Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

احتساب

MORE BYمحمد نہال افروز

    نور محمد بن فیضی شہر کے بہت رئیس اور نفیس شخص تھے۔ رئیس اس قدر کہ شہر کاامیر سے امیر اور رئیس سے رئیس آدمی بھی ان کو اپنا پیش رومانتا تھا۔ شہر کے بیشتر امیراور رئیس موقع بہ موقع ان کی دولت سرا پر حاضر ہوتے تھے۔ اور نفیس اس حد تک کہ بڑے سے بڑے نفاست پسند بھی ان کے سامنے پھیکے پڑ جاتے تھے۔ نور محمد کے والد فیضی مرحوم ایک معمولی تاجر تھے۔ شہر میں ان کی کپڑے کی دکان تھی۔ وہ بہت ہی نیک، مخلص اور ایماندار شخص تھے۔ وہ مناسب منافع پر اپنا کاروبار کیاکرتے تھے اور کبھی کسی سے ایک پیسہ بھی نا جائز نہیں لیتے تھے۔

    فیضی صاحب کے مزاج میں ژَندگی تھی۔ وہ قدامت پسند تھے۔ انہیں نئی چیزوں سے بہت گھبراہٹ ہوتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اس ترقی یافتہ دور میں بھی وہ اپنی دکان اوراپنے مکان کو نئی تکنیک اور نئے ایجادات سے کبھی آراستہ و پیراستہ نہیں کر سکے۔ وہ پرانے آدمی تھے اور پرانی چیزوں کو پسند کرتے تھے۔ انہوں نے ہمیشہ اپنے بزرگوں کی نشانی کو بچا کر رکھااور ہمیشہ اپنی مٹی سے جڑے رہے۔ کچے مکان میں رہتے تھے، مٹی کے برتن استعمال کرتے تھے اوران کے یہاں مٹی کے چولہے پر کھانا پکایا جاتاتھا۔

    فیضی صاحب کے مکان سے متصل ایک جھونپڑی تھی، جس میں مٹھو میاں نامی ایک شخصی اپنی بیوی کے ساتھ رہتے تھے۔ ان کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ مٹھو میاں دہاڑی کیا کرتے تھے۔ اسی سے ان کی گزر بسر ہوتی تھی۔ فیضی صاحب مٹھو میاں کا بہت خیال رکھتے تھے۔ گاہے گاہے ان کی مدد بھی کیا کرتے تھے۔ تہواروں کے موقعوں پر اکثر ان کو اپنے گھر بلا لیا کرتے تھے اور ان کے ساتھ ہی کھانا بھی کھایا کرتے تھے۔

    فیضی صاحب کچے مکان میں رہتے تھے، لیکن ان کے ارادے، حوصلے اور وعدے بہت پکے تھے۔ وہ ہمیشہ اپنی بساط بھر لوگوں کی مدد کیا کرتے تھے اورکبھی کسی کی دل آزاری نہیں کرتے تھے۔ فیضی صاحب سادہ مزاج، خوش اخلاق اور با کردار شخص تھے۔ ان کے مزاج میں کسی طرح کی ملاوٹ اور دکھاوا نہیں تھا۔ وہ ہر قسم کی تصنع اوربناوٹ سے پاک تھے، بلکہ پرانی تہذیب و ثقافت، روایات و اقدار اور اعلیٰ عادات و اطوارکے سچے امین تھے۔ وہ فطرت کے بہت قریب تھے۔ لو گ اکثر کہتے ہیں کہ انسان دنیا میں خالی ہاتھ آتا ہے اور خالی ہاتھ جاتا ہے۔ وہ اس دنیا سے اپنے ساتھ کچھ لے کر نہیں جاتا، سب کچھ یہیں چھوڑ جاتا ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ جب انسان دنیا سے جاتا ہے تو اپنے ساتھ بہت کچھ لے کرجاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے فیضی صاحب بھی اپنے ساتھ اپنی تمام اخلاقی قدریں اورتہذیب و ثقافت لے کر چلے گئے تھے۔ ان کے بچے ان کی ان عادات و اطوار سے بالکل خالی تھے۔ فیضی صاحب کے بعد ان کے ترقی یافتہ بچوں نے نہ تو کچے مکان کو باقی رہنے دیااور نہ ہی اس مکان میں موجود پرانی چیزوں کو۔ نہ ان کے اندر وہ تہذیبی قدریں باقی رہیں اور نہ ہی وہ اخلاقی اقدار۔ تہذیب و ثقافت کے تعلق سے ان کے اندازے اور پیمانے بدل گئے تھے۔ کچے مکان کی جگہ اونچے اونچے پکے مکانوں اور بنگلوں میں رہنا پسند کرتے تھے۔ اس ترقی یافتہ دورنے انہیں اخلاقی اقدار اور رشتوں کی اہمیت سے بہت دور کر دیا تھا۔ جدید ایجادات، انفارمیشن ٹکنالوجی اور سوشل میڈیا نے ان کی اخلاقی دنیا کو بہت چھوٹا اور معاشرتی دنیا کو بہت بڑا بنا دیا تھا۔ وہ اپنے آپ میں بہت مصروف رہتے تھے اور انہیں صرف اپنی دنیا سے مطلب رہتا تھا۔

    فیضی صاحب نے اچھی صحت اور لمبی عمر پائی تھی۔ ان کی پوری زندگی میں نزلہ، زکام، معمولی بخار کے علاوہ کبھی کوئی مہلک بیماری ان کے قریب نہیں آئی تھی۔ فیضی صاحب اس دنیا سے چلے گئے، لیکن کبھی انہیں اسپتال کامنہ دیکھنے کی نوبت نہیں آئی تھی۔ انہیں ترقی یافتہ لوگوں کو دیکھ کر بڑی کوفت ہوتی تھی اوروہ اکثر اکبر ؔالہ آبادی کا ایک شعر دہرایا کرتے تھے ؎

    ہوئے اس قدر مہذب، کبھی گھر کا منہ نہ دیکھا

    کٹی عمر ہوٹلوں میں، مرے اسپتال جا کر

    فیضی صاحب کی تین اولادیں تھیں، جن میں دوبیٹے اور ایک بیٹی تھی۔ بڑے بیٹے کانام نور محمداورچھوٹے بیٹے کا نام پیر محمدتھا۔ بیٹی دونوں بھائیوں سے چھوٹی تھی اور اپنے والدین کی لاڈلی تھی، جس کا نام نورین فاطمہ تھا۔ انہوں نے اپنے تینوں بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلائی، لیکن کسی کو نوکری کرنے کا مشورہ نہیں دیااوردونوں بیٹوں کو اپنے ہی کاروبار میں لگا لیا۔ فیضی صاحب جب معمر اور کمزورہوگئے تو اپنی کپڑے کی دکان بیٹوں کے حوالے کر دی۔ دونوں بیٹوں نے دکان کی ذمے داری اپنے سر لے لی اور اسے اپنے طریقے سے چلانے لگے۔

    ایک دن فیضی صاحب نے سوچا میرے پاس جو کچھ بھی ہے، اسے میں اپنی زندگی ہی میں اپنے بچوں کے حوالے کر دیتاہوں۔ تا کہ میرے جانے کے بعد بچوں میں کسی قسم کا کوئی تفرقہ نہ پیدا ہو۔ میرے سامنے ہی میری جائیداد کا بٹوارہ ہو جائے گا تو مجھے بھی اطمینان رہے گا۔ وہ اس ترقی یافتہ سماج سے بہت خائف رہتے تھے۔ آئے دن اخبارات میں قتل و غارت گری، نا انصافی، حرام خوری، رشوت ستانی، سود خوری، دھوکا دہی، زنا کاری، عدم تحفظ، رہزنی وغیرہ کی خبریں چھپتی رہتی تھیں۔ ایک دن فیضی صاحب نے اخبار میں ایک خبر پڑھی کہ جائیداد کے بٹوارے میں ایک بھائی نے دوسرے بھائی کی حق تلفی کی، جس کی وجہ سے دونوں بھائیوں میں لڑائی ہو گئی اور ایک بھائی نے دوسرے بھائی کا قتل کر دیا۔ یہ خبر پڑھتے ہی فیضی صاحب سوچ میں پڑ گئے کہ ”کہیں میرے بچے بھی۔۔۔ نہیں نہیں میرے بچے ایسا نہیں کر سکتے۔“ یہ خیال آتے ہی انہوں اپنے تینوں بچوں کو بلا بیٹھایا اور پہلے بڑے بیٹے نور محمد کو مخاطب کر کے کہا؛

    ”نور محمد میں چاہتاہوں کہ میرے پاس جو کچھ بھی ہے اپنی زندگی میں تم تینوں میں تقسیم کردوں۔“

    ابا کی باتیں سن کر نور محمدکسی گہری سوچ میں ڈوب گئے۔ پھراچانک اپنی سوچ سے باہر آئے اور بولے،

    ”جیسی آپ کی مرضی۔ آپ کے فیصلے پر آپ کو پورا حق ہے۔“

    اس کے بعد فیضی صاحب پیر محمد اور نورین سے مخاطب ہوئے اور کہا، ”آپ لوگوں کا خیال ہے۔“

    ”بھائی صاحب جیسا بولیں۔“ دونوں نے ایک ساتھ جواب دیا۔

    فیضی صاحب اس سے پہلے کہ کچھ بولتے نور محمد نے ابا کو سمجھاتے ہوئے کہا،

    ”لیکن ابا۔۔۔ اس سے تو ہم لوگوں میں دوریاں بڑھ جائیں گی۔ ہماری ترقی بھی رک جائے گی۔ ہم لوگ اپنا اپنا دیکھنے لگیں گے۔ ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی کوشش میں لگ جائیں گے اور پھر ابھی نورین کی شادی بھی نہیں ہوئی ہے تو اس صورت میں جائیداد کا بٹوارہ کیسے ممکن ہو پائے گا۔“

    نور محمد کی باتیں سن کرچھوٹے بھائی پیر محمد نے بھی اپنی رضا مندی ظاہر کرتے ہوئے کہا، ”بھائی صحیح کہہ رہے ہیں۔“

    نورین نے بھی بھائیوں کی باتوں سے اتفاق کیااور کہا، ”ہاں ابا۔۔۔ جائیداد کے بٹوارے کی جلدی کیا ہے۔ ابھی توہم سب لوگ ساتھ ہی میں رہتے ہیں۔ جائیدا کا بٹوارہ توآپ کر دیں گے، لیکن کیا اس کا فیصلہ آپ کر پائیں گے کہ آپ کس کے ساتھ رہیں گے، امی کسے کے ساتھ رہیں گی اور میں کہاں رہوں گی۔“

    بچوں کی باتیں فیضی صاحب کو درست لگیں۔ وہ اپنے بچوں کے ان عمدہ خیالات کو سن کر اوران کاآپسی اتفاق دیکھ کر بہت خوس ہوئے۔ انہیں ان کی باتوں سے بہت سکون ملا اوروہ بہت حد تک مطمئن بھی ہو گئے۔ فیضی صاحب کچھ دیر غورو فکرکرنے کے بعد بولے ؛

    ”ٹھیک ہے جیسا آپ لوگ مناسب سمجھیں، لیکن نور محمد میں آپ کویہ ذمے داری دیتاہوں کہ میرے اوپرجس کسی کا، جو بھی حق بنتا ہے اس کو آپ ادا کریں گے۔“ فیضی صاحب کے جملے میں حکم صاف طور سے دکھائی دے رہاتھا۔

    ”ٹھیک ہے ابا۔ آپ کے بعد آپ کی یہ ذمے داری میری اپنی ذمے داری ہوگی۔ ان شا اللہ کسی کی بھی حق تلفی نہیں ہو گی۔ آپ اس اس بات سے بے فکر رہیں۔“ نور محمد نے اپنے والد محترم کو بھروسہ دلایا۔

    فیضی صاحب اس ذمے داری سے بے فکر ہو گئے اور اپنا پوراوقت نماز، روزہ اور دوسری عبادات میں گزارنے لگے۔ کچھ دنوں کے بعد ان کا انتقال ہو گیا۔ فیضی صاحب کے انتقال کے بعد گھر اور دکان کی پوری ذمے داری نور محمد پر آگئی۔ وہ سب کے مالک بن گئے۔ انہوں نے اپنے کاروبار کو اوربڑے پیمانے پر بڑھانے کا ارادہ کیا اور والد کی دکان کو نہ صرف بڑھایا بلکہ اسے نئے طرز کی دکان بنا دیا، جس سے ان کی آمدنی میں دن بہ دن اضافہ ہوتا گیااور وہ ترقی کرتے گئے۔

    کچھ دنوں کے بعد نور محمد نے اپنی بہن نورین فاطمہ کی شادی کر دی۔ نورین کی شادی میں انہوں نے کسی قسم کی کوئی کمی نہیں کی۔ بلکہ اسے اپنی حیثیت سے زیادہ جہیز دیا اور اسے یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ اس کے سر پر اس کے والد کا سایہ نہیں ہے۔ بہن کی شادی کرنے کے بعد نور محمد نے اپنے چھوٹے بھائی سے کہا۔

    ”پیر محمد نورین کی شادی تو ہو گئی، اب میں چاہتا ہوں کہ ابا نے جو ذمے داری مجھے دی ہے، اسے بھی میں پوری کردوں۔“

    جی۔۔۔! جیسا آپ مناسب سمجھیں۔“ پیر محمد نے کہا۔

    ”ابا کی جائیداد میں دکان اور مکان ہے۔ اس کے دوحصے کر دیے جائیں۔ آپ کا کیا خال ہے؟“ نور محمد نے بھائی کا ارادہ جاننا چاہا۔“

    ”لیکن ابا تو اپنی جائیداد کاتین حصہ لگانا چاہ رہے تھے۔“ پیر محمد نے ابا کے ارادے کو یاد دلایا۔

    ”تین حصے۔۔۔؟ وہ کیوں۔۔۔“ نور محمد چونک گئے۔

    ”اباکی جائیداد میں نورین کا بھی تو حصہ ہے۔ اس میں اس کا بھی حق ہے۔“ پیر محمد نے کہا۔

    ”اس کا حصہ تو ہم نے اسے دے دیا۔“ نور محمد کے جملے میں اعتماد تھا۔

    ”کب۔۔۔؟کب دیا آپ نے اس کا حصہ۔“ پیر محمد کو تعجب ہوا۔

    ”ارے۔۔۔ ہم نے اس کی شادی کی، شادی میں اتناجہیز دیا اور اتنے بڑے پیمانے پر طعام کا نتظام کیا۔ ان سب میں بہت پیسے خرچ ہوگئے۔ ابھی اس کا حصہ پورا ہی نہیں ہوا۔ اس کا حصہ باقی ہی ہے۔“ یہ کہتے ہوئے نور محمد نے نورین کو حصہ دینے سے انکار کر دیا۔

    ”لیکن بھائی ابا کے بعد نورین کی شادی ہماری ذمے داری تھی۔“ پیر محمد نے زور دے کر کہا۔

    ہاں پیر محمد۔۔۔ مجھے بھی پتہ ہے کہ نورین کی شادی کرنا ہماری ذمے داری تھی، لیکن اتنا جہیز دینا اور اتنے مہمانوں کے طعام کا انتظام کرنا تو ہماری ذمے داری نہیں تھی نا۔ ہم نے تو اس کا حصہ اس کی شادی میں خر چ کر دیا۔ اب ابا کی جائیداد میں نورین کا کوئی حق نہیں بنتا۔ ویسے بھی بہن کو جائیداد میں حصہ کون دیتا ہے۔ ہم بھی نہیں دیں گے۔“ نور محمد نے حتمی طور پر اپنا فیصلہ سنا دیا۔

    پیر محمد خاموش ہوگئے، انہوں نے بڑے بھائی سے اور زیادہ بحث کرنا مناسب نہیں سمجھا۔

    اس کے بعد نور محمد نے دکان اور مکان کے دو حصے کیے اورایک حصہ پیر محمد کے حوالے کر کے دوسرے حصے کے مالک خود بن گئے۔

    بہن کی شادی اوراپنے طور پرابامیاں کی دی ہوئی ذمے داری سے فراغت کے بعد نور محمد اپنی پوری توانائی اپنے کاروبار میں صرف کرنے لگے۔ ان کی محنت رنگ لائی اوراللہ نے ان کے کاروبار میں ترقی عطا کی۔ دھیرے دھیرے ان کا کارو بار آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگا اور ان کی آمدنی دن دونی رات چوگنی کے مانند بڑھنے لگی۔ جب نور محمد نے کافی رقم جمع کر لی تو ایک ٹکسٹائل کمپنی کی بنیاد ڈالی، جس کا نام انہوں نے ’فیضی ٹکسٹائلس پرائیویٹ لمٹیڈ‘رکھااورکمپنی کو جدیدترین ٹکنالوجی اور نئی مشینری سے آراستہ کیا۔ اس کے لیے انہوں نے اٹلی، جاپان اور جرمنی سے کپڑے بنانے والی مشینیں منگوائی۔ ان مشینوں کے ذریعے ’فیضی ٹکسٹائلس پرائیویٹ لمٹیڈ‘کمپنی میں عمدہ اور بہترین کپڑے تیار کیے جانے لگے۔

    جدید ٹکنالوجی اور نت نئی مشینوں کے استعمال سے نور محمد کے کارو بار میں اتنی ترقی ہوئی کہ ان کی کمپنی کی شناخت عالمی سطح پرہو گئی۔ چین، جاپان، امریکہ، ساوتھ افریقہ اور انگلینڈجیسے بڑے ممالک سے ان کے پاس آرڈرڈ آنے لگے۔ ان کی کمپنی میں تیار کیے گئے کپڑے بیرون ممالک میں بھی ایکسپورٹ ہونے لگے۔

    نور محمد نے اپنی کمپنی کو اس مقام تک پہنچانے میں بہت محنت کی۔ وہ اپنا زیادہ تر وقت اپنی کمپنی کو آگے بڑھانے میں ہی صرف کرتے تھے۔ انہیں پورایقین تھا کہ جس طرح اپنی محنت کے بل بوتے میں نے ابا کی معمولی سی دکان کو آسمان کی بلندیوں تک پہنچایا تھا اسی طرح اس کوبھی کڑی محنت اور لگن سے عالمی شہرت یافتہ کمپنی بنا دوں گااور ہوا بھی ایسا ہی۔ درمیان میں ایسا بھی وقت آیا تھا کہ کمپنی کوآگے بڑھانے کا بھوت ان کے سر پر ایسا سوار تھا کہ انہوں نے اپنے گھر بار پر توجہ دینا ہی چھوڑ دیا تھا۔ ہر وقت کمپنی کے بارے میں ہی سوچتے رہتے تھے۔ یہاں تک کہ بیوی بچوں کو بھی وقت نہیں دیتے تھے۔ ان کی ماں ان سے شکایت کرنے پر مجبور ہو گئی تھی کہ نور محمدمیرے پاس ایک پل بھی نہیں بیٹھتا۔ بھائی بہن سے بھی دوری بنا لی تھی۔ دوست احباب کو بھی وقت نہیں دیتے تھے۔ رشتے داروں سے بھی تعلق ختم کر لیا تھا۔ انہیں پڑوسیوں کا بھی کوئی خاص خیال نہیں رہتا تھا۔ انہیں صرف اور صرف اپنی کمپنی سے مطلب رہ گیا تھا۔

    نور محمد کمپنی کے علاوہ اگر کسی کو وقت دیتے تھے تو وہ شہر کے امیر و رئیس اور بڑے بزنس مین تھے۔ وہ خود بھی بہت رئیس آدمی ہو چکے تھے اور ہر طرح کا رشتہ بھی امیروں اور رئیسوں ہی سے رکھتے تھے۔ ان کی کمپنی جب عالمی سطح پر متعارف ہو گئی اور اعلیٰ پیمانے پر کپڑا ایکسپورٹ ہونے لگا تو انہوں نے سارا کام اپنے منیجر، خزانچی اور کمپنی کے دیگر ملازمین کے حوالے کر دیا اور خود محض مالک کی کرسی سنبھالنے لگے، جس سے نور محمد کے پاس کافی وقت رہنے لگا۔

    نور محمد کے پاس اب وقت تو بہت رہتاتھا، لیکن وہ خود کو بہت رئیس اور نفیس سمجھنے لگے تھے اور ہو بھی گئے تھے۔ ان کے اندر غضب کی نفاست بھی آگئی تھی۔ ایسے میں وہ غریبوں اور پڑوسیوں سے رشتہ بنانا اپنی توہین سمجھنے لگے تھے۔ بھائی بہن اور دوست احباب کی حیثیت بھی ان کے جیسی نہیں تھی اور پھر ان سے بھی تو اپنا تعلق ختم کر چکے تھے۔ اس لیے اپنا وقت گزارنے کے لیے حقو اللہ میں مشغول ہو گئے۔ ویسے بھی عام طور پر آدمی دنیاوی زندگی میں کامیاب ہونے کے بعدہی روجوعِ اِلی اللہ ہوتا ہے۔ اب نور محمد بڑی پابندی سے نمازیں ا دا کیا کرتے تھے، روزے رکھتے تھے، زکوٰۃ ادا کیا کرتے تھے، صدقہ بھی کیا کرتے تھے۔ تہجد، چاست اور اشراق بھی پڑھا کرتے تھے۔ اسی درمیان انہوں نے کئی مرتبہ حج بھی کر لیا تھا۔ اب وہ صرف نور محمد نہیں رہ گئے تھے بلکہ حاجی نور محمد ہو گئے تھے۔

    ان سب کے بعدحاجی نور محمدکے پاس جو وقت بچتا تھا وہ ان کے نئے دوستوں کے ساتھ گزرتا تھا، جو بہت ہی رئیس طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ نور محمد کے یہ دوست اکثران کے گھر پر ملنے آیا کرتے تھے، جس سے ان کو شرمندگی محسوس ہوتی تھی، چونکہ ان کا گھر ابا کے زمانے کا تھا، جومٹی کا بنا ہوا تھا۔ اس لیے انہوں نے اپنے مکان کو نئے طرز پر بنانے کا ارادہ کیا۔ نئے مکان کو بنانے کے لیے نور محمد نے مکان سے لگے مٹھو میاں کی جھونپڑی کو ہٹانا ضروری سمجھا۔ اس لیے انہوں نے مٹھو میاں کو بلوا بھیجا اور ان سے کہا۔

    ”میاں جی میں اپنا مکان نئے طرز پر تعمیر کرانا چاہتاہوں۔ اس لیے آپ یہ جھونپڑی یہاں سے ہٹالیں تو مناسب ہوگا۔ اس کا جو معاوضہ بنتا ہے وہ میں آپ کو دے دوں گا۔“

    مٹھو میاں نور محمد کی باتیں سن کر پریشان ہو گئے اور کہا، ”صاحب آپ اپنا مکان بنائیے، لیکن میری کٹیا وہیں رہنے دیجیے۔ میں اس عمر میں کہیں نہیں جاؤں گا۔“

    ”لیکن نئے مکان کے سامنے یہ جھونپڑی اچھی نہیں لگے گی۔“ نور محمد نے مٹھو میاں کو سمجھانا چاہا۔

    ”صاحب یہ آپ کا مسئلہ ہے۔ میں اس میں کچھ نہیں کر سکتا۔“ مٹھو میاں نے صاف منع کر دیا۔

    ”میاں جی بات سمجھنے کی کو کشش کیجیے۔ آپ کب تک جھونپڑی میں زندگی گزاریں گے۔ میں آپ کو گاؤں کے باہر ایک اچھا سا مکان بنا کر دے دوں گا۔“ نور محمد نے مٹھو میاں کو لالچ دی۔

    ”صاحب یہ صرف ایک جھونپڑی نہیں ہے، جو میں اسے چھوڑ دوں۔ اس سے ہماری یادیں جڑی ہوئی ہیں۔ اس جھونپڑی میں ہمارے باپ دادا نے اپنی زندگی بسر کی ہے۔ ہم نے بھی اس میں اپنی پوری عمر گزار دی۔ اس کٹیا سے ہمارا دلی لگاؤ ہے۔ اب آخری عمرمیں ہم اسے چھوڑ کر کہیں نہیں جائیں گے۔“ مٹھو میاں جذباتی ہو کر بولے۔

    حاجی نور محمدنے وہاں سے جھونپڑی ہٹوانے کی بہت کو شش کی، لیکن انہیں کامیابی نہیں ملی۔ آخرکار تھک ہار کر جھونپڑی کو وہیں رہنے دیا اور اس سے بالکل لگا ہوا ایک بہت بڑا بنگلہ تعمیر کروایا۔ بنگلہ اتنا خوبصورت تھا کہ اعتراف کے لوگ اسے دیکھنے آیا کرتے تھے۔ جب بنگلہ پوری طرح بن کر تیار ہو گیا تو نور محمد نے ایک بہت بڑی پارٹی رکھی۔ اس پارٹی میں شہر کے رئیسوں اور امیروں کو مدعو کیا۔ ساتھ میں اپنے کاروباری ساتھیوں کو بھی دعوت دی۔ سبھی نے ان کی دعوت قبول کی اور ان کے بنگلے پر تشریف لائے۔ ہر کسی نے بنگلے کی بہت تعریف کی، لیکن انہیں بنگلے سے لگی جھونپڑی کو دیکھ کرلوگوں کو تعجب بھی ہوا۔ وہ لوگ کہنے لگے کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ اتنے خوبصورت بنگلے کے ساتھ یہ جھونپڑی کچھ زیب نہیں دے رہی ہے۔ یہ تو ایسے لگ رہا ہے جیسے مخمل کی چادر میں ٹاٹ کا پیوند، جیسے گلاب کے پھولوں کے بیچ گیندے کا پھول، جیسے سفید کرتے میں کاجل کا داغ۔۔۔ مہمانوں کی ایسی باتیں نور محمد کو اچھی نہیں لگیں۔ ان کو مٹھو میاں پر غصہ آنے لگا۔ وہ مارے غصے کے لال ہوئے جا رہے تھے۔ ان کی ناک اوربھویں چڑھنے لگی تھیں، لیکن انہوں نے اپنے غصے کو قابو میں کیا اور مہمانوں کے جانے کا انتظار کرنے لگے۔ مہمانوں کے جاتے ہی انہوں نے اپنے اثر و روسوخ کا استعمال کر کے بلڈوذر منگوایا اورمٹھو میاں کی جھونپڑی کو اکھڑواکر پھنکوایا دیا۔ بوڑھے مٹھو میاں کچھ نہیں کر پائے، محض دیکھتے رہ گئے۔ وہ اپنی بیوی کے ساتھ اجڑی ہوئی جھونپڑی کے ڈھیر پر کھڑے ہو کر لوگوں سے مدد کی گہار لگانے لگے، لیکن ان کی مدد کرنے کے لیے کوئی آگئے نہیں آیا۔

    معذور، مجبور، لاچار، بے بس، بے کس، بے سہارا، بے یار ومدد گار، کمزور بوڑھے مٹھومیاں نے خاموشی سے اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا دیے اور ان کی تھکی ہوئی بوڑھی آنکھوں سے آنسوں نکلنے لگے۔ مٹھو میاں کی آنکھوں سے نکلے ہوئے آنسو ان کے جھری دار گالوں کی لکیروں سے ہوتے ہوئے اجڑی ہوئی جھونپڑی کے ملبے پر گر پڑے۔

    مٹھو میاں کاگھر اُجاڑ کرنور محمد بظاہر تو مطمئن نظر آرہے تھے، لیکن بہ باطن بے چین ہو گئے تھے۔ ان کے اندر ایک عجیب سی کیفیت پیدا ہو گئی تھی۔ ان کو بہت گھبراہٹ ہونے لگی تھی۔ انہیں کہیں سکون نہیں مل رہا تھا۔ اسی اضطرابی کیفیت کے ساتھ وہ اپنی خواب گاہ میں تشریف لے گئے اور بستر پر لیٹ گئے۔ ان کی آنکھ لگ گئی۔

    میدان حشر میں نفسی نفسی کا عالم ہے۔ باپ کو بیٹے، بھائی کو بہن، شوہر کو بیوی، کسی کو بھی کسی انسان کی فکر نہیں ہے۔ ہر آدمی اپنے آپ میں مبتلا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے ایک لمبی قطار لگی ہوئی ہے۔ ہر کوئی اپنی باری کا انتظار کر رہاہے۔ اچانک نور محمد کا نمبر آجاتا ہے۔ انہیں اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کیا گیا۔ وہ اللہ جل جلالہ کے سامنے کھڑے ہیں۔ نور محمد کے دائیں جانب سے کرامن نمودار ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے سامنے ان کا نامہئ اعمال پیش کرنے لگے۔

    ”یہ ہے نماز کا حساب۔“

    ”یہ ہے روزے کا حساب۔“

    ”یہ ہے حج کا حساب۔“

    یہ ہے زکوٰۃ و فطرے کا حساب۔“

    حتیٰ کہ کرامن نے ایک ایک کر کے حقوق اللہ کے متعلق نور محمد کا سارا حساب و کتاب اللہ کے سامنے پیش کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے صرف اتنا کہا، ”ابھی اسے بازو رکھ دو۔“

    اللہ تعالیٰ کا یہ حکم سن کر نور محمد تذبذب میں پڑ گئے اور سوچنے پر مجبور ہو ئے کہ ”میں نے اتنی نمازیں ادا کیں، روزے رکھے، کئی مرتبہ حج کیا، دیگر عبادات کی اوراللہ نے اسے بازو رکھوا دیا۔ یہ ماجراکیا ہے؟“

    پھر نور محمد کے بائیں جانب سے کاتبین کاظہور ہوا۔ کاتبین کے ساتھ نور محمد کے ماں باپ، بیوی بچے، بھائی بہن، پڑوسی، دوست احباب بھی موجود ہیں۔ ان سب کو ایک ساتھ دیکھ کر نور محمد گھبرانے لگے۔ ان کے منہ سے نکلا۔

    ”یا اللہ۔۔۔ یہ کیا ہے؟ ان سب کو تو میں بہت پیار کرتا تھا۔

    ”انہیں تومیں بہت عزیز رکھتا تھا۔“

    ”پھریہ سب کاتبین کے ساتھ۔۔۔ ؟“

    ”یا اللہ خیر۔۔۔ !“

    کاتبین نے باری باری سب کے معاملات اللہ تعالیٰ کے سامنے رکھ دیے۔ پھر اللہ جل جلالہ کا ارشادہوا کہ اس شخص پر جس کا جو بھی حق باقی ہے وہ اس سے لے سکتا ہے اور اگر معاف کرنا چاہتا ہے تو معاف بھی کر سکتا ہے۔ اس میں کسی دوسرے کاکوئی دخل نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں تک کہہ دیا کہ جب تک یہ معاملات صاف نہیں ہونگے، تب تک میں کوئی فیصلہ نہیں کروں گا۔

    اللہ تعالیٰ کاا رشادعالی سن کر سب نے نور محمد کو معاف کر دیا۔ باپ نے یہ کہہ کر معاف کر دیا کہ یہ صحیح ہے کہ”انہوں نے مجھ سے کیا ہوا وعدہ اس طرح پورا نہیں کیا، جیسا کہ میں چاہتا تھا، لیکن انہیں یہ بھی تو پتہ نہیں تھا کہ میں اپنی جائیداد کا بٹوارہ کس طرح کرنا چاہتا تھا اور کس کو کیا دینا چاہتا تھا۔ انہوں نے اپنی سمجھ کے مطابق میری جائیداد کا بٹوارہ کیا ہے اس لیے میں انہیں معاف کرتا ہوں۔“

    ماں نے بھی نور محمد کو معاف کر دیا۔ بیوی بچے حتیٰ کہ بھائی بہن نے بھی ان کی بے توجہی، بے پروائی اورکمزوری کو نظر انداز کر کے انہیں معاف کر دیا۔ اسی طرح ان کے پڑوسی اور دوست احباب بھی ان کی ہر طرح کی کوتاہیوں کو بر طرف کر کے ان کی کسی نہ کسی خوبی کو سامنے رکھ کر انہیں معاف کر دیا۔

    جب ہر کسی نے اپنا فیصلہ سنا دیا تو نور محمد کے دل کو بہت سکون محسوس ہوا۔ انہوں نے اپنی آنکھیں بند کی اور ایک لمبی سانس لی، جس سے ان کی روح کو عجب سا تسکین ملا۔

    نور محمداپنی آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں اور اللہ کے فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں۔ ان کو لگ رہاتھا کہ اب اللہ تعالیٰ مجھے جنت کی بشارت دینے والا ہے۔ وہ اپنی بند آنکھوں سے جنت کے آٹھوں دروازوں کو دیکھنے لگے اور سوچنے لگے کہ ان میں سے نہ جانے کون سا دروازہ میرے لیے کھلے گا۔

    جب کچھ دیر بعد ان کے کانوں تک کوئی آواز نہیں پہنچی تو انہوں نے اپنی آنکھیں کھولی اور دیکھا کہ بوڑھے مٹھو میاں اپنی بیوی کے ساتھ لڑکھڑاتے ہوئے دھیمے دھیمے قدموں سے ایک لکڑی کے سہارے جھونپڑی کے ملبے کواپنے ساتھ لیے ان کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ مٹھو میاں کو دیکھتے ہی نور محمد حواس با ختہ ہو گئے۔ انہیں حول دِل ہو گیا۔ ان کے جسم میں لرزاں طاری ہو گیا۔ ان کا پیر مارے خوف کے بری طرح تھرانے لگا۔ وہ کانپتے ہوئے پیروں سے بھاگنے کی کوشش کرنے لگے۔ نور محمد میدانِ حشر سے کہیں دور نکل جانا چاہ رہے ہیں۔ وہ تیز تیز قدموں سے چل رہے ہیں بلکہ دوڑ رہے ہیں، لیکن بھاگ نہیں پارہے ہیں۔ بھاگتے بھاگتے گھٹنوں کے بل گر جا رہے ہیں۔ پھر اٹھ رہے ہیں۔ اٹھ کر دوبارہ بھاگ رہے ہیں۔ پھر گر جا رہے ہیں۔ پھراٹھ کر بھاگ رہے ہیں، لیکن کہیں جا نہیں پا رہے ہیں۔ وہیں کے وہی موجود ہیں، جیسے ان کا پیر وہیں جم گیا ہے۔ وہ لگاتار اپنا پیر چھڑانے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن ناکام ہیں۔ اسی اثنا میں ان کی آنکھ کھل جاتی ہے۔

    حاجی نور محمد بن فیضی سر سے پیر تک پسینے میں شرابور تھے اور ان کی سانسیں قدر تیز چل رہی تھیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے