دوسرا مرد
‘‘جب مرد کسی سے محبت کرتا ہے تو کیا سچ مچ واقعی اسی سے محبت کرتا ہے، کیا پھر اس سے شادی بھی کر لیتا ہے؟’‘
’’وہ مجھ سے آج رو رو کر پوچھ رہی تھی۔ ساون کی کالی گھور گھٹاوں کی طرح اس کی آنکھوں میں آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ اس کی خوبصورت چمکدار آنکھیں سوجن اور سرخی کی وجہ سے آج بھدی دکھائی دے رہی تھیں۔ اس کی انہی خوبصورت آنکھوں پر تو کئی شاعروں نے بارہا غزلیں کہیں تھیں۔ وہی جھیل سی سندر،سمندر سے گہری آنکھیں آج گویا کسی اجڑے تالاب کا منظر پیش کر رہی تھیں۔ وہ آنکھیں جو کسی زمانے میں چشم آہو کی طرح پرکشش ہوا کرتی تھیں۔’‘
میرے پاس اس کے کسی سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔
‘‘مجھے تو یقین نہیں ہےکہ مرد کسی ایک عورت سے محبت بھی کر سکتا ہے، پھر تمہیں اتنے یقین سے کیسے کہہ دوں؟’‘ میرا لہجہ کافی تلخ تھا۔
‘‘محبت کا بیج تو رب کی جانب ہی سے بویا جاتا ہے۔ پہلے پہل دل کی زمین میں کسک سی ہوتی ہے پھر کہیں یہ بیج پھوٹتا ہے اور دل کا لہو پی کراک نازک سے پودے کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ محبت تو دلوں میں اگتی ہے۔ اک نازک سے ننھے منے پودے کی طرح مسکرا کر لہلہاتی ہے، جو آہستہ آہستہ اپنی جڑیں مضبوط کر لیتا ہے تو پھر بڑے سے بڑا طوفان بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔’‘
باہر زور سے سیٹیاں بجاتی، سرسراتی طوفانی ہوائیں جیسے باولی ہو کر بےتحاشا شور مچا رہی تھیں۔ شاید ان کو بھی اس کے دل میں اٹھتے عجیب سے طوفان کی خبر ہو گئی تھی۔
‘‘بڑا کٹھن سفر ہے، جسے اختیار کرنے کے لئے پل صراط پار کرنا پڑتا ہے۔ نجانے کتنے لوگ اس پل کو پار کرنے کی لگن لئے نیچے بھڑکتی آگ میں گر جاتے ہیں۔ اس آگ کے دریا کو شاید کوئی قسمت والا ہی پار کر سکتا ہے۔’’
گھمبیر سے غم ناک لہجے میں اس نے اپنی بات جاری رکھی۔۔۔
باہر مست ہواوں کا شور مزید اونچا ہو گیا تھا۔۔۔ بلیوں کی طرح لڑتی یہ ہوائیں کیا میرے درد جانتی ہیں؟ اس نے دکھ سے سوچا۔
‘‘تم کہیں اس سے محبت تو نہیں کرنے لگ گئیں۔ اوہ۔۔۔ زونیہ جی۔ ایسا کبھی مت کرنا، میں یہ بالکل درست کہہ رہی ھوں، کل کلاں کو یہ مت سوچنا کہ میں نے تمھیں سمجھایا تک نہیں۔ دیکھو وہ بال بچوں والا ہے۔ شاید تمہیں فریب بھی دے رہا ہے اور یہ محبت کا فریب بڑا ظالم ہوتا ہے۔ تم اس کے بچھائے جال کے دھوکے میں کبھی مت پڑنا۔ تم اس وقت اس کی نرمی، شفقت اورہمدردی کو غلط طور پر محبت سمجھ بیٹھی ہو۔’‘
وہ جو کافی دیر سے چپ تھی، یک دم چونکی۔ ’‘نہیں نہیں۔۔۔ وہ سچ مچ مجھ سے بے پناہ محبت کرتا ھے، بس بے حد مجبور ہے بیچارہ۔۔۔۔، بیوی، بچے ہیں اس کے۔۔۔ اور پھر اس کی ماں بھی تو کافی سخت مزاج ہے۔ وہ بھلا کیسے سب رشتوں کو داؤ پر لگا سکتا ہے؟‘‘
‘’تم ذرا اپنے آپ کو اس کی جگہ پر رکھ کر خود سوچو۔’‘
باہر بجلیاں کڑکڑائیں اور زور کی بارش شروع ہو گئی۔۔۔ ایک دھماکے کے ساتھ بجلی چلی گئی۔۔۔
اس نے اٹھ کر موم بتی روشن کی۔۔۔ اور جھک کر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی۔۔۔
‘‘زونیہ۔۔۔ میری جان، خدا کے لئے سنبھل جا۔ وہ محبت کے نام پر تجھے نقد خرید لے گا اور تو۔۔۔ کم عقل، لاچار اور مجبور۔۔۔ دو بچوں کی ماں ہو کر بھی دوسرے مرد کے چکر میں کہیں کی نہیں رہےگی۔‘‘
بتا رہی ہوں تجھے۔۔۔
دیکھ!ان معصوموں پہ تجھے کیا ذرا بھی ترس نہیں آتا؟ جن کا باپ ہی ان کا اپنا نہ ہو سکا، کیا یہ دوسرا مرد اس خلا کو پر کر سکےگا؟
تیری مشکل تو اگرچہ حل ہو جائےگی لیکن کیا وہ ان بچوں کو بھی باپ کا پیار دے پائےگا؟ ’’ٹمٹماتی موم بتی کے دھندلے سے ملگجے اندھیروں میں اسے اپنے ڈولتے سائے عجیب سے لگے۔۔۔ دھیمے سے ہمدردی بھرے لہجے میں اس نے اپنی بات جاری رکھی۔‘‘
‘‘اچھا سب چھوڑ۔۔۔ ایک بات مجھے سچ سچ بتا کہ وہ شادی کے بارے میں کیا کہتا ہے؟ اس معاملے میں اس کے کیا نیک ارادے ہیں؟’‘
وہ غمگین لہجے میں بولی، ’‘کبھی کہتا ہے۔۔۔ شادی کر تو لوں۔۔۔ لیکن۔۔۔ ماں جی سے بہت ڈر لگتا ہے۔۔۔’‘
‘‘تو نہیں جانتی اسکی ماں کو، وہ اس کو ناراض بھی تو نہیں کر سکتا۔’’ ٹمٹماتی شمع سے اٹھتے ہلکے ہلکے سے دھویں کی طرح وہ بھی من ہی من میں سلگ کر بلک اٹھی۔
‘‘بس تو نہیں سمجھ سکتی میرے دل کی حالت کو، جیسے میں مجبور ہوں، بالکل ویسے ہی وہ بھی تو لاچار ہے۔۔۔’’ اک چمکتا ستارہ سا اس کی گھنیری پلکوں تک آکر ٹھٹک گیا۔
‘‘میں اس کے رنگ روپ کی دیوانی تو بہت بعد میں ھوئی تھی۔۔۔ مجھے تو اس کے حب الہی، اس کی بندگی نے دیوانہ بنا دیا تھا۔۔۔ پھول جھڑتے ہیں اس کے منہ سے۔جب وہ مجھے اللہ اور اس کے رسول کی باتیں بتاتا ہے۔‘‘
’’پانچ وقت کا نمازی ہے وہ۔ ہر وقت اپنے رب کو راضی کرنے والا۔ رمضان شریف میں تو وہ تراویح تک کی امامت بھی کرواتا ہے۔ مت کر اس کی برائی۔۔۔ وگرنہ گناہ ملے گا تجھے.’‘
‘‘اچھا!’‘
میں بولی۔ ’‘واہ۔۔۔ بھئ بڑا دیندار ہے وہ، ہے ناپگلی، تو پیار میں سچ مچ اپنی سدھ بدھ کھو بیٹھی ہے، زلیخا ہو گئی ہے زلیخا’‘
‘‘تو نہیں جانتی کیا؟ مرد کسی ایک عورت سے محبت تو کر ہی نہیں سکتا۔ پانچ بچوں کا باپ ہے، دیندار، نمازی، پرہیز گار اور اللہ کی بندگی کرنے والا۔ مگر دیکھ تو۔ کیسے تجھے دھوکا دے رہا ہے؟ کسی نا محرم عورت اور وہ بھی دو بچوں کی ماں سے محبت جتا رہا ہے۔ کتنا دین دار ہے؟ خود اسی سے اندازہ لگا لواس کی دینداری کا اور تیری تسبیح ہے کہ بغیر وضو کے بھی اسی کے ورد میں مشغول ہے۔ جھلی نہ ہو کہیں کی۔۔۔‘‘
’’اری او پیار کی اندھی یہ کیسا مرد ہے؟ جو اپنی محبت کو بیچ چوراہے میں اس طرح تڑپتا چھوڑ رہا ہے۔ محبت۔۔۔ ہونھ۔۔۔ یہ محبت ہے؟ ایسی ہوتی ہے محبت کیوں ہزار حیلے بہانے کر رہا ہے۔؟ بول۔۔۔’‘
‘’ارے 90 فیصد کیسسز میں مرد محبت نہیں کرتا کیونکہ, وہ صرف فلرٹ کرنا جانتا ہے۔۔۔ پھر جسے تو اس کی مجبوریاں کہہ رہی ہے۔ وہ مجبوریاں نہیں ہیں۔۔۔ صرف بہانے ہیں بہانے۔۔۔ اس کے۔ مرد ہو اور مجبور ہو؟ جو مرد خود کو مجبور کہتا ہے وہ سچ مچ جھوٹا ہے’‘
‘‘تم انسانی تاریخ کو اٹھا کر دیکھ لو مرد کو جب بھی کسی عورت سے محبت ہوئی ہے۔ حقیقی محبت۔۔۔ تو اس نے ہر قیمت پر اپنی محبت کو پانے کی کوشش ہی کی ہے اسے دولت سے ہاتھ دھونے پڑے ہیں تو اس نے اپنے بھاری نقصان کی بھی پرواہ نہیں کی۔۔۔ جان داؤ پہ لگانی پڑی ہے تو وہ اس حد تک بھی گیا ہے۔ پھر یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ وہ شادی کے بارے میں مجبور ہو گیا ہے؟ مجبوری کا تعلق کمزوری سے ہوتا ہے اور اگر ہم آج کے مرد کو مجبور مانتے ہیں تو پھر کیا اسے کمزور بھی مان لیں؟’‘
‘‘تم سمجھتی ہو اگر شادی نہ ہو سکے تو اس کا مطلب صرف یہی ہے کہ محبت سچی نہیں تھی؟؟؟’’ وہ ہکلا کر بولی۔
‘‘دیکھو! مرد اگر کسی عورت سے محبت کرتا ہے اور پھر اس سے شادی نہیں کرتا تو اس کا مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ عورت کو کسی دوسرے مرد کی بیوی بننے کے لئے چھوڑ رہا ہے اور جس عورت سے مرد محبت کرتا ہے وہ بھلا یہ کیسے برداشت کر سکتا ہے کہ اس عورت کو کوئی دوسرا مرد دیکھے چھوئے اور وہ کسی دوسرے مرد کے گھر میں ہو؟ بولو۔۔۔ عورت کسی مرد سے محبت کرتی ہو تو اسے کسی اور کا ہونے دیتی ہے؟ نہیں۔۔۔ اس دوسری عورت سے حسد بھی کرتی ہے اور مرد کو ورغلاتی بھی ہے۔۔۔ مرد تو پھر مرد ہے جب اسے محبت ھو جاتی ہے تو وہ اپنی محبوبہ کے در کا غلام بن جاتا ہے۔ اس وقت تک وہ در نہیں چھوڑتا، جب تک محبت کا قرب حاصل نہ کر لے۔ اسی چکر میں وہ اپنی انا اور غیرت تک کو بھی داؤ پر لگا دیتا ہے۔۔۔ لیکن ہار نہیں مانتا تو پھر یہ کیوں نہیں کر سکتا؟‘‘
‘‘بتایا تو ہے۔۔۔ بہت مجبور ہے بیچارہ’‘۔
آنسو اس کی موٹی موٹی آنکھوں سے ڈھلک ہی پڑا۔ ہوا کے جھونکوں سے ٹمٹماتی شمع بھی گویا اس کے غم میں پٹ پٹ آنسو بہا رہی تھی۔
‘’کل رات باتیں کرتے وہ بھی رو پڑا۔۔۔ سچ مچ بچوں کی طرح رو رہا تھا وہ۔ مجھے بہت ترس بھی آیا۔ کاش میں اس کے پاس ہوتی تو اس کے تمام غم اپنے دامن میں سمیٹ لیتی۔۔۔ لیکن ہائے یہ دوریاں۔۔۔ یوں تو کہنے کو دوسری ہی گلی میں اس کا گھر ہے لیکن۔۔۔ یوں لگتا ہے جیسے مجھ سے کوسوں دور ہے۔’‘
‘’کاش یہ دوری نہ ہوتی’’۔
میں نے بات بدلتے ہوئے اس سے پوچھا
‘‘اچھا اس کا اب کیا حال ہے؟‘‘
’’بچوں سے ملتا بھی ہے یا کہیں مر کھپ گیا۔۔۔ تیرا وہ پہلا مرد۔۔۔ ظالم’‘
وہ زاروقطار روتے ہوئے بولی۔۔۔
‘‘میرے لیئے تو وہ اسی دن مر گیا تھا جب اس نے طلاق کے تین بول میرے منہ پر دے مارے تھے۔ سچ مچ بہت زور سے لگے تھے۔ آج تلک ان کے نشان میرے ماتھے پر داغ کی طرح سجے ہوئے ہیں۔ روح کی گہرائیوں تک بڑے گہرے زخم آئے تھے۔ بہت تڑپی تھی میں بھی، بن پانی کی مچھلی کی طرح اب تو وہ زخم ناسور بن چکے ہیں۔ جب جب رستے ہیں تو سچ۔۔۔ اللہ پاک کی قسم۔۔۔ بڑا درد ہوتا ہے۔ راتوں میں یہ دل کا درد مجھے بالکل سونے نہیں دیتا۔ آنکھوں سے جب جب یہ ساون برستا ہے نا۔۔۔ تو اس کا بہاؤ کسی سیلاب سے کم نہیں ہوتا۔۔۔ اور جب یہ سیلاب من کے سارے بند توڑ کر اپنا راستہ بناتا ہے تو بڑی تباہی مچاتا ہے۔۔۔ پھر سب کچھ تہس نہس ہو جاتا ہے۔۔۔ جب یہ سیلاب کسی کے وجود پر سےگزرتا ہے تب اس کی تباہی بڑی بھیانک ہوتی ہے۔۔۔ بدن کے گھاؤ نمایاں ہو جاتے ہیں۔ کھائیاں اورگڑھے وجود کی عمارت کو وقت سے پہلےہی کھنڈر بنا دیتے ہیں۔۔۔’‘
میں اس کے آنسو پونچھ کر گویا ہوئی ۔۔۔
‘‘یارا اس کے بارے میں اس لئے نہیں پوچھا تھا کہ تو دوسرے مرد کے غم سے نکل کر پہلے والے کے عطا کردہ دکھ کی آغوش میں چلی جائے۔ اس دوسرے نے بھی یہی کرنا ہے تیرے ساتھ۔۔۔ سنبھل جا، نہیں تو بول اسے، تجھ سے نکاح کر لے۔۔۔ اور پھر تجھے کہیں دور گھر لے کر دے۔ بیوی اور ماں کو بھی بھلے بے شک نہ بتائے۔ دیندار ہے تو بجائے تجھے نماز روزے کی تلقین کرنے کے، تجھ سے نکاح کر لے اور ثابت کرے کہ وہ کتنا دیندار ہے۔ دو ٹوک بات کیوں نہیں کرتی اس سے؟‘‘
’’کیوں اب تک محبت کی سولی پر لٹک رہی ہے؟’‘
وہ سسکی لے کر بولی۔
‘’کی تھی بات اس سے۔۔۔ کہ سیدھی طرح نکاح کرو۔۔۔ یا پھر مجھ سے بات نہیں کرو۔۔۔۔ آئیندہ۔۔۔’‘
میں نے پھر پوچھا۔۔۔
‘‘تو پھر کیا ھوا؟ کیا کہا اس نے؟’‘
‘’وہ پہلے تو مجھے پیار سے اپنی مجبوریاں سمجھانے کی کوشش کرتا رہا۔ جب میں نہیں مانی تو۔۔۔’’
’’میں بھی بضد تھی کہ آج ہی فیصلہ ہو جائے۔۔۔ کیوں بے صبری تھی میں؟’’
اس نے بے بسی سے خود کو کوستے ہوئے کہا۔۔۔ آنسووں سے اس کی آواز بھرا گئی تھی۔
‘‘نجانے میری انا کی دیوار اتنی اونچی کیسے ہو گئی تھی اس رات۔‘‘
میں جو ہر بات میں اس کی ہاں میں ہاں ملاتی تھی۔۔۔
’’تیری انہی باتوں نے مجھے گمراہ کر دیا۔۔۔’‘
پھر وہی ہوا، جس کا مجھے ڈر تھا۔ وہ بلک بلک کر روتی ہوئ کہہ رہی تھی۔
‘‘اس نے مجھے کہا: آئیندہ وہ مجھ سے کوئ رابطہ نہیں رکھےگا اور میں بھی اس سے ملنے کی کبھی کوشش نہ کروں۔‘‘
تو سننا چاہے گی اس کے آخری الفاظ۔۔۔
‘‘میں تیرے لئے مر گیا اب، بس تو روز رات کو میری قبر پر پھولوں کی چادر چڑھا دینا۔‘‘
جانتی ہے، آج پانچواں دن ہے۔
گھڑی کی سوئی جب رات کے بارہ بجاتی ہے، میں اپنے موتیوں جیسے آنسوؤں کی لڑیوں سے اک چادر بنتی ہوں۔۔۔
’’پھر اسے اپنے ارمانوں کے مزار پر چڑھا دیتی ہوں۔۔۔’‘
تیز ہوا کے جکڑ سے ٹمٹماتی ہوئ شمع بجھ گئی۔۔۔ اندھیروں میں اسکے آنسو کسی جلتی بجھتی آپ ہی آپ پگھلتی شمع کی مانند چمکتے تھے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.