Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ایک بڑا قبرستان

پدومائی پتن

ایک بڑا قبرستان

پدومائی پتن

MORE BYپدومائی پتن

    شام پڑے پورا شہر ایسی بھیڑ بھاڑ والی شاہراہ میں تبدیل ہو جاتا ہے جہاں یا تو آپ کسی کو دھکا دے رہے ہوتے ہیں یا کوئی دوسرا آپ کو دھکیل رہا ہوتا ہے۔ اخلاق و تہذیب بس اتنے ہی رہ جاتے ہیں اور اگر آپ کسی ایسی جگہ پہنچ جائیں جہاں چارپانچ سڑکیں آکر ملتی ہوں اور اوپر سے ان کو کاٹتے ہوئے ٹرام کی گزرگاہیں انسانی جسم میں اعصاب کی طرح دوڑ رہی ہوں تو پھر تو افراتفری کی نہ پوچھئے۔ ایسا ہنگامہ نظر آئےگا کہ توبہ بھلی۔ آفس سے واپس لوٹتے لوگوں کا ہجوم، پھر رات کا لطف اٹھانے کے لیے نکلے ہوئے فیشن ایبل، خوش حال لوگ۔ وہ پیدل چلنے والے جن کے پاس اپنی کار نہیں ہے۔ پھر بدسلیقہ، پھوہڑ، کم حیثیت دکھائی دینے والے چہرے۔۔۔ ایک دوسرے کے شانہ بہ شانہ، لشٹم پشٹم چلتے ایک بے چیدہ تصویر بناتے، ایک دوسرے سے ٹکراتے اور پھر اپنے اپنے راستے لگتے نظر آتے ہیں۔

    یک طرفہ ٹریفک کا رول لاگو ہونے کے بعد سے اگر آپ کسی اونچی عمارت کی چھت پر کھڑے ہوکر نیچے نظر دوڑائیں تو آپ کو لگےگا کہ ایک پوری تہذیب رواں دواں ہے۔ ایسے ہی جیسے کسی پشتے کے اوپر سے پانی کو دیکھیں تو چکراتا، گھومتا، کناروں کو توڑنے پر آمادہ، منھ زور پانی اپنی پوری شدت سے بہتا نظر آئے۔

    اس دن بھی منظر یہی تھا۔ روزانہ کے معمول کے عین مطابق، ماؤنٹ روڈ کے گول چوراہے پر کچھ عورتیں اپنی اپنی ٹوکری میں آم اور کیلے لیے بیچتی دکھائی دے رہی تھیں۔ ان کے پیچھے بدذات کہلانے والی غریب عورتیں دوسروں کی پھینکی ہوئی گٹھلیاں چوس کر کھڑی، لتھڑے ہوئے ہاتھوں کو ساڑی سے پونچھتی نظر آ رہی تھیں۔ ایک کابلی والا اپنی چھڑی لہراتا پھرتا پھر رہا تھا۔ ایک مسلمان فقیر، ایک لنگڑا فقیر، ایک کوڑھی، خود اپنا اشتہار بنی، رات کی خدمات کی پیش کش کرتی ایک نوجوان عورت جو سڑک کے کنارے بیٹھ کر اطمینان سے بالوں میں کنگھی پھیر رہی تھی اور پھر وہ لوگ تھے۔۔۔ ’’کیا ’’سار ‘‘زمانہ ہوا آپ سے ملاقات ہی نہیں ہوئی۔۔۔‘‘ ارے جلدی کرو، جلدی جلدی چلو۔ بس آ چکی ہے۔ جلدی، جلدی، جلدی۔۔۔ نفسانفسی کا عالم۔۔۔ سب کے سب حواس باختہ۔

    اور اس تمام ہنگامے کے درمیان سڑک کے فٹ پاتھ پر ایک کنارے پڑا وہ بڑی فرصت سے اپنی آخری سانسیں گن رہا تھا۔ مرنے کے لیے جگہ اچھی تھی۔ سورج غروب ہو رہا تھا، اس لیے تمازت ختم ہو چکی تھی اور شام کے سایے فرحت بخش ہو گئے تھے۔ انسانوں کا سیل رواں لہریں لے رہا تھا۔ سچ پوچھئے تو کسی تہوار کا سا ماحول تھا۔

    اور ایسے میں وہ مر رہا تھا، بڑے آرام آرام سے موت کی طرف بڑھ رہا تھا۔ لوگ آ رہے تھے اور لوگ جارہے تھے۔ انھیں اس کی قطعی خبر نہیں تھی۔ یا یہ کہ وہ خبر لینا ہی نہیں چاہتے تھے۔

    وہ ایک بوڑھا مسلمان بھکاری تھا۔ اس کی داڑھی خاصی حد تک سیاہی مائل سفید تھی۔ لباس کے نام پر کثیف چیتھڑے لٹک رہے تھے۔ عمر کی زیادتی اور غذا کی کمی کی وجہ سے اس کے ہاتھ پاؤں بالکل سینک سلائی ہوچکے تھے، تلووں میں گھٹے پڑ گئے تھے۔

    اس کی بغل میں ایک اور بھکاری بیٹھا ہوا تھا جو عمر میں اس سے بہت کم تھا۔ وہ ٹین کے ایک مگ سے اسے پانی پلانے کی کوشش کر رہا تھا لیکن پلا نہیں پا رہا تھا۔ بس اس کے ہونٹ ہی تر ہو سکے تھے۔ اس نے مرتے ہوئے شخص کے سر کے نیچے ہاتھ لگاکر اس کا چہرہ اونچا کرنا چاہا۔ آخری سانس گنتے بوڑھے نے بھی پاس رکھا ایک ٹین کا ڈرام پکڑکر، جو کسی خیراتی ادارے نے وہاں رکھوا دیا تھا، اپنا سر اوپر اٹھانا چاہا۔ اس کی آنکھوں کی جوت اب بجھنے لگی تھی اور ہونٹ نیلے پڑنے لگے تھے۔ اس کی زندگی کا فسانہ اپنے اختتام کو پہنچ رہا تھا پھر بھی وہ ٹین کے اس ڈرام کو چھوڑنا نہیں چاہ رہا تھا۔ اس کی گرفت میں ایک گونہ دلاسہ تھا، توانائی کا ایک احساس تھا تاہم اس کی سمجھ میں یہ نہیں آ رہا تھاکہ کوئی اسے پانی پلانے کی کوشش کر رہا ہے۔ پانی مل رہا ہے۔ اسے پی لینا چاہیے۔ بس اتنا ہی آ رہا تھا سمجھ میں۔ اس سے زیادہ سمجھنے کی صلاحیت مفقود ہو چکی تھی اور اس کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ نہ ہی توانائی رہ گئی تھی۔

    اسی وقت وہ لوگ ٹرام پکڑنے کے لیے اس کی طرف آ نکلے اور ٹرام کا انتظار کرنے لگے۔ یہ باپ بیٹی تھے۔ باپ کوئی تیس ایک برس کا نوجوان اور بچی یہی کوئی چار پانچ برس کی۔ ٹرام کے آنے میں ابھی دیر تھی۔ یا دیر ہو رہی تھی۔

    باپ کے چہرے بشرے سے ظاہر تھاکہ روزی روٹی کے لیے اسے کوئی خاص جدوجہد نہیں کرنی پڑتی ہے۔ کھاتا پیتا انسان تھا۔ بچی صورت شکل کے اعتبار سے معمولی سی تھی لیکن لگتا تھا کہ اس کی ماں بڑی سگھڑ عورت ہے۔ بچی کا لباس بھڑک دار نہیں تھا لیکن بہت ہی صاف ستھرا اور اچھے ذوق کا غماز تھا۔ دونوں اب بھی اپنی سواری کا انتظار کر رہے تھے۔ بچی نے باپ کی شہادت کی انگلی پکڑ رکھی تھی۔ سڑک کے دوسری طرف آم بک رہے تھے جو دیکھنے میں بالکل تازہ لگ رہے تھے۔

    ’’کنجو بیٹا، تم یہیں رہو۔ اپا دوسری طرف چلے جائیں۔ تمہارے لیے پکے ہوئے آم لے کر آتے ہیں۔ رہوگی نا؟‘‘ باپ نے کہا۔

    ’’ٹھیک ہے۔‘‘ بچی نے سر ہلایا۔

    ’’تم یہیں رہنا۔ سڑک پر بالکل پیر نہیں دھرنا۔ اگر ذرا ہلی تو آم نہیں ملیں گے۔ سمجھ گئیں؟‘‘ تاہم باپ کو پھر بھی قدرے بے چینی کا احساس ہوا۔ شاید بچی کو یوں اکیلا چھوڑنا مناسب نہیں تھا۔

    ’’اپا، میں یہیں رہوں گی۔ بالکل نہیں ہلوں گی۔‘‘ بچی نے وعدہ کیا اور باپ سے ضد کی کہ وہ بے فکر ہوکر آم لانے چلا جائے۔

    آموں کے شوق میں وہ شخص بچی کو وہاں چھوڑ کر سڑک کے دوسری طرف بڑھ گیا۔ بچی یا تو بہادر تھی یااس طرح اکیلے چھوڑ دیے جانے کی عادی تھی۔ کچھ دور تک تو اس نے نظریں باپ پر جمائے رکھیں لیکن پھر ادھر ادھر دیکھنے لگی۔

    تبھی اسے ایک سرخ رنگ کی کار آتی دکھائی دی۔ اس نے معصومانہ دلچسپی سے اس کی طرف دیکھا اور اسی وقت نہ جانے کس فکر میں غلطاں ایک شخص ذرا جلدی میں تیز تیز قدم بڑھاتا بچی کو دھکا دیتا ہوا نکل گیا۔ بچی لڑکھڑائی۔ سرخ رنگ کی کار کو دیکھتے رہنے کی خواہش بھلاکر وہ فٹ پاتھ کے کنارے کی دیوار کا سہارا لے کر کھڑی ہو گئی کہ کہیں کوئی پھر اسے دھکا نہ دے دے۔ دیوار سے ٹکنے کے بعد اس نے فراک کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے اور ایک بار پھر گرد و پیش کا معائنہ شروع کیا۔ اب کی اسے وہ مرتا ہوا فقیر دکھائی پڑ گیا اور وہ بھی جو مرنے میں اس کی مدد کر رہا تھا۔ ارے یہ کیا تماشہ ہو رہا ہے۔ اس نے سوچا اور ذرا جھجکتے ہوئے ان کی طرف چل دی۔

    اگر وہ دودھ پینے سے انکار کرتی تو امّا ہاتھ میں مگ لیے منت سماجت کرکے کسی طرح اسے دودھ پینے پر راضی کرتی تھیں۔ ہاں اگر اپّا نے ’’نا‘‘ کر دی تو پھر خاموش ہو جایا کرتی تھیں۔ بچی کا خیال تھا کہ وہ اپّا سے ڈرتی تھیں حالاں کہ خود اما تھیں۔ ابھی اسے یہ بڑا مضحکہ خیز لگا کہ کوئی ’’بڑا‘‘ کسی دوسرے ’’بڑے‘‘ کو مگ سے کچھ پلانے کی کوشش کر رہا ہے۔ بھلا ایسا ہوتا ہے کہیں؟ معاملہ دلچسپ تھا۔ بچی اسے ذرا اچھی طرح دیکھنے کے لیے ان دونوں بھکاریوں کے قریب جا کھڑی ہوئی۔ ٹھیک بوڑھے کے سرہانے۔ نسبتاً کم عمر آدمی نے ایک بار پھر بوڑھے کا گلا تر کرنے کی کوشش کی لیکن یا تو بہت سارا پانی یکدم سے گر گیا اور بوڑھے کی گردن بھیگ گئی یا ایک قطرہ بھی باہر نہیں آیا۔

    ٹین کے ڈرام کو پکڑے وہ شخص ہولے ہولے موت سے ہم کنار ہو رہا تھا۔

    بچی نے اپنے ہونٹ یوں سکوڑے جیسے پانی وہ خود پی رہی ہو اور بولی، ’’دھیرے دھیرے، دھیرے دھیرے۔‘‘ پانی پلانے والے نے اچانک نظریں اٹھائیں۔

    ’’ارے بچی، تمہیں یہاں نہیں کھڑا ہونا چاہیے۔ جاؤ، دوسری طرف چلی جاؤ۔‘‘

    ’’کیوں؟‘‘ بچی نے سوال کیا، ’’کیوں نہ کھڑی ہووں۔‘‘

    ’’یہ مر رہا ہے۔‘‘

    ’’کیا مطلب؟‘‘

    ’’ارے ما، وہ مر رہا ہے۔‘‘ اس نے اپنی گردن ایک طرف کو ڈھلکا کر گویا مرنے کی ایکٹنگ کرکے بچی کو سمجھانا چاہا کہ مرنا کیا ہوتا ہے۔

    بچی کو اس کی ایکٹنگ میں بڑا مزا آیا۔ ’’پھر سے کرکے دکھاؤ تو۔‘‘ اس نے مسرور لہجے میں کہا۔

    اس ڈر سے کہ کہیں بھیڑ نہ اکٹھی ہو جائے، بھکاری نے اپنا منھ بند کرکے ہاتھ سے کچھ اشارہ کیا۔

    بوڑھے بھکاری کے پاس کچھ لوگوں نے سکے پھینک رکھے تھے۔ بظاہر اس کی تجہیز و تکفین کے لیے۔ بچی کی نظر ان پر پڑی۔ ’’تم ان پیسوں سے اس کے لیے کچھ تلے ہوئے چنے کیوں نہیں خرید لاتے۔‘‘ اس نے بوڑھے کی طرف اشارہ کرکے کہا۔ بچی کا خیال تھاکہ جو اسے اچھا لگتا ہے وہ باقی ساری دنیا کو بھی اچھا لگےگا۔

    اس ڈر سے کہ کہیں اس پر بچی کو ٹھگنے کا الزام نہ لگ جائے، کم عمر بھکاری نے محتاط نظروں سے پہلے چاروں طرف کا جائزہ لیا، پھر بچی سے بولا، ’’تمہارے پاس کچھ پیسے ہیں کیا؟‘‘

    ’’ہیں تو۔ لو یہ بالکل نیا سکہ۔‘‘ بچی نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ بھکاری نے جلدی سے وہ سکہ جھپٹ لیا۔ بالکل نیا، ٹکسال سے تازہ تازہ نکلا ہوا چمکیلا سکہ۔

    جیسے کوئی ارب پتی ایک لنگرخانہ کھول کر یہ سمجھ لے کہ اس نے ساری دنیا سے بھک مری اور غربت کا خاتمہ کر دیا ہے یا کوئی احمق سمندر میں ایک ٹکڑا ہینگ ڈال کر سوچے کہ اس نے سمندر میں ہینگ کی خوشبو بھر دی ہے، اسی طرح اس بچی نے بھی وہ سکہ دے کر بڑی طمانیت محسوس کی۔ اس نے خیرات جو دی تھی۔

    بوڑھے فقیر کی آنکھوں سے زندگی کی جوت دھیرے دھیرے بجھ رہی تھی۔ ان سے زندگی مفقود ہوتی جا رہی تھی۔ ٹین کے ڈرام کا سہارا لیے وہ مر رہا تھا۔

    لوگ آ رہے تھے اور لوگ جا رہے تھے۔

    ان کے پاس سے تیز تیز قدموں سے گزرتے ہوئے ایک شخص نے ایک آنے کا سکہ پھینکا اور اسی طرح تیز تیز چلتا، بھیڑ میں گم ہوگیا۔ وہ اس قدر جلدی میں تھا کہ اس نے زیادہ کچھ غور کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی۔ بیٹھے ہوئے بھکاری نے اس پر جھپٹا مارا اور چاروں طرف دیکھ کر اطمینان کیاکہ کسی نے اسے دیکھ تو نہیں لیا۔

    ’’بچی۔ تم یہاں سے چلی جاؤ۔‘‘ اس نے بچی کو دوبارہ سمجھانا چاہا۔

    ’’نہیں۔‘‘ اس نے جواب دیا اور دونوں ٹانگیں قدرے پھیلاکر مضبوطی سے جما لیں۔ ساتھ ہی منھ بنایا۔

    ’’باوا، میں تمہارے لیے کچھ دودھ لےکر آتا ہوں۔‘‘

    چھوٹے بھکاری نے کہا اور اٹھ کر سڑک کے پار والے ہوٹل کی طرف روانہ ہو گیا۔ بوڑھے نے جواب میں ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ ٹین کے ڈرام کو پکڑے وہ دھیرے دھیرے مرتا رہا۔

    بچی اب اسے ٹھیک سے دیکھ سکتی تھی۔ تماشہ دیکھنے کے خیال سے وہ اس کے کافی قریب چلی گئی۔ وہ دوسرا ڈرانے والا جوجو اب وہاں سے اسے بھگانے کے لیے موجود نہیں تھا نا۔ بوڑھے کو اس بچی کی موجودگی کا کوئی احساس نہیں تھا۔ اس نے تو اس ٹوٹے پھوٹے جگہ جگہ سے پچکے ہوئے ڈرام کو تھام رکھا تھا۔ وہ خود بھی تو اس ڈرام جیسا ہی تھا۔۔۔ ٹوٹا پھوٹا، ٹیڑھا میڑھا، پرانا اور خستہ حال!

    بچی کو اس کا چہرہ، اس کی داڑھی اور اس کا کھلا ہوا منھ عجیب لگ رہا تھا۔ کیسا ہے یہ شخص۔ تجسس اس کے معصوم ذہن پر حاوی تھا۔ تبھی ایک مکھی آکر بھکاری کے سوجے ہوئے نیلے پڑتے ہونٹوں پر بیٹھ گئی۔ پھر ایک اور آ گئی۔ بھکاری نے بہ مشکل اپنے ہونٹ بھینچ کر انھیں اڑانے کی کوشش کی۔ بچی کو یہ حرکت مضحکہ خیز محسوس ہوئی۔ پھرنہ جانے کیوں اس نے ہولے سے پکارا، ’’باوا۔۔۔‘‘ بالکل ایسے ہی جیسے اس دوسرے بھکاری نے اسے مخاطب کیا تھا۔ لیکن اندر اندر وہ بہت ڈری ہوئی تھی کہیں یہ دوسرا بھتنا اچانک اٹھ کر بیٹھ نہ جائے۔

    مرتے ہوئے بوڑھے کی آنکھیں اچانک پوری طرح کھل گئیں۔ اسی وقت ایک مکھی آکر سیدھی اس کی پتلی پر جا بیٹھی۔

    ’’ارے بیٹا۔ یہ کیا؟ تم یہاں کیوں کھڑی ہو؟ میں نے تمہیں کہاں کہاں نہیں ڈھونڈا۔‘‘ ایک درشت لہجے نے بچی کو مخاطب کیا۔

    ناراض ہونے میں وہ شخص حق بہ جانب تھا۔ گرچہ اس نے آم بیچنے والی کو اپنی لگائی قیمت پر آم بیچنے کو راضی کر لیا تھا لیکن اس کے لیے بہت دیر تک بڑا مول بھاؤ کرنا پڑا تھا۔

    ’’نہیں، اپا۔ یہ بھتنا، نہیں، باوا۔۔۔ میں اسے دیکھ رہی تھی۔‘‘ بچی نے باپ کی طرف دوڑتے ہوئے کہا۔

    راستہ چلتے چند لوگوں نے نظریں اٹھائیں۔ باپ نے بچی کو اٹھا لیا۔ اس نے قدرے دقت کے ساتھ دونوں آم سنبھالے اور انھیں سونگھا۔

    ’’بڑی اچھی خوشبو ہے۔‘‘ اس نے کہا اور آم اپنی ناک پر ملنے لگی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے