ایک اور دریا
سکینہ کے کانوں میں کسی کے باتیں کرنے کی ہلکی ہلکی آوازیں آرہی تھیں۔ آنکھیں موندے موندے اس نے حیرت سے سوچا، ’’میں مرچکی ہوں تو یہ آوازیں کیسے سنائی دے رہی ہیں۔ کیا انسان مرنے کے بعد بھی سن سکتا ہے۔ کیا پتہ یہ فرشتوں کی آوازیں ہوں۔ شاید میں جنت میں پہنچ چکی ہوں یا ممکن ہے دوزخ میں۔‘‘ وہ انہی خیالات میں غلطاں و پیچاں تھی کہ یکدم کسی نے اس کی پسلیوں میں ٹہوکا دے کر ہلادیا۔ سکینہ کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکل گئی۔
’’اوئے اے تے زِندی اے۔‘‘ ایک مردانہ آواز نے اسے آنکھیں کھولنے پر مجبور کردیا اور یہ سوچ کر دل میں یکدم ایک خنجر سا کھب گیا کہ وہ ابھی تک زندہ تھی، مری نہیں۔ اُف اللہ! تو کیا میں دوبارہ اس ظالم دنیا میں واپس آچکی ہوں۔ یا اللہ!تونے مجھے مرنے کیوں نہیں دیا؟ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ بے ہوش ہوجانے سے پہلے کامنظر اس کی آنکھوں کے آگے فلم کی ریل کی طرح چلنے لگا۔ وہ ارادے کے مطابق قدم بڑھانا چاہ رہی تھی مگر پاؤں من من کے ہوکر زمین میں گڑ کے رہ گئے تھے۔ بالکل سامنے بہنے والا نیلا نیلا، چوڑا، اچھلتا کودتا نیلم دریا منہ زور ہو رہا تھا۔ جب اس کی بپھری ہوئی موجیں بار بار پتھروں سے سر پٹختیں اور پھر آگے جاکر سفید جھاگ میں تبدیل ہوکر سکون سے بہنے لگ جاتیں تو منظر مزید خوبصورت ہوجاتا۔
’’کھڑی کھڑی میرا منہ کیا دیکھ رہی ہے؟ جو کرنے آئی ہے کر۔‘‘ دریا غصے سے دہاڑا۔ سکینہ سہم گئی اور پل بھر کو اس سے آنکھیں پھیر کر کھڑی ہوگئی۔ مگر اب اس کے سوا چارہ بھی کیا تھا؟ اسے دریا سے ہم آغوش ہونا ہی تھا کہ پیچھے جانے کو اب کیا بچا تھا۔ واپسی کی سب راہیں مسدود ہوچکی تھیں۔ ساس، نند اور اس کے اپنے شوہر سرور نے اسے بانجھ ہونے کے طعنے دے دے کر اس کی زندگی اجیرن کردی تھی اور پھر تنگ آکر اس نے دریا کی طرف ہمدردی سے ہاتھ بڑھایا تھا۔ اسے امید تھی کہ وہ اسے مایوس نہیں کرے گا۔ آخر یہ اس کا اپنا دریا تھا، اس کے بچپن کا دوست، اس کا بیلی، جس کے کنارے کھیل کود کر ہی تو اس نے جوانی کی سرحدوں میں قدم رکھنا سیکھا تھا۔ مگر دوست نے تو اس کے ساتھ غیروں والا سلوک کرکے اسے دھتکار د یاتھا۔
’’اوئے اولے چلو اٹھاؤ۔ اس کو۔‘‘ اسی آواز نے کسی کو حکم دیا تو چند ہاتھوں نے اس کے جسم کو اٹھاکر الٹنا پلٹنا شروع کردیا۔
’’یہ زنانی دریا میں بھلا کیا کر رہی تھی؟‘‘
’’شاید گر گئی ہو؟‘‘
’’لگتی اس پار کی ہے، ہمارے طرف کی نہیں۔‘‘
وہ مختلف آوازیں سن رہی تھی مگر اس کی سمجھ میں نہیں آرہاتھا کہ وہ کہاں ہے اور اب اس کا کیا ہوگا؟ کچھ ہی دیر میں اس پر غنودگی چھا گئی۔ جب آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا وہ ہسپتال میں ہے۔ ہسپتال والوں نے اس کے پیٹ سے پانی نکالا۔ اسے ہوش میں لائے تو اسے معلوم ہوا کہ اب وہ سرحد پار کے ملک میں ہے، جہاں اس کا اپنا کوئی نہیں تھا۔ وہ کسی کو جانتی تک نہیں تھی۔ اگلے دن اسے بڑے بڑے فوجی افسروں کے سامنے پیش کیا گیا، جنہوں نے اس پر تابڑتوڑ سوالات کی بوچھار کردی۔
’’ہاں بی بی بول، تو کون ہے اور سرحد کے اس پار کیا کر رہی ہے؟ تجھے کس نے بھیجا ہے؟‘‘
’’میں کچھ نہیں جانتی جی۔ میں نے تو دریا میں چھلانگ لگائی تھی۔ مجھے نہیں پتہ میں یہاں کیسے پہنچ گئی ہوں۔‘‘ وہ گھگھیانے لگی۔ اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ آس پاس کھڑے ہونے والے باوردی سپاہی اس کے ساتھ کسی قسم کا لحاظ کرنے والے نہیں تھے۔ وہ تو محض اپنی ڈیوٹی پوری کر رہے تھے۔
’’تجھے کچھ نہیں پتہ؟ اوبی بی تو جانتی نہیں کہ تو اس وقت ہندوستانی علاقے میں ہے۔ سچ سچ بتادے ورنہ۔۔۔‘‘ ایک حوالدار نے اسے سختی سے جھنجھوڑا۔ سکینہ نے خوف سے ان کے آگے ہاتھ جوڑدیے۔ اپنی کہانی سنائی، بتایا کہ گھر میں اس کی کوئی عزت نہ تھی، سو اس نے سوچا شاید زندگی سے فرار میں ہی قرار مل جائے۔ اس نے دریا کی اک موج بن جانے کی خواہش میں بس سوچے سمجھے بغیر چھلانگ لگادی اور بس۔
مگر کوئی اس کی کہانی پر یقین کرتا نظر نہ آرہاتھا۔
’’مجھے معاف کردیں۔ جی میں واپس چلی جاتی ہوں۔ مجھے پتہ نہیں تھا۔ مجھے میرے گاؤں بھیج د یں۔‘‘
’’سر یہ تو مجھے کوئی پاکستانی جاسوس لگتی ہے۔‘‘ ایک نے اس کے سراپا پر نظر ڈالی۔
’’جاسوس!‘‘ سکینہ کو جھرجھری سی آگئی۔
’’نہ جی نہ، میں تو سکینہ ہوں جی۔ مظفرآباد کے پرلی طرف کے چھوٹے سے گاؤں کی رہنے والی۔ میں کوئی جسوس وسوس نہیں ہوں جی۔‘‘ سکینہ نے ہاتھ جوڑدیے۔
’’کس نے بھیجا ہے تجھے؟ کسی ایجنسی نے یا کسی آتنک وادی گروپ نے؟‘‘
’’چلو چلو فی الحال اسے حوالات میں بند کردو۔ مقدمہ چلے گا تو عدالت فیصلہ کرے گی کہ اس غیرقانونی طور پر داخل ہونے والی جسوسنی کا کیا ہوگا۔‘‘ سکینہ نے واسطے د یے، خدا رسول کا نام لیا تو سپاہی کھی کھی ہنسنے لگے۔ ایک نے دوسرے کی طرف اشارہ کرکے کہا، ’’لے بھائی غلام محمد، تیری قوم ہے، تو ہی سمجھا اسے کہ ز یادہ ڈرامے نہ کرے اور چپ کرکے بیٹھی رہے۔‘‘ غلام محمد کھسیانی ہنسی کے ساتھ اٹھا اور سکینہ کے اردگرد گھوم پھر کے چکرلگانے لگا، ’’سوہنی تے بڑی اے۔‘‘ غلام محمد نے ڈنڈے سے اس کی ٹھوڑی اونچی کی اور اپنے پیلے پیلے دانتوں کی نمائش کرنے لگا۔
’’غلطی ہوگئی سرکار، مجھے واپس بھیج دیں۔ وہاں میرا گھر والا میرا انتظار کر رہا ہوگا جی۔‘‘ حوالدار شیکھر نے رجسٹر بند کردیا اور روتی کُرلاتی سکینہ کو حوالات میں بند کرنے کا حکم دے کر اٹھ کھڑا ہوا۔
سرسبز جنگل کے بیچوں بیچ بہنے والا دریا دو دیسوں کو ایک دوسرے سے جدا کرتا تھا۔ اس کے شفاف پانی میں جانے کتنے نمکین موتی ایسے بھی ملے ہوئے تھے جو دریا کنارے رہنے والوں نے اسے ہمدرد جان کے دوسرے پار رہنے والے سجنوں کی یاد میں بہائے تھے۔ اب سکینہ بھی اپنے گھروالوں، ہم وطنوں کی یاد میں دن رات روتی تھی، مگر دریا اس سے دور تھا اور حوالات کی کال کوٹھری اندھی، گونگی اور بہری۔ سکینہ دن رات یہی التجا کرتی کہ اسے اس کے گاؤں واپس جانے کی اجازت دے دی جائے مگر ان لوگوں کی بھی اپنی تکنیکی مجبوریاں تھیں۔ یہ تو سیدھا سادا دراندازی کا کیس تھا، وہ کیا کرتے، بارڈر پار کرنا کوئی معمولی بات نہ تھی۔ اگر اس طرف سے کوئی کتا بھی غلطی سے بھٹک کر اس طرف آنکلتا تو کئی دن تک اس کی نگرانی کی جاتی۔ چھان بین ہوتی کہ کہیں کتے کے ذریعے دشمن کوئی جدید حساس خفیہ آلہ نہ استعمال کر رہا ہو۔
دوسری طرف والے بھی تقریباً ا یسا ہی کرتے تھے۔ اس پار سے کوئی بھولا بھٹکا کتا بھی آجاتا تو اسے جہنمی کہہ کر اپنے کلیجے ٹھنڈے کرلیتے تھے۔ صرف پرندوں پر ہی دشمن کے ایجنٹ ہونے کا شک نہ کیا جاتا تھا۔ چڑیاں، کوے، تتلیاں آزادانہ سرحد کے اس طرف والے درختوں، پودوں سے اڑ کر اس طرف جابیٹھتیں اور کسی کو بھی ان پر اعتراض نہ ہوتا۔ نہ کوئی چڑیا لکشمی تھی اور نہ کوئی سعیدہ، نہ ہی وہ ہندو تھی اور نہ مسلمان۔ وہ تو بس چڑیاتھی اور خوش قسمت تھی کہ ویزے کے بغیر سرحد کے دونوں طرف پھدکتی پھرتی تھی۔
سکینہ حوالات کی کھڑکی سے چڑیوں کو بارڈر پار اڑ کر جاتے دیکھتی تو حسرت سے اس کے دل میں دراڑیں پڑجاتیں۔ اسے دریا پر غصہ آتا کہ اس نے اسے کیوں زندہ چھوڑدیا تھا۔ وہ کیوں بچ گئی تھی۔ اب اس کی زندگی کی کسی کو کیا ضرورت تھی۔ دریا تو اس کا دکھ جانتا تھا۔ اسے پتہ تھا کہ اس کا دامن خالی تھا، گود و یران تھی، تو وہ اب جی کے کیا کرتی، دریا نے اسے اپنے اندر پناہ د ینے کی بجائے باہر تھوک دیا تھا۔ کیسا وقت آن پڑا تھا اس پر کہ دریا بھی دوست نہ رہا تھا۔
حوالات کے تنگ و تاریک بوسیدہ کمرے میں قید گوری چٹی صحت مند جوان پاکستانی عورت چراغ کی طرح جھلملاتی تھی۔ مدتوں گھر سے دور رہنے والے سپاہی عورت کے وجود کی خوشبو اپنے اتنے قریب پاکر خواہ مخواہ بات بے بات اونچا اونچابولنے اور ہنسنے لگ گئے تھے۔ کبھی کبھار ان کا اسے گھورنے کے بعد کوئی ذومعنی جملہ سکینہ کے کان میں پڑتا تو وہ دل ہی دل میں ڈرجاتی۔ رال ٹپکاتے، بدصورت تھوتھنیوں والے کتوں سے اسے ہمیشہ ہی خوف آتا تھا، مگر اب کیا کرتی، کتے بہانے بہانے سے اس کی کال کوٹھری کے قریب آکر بھونکنے اور چکر لگانے لگتے تھے۔
ایک روز کچھ عجیب ہوا۔ سکینہ سوتے سوتے اٹھ کر بیٹھ گئی۔ کوئی کمرے میں اس کے علاوہ بھی موجود تھا۔ ’’غلام محمد! تم اس وقت یہاں کیا کر رہے ہو؟‘‘ سکینہ نے آدھی رات کے بعد اپنے کمرے میں کسی وجود کو پاکر اپنے آپ کو سمیٹنے کی کوشش کی۔
’’تسلی رکھ سکینہ بی بی!اور میں تو تیرا ہمدرد ہوں۔ تیرا اپنا ہوں۔ ان سالوں کی بری نظر سے تجھے اب تک میں نے ہی بچا کر رکھا ہوا ہے۔ جھلیے تجھے کیا پتہ؟‘‘ اس نے نرمی سے کہا اور سر پر ہاتھ پھیرنے لگا۔
’’اچھا!‘‘ سکینہ نے فوراً ہی یقین کرلیا۔‘‘ شکریہ، بھائی غلام محمد! تو تو میرا اپنا ہی ہے نا۔ بھائی میں یہاں سے کب چھوٹوں گی۔ مجھے چپکے سے سرحد پار کروادونا۔ مجھے بڑا ڈر لگتا ہے۔‘‘ سکینہ دل کی بات فو راً ز بان پر لے آئی۔
’’اوڈر نے کی کیا بات ہے، سکینہ!میرے ہوتے ہوئے تو بس فکر نہ کر۔۔۔‘‘
’’اچھا ایک بات سن ذرا۔ ادھر کو آنا میرے پاس۔‘‘ غلام محمد نے اپنے دونوں بازو کھول دیے۔
سکینہ نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ وہاں غلام محمد نہیں بلکہ ایک بدصورت تھوتھنی والا کتا ہانپتا ہوا رال ٹپکا رہا تھا اور ہمدرد دوست کا دور دور تک پتہ نہ تھا۔ سکینہ جھجک کر پیچھے ہٹی اور چیخنے کی کوشش کی مگر غلام محمد نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر اسے خاموش کردیا۔ کتے کے مضبوط طاقت ور بپھرے ہوئے وجود کے آگے اس کی اپنی ہستی بے معنی ہوگئی۔ کتے نے اپنے شکار کو بھنبھوڑا، جھنجھوڑا اور پھر ریزہ ریزہ کرنے میں مصروف ہوگیا۔ باہر جنگل سرجھکائے چپ چاپ کھڑا تھا۔ دریا اپنی لہروں کو تھپک تھپک کر سلا رہا تھا۔ ستارے اپنی خمار آلود آنکھوں کو کبھی کھولتے اور کبھی جھپکتے تھے۔ سب مصروف تھے۔ کسی کے پاس فرصت نہ تھی کہ وہ سکینہ بی بی کی مدد کو آئے اور اسے کسی حملہ آور سے بچائے۔
اس واقعے کے بعد سکینہ بالکل خاموش ہوگئی۔ اس سے کوئی بات کرتا تو سفید پھیکی آنکھوں سے اسے د یکھنے لگتی یا یونہی بیٹھی ناخنوں سے فرش کریدتی رہتی۔ اسے پتہ چل گیا تھا کہ اس پر دراندازی کا بہت بڑا مقدمہ بن چکا ہے۔ اب جلد چھٹکارا ملنے کی کوئی امید نظر نہیں آرہی تھی۔ اسے اب بڑے شہر کے کسی بڑے جیل خانہ میں بھجوادیا گیا تھا، جہاں اسے اپنے مقدمے کے فیصلے تک ٹھہرنا تھا۔
جیل کے زنانہ حصے میں ہردم اپنی سوچوں میں گم چپ چپ رہنے والی پاکستانی عورت ہندوستانی قیدی عورتوں کے لیے دلچسپی کا باعث بنتی جا رہی تھی۔ وہ یہاں کیوں اور کیسے پہنچی تھی۔ ان سے کچھ مختلف بھی دکھتی تھی۔ کبھی کبھی وہ فرش کو ناخنوں سے کریدتی اور کبھی نماز پڑھ کر زور شور سے دعائیں مانگتی نظر آتی تو عورتیں ایک دوسرے سے کھسر پھسر کرنے لگ جاتیں۔ انہیں کبھی کبھار اس پر ترس بھی آتا۔ کیونکہ اس کی کوئی ملاقات کبھی نہ آتی تھی۔ آہستہ آہستہ اس سے مانوس ہوکر اس کے قریب جانے لگیں اور اس کی اسیری کے بارے میں اس سے سوال جواب کرنے لگیں۔
اس روز جیل میں درگادیوی کی پوجا کا بہت زیادہ پرشاد آیا تھا۔ ا یک تھالی سکینہ کو بھی ملی تھی، جسے اس نے کلمہ پڑھ کر کھالیا تھا لیکن اس میں موتی چور کے لڈو تھے جو اسے ہمیشہ بہت اچھے لگتے تھے لیکن کھاتے ہی اس کی طبیعت کچھ عجیب سی ہوگئی اور وہ باقی عورتوں کو کھاتے پیتے، مسکراتے دیکھتے، حسب معمول اپنے پیر کے ناخن سے فرش کریدنے لگی۔ یکایک اسے لگا زمین سے ایک ہری ہری کونپل پھوٹ رہی ہے۔ بجلی کے کوندے کی طرح ایک خیال اس کے ذہن میں لپکا تو گھبراکر اٹھ کھڑی ہوئی۔
’’اوخدایا۔۔۔‘‘ اس نے اپنا سر پکڑ لیا۔ یہ کونپل کہیں اور سے نہیں، اس کی اپنی کوکھ سے پھوٹ رہی تھی۔ کیا ایسا ہوسکتا تھا؟ لیکن وہ تو بانجھ تھی۔ تو کیا اس کا مطلب تھا کہ وہ بانجھ نہیں تھی اور یونہی سسرال کے طعنے کھاتی رہی تھی۔ اس احساس نے اسے خوشی سے اتنا نہال کردیا کہ وہ یہ بھی بھول گئی کہ اس کا ماں بننا کن حالات کے تحت ممکن ہوا تھا۔
اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ اسے قدرت کا انعام سمجھے یا سزا؟لیکن میں نے تو کبھی کوئی گناہ نہیں کیا تھا، سوائے خودکشی کی کوشش کے، اور وہ بھی پوری تو نہیں ہوئی تو سزا کس بات کی؟ یہ نئی نرم، سبز پھوٹتی کونپل سورج کی پہلی کرن کی طرح اس کے وجود میں اجالا بھر رہی تھی۔ سکینہ کو ایک دم ڈر سا لگنے لگا۔ اب کیا ہوگا؟ اسی شش و پنج میں چند ہفتے اور گزر گئے۔ اس کی طبیعت بگڑنے لگی۔ ساتھی قیدی عورتوں نے اسے اپنے اپنے اندازے لگاکر اس سے معلومات حاصل کرنا چاہیں مگر سکینہ خاموش رہی۔ ایک دونے اسے طنزیہ انداز میں چھیڑا اور ایک دونے بدھائی بھی دی۔ سکینہ چپ رہی۔
جیل کی سب سے بزرگ قیدی عورت مدھومیا کو خبر ملی تو سکینہ کے پاس چلی آئی اور اس سے پیار سے پوچھنے لگی کہ ماجرا کیا ہے؟ مدھو میا نے سکینہ کی رام کہانی سن کر باقی سب کو ڈانٹ کر بھگادیا اور وہ سب اپنے اپنے کوارٹروں میں چلی گئیں۔ مدھومیا کی بزرگی کی عزت کی وجہ سے اس کے آگے کوی بھی زیادہ بک بک نہیں کرتی تھی۔
’’پیٹ سے ہے ری پاکستانی؟‘‘ ایک عورت نے پاس آکر اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر پیار سے پوچھا۔ اسے زیادہ تر عورتیں ’’پاکستانی‘‘ کہہ کر بلاتی تھیں۔ سکینہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ تھوڑی ہی دیر میں چند اور بھی اس کے اردگرد جمع ہوگئیں اور سوالات کی بوچھاڑ کردی۔
’’ارے تو کیا ہوا۔ پیٹ میں بچہ ہے اور بھولی بنتی ہے۔‘‘ ایک نے کڑوا تیز جملہ بولا تو باقی سب قہقہہ مارکے ہنسنے لگیں۔
’’چلو دفع ہوجاؤ تم سب یہاں سے!‘‘ مدھومیا نے سب کو ڈانٹ کے بھگادیا اور سکینہ کو پچکارنے لگی، ’’تو فکر نہ کر بیٹا۔ یہ سالی حرامزادیاں تو یونہی بکواس کرتی رہتی ہیں۔ برسوں سے اس جیل میں پڑی سڑ رہی ہیں نا تو بس یونہی دل جلانے کی باتیں کرتی رہتی ہیں۔ تو برا نہ ماننا ان کا۔‘‘
’’میں خوش بھی ہوں اور پریشان بھی میا۔‘‘ سکینہ نے میا کا ہاتھ پکڑ لیا۔
’’تو اگر چاہے تو۔ اس کی خلاصی بھی کروائی جاسکتی ہے۔‘‘ مدھو میا نے کان پاس لاکر سرگوشی کی، ’’اس جیل میں سب کچھ ہوسکتا ہے۔‘‘
’’نہیں، میا! مجھے خلاصی نہیں چاہیے۔ یہ بچہ میرے بے قصور ہونے کا ثبوت ہے۔ میری آئندہ زندگی کے ساتھ کا رشتہ ہے۔ اس کے سہارے میں باقی جیون کاٹ لوں گی۔‘‘ سکینہ نے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر دھیمے انداز میں جواب دیا۔
’’مگر بیٹا! یہ بلاتکار کا بچہ ہے۔ آخر تو دنیا والوں کو کیا جواب دے گی۔‘‘ میا نے اسے حقیقت کا احساس دلانے کی کوشش کی۔
’’میا یہ بچہ صرف میرا ہے، کسی اور کا نہیں۔ میں ہی اس کی ماں اور میں ہی اس کا باپ ہوں۔ حرام حلال کا مجھے نہیں پتہ۔ بس یہ میرا بچہ ہے اور کسی کا اس پر کوئی حق نہیں۔‘‘ سکینہ مضبوط لہجے میں بولتی چلی گئی۔ اسے احساس ہوا کہ زندگی میں پہلی بار وہ کسی انسان، کسی رشتہ کے بارے میں اتنے اعتماد سے بات کر رہی تھی۔ اس سے پہلے تو اس کی زندگی اور اس کے معاملات کے فیصلے دوسرے ہی کرتے چلے آرہے تھے۔ وہ تو بس خاموش تماشائی بن کر ہی جیتی رہی تھی۔
’’میں اسے پالوں گی۔ اپنے ساتھ رکھو ں گی۔ اسے مجھ سے کوئی چھین نہ سکے گا۔ اللہ نے مجھے میری تنہائیوں کا سہارا دے دیا ہے۔ یہ میرے اپنے جسم کا ٹکڑا ہے۔ میں اسے کیسے ختم کردوں؟‘‘
سکینہ کی بات چند ہی روز میں ساری جیل میں پھیل گئی۔ جیل کے اعلی ٰ حکام کو بھی علم ہوچکا تھا کہ پاکستانی قیدی کی کہانی میں مزید الجھنیں پیدا ہوگئی ہیں۔ اس کے مجرم غلام محمد کے بارے میں اسے کچھ علم نہ تھا کہ اس کی پکڑ ہوئی یا اسے چھوڑ دیا گیا۔ اس پر کیس ہوا یا اس کا کیس دبا دیا گیا؟ اس کو تو سچی بات ہے پروا بھی نہیں تھی کہ اس خنزیر کے ساتھ کیا ہوا؟ ایک خوشی سی اس کے لہو میں گردش کرتی رہتی تھی کہ آخر کار وہ ایک بے معنی، بے مقصد زندگی کی بجائے کارآمد زندگی گزارنے جارہی ہے۔ وہ زندگی جو کسی کے کام آئے گی۔ اس کومل کونپل کو سینچ کر وہ ایک تناور درخت کی صورت میں دیکھے گی۔ ’ماں ‘ کا میٹھا بول سنے گی۔ کتنا اچھا لگے گا اسے یہ سب کچھ۔ اب وہ ہرچٹان سے ٹکر لینے کی طاقت خود میں محسوس کرنے لگی تھی۔ اسے لگتا تھا وہ پہلے والی بزدل، کمزور سکینہ نہیں بلکہ کوئی نئی عورت تھی۔ ولولوں اور ارادوں سے بھرپور، ہر طرح سے مکمل۔
جیل کی ملازم خواتین اب اس سے کچھ نرمی برتنے لگی تھیں۔ اس کی صحت کا خیال رکھا جانے لگا تھا اور اس سے ز یادہ مشقت کے کام بھی نہ کروائے جاتے تھے۔ کبھی کبھار کوئی دل جلی یہ کہہ کر طنز بھی کرجاتی تھی کہ ’’مسلی کے پیٹ میں مسلے کا ہی بیج ہے تو پھر پریشانی کیسی؟ اپنا ہی خون ہے تو مسئلہ کیا ہے؟ کم از کم کسی ہندو پرش کو تو اس پاپ کا ملزم نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔‘‘
سکینہ کے مقدمے کا فیصلہ التوا میں پڑتا چلا جارہا تھا۔ نو چاند ڈھلتے دیکھتے د یکھتے سکینہ کے جسم میں کتنی نئی تبدیلیاں آچکی تھیں اور بالآخر وہ مبارک دن بھی آہی گیا جس روز سکینہ کی سبز کونپل پھول بن کر اس کے درمیان مہکنے کے لیے چلی آئی۔ سکینہ نے اس پھول کا نام مبین رکھا۔ کیونکہ مبین اس کی ماں کا نام تھا اور ماں سکینہ کو بہت یادآتی تھی۔ پتہ نہیں ماں کس حال میں تھی؟ کتنے دور ہوگئے تھے پیار بھرے رشتے اس سے، مگر اب یہ جو نیا رشتہ اس کی زندگی میں آگیا تھا، اسے سب سے توانا، سب سے خوبصورت اور اہم محسوس ہونے لگا تھا۔
’’یہ میری ماں، بہن، سہیلی، بیٹی سبھی کچھ ہے۔ میری پیاری مبین۔‘‘ سکینہ اپنی ننھی بٹیا کو چوم چوم کر نڈھال کردیتی تو جیل کی ساتھی عورتیں اس کی دیوانگی پر ہنسنے لگ جاتیں۔
’’اسے لے کر جائے گی تو گھروالوں سے کیا کہے گی؟‘‘ کبھی کبھار کوئی اسے حقیقت کی دنیا میں گھسیٹ لاتی تو سکینہ پل بھر کو ساکت ہوجاتی۔
’’میرا سرور بہت اچھا ہے۔ بڑا پیار ہے اسے مجھ سے۔ بس میں اس کی گود میں بچے کو ڈال کر کہوں گی۔ یہ ہمارا بچہ ہے۔ ہم دونوں کا۔ شاید وہ۔ شاید اس کا دل نرم ہوجائے!‘‘
’’لو پیار کرتا تو تُو اسے چھوڑ کر دریا میں کیوں کودی تھی؟‘‘ کسی نے فقرہ چست کیا تو دوسری بھی ہنسنے لگیں۔ سکینہ خاموش ہوگئی اور سوچنے لگی، واقعی کہتی تو یہ ٹھیک ہیں۔ پتہ نہیں وہ سچ مچ مجھ سے پیار کرتا بھی تھا یا بس میرا وہم تھا۔
دن گزرتے گئے۔ سکینہ کا کیس لمبا اور پیچیدہ ہوتا چلا جارہا تھا۔ اب تو مبین پاؤں پاؤں چلنے لگی تھی اور ساری جیل والیاں اس سے پیار کرنے لگی تھیں۔ کوئی اس کی ماسی تھی تو کوئی بوا، کوئی نانی تو کوئی دادی بن چکی تھی۔ بیٹی کا خوب صورت ساتھ پاکر سکینہ کو جیل بھی گھر کی طرح لگنے لگی تھی، مگر کبھی کبھار نہ جانے کہاں سے اُڑ کر کوئی چڑیا یا کوا جیل کی منڈیروں پر بیٹھ کر کائیں کائیں کرنے لگتا تو سکینہ کے دل میں ہوک سی اٹھتی۔
’’کیا خبر یہ میرے دیس سے آیا ہو؟ کوئی سندیسہ لایا ہو۔ کیا خبر مجھے کوئی سرحد پار یاد کرتا ہو اور میرا انتظار کرتا ہو۔‘‘
ماں کے کبھی کبھار بھول بھٹک کے آجانے والے خطوں سے اسے یہ تو پتہ چل ہی گیا تھا کہ اس کا ابا اس دنیا میں نہیں رہا۔ مگر اماں نے سرور اور باقی سسرال والوں کے بارے میں کبھی نہیں بتایا تھا کہ وہ کس حال میں ہیں اور اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ اس نے جب بھی پوچھا ماں ان کا ذکر ہی گول کرگئی۔ حیرت کی بات تو یہ تھی کہ اماں نے اس کی مبین کے جنم کی خبر سن کر بھی خاموشی اختیار کرلی تھی۔ کبھی اس کے بارے میں پوچھا تک نہیں، یوں جیسے اس کا ذکر نہ کرکے اس کے وجود ہی سے انکار کر رہی ہو۔ سکینہ کا دل کڑھتا مگر پھر وہ سوچتی، اماں جب مبین کا چاند سا مکھڑا دیکھے گی تو خود ہی اس پر فریفتہ ہوجائے گی۔ مگر نہ جانے وہ مبارک دن کب آئے گا، جب مبین اور وہ اپنے پاک وطن کو لوٹ سکیں گی۔
’’سکینہ بی بی، یہ تمہارے دیس سے آئے ہیں برنی صاحب، تم سے ملنا چاہتے ہیں۔‘‘ ایک روز جیلر نے اسے اپنے آفس بلوا بھیجا تو اس نے د یکھا کرسی پر ایک ادھیڑ عمر کا شفیق چہرے والا شخص بیٹھا اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔
’’سلام صاحب جی!‘‘ اس کا ہاتھ بے اختیار ماتھے تک چلا گیا۔ اس کے ساتھ کھڑی مبین ایک اجنبی مرد کو دیکھ کر سکینہ کے پہلو میں گھسنے کی کوشش کرنے لگی۔
’’یہ ہے تمہاری بیٹی؟‘‘ برنی صاحب نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ دیا۔
’’جی صاحب جی!سلام کر مبین ان کو۔‘‘ سکینہ نے مبین سے کہا۔
’’دیکھو سکینہ میں تمہارے کیس پر کام کر رہا ہوں۔ مجھے تم نے ہر بات صاف صاف بتانی ہے۔ کچھ بھی چھپانا نہیں۔‘‘
’’جی صاحب جی!‘‘ سکینہ نے نظریں جھکاکر بے اختیار ناخن سے فرش کو کریدنا شروع کردیا۔ شاید آزادی کی کوئی کونپل بھی پھوٹنے والی ہو، اس کے دل میں خوش رنگ غنچے سے چٹخنے لگے۔
’’دیکھو سکینہ!یہ انسانی حقوق کی تنظیم سے تعلق رکھتے ہیں۔ میں اخبار کا جرنلسٹ ہوں، ان کے ساتھ ہی کام کرتا ہوں۔ ہم لوگ تمہیں جلد سے جلد رہائی دلوانا چاہتے ہیں لیکن مسئلہ تمہاری اس بچی کا ہے۔‘‘ برنی صاحب کے ساتھی نے کہا۔
’’بڑے دن ہوگئے ہیں جی صاحب جی گھر گئے ہوئے۔‘‘ سکینہ کی آواز بھرانے لگی۔
’’پانچ سال!‘‘ جیلر لیڈی نے برنی صاحب سے انگلش میں کہا اور پھر آگے کی گفتگو انگلش میں ہی ہونے لگی۔ سکینہ نے اندازہ لگالیا کہ گفتگو اس کی بیٹی مبین کے بارے میں ہی ہو رہی تھی۔
’’تو میڈم جی مسئلہ کیاہے؟‘‘ سکینہ نے بھولپن سے جیلر لیڈی سے سوال کیا، ’’مبین میری بیٹی ہے، میں نے اس کو جنا ہے، یہ میرے بدن کا حصہ ہے، کوئی غیر تو نہیں۔‘‘
’’تجھے کتنی بار سمجھا چکی ہوں کہ تیری بچی ہندوستانی شہری ہے اور تو پاکستانی۔ یہ وہاں نہیں جاسکتی اور نہ غیرقانونی طور پر رہ سکتی ہے۔ تجھے سمجھ کیوں نہیں آتی؟‘‘
’’تو پھر ٹھیک ہے میڈم جی!میں ساری عمر اسی جیل میں گزاروں گی۔ اگر مجھے اور مبین کو علیحدہ کرنے کی کوشش کی تو میں اپنی جان دے دوں گی۔‘‘ سکینہ نے جذباتی انداز میں مبین کو اپنے ساتھ سمٹالیا اور آنسو بہانے لگی۔ اس رات دال روٹی کھاتے ہوئے سکینہ کو بار بار ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کے حلق میں نوالہ پھنس رہا ہو۔ کچھ نگلا ہی نہیں جارہا تھا، مگر وہ پھر بھی زبردستی کھانا کھاتی رہی۔ کیونکہ اس کی تقلید میں آکر مبن بھی کھانے سے ہاتھ کھینچ لیتی تو سکینہ کو گوارا نہ ہوتا۔
برنی صاحب کو برسوں سے التواء میں پڑے ہوئے کیس کو حل کروانے میں ازحد دلچسپی پیدا ہوچکی تھی، اس لیے وہ اور انسانی حقوق کی ہم خیال تنظیمیں اب اس کہانی کو کسی انجام تک پہنچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی تھیں۔ حکومتیں اپنے اپنے سچ پر ڈٹی ہوئی تھیں۔ حقیقتوں کی سنگینی کے نیزے بھالے میدان جنگ میں اتارے جارہے تھے اور برنی صاحب انسانیت کا ٹرمپ کارڈ استعمال کرکے سکینہ اور اس کی بیٹی کو بازی جتوانا چاہتے تھے۔
سکینہ مبین کو یہ یاد دلاتی رہتی کہ وہ مسلمان ہیں۔ ان کا دھرم یہ نہیں جو جیل والیوں کا ہے۔ جب سے مبین نے پاکستان واپس جانے، اپنے خاندان سے ملنے کی باتیں سنی تھیں، اس کا ننھا سا دل مشتاق اور حیران حیران رہنے لگ گیا تھا۔ وہ سوچتی کتنا سندر ہوگا آخرمیری ماں کا وہ دیس جس کی یاد میں وہ تڑپتی ہے اور واپس جانے کو بے قرار ہوتی ہے۔ اسے اچھا لگتا، جب وہ سوچتی کہ ایک اور جہان اس کا منتظر ہے کہ وہ آئے اور آکے اس میں سماجائے۔ اس کا حصہ بن جائے۔
مبین جیل میں ہی بڑی ہوئی تھی۔ وہ اپنے اردگرد ہونے والی پوجاپاٹ میں تلک لگواکر باقاعدہ حصہ لیتی، بھجن گاتی تو سکینہ اسے نہ روکتی۔ ایک تو اس طرح مبین اس ماحول کا حصہ بن کر خوش رہتی تھی، دوسرے یہ کہ جیل کی دیگر قیدی عورتیں بھی اسے اپنے بچے ہی کی طرح سمجھتی تھیں۔ اگر وہ اسے ان سے الگ تھلگ رکھنے کی کوشش کرتی تو مبین کا وہاں رہنا اتنا آسان نہ رہتا اور انہیں کئی قسم کی مشکلات اور تعصبات کا سامنا کرنا پڑتا۔ سکینہ اپنے طور پر، دل ہی دل میں گاؤں کے مولوی صاحب کے سکھائے ہوئے سبق کو یاد کرنے کی کوشش کرتی تاکہ وہ بھول نہ جائے کہ وہ کون تھی، کون ہے، کہاں سے آئی تھی اور کہاں واپس لوٹ کے جانا ہے۔
ایک روز نہ جانے کیسے ایک نئے رنگ کا چمکتا سورج طلوع ہوا۔ سکینہ کو وہ خبر مل گئی جس کا اس نے برسوں انتظار کیا تھا۔ حکومتوں کی مصلحتوں نے گھٹنے ٹیک دیے اور انسانیت جیت گئی۔ سکینہ کا تو خوشی سے برا حال تھا۔ اس کا جی چاہتا تھا، جیل کے آنگن میں ڈھول بجے اور وہ دل کھول کر ناچے۔
مبین اور سکینہ نے جب جیل چھوڑی تو سب ساتھی قیدی عورتیں رو رہی تھیں۔ کوئی خوشی سے اور کوئی ان سے بچھڑنے کے غم سے۔ کوئی ماتھا چوم رہی تھی، تو کوئی سر پر ہاتھ پھیر رہی تھی۔ کوئی اپنے پاس سے کوئی چیز نشانی کے طور پر دینے کے لیے نکال لائی تھی تو کوئی اپنا پتہ ہاتھ میں تھماکر خط لکھنے کا وعدہ لے رہی تھی۔ مبین نے تو جب سے آنکھ کھولی تھی، اس جیل کو ہی اپنا گھر سمجھا تھا۔ وہیں عورتوں میں اس کے رشتہ دار تھیں، اس لیے وہ سب کو پیار کرکے وعدے کر رہی تھی کہ وہ ان سے ملنے ضرور آئے گی، انہیں کبھی نہیں بھلائے گی۔ برنی صاحب کے دفتر نے سکینہ کے شوہر کو رابطہ کرکے بتادیا تھا کہ سکینہ چھوٹ کے واپس آرہی ہے مگر سکینہ کے دل میں وسوسے اٹھ رہے تھے۔ کیا پتہ سرور بدل گیا ہو؟ مجھے لینے ہی نہ آئے۔ کیا پتہ؟
واہگہ بارڈر کراس کرواکے برنی صاحب نے کچھ دیر انتظار کیا۔ حسب توقع سکینہ کا شوہر اسے لینے نہیں آیا تھا۔
’’اماں پتاجی کہاں ہیں؟ ہم کس کے ساتھ گھر جائیں گے؟‘‘ مبین کے معصوم سوالوں کا سکینہ کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ یکدم دور سے نظر آنے والا ایک شناسا چہرہ قریب آتا چلا گیا تو سکینہ کے منہ سے خوشی کی چیخ نکل گئی۔ اس کا ننھا بھائی اکرام اس سے د یوانہ وار لپٹ گیا تھا۔
’’اومیرے کاکے۔ میرے ویر۔ تو کتنا بڑا ہوگیا ہے۔‘‘ سکینہ نے بار بار اس کا سر ماتھا چوما اور یقین نہ آنے والی کیفیت سے نکلنے کے لیے بار بار سر کو جھٹکا دینے لگی۔ یہ وہی چھوٹا بھائی تھا جسے اس نے گودوں کھلایا تھا۔ اس کا گوموت صاف کیا تھا، ساتھ سلایا، کھلایا پلایا تھا۔ کاکا بھی آپا کو دیکھ کر بہت خوش نظر آرہا تھا۔
’’سلام کر مبین! یہ تیرے ماماجی ہیں!‘‘ سکینہ نے اپنے پیچھے چھپتی مبین کو آگے لاکھڑا کیا۔
’’سلام ماماجی!‘‘ ننھے ننھے ہاتھ ماتھے تک چلے گئے۔ کاکایوں پیچھے ہٹا جیسے اسے بجلی کا کرنٹ چھوگیا ہو۔
’’تو اس گند کو بھی ساتھ لے آئی ہے؟‘‘ کاکا غصے سے دانت پیسنے لگا، ’’میں نے تو سمجھا تھا۔ صاحب جی۔ یہ کیا؟ آپ نے تو خط میں یہ نہیں بتایا تھا کہ ہندوؤں کی بچی بھی ساتھ ہوگی۔‘‘ وہ برنی صاحب کی طرف شاکی نظروں سے دیکھنے لگے۔
’’کاکے یہ ہندوؤں کی بچی نہیں ہے۔ یہ میری اولاد ہے، صرف میری۔ میرا خون ہے یہ، میں اسے کیسے پیچھے چھوڑ سکتی تھی؟‘‘ سکینہ نے کاکے کے آگے ہاتھ جوڑدیے۔ مگر کاکا ان دونوں ماں بیٹی سے منہ پھیرے کھڑا رہا، یوں جیسے وہ کوئی غلیظ، کریہہ چیزیں ہوں اور وہ انہیں دیکھنے کا حوصلہ نہ رکھتا ہو۔ برنی صاحب اسے ایک کونے میں لے گئے اور آدھ گھنٹے تک نہ جانے کیا سمجھاتے رہے کہ کاکا منہ بناکر اپنی آپا کے پاس چلا آیا اور اسے اپنے ساتھ چلنے کا اشارہ کردیا۔ واہگہ بارڈر پر آئی ہوئی خواتین کی ا ین جی اوز کے نمائندوں نے ان دونوں ماں بیٹی کو آگے بڑھ کر خو ش آمدید کہا اور گلے میں پھولوں کے ہار ڈال دیے۔ پریس والوں نے کھٹا کھٹ تصویریں کھینچیں اور رپورٹروں نے نوٹ بکیں سنبھال لیں۔ چند خواتین نے مبین کو بسکٹوں، ٹافیوں اور دیگر تحائف کے ڈبے دیے تو اس کا چہرہ کھل اٹھا۔ اسے اپنا نیا وطن پسند آگیا تھا۔ یہاں قدم رکھتے ہی اس پر اتنی نوازشات کی برسات ہونے لگی تھی۔
مظفرآباد کی بس سے اترتے ہی مبین نے سوالات شروع کردیے، ’’اماں گھر آگیا؟اماں ماما ہمیں کہاں لے جارہا ہے؟‘‘ سکینہ نے اس کو مختصر جواب دے کر خاموش کرنا چاہا مگر وہ بولتی ہی چلی جارہی تھی۔ جیل کی چاردیواری سے باہر کی دنیا ایسی ہوتی ہے؟ اسے یقین نہیں آرہا تھا۔ سکینہ بھی برسوں بعد ملنے والی آزادی کی خوشی سے سرشار تیز تیز قدم اٹھاتے بھائی کے پیچھے چلتی جارہی تھی مگر کاکا تو چپ ہی ہوگیا تھا۔ سوائے ہوں ہاں کے کسی بات کا جواب ہی نہیں دے رہا تھا۔
’’اماں میں تیری بیٹی ہوں نا؟‘‘ مبین نے سوال کیا۔
’’ہاں میری بچی، تو میری جان ہے، میرے کلیجے کا ٹکڑا۔‘‘
’’مگر ماما تو کہہ رہا تھا میں ہندو کی بچی ہوں۔‘‘ مبین نے ماں کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ سکینہ ٹھٹک کر رہ گئی۔ اب وہ دریا کے قریب سے گزر رہے تھے۔ سرسبزوادی کی گود میں دریائے نیلم اسی شان و شوکت، اسی کروفر سے بہہ رہاتھا، جیسے پہلے بہتا تھا۔ یہ وہی ظالم ہے نا، جس کی گہرائیوں سے میں نے پناہ کے موتی تلاش کرنا چاہے تھے مگر اس سفاک نے مجھے پناہ دینے کی بجائے کس بے رحمی سے دھتکار دیا تھا۔ سکینہ نے شکوہ بھری نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا۔ پھر اسے خیال آیا اگر دریا مجھ پر ظلم نہ کرتا تو مبین کہاں سے آتی؟ میری مبین، میری بچی، اس فرحت بخش خیال کے آتے ہی سکینہ کے چہرے پہ ممتا کا نو ر پھیل گیا اور مبین کے ہاتھ پر اس کی گرفت مضبوط ہوگئی۔ سکینہ کی نظریں د وبارہ بہتے ہوئے دریا پر جاٹکیں۔ کنارے چلتے چلتے اسے ایسا لگا جیسے یہ وہ دریا نہیں تھا جس میں وہ کودی تھی۔ یہ دریا وہ والا ہو بھی نہیں سکتا تھا کہ ہر دریا کے پانی تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ بھنور نئے نئے گول دائروں میں قید ہوتے جاتے ہیں، لہریں نئے نئے انداز سے اٹھلاتی ہیں اور کنارے چلنے والوں کے عکس لمحہ لمحہ مختلف ہوتے نظر آتے ہیں۔ اب اگر وہ اس دریا میں قدم رکھتی تو نہ تو وہ پانی ہوتا، اور نہ ہی وہ مانوس لمحہ جس میں اس نے پہلے پہل طوفان کی زور آوری کو آزمایا تھا۔
مبین نے دریا کنارے اگی ہوئی پیلے پھولوں کی جھاڑی سے ایک پھول توڑلیا اور اسے ہاتھ میں نچا نچا کو خوش ہونے لگی۔ اسے مسکراتے دیکھ کر کاکے کی تیوری پر بل پڑگئے۔ خشمگیں نگاہوں سے بچی کو دیکھ کر بولا، ’’جلدی کر کڑئیے، گھر بھی اپڑنا ہے۔‘‘ مبین سہم کر ماں سے چپک گئی اور تیز تیز قدم اٹھانے لگی۔
سکینہ نے ایک بار پھر دریا کو د یکھا۔ اب اسے یقین ہوگیا تھا کہ اسے زندگی بھر ایک اور ہی دریا کا سا منا کرتے رہنا پڑے گا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.