا جس میں فرش سے دری اور چاندنی بچھی تھی۔ اورگاؤ تکیے لگے تھے۔ یہاں زیادہ تر گاؤں سے آئے ہوئے لوگ اور ان کے بچے نظر آئے۔ غفور نے بتایا کہ بقیہ فلیٹوں میں ایک ایک مہمان کو الگ الگ فلیٹ ملا ہے۔ اس نے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور پھر سوٹ کیس کھول کر کپڑے بدلے۔ اس کے بعد اس نے باتھ روم میں جاکر وضو کیا اور نماز کے لئے کھڑا ہو گیا۔ نماز سے فارغ ہو کر اس نے ایک بچے سے پوچھا۔

    ’’کھانا تیار ہو گیا ہے کیا ؟‘‘

    ’’نہیں جی! ابھی تو میں نیچے ہی سے آ رہا ہوں۔ باورچی کہہ رہا تھا کہ ابھی آدھے گھنٹے کی دیر ی ہے۔‘‘

    وہ تکیے کے سہارے لیٹ گیا اور جیسے خود سے کہنے لگا۔

    ’’دیکھ لیا نا پروفیسر احسان اشرف صاحب آپ نے؟ اسی لئے راحت یہاں نہیں آنا چاہتی ہے۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ اعلٰی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی یہ دن دیکھنے پڑیں گے۔‘‘

    ایک تلخ سی مسکراہٹ اس کے لبوں پر پھیل گئی اور اس نے کروٹ بدل کر آنکھیں موند لیں اور آپ ہی آپ اس کی آنکھیں بوجھل ہونے لگیں اور تھوڑی ہی دیر میں وہ نیند کی گہری وادیوں میں اتر چکا تھا۔

    پتہ نہیں کیوں میٹرک پاس کرنے کے بعد اس کے دل میں یہ دھن سما گئی کہ اسے پروفیسر بننا ہے۔ شاید کالج کے پروفیسروں کا رکھ رکھاؤ اور سماج میں ان کی عزت دیکھ کر اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا ہو مگر یہ تو تیس سال پرانی بات ہے۔ بڑے بھیا نے اس کے ارادے جان کر کہا تھا۔

    ’’ارے چھوڑو ان سب باتوں کو۔ بی۔ اے ۔کرو اور کمپٹیشن میں بیٹھ جاؤ۔ اگر non-gazetted آفیسر بھی بنو گے تو عیش کروگے۔ پروفیسری میں کیا رکھا ہے۔‘‘

    مگر اس نے بڑے بھیا کی بات کو سنی ان سنی کر دیا تھا۔ اس نے انگلش آنرس کیا اور پھر انگلش میں ایم۔ اے۔ کی ڈگری حاصل کی۔ ان دنوں نئے نئے کالج کھل رہے تھے۔ یونیورسٹی اورconsituent colleges میں بحالیاں خال خال ہی ہوتی تھیں۔ اس کے والد صاحب نے مشورہ دیا۔

    ’’کوئی Affiliated کالج جوائن کرلو۔‘‘

    مگر وہاں تو تنخواہ ہی نہیں ملتی ہے۔‘‘

    ’’تو کیا ہوا۔ آج نہ کل وہ Constituent ہو ہی جائےگا اور اگر یہ نہ بھی ہوا تو جب بھی Constituent college میں بحالی ہوگی تویہاں کا Experience تو count ہو گا ہی۔‘‘

    اگر آج والد صاحب زندہ ہوتے تو دیکھتے کہ ان کا مشورہ کس قدر غلط تھا۔ اس نے دوسرے شہر میں ایک Affiliated کالج جوائن کر لیا اور اس طرح انگریزی کا پروفیسر بن بیٹھا۔ پورے ملک میں بہار وہ واحد صوبہ تھا جہاں نو تقرر لکچرر کو پروفیسر کہا جاتا تھا۔ خواہ وہ سرکاری کالج میں پڑھاتا ہو یا پرائیوٹ کالج میں۔ احسان نے نئے شہر میں پہنچ کر ایک چھوٹا سا مکان کرائے پر لیا اور پروفیسر احسان اشرف کی Name plate بنائی اور اسے شان کے ساتھ دروازے سے لگا دیا۔ اس وقت تو وہ نیلے بادلوں پر سوار ہواؤں میں اڑتا پھر رہا تھا۔ جلدہی اسے ٹیوثن بھی ملنے شروع ہوگئے اور اس نے اپنی وضع قطع پروفیسر وں جیسی بنا لی۔ پھر اس کی شادی راحت سے ہو گئی۔ راحت بے حد حسین تھی اور پہلی ہی رات کو راحت کے حسن کا جادو احسان پر چل گیا اور یوں راحت نے بلی مارلی۔ وہ زیادہ پڑھی لکھی نہیں تھی اور اس میں ذہانت کی بھی کمی تھی۔ جب اس کی شادی کی بات چل رہی تھی تو اس کے لنگوٹیا یار سرفراز نے کہا تھا۔

    ’’یار! شادی ہمیشہ پڑھی لکھی اور ذہین لڑکی سے کرنی چاہئے۔‘‘

    سرفراز کی بات سن کر وہ ہنس پڑا تھا۔

    ’’گھر چلانے کے لئے مرد کی ذہانت کافی ہوتی ہے۔‘‘

    مگر جس طرح ابا کا مشورہ غلط تھا اسی طرح اس کا یہ خیال بھی غلط نکلا۔

    جب راحت نے بات بات پر طعنے دینے شروع کیے اور اس کی غربت کا مذاق اْڑانا شروع کیا تو پہلے پہل تو اسے بہت برا لگا مگر اتنے برسوں سے سنتے سنتے گویا وہ پتھر کا ہو چکا تھا۔ جب اس کی بھانجی کی شادی ہوئی تھی تو اس میں بھی وہ اکیلا ہی گیا تھا۔ واپسی پر اس کی بہن نے ایک شیر مال اور تھوڑا سا گوشت اس کے ساتھ کر دیا تھا۔ سوٹ کیس میں بند شیرمال سوکھ کر کڑا ہو گیا تھا۔ راحت نے شیر مال کو اْٹھا کر آنگن میں پھینک دیا تھا اور تنک کر بولی تھی۔

    ’’یہی ٹھیکوا لانے گئے تھے اور سلامی کتنی دی ۔ پانچ سو سے تو کم نہیں دیا ہوگا۔‘‘

    وہ خاموش کھڑا رہا تھا۔ پانچ سو کی اس کی حیثیت کہاں تھی۔ اس نے تو صرف سو کا ایک نوٹ لفافے میں ڈال کر بہن کے حوالے کر دیا تھا۔ اس شادی میں بھی سلامی دینی پڑےگی۔ مگر اتنے بڑے لوگوں کے بیچ اس کی سلامی کی کیا حیثیت ہوگی۔ اس نے بے چینی کے ساتھ کروٹ بدلی تو اس کی آنکھ کھل گئی۔ اسے ایک عجیب سے سناٹے کا احساس ہوا۔ وہ اْٹھ کر بیٹھ رہا۔ پورا فلیٹ خالی بھائیں بھائیں کر رہا تھا۔ کھڑکی سے زرد رنگ کی دھوپ اندر آ رہی تھی۔ اس نے گھڑی دیکھی۔ اف !پانچ بج گئے۔ عصر کا وقت ہو گیا۔ اس نے جلدی سے وضو کیا اور نماز کے لئے کھڑا ہو گیا۔ نماز سے فارغ ہوا تو گاؤں کے دو لڑکے فلیٹ میں داخل ہوئے۔

    ’’سب لو گ کہاں گئے؟ اس نے دریافت کیا تو ایک لڑکا بولا۔

    ’’نیچے کھانا کھانے گئے ہیں۔ آپ نے نہیں کھایا؟‘‘

    اسے بہت برا لگا۔ اسے کسی نے پوچھا تک نہیں۔ جی میں آیا کہ یہیں بیٹھا رہے۔ مگر بھوک کا احساس ہوا تو وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ پھر خیال آیا کہ کسی ہوٹل میں جا کر کچھ کھالے۔ مگر اس نے خود ہی اپنے اس خیال کو رد کر دیا۔ پھر اس نے کپڑے بدلے اور نیچے اتر آیا۔ جس جگہ کھانا بن رہا تھا وہاں جنریٹر والے، ڈرائیور اور ٹینٹ لگانے والے مزدور اور اسی قماش کے دوسرے لوگ کھانا کھا رہے تھے اور اس کا چھوٹا بھتیجہ کسی شخص سے کچھ باتیں کر رہا تھا ۔ اسے دیکھ کر اس نے پوچھا۔

    ’’آپ نے کھانا کھایا چھوٹے ابا؟‘‘

    ’’نہیں۔‘‘ اس کے منھ سے بے ساختہ نکلا۔

    ’’ارے دیکھئے سب لوگ کھا رہے ہیں۔ آ پ بھی کھا لیجئے۔‘‘

    اور اس نے نہ چاہتے ہوئے ایک پلیٹ اٹھائی اور کسی گداگر کی طرح باورچی کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ باورچی نے کفگیر سے ٹھنڈے چاول نکال کر اس کی پلیٹ پر رکھ دیے اور گوشت کی دو بوٹی اور شوربہ دیتے ہوئے بولا۔

    ’’دال ختم ہو گئی ہے۔‘‘

    اس نے جیسے تیسے کھانا زہر مار کیا اور بادل نخواستہ اوپر بھیا کے فلیٹ میں چلا گیا۔ بڑی بہن نے اسے دیکھتے ہی بوچھا۔

    ’’کہاں چلے گئے تھے۔ سب تمہیں تلاش کر رہے تھے۔‘‘

    پھر انہوں نے اسے زیور کا ایک چھوٹا ڈبہ کھول کر دکھاتے ہوئے پوچھا۔

    ’’کیسا ہے؟‘‘ اس نے دیکھا ڈبے میں سونے کی انگوٹھی جگمگا رہی تھی۔ بہن نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔

    ’’یہ میں سلامی میں دے رہی ہوں اور لوگ بھی زیور ہی دے رہے ہیں ۔آج کل یہی چل رہا ہے۔ تم کیا دو گے؟‘‘

    ’’میں...؟‘‘وہ ہکلا کر رہ گیا۔

    ’’کیوں! تم نے سلامی دینے کے لئے کچھ نہیں خریدا ہے۔‘‘

    ’’نہ...نہ...نہیں۔‘‘

    ’’خیر کوئی بات نہیں۔ بارات توکل شام کو آنے والی ہے۔ صبح جا کر خرید لینا۔‘‘

    ’’لیکن... میں؟‘‘ اس کی زبان لڑکھڑا نے لگی۔

    ’’اچھا چھوڑو، لفا فہ دے دینا۔‘‘

    ’’کتنا دینا ہوگا؟‘‘

    ’’کم از کم دو ہزار تو دو ہی گے۔ ماشاء اللہ انگریزی کی پروفیسر ہو۔‘‘

    اس کا گلا خشک ہو گیا۔ وہ اچھا کہہ کر وہاں پر سے ہٹ گیا۔ سامنے بڑے بھیا چلے آ رہے تھے۔

    ’’ارے احسان! سنو بھئی تم تو نظر ہی نہیں آ رہے ہو۔ ذرا ہوٹل چلے جاؤ ساجد کے ساتھ۔ اندر کا کام وغیر ہ دیکھ لینا اور وہاں Reception کے وقت تو تمہیں وہیں پر رہنا ہوگا۔‘‘

    وہ ’’جی اچھا‘‘کہتے ہوئے باہر نکل پڑا۔ پھر وہ بلڈنگ سے باہر آیا اور یونہی بےمقصد سڑک پر چلنے لگا۔ کاش اس نے بھیا کی بات مان لی ہوتی۔ کالج جوائن کرنے کے بعد بھی اس نے کئی بار مقابلہ جاتی امتحان دیا مگر آدھے ادھورے من سے۔ پھر شادی ہوئی تو راحت نے اسے راحت کی سانس ہی نہ لینے دی۔ وہ ایک ایسی کشتی کا کھویّا بن کر رہ گیا تھا جو ایک چھوٹی سی ندی کے بس اس کنارے سے اس کنارے تک جاتی تھی۔ وہ چاہتا تھا کہ پتوار کسی اور کے ہاتھوں میں تھما کر اس کشتی سے نجات حاصل کر لے مگر ایسا ہونا ممکن ہی نہ تھا۔

    چلتے چلتے اس کے کانوں میں اذان کی آواز آئی تو اس کے قدم مسجد کی جانب مڑ گئے۔ پہلے وہ نماز کا کچھ ایسا پابند نہ تھا مگر قسمت اور راحت نے مل کر اس کے دل کو گداز کر دیا تھا اور اب وہ مذہب کی پناہ میں دل کا سکون ڈھونڈتا پھر رہا تھا۔ نماز پڑھنے کے بعد وہ یونہی بلا مقصد پوری کالونی میں چکر لگانے لگا اور پھر تھک کر ایک پارک میں جا بیٹھا اور بیٹھے بیٹھے اپنی حالت پر غور کرنے لگا۔ حکومت جب رعونت بن جاتی ہے تو علم و حکمت کا جنازہ نکل جاتا ہے۔ قصہ یوں ہے کہ جب فرعون نے اپنے تدبر سے حکومت حاصل کر لی اور سارے ملک کا بادشاہ بن بیٹھا تو اس کے دل میں خیال آیا کہ کیوں نہ وہ خدائی کا دعویٰ کر دے۔ اس کے اس ارادے کا علم جب اس کے وزیر باتدبیر کو ہوا تو اس نے اسے ایسا کرنے سے باز رہنے کو کہا۔فرعون نہ مانا اور اس نے وزیر سے پوچھا کہ تم مجھے ایسا کرنے سے کیوں منع کرتے ہو۔ جب میں ہر شے کا حاکم بن چکا ہوں تو کیوں نہ چاہوں کہ لوگ مجھے سجدہ کریں؟ وزیر دانا نے دست بستہ جواب دیا کہ حضور کا اقبال بلند ہو۔ بےشک آپ پوری سلطنت کے سلطان ہیں لیکن جب تک معاشرے میں پڑھے لکھے لوگ پائے جاتے ہیں تب تک لوگ آپ کو خدا نہیں مانیں گے۔فرعون نے کہا کہ یہ کون سی بڑی بات ہے۔ جتنے بھی عالم فاضل ہیں انہیں قتل کر دیا جائے۔ بس پھر کیا تھا ۔دھڑادھڑ گردنیں اترنے لگیں اور ملک پڑھے لکھے لوگوں سے خالی ہوتا گیا۔ جب فرعون کے حکم کی تعمیل ہونے لگی اور اس کا چرچا عام ہوا تو دانشوروں نے اسی میں بھلائی جانی کہ چپکے ہو رہیں اور جاہلوں اور گنواروں سا سلوک کرنے لگیں تاکہ شاہی کارندے انہیں ان پڑھ سمجھ کر چھوڑ دیں۔ آخر ایک وقت ایسا آیا کہ ملک کے طول و عرض میں صرف جہلا رہ گئے اور تب فرعون نے خدائی کا دعویٰ کیا۔ اب اس کی خدائی کو جھٹلانے والا کوئی نہ بچا تھا چنانچہ سبھی اس کے آگے سجدہ ریز ہو گئے۔

    احسان نے جب سجدے سے سر اٹھایا تو اس کی آنکھوں کے گوشے بھیگ چکے تھے۔ عشا کی اذان ہو ئی تو اس نے نماز ادا کی اور بھیا کے فلیٹ کی جانب روانہ ہوا۔ اس دفعہ وہ سیدھے اوپر نہیں گیا بلکہ کھانا پکنے کی جگہ پر ہی بیٹھا رہا اور کھانا کھانے کے بعد ہی اوپر گیا۔

    دوسرا دن بھی یونہی گزر گیا۔ شام ہوئی تو ساجد اسے ڈھونڈتا ہوا آیا۔

    ’’چلئے چھوٹے ابا ہوٹل چلنا ہے۔ بارات آنے والی ہے۔‘‘ لیکن جیسے ہی دونوں کار میں بیٹھنے لگے ساجد کے چار دوست نہ جانے کہاں سے آ گئے۔

    ’’ارے یار ساجد! ہوٹل جا رہے ہو کیا؟ چلو ہم لوگ بھی چلتے ہیں۔‘‘ ان میں سے ایک نے چہکتے ہوئے کہا۔ ساجد نے ایک نظر ان چاروں پر ڈالی پھر اپنی چھوٹی سی کار کو دیکھا۔چند ثانیوں بعد اس نے احسان کے کان میں دھیرے سے کہا۔

    ’’آپ رکشے سے آ جائیےگا چھوٹے ابا۔ ابھی میں اپنے دوستوں کے ساتھ.....‘‘

    وہ خاموشی کے ساتھ پیچھے ہٹ گیا۔ کار آگے بڑھ گئی تو اس نے ایک رکشہ کیا اور ہوٹل کی جانب روانہ ہو گیا۔گرچہ بڑے بھیا نے اسے ذمہ داری دے رکھی تھی مگر وہ کھویا کھویا سا کنارے پڑی ایک کرسی پر بیٹھ رہا۔ پھر بارات آئی۔ نکاح ہوا۔ کھانا چلا اور وہ سب ہوا جو عموماً شادی بیاہ میں ہوتا ہے۔ وہ خاموش تماشائی کی طرح سب کچھ دیکھتا رہا۔ پھر جب سلامی دینے کا وقت آیا تو اس نے سو روپئے کا ایک نوٹ لفافے میں ڈال کر بھابھی کے حوالے کر دیا۔ بھابھی نے لفافے کے ہلکے پن کا اندازہ لگایا اور بےپروائی سے اسے ایک طرف ڈال دیا۔

    دوسرے روز دن کے بارہ بجے جب بارات رخصت ہو گئی تو اس نے اپنا سوٹ کیس اٹھایا اور بھیا بھابھی کو سلام کرنے پہنچا۔ بھابھی نے اسے دیکھ کر پوچھا۔

    ’’کیوں آج ہی جا رہے ہو۔ تم نے بتایا نہیں۔‘‘ بھابھی فرش پر بیٹھی تھیں اور سامنے رات کا بچا کھانا دیگوں میں رکھا تھا۔ بھابھی نے کہا۔

    ’’اچھا رکو! بچوں کے لئے کچھ لیتے جاؤ۔‘‘ پھر انہوں نے کچھ سوچ کر ایک پولتھین میں دو شیر مال اور دوسرے پولتھین میں مرغ مسلم کے چند ٹکرے ڈال کر اسے پکڑاتے ہوئے کہا۔

    ’’بریانی تو خراب ہو جائےگی۔ منچورین تو ہے مگر اسے گر یوی نہیں ہے اور دیکھو ماقوتی تو کم بختی کا مارا لے کر آیا ہی نہیں۔‘‘ اس نے کہا

    ’’رہنے دیجئے بھابھی یہ کافی ہے۔‘‘

    واپسی کا سفر نسبتاً آسان تھا۔ اسے کھڑکی کے پاس والی سیٹ مل گئی تھی۔ شیر مال اور مرغ مسلم کے ٹکرے پولتھین کے اندر اس کے بائیں ہاتھ میں لٹک رہے تھے۔ اچانک اس نظروں کے سامنے راحت آ گئی۔

    ’’یہی لانے کے لیے گئے تھے۔‘‘

    اس نے کھڑکی کے باہر جھانک کر دیکھا۔ تا حد نظر تاریکی ہی تاریکی تھی۔ اچانک اس نے بائیں ہاتھ کو کھڑکی کے باہر نکالا اور پھر دونوں پولتھین باہر تاریکی میں اچھا ل دیے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے