Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ایک اور زندگی

موہن راکیش

ایک اور زندگی

موہن راکیش

MORE BYموہن راکیش

    اور ایک لمحے کے لیے پرکاش کے دل کی دھڑکن جیسے رکی رہی۔ کتنا عجیب تھا وہ لمحہ۔۔۔ آکاش سے ٹوٹ کر گرے ہوئے ستارے جیسا! کہرے کے سینے میں ایک لکیر سی کھینچ کر وہ لمحہ ماضی ہوگیا۔ کہرے میں سے گزر کر جاتی ہوئی شکلوں کو اس نے ایک بار پھر دھیان سے دیکھا۔ کیا یہ ممکن تھا کہ انسان کی آنکھیں اس حدتک اسے دھوکا دیں؟ تو جو کچھ وہ دیکھ رہا تھا، وہ سچ نہیں تھا؟

    کچھ ہی لمحے پہلے جب وہ کمرے سے نکل کر بالکنی پر آیا تھا تو کیا اس نے تصور میں یہ سوچا تھا کہ آکاش کے اور چھور تک پھیلے ہوئے کہرے میں، گہرے پانی کی نچلی سطح پر تیرتی ہوئی مچھلیوں جیسی جوشکلیں نظر آرہی ہیں، ان میں کہیں وہ دوشکلیں بھی ہوں گی؟ مندر والی سڑک سے آتے ہوئے دو کہریلے رنگوں پر جب اس کی نظر پڑی تھی، تب بھی کیا اس کے من میں کہیں ایسا شک جاگا تھا؟ پھر بھی نہ جانے کیوں اسے لگ رہاتھا جیسے بہت دیر سے، بلکہ کئی دنوں سے، وہ ان کے وہاں سے گزر نے کا منتظر رہا ہو، جیسے کہ انہیں دیکھنے کے لیے ہی وہ کمرے سے نکل کر بالکنی پر آیا ہو اور انہیں کو ڈھونڈتی ہوئی اس کی آنکھیں مندر والی سڑک کی طرف مڑی ہوں۔ یہاں تک کہ اس دھانی آنچل اور نیلی نیکر کے رنگ بھی جیسے اس کے پہچانے ہوئے ہوں اور کہرے کے پھیلاؤ میں وہ ان دورنگوں کو ہی کھوج رہا ہو۔ ویسے ان شکلوں کے بالکنی کے نیچے پہنچنے تک اس نے انہیں پہچانا نہیں تھا۔ لیکن ایک لمحے میں اچانک وہ شکلیں اس طرح اس کے سامنے واضح ہو اٹھی تھیں جیسے وجدان کے لمحے میں لاشعور کی گہرائی میں ڈوبا ہوا کوئی خیال ایکا ایک شعور کی سطح پر کوند گیا ہو۔

    نیلی نیکر والی شکل گھوم کر پیچھے کی طرف دیکھ رہی تھی۔ کیا اسے بھی کہرے میں کسی کی کھوج تھی؟ اور کس کی؟ پرکاش کامن ہوا کہ اسے آواز دے دے مگر اس کے گلے سے لفظ نہیں نکلے۔ کہرے کا سمندر اپنی گمبھیرتا میں خاموش تھا مگر اسے اس کی اپنی خاموشی ایک ایسے طوفان کی طرح لگتی تھی جو ہوا نہ ملنے سے اپنے اندر ہی گھمڑ کر رہ گیا ہو۔ نہیں تو کیا وہ اتنا ہی ناتواں تھا کہ اس کے گلے سے ایک لفظ بھی نہ نکل سکے؟

    وہ بالکنی سے ہٹ کر کمرے میں آگیا۔ وہاں آتے ہی اپنے الٹ پلٹ سامان پر نظر پڑی تو جسم میں مایوسی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ کیا یہی وہ زندگی تھی جس کے لیے اس نے۔۔۔؟ لیکن اسے لگا کہ اس کے پاس کچھ بھی سوچنے کے لیے وقت نہیں ہے۔ اس نے جلدی جلدی کچھ چیزوں کو اٹھایا اور رکھ دیا، جیسے کوئی چیز ڈھونڈ رہا ہو جو اسے مل نہ رہی ہو۔ اچانک کھونٹی پر لٹکتی ہوئی پتلون پر نظر پڑی تو اس نے پاجامہ اتار کر جلدی سے اسے پہن لیا۔ پھر پل بھر کھویا سا کھڑا رہا۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا چاہتا ہے۔ کیا وہ ان دونوں کے پیچھے جانا چاہتا تھا؟ یابالکنی پر کھڑا ہوکر پہلے کی طرح انہیں دیکھتے رہنا ہی چاہتا تھا؟

    اچانک اس کا ہاتھ میز پر رکھے ہوئے ایک تالے پر پڑگیا تو اس نے اسے اٹھا لیا۔ جلدی سے دروازہ بند کرکے وہ زینے سے اترنے لگا۔ زینے پر آکر پتا چلا کہ جوتا نہیں پہنا۔ وہ پل بھر کے لیے ٹھٹک کر کھڑا رہا مگر لوٹ کر نہیں گیا۔ نیچے سڑک پر پہنچتے ہی پاؤں کیچڑ میں لت پت ہوگئے۔ دور دیکھا۔۔۔ وہ دونوں شکلیں گھوڑوں کے اڈے کے پاس پہنچ چکی تھیں۔ وہ جلدی جلدی چلنے لگا۔ پاس سے گزرتے ہوئے ایک گھوڑے والے سے اس نے کہا کہ وہ آگے جاکر نیلی نیکر والے بچے کو روک لے۔۔۔ اس سے کہے کہ کوئی اس سے ملنے کے لیے پیچھے آرہا ہے۔ گھوڑے والا گھوڑا دوڑاتا ہوا گیا مگر ان دونوں کے پاس نہ رک کر ان سے آگے نکل گیا۔ وہاں جاکر اس نے نہ جانے کسے اس کا پیغام دے دیا۔

    جلدی جلدی چلتے ہوئے بھی پرکاش کو لگ رہا تھا جیسے وہ بہت آہستہ چل رہا ہو، جیسے اس کے گھٹنے جکڑ گئے ہوں اور راستہ بہت، بہت لمبا ہوگیا ہو۔ اس کا من اس اندیشے سے بے چین تھا کہ اس کے پاس پہنچنے تک وہ لوگ گھوڑوں پر سوار ہوکر وہاں سے چل نہ دیں، اور جس دوری کو وہ ناپنا چاہتا تھا وہ جوں کی توں نہ بنی رہے۔ مگر جوں جوں فاصلہ کم ہو رہا تھا، اس کا کم ہونا بھی اسے اَکھر رہا تھا۔ کیا وہ جان بوجھ کر اپنے کو ایک ایسی صورت حال کی سمت لے جارہا تھا جس سے اسے اپنے کو بچانا چاہیے تھا؟

    ان لوگوں نے گھوڑے نہیں لیے تھے۔ جب وہ ان سے تین چار گز دور رہ گیا تو اچانک اس کے قدم رک گئے۔ تو کیا سچ مچ اب اسے اس صورت حال کا سامنا کرنا ہی تھا؟

    ’’پاشی!‘‘ اس سے پہلے کہ وہ طے کرپاتا، فوراً اس کے منھ سے نکل گیا۔

    بچے کی بڑی بڑی آنکھیں اچانک اس کی طرف گھوم گئیں۔۔۔ ساتھ ہی اس کی ماں کی آنکھیں بھی۔ کہرے میں اچانک کئی کئی بجلیاں کوند گئیں۔ پرکاش دو ایک قدم اور آگے بڑھ گیا۔ بچہ متحیر آنکھوں سے اس کی طرف دیکھتا ہوا اپنی ماں کے ساتھ سٹ گیا۔

    ’’پلاش، ادھر آمیرے پاس!‘‘ پرکاش نے ہاتھ سے چٹکی بجاتے ہوئے کہا، جیسے کہ یہ ہر روز کی ایک معمول کی بات ہو اور بچہ ابھی کچھ منٹ پہلے ہی اس کے پاس سے اپنی ماں کے پاس گیا ہو۔ بچے نے ماں کی طرف دیکھا۔ وہ اپنی آنکھیں ہٹاکر دوسری طرف دیکھ رہی تھی۔ بچہ اور بھی اس کے ساتھ سٹ گیا اور اس کی آنکھیں حیرت کے ساتھ ساتھ ایک شرارت سے چمک اٹھیں۔

    پرکاش کو وہاں کھڑے کھڑے الجھن ہو رہی تھی۔ اسے لگ رہا تھا کہ خود چل کر اس دوری کوناپنے کے سوا اس کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے۔ وہ لمبے لمبے ڈگ بھر کر بچے کے پاس پہنچا اور اسے بانہوں سے اٹھالیا۔ بچے نے ایک بار کلکارکر اس کے ہاتھوں سے چھوٹنے کی کوشش کی، لیکن دوسرے ہی لمحے اپنی چھوٹی چھوٹی بانہیں اس کے گلے میں ڈال کر وہ اس سے لپٹ گیا۔ پرکاش اسے لیے ہوئے تھوڑا ایک طرف کو ہٹ آیا۔

    ’’تونے پاپا کو پہچانا نہیں تھاکیا؟‘‘

    ’’پیتانا تھا!‘‘ بچہ بانہیں اس کے گلے میں ڈال کر جھولنے لگا۔

    ’’تو تُو جھٹ سے پاپا کے پاس آیا کیوں نہیں؟‘‘

    ’’نہیں آیا۔‘‘ کہہ کر بچے نے اسے چوم لیا۔

    ’’تو آج ہی یہاں آیا ہے؟‘‘

    ’’نہیں، تل آیا تھا۔‘‘

    ’’رہے گا یا آج ہی لوٹ جائے گا؟‘‘

    ’’ابھی تین چال دن لہوں دا۔‘‘

    ’’توپاپا کے پاس ملنے آئے گانا؟‘‘

    ’’آؤں دا۔‘‘

    پرکاش نے ایک بار اسے اچھی طرح اپنے ساتھ چمٹاکر چوم لیا تو بچہ چلاکر اس کے ماتھے، آنکھوں اور گالوں کو جگہ جگہ چومنے لگا۔

    ’’کیسا بچہ ہے!‘‘ پاس کھڑے ایک کشمیری مزدور نے سرہلاتے ہوئے کہا۔

    ’’تم تہاں لہتے ہو؟‘‘ بچہ بانہیں اس کی گردن میں ڈالے ہوئے، جیسے اسے اچھی طرح دیکھنے کے لیے تھوڑا پیچھے کو ہٹ گیا۔

    ’’وہاں!‘‘ پرکاش نے دور اپنے کمرے کی بالکنی کی طرف اشارہ کیا، ’’تو کب تک وہاں آئے گا؟‘‘

    ’’اب اوپل جاکل دودپیوں دا، اچھ کے بعد تمالے پاچھ آؤں دا۔‘‘ بچے نے ایک بار اپنی ماں کی طرف دیکھا اور اس کی بانہوں سے نکلنے کے لیے مچلنے لگا۔

    ’’میں وہاں بالکنی میں کرسی ڈال کر بیٹھا رہوں گا اور تیرا انتظار کروں گا۔‘‘ بچہ بانہوں سے اتر کر اپنی ماں کی طرف بھاگ گیا تو پرکاش نے پیچھے سے کہا۔ لمحہ بھر کے لیے اس کے آنکھیں بچے کی ماں سے مل گئیں لیکن دوسرے ہی لمحے دونوں دوسری دوسری طرف دیکھنے لگے۔ بچہ جاکر ماں کی ٹانگوں سے لپٹ گیا، تو وہ کہرے کے پاردیواروں کی دھندلی ریکھاؤں کو دیکھتی ہوئی اس سے بولی، ’’تجھے دودھ پی کر آج کھلن مرگ نہیں چلنا ہے کیا؟‘‘

    ’’نہیں۔‘‘ بچے نے اس کی ٹانگوں کے سہارے اچھلتے ہوئے سپاٹ جواب دیا، ’’میں دود پی تل پاپا تے پاچھ جاؤں دا۔‘‘

    تین دن تین راتوں سے آسمان گھرا ہوا تھا۔ کہرا دھیرے دھیرے اتنا گھنا ہوگیا تھا کہ بالکنی سے آگے کوئی روپ، کوئی رنگ نظر نہیں آتا تھا۔۔۔ آسمان کے شفاف پن پر جیسے گاڑھاسفیدہ پوت دیا گیا تھا۔ جوں جوں وقت بیت رہاتھا، کہرا اور گھنا ہوتا جارہا تھا۔ کرسی پر بیٹھے ہوئے کسی کسی لمحے محسوس ہونے لگتا تھا جیسے وہ بالکنی پہاڑیوں سے گھری ہوئی کھلی وسعت میں نہ ہوکر فضاکے کسی پر اسرار پردیس میں بنی ہو۔۔۔ نیچے اور اوپر صرف آکاش ہی آکاش ہو، جس کی تہہ میں بالکنی کی موجودگی ایک اپنے آپ میں مکمل اور خودمختار دنیا کی طرح ہو۔۔۔

    اس کی آنکھیں اس طرح ایک ٹک سامنے کی طرف دیکھ رہی تھیں جیسے آسمان اور کہرے میں اسے کوئی معنی ڈھونڈنا ہو۔ جیسے وہ اپنی بالکنی کے وہاں ہونے کے راز کو جانتا ہو۔ ہوا سے کہرے کے بادل کئی روپ لے کر اِدھر اُدھر بھٹک رہے تھے۔۔۔ اپنی گہرائی میں پھیلتے اور سمٹتے ہوئے وہ اپنی تھاہ نہیں پارہے تھے۔ بیچ میں کہیں کہیں دیواروں کی پھنگیاں ایک ہری لکیر کی طرح نکلی ہوئی تھیں، کہرے کے آسمان پر لکھی گئی ایک خلط ملط تحریر جیسی۔ دیکھتے دیکھتے وہ لکیر بھی گم ہوجاتی تھی؛ کہرے کا ہاتھ اسے رہنے دینا نہیں چاہتا تھا۔ لکیر کومٹتے دیکھ کر رگوں میں ایک تناؤ سا آرہا تھا، جیسے کسی بھی طرح وہ اس لکیر کو مٹنے سے بچالینا چاہتا ہے۔ لیکن جب ایک بار لکیر مٹ کر باہر نہیں نکلی تو اس نے سر پیچھے کو ڈال لیا اور خود بھی کہرے میں کہرا ہوکر پڑ رہا۔۔۔

    ماضی کے کہرے میں کہیں وہ ایک دن بھی تھا جو چار برس بیت جانے پر بھی آج تک بیت نہیں سکاتھا۔۔۔ بچے کی پہلی سال گرہ تھی اس دن۔۔۔ وہی ان کے جیون کی سب سے بڑی گرہ بن گئی تھی۔

    بیاہ کے کچھ مہینے بعد سے ہی پتی پتنی الگ الگ رہنے لگے تھے۔ بیاہ کے ساتھ جو رشتہ جڑنا چاہیے تھا وہ جڑ نہیں سکا تھا۔ دونوں الگ الگ جگہ کام کرتے تھے اور اپنا اپنا خود مختار تانا بانا بُن کر جی رہے تھے۔ زمانے کے دستور کے ناتے سال چھ مہینے میں کبھی ایک بار مل لیا کرتے تھے۔ وہ زمانے کا دستور ہی اس بچے کو دنیا میں لے آیا تھا۔۔۔

    بینا سمجھتی تھی کہ اس طرح جان بوجھ کر اسے پھنسا دیا گیا ہے۔ پرکاش سوچتا تھا کہ انجانے میں اس سے ایک گناہ ہوگیا ہے۔ لیکن پیدائش کے پانچویں یا چھٹے روز بچے کی حالت اچانک بہت خراب ہوگئی تو وہ اپنے کمرے میں اکیلا بیٹھا، ہوا میں بچے کے چہرے کو دیکھتا ہوا، کہتا رہاتھا، ’’دیکھ، تجھے جینا ہے۔ تو اس طرح نہیں جاسکتا۔ سن رہا ہے؟ تجھے جینا ہے، ہر حالت میں جینا ہے۔ میں تجھے جانے نہیں دوں گا۔ سمجھا؟‘‘

    سال بھر سے بچہ ماں کے پاس ہی رہ رہا تھا۔ بیچ میں بچے کی دادی چھ سات مہینے اس کے پاس رہ آئی تھی۔

    پہلی سال گرہ پر بینا نے لکھا تھا کہ وہ بچے کولے کر اپنے پتا کے یہاں لکھنؤ جارہی ہے۔ وہیں پر بچے کے جنم دن کی پارٹی کرے گی۔ پرکاش نے اسے تاردیا تھا کہ وہ بھی اس دن لکھنؤ آئے گا۔ اپنے ایک دوست کے یہاں حضرت گنج میں ٹھہرے گا۔ اچھا ہوگا کہ پارٹی وہیں پر کی جائے۔ لکھنؤ کے کچھ دوستوں کو بھی اس نے مطلع کردیا تھا کہ اس کے بچے کی سال گرہ کے موقعے پر وہ اس کے ساتھ چائے پینے کے لیے آئیں۔

    اس نے سوچا تھاکہ بینا اسے اسٹیشن پر مل جائے گی لیکن وہ نہیں ملی۔ حضرت گنج پہنچ کر نہادھو چکنے کے بعد اس نے بینا کے پاس پیغام بھیجا کہ وہ وہاں پہنچ گیا ہے ؛ کچھ لوگ ساڑھے چار پانچ بجے چائے پر آئیں گے، اس لیے وہ اس وقت تک بچے کو لے کر لازماً وہاں پہنچ جائے۔ لیکن پانچ بجے، چھ بجے، سات بج گئے، بینا بچے کو لے کر نہیں آئی۔ دوسری بار پیغام بھیجنے پر پتا چلا کہ وہاں ان لوگوں کی پارٹی چل رہی ہے۔ بینا نے کہلا بھیجا کہ بچہ آٹھ بجے تک فارغ نہیں ہوگا، اس لیے وہ اس وقت اسے لے کر نہیں آسکتی۔ پرکاش نے اپنے دوستوں کو چائے پلاکر رخصت کردیا۔ بچے کے لیے خریدے ہوئے تحفے بینا کے پتا کے یہاں بھیج دیے۔ ساتھ میں پیغام بھی بھیجا کہ بچہ جب بھی فارغ ہو، اسے تھوڑی دیر کے لیے اس کے پاس بھیج دیا جائے۔

    مگر آٹھ کے بعد نو بجے، دس بجے، بارہ بج گئے، لیکن بینا نہ تو بچے کو لے کر آئی اور نہ ہی اس نے اسے کسی اور کے ساتھ بھیجا۔ پرکاش رات بھر سویا نہیں۔ اس کے دماغ کو جیسے کوئی چھینی سے چھیلتا رہا۔ صبح اس نے پھر بینا کے پاس پیغام بھیجا۔ اس بار بینا بچے کو لے کر آگئی۔ اس نے بتایا کہ رات کو پارٹی دیرتک چلتی رہی، اس لیے اس کا آنا ممکن نہیں تھا۔ اگر واقعی اسے بچے سے پیار تھا تو اس کا فرض تھا کہ وہ اپنے تحفے لے کر خود ان کے یہاں پارٹی میں آجاتا۔ اس دن صبح سے شروع ہوئی بات آدھی رات تک چلتی رہی۔ پرکاش بار بار کہتا رہا، ’’بینا، میں اس بچے کا پتا ہوں۔ پتا ہونے کے ناتے مجھے یہ حق تو ہے ہی کہ میں بچے کو اپنے پاس بلاسکوں۔‘‘

    لیکن بینا کا جواب تھا، ’’آپ کے پاس پتا کا دل ہوتا تو کیا آپ پارٹی میں نہ آتے؟آپ مجھ سے پوچھیں تو میں کہوں گی کہ یہ ایک اتفاقی حادثہ ہی ہے کہ آپ اس کے پتا ہیں۔‘‘

    ’’بینا!‘‘ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس کے چہرے کی طرف دیکھتا رہ گیا، ’’تم بتاؤ، تم چاہتی کیا ہو؟‘‘

    ’’کچھ بھی نہیں۔ میں آپ سے کیا چاہوں گی؟‘‘

    ’’تم نے سوچا ہے کہ اس بچے کے مستقبل کا کیا ہوگا؟‘‘

    ’’جب ہم اپنے ہی مستقبل کے بارے میں نہیں سوچ سکتے تو اس کے مستقبل کے بارے میں کیا سوچیں گے۔‘‘

    ’’کیا تم یہ پسند کروگی کہ بچے کو مجھے سونپ دو اور خود آزاد ہوجاؤ؟‘‘

    ’’بچے کو آپ کو سونپ دوں؟‘‘ بیناکے لہجے میں تلخی گہری ہوگئی، ’’اتنی بے وقوف میں نہیں ہوں۔‘‘

    ’’تو کیا تم یہی سوچتی ہو کہ اس کا فیصلہ کرنے کے لیے عدالت میں جایاجائے؟‘‘

    ’’آپ عدالت میں جانا چاہیں تو مجھے اس پر بھی اعتراض نہیں ہے۔ ضرورت ہونے پر میں سپریم کورٹ تک لڑوں گی۔ آپ کابچے پر کوئی حق نہیں ہے۔‘‘

    ’’بچے کو پتا سے زیادہ ماں کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘ کئی دن۔۔۔ کئی ہفتے وہ اندر ہی اندر جنگ کرتارہا، ’’جہاں اسے دونوں نہ مل سکتے ہوں وہاں اسے ماں تو ملنی ہی چاہیے۔ اچھا ہے، تم بچے کی بات بھول جاؤ اور نئے سرے سے اپنی زندگی بنانے کی کوشش کرو۔‘‘

    ’’مگر۔۔۔‘‘

    ’’فضول کی حجت میں کچھ نہیں رکھا ہے۔ بچے وچے تو ہوتے ہی رہتے ہیں۔ تم رشتہ توڑ کر پھر سے بیاہ کرلو تو گھر میں بچے ہی بچے ہوجائیں گے۔ سمجھ لینا کہ اس ایک بچے کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آگیا تھا۔۔۔‘‘

    سوچنے سوچنے میں دن، ہفتے اور مہینے نکلتے گئے۔ کیا سچ مچ انسان پہلے کی زندگی کو مٹاکر نئے سرے سے زندگی شروع کرسکتاہے؟ کیا سچ مچ زندگی کے کچھ برسوں کو ایک برے خواب کی طرح بھولنے کا حوصلہ کیا جاسکتا ہے؟ بہت سے انسان ہیں جن کی زندگی کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی دوراہے سے غلط سمت کی جانب بھٹک جاتی ہے۔ کیا یہی مناسب نہیں کہ انسان اس راستے کو بدل کر اپنی غلطی سدھارلے؟ آخر انسان کو جینے کے لیے ایک ہی جیون تو ملتا ہے۔۔۔ وہی تجربے کے لیے اور وہی جینے کے لیے۔۔۔ تو کیوں انسان ایک تجربے کی ناکامی کو جیون کی ناکامی مان لے؟

    کورٹ میں کاغذ پر دستخط کرتے سمے چھت کے پنکھے سے ٹکراکر ایک چڑیا کا بچہ نیچے آگرا۔

    ’’ہائے ہائے، چڑیا مرگئی!‘‘ کسی نے کہا۔

    ’’مری نہیں، ابھی زندہ ہے، ‘‘ کوئی اور بولا۔

    ’’چڑیا نہیں ہے، چڑیا کا بچہ ہے۔‘‘ کسی تیسرے نے کہا۔

    ’’نہیں، چڑیا ہے۔‘‘

    ’’نہیں، چڑیا کابچہ ہے۔‘‘

    ’’اسے اٹھاکر باہر ہوا میں چھوڑدو۔‘‘

    ’’نہیں، یہیں پڑا رہنے دو۔ باہر اسے کوئی بلی کھاجائے گی۔‘‘

    ’’یہ یہاں آیا کس طرح؟‘‘

    ’’جانے کس طرح؟ روشن دان کے راستے آگیا ہوگا۔‘‘

    ’’بے چارہ کیسے تڑپ رہا ہے!‘‘

    ’’شکر ہے پنکھے نے اسے کاٹ ہی نہیں دیا۔‘‘

    ’’کاٹ دیا ہوتا تو بلکہ اچھا تھا۔ اب اس طرح بے چارہ کیاجیے گا؟‘‘

    تب پتی پتنی دونوں نے کاغذ پر دستخط کردیے تھے۔ بچہ اس سمے کورٹ کے احاطے میں کووں کے پیچھے بھاگتا ہواکلکاریاں مار رہاتھا۔ وہاں دھول اڑ رہی تھی اور چاروں طرف مٹیالی سی دھوپ پھیلی تھی۔

    پھر وہی دن، ہفتے اور مہینے۔۔۔

    اڑھائی سال گزرجانے پر بھی پرکاش پھر سے زندگی شروع کرنے کاطے نہیں کرپایاتھا۔ اس عرصے میں بچہ تین بار اس سے ملنے کے لیے آیا تھا۔ وہ نوکر کے ساتھ آتا تھا اور دن بھر رہ کر اندھیرا ہونے پر لوٹ جاتا تھا۔ پہلی بار وہ اس سے شرماتارہا تھا مگر بعد میں اس سے ہل گیا تھا۔ پرکاش بچے کو لے کر گھومنے جاتا تھا، اسے آئس کریم کھلاتا تھا، کھلونے لے دیتا تھا۔ بچہ جانے کے وقت ہٹ کرتا تھا، ’’ابی نہیں جاؤں دا۔ دود پی تل جاؤں دا۔ تھانا تھاتل جاؤں دا۔‘‘

    جب بچہ اس طرح کی بات کہتا تھا تو اس کے اندر اچانک کوئی چیز سلگ اٹھتی تھی۔ اس کا من ہوتا تھا کہ نوکر کو جھڑک کر واپس بھیج دے اور بچے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے پاس رکھ لے۔ جب نوکر بچے سے کہتا تھا، ’’بابا، چلو، اب دیر ہو رہی ہے۔‘‘ توپرکاش کاجسم ایک بے بس غصے سے کانپنے لگتا اور بہت مشکل سے وہ اپنے کو سنبھال پاتا۔ آخری بار بچہ رات کے نو بجے تک رکا رہ گیا تھا تو ایک اجنبی شخص اسے لینے کے لیے چلا آیا تھا۔

    بچہ اس وقت اس کی گودی میں بیٹھا کھانا کھارہا تھا۔

    ’’دیکھیے، اب بچے کو بھیج دیجیے، اسے بہت دیر ہوگئی ہے۔‘‘ اجنبی نے آکر کہا۔

    ’’آپ دیکھ رہے ہیں بچہ کھانا کھارہا ہے!‘‘ اس کا من ہوا کہ مکار مار کراس آدمی کے دانت توڑ دے۔

    ’’ہاں، ہاں، آپ کھانا کھلادیجیے۔‘‘ اجنبی نے شائستگی کے ساتھ کہا، ’’میں نیچے انتظار کر رہا ہوں۔‘‘

    غصے کے مارے پرکاش کے ہاتھ اس طرح کانپنے لگے کہ اس کے لیے بچے کو کھانا کھلانا ناممکن ہو گیا۔

    جب نوکر بچے کو لے کر چلا گیا تو اس نے دیکھا کہ بچے کی ٹوپی وہیں پر رہ گئی ہے۔ وہ ٹوپی لیے ہوئے بھاگ کر نیچے پہنچا تو دیکھا کہ نوکر اور اجنبی کے علاوہ بچے کے ساتھ کوئی اور بھی ہے۔۔۔ اس کی ماں۔ وہ لوگ چالیس پچاس گز آگے پہنچ گئے تھے۔ اس نے نوکر کو آواز دی تو چاروں نے مڑ کر ایک ساتھ اس کی طرف دیکھا۔ نوکر ٹوپی لینے کے لیے لوٹ آیا اور باقی تینوں آگے چلتے رہے۔

    اس رات وہ ایک دوست کی چھاتی پر سر رکھ کر دیر تک روتا رہا۔

    نئے سرے سے پھر وہی سوال من میں اٹھنے لگا۔ کیوں وہ اپنے کو اس ماضی سے پوری طرح آزاد نہیں کرلیتا؟ اگر بسا ہوا گھر بار ہو تو اپنے آس پاس بچوں کی چہل پہل میں وہ اس دکھ کوبھول نہیں جائے گا؟ اس نے اپنے کو بچے سے اسی لیے تو الگ کیا تھا کہ اپنے جیون کو ایک نیا موڑدے سکے۔۔۔ پھر وہ اس طرح اکیلی زندگی کی اذیت کس لیے سہہ رہاتھا؟لیکن نئے سرے سے جیون شروع کرنے کی خواہش میں سدا ایک اندیشہ ملا رہتا تھا۔ وہ اس اندیشے سے جتنا لڑتا تھا، وہ اتنا ہی اور بے قابو ہواٹھتا تھا۔ جب ایک تجربہ کامیاب نہیں ہوا تو یہ کیسے کہا جاسکتا تھا کہ دوسرا تجربہ کامیاب ہی ہوگا؟

    وہ پہلے کی بھول کو دہرانا نہیں چاہتا تھا، اس لیے اس کے اندیشوں نے اسے بہت محتاط کردیاتھا۔ وہ جس کسی لڑکی کو اپنی ہونے والی بیوی کے روپ میں دیکھتا، اسی کے چہرے میں اسے اپنی پہلی زندگی کی پرچھائیں نظر آنے لگتی۔ حالانکہ وہ واضح طور پر اس بارے میں کچھ بھی سوچ نہیں پاتا تھا، پھر بھی اسے لگتا تھا کہ وہ ایک ایسی ہی لڑکی کے ساتھ جیون گزارسکتا ہے جو ہرلحاظ سے بینا سے الٹ ہو۔ بینا میں بہت گھمنڈ تھا، وہ اس کے برابر پڑھی لکھی تھی، اس سے زیادہ کماتی تھی۔ اسے اپنی خودمختاری کابہت مان تھا اور وہ سمجھتی تھی کہ کسی بھی آزمائش کا وہ اکیلی رہ کر مقابلہ کرسکتی ہے۔ جسمانی لحاظ سے بھی بینا کافی لمبی اونچی تھی اور اس پر بھاری پڑتی تھی۔ بات چیت بھی کھلے مردانہ ڈھنگ سے کرتی تھی۔ وہ اب ایک ایسی لڑکی چاہتاتھا جوہر طرح سے اس پر انحصار کرے، جس کی کمزوریاں ایک شوہر کے سہارے کی امید رکھتی ہوں۔

    اور کچھ ایسی ہی لڑکی تھی نرملا۔۔۔ اس کے ایک گہرے دوست کرشن جونیجا کی بہن۔ اس نے دو ایک بار اس لڑکی کو دیکھا تھا۔ بہت سیدھی سادی معصوم سی لڑکی تھی۔ بات کرتے ہوئے اس کی آنکھیں نیچے کو جھک جاتی تھیں۔ معمولی پڑھی لکھی تھی اور بہت سادہ انداز سے رہتی تھی۔ اسے دیکھ کر بے اختیار دل میں ہمدردی امنڈ آتی تھی۔ چھبیس ستائیس برس کی ہوکر بھی دیکھنے میں وہ اٹھارہ انیس سے زیادہ کی نہیں لگتی تھی۔ وہ جونیجا کے گھر کی مشکلات کو جانتا تھا۔ ان مشکلات کے باعث ہی شاید اتنی عمر تک اس لڑکی کا بیاہ نہیں ہوسکا تھا۔ اس کے ساتھ نرملاکے بیاہ کی بات چلائی گئی تو اس کے دل کے کسی کونے میں سویا ہواجوش اچانک جاگ اٹھا۔

    اسے سچ مچ لگا جیسے اس کاکھویا ہواجیون اسے واپس مل رہا ہو، جیسے اندر کی ایک ٹوٹی ہوئی آرزو پھر سے ٹھوس شکل حاصل کر رہی ہو۔ ہوا اور آسمان میں اسے ایک اور ہی لبھاؤ لگنے لگا، راستے میں بکتی ہوئی پھولوں کی مالائیں پہلے سے کہیں مہکیلی محسوس ہونے لگیں۔ نرملا بیاہ کر اس کے گھر میں آئی بھی نہیں تھی کہ وہ شام کو لوٹتے ہوئے اس کے لیے مالائیں خریدکر لانے لگا۔ اس کے لیے اس نے ایک بڑا گھر لے لیا اور اسے سجانے کے لیے نیا نیا سامان خریدلیا۔ پاس میں زیادہ پیسے نہیں تھے اس لیے قرض لے لے کر بھی اس نے نرملا کے لیے نہ جانے کیا کچھ بنواڈالا۔

    نرملا ہنستی ہوئی اس کے گھر میں آئی۔۔۔ اور ہنستی ہی رہی۔

    پہلے تو کچھ دن وہ نہیں سمجھ سکا کہ وہ ہنستی کیوں ہے۔ نرملا جب کبھی بغیر بات کے ہنسنا شروع کر دیتی اور دیر تک ہنستی رہتی، وہ خاموش ہوکر اسے دیکھتا رہتا۔ تین تین، چار چار سال کے بچے بھی اس طرح بے اختیار انداز سے نہیں ہنس سکتے تھے جیسے وہ ہنستی تھی۔ کوئی شخص اس کے سامنے گرجاتا یا کوئی چیز کسی کے ہاتھ سے گر کر ٹوٹ جاتی تو اس کے لیے اپنی ہنسی روکناناممکن ہوجاتا۔ لگاتار دس دس منٹ تک وہ ہنسی سے بے حال رہتی۔ وہ اسے سمجھانے کی کوشش کرتا کہ ایسی باتوں پر نہیں ہنسا جاتا، تونرملا کو اور بھی ہنسی چھوٹتی۔ وہ اسے ڈانٹ دیتا تو وہ اسی طرح بے اختیار انداز سے بستر پر لیٹ کر ہاتھ پیر پٹکتی ہوئی رونے لگتی، چلا چلاکر اپنی مری ہوئی ماں کو پکارنے لگتی اور آخر میں بال بکھیر کر اور دیوی کاروپ دھار کے گھر بھر کو بددعا دینے لگتی۔ کبھی اپنے کپڑے پھاڑ کر اِدھر اُدھر چھپادیتی اور گہنے جوتوں کے اندر ڈال دیتی۔ کبھی اپنی بانہہ پر پھوڑے کاوہم کرکے دودودن اس کے درد سے کراہتی رہتی اور پھر اچانک تندرست ہوکر کپڑے دھونے لگتی اورصبح سے شام تک کپڑے ہی دھوتی رہتی۔

    جب من شانت ہوتا تو منھ گول کیے وہ انگوٹھا چوسنے لگتی۔

    اٹھتے بیٹھتے، کھاتے پیتے، پرکاش کے سامنے نرملا کے طرح طرح کے روپ آتے رہتے اور اس کا من ایک اندھے کنویں میں گرنے لگتا۔ راستے پر چلتے ہوئے اس کے چاروں طرف ایک خلاسا گھر آتااور وہ کئی بار بھونچکا سا سڑک کے کنارے کھڑا ہوکر سوچنے لگتا کہ وہ گھر سے کیوں آیاہے اور کہاں جارہا ہے؟ اس کا کسی سے بھی ملنے اور کہیں بھی آنے جانے کو دل نہ کرتا۔ اس کا دل جس خلا میں بھٹکتا رہتا، اس میں کئی بار اسے ایک بچے کی کلکاریاں سنائی دینے لگتیں اور وہ بالکل ساکت ہوکر دیر دیر تک ایک ہی جگہ پرکھڑا یا بیٹھا رہتا۔ ایک بار چلتے چلتے کھمبے سے ٹکراکر وہ نالی میں گرگیا۔ ایک بار بس پر چڑھنے کی کوشش میں نیچے گرجانے سے اس کے کپڑے پیچھے سے پھٹ گئے اور وہ اس سے بے خبردوسری بس میں چڑھ کر آگے چل دیا۔ اسے پتا تب چلا جب کسی نے راستے میں اس سے کہا، ’’جنٹل مین، تمہیں کیا گھر جاکر کپڑے بدل نہیں لینے چاہئیں؟‘‘

    اسے لگتا تھا جیسے وہ جی نہ رہا ہو، صرف اندر ہی اندر گھٹ رہا ہو۔ کیا یہی وہ زندگی تھی جسے پانے کے لیے اس نے برسوں تک اپنے سے مقابلہ کیا تھا؟اسے غصہ آتا کہ جونیجا نے اس کے ساتھ اس طرح کا دھوکا کیوں کیا؟ اس لڑکی کو کسی دماغی اسپتال میں بھیجنے کی جگہ اس کا بیاہ کیوں کردیا؟ اس نے جونیجا کو اس معاملے میں خط لکھے لیکن اس کی جانب سے اسے کوئی جواب نہیں ملا۔ اس نے جونیجا کو بلابھیجا تو وہ آیا بھی نہیں۔ وہ خود جونیجا سے ملنے کے لیے گیا تو اسے جواب ملا کہ نرملا اب اس کی بیوی ہے۔ نرملا کے میکے کے لوگوں کا اس معاملے سے اب کوئی تعلق نہیں ہے۔

    اور نرملا گھر میں اسی طرح ہنستی اور روتی رہی۔۔۔

    ’’تم میرے بھائی سے کیا پوچھنے کے لے گئے تھے؟‘‘ وہ بچکانہ انداز اختیار کیے ہوئے کہتی، ’’تم بینا کی طرح مجھے بھی طلاق دینا چاہتے ہو؟ کسی تیسری کو گھرمیں لانا چاہتے ہو؟ مگر میں بینا نہیں ہوں!وہ ستی ناری نہیں تھی، میں ستی ناری ہوں۔ تم مجھے چھوڑنے کی بات بھی من میں لاؤگے تو میں اس گھر کو جلاکر بھسم کردوں گی۔۔۔ سارے شہر میں بھونچال لے آؤں گی۔ لاؤں بھونچال؟‘‘ اور بانہیں پھیلاکر وہ کہنے لگتی، ’’آ، بھونچال، آ۔۔۔ آ! میں ستی ناری ہوں۔ تو اس گھر کی اینٹ سے اینٹ بجادے۔ آ، آ، آ!‘‘

    وہ اسے بہلانے کی کوشش کرتا تو وہ کہتی، ’’تم مجھ سے دور رہو۔ میرے جسم کو ہاتھ مت لگاؤ۔ میں ستی ہوں۔ دیوی ہوں۔ سادھوی ہوں۔ تم مجھے ناپاک کرنا چاہتے ہو؟ خراب کرنا چاہتے ہو؟ میراتم سے بیاہ کب ہوا ہے؟ میں تو اب تک کنواری ہوں۔ چھوٹی سی معصوم بچی ہوں۔ سنسار کا کوئی بھی مرد مجھے نہیں چھو سکتا۔ میں روحانی زندگی جیتی ہوں۔ مجھے کوئی چھو کر دیکھے تو سہی!‘‘

    اور بال بکھیرے ہوئے اسی طرح بولتی ہوئی کبھی وہ گھر کی چھت پر پہنچ جاتی اورکبھی باہر نکل کر گھر کے آس پاس چکر کاٹنے لگتی۔ پرکاش نے دوایک بار ہونٹوں پر ہاتھ رکھ کر اس کا منھ بند کردینا چاہا تو وہ اور بھی زور سے چلااٹھی، ’’تم میرا منھ بند کرنا چاہتے ہو؟ میرا گلاگھونٹنا چاہتے ہو؟ مجھے مارنا چاہتے ہو؟ تمہیں پتا ہے میں خود دیوی ہوں؟ میرے چاروں بھائی میرے چار شیر ہیں!وہ تمہیں نوچ نوچ کر کھاجائیں گے۔ انہیں پتا ہے ان کی بہن دیوی کا اپنا روپ ہے۔ کوئی میرا برا چاہے گا تو وہ اسے اٹھاکر لے جائیں گے اور کال کوٹھری میں بند کردیں گے۔ میرے بڑے بھائی نے ابھی ابھی نئی کار لی ہے۔ میں اسے چٹھی لکھ دوں تو وہ ابھی کار لے کر آجائے گا اور ہاتھ پیر باندھ کر تمہیں کار میں ڈال کر لے جائے گا۔ چھ مہینے بند رکھے گا، پھر چھوڑے گا۔ تمہیں پتا نہیں وہ چاروں کے چاروں شیر کتنے ظالم ہیں۔ وہ راکشس ہیں راکشس۔ آدمی کی بوٹی بوٹی کاٹ دیں اور کسی کو پتا بھی نہ چلے۔ مگر میں انہیں نہیں بلاؤں گی۔ میں ستی ناری ہوں، اس لیے اپنے ستیہ سے ہی اپنی رکشاکروں گی!‘‘

    سب تدبیروں سے ہار کر پرکاش تھکا ہوا اپنے پڑھنے کے کمرے میں بند ہوکر پڑجاتا تو آدھی رات تک وہ ساتھ کے کمرے میں اسی طرح بولتی رہتی۔ پھر بولتے بولتے اچانک چپ ہوجاتی اور تھوڑی دیر کے بعد اس کا دروازہ کھٹکھٹانے لگتی۔

    ’’کیا بات ہے؟‘‘ وہ کہتا۔

    ’’اس کمرے میں میری سانس رک رہی ہے۔‘‘ نرملا جواب دیتی، ’’دروازہ کھولو، مجھے اسپتال جانا ہے۔‘‘

    ’’اس وقت سوجاؤ۔‘‘ وہ کہتا، ’’صبح تم جہاں کہوگی وہاں لے چلوں گا۔‘‘

    ’’میں کہتی ہوں دروازہ کھولو، مجھے اسپتال جانا ہے۔‘‘ اور وہ زور زور سے دھکے دے کر دروازہ توڑنے لگتی۔

    پرکاش دروازہ کھول دیتا تو وہ ہنستی ہوئی اس کے سامنے آجاتی۔

    ’’تمہیں ہنسی کس بات کی آرہی ہے؟‘‘ پرکاش کہتا۔

    ’’تمہیں لگتا ہے میں ہنس رہی ہوں؟‘‘ وہ اور بھی زور سے ہنسنے لگتی، ’’یہ ہنسی نہیں، رونا ہے رونا!‘‘

    ’’تم اسپتال چلنا چاہتی ہو؟‘‘

    ’’کیوں؟‘‘

    ’’ابھی تم کہہ رہی تھیں۔۔۔‘‘

    ’’میں اسپتال چلنے کے لیے کہاں کہہ رہی تھی؟ میں تو کہہ رہی تھی کہ مجھے اس کمرے میں ڈر لگتا ہے، میں یہاں تمہارے پاس سوؤں گی۔‘‘

    ’’دیکھو نرملا، اس وقت میرا من ٹھیک نہیں ہے۔ تم تھوڑی دیر میں چاہے میرے پاس آجانا، مگر اس سمے تھوڑی دیر کے لیے۔۔۔‘‘

    ’’میں کہتی ہوں، میں اکیلی اس کمرے میں نہیں سوسکتی۔ میرے جیسی معصوم بچی کیا کبھی اکیلی سوسکتی ہے؟‘‘

    ’’تم معصوم بچی نہیں ہو نرملا!‘‘

    ’’تو تمہیں میں بڑی نظر آتی ہوں؟ ایک چھوٹی سی بچی کو بڑی کہتے تمہارے دل کو کچھ نہیں ہوتا؟ اس لیے کہ تم مجھے اپنے پاس سلانا نہیں چاہتے؟ مگر میں یہاں سے نہیں جاؤں گی۔ تمہیں مجھے اپنے ساتھ سلانا پڑے گا۔ میں ودھوا ہوں جو اکیلی سوؤں گی؟ میں سہاگن ناری ہوں۔ کوئی سہاگن کیا کبھی اکیلی سوتی ہے؟ میں بھانورے لے کر تمہارے گھر میں آئی ہوں، ایسے ہی اٹھاکر نہیں لائی گئی۔ دیکھتی ہوں تم کیسے مجھے اس کمرے میں بھیجتے ہو!‘‘ اور وہ پرکاش کے پاس لیٹ کر اس سے لپٹ جاتی۔

    کچھ دیر میں جب اس کے اعصاب پرسکون ہوجاتے تو لگاتار اسے چومتی ہوئی کہتی، ’’میرا سہاگ! میرا چاند! میرا راجا! میں تمہیں کبھی اپنے سے الگ رکھ سکتی ہوں؟ تم میرے ساتھ ایک سو چھتیس برس کی عمر تک جیوگے۔ مجھے یہ اعزاز ملا ہوا ہے کہ میں ایک سو چھتیس برس کی عمر تک سہاگن رہوں گی۔ جس کی بھی مجھ سے شادی ہوتی، وہ ایک سو چھتیس برس کی عمر تک جیتا۔ تم دیکھ لینا میری بات سچی نکلتی ہے یا نہیں۔ میں ستی ناری ہوں اور ستی ناری کے منھ سے نکلی ہوئی بات کبھی جھوٹ نہیں ہوسکتی۔۔۔‘‘

    ’’تم صبح میرے ساتھ اسپتال چلوگی؟‘‘ پرکاش کہتا۔

    ’’کیوں، مجھے کیا ہوا ہے جو اسپتال جاؤں گی؟ مجھے تو آج تک سردرد بھی نہیں ہوا۔ میں اسپتال کیوں جاؤں؟‘‘

    ایک دن پرکاش اس کے لیے کئی کتابیں خریدلایا۔ اس نے سوچا تھا کہ شاید پڑھنے سے نرملا کو ایک سمت مل جائے اور وہ دھیرے دھیرے اپنے من کے اندھیرے سے باہر نکلنے لگے۔ مگر نرملا نے ان کتابوں کو دیکھا تو منھ بناکر ایک طرف ہٹادیا۔

    ’’یہ کتابیں میں تمہارے پڑھنے کے لیے لایا ہوں۔‘‘ پرکاش نے کہا۔

    ’’میرے پڑھنے کے لیے؟‘‘ نرملا حیرت کے ساتھ بولی، ’’میں ان کتابوں کو پڑھ کر کیا کروں گی؟ میں نے تو مارکسزم، نفسیات اور سبھی کچھ چودہ سال کی عمر میں پڑھ لیا تھا۔ اب اتنی بڑی ہوکر میں یہ کتابیں پڑھنے لگوں گی؟‘‘

    اور اس کے پاس سے اٹھ کر انگوٹھا چوستی ہوئی وہ کمرے سے باہر چلی گئی۔

    ’’پاپا!‘‘

    کہرے کے بادلوں میں بھٹکا ہوا ذہن اچانک بالکنی پر لوٹ آیا۔ کھلن مرگ کو جانے والی سڑک پر بہت سے لوگ گھوڑے دوڑاتے جارہے تھے۔۔۔ ایک دھندلے نقش کی بجھی بجھی شبیہوں جیسے۔ ویسی ہی بجھی بجھی شکلیں کلب سے بازار کی طرف آرہی تھیں۔ بائیں طرف برف سے ڈھکی ہوئی پہاڑی کی ایک چوٹی کہرے سے باہر نکل آئی تھی اور جانے کدھر سے آتی ہوئی سورج کی کرن نے اسے روشن کردیا تھا۔ کہرے میں بھٹکے ہوئے کچھ پنچھی اڑتے ہوئے اس چوٹی کے سامنے آگئے تو اچانک ان کے پنکھ سنہرے ہواٹھے مگر اگلے ہی لمحے وہ پھر دھندلکے میں کھوگئے۔

    پرکاش کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا اور جھانک کر نیچے سڑک کی طرف دیکھنے لگا۔ کیا وہ آواز پلاش کی نہیں تھی؟ لیکن سڑک پر دور دور تک ایسی کوئی شکل دکھائی نہیں دے رہی تھی جسے اس کی آنکھیں اس بچے کے روپ میں پہچان سکیں۔ آنکھوں ہی آنکھوں میں ٹورسٹ ہوٹل کے گیٹ تک جاکر وہ لوٹ آیا اور گلے پر ہاتھ رکھ کر، جیسے مایوسی کی چبھن کو روکے ہوئے، پھر کرسی پر بیٹھ گیا۔ دس کے بعد گیارہ، بارہ اور پھر ایک بھی بج گیا تھا اور بچہ نہیں آیا تھا۔ کیا بچے کے پہلے جنم دن کی واردات آج پھر دہرائی جانی تھی؟ مٹھیاں بند کیے ان پر ماتھا رکھ کر وہ بالکنی پر جھک گیا۔

    ’’پاپا!‘‘

    اس نے چونک کر سراٹھایا، وہی کہرا اور وہی دھندلی سنسان سڑک۔ دور گھوڑوں کی ٹاپوں اور دھیمی چال سے اس طرف کو آتا ہوا ایک کشمیری مزدور۔ کیا وہ آواز اسے اپنے کانوں کے پردوں کے اندر سے ہی سنائی دے رہی تھی؟تبھی ان پردوں کے اندر دو ننھے پیروں کی آواز بھی گونج گئی اور اس کی بانہوں کے بہت پاس ہی بچے کالہجہ کلکار اٹھا، ’’پاپا!‘‘ ساتھ ہی دو ننھی ننھی بانہیں اس کے گلے سے لپٹ گئیں اور بچے کے گھنے بال اس کے ہونٹوں سے چھوگئے۔ پرکاش نے ایک بار بچے کے جسم کو سر سے پیر تک چھوکر دیکھ لیا کہ یہ بدن بھی اس کے تصور کا خواب تو نہیں ہے۔ یقین ہوجانے پر کہ بچہ سچ مچ اس کی گودی میں ہے، اس نے اس کے ماتھے اور آنکھوں کو کس کر چوم لیا۔

    ’’تو میں جاؤں، پلاش؟‘‘ ایک بھولی ہوئی مگر مانوس آواز نے پرکاش کو پھر چونکادیا۔ اس نے گھور کر پیچھے دیکھا۔ کمرے کے دروازے کے باہر بینا دائیں طرف نہ جانے کس چیز پر آنکھیں گڑائے کھڑی تھی۔

    ’’آپ۔۔۔؟ آ۔۔۔ آئیے آپ۔۔۔!‘‘ کہتا ہوا بچے کو بانہوں میں لیے پرکاش ہکا بکا ساکرسی سے اٹھ کھڑا ہوا۔

    ’’نہیں، میں جارہی ہوں۔‘‘ بینا نے پھر بھی اس کی طرف نہیں دیکھا، ’’مجھے اتنا بتادیجیے کہ بچہ کب تک لوٹ کر آئے گا؟‘‘

    ’’آپ۔۔۔ جب کہیں، تبھی بھیج دوں گا۔‘‘ پرکاش بالکنی کی دہلیز لانگھ کر کمرے میں آگیا۔

    ’’چاربجے اسے دودھ پینا ہوتا ہے۔‘‘

    ’’تو چار بجے تک میں اسے وہاں پہنچادوں گا۔‘‘

    ’’اس نے ہلکا سا سویٹر ہی پہن رکھا ہے۔ دوسرے پُل اوور کی ضرورت تو نہیں پڑے گی؟‘‘

    ’’آپ دے دیجیے۔ ضرورت پڑے گی تو میں اسے پہنادوں گا۔‘‘

    بینا نے دہلیز کے اس طرف سے ہی پل اوور اس کی طرف بڑھادیا۔ اس نے پل اوور لے کر اسے شال کی طرح بچے کو اُڑھادیا۔ ’’آپ۔۔۔‘‘ اس نے بینا سے کہنا چاہا کہ وہ اندر آجائے، مگر اس سے کہا نہیں گیا۔ بینا چپ چاپ زینے کی طرف چل دی۔ پرکاش کمرے سے نکل آیا۔ زینے سے بینا نے پھر کہا، ’’دیکھیے، اسے آئس کریم مت کھلائیے گا۔ اس کا گلابہت جلد خراب ہوجاتاہے۔‘‘

    ’’اچھا۔‘‘

    بینا پل بھر رکی رہی۔ شاید اسے اور بھی کچھ کہنا تھا مگر پھر بغیر کچھ کہے وہ نیچے اترگئی۔ بچہ پرکاش کی گودی میں اچھلتا ہوا ہاتھ ہلاتا رہا، ’’ممی، ٹاٹا! ٹاٹا!‘‘ پرکاش اسے لیے بالکنی پر لوٹ آیا تو وہ اس کے گلے میں بانہیں ڈال کر بولا، ’’پاپا، میں آئچھ کلیم جلول تھاؤں دا۔‘‘

    ’’ہاں ہاں، بیٹے!‘‘ پرکاش اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرنے لگا، ’’جو تیرے من میں آئے سو کھانا، ہاں؟‘‘

    اور کچھ دیر کے لیے وہ اپنے کو، بالکنی کو اور یہاں تک کہ بچے کو بھی بھولا ہوا، آسمان کو دیکھتا رہا۔ کہرے کا پردہ دھیرے دھیرے اٹھنے لگا تو میلوں میں پھیلے ہوئے ہریالی کے رنگ منچ کی دھندلی لکیریں اچانک نمایاں ہو اٹھیں۔ وہ دونوں گولف گراؤنڈ پار کرکے کلب کی طرف جارہے تھے۔ چلتے ہوئے بچے نے پوچھا، ’’پاپا، آدمی کے دوٹانگیں کیوں ہوتی ہیں؟ چار کیوں نہیں ہوتیں؟‘‘

    پرکاش نے چونک کر اس کی طرف دیکھااور کہا، ’’ارے!‘‘

    ’’کیوں پاپا۔۔۔‘‘ بچہ بولا، ’’تم نے ارے کیوں کہا ہے؟‘‘

    ’’تو اتنا صاف بول سکتا ہے تو اب تک تتلاکر کیوں بول رہا تھا؟‘‘ پرکاش نے اسے بانہوں میں اٹھاکر ایک ملزم کی طرح اپنے سامنے کرلیا۔ بچہ کھلکھلاکر ہنس پڑا۔ پرکاش کو لگا کہ یہ ویسی ہی ہنسی ہے جیسے کبھی وہ خود ہنسا کرتا تھا۔ بچے کے چہرے کے خطوط سے بھی اسے اپنے بچپن کے چہرے کی یاد آنے لگی۔ اسے لگا جیسے ایکاایک اس کا تیس برس پہلے کاچہرہ سامنے آگیا ہو اور وہ خود اس چہرے کے سامنے ایک ملزم کی طرح کھڑا ہو۔

    ’’ممی تو ایچھے ہی اچھلا لدتا ہے۔‘‘ بچے نے کہا۔

    ’’کیوں؟‘‘

    ’’میلے تو نہیں پتا۔ تم ممی چھے پوچھ لینا۔‘‘

    ’’تیری ممی تجھے زور سے ہنسنے سے بھی منع کرتی ہے؟‘‘ پرکاش کو وہ دن یاد آرہے تھے جب اس کے کھلکھلاکر ہنسنے پر بینا کانوں پر ہاتھ رکھ لیا کرتی تھی۔ بچے کی بانہیں اس کی گردن کے پاس کس گئیں۔ ’’ہاں!‘‘ وہ بولا، ’’ممی تہتی ہے اچھے بچے جول چھے نہیں ہنچھتے۔‘‘

    پرکاش نے اسے بانہوں سے اتاردیا۔ بچہ اس کی انگلی پکڑے ہوئے گھاس پر چلنے لگا۔ ’’تیوں پاپا۔۔۔‘‘ اس نے پوچھا، ’’اچھے بچے جول چھے تیوں نہیں ہنچھتے؟‘‘

    ’’ہنستے ہیں، بیٹے!‘‘ پرکاش نے اس کے سر کو سہلاتے ہوئے کہا، ’’سب اچھے بچے زور سے ہنستے ہیں۔‘‘

    ’’تو ممی میلے تو تیو لوتتی ہے؟‘‘

    ’’نہیں روکتی، بیٹے۔ اب وہ تجھے نہیں روکے گی۔ اور تو تتلاکر نہیں، ٹھیک سے بولاکر۔ تیری ممی تجھے اس کے لیے بھی منع نہیں کرتی۔ میں اس سے کہہ دوں گا۔‘‘

    ’’تو تم نے پہلے ممی چھے تیوں نہیں تہا؟‘‘

    ’’ایسے نہیں، کہہ کہ تم نے پہلے ممی سے کیوں نہیں کہا۔‘‘

    ’’بچہ پھر ہنس دیا، ‘‘ تو تم نے پہلے ممی سے کیوں نہیں کہا؟‘‘

    ’’پہلے مجھے یاد نہیں رہا۔ اب یاد سے کہہ دوں گا۔‘‘

    کچھ دیر دونوں چپ چاپ چلتے رہے۔ پھر بچے نے پوچھا، ’’پاپا، تم میرے جنم دن کی پارٹی میں کیوں نہیں آئے؟ ممی کہتی تھی تم ولایت گئے ہوئے تھے۔‘‘

    ’’ہاں بیٹے، میں ولایت گیا ہوا تھا۔‘‘

    ’’تو پاپا، اب تم پھر سے ولایت نہیں جانا۔‘‘

    ’’کیوں؟‘‘

    ’’میرے کو اچھانہیں لگتا۔ ولایت جاکر تمہاری شکل اور ہی طرح کی ہوگئی ہے۔‘‘

    پرکاش ایک روکھی سی ہنسی ہنسا اور بولا، ’’کیسی ہوگئی ہے شکل؟‘‘

    ’’پتا نہیں کیسی ہوگئی ہے۔ پہلے دوسری طرح کی تھی، اب دوسری طرح کی ہے۔‘‘

    ’’دوسری طرح کی کیسے؟‘‘

    ’’پتا نہیں۔ پہلے تمہارے بال کالے کالے تھے، اب سفید سفید ہوگئے ہیں۔‘‘

    ’’تم اتنے دن میرے پاس نہیں آئے، اسی لیے میرے بال سفید ہوگئے ہیں۔‘‘

    بچہ اتنے زور سے ہنسا کہ اس کے قدم لڑکھڑاگئے، ’’ارے پاپا، تم تو ولایت گئے ہوئے تھے۔‘‘ اس نے کہا، ’’میں تمہارے پاس کیسے آتا؟ میں کیا اکیلاولایت جاسکتا ہوں؟‘‘

    ’’کیوں نہیں جاسکتا؟ تو اتنا بڑا تو ہے۔‘‘

    ’’میں سچ مچ بڑا ہوں نا پاپا؟‘‘ بچہ تالی بجاتا ہوا بولا، ’’تم یہ بات بھی ممی سے کہہ دینا۔ وہ کہتی ہیں میں ابھی بہت چھوٹا ہوں۔ میں چھوٹا نہیں ہوں نا پاپا؟‘‘

    ’’نہیں، تو چھوٹا کہاں ہے!‘‘ کہہ کر پرکاش میدان میں دوڑنے لگا، ’’تو بھاگ کر مجھے پکڑ۔‘‘

    بچہ اپنی چھوٹی چھوٹی ٹانگیں پٹکتا ہوا دوڑنے لگا، پرکاش کو پھر اپنے بچپن کی ایک بات یاد آئی۔ تب اسے دوڑتے دیکھ کر ایک بار کسی نے کہا تھا، ’’ارے یہ بچہ کیسے ٹانگ پٹک پٹک کر دوڑتا ہے۔ اسے ٹھیک سے چلنا نہیں آتا ہے کیا؟‘‘

    بچے کی انگلی پکڑے ہوئے پرکاش کلب کے بار روم میں داخل ہوا تو بار مین عبداللہ اسے دیکھتے ہی دور سے مسکرایا، ’’صاحب کے لیے دوبوتل بیئر!‘‘ اس نے پاس کھڑے بیرے سے کہا، ’’صاحب آج اپنے ایک مہمان کے ساتھ آیا ہے۔‘‘

    ’’بچے کے لیے ایک گلاس پانی دے دو۔‘‘ پرکاش نے کاؤنٹر کے پاس پہنچ کر کہا، ’’اسے پیاس لگی ہے۔‘‘

    ’’خالی پانی؟‘‘ عبداللہ بچے کے بالوں کو پیار سے سہلانے لگا، ’’اور سب دوستوں کو تو صاحب بیئر پلاتا ہے اور اس بے چارے کو خالی پانی؟‘‘ اور ٹھنڈے پانی کی بوتل کھول کر وہ گلاس میں پانی ڈالنے لگا۔ جب وہ گلاس اس بچے کے منھ کے پاس لے آیا تو بچے نے وہ اس کے ہاتھوں سے لے لیا۔ ’’میں اپنے آپ پیوں گا۔‘‘ اس نے کہا، ’’میں چھوٹا تھوڑے ہی ہوں؟ میں تو بڑا ہوں۔‘‘

    ’’اچھا تو بڑاہے؟‘‘ عبداللہ ہنسا، ’’تب تو تجھے پانی دے کر میں نے غلطی کی۔ بڑے لوگوں کو تو میں بیئر پلاتا ہوں۔‘‘

    ’’بیئر کیا ہوتا ہے؟‘‘ بچے نے منھ سے گلاس ہٹاکر پوچھا۔

    ’’بیئر ہوتا نہیں، ہوتی ہے۔‘‘ عبداللہ نے جھک کر اسے چوم لیا، ’’تجھے پلاؤں کیا؟‘‘

    ’’نہیں۔۔۔‘‘ کہہ کر بچے نے اپنی بانہیں پرکاش کی طرف پھیلادیں۔ پرکاش اسے لے کر ڈیوڑھی کی طرف چلا تو عبداللہ بھی ان دونوں کے ساتھ ہی ساتھ باہر چلاآیا، ’’کس کا بچہ ہے صاحب؟‘‘ اس نے دھیمے لہجے میں پوچھا۔

    ’’میرا لڑکا ہے۔‘‘ کہہ کر پرکاش بچے کو سیڑھی سے اتارنے لگا۔

    عبداللہ ہنس دیا، ‘‘ صاحب بہت خوش دل آدمی ہے۔‘‘ اس نے کہا۔

    ’’کیوں؟‘‘

    عبداللہ ہنستا ہوا سرہلانے لگا، ’’آپ کا بھی جواب نہیں ہے۔‘‘

    پرکاش غصے میں کچھ کہنے کو ہوا مگر اپنے کو روک کر بچے کو لیے ہوئے آگے چل دیا۔ عبداللہ ڈیوڑھی میں رکا ہوا پیچھے سے سرہلاتا رہا۔ بیرا شیر محمد اندر سے نکل کر آیا، تو وہ پھر کھلکھلاکر ہنس دیا۔

    ’’کیا بات ہے؟ اکیلا کھڑا کھڑا کیسے ہنس رہا ہے؟‘‘ شیر محمد نے پوچھا۔

    ’’صاحب کا بھی جواب نہیں ہے۔‘‘ عبداللہ کسی طرح ہنسی پر قابو پاکر بولا۔

    ’’کس صاحب کا جواب نہیں ہے؟‘‘

    ’’اس صاحب کا۔‘‘ عبداللہ نے پرکاش کی طرف اشارہ کیا، ’’اس دن بولتا تھا کہ اس نے ابھی اسی سال شادی کی ہے اور آج بولتا ہے کہ یہ پانچ سال کا بابا اس کا لڑکا ہے۔ جب آیا تھا تو اکیلا تھا اور آج اس کے لڑکا بھی ہوگیا!‘‘ پرکاش نے ایک بار گھوم کر تیکھی نظر سے اس کی طرف دیکھ لیا۔ عبداللہ ایک بار پھر کھلکھلا اٹھا، ’’ایسا خوش دل آدمی میں نے آج تک نہیں دیکھا۔‘‘

    ’’پاپا، گھاس ہری کیوں ہوتی ہے؟ لال کیوں نہیں ہوتی؟‘‘ کلب سے نکل کر پرکاش نے بچے کو ایک گھوڑاکرائے پر لے دیا تھا۔ کھلن مرگ کو جانے والی پگ ڈنڈی پر وہ خود اس کے ساتھ ساتھ پیدل چل رہا تھا۔ گھاس کے ریشمی پھیلاؤ پر کہرے کاآسمان اس طرح جھکا ہوا تھا جیسے خواہش کا جنون اسے پھر سے گھر آنے کے لیے مجبور کر رہاہو۔ بچہ پرشوق آنکھوں سے آس پاس کی پہاڑیوں کو اور بیچ سے بہہ کر جاتی ہوئی پانی کی پتلی دھار کو دیکھ رہاتھا۔ کبھی کچھ لمحوں کے لیے وہ اپنے کو بھولارہتا، پھر کسی انجانے جذبے کے اثر سے کاٹھی پر اچھلنے لگتا۔

    ’’ہرچیز کااپنا رنگ ہوتا ہے۔‘‘ پرکاش نے بچے کی ایک جانگھ کو ہاتھ سے دباتے ہوئے کہااور کچھ دیر کے لیے خود بھی ہریالی کے پھیلاؤ میں کھویا رہا۔

    ’’ہرچیز کا اپنا رنگ کیوں ہوتا ہے؟‘‘

    ’’یہ قدرت کی بات ہے۔ بیٹے، قدرت نے ہر چیز کا اپنا رنگ بنادیا ہے۔‘‘

    ’’قدرت کیا ہوتی ہے؟‘‘

    پرکاش نے جھک کر اس کی جانگھ کو چوم لیا، ’’قدرت یہ ہوتی ہے۔۔۔‘‘ اس نے ہنس کر کہا۔ جانگھ پر گدگدی ہونے سے بچہ بھی ہنسنے لگا۔

    ’’تم جھوٹ بولتے ہو۔‘‘ اس نے کہا۔

    ’’کیوں؟‘‘

    ’’تم کو اس کا پتا ہی نہیں ہے۔‘‘

    ’’اچھا، مجھے پتا نہیں ہے تو تو بتا گھاس کا رنگ ہراکیوں ہوتا ہے؟‘‘

    ’’گھاس مٹی کے اندر سے پیدا ہوتی ہے، اس لیے اس کارنگ ہراہوتا ہے۔‘‘

    ’’اچھا؟ تم کو اس کا پتا چل گیا؟‘‘

    بچہ اچھلتا ہوا لگام کو جھٹکنے لگا، ’’میرے کو ممی نے بتایا تھا۔‘‘

    پرکاش کے ہونٹوں پر ادھوری سی مسکراہٹ آگئی، جسے اس نے کسی طرح دبالیا۔ اسے لگاجیسے آج بھی اس کے اور بینا کے بیچ میں معرکہ چل رہاہو اور بینا اس معرکے میں اس پر بھاری پڑنے کی کوشش کر رہی ہو۔ ’’تیری ممی نے تجھے اور کیا کیا بتارکھا ہے؟‘‘ وہ بچے کو تھپتھپاکر بولا، ’’یہ بھی بتا رکھا ہے کہ آدمی کے دو ٹانگیں کیوں ہوتی ہیں اور چار کیوں نہیں؟‘‘

    ’’ہاں، ممی کہتی تھی کہ آدمی کے دوٹانگیں اس لیے ہوتی ہیں کہ وہ آدھا زمین پر چلتا ہے اور آدھاآسمان میں۔‘‘

    ’’اچھا؟‘‘ پرکاش کے ہونٹوں پر ہنسی اور دل میں اداسی کی لکیر پھیل گئی، ’’مجھے اس کا پتا نہیں تھا۔‘‘ اس نے کہا۔

    ’’تم کو تو کچھ بھی پتا نہیں ہے پاپا!‘‘ بچہ بولا، ’’اتنے بڑے ہوکر بھی پتا نہیں ہے!‘‘

    گھاس، برف اور آسمان کے رنگ دن میں کئی کئی بار بدل جاتے تھے۔ بدلتے ہوئے رنگوں کے ساتھ دل بھی اور سے اور ہونے لگتا تھا۔ صبح اٹھتے ہی پرکاش بچے کے آنے کا انتظار کرنے لگتا۔ بار بار وہ بالکنی پر چلاجاتا اور ٹورسٹ ہوٹل کی طرف آنکھیں کیے دیر دیر تک کھڑا رہتا۔ ناشتہ کرنے یا کھانا کھانے کے لیے بھی وہ وہاں سے نہیں ہٹنا چاہتا تھا۔ اسے ڈر لگتا تھا کہ بچہ اس بیچ آکر لوٹ نہ جائے۔ تین دن میں اسے ساتھ لیے ہوئے وہ کتنی ہی بار گھومنے کے لیے گیا تھا، اس کے گھوڑے کے پیچھے پیچھے دوڑا تھا اور اس کے ساتھ گھاس پر لوٹتا رہا تھا۔ کبھی ایک دوست کی طرح وہ اس کے ساتھ کھلکھلاکر ہنستا، کبھی ایک نوکر کی طرح اس کے ہر حکم کی تعمیل کرتا۔ بچہ جان بوجھ کر راستے کے کیچڑ میں اپنے پاؤں لت پت کرلیتا اور پھر ہونٹ بسور کر کہتا، ’’پاپا، پاؤں دھودو۔‘‘ وہ اسے اٹھاے ہوئے اِدھر اُدھر پانی ڈھونڈتا پھرتا۔ بچے کو وہ جس زاویے سے بھی دیکھتا، اسی زاویے سے اس کی تصویر لے لینا چاہتا۔

    جب بچہ تھک جاتا اور لوٹ کر اپنی ممی کے پاس جانے کی ہٹ کرنے لگتا تو وہ اسے طرح طرح کے لالچ دے کر اپنے پاس روک رکھنا چاہتا۔ ایک بار اس نے بچے کو اپنی ماں کے ساتھ دور سے آتے دیکھا تھا اور اسے ساتھ لانے کے لیے اتر کر نیچے چلا گیا تھا۔ جب وہ پاس پہنچا تو بچہ دوڑ کر اس کی طرف آنے کی بجائے ماں کے ساتھ فوٹو گرافر کی دکان کے اندر چلا گیا۔ وہ کچھ دیر سڑک پر رکا رہا، پھر یہ سوچ کر اوپر چلا آیا کہ فوٹو گرافر کی دکان سے فارغ ہوکر بچہ اپنے آپ اوپر آجائے گا۔ مگر بالکنی پرکھڑے کھڑے اس نے دیکھا کہ بچہ دکان سے نکل کر اس طرف آنے کی بجائے ہٹ کے ساتھ اپنی ماں کاہاتھ کھینچتا ہوا اسے واپس ٹورسٹ ہوٹل کی طرف لے چلا۔ اس کا من ہوا کہ دوڑ کرجائے اور بچے کواپنے ساتھ لے آئے مگر کوئی چیز اس کے پیروں کو جکڑے رہی اور وہ چپ چاپ وہیں کھڑا اسے دیکھتا رہا۔

    شام تک وہ نہ جانے کتنی بار بالکنی پر آیا اور کتنی کتنی دیر تک کھڑا رہا۔ آخر اس سے نہیں رہا گیا تو اس نے نیچے جاکر کچھ چیری خریدی اور بچے کو دینے کے بہانے ٹورسٹ ہوٹل کی طرف چل دیا۔ ابھی وہ ٹورسٹ ہوٹل سے کچھ ہی دور تھا کہ بچہ اپنی ماں کے ساتھ باہرآتا دکھائی دیامگر اس پر نظر پڑتے ہی وہ واپس ہوٹل کی گیلری میں بھاگ گیا۔

    پرکاش جہاں تھا وہیں کھڑا رہا۔ اس سمے پہلی بار اس کی آنکھیں بینا سے ملیں۔ اسے محسوس ہوا کہ بینا کا چہرہ پہلے سے کہیں سانولا ہوگیا ہے اور اس کی آنکھوں کے نیچے سیاہ دائرے سے ابھر آئے ہیں۔ وہ پہلے سے کافی دبلی بھی لگ رہی تھی۔ کچھ لمحے رکے رہنے کے بعد پرکاش آگے چلا گیا اور چیری والا لفافہ بینا کی طرف کراس نے خشک گلے سے کہا، ’’یہ میں بچے کے لیے لایا تھا۔‘‘

    بینا نے لفافہ لے لیا مگرساتھ ہی اس کی آنکھیں دوسری طرف ہٹ گئیں۔ ’’پلاش!‘‘ اس نے کچھ روکھی آواز میں بچے کو پکار کر کہا، یہ لے، تیرے پاپا تیرے لیے چیری لائے ہیں۔‘‘

    ’’میں نہیں لیتا!‘‘ بچے نے گیلری سے کہا اور بھاگ کر اور بھی دور چلا گیا۔ بینانے ایک بے بس نظر بچے پر ڈالی اور پھر پرکاش کی طرف دیکھ کر بولی، ’’کہتا ہے میں پاپا سے نہیں بولوں گا۔ وہ صبح رکے کیوں نہیں، چلے کیوں گئے تھے۔‘‘ پرکاش بینا کو جواب نہ دے کر گیلری میں چلا گیا اور کچھ دور تک بچے کا پیچھا کرکے اسے بانہوں میں اٹھالایا۔ ’’میں تم سے نہیں بولوں گا، کبھی نہیں بولوں گا!‘‘ بچہ چھڑانے کی کوشش کرتا ہوا کہتارہا۔

    ’’کیوں، ایسی کیا بات ہے؟‘‘ پرکاش اسے پچکارنے کی کوشش کرنے لگا، ’’پاپا سے بھی اس طرح ناراض ہوتے ہیں کیا؟‘‘

    ’’تم نے میری تصویریں کیوں نہیں دیکھیں؟‘‘

    ’’کہاں تھیں تیری تصویریں؟ مجھے تو پتا ہی نہیں تھا۔‘‘

    ’’پتا کیوں نہیں تھا؟ تم دکان کے باہر سے ہی کیوں چلے گئے تھے؟‘‘

    ’’اچھا لا، پہلے تیری تصویریں دیکھیں، پھر گھومنے چلیں گے۔‘‘

    ’’یہ صبح آپ کو دکھانے کے لیے ہی تصویریں لینے گیا تھا۔۔۔‘‘ بینا کے ساتھ کھڑی لڑکی نے کہا۔ پرکاش اس بات کو بھول ہی گیا تھا کہ ان دونوں کے ساتھ کوئی اور بھی ہے۔

    ’’تصویریں میرے پاس تھوڑے ہی ہیں۔ اس کے پاس ہیں۔‘‘

    ’’صبح فوٹوگرافر نے نگیٹیو ہی دکھائے تھے، پازیٹو وہ اب اس وقت دے گا۔‘‘ اس لڑکی نے پھر کہا۔

    ’’تو چل، پہلے دکان پر چل کر تیری تصویریں لے لیں۔ ہاں، دیکھیں تو سہی کیسی تصویریں ہیں!‘‘ کہہ کر پرکاش فوٹو گرافر کی دکان کی طرف چلنے لگا۔

    ’’میں ممی کو ساتھ لے کر جاؤں گا۔‘‘ بچے نے اس کی بانہوں میں مچلتے ہوئے کہا۔

    ’’ہاں ہاں، تیری ممی بھی ساتھ آرہی ہیں۔‘‘ پرکاش نے ایک بار بے اختیار سی نظر سے پیچھے کی طرف دیکھ لیا اور جیسے کسی نادیدہ شخص سے کہا، ’’دیکھیے، آپ بھی ساتھ آجائیے، نہیں تو یہ رونے لگے لگا۔‘‘

    بینا ہونٹ دانتوں میں دبائے ہوئے، کچھ لمحے آنکھیں جھپکتی رہی، پھر چپ چاپ ساتھ چل دی۔ فوٹو گرافر کی دکان میں داخل ہوتے ہی بچہ پرکاش کی بانہوں سے اتر آیا اور حکم کے لہجے میں فوٹوگرافر سے بولا، ’’میرے پاپا کو میری تصویر دکھاؤ۔‘‘ اس کے لہجے سے کچھ ایسا بھی لگتا تھا جیسے وہ اپنے پر لگائے گئے کسی الزام کاجواب دے رہا ہو۔ فوٹو گرافر نے تصویریں نکال کر میز پر پھیلادیں تو بچہ ان میں سے ایک ایک تصویر چن کر پرکاش کو دکھانے لگا، ’’دیکھو پاپا، یہ وہیں کی تصویر ہے نا جہاں سے تم نے کہاتھا کہ سارا کشمیر نظر آتا ہے۔۔۔؟ اور یہ تصویر بھی دیکھو پاپا، جو تم نے میرے گھوڑے پر اتاری تھی۔۔۔‘‘

    ’’دودن سے بالکل صاف بولنے لگا ہے۔‘‘ بینا کی سہیلی نے دھیرے سے کہا، ’’کہتا ہے پاپا نے کہا ہے کہ تو بڑاہوگیا ہے، اس لیے اب تتلاکر نہ بولاکر۔‘‘

    پرکاش کچھ نہ کہہ کر تصویریں دیکھتا رہا۔ پھر جیسے کچھ یاد آنے پر اس نے دس روپے کا ایک نوٹ نکال کر فوٹو گرافر کو دیتے ہوئے کہا، ’’اس میں سے آپ اپنے پیسے کاٹ لیجیے۔‘‘

    فوٹو گرافر پل بھر الجھن میں اسے دیکھتا رہا۔ پھر بولا، ’’دیکھیے، پیسے تو ابھی آپ ہی کے میری طرف نکلتے ہیں۔ میم صاحب نے جو بیس روپے پرسوں دیے تھے، ان میں سے دو ایک روپے ابھی بچے ہوں گے۔ کہیں تو حساب کردوں؟‘‘

    ’’نہیں، رہنے دیجیے، حساب پھر ہوجائے گا۔‘‘ کہہ کر پرکاش نے نوٹ واپس جیب میں رکھ لیا اور بچے کی انگلی پکڑے ہوئے دکان سے باہر نکل آیا۔ کچھ قدم چلنے پر اسے پیچھے سے بینا کا فقرہ سنائی دیا، ’’یہ آپ کے ساتھ گھومنے جارہا ہے کیا؟‘‘

    ’’ہاں!‘‘ پرکاش نے چونک کر پیچھے دیکھ لیا، ’’میں ابھی تھوڑی دیر میں اسے واپس چھوڑ جاؤں گا۔‘‘

    ’’دیکھیے، آپ سے ایک بات کہنی تھی۔۔۔‘‘

    ’’کہیے۔۔۔‘‘

    بینا پل بھر سوچتی ہوئی چپ رہی۔ پھر بولی، ’’اسے ایسی کوئی بات نہ بتائیے گا جس سے یہ۔۔۔‘‘ پرکاش کو لگاجیسے کوئی چیز اس کے اعصاب کو چیرتی چلی گئی ہو۔ اس کی آنکھیں جھک گئیں اور اس نے دھیرے سے کہا، ’’نہیں، میں ایسی کوئی بات اس سے نہیں کہوں گا۔‘‘ اسے ملال ہونے لگا کہ ایک دن پہلے جب بچہ ہٹ کرکے کہہ رہاتھا کہ ’’پاپا‘‘ اور ’’پتاجی‘‘ ایک ہی شخص کو نہیں کہتے۔ ’’پاپا‘‘ پاپا کو کہتے ہیں اور ’’پتاجی‘‘ ممی کے پاپا کو کہتے ہیں۔۔۔ تو وہ کیوں اس کی غلط فہمی دور کرنے کا جتن کرتا رہا تھا؟

    وہ بچے کے ساتھ اکیلا کلب کی سڑک پر چلنے لگا تو کچھ دور جاکر بچہ اچانک رک گیا، ’’ہم کہاں جا رہے ہیں پاپا؟‘‘ اس نے پوچھا۔

    ’’پہلے کلب چل رہے ہیں۔‘‘ پرکاش نے کہا، ’’وہاں سے گھوڑا لے کر آگے گھومنے جائیں گے۔‘‘

    ’’نہیں، میں وہاں اس آدمی کے پاس نہیں جاؤں گا۔‘‘ کہہ کر بچہ اچانک پیچھے کی طرف چل دیا۔

    ’’کس آدمی کے پاس؟‘‘

    ’’وہ جو وہاں پر کلب میں تھا۔ میں اس کے ہاتھ سے پانی بھی نہیں پیوں گا۔‘‘

    ’’کیوں؟‘‘

    ’’مجھے وہ آدمی اچھا نہیں لگتا۔‘‘

    پرکاش پل بھر بچے کے چہرے کو دیکھتا رہا، پھر وہ بھی واپس چل دیا۔ ’’ہاں، ہم اس آدمی کے پاس نہیں چلیں گے۔‘‘ اس نے کہا۔ ’’مجھے بھی وہ آدمی اچھا نہیں لگتا۔‘‘

    بہت دنوں کے بعد اس رات پرکاش کو گہری نیند آئی تھی۔ ایک ایسی غافل نیند جس میں خواب، بدخوابی، کچھ نہ ہو، اس کے لیے لگ بھگ بھولی ہوئی چیز ہوچکی تھی۔ پھر بھی جاگنے پر اسے اپنے اندر تازگی کا احساس نہیں ہوا۔۔۔ احساس ہوا ایک خالی پن کا ہی۔ جیسے کہ کوئی چیز اس کے اندر ابلتی رہی ہو، جو گہری نیند سولینے سے ختم ہوگئی ہو۔ روز کی طرح اٹھ کر وہ بالکنی پر گیا۔ دیکھا آسمان صاف ہے۔ رات کو سویا تھا تو بارش ہو رہی تھی لیکن اس دھلے نکھرے ہوئے آسمان کو دیکھ کر شبہ تک نہیں ہوتا تھا کہ کبھی وہاں بادلوں کاوجود بھی تھا۔ سامنے کی پہاڑیاں صبح کی دھوپ میں نہاکر بہت اجلی ہواٹھی تھیں۔ پرکاش کچھ دیر وہاں کھڑا رہا۔ خاموش اور خالی ذہن۔ پھر اچانک دور کے گوشے میں اٹھتے ہوئے بادل کی طرح اسے کوئی چیز اپنے میں امنڈتی ہوئی ظاہر ہوئی اور اس کا من ایک انجانے خدشے سے کانپ گیا۔ تو کیا۔۔۔؟

    وہ بالکنی سے ہٹ آیا۔ پچھلی شام کو بچے نے بتایا تھا کہ اس کی ممی کہہ رہی ہے کہ دن صاف ہوا تو صبح وہ لوگ وہاں سے چلے جائیں گے۔ رات کو جس طرح بارش ہو رہی تھی، اس سے صبح تک آکاش کے صاف ہونے کی کوئی امید نہیں لگتی تھی، اس لیے سونے کے وقت اس کا ذہن اس طرف سے لگ بھگ مطمئن تھا۔ لیکن رات رات میں آسمان کا منظر بالکل بدل گیا تھا۔ تو کیا سچ مچ آج ہی ان لوگوں کو وہاں سے چلے جانا تھا؟

    اس نے کمرے کے بکھرے ہوئے سامان کو دیکھا۔ دوچار انی گنی چیزیں ہی تھیں۔ چاہا کہ انہیں سنبھال دے مگر کسی چیز کو رکھنے اٹھانے کو من نہیں ہوا۔ بستر کو دیکھا جس پر روز سے بہت کم سلوٹیں پڑی تھیں۔ لگا جیسے رات کی گہری نیند کے لیے وہ بستر ہی قصوروار ہو اور گہری نیند ہی برستے ہوئے آسمان کے صاف ہوجانے کے لیے! اس نے بستر کی چادر کو ہلادیا کہ اس میں اور سلوٹیں پڑجائیں مگر اس سے چادر میں جو دو ایک سلوٹیں تھیں، وہ بھی نکل گئیں۔ وہ پھر سے ایک نیند لینے کے ارادے سے بستر پر لیٹ گیا۔

    جسم میں تکان بالکل نہیں تھی، اس لیے نیندنہیں آئی۔ کچھ دیر کروٹیں لینے کے بعد وہ نہانے دھونے کے لیے اٹھ گیا۔ لڑکھڑاتے قدموں سے صبح دوپہر کی طرف بڑھنے لگی تو اس کے من کو کچھ سہارا ملنے لگا۔ وہ چاہنے لگا کہ اسی طرح شام ہوجائے اور پھر رات۔۔۔ اور بچہ اس سے وداع لینے کے لیے نہ آئے۔ لیکن اسی طرح جب دوپہر بھی ڈھلنے کو آگئی اور بچہ نہیں آیا تو اس کے من میں دھیرے دھیرے ایک اور ہی تشویش سر اٹھانے لگی۔ وہ سوچنے لگا کہ دن صاف ہونے سے اس کی ممی کہیں صبح صبح ہی تو اسے لے کر وہاں سے نہیں چلی گئی؟

    وہ بار بار بالکنی پر آتا، ایک دھڑکتی ہوئی امید اور تشویش لیے ہوئے بار بار ٹورسٹ ہوٹل کی طرف جانے والے راستے پر نظرڈالتا اور ایک غیریقینی سی کیفیت لیے ہوئے کمرے میں لوٹ آتا۔ اس کی رگوں میں لہو کاہر قطرہ، دماغ میں خیال کا ہر نقطہ، اضطراب سے بے کل تھا۔ اس نے کچھ کھایا نہیں تھا، اس لیے بھوک بھی اسے پریشان کر رہی تھی۔ کچھ دیر بعد کمرہ بند کرکے وہ کھانا کھانے چلا گیا۔ موٹے موٹے لقمے نگل کر اس نے کسی طرح دوروٹیاں گلے سے اتاریں اور فوراً واپس چل پڑا۔ کچھ لمحوں کے لیے بھی کمرے سے باہر اور بالکنی سے دور رہنا اسے ایک جرم کی طرح لگ رہا تھا۔ لوٹتے ہوئے اس نے سوچا کہ اسے خود ٹورسٹ ہوٹل میں جاکر پتا کرلینا چاہیے کہ وہ لوگ وہیں ہیں یا چلے گئے ہیں۔ مگر سڑک کی چڑھائی چڑھتے ہوئے اس نے دور سے ہی د یکھا۔۔۔ بینا بچے کے ساتھ اس کی بالکنی کے نیچے کھڑی تھی۔ وہ ہانپتا ہوا تیز تیز چلنے لگا۔

    وہ پاس جاپہنچا تو بھی بچے نے اس کی طرف نہیں دیکھا۔ وہ اپنی ماں کا ہاتھ کھینچتا ہوا کسی بات کے لیے ہٹ کر رہا تھا۔ پرکاش نے اس کی بانہہ کو ہاتھ میں لے لیا تو وہ اس سے بانہہ چھڑانے کا جتن کرنے لگا۔ ’’میں تمہارے گھر نہیں جاؤں گا!‘‘ اس نے لگ بھگ چیخ کر کہا۔ پرکاش ہڑبڑاگیا اور مورکھ سا اس کی طرف دیکھتا رہا۔

    ’’کیوں، تو مجھ سے ناراض ہے کیا؟‘‘ اس نے پوچھا۔

    ’’ممی میرے ساتھ کیوں نہیں چلتی؟‘‘ بچہ پھر اسی طرح چلایا۔

    پرکاش اور بینا کی آنکھیں ایک دوسرے کی طرف اٹھنے کو ہوئیں، مگر پوری طرح نہیں اٹھ پائیں۔ پرکاش نے بچے کی بانہہ پھر تھام لی اور بینا سے کہا، ’’آپ بھی ساتھ آجائیے نا!‘‘

    ’’اسے آج جانے کیا ہوا ہے!‘‘ بینا جھنجھلاہٹ کے ساتھ بولی، ’’صبح سے ہی تنگ کر رہا ہے۔‘‘

    ’’اس وقت یہ آپ کے بغیر اوپر نہیں جائے گا۔‘‘ پرکاش نے کہا، ’’آپ ساتھ آکیوں نہیں جاتیں؟‘‘

    ’’چل، میں تجھے زینے تک پہنچادیتی ہوں۔‘‘ بینا اسے جواب نہ دے کر بچے سے بولی، ’’ادھر سے جلدی ہی لوٹ آنا۔ گھوڑے والے کتنی دیر سے تیار کھڑے ہیں۔‘‘

    پرکاش کو اپنے اندر ایک نشتر ساچبھتا محسوس ہوا مگر جلد ہی اس نے اپنے کو سنبھال لیا۔ ’’آپ لوگ آج ہی جارہے ہیں کیا؟‘‘ وہ کسی طرح مشکل سے پوچھ سکا۔

    ’’جی ہاں۔‘‘ بینادوسری طرف دیکھتی رہی، ’’جانا تو صبح صبح ہی تھا مگر اس کی ضد کی وجہ سے اتنی دیر ہوگئی ہے۔ اب بھی یہ۔۔۔‘‘ اور وہ بات بیچ میں ہی چھوڑ کر اس نے بچے سے پھر کہا، ’’تو چل تجھے زینے تک پہنچادوں۔‘‘

    بچہ پرکاش کے ہاتھ سے بانہہ چھڑاکر کچھ دور بھاگ گیا، ’’میں نہیں جاؤں گا۔‘‘ اس نے کہا۔

    ’’اچھا، آجا، ‘‘ بینا بولی، ’’میں تجھے زینے کے اوپر تک چھوڑ آؤں گی۔ اس دن کی طرح۔‘‘

    ’’میں نہیں جاؤں گا!‘‘ اور بچہ کچھ قدم اور بھی دور چلا گیا۔

    ’’آپ ساتھ آکیوں نہیں جاتیں؟ یہ اس طرح اپنی ضد نہیں چھوڑے گا۔‘‘ پرکاش نے کہا۔

    بینا نے آدھے پل کے لیے اس کی طرف دیکھا۔ اس نگاہ میں غصے کے علاوہ نہ جانے کیا کیا تھا۔ لیکن آدھے پل میں ہی وہ انداز دھل گیا اور بینا نے اپنے آپ کو سنبھال لیا۔ اس کے چہرے پر ایک طرح کی سختی آگئی اور اس نے بچے کے پاس جاکر اسے اٹھالیا، ’’توچل، میں تیرے ساتھ چلتی ہوں۔‘‘ اس نے کہا۔

    بچے کا روہانساانداز ایک لمحے میں ہی بدل گیا اور اس نے ہنستے ہوئے اپنی ماں کے گلے میں بانہیں ڈال دیں۔ پرکاش نے دھیرے سے کہا، ’’آئیے۔‘‘ اور ان دونوں کے آگے آگے چلنے لگا۔ اوپر کمرے میں پہنچ کر بینا نے بچے کو نیچے اتاردیا اور کہا، ’’لے، اب میں جارہی ہوں۔‘‘

    ’’نہیں۔‘‘ بچے نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا، ’’تم بھی یہاں بیٹھو۔‘‘

    ’’بیٹھیے۔‘‘ پرکاش نے کرسی پر پڑی ہوئی دوایک چیزیں جلدی سے اٹھادیں اور کرسی بینا کی طرف بڑھادی۔ بینا کرسی پر نہ بیٹھ کر چارپائی کے کونے پر بیٹھ گئی۔ بچے کا دھیان اچانک نہ جانے کس چیز نے کھینچ لیا۔ وہ ان دونوں کو چھوڑ کر بالکنی میں بھاگ گیا اور وہاں سے اچک کر سڑک کی طرف دیکھنے لگا۔ پرکاش کرسی کی پیٹھ پر ہاتھ رکھے جیسے کھڑا تھا ویسے ہی کھڑا رہا۔ بینا چارپائی کے کونے پر اور بھی سمٹ کر دیوار کی طرف دیکھنے لگی۔ اچانک بے خبری کے ایک لمحے میں ان کی آنکھیں مل گئیں تو بینا نے جیسے پوری ہمت جمع کرکے کہا، ’’کل اس کی جیب میں کچھ روپے ملے تھے۔ آپ نے رکھے تھے؟‘‘

    پرکاش اچانک ایسے ہوگیا جیسے کسی نے اسے پکڑ کر جھنجھوڑ دیا ہو، ’’ہاں!‘‘ اس نے لڑکھڑاتے ہوئے لہجے میں کہا، ’’سوچا تھا کہ ان سے یہ کوئی چیز۔۔۔ کوئی چیز بنوالے گا۔‘‘

    بینا پل بھر چپ رہی۔ پھر بولی، ’’کیا چیز بنوانی ہوگی؟‘‘

    ’’کوئی بھی چیز بنوادیجیے گا۔ کوئی اچھا اوور کوٹ یا۔۔۔‘‘

    کچھ دیر پھر خاموشی رہی۔ پھر بینا بولی، ’’کیسا کوٹ بنوانا ہوگا؟‘‘

    ’’کیسا بھی بنوادیجیے گا۔ جیسا اسے اچھا لگے یا۔۔۔ یاجیسا آپ ٹھیک سمجھیں۔‘‘

    ’’کوئی خاص کپڑا لینا ہو تو بتادیجیے۔‘‘

    ’’نہیں، خاص کوئی نہیں۔ کیسا بھی لے لیجیے گا۔‘‘

    ’’کوئی خاص رنگ؟‘‘

    ’’نہیں۔۔۔ ہاں۔۔۔ اگر نیلے رنگ کاہو تو زیادہ اچھا رہے گا۔‘‘

    بچہ اچھلتا ہوا بالکنی سے لوٹ آیا اور بینا کا ہاتھ پکڑ کر بولا، ’’اب چلو۔‘‘

    ’’پاپا سے تونے پیار تو کیا ہی نہیں اور آتے ہی چل بھی دیا؟‘‘ پرکاش نے اسے بانہوں میں لے لیا۔ بچے نے اس کے ہونٹوں سے ہونٹ ملاکر ایک بار اچھی طرح اسے چوم لیا اور پھر جھٹ سے اس کی بانہوں سے اتر کر ماں سے بولا، ’’اب چلو۔‘‘

    بینا چارپائی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ بچہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے باہر کی طرف کھینچنے لگا، ’’تلونا ممی، دیل ہو لہی ہے۔‘‘ وہ پھر تتلانے لگا اور بیناکو ساتھ لیے ہوئے دہلیز پار کرگیا۔

    ’’توجاکر پاپا کو چٹھی لکھے گانا؟‘‘ پرکاش نے پیچھے سے پوچھا۔

    ’’لتھوں دا۔‘‘ مگر اس نے پیچھے مڑکر نہیں دیکھا۔ پیچھے مڑ کر دیکھا ایک بار بینا نے، اور جلدی سے آنکھیں ہٹالیں۔ اس کی آنکھوں کے گوشوں میں اٹکے ہوئے آنسو اس کے گالوں پربہہ آئے تھے۔ ’’تونے پاپا کوٹاٹا نہیں کیا۔‘‘ اس نے بچے کے کندھے پر ہاتھ رکھے ہوئے کہا۔ آنکھوں کی طرح اس کالہجہ بھی بھیگا ہواتھا۔

    ’’ٹاٹا، پاپا!‘‘ بچے نے بغیر پیچھے کی طرف دیکھے ہاتھ ہلادیا اور زینے سے اترنے لگا۔ آدھے زینے سے پھر اس کی آواز سنائی دی، ’’پاپا کا گھل اچھا نہیں ہے ممی، ہمالے والاگھل اچھا ہے۔ پاپا کے گھل میں تو کچھ بھی چھامان ہی نہیں ہے۔۔۔‘‘

    ’’تو چپ کرے گا کہ نہیں؟‘‘ بینا نے اسے جھڑک دیا، ’’جو منھ میں آتا ہے بولتا جاتاہے۔‘‘

    ’’نہیں تپ کلوں گا، نہیں کلوں گا تپ۔۔۔!‘‘ بچے کا لہجہ پھر روہانسا ہوگیا اور وہ تیز تیز قدموں سے نیچے اترنے لگا، ’’پاپا کا گھل گندا! پاپا کا گھل تھو۔۔۔!‘‘

    رات ہوتے ہوئے آسمان پھر گھر آیا۔ پرکاش کلب کے بار روم میں بیٹھا ایک کے بعد ایک بیئر کی بوتلیں خالی کرتا رہا۔ بار میں عبداللہ لوگوں کے لیے رم اور وسکی کے پیگ ڈالتا ہوا بار بار کن انکھیوں سے اس کی طرف دیکھ لیتا تھا۔ اتنے دنوں میں پہلی بار وہ پرکاش کو اس طرح پیتے دیکھ رہا تھا۔ ’’آج لگتا ہے اس صاحب نے کہیں سے بہت مال مارا ہے۔‘‘ اس نے ایک بار دھیمے لہجے میں شیر محمد سے کہا، ’’آگے کبھی ایک بوتل سے زیادہ نہیں پیتا اور آج چار چار بوتلیں پی کر بھی بس کرنے کا نام نہیں لے رہا۔‘‘ شیر محمد نے صرف منھ پچکادیا اور اپنے کام میں لگارہا۔

    پرکاش کی آنکھیں عبداللہ سے ملیں تو عبداللہ مسکرادیا۔ پرکاش کچھ لمحے اس طرح اسے دیکھتا رہا جیسے وہ انسان نہ ہو، ایک دھندلا سا سایہ ہو، اور اپنے سامنے کاگلاس پرے سرکاکر اٹھ کھڑا ہوا۔ کاؤنٹر کے پاس جاکر اس نے دس دس کے دونوٹ نکال کر عبداللہ کے سامنے رکھ دیے۔ عبداللہ باقی پیسے گنتا ہوا خوشامدی لہجے میں بولا، ’’آج صاحب بہت خوش نظر آتا ہے۔‘‘

    ’’اچھا؟‘‘ پرکاش اس طرح اسے دیکھتا رہا جیسے اس کے دیکھتے دیکھتے وہ سایہ دھندلا ہوکر بادلوں میں گم ہوتاجارہا ہو۔ جب وہ چلنے کو ہوا تو عبداللہ نے پہلے سلام کیا اور پھر پوچھ لیا، ’’کیوں صاحب، وہ کون تھا اس دن آپ کے ساتھ؟ کس کا لڑکا تھا وہ؟‘‘ پرکاش کو لگا جیسے وہ سایہ بالکل گم ہوگیا ہو اور اس کے سامنے صرف بادل ہی بادل گھرا رہ گیا ہو۔ اس نے جیسے دور بادل کے گربھ میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا، ’’کون لڑکا؟‘‘

    عبداللہ پل بھر کے لیے بھونچکا سا ہو رہا، پھر اچانک کھلکھلاکر ہنس دیا، ’’تب تو میں نے شیر محمد سے ٹھیک ہی کہا تھا۔۔۔‘‘ وہ بولا۔

    ’’کیا کہا تھا؟‘‘

    ’’کہ ہمارا صاحب طبیعت کابادشاہ ہے۔ جب چاہے جس لڑکے کواپنا لڑکا بنالے اور جب چاہے۔۔۔ یہاں گلمرگ میں تو یہ سب چلتا ہے! آپ جیسا ہی ہمارا ایک اور صاحب ہے۔۔۔‘‘

    پرکاش کو لگاکہ بادل بیچ سے پھٹ گیا ہے اور چیلوں کی کئی ایک قطاریں درّے میں سے ہوکر دور دور اڑی جارہی ہیں۔ وہ چاہ رہاہے کہ درہ کسی طرح بھر جائے، جس سے وہ قطاریں آنکھوں سے اوجھل ہوجائیں، مگر درے کا دہانہ اور بڑا ہوتا جارہا ہے۔ اس کے گلے سے ایک مبہم سی آواز نکل پڑی اور وہ عبداللہ کی طرف سے آنکھ ہٹاکر چپ چاپ وہاں سے چل دیا۔

    ’’بس ایک بازی اور۔۔۔!‘‘ اپنی آواز کی گونج پرکاش کو خود بہت بناوٹی لگی۔ اس کے ساتھیوں نے ہلکا سا اختلاف کیا مگر پتے ایک بار پھر بٹنے لگے۔ کارڈ روم تب تک لگ بھگ خالی ہوچکا تھا۔ کچھ دیر پہلے تک وہاں کافی چہل پہل تھی۔۔۔ نازک ہاتھوں سے پتوں کی نازک چالیں چلی جارہی تھیں او رشیشے کے نازک گلاس رکھے اور اٹھائے جارہے تھے۔ مگر اب آس پاس چار چارکرسیوں سے گھری ہوئی چوکور میزیں بہت اکیلی اور اداس لگ رہی تھیں۔ پالش کی چمک کے باوجود ان میں ایک ویرانی آگئی تھی۔ سامنے کی دیوار میں بخاری کی آگ بھی کب کی ٹھنڈی پڑچکی تھی۔ جالی کے اس طرف کچھ بجھے ادھ بجھے انگارے ہی رہ گئے تھے۔۔۔ سردی سے ٹھٹھر کر سیاہ پڑتے اور راکھ میں گم ہوتے ہوئے۔

    اس نے پتے اٹھالیے۔ ہر بار کی طرح اس بار بھی سب بے میل پتے تھے۔ ایسی بازی کہ آدمی پھینک کر الگ ہوجائے۔ مگر اس کے اصرار سے پتے بٹے تھے، اس لیے وہ انہیں پھینک نہیں سکتا تھا۔ اس نے نیچے سے پتا اٹھایا، تو وہ اور بھی بے میل تھا۔ ہاتھ سے کوئی بھی پتا چل کر وہ ان پتوں کامیل بٹھانے کا جتن کرنے لگا۔

    باہر موسلادھار بارش ہو رہی تھی۔۔۔ پچھلی رات جیسی ہوئی تھی، اس سے بھی تیز۔ کھڑکی کے شیشوں سے ٹکراتی ہوئی بوندیں بار بار ایک ترنگ لیے ہوئے آتی رہیں۔ لیکن ہر بار اچانک بے بس ہوکر نیچے کو ڈھلک جاتی تھیں۔ ان بہتی ہوئی دھاروں کو دیکھ کر لگتا تھا جیسے کئی ایک چہرے کھڑکی کے ساتھ چپک کر اندر جھانک رہے ہوں اور لگاتار رو رہے ہوں۔ کسی لمحے ہوا سے کواڑ کھل جاتے تھے تو وہ چہرے جیسے ہچکیاں لینے لگتے تھے۔ ہچکیاں بند ہونے پر وہ غصے سے گھورنے لگتے۔ ان چہروں کے پیچھے اندھیرا تڑپتا ہوا دم توڑ رہاتھا۔

    ’’ڈکلیئر!‘‘ پرکاش چونک گیا۔ اس کے ہاتھ میں پتے ابھی اسی طرح تھے۔ اس بار بھی اسے فل ہینڈ ہی دینا تھا۔ پتے پھینک کر اس نے پیچھے ٹیک لگالی اور پھر کھڑکی سے چپکے ہوئے چہروں کو دیکھنے لگا۔

    ’’تم بہت ہی خوش قسمت ہو پرکاش سچ مچ۔ ہم میں سب سے خوش قسمت آدمی تمہیں ہو۔۔۔‘‘ پرکاش کی آنکھیں کھڑکی سے ہٹ آئیں۔ پتے اٹھاکر رکھ دیے گئے تھے اور میز پر ہار جیت کا حساب کیا جارہاتھا۔ حساب کرنے والا شخص ہی اس سے کہہ رہاتھا، ’’کہتے ہیں نا کہ جو پتوں میں بدقسمت ہو، وہ زندگی میں خوش قسمت ہوتا ہے۔ اب دیکھ لو، سب سے زیادہ تمہیں ہارے ہو، اس لیے یہ ماننا پڑے گا کہ سب سے خوش قسمت آدمی تمہیں ہو۔‘‘

    پرکاش نے اپنے نام کے آگے لکھے ہوئے جوڑ کو دیکھا۔ پل بھر کے لیے اس کی دھڑکن بڑھ گئی کہ اس کی جیب میں اتنے پیسے ہیں بھی یا نہیں۔ جیب میں ہاتھ ڈال کر اس نے پوری جیب خالی کرلی۔ لگ بھگ ہاری ہوئی رقم کے برابر ہی پیسے جیب میں تھے۔ وہ رقم ادا کردینے کے بعد دوایک چھوٹے چھوٹے سکے ہی پاس میں بچ رہے۔۔۔ اور ان کے ساتھ وہ مسلا ہوا اندرون ملک سے آیا خط جو شام کی ڈاک سے آیاتھا اور جسے جیب میں رکھ کر وہ کلب چلاآیا تھا۔ خط نرملا کا تھا جواس نے اب تک کھول کر پڑھا نہیں تھا۔ جیب میں پڑے پڑے وہ خط کافی مڑتڑگیا تھا۔ نرملا کی تحریر پر نظر پڑتے ہی نرملاکے کئی کئی جنونی چہرے اس کے سامنے آنے لگے۔ اس کے ہاتھ کالکھا ایک ایک لفظ جسے ایک ایک چہرہ تھا۔ گھر سے چلنے کے دن بھی وہ اس کے کتنے کتنے چہرے دیکھ کر آیا تھا۔ ایک چہرہ تھا جو ہنس رہا تھا، ایک تھا جو رو رہاتھا، ایک بال کھولے زور زور سے چلا رہا تھا او ردھمکیاں دے رہا تھا، اور ایک چہرہ بھوکی آنکھوں سے اس کے جسم کو نگلنا چاہ رہا تھا۔ اس نے روز کے استعمال کا کچھ سامان ساتھ لانا چاہا تھا تو ایک چہرہ اس کے ساتھ زور آزمائی کرنے پر تل گیا تھا۔

    ’’نرملا!‘‘ اس نے حیران ہوکر کہا تھا، ’’تمہیں اس طرح گتھم گتھا ہوتے شرم نہیں آتی؟‘‘

    ’’کیوں؟‘‘ نرملا ہنس دی تھی، ’’مرد اور عورت رات دن گتھم گتھا نہیں ہوتے کیا؟‘‘

    وہ بغیر ایک قمیص تک ساتھ لیے گھر سے چلا آیا تھا۔ بنیان، تولیا، کنگھا، قمیص سب کچھ اس نے آتے ہوئے راستے میں خریدا تھا۔۔۔ یہ سوچنے کے لیے وہ نہیں رکا تھا کہ اس کے پاس جو چار پانچ سو روپے کی پونجی ہے، وہ اس طرح کتنے دن چلے گی! بچھانے اوڑھنے کا سامان بھی اسے وہاں پہنچ کر ہی کرائے پر لینا پڑا تھا۔

    اور وہاں آنے کے چوتھے پانچویں روز سے ہی نرملا کے خط آنے لگے تھے۔ وہ اس کے کسی دوست کے یہاں جاکر اس کا پتا لگا آئی تھی۔ ان خطوں میں بھی نرملا کے وہ سب چہرے جوں کے توں موجود رہتے تھے۔۔۔ وہ سخت بیمار ہے اور اسپتال جارہی ہے۔۔۔ اس کے بھائی پولیس میں خبر کرنے جارہے ہیں کہ ان کا بہنوئی لاپتا ہوگیا ہے۔۔۔ وہ رات دن بے چین رہتی ہے اور دیواروں سے پوچھتی ہے کہ اس کا’چاند‘ کہاں ہے۔۔۔ وہ جوگن کا بھیس دھار کے جنگلوں میں جارہی ہے۔۔۔ دودن کے اندر اندر خط کا جواب نہ آیا تو اس کے بھائی اسے ہوائی جہاز میں بٹھاکر وہاں بھیج دیں گے۔۔۔ اس کے چھوٹے بھائی نے اسے بہت پیٹا ہے کہ وہ اپنے ’خصم‘ کے پاس کیوں نہیں جاتی۔۔۔

    اندرون ملک سے آیا خط پرکاش کی انگلیوں میں مسل گیا تھا۔ اسے پھر سے جیب میں رکھ کر وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ باہر ڈیوڑھی میں کچھ لوگ جمع تھے کہ بارش رکے تو وہاں سے جائیں۔ ان کے بیچ سے ہوکر وہ باہر نکل آیا۔

    ’’آپ اس بارش میں جارہے ہیں؟‘‘ کسی نے اس سے پوچھا۔ اس نے چپ چاپ سرہلادیا اور کچے راستے پر چلنے لگا۔ سامنے صرف نیڈوز ہوٹل کی بتیاں جگمگارہی تھیں۔ باقی سب طرف، دائیں بائیں اور اوپر نیچے، اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔ کلب کے احاطے سے نکل کر وہ سڑک پر پہنچا تو پانی اور بھی تیز ہوگیا۔

    اس کاسر پورا بھیگ گیا تھا اور پانی کی دھاریں گلے سے ہوکر کپڑوں کے اندر جارہی تھیں۔ ہاتھ پیر سن ہو رہے تھے مگر آنکھوں میں اسے ایک جلن سی محسوس ہو رہی تھی۔ کیچڑ سے لت پت پیر راستے میں آواز کرتے تو اس کے جسم میں کوئی چیز جھنجھنا اٹھتی تھی۔ اچانک ایک نئی لہر اس کے جسم میں بھر گئی۔ اسے لگا کہ وہ سڑک پر اکیلا نہیں ہے۔ کوئی اور بھی اپنے ننھے ننھے پاؤں پٹکتا ہوا اس کے ساتھ چل رہا ہے۔ راستے کی نالی پر بنا ہوا لکڑی کاچھوٹا سا پل پارکرتے ہوئے اس نے گھوم کر اس طرف دیکھا۔ اس کے ساتھ چل رہا تھاایک بھیگا ہوا کتا۔۔۔ کان جھٹکتا ہوا، خاموش اور گردن ڈالے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے