Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ایک کلرک کی کہانی

دلیپ کمار

ایک کلرک کی کہانی

دلیپ کمار

MORE BYدلیپ کمار

    گھڑی کی سوئیاں 06:30 کی طرف اشارہ کر رہی ہیں۔

    تمہارا نام محبوب خان ہے۔ تم ابھی تک سوئے ہوئے ہو۔

    کووائی صبح کے سکون میں ڈوبا ہوا ہے۔ ویرائٹی ہال روڈ پر ایک خستہ حال بلڈنگ کے دو بڑے چبوتروں کے درمیان ایستادہ ایک چھوٹے سے دروازے کو کھولیں تو ایک تنگ راہ داری نظر آئےگی۔ اس راہ داری کے دونوں طرف چھ چھوٹے چھوٹے کمرے ہیں جن میں تین مسلمان خاندان آباد ہیں۔ تمہارے کنبے کے پاس دوکمرے ہیں۔ ایک راہ داری کے بائیں طرف ہے اور دوسرا دائیں طرف۔ یعنی ٹھیک ایک دوسرے کی مخالف سمت میں۔ تمہارا کنبہ تمہارے مسکن جیسا ہی مختصر ہے۔ تمہاری ماں فاطمہ کو لوگ امی جان کہتے ہیں اور تمہاری بیوی تاج بیگم کے نام سے جانی جاتی ہے۔ (فی الحال وہ مائیکے گئی ہوئی ہے۔ تمہاری شادی کو بیس سال ہو گئے ہیں لیکن کوئی اولاد نہیں ہوئی۔) ان کے علاوہ تمہارا بھانجا اقبال ہے جو تم لوگوں کے ساتھ ہی رہتا ہے۔

    تمہاری عمر اب ۴۲ سال ہو گئی ہے۔ قدکم ہے اور رنگ گورا۔ ایک دانت قدرے باہر کو نکلا ہواہے۔ ناک لمبی ہے اور آنکھیں بڑی بڑی لیکن ان کی پتلیاں ان کے تناسب میں چھوٹی ہیں۔ تم ہمیشہ گھٹنوں تک آنے والا لبرٹی کٹ، کریم رنگ کی قمیص اور ٹخنوں پر موڑی ہوئی ڈھیلی ڈھالی پینٹ پہنے نظر آتے ہو۔ تم نے آٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کی تھی۔ راجا اسٹریٹ پر ریڈی میڈ کپڑوں کی ایک دوکان ہے، فیشن پیلیس۔ تم اٹھارہ سو روپے ماہوار پر وہاں بہ طور سیلز کلرک کام کرتے ہو۔ کام کے اوقات صبح نو بجے سے رات کے نو بجے تک ہیں۔ سہ پہر کو ایک بجے سے تین بجے تک تمہاری چھٹی ہوتی ہے۔ کھانا کھاؤ یا آرام کرو۔ اتوار کی صبح کو تم ٹپ ٹاپ ڈرائی کلینرز کے یہاں کپڑوں پر استری کرنے کا کام بھی کرتے ہو تاکہ اپنی قلیل آمدنی میں کچھ اضافہ کرسکو۔ جتنے کپڑوں پر استری کر لیتے ہو ان کے مطابق تمہیں معاوضہ مل جاتا ہے۔ تمہیں چار زبانوں کا شدبد علم ہے، اردو، ہندی، تمل اور ملیالم۔

    تمہاری افتاد میں ایک اَدھ کچرا فلسفیانہ رجحان بھی شامل ہے۔ اس کی وجہ سے تمہارے اندر شعروشاعری کی بڑی رغبت پیدا ہوگئی ہے۔ اتوار کے روز تم اکثر خود بھی شعر کہتے ہو۔ تمہارے اشعار پچاس اور ساٹھ کے دوران آنے والی ہندی فلموں سے متاثر نظر آتے ہیں۔ ان میں کسی نہ کسی طرح یہ الفاظ ضرور در آتے ہیں، زندگی، جام، رب، عشق، وقت، دل، پیار، جوانی، تنہائی اور موت۔ ان ’’بلندپایہ‘‘ اشعار کے مداح ہیں لیلادھر، نندو، ارجن داس اور ویرو۔ یہ سب دوکان میں تمہارے ساتھ کام کرتے ہیں۔ یہ سب کے سب سندھی ہیں۔ انھیں ہندی اور اردو سے تھوڑی بہت واقفیت ہے۔ تمہاری ہی طرح ان سب نے بھی اسکول کی پڑھائی درمیان میں ہی چھوڑ دی تھی۔

    لنچ کے وقفے میں، جب دوکان کا مالک ٹیکم داس وہاں نہیں ہوتا، تم انھیں اپنی تازہ ترین تخلیق سے نوازتے ہو۔ جب تم اپنا کلام سنا رہے ہوتے ہو تو تمہارا داہنا ہاتھ تمہارے سینے پر رکھا ہوا ہوتا ہے اور دوسرا ہوا میں بار بار یوں لہراتا ہے کہ اس کی زد میں آنے سے تمہارے سامعین کی ناکیں بہ دقت تمام بچ پاتی ہیں۔ سامعین واہ جناب اور ماشاء اﷲ کیا بات ہے، جیسے نعرے بلند کر کرکے تمہیں داد دیتے ہیں۔ تم اپنا سر جھکاتے اور ہتھیلی کو پیشانی سے لگاکر ان کی داد کا شکریہ ادا کرتے ہو۔

    ابھی تم ایک سوالیہ نشان کی طرح کنڈلی مارے سو رہے ہو۔ تمہارے سامنے کے دانت تمہارے گہرے رنگ کے ہونٹوں سے باہر جھانک رہے ہیں۔ تمہارا چہرہ بےحد پرسکون ہے۔ گہری نیند میں سوتے ہوئے تم ایسے معصوم، ایسے بے چارے سے لگتے ہوکہ کسی بھی دیکھنے والے کو تمہارے اوپر پیار آ جائے۔

    06.33 -تم اپنی آنکھیں کھولتے ہو۔ تمہار ے الٹنے پلٹنے سے فاطمہ جاگ جاتی ہے۔ جب سے تم پیدا ہوئے ہو تب سے وہ یہی تو کرتی آ رہی ہے کہ تم نے کروٹ لی اور وہ جاگی۔ وہ اٹھتی اور لائٹ جلا دیتی ہے۔ دوفٹ کی ٹیوب لائٹ کی روشنی میں سینے کے بل سویا ہوا اقبال دکھائی دیتاہے۔ اس کی اس پوزیشن میں اس کی ٹھونٹھ جیسی ٹانگوں کی معذوری صاف ظاہر ہے۔ (سات سال پہلے کووائی سے تاراپورم جانے والی بس مخالف سمت سے آنے والی گاڑی سے سیدھی جا ٹکرائی تھی۔ اس بھیانک حادثے میں بیس مسافر فوری طورپر جاں بحق ہوگئے۔ ان میں تمہاری بہن خدیجہ اور اس کا شوہر سید بھی شامل تھے۔ پولیوزدہ اقبال کو وائی میں ہی رہ گیا تھا۔ اسی لیے آج وہ زندہ ہے۔)

    تم نے ایک ٹھنڈی سانس بھری۔ یااﷲ! اور اٹھ کر پچھواڑے کی طرف گئے۔ رفع حاجت کے بعد دانت مانجھ کر منھ دھویا اور واپس اندر آئے۔ معمول کے مطابق تم نے اپنی قمیص پہنی، پیتل کا مگ اٹھایا اور نواب حکیم روڈ پر واقع مبارک ٹی اسٹال سے ’’پارسل چائے‘‘ لانے کے لیے بڑھ گئے۔ (اس چائے کو وہیں پینا ضروری نہیں، گھر لایا جا سکتا ہے۔) کریم دادا کی نیند ابھی کھلی نہیں تھی۔ وہ چبوترے پر پڑے کروٹیں بدل رہے تھے۔ انھوں نے تم سے وہی سوال پوچھا جو ان کا روز کا معمول بن گیا تھا۔ ’’کدھر؟ چائے لانے؟‘‘

    نواب حکیم روڈ پر ایک خواب آگیں سکون پسرا پڑا ہے۔ ایسے، جیسے کہرا چھایا ہوا ہو۔ مبارک ٹی اسٹال کے ایک گوشے میں رکھے اسپیکر سے ایک پرانی ہندی فلم کے گانے کی آواز فضا میں گونج رہی ہے۔ تم آسمان کی طرف دیکھتے چلتے چلے جا رہے ہو۔ تمہارے سینے میں کچھ ایسے جذبات موجزن ہیں جو خود تمہاری سمجھ میں نہیں آ رہے۔ پھیکے، مدھم پڑتے چاند اور اس کے آس پاس نمودار ہوتے بادل کے روئی جیسے گالوں نے ایک عجیب سا اداس اور طلسمی حسن بکھیر رکھا ہے۔

    07.15۔ تم ریڈیو پر بھولے بسرے گیت سنتے ہو۔ ثریا، بیگم اختر اور طلعت محمود کی آوازیں تمہارے دل میں جادو جگاتی ہیں، وہ موم کی طرح پگھلنے لگتا ہے۔

    آج تم ایک کے بعد ایک، بیگم اختر کی دو غزلیں سنتے ہو، ’’اے محبت تیرے انجام پہ رونا آیا‘‘ اور ’’زندگی کچھ بھی نہیں پھربھی جیے جاتے ہیں۔‘‘ انھیں سنتے ہوئے ایسا لگتا ہے جیسے کسی نے دل مٹھی میں لے لیا ہو۔ کیسی ظالم آواز ہے اور کیسے دلدوز الفاظ۔

    تم نے بیگم اختر کی تصویر دیکھی ہے۔ ان کی چوڑی پیشانی اور گہری آنکھیں تمہارے ذہن میں کوندنے لگتی ہیں۔ وہ عام انسان نہیں ہیں۔ اﷲ نے ساری دنیا کا درد کچھ تاروں میں پرویا اور انھیں ان کے گلے میں لگا دیاہے۔ کم از کم تم ایسا ہی سوچتے ہو۔

    07.30۔ اقبال سرک سرک کر چلتا پچھواڑے کی طرف جاتا اور کچھ دیر بعد وہاں سے تمہیں پکارتا ہے۔ ماموں! ماموں!! تم لپک کر جاتے ہو اور اسے آب دست کرانے کے بعد نیکر پہنا دیتے ہو۔ اقبال کی بے جان ٹانگوں میں زندگی کی حرارت مفقود ہے۔ ان کا لمس ہاتھوں کو ٹھنڈا محسوس ہوتا ہے۔ اچانک تمہیں یاد آتا ہے کہ امی جان نے کہا تھا گھر میں گیہوں نہیں ہے۔ تم بغل میں رہنے والے دستگیر سے پچاس روپے قرض لینے کی سوچتے ہو۔ دستگیر میکینک کا کام کرتا ہے۔

    07.45۔ تم دستگیر کے گھر میں جھانکتے ہو۔ وہ دانت مانجھتا نظر آتا ہے۔ وہ تمہیں دیکھتا اور بھویں سکوڑکر پوچھتا ہے کہ تمہیں کیا چاہیے۔ تم لمحہ بھر کو جھجکتے ہو۔ تمہاری نظریں میز پر رکھے اخبار ڈیلی تانتی پر پڑتی ہیں۔

    تم کوشش کرکے بس اتنا ہی کہہ پاتے ہو۔۔۔ کچھ نہیں، اخبار۔۔۔ دستگیر جھک کر اخبار اٹھاتا اور تمہاری طرف بڑھا دیتا ہے۔ اخبار لے کر تم چبوترے پر آ جاتے اور خبروں پر نظر دوڑانے لگتے ہو۔۔۔ کیا اس مقبول ایکٹرس نے چپکے سے بیاہ رچا لیا ہے۔۔۔؟ ایک لاری نے بیل گاڑی کو ٹکر ماردی۔۔۔ دن دہاڑے ڈکیتی کی واردات۔۔۔ دلہن کی دردناک موت۔۔۔ انڈیار کا خیال۔۔۔ کل سے مٹی کے تیل کی قیمت میں اضافہ۔۔۔ عوامی فورم۔۔۔ پھر ایک خط جس میں شکایت درج ہے کہ چائے خانوں میں گلاس ٹھیک سے نہیں دھوئے جاتے، عموماً ان میں بدبو آتی رہتی ہے۔ رمبھا سے کارتک کی مڈبھیڑ۔۔۔ تم فیصلہ کرتے ہوکہ تم قرض دستگیر سے نہیں بلکہ دوکان جاکر لیلادھر، نندو یا ارجن داس سے مانگوگے۔

    08.15۔ تم بلڈنگ کے پچھواڑے بنے مشترکہ غسل خانے میں نہانے چلے جاتے ہو۔ لائف بوائے صابن کی ٹکیہ سے جسم کو خوب رگڑ رگڑ کر اچھی طرح نہاتے ہو۔ تم بے حد صفائی پسند ہو۔ تمہاری ہر چیز صاف ستھری ہونی چاہیے اور قرینے سے۔ تمہارے ناخن ہمیشہ کٹے ہوئے اور چمک دار ہوتے ہیں۔ تمہارا کہنا ہے کہ ذہن سے تو کچرے کو نکالنا شاید ممکن نہیں ہے، کم از کم جسم کو ہی صاف رکھا جائے۔ اپنے نکاح کے بعد بہت دنوں تک تم صرف ریکسوناصابن سے نہاتے رہے تھے۔

    تاج بیگم کو ریکسونا کی خوشبو بہت پسند تھی۔ وہ جب نہاکر نکلتی تو دیرتک پورا کمرہ اس خوشبو سے گمکتا رہتا۔ یہ اس لیے کہ وہ صابن لگاتی بھی کچھ زیادہ ہی تھی۔ دراصل اسے پسینہ بہت آتا تھا۔ ہمیشہ پسینے میں نہائی نظر آتی۔ شادی کے شروع دنوں میں وہ ایک مرتبہ رات کو بھی نہاتی تھی۔ ریکسونا کی خوشبو کے ساتھ مل کر اس کے پسینے کی مہک تمہیں پاگل کر دیتی تھی۔ تم اپنی ناک اس کی چھاتیوں کے بیچ گھسا دیتے، جو دو بڑی بڑی ناشپاتیوں جیسی لگتی تھیں اور زور سے سانس کھینچ کر ہنس پڑتے۔ تاج بیگم تمہاری ان دست درازیوں سے بہت خوش ہوتی لیکن مصنوعی خفگی کا اظہار کرکے تمہارے گال تھپتھپاکر کہتی یہ کیا بدتمیزی ہے۔ لیکن اب سب کچھ بدل گیا تھا۔ ’’تاج بیگم آج میں تمہیں ایک خط لکھوں گا۔‘‘ تم فیصلہ کرتے ہو۔

    08.45۔ تم اوپنّاکارا اسٹریٹ سے ہوتے ہوئے دوکان کی طرف جارہے ہو۔ بسوں سے زورزور سے گانے بجنے کی آوازیں آرہی ہیں اور اسکوٹر اور موٹرگاڑیوں کا ہجوم شروع ہو گیا ہے جو ٹریفک کے اصولوں کی پروا نہ کرکے ایک دوسرے کا راستہ کاٹتی بھاگتی چل رہی ہیں۔ جیسے جیسے دن چڑھےگا، شور اور دھوئیں میں اضافہ ہوتا جائےگا۔ سڑک پہلے جیسی تھی، اس کے مقابلے میں اب سکڑی سمٹی سی محسوس ہوتی ہے۔ تمہیں جو بھی شناسا چہرہ دکھتا ہے، اسے سلام کرتے ہوئے اپنی منزل کی طرف بڑھتے جاتے ہو۔ ہوٹل کیلاش کا پروپرائٹر گھنشیام اپنے کیش بکس کے سامنے کرسی پر چڑھا وہیں سے ہانک لگاتا ہے، ’’کیا پہلوان، سب خیریت تو ہے نا؟‘‘ اور روپے گننا جاری رکھتا ہے۔

    ادھر تم دوکان پر پہنچتے ہو اور ادھر سڑک پار کرکے نندو آتا دکھائی دیتا ہے۔ دوکان کا منیجر ٹیکم داس ۱۰بجے سے پہلے نہیں آتا۔ دوکان کھولنے کا کام نندو کا ہے۔ نندو کے شانوں میں کوئی تکلیف نہیں ہے لیکن جب وہ چلتا ہے تو داہنے شانے کو قدرے اچکا ہوا رکھتا ہے جیسے وہاں نس چڑھ گئی ہو یا کوئی تکلیف ہو۔

    نندو کا چہرہ چوڑا ہے۔ اس پر اس کی ناک نہایت نمایاں ہے۔ کچھ چونچ جیسی۔ اس لیے پیٹھ پیچھے لوگ اسے گروڑ کہتے ہیں۔ گروڑ، وہ قابل احترام گدھ جس نے رام چندرجی کی مدد کی تھی۔ (رامائن میں اس واقعہ کا ذکر ہے۔) جب وہ تمہارے ساتھ دوکان کا شٹر اوپر اٹھانے کو جھکتا ہے تو چارمینار کی مہک تمہارے اوپر حملہ آور ہوتی ہے۔ نندونے ابھی ابھی چارمینار سگریٹ ختم کیا ہے۔

    09.15۔ دوکان میں جھاڑ پونچھ کرنے والے لڑکے شنمگم نے دوکان کی صفائی مکمل کر لی ہے۔ نندو لکشمی، گرونانک اور شوجی کی تصویروں کے سامنے جلتے کافور کی ٹکیہ تھالی پر رکھے ان کے گرد گھما رہا ہے۔ کافور کے دھوئیں سے گویا ان کی پوجا کی جا رہی ہے۔ دوکان کھلنے پر ان کی برکت حاصل کرنے کے لیے پہلا کام یہی کیا جاتا ہے۔ اب نندو، ارجن داس اور ویرو سب اپنے اپنے کاؤنٹر پر ایستادہ ہیں۔ دفتی کے ڈبوں کو ایک ایک کرکے رَیک پر سے ہٹاکر جھاڑنا اور گاہکوں کو دکھانے کے لیے تیار رکھنا ہے۔

    تم عورتوں اور بچوں کے سیکشن کے انچارج ہو۔ نزدیک کے دیہاتوں سے آنے والے اور نچلے متوسط طبقے کے گاہکوں کو تمہارے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ تمہارا سیدھا سادہ حلیہ بشرہ انھیں سہج بنا دیتا ہے وہ بلاجھجھک تم سے گفتگو کر لیتے ہیں۔ تمہارا ان سے بات چیت کرنے کا انداز بڑا متاثر کن ہے۔ اس لیے اس بات کا پورا امکان ہوتا ہے کہ عورتیں کچھ نہ کچھ خریدنے پر آمادہ ہو جائیں گی۔ کچھ نہیں تو ایک لہنگا یا پیٹی کوٹ یا ایسا ہی کچھ اور۔ لیلادھر، ارجن داس اور ویرو متمول، فیشن ایبل یا شہری گاہکوں کو دیکھتے ہیں۔ تمہارے منیجر ٹیکم داس کا خیال ہے کہ اس طرح کے گاہکوں کو نمٹانا تمہارے بس کی بات نہیں ہے۔ نہ تمہارے اندر اس کی صلاحیت ہے نہ ہی ظاہری شخصیت میں ضروری طرح داری۔

    آج شوکیس کی سجاوٹ کو تبدیل کرنے کا دن ہے۔ نمائشی اشیا کو ایک دوسری ترتیب میں رکھنا ہے۔ کچھ نئی چیزیں بھی لگانی ہیں۔ یہ کام تمہارے ذمے لگایا گیا ہے جس میں شنمگم تمہاری مدد کرےگا۔

    وہ شوکیس میں داخل ہو جاتا ہے اور شیشے کے دروازے کو صاف کرنا شروع کرتا ہے۔ اس کے لیے پہلے اس نے شیشے کے دروازے پر خوب پانی چھڑک کر اسے نم کیا اور پھر ’’مالائی مراسو‘‘ اخبار کے پرانے شمارے سے اچھی طرح رگڑا۔ تم اسے ہدایت دیتے ہوکہ وہ پہلے کیڑے پتنگوں کی بیٹ کے ننھے ننھے نشانوں کو صاف کرے۔ یہ پورے شیشے پر سیاہ نقطوں کی طرح جابہ جا بکھرے دکھائی دیتے ہیں۔ شنمگم یہ کام کر رہا ہوتا ہے تو تم شوکیس سے ہٹائے گئے کپڑوں کو نہایت سلیقے سے تہہ کرنے لگتے ہو۔ پھر تم شوکیس میں دوبارہ داخل ہوتے اور شنمگم کو ’’کنداولاس وبھوتی‘‘ کا ایک پیکٹ دیتے ہو۔ یہ متبرک راکھ ہے۔ تم شنمگم سے کہتے ہوکہ اسے صاف کیے ہوئے شیشے پر ہرطرف پھیلاکر کچھ دیر کو چھوڑ دے، پھر کپڑے سے پونچھ ڈالے۔ اس کے بعد تم ان لباسوں کا انتخاب کرتے ہو جو اس ہفتے شوکیس میں لگائے جائیں گے۔

    شنمگم اپنا کام کرکے باہر آ جاتا ہے تو تم شلوار سوٹوں کے ساتھ کے کچھ دوپٹے اور بلاؤز پیس لے کر شووِنڈو کا پس منظر تشکیل دیتے ہو۔ یہ کرلینے کے بعد جلدی جلدی مردوں کے کپڑے اور ’’باباسوٹ‘‘ ٹانگتے ہو۔ ونڈو میں رکھی سیاہ قدآدم گڑیا کو پچھلے ہفتے شلوار قمیص پہنائی گئی تھی اور میچنگ دوپٹے کو خوب صورتی کے ساتھ شانوں پر پِن لگاکر ٹانک دیا گیا تھا۔ اس لیے اس ہفتے کے لیے تم شب خوابی کے لباس کا انتخاب کرتے ہو جو کسی نیم شفاف ملائم کپڑے کا بنا ہواہے۔ ہلکے گلابی رنگ کا یہ نائٹ گاؤن گڑیا کے جسم پر نہایت عمدگی سے فٹ ہو جاتا ہے۔ گڑیا کی چھاتیوں میں گھنڈیاں نہیں ہیں اور اس کی ٹانگیں قدرے پھیلی ہوئی ہیں۔ تم کھیل سے اس کی گول ناک پر چٹکی بھرتے ہو جس میں نتھنے نہیں ہیں۔

    جب تک تم شوکیس سے باہر نکلے، دوکان کے کاؤنٹر پر کافی کپڑے کھل چکے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ گاہکوں کی ایک خاصی تعداد آکر جا چکی ہے۔

    اب تقریباً ایک بجا ہے، تم جلدی سے مسجد کا رخ کرتے ہو۔ گرچہ گرمی بہت زیادہ نہیں ہے لیکن تم اتنا تیز نہیں چل پا رہے ہو جتنا عموماً چل لیتے ہو۔ شادی سے پہلے تمہیں فوطے بڑھ جانے کی شکایت تھی۔ تمہارے پام کے بڑے بڑے پھلوں کے سائز کے فوطے چلنے پر ادھر ادھر ڈولتے اور قدم آگے بڑھانے میں دقت پیدا کرتے تھے۔ پھر بھی تم آج کے مقابلے میں زیادہ تیز چل لیا کرتے تھے۔

    13.45۔ اقبال ایک پرانی کاپی میں اسکیچ پین سے ڈرائنگ بنا رہا ہے۔ وہ بہت اچھی تصویریں بنا لیتا ہے۔ آج اس نے ایک کاٹیج کی تصویر بنائی ہے جس کے آگے بانس کی کھپچیوں کی باڑھ ہے۔ چاروں طرف گھاس کا وسیع قطعہ ہے جس میں ایک طرف کو ایک ہرن کا بچہ چر رہا ہے۔ (یہ اور بات ہے کہ اس کا چہرہ کتے سے مشابہ ہے۔ ہاں باقی سب کچھ بہت اچھا ہے۔)

    ’’جناب، آپ نے اپنے اس مکان کی قیمت کتنی رکھی ہے؟‘‘ تم مسکراکر پوچھتے ہو۔

    ’’ویسے تو ہم کوئی چیز ہزار روپے سے کم میں نہیں بیچتے لیکن آپ ہمارے ماموں ہیں، آپ کو ہم ایک روپے میں دے دیں گے۔‘‘

    ’’اس ایک روپے میں ہرن کے بچے کی قیمت بھی شامل ہے؟‘‘

    ’’نہیں وہ۔۔۔ منا سا بچہ بکاؤ نہیں ہے۔‘‘

    ’’کیوں صاحب، کیا اس کو بیچنے کی مناہی ہے؟‘‘

    ’’ہاں بالکل۔ چھوٹے ہرن کو بیچنے کی اجازت نہیں ہے۔‘‘

    ’’تو پھر کیا کیا جائے۔ اسے خریدنے کی اجازت کس سے لے کر آئیں؟‘‘

    ’’اس کی ماں سے پوچھنا پڑےگا۔‘‘

    ’’یہ تو کیا جا سکتا ہے لیکن ماں ہے کہاں؟ دکھائی نہیں دے رہی۔‘‘

    ’’اسے بنایا نہیں۔ اب بناؤں گا۔‘‘

    ’’تو پھر میں کل آتا ہوں۔ آؤں؟‘‘

    ’’نہیں اب آپ اگلے جمعے کو آئیں۔‘‘

    تم اقبال کو بازوؤں میں بھر لیتے ہو۔ دونوں خوب قہقہے لگاتے ہیں۔

    تم کپڑے بدل لیتے ہو تو امی جان دونوں کے لیے کھانا نکالتی ہیں۔ جیسا بھی چاول ہے تم کھا لیتے ہو۔ چاولوں میں امی جان نے کچھ نمک مرچ، ذرا سا تیل ملا دیا ہے اور ایک ابلا ہوا انڈا ساتھ میں رکھ دیا ہے۔ تمہارا پیٹ نہیں بھرا لیکن تم پانی پی کر لیٹ جاتے ہو۔

    15.05۔ ٹیکم داس اپنا دوپہر کا کھانا کھانے چلا گیاہے۔ نندو کاؤنٹر کے پاس ایک شانہ اچکائے کھڑا ہے۔ لیلادھر، ارجن داس اور ویرو ایک کونے میں لکڑی کے اسٹولوں پر بیٹھے ریڈیو پر کچھ لوک گیت سن رہے ہیں۔ تمہیں دیکھ کر وہ سر اٹھاتے ہیں۔

    لیلادھر۔ ’’محبوب، کھانا کھا آئے؟‘‘

    محبوب۔ ’’ارے تو کھانا روز نہیں کھایا جاتا کیا؟‘‘

    ارجن داس۔ ’’اب یوں منھ نہ لٹکاؤ۔ تمہاری بیوی ابھی تک مائیکے میں ہی بیٹھی ہوئی ہے کیا؟‘‘

    محبوب۔ ’’کوئی منھ وونہہ نہیں لٹک رہا۔‘‘

    لیلادھر۔ ’’آخر کب آ رہی ہے وہ؟‘‘

    محبوب۔ ’’اگلے ہفتے۔‘‘

    لیلادھر۔ ’’ارے تمہارے بغیر تمہاری بیگم کی راتیں کیسے گزرتی ہوں گی؟‘‘

    محبوب۔ ’’چھی۔ کیسی باتیں کرتے ہو؟‘‘

    لیلادھر۔ ’’کیا چھی چھی کررہے ہو۔ تم انھیں نہیں جانتے۔ یہ نخرے باز عورتیں کبھی کبھی ایسی نوٹنکی کرتی ہیں جیسے ان میں جسم کی کوئی خواہش ہی نہ ہو۔ ساری طراری تمہارے اندر ہی ہونی چاہیے کہ کام ڈھنگ سے کر لو۔ یوں کہ وہ سسکاری لینے لگیں۔ بس بہت ہوا۔ جیسے ہی تمہاری جورو واپس آئے، سب سے پہلے یہی کرنا۔ مجھے اس کا ذاتی تجربہ ہے، اس لیے میری بات پہ کان دھرو۔

    لیلادھر کو فلموں کے سکنڈ شو دیکھنے کا بڑا شوق تھا۔ ہفتے میں کم از کم چار فلمیں ضرور دیکھتا تھا۔ وہ بھی دیر رات چلنے والا شو۔ لیلادھر کی بیوی کی کسی عنوان ایک آٹورکشا چلانے والے کے ساتھ شناسائی ہو گئی۔ وہ شخص ’’جسے سارے راستے معلوم تھے‘‘ لیلادھر کے گھر سے نکلتے ہی آن موجود ہوتا۔ ایک دن اتفاق سے لیلادھر کو سکنڈ شو کا ٹکٹ نہیں ملا اور وہ بہت جلد گھر لوٹ آیا۔ بیوی اور اس کا عاشق دونوں رنگے ہاتھوں پکڑے گئے۔ ہنگامہ ہوگیا۔ نوبت طلاق تک پہنچنے لگی لیکن تب لیلادھر کے سسر نے ہاتھ پیر جوڑکر لیلادھر سے کہاکہ وہ اس کی بیٹی کو معاف کر دے۔ خیر کسی طرح معاملہ سلٹا۔

    اس کی بیوی شیلو پستہ قد عورت تھی لیکن بے حد گوری اور صورت کی ایسی بھولی کہ دیکھنے والے کو لگے کہ یہ بلی تو ذرا سا دودھ بھی نہ چکھےگی (چوہا پکڑنے کی کون کہے۔)

    گفتگو پھر مختلف موضوعات کا احاطہ کرتی ادھر ادھر گھومتی ہے۔ اچانک ارجن داس کہتا ہے، ’’ارے چھوڑو یہ سب، محبوب سے کچھ شعر و شاعری سنتے ہیں۔ سناؤ تو کچھ محبوب۔‘‘

    محبوب۔ ’’ارے بھائی مجھے کوئی نئی چیز نہیں یاد۔ جو بھی جانتا ہوں سب پرانا اسٹاک ہے۔‘‘

    ارجن داس۔ ’’کوئی بات نہیں۔ پرانی ہے تو ہے۔ کچھ بھی سناؤ۔‘‘

    محبوب۔ ’’نا، بابا۔ مجھے ایک خط لکھنا ہے۔‘‘

    ارجن داس۔ ’’کسے؟‘‘

    لیلادھر۔ ’’اور کسے لکھےگا علاوہ بیوی کے۔‘‘

    ویرو۔ ’’اب یہ نخرے نہ دکھاؤ، کچھ شاعری سناؤ۔ اس کے بعد خط بھی لکھ لینا۔‘‘

    تم کچھ دیر سوچتے ہو پھر اشعار سنانے کے لیے اپنے مخصوص پینترے بدلنا شروع کرتے ہو۔

    زندگی میرے بس میں نہیں

    اور مجھے کوئی شکایت بھی نہیں

    اتنا احمق نہیں کہ اس سے نفرت کروں

    اور اتنا سادہ دل بھی نہیں کہ محبت کروں

    بے رحم وقت کو گزرتے دیکھتا ہوں

    یہ طاقت نہیں کہ پکڑنے کی چاہت کروں

    میرے دوست محبوب یہ پوچھتا ہے

    تنہائی اور خاموشی کے سوا زندگی کیا ہے

    16.00۔ بھین۔۔۔ بھگوان داس، ٹیکم داس کے بارے میں پوچھتا ہوا آتا ہے۔ ’’ٹیکم داس آیا کہ نہیں؟‘‘ گرچہ بھگوان داس کے نام کے ساتھ جڑی گالی کا مطلب ہے وہ شخص جو بہن کے ساتھ ناجائز تعلقات قائم کرے لیکن بےچارہ بھگوان داس ایسا انسان قطعی نہیں ہے جو ایسی قبیح حرکت کرےگا۔ علاوہ ازیں وہ پچہترسال کا بڈھا بھی ہے۔ بات بس اتنی سی ہے کہ یہ بےہودہ لفظ اس کا تکیہ کلام ہے۔ ہر دس سکنڈ میں ایک بار وہ ضرور اسے بک لیتا ہے۔ اسی لیے لوگوں نے اس کا نام ہی رکھ دیا بھین۔۔۔ بھگوان داس۔ بھگوان داس آئنٹ مکو میں رہتا ہے جہاں اپر اسٹریٹ میں اس کی ریڈی میڈ کپڑوں کی فیکٹری ہے۔ فیکٹری جاتے ہوئے وہ تھوڑی سی دیرکو ٹیکم داس کی دوکان پر ضرور رکتا ہے۔ اس کا یہ معمول عرصے سے چلا آ رہا ہے۔ دوکان کے پروپرائٹر کشن چند اور منیجر ٹیکم داس، دونوں سے اس کے گہرے تعلقات ہیں۔ وہ دوکان پر آتا ہے تو کچھ دیر بیٹھتا ہے اور یک طرفہ بولے جاتا ہے۔ کوئی سن رہا ہے یا نہیں، اس کی اسے زیادہ پروا نہیں ہوتی۔

    آج اس کا موضوع ایک سیلز ٹیکس افسر ہے۔

    بھیَن۔۔۔ ٹیکس تو تم لو اس سے کون انکار کر سکتا ہے۔ تم رقم طے کر دو، میں ادا کروں گا لیکن بہی کھاتوں کی اُٹھا پٹخ کرکے اپنا مرتبہ ثابت کرنے کی کیا ضرورت ہے آخر۔ کچھ رشوت چاہتے ہو تو بولو۔ دینے کو راضی ہوں۔ بھین۔۔۔ منسٹر، ایم۔ پی، ایم ایل اے سب لوٹ میں اپنا اپنا حصہ بٹاتے ہیں اس لیے تمہیں بھی کچھ چاہیے۔ بھین۔۔۔ میں کہتا ہوں چلو ٹھیک لیکن یہ کہنے کی جرأت نہ کرو کہ میرے اکاؤنٹس جھوٹے ہیں، من گھڑنت ہیں۔ سن ۴۸ء میں میں صرف ایک پھٹا پاجامہ پہنے پاکستان سے بھاگ کر انڈیا آیا تھا۔ کولابہ میں بھین۔۔۔ گزر اوقات کے لیے نہ جانے کتنے دن مسالہ پاپڑ بیچے۔ اگر میں جھوٹ بول رہا ہوں تو بھین۔۔۔ گوڈ مجھے معاف نہیں کرےگا۔

    اپنا ایک کندھا اچکائے کھڑا نندو بھین۔۔۔ بھگوان داس کی باتیں سن رہا ہے۔ اس کے چہرے پر گہری مسکراہٹ ہے۔ تھوڑے سے وقفے کے بعد بھگوان داس شنمگم کو آواز دیتا ہے، ’’لڑکے، ذرا ایک گلاس پانی تو لانا۔۔۔ بھین۔۔۔ یہ گرمی!‘‘ اور اپنی کرسی سے اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔

    16.30۔ کاغذ کی ایک سفید شیٹ پر سر جھکائے، ٹائی اور موزوں کے کاؤنٹر پر بیٹھے تم خط لکھ رہے ہو۔

    ’’جان سے زیادہ پیاری تاج۔ تم ہزاروں گلابوں سے زیادہ ملائم اور حسین ہو۔ ہزاروں چاندوں کی چاندنی تم پر نثار، میں تمہارا غلام محبوب تمہیں یہ خط لکھ رہا ہوں۔ ہم سب یہاں خیریت سے ہیں اور اﷲ سے تمہاری خیریت نیک چاہتے ہیں۔

    تمہارے بغیر گھر بالکل سونا لگتا ہے لیکن ایک لحاظ سے یہ اچھا ہی ہے کہ تم آج کل یہاں نہیں ہو۔ گھر کی حالت کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے۔ پچھلے کئی ہفتوں سے مجھے وہ اتوار کی صبح والا کام نہیں مل سکا ہے۔ دال، چاول، آٹا سب ختم ہیں۔ کل امی جان نور چاچی کی طرف گئی تھیں۔ انھوں نے ہم لوگوں کے لیے کوئی دو درجن انڈے اور کچھ مچھلی بھجوائی۔ اس کے علاوہ تو بس کسی طرح کریم دادا سے دس پانچ روپے قرض لے لے کر کام چل رہا ہے۔ آج میں نے لیلادھر سے پچاس روپے ادھار لیے۔ پرسوں جب ہم لوگوں کو تنخواہ ملےگی تب جان میں جان آئےگی۔

    اقبال ٹھیک ہے۔ سارے گھر میں چاروں ہاتھ پیروں پر چلتا وہ اپنے طورپر امی جان کا کچھ نہ کچھ ہاتھ بٹاتا رہتا ہے۔ کل اس نے میری قمیص اور پینٹ پر استری کر دی تھی۔ اس نے ابا جان کی تصویر دیکھ دیکھ کر ان کی ایک ڈرائنگ بنائی۔ وہ تمہیں بہت یاد کرتا ہے۔ شاید مجھ سے بھی زیادہ۔ اداس چہرہ لے کر رونی آواز میں پوچھتا رہتا ہے کہ مامی کب آئیں گی۔ گرچہ تمہارے پیٹ سے نہیں پیدا ہوا ہے لیکن بیٹا ہے تمہارا۔ میں جب بھی اس کی خشک ٹانگوں کی طرف دیکھتا ہوں، لرز جاتا ہوں۔ دل شکایت کر بیٹھتا ہے، یہ کیسا انصاف ہے اﷲ میاں!

    امی جان کو جتنا کام ہو جاتا ہے وہ اسے نمٹا نہیں پاتیں، یہ بالکل صاف دکھائی دیتا ہے۔ لیکن بڑے صبر شکر کے ساتھ دن بھر لگی رہتی ہیں۔ پچھلے ہفتے انھیں لے کر ہسپتال گیا تھا ان کی جانچ کرانے۔ وہاں بچے دانی کے کینسر کا شک لے کر کئی طرح کی جانچ کی گئی۔ سوموار کو کاغذ ملےگا جس سے پتہ چلےگا کہ جانچ میں کیا نکلا لیکن ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ کینسر ہو یا نہ ہو، بہتر یہی ہوگا کہ بچہ دانی نکال دی جائے۔ تم اگر جلدی آجاؤ تو ہم لوگ آپریشن کے لیے پیسے وغیرہ کا انتظام کرنا شروع کریں۔ اکثر ان کے پیڑو میں اتنے زور کا درد اٹھتا ہے کہ وہ وہیں فرش پر دوہری ہو جاتی ہیں۔ کسی بچے کی طرح گڑی مڑی ہوکر لیٹا دیکھتا ہوں تو دل بےچین ہو جاتا ہے۔ اگلے مہینے وہ ۶۵ برس کی ہو جائیں گی۔

    تمہارے ابا جان کی صحت کیسی ہے۔ امید ہے ان کا چینی کا مرض کچھ بہتر ہوگا۔ امید ہے تمہارے بھائی بھی خیریت سے ہوں گے۔

    ابا جان سے میرا سلام کہنا۔ چھوٹوں کے لیے دعا و پیار۔

    تمہارا

    محبوب خان

    16.45۔ اب منیجر کے واپس آنے کا وقت ہو گیا ہے۔ نندو اگربتیوں کا ایک مٹھا لے کر انھیں جلاتا اور انھیں پوری دوکان میں گھماتا ہوا، خاص طورپر دیوی دیوتاؤں کی تصویروں گدی، کاؤنٹر و الماری کے خانے۔۔۔ سب کو خوشبودار دھوئیں میں بسا دیتا ہے۔

    19.30۔ سولہ آستینوں والے بنیان، سات پیٹی کوٹ، چھ کچھیاں، ایک درجن بنیان، دو باباسوٹ اور پانچ فراکیں بیچ لینے کے بعد تم چائے پینے باہر نکلتے ہو۔ نمبیار کی چائے کی دوکان پر چائے پی کر تم بیڑی سلگاتے ہو۔ اس کے کش لیتے ہوئے تم بگ بازار میں داخل ہوتے ہو۔ آلوپیاز کے آڑھتوں سے گزرتے ہوئے کرانے کی دوکانوں تک پہنچتے ہو۔ راجیشوری اسٹور کے دروازے کے درمیان مہیندر چٹیار کو کھڑا دیکھ کر اس کی طرف مسکراہٹ پھینکتے واپس لوٹ آتے ہو۔

    20.00۔ دوکان میں زیادہ گاہک نہیں ہیں۔ ایک خاموشی سی طاری ہے۔ تم شرٹ کاؤنٹر کی طرف لیلادھر کا ہاتھ بٹانے کی غرض سے چلے جاتے ہو۔ وہ گاہکوں کو دکھانے کے لیے کھولی گئی قمیصوں کو تہہ کرکے واپس ڈبوں میں ڈال رہا ہے۔ تبھی روز کے معمول کے مطابق دوکان کا پروپرائٹر، کشن چند ہاتھ میں سبزیوں سے بھرا تھیلا اٹھائے دوکان میں داخل ہوتا ہے۔ ساتھ میں سفید ساری اور بغیر آستینوں کے سفید ہی بلاؤز میں ملبوس اس کی بیوی بھی ہے۔

    ٹیکم داس اپنی نشست سے اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ پھر دونوں آمنے سامنے ہوکر بیٹھ جاتے ہیں۔ معمول کے مطابق شنمگم دونوں کے لیے پانی لے کر آتاہے۔ بہی کھاتوں کے صفحے پلٹتے ہوئے کشن چند بیڑی سلگا لیتا ہے۔

    20.30۔ تیسری بیڑی کا ٹوٹا ایش ٹرے میں مسلتے ہوئے کشن چند اپنی کرسی سے اٹھ جاتا ہے۔ کچھ ہی دیر میں دوکان کی روشنیاں گل کر دی جاتی ہیں۔ نندو ان رقموں کو جو آج بہی کھاتے میں درج کی گئی ہیں، کیش کاؤنٹر پر رکھی حساب کی مشین میں ڈال دیتا ہے۔

    تم شنمگم کو کے کے بلاک بھیجتے ہوکہ وہ وہاں سے چوہا پکڑنے والے پنجرے میں چارے کے طورپر رکھنے کے لیے ایک مسالہ وڑا خرید کر لائے۔ دوکان میں تین چار چوہے دندناتے پھرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ چور کہیں کے۔ دغاباز۔

    20.40۔ آج کی بکری سے 18437 روپے آئے ہیں۔ یہ کوئی بڑی رقم نہیں ہے۔ کشن چند ہمیشہ کہتا ہے کہ روزانہ کی بکری دوکان میں رکھے پورے اسٹاک کا ۷۵ فی صد ضرور ہونا چاہیے۔ تم شوکیس کی بتیاں بھی بجھا دیتے ہو اور دروازے کے رخ لٹکے ہوئے لباسوں کو اتارنا شروع کرتے ہو۔ اچانک تم بھگوان داس کو دوکان کے اندر کھڑا ہوا دیکھتے ہو۔ وہ منیجر سے کہہ رہا ہے، ’’کچھ سنا؟ اکڈم میں دنگا ہو گیا ہے۔ سننے میں آرہا ہے کہ ایک شخص نے کسی کو چھرا گھونپ دیا ہے۔ دوکان جلدی سے بند کرو۔ کہیں ہنگامہ یہاں تک نہ پہنچ جائے۔ یہ ملک بھین۔۔۔ کبھی نہ سدھرےگا۔ اس کو تو صرف فوجی حکومت ہی سیدھا کر سکتی ہے۔‘‘

    21.10۔ دوکان بند کر دی گئی ہے۔ تم اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گئے ہو۔ تمہیں اچانک احساس ہوتا ہے کہ سڑک پر سب ٹھیک نہیں نظر آرہا۔ ایک کے بعد ایک کرکے دوکانوں کے شٹر دھڑادھڑ گرائے جا رہے ہیں۔ سڑکیں آناً فاناً ویران ہو اٹھی ہیں۔ شنمگم اور تم قدم تیز کر دیتے ہو۔ شنمگم پیرور میں رہتا ہے۔ اسے بی۔ 1 پولیس اسٹیشن تک جاکر وہاں سے پھر بس پکڑنی پڑتی ہے۔ اوپنائیکر اسٹریٹ بالکل سنسان نظر آ رہی ہے۔ تم قرض لیے ہوئے روپیوں سے ایک بڑی سی ڈبل روٹی اور کچھ چاپیں خریدتے ہو۔ ویرائٹی ہال روڈ نسبتاً کم متاثر لگتی ہے۔ کریم دادا جو چبوترے پر بیٹھے ہیں، کہتے ہیں، میں نے سنا ہے کہ اکڈّم میں ہنگامہ ہوا ہے۔

    ’’ہماری طرف تو کوئی جھنجھٹ ہوا نہیں لگتا لیکن دوکانیں یہاں بھی بند ہو گئیں۔‘‘ تم کہتے ہو۔

    21.45۔ روز کی طرح اقبال آج بھی رات کا کھانا ساتھ کھانے کے لیے تمہارا انتظار کر رہا ہے۔ امی جان نے کچھ چپاتیاں اور آلو کی سبزی بنا رکھی ہے۔ تم جو چاپ لائے ہو ان کو ملاکر تم تینوں رات کا کھانا کھاتے ہو۔ پچاس روپے میں سے بچے ہوئے چالیس روپے تم امی جان کو تھماکر باہر چبوترے پر بیڑی پینے چلے آتے ہو۔

    22.30۔ تم باہر کا دروازہ بند کرکے اندر آ جاتے ہو۔ اقبال سو چکا ہے۔ تم اس کی بغل میں جاکر لیٹ جاتے ہو۔ دو چار منٹ کے بعد تم اسے لپٹا لیتے ہو۔

    دوسرے دن

    08.45۔ تم باہر چبوترے پر بیٹھے دستگیر کے یہاں آنے والے اخبار کو الٹ پلٹ کر دیکھ رہے ہو۔ اقبال تمہاری بغل میں بیٹھا باہر سڑک کی آرجار کو دیکھ رہا ہے۔ دستگیر اپنی میکینک کی دوکان پر چلا گیا ہے۔ آج سہ پہر کسی وقت اس کے والدین گاؤں سے واپس آنے والے ہیں۔ امی جان گھر کے اندر ہیں اور کریم دادا نہارہے ہیں۔ تم سوچ رہے ہوکہ آج صبح بھی ٹپ ٹاپ ڈرائی کلینرز کے یہاں استری کرنے کا کام ملےگا یا نہیں، کیوں کہ آج اتوار ہے، اس لیے سڑک پر زیادہ چہل پہل نہیں ہے۔ سناٹا لگ رہا ہے۔

    09.15۔ پچھم کی طرف سے کچھ تیز تیز آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ تمہیں ایسا لگتا ہے کہ لوگ بند دوکانوں کے شٹر پر کچھ مار مار کر انھیں توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کچھ لوگ پاگلوں کی طرح چیختے چلاتے بھی محسوس ہو رہے ہیں۔ تم چبوترے سے اترکر سڑک کی طرف دوڑتے ہو تاکہ دیکھو کہ ماجرا کیا ہے۔ تمہیں اوپنّارا اسٹریٹ جنکشن کی طرف سے لوگوں کی ایک بھیڑ اپنی گلی میں داخل ہوتی نظر آتی ہے۔ بڑے خوف ناک قسم کے نعرے لگاتی ہوئی یہ بھیڑ تمہاری طرف ہی بڑھ رہی ہے۔ اس کے ہر فرد کے ہاتھ میں کوئی چیز ہے۔ لاٹھیاں، رولرز، مٹی کے تیل کے ڈبے۔ تم بھونچکے رہ جاتے ہو۔

    تم کو سڑک کے بیچ کھڑا دیکھ کر گالیاں بکتی طرح طرح کے گندے الفاظ اچھالتی یہ بھیڑ تمہاری طرف بڑھتی ہے۔

    کیا ہوا ہے؟ یہ لوگ کون ہیں؟ ان پر ایسا پاگل پن کیوں سوار ہے؟ تمہارے پیر جیسے منجمد ہو گئے ہیں اور ذہن کام نہیں کر رہا ہے۔ بس یہ سمجھ میں آ رہا ہے کہ تم سخت خطرے میں ہو۔ تم اقبال کو اٹھانے دوڑ پڑتے ہو۔ تم سوچتے ہوکہ اگر تم نواب حکیم روڈ کی طرف بھاگ جاؤ تو بھیڑ سے بچ جاؤگے۔ لیکن اس سے قبل کہ تم بھاگ سکو، بھیڑ تم کو چاروں طرف سے گھیر لیتی ہے۔ اقبال نے تمہاری گردن کس کر پکڑ لی ہے۔

    بھیڑ میں بہت سے لوگ نہا دھوکر، شیو بناکر شامل ہوئے ہیں۔ انھوں نے آستین دار قمیص اور خاکی رنگ کے نیکر پہن رکھے ہیں۔ وہ لوہے کی چھڑیں اور ڈنڈے سر کے اوپر سے گھماگھماکر نعرے لگا رہے ہیں۔ ایک چوڑے شانوں، گوری رنگت اور باریک مونچھوں والا جوان آدمی جس کی تیوریاں چڑھی ہوئی ہیں، دانت پیستا ہوا اپنا ڈنڈا لہرا کر تمہاری طرف دوڑتا ہے۔

    پہلا وار تمہاری گردن کے ٹھیک نیچے پڑتا ہے۔ تم زور سے چیخ پڑتے ہو، ’’اماں!‘‘ تمہاری سانس تیز ہو جاتی ہے۔ تم اپنا توازن کھوکر آگے کی طرف جھک جاتے ہو۔ دوسرا وار ٹھیک تمہارے سر کے بیچ جاکر لگتا ہے۔ کوئی تمہاری گود سے اقبال کو کھینچ کر پھینک دیتا ہے۔ چیخیں مارتا ہوا اقبال دور جاکر گرتا ہے۔ تم اپنا سر اٹھاتے ہو۔ تمہاری پیشانی خون سے ترہے۔ ایک اور وار تمہارے بائیں گال اور گردن کا نشانہ لیتا ہے۔ گال پھٹ کر گوشت لٹکنے لگتا ہے اور خون یہاں سے بھی پھوٹ پڑتا ہے۔ درد ناقابل برداشت ہے۔ زور کی چیخ مار کر تم گر جاتے ہو۔ لیکن اس سے قبل کہ تمہارا جسم زمین سے لگے، تڑاتڑ کئی اور وار تم پر برس جاتے ہیں۔ اب تم پوری طرح زمین بوس کر دیے گئے ہو۔ کئی لوگ تمہارے جسم کو روند ڈالتے ہیں۔ کئی ہاتھ لوہے کی چھڑوں اور ڈنڈوں سے تم کو اب بھی پیٹ رہے ہیں۔ تم اپنے ہوش کھو کر بالکل بدحواس ہو چکے ہو۔ اس نیم بے ہوشی کے عالم میں تمہاری سمجھ میں آتا ہے کہ تم موت کے کتنے قریب ہو۔ موت کی موجودگی میں اور کوئی خیال نہیں آتا الا اس کے،

    کیا انھوں نے اقبال کو بھی مار دیا ہے؟

    باورچی خانے میں کھانا پکاتی امی جان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے؟

    کیا وہ غسل خانے میں نہاتے کریم دادا کو زندہ پھونک دیں گے؟

    کیا وہ دستگیر کا گھر بھی ڈھا دیں گے؟

    تاج بیگم کیسی ہے؟

    پھر تم مر جاتے ہو بغیر اس ہرن کے بارے میں سوچے ہوئے جس کی تصویر اقبال نے بنائی تھی۔ فیشن پیلیس، شنمگم، ویرو، نندو، ارجن داس، لیلادھر، ٹیکم داس، کشن چند، بھگوان داس، ٹپ ٹاپ ڈرائی کلینرز، مبارک ٹی اسٹال، گنیش بیڑی، بیگم اختر، ثریا، تمہاری وہ نظمیں جو پوری ہونے کے انتظار میں ہیں۔ کچھ بھی تمہارے ذہن میں نہیں ہے۔

    سچ مچ تم مر چکے ہو۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے