Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ایک دن کا سلطان

مانک ٹالہ

ایک دن کا سلطان

مانک ٹالہ

MORE BYمانک ٹالہ

    نرس پہیے والی کرسی پر بٹھاکر اسے لان میں لے آئی تھی۔

    اس نے ہلکی سے انگڑائی لی اور اپنے چاروں طرف نگاہ دوڑائی۔ گہرے نیلے آسمان پر کہیں کہیں سفید بادلوں کی چھوٹی بڑی ٹکڑیاں آوارہ خرامی کر رہی تھیں۔ نرم مدھم ہوا کے جھونکوں سے گلاب کیاریوں میں ہنڈولوں کی طرح جھول رہے تھے۔

    انار کی جھاڑیاں سرخ کلیوں کے بوجھ تلے دبی جارہی تھیں۔ عشق پیچاں کے نیلے نیلے پھول گرامو فون کے بھونپو کی طرح یوں کان کھڑے ہوئے تھے کہ جیسے ابھی ابھی ریکارڈ کے سینے پر سوئی رگڑ کھائےگی اور ان کے اندر سے موسیقی کی لہریں پھوٹ نکلیں گی۔ بہار کی کچی رت انگڑائی توڑ رہی تھی۔

    اتنے میں طوطوں کی ایک ڈار عین اس کے اوپر سے ٹیں ٹیں کرتی ہوئی گزر گئی۔ اس کی نگاہیں ایک دوسرے کا تعاقب کرتے ہوئے طوطوں کا پیچھا کرنے لگیں، حتی کہ وہ نظروں سے اوجھل ہو گئے۔

    اس نے اپنی آنکھیں جھپکائیں اور حیران سا ہوکر اپنے چاروں طرف دیکھنے لگا۔ پچھلے چالیس، پینتالیس برس میں اس نے ایسا دل فریب نظارہ نہیں دیکھا تھا۔ دیکھا بھی ہو تو اسے یاد نہیں تھا۔ یا پھر دیکھ کر بھی ان دیکھا کر دیا ہوگا کہ اس نے پیسہ کمانے اور اپنے کاروبار کو وسعت دینے میں اپنے آپ کو اس قدر مصروف رکھا تھا کہ اسے رات، دن کا بھی ہوش نہیں رہا تھا۔ کاروبار کی بے پناہ مصروفیتوں کے جمگھٹ میں زندگی کی کوئی لطیف لہر اس کے دل کو نہیں گدگدا سکی تھی۔ کوئی رنگین جذبہ اس کے من میں ترنگیں پیدا نہ کر سکا تھا۔

    چالیس سال کا عرصہ طوطوں کی ڈار کی طرح پھر سے اڑ کر ماضی کے افق کی کوکھ میں غائب ہوچکا تھا اور آج وہ اپنے گرد و پیش کو اس طرح حیران نگاہوں سے دیکھ رہا تھا، جیسے اس نے زندگی میں پہلی مرتبہ آنکھ کھولی ہو یا رِپ دان دِنکل کی طرح ایک طویل خواب سے بیدار ہوا ہو۔ اس کی حالت اس شیر خوار بچے کی سی ہورہی تھی جو شعور کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھ رہا ہو اور احساس کی ’’کھل جا سم سم‘‘ نے پلک جھپکنے میں چالیس چوروں کے عجیب و غریب غار کا سنگین پھاٹک اس کی آنکھوں کے سامنے کھول دیا ہے۔

    چند ماہ پہلے اسے دل کا دورہ پڑا تھا، جو اس قدر شدید تھا کہ ذرا سی غفلت بھی جان لیوا ثابت ہو سکتی تھی۔ بہترین ڈاکٹروں کی سر توڑ کوششوں اور قابل نرسوں کی رات دن کی دیکھ بھال کے نتیجہ میں اسے ایک دوسری زندگی نصیب ہوئی تھی اور کل ہی شام کو وہ ایک طویل عرصہ کے بعد شہر کے بہترین نرسنگ ہوم سے گھر واپس آیا تھا۔

    لان کے سامنے بجری کی سرخ روش پر دھوبن سر پر دھلے کپڑوں کی گٹھری لادے کمر لچکاتی ہوئی بنگلے کی طرف جارہی تھی۔ اس کی نگاہیں دھوبن کی لچکتی کمر کا تعاقب کرنے لگیں۔ حتی کہ دھوبن پٹاخ سے دروازے کے پٹ کھول کر شڑاپ سے اندر غائب ہو گئی۔ اس کے من میں ایک میٹھی سی ہوک اٹھی۔

    اس کا تصور پینتالیس سال پیچھے کی طرف پلٹا اور اس کے سامنے رادھیکا کا سڈول جوان سراپا لہرانے لگا۔ جب وہ کمر لچکاتی ہوئی چلتی پھرتی، اسے ایسا محسوس ہوا کرتا تھا کہ اس کا دل اپنے قدموں تلے مسلتی ہوئی جا رہی ہے۔ رادھیکا کا بھولا بھالا چہرہ اس کی آنکھوں کے سامنے ناچنے لگا اور ان سرد اندھیری راتوں کا جادو بانسری بجانے لگا، جب وہ دھڑکتے دلوں سے پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہوئے ایک ایک سیڑھی ٹٹول ٹٹول کر چڑھتے ہوئے کوٹھے پر پہنچ کر ایک دوسرے کا انتطار کیا کرتے تھے۔

    اس انتظار میں بھی کیسی میٹھی کسک ہوا کرتی تھی! جیسے کوئی من کو ہولے ہولے روئی کے گالوں کی طرح ملائم انگلیوں سے گدگدا رہا ہو۔ پھر ان کا سرگوشیوں میں باتیں کرنا۔ بالکل بے معنی سی، بےربط سی باتیں۔ لیکن ان بے ربط باتوں میں بھی کس قدر موسیقی ہوتی تھی جیسے اُفق کے اس پار کوئی چرواہا الغوزے بجارہا ہو۔ پھر ان کا پہروں بالکل خاموش بیٹھے رہنا۔ اس خاموشی میں بھی کس قدر تکلم پنہاں ہوتا تھا۔ پھر اس کا اندھیرے میں رادھیکا کا گول مٹول چہرہ ٹٹولنا اور اس کے چہرے کو اپنے ہاتھوں کے کٹورے میں سمیٹ کر اس کی خمار آلود آنکھوں پر اپنے ہونٹ رکھ دینا۔

    رادھیکا کی گرم گرم سانسوں کی مہک۔۔۔ اسے ایسا لگا جیسے وہ مہکار اس کے نتھنوں کے آس پاس ہی منڈلا رہی ہے۔ اس نے آنکھیں کھول دیں کہ شاید رادھیکا اس کے قریب بیٹھی اس کے گھنگھریالے بالوں کو سہلا رہی ہوگی۔ لیکن رادھیکا نہیں تھی۔ اس کی سانسوں کی مہک بھی نہیں تھی۔ اس کی خاموش نگاہوں کا تکلم بھی نہیں تھا۔ اس نے اپنے سر پر ہاتھ پھیرا کہ شاید رادھیکا کی انگلیاں اس کے گھنگھریالے بالوں میں پھنسی ہوں گی لیکن اس کا سر چٹیل میدان کی طرح صفاچٹ ہو چکا تھا۔ اس کا ہاتھ اس کی چندیا پر پھسلتا ہوا اس کی گود میں آرہا تو اسے احساس ہوا کہ ماہ و سال کی گردش نے اس کا چھریرا کسرتی بدن کھنڈر میں تبدیل کر کے رکھ دیا تھا۔

    چالیس سال دھن دولت بٹورنے میں وہ اس قدر مگن رہا تھا کہ اسے گردو پیش کا ہوش نہیں رہا تھا۔ اچٹتی ہوئی، بکھری بکھری سی یادیں خواب کے ٹکڑوں کی مانند ذہن کے گوشوں میں دلدلی تالاب میں موت سے ہم کنار مچھلیوں کی طرح تلملا رہی تھیں۔ ان مٹتی، سانس توڑتی نیم جان یادوں کے علاوہ اس کا ذہن ایک بےآب و گیاہ ریگستان کی طرح بن چکا تھا، جہاں سبزے کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا بھی نہیں تھا۔ برکھا کی ایک ننھی سی بوند بھی نہیں تھی۔ زندگی کا ہر ابھرا چمن تپتی ہوئی ریت کا صحرا بن چکا تھا۔

    اس نے شادی کی (رادھیکا سے نہیں) بچے پیدا کیے۔ بیوی بھگوان کو پیاری ہوئی، بچے بڑے ہوئے، ان کی شادیاں ہوئیں۔ ان کے بچے ہوئے۔ لیکن یہ سب واقعات جیسے حقیقت کی دنیا سے دور کسی گہری دھند میں لپٹے ہوئے گم سم سے گزر گئے کہ وہ دولت کمانے میں، سونے کا انبار لگانے میں اس قدر مصروف رہا تھا کہ اسے دنیا کے کسی کاروبار سے دلچسپی نہیں رہی تھی اور اگرچہ اب وہ لکھ پتی کہلاتا تھا، بڑے بڑے کاروبار، ملیں، عالی شان عمارتیں اس کی ملکیت تھیں، بڑے عالی شان بنگلے میں رہتا تھا۔ لیکن اس تگ و دو، اس دوڑ دھوپ کا نتیجہ یہ تھا کہ آج وہ دل کا مریض تھا۔

    زندگی کے لطیف جذبے، جوانی کی امنگیں، امنگوں کی خلش، ولولے، ترنگیں، چاہتیں، سب ہوا کے ایک نامعلوم جھونکے کی طرح اس کے پاس سے گزر گئے تھے اور اسے احساس بھی نہیں ہوا تھا اور آج وہ اپنے چاروں طرف اجنبی اجنبی نگاہوں سے تک رہا تھا اور حیران ہو رہا تھا کہ زندگی اس قدر حسین تھی۔ دنیا اس قدر رنگین تھی! اس کے چاروں طرف بہار انگڑائیاں لڑ رہی تھی۔ لیکن اس کی اپنی زندگی میں پت جھڑ اپنا بس گھولتی رہی تھی۔

    کچھ لوگ اس لیے بدقسمت کہلاتے ہیں کہ مسرتیں ان کے مقدر میں نہیں ہوتیں۔ لیکن وہ اس لیے بدقسمت تھا کہ مسرتیں اس کا تعاقب کرتی رہیں لیکن اسے پیچھے مڑ کے دیکھنے کی بھی فرصت نہیں تھی۔

    آیا اس کے منجھلے لڑکے کی سب سے چھوٹی لڑکی کو گود میں اٹھائے باہر پورچ میں آ کھڑی ہوئی تھی۔ لڑکی آیا کی گود میں اپنے آپ خوش ہو ہوکر پاؤں مار مار کر ہمک رہی تھی۔ سامنے درخت پر چہکتی ہوئی چڑیوں کو ہاتھ ہلا ہلاکر، چہک چہک کر بلا رہی تھی اور منھ سے طرح طرح کی آوازیں نکال رہی تھی۔

    وہ ابھی بیتی ہوئی ویران بہاروں کا سوگ منا رہا تھا، لیکن اب اس کے سامنے آنے والی بہاریں شہنائیاں بجا رہی تھیں۔ اس نے اپنے ذہن کو جھٹکا دیا اور تلخ یادوں کو، مردہ خوابوں کو کسی گہری قبر میں دفن کر کے دونوں باہیں پھیلاکران بہاروں کے استقبال کے لیے تیار ہو گیا۔

    اس نے ہاتھ کے اشارے سے آیا کو قریب بلایا اور بچی کو اس کی گود سے لے کر اپنی گود میں بٹھا لیا۔ منہ سے طرح طرح کی آوازیں نکال کر، چہرے کے عجیب و غریب زاویے بنا بناکر اسے ہنسانے لگا۔ پھر اس کے ننھے منے پیٹ پر اپنا منہ رکھ کر ہونٹوں سے تھرتھراہٹ پیدا کر کے اسے گدگدایا تو وہ خوشی سے چیخیں مارنے لگی۔ ادھ کھلی مٹھیوں کو زور زور سے ہوا میں لہرایا تو اس کی ننھی منی انگلیوں کی جکڑ میں اس کی مونچھیں پھنس گئیں۔ وہ کھینچتی رہی اور یہ اس انداز میں انھیں چھڑانے کی کوشش کرتا رہا کہ وہ انگلیوں کی گرفت سے آزاد نہ ہو سکیں اور وہ خوش ہو ہوکر پیار بھری ننھی منی سی، بےضرر سی گالیاں دیتا رہا۔ پھر اس نے اس کے ننھے سے سر کو اپنے سینے سے چمٹاکر اس کی پیٹھ پر ممتا بھرا ہاتھ پھیرتا رہا اور اسے ایک عجیب و غریب انجان سی مسرت کا احساس ہونے لگا۔ ایک ملکوتی سکون اس کی رگ رگ میں سرایت کرنے لگا۔ اس کے منہ میں مٹھاس سی گھلنے لگی، جیسے کوئی بوند بوند شہد ٹپکا رہا ہو۔

    پھر تھک کر اس نے بچی کو آیا کو دے دیا۔ آیا بچی کو لے کر واپس اندر چلی گئی۔ بچی اس کی گود میں مچلتی، کلکاریاں مارتی رہی۔ زور زور سے ہاتھ ہلاتی رہی۔ وہ بھی ہاتھ ہلا ہلاکر اسی طرح کی حرکتیں کر کر کے خوش ہوتا رہا۔

    بچی کے چلے جانے کے بعد کتنی ہی دیر تک خوشی کی لہریں اس کے جسم میں بجلی کی رَو کی طرح دوڑتی رہیں۔ اس کے چہرے پر مسکانیں مچلتی رہیں۔ چند ہی لمحوں میں وہ اپنے آپ کو اس قدر ہشاش بشاش محسوس کرنے لگا تھا، جیسے زندگی کی ساری خوشیاں اس کی جھولی میں آپڑی ہوں۔ ایسی خوشیاں جن کے سامنے اس کی ساری دولت کے انبار بھی ہیچ تھے۔

    اس نے ایک بھرپور انگڑائی لی اور ایک مرتبہ پھر اپنے گردو پیش کا جائزہ لیا۔ اس کا باغ رنگا رنگ پھولوں کا گہوارہ بنا ہوا تھا۔ اس کا باغ اس قدر خوبصورت تھا، آج تک اسے اس کا بھی احساس نہیں تھا۔ آم کی کونپلوں، گلاب کے پھولوں اور انار کی کلیوں کی مہک فضاؤں میں بہک رہی تھی۔ اس نے ایک گہرا سانس لیا، جیسے ساری مہک اپنے پھیپھڑوں میں بھر لے گا۔ ہر طرف ہریالی، مہک اور رنگوں کا راج تھا۔ ہواؤں سے جیسے موسیقی سی پھوٹ رہی تھی۔ فضا جیسے بارش کے بعد نکھری نکھری سی لگ رہی تھی۔ اس نے حیران ہوکر ایک مرتبہ پھر آنکھیں جھپ جھپائیں، چاروں طرف رنگوں، خوشبوؤں اور مسرتوں کی ہولی کھیلی جارہی تھی۔ آج اتنی ساری مسرتیں کہاں سے دبے پاؤں چلی آئی تھیں!

    لنچ کے بعد اس نے دو تین گھنٹے بھر پور آرام کیا اورجب وہ پوری طرح تازہ دم ہو گیا تو نرس ا س کے کہنے پر اسے کرسی پر بٹھاکر برآمدے میں لے آئی۔ سہ پہر کے قریب بچے اسکول سے آ گئے۔ کارپورچ میں رکی اور بڑے چھوٹے سب بچے شور و غل مچاتے ہوئے کار سے اترنے لگے۔ وہ برآمدے میں بیٹھا سب منظر دیکھ رہا تھا۔ اس نے ایک سرسری نگاہ سے اندازہ کر لیا کہ آٹھ دس بچے تھے۔ ان میں سے کئی کے نام بھی وہ نہیں جانتا تھا اور کچھ بچوں کو اگر وہ گھر سے باہر دیکھتا تو شاید انھیں پہچان بھی نہیں پاتا۔ اس نے ساری زندگی میں چند لمحے بھی بچوں کے ساتھ نہیں گزارے تھے۔ بہر حال اس کا سینہ فخر سے پھول گیا کہ وہ دس بارہ بچوں کا دادا ہے اور اس کے من میں بچوں کے لیے ممتا کا جذبہ لہریں مارنے لگا۔

    جب بچے برآمدے کے قریب پہنچے اور دادا جی کو برآمدے میں موجود پایا تو بڑے بچوں نے مڑکر منہ سے شی شی کی آواز نکالتے ہوئے اور منہ پر انگلی رکھ کر باقیوں کو چپ کرانے کے انداز میں سرگوشیوں میں کہا، ’’چپ کرو، دادا جی بیٹھے ہیں۔‘‘ سارے بچے سہم گئے اور ’’باادب با ملاحظہ ہوشیار‘‘ کے انداز میں فرش پر نظریں گاڑے گزرنے لگے۔

    ’’ارے بھئی! میں تمہارا دادا ہوں کوئی بھوت نہیں۔ ادھر آؤ۔ سب میرے پاس۔ آج سے تم سب آزاد پنچھی ہو۔‘‘ اس نے دونوں باہیں وا کرتے ہوئے چہرے پر مسکانیں بکھیرتے ہوئے کہا۔

    بچے چند لمحے اس طرح ٹھٹک کر کھڑے ہو گئے، جیسے انھیں اپنے کانوں پر اعتبار ہی نہ آ رہا ہو۔ لیکن دادا جی کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھی تو سب خدشے دور ہو گئے۔ بچوں کے من میں میل نہیں ہوتا، اس لیے وہ محبت بھری نگاہوں میں دوستی کے جذبے کو پڑھنے میں دیر نہیں کرتے۔ سبھی بچے اس کے گرد گھیرا ڈال کر کھڑے ہو گئے۔ وہ ان سے محبت بھری باتیں کرتا رہا۔ چھوٹے چھوٹے چٹکلے سناکر انھیں ہنساتا رہا۔ کتے بلی کی آوازیں نکال کر انھیں ہنساتا رہا اور سب بچے اس سے یوں گھل مل گئے جیسے برسوں سے دادا جان ان کے ساتھ اسی طرح پیش آتے رہے ہوں۔ وہ برسوں کا یہ دستور بھی بھول گئے تھے کہ دادا جان کی موجودگی میں کوئی بچہ اونچا سانس بھی نہیں لے سکتا تھا۔ دادا جان کی گھر میں موجودگی کے دوران بچے سہمے سہمے سے اپنے کمروں میں چھپے چھپے سے پھرتے تھے۔ گھر بھر میں موت کا سا سکوت چھایا رہتا تھا۔ لیکن اس کے ایک ہی قدم سے گھر کی سامنت وادی فضا بدل گئی تھی۔ سب بچوں کے چہرے خوشی سے تمتما رہے تھے۔ اس نے بچوں کو بتایا کہ رات کے کھانے کے بعد سب بچوں کو چاکلیٹ اور ٹافیاں ملیں گی۔ بچے خوشی سے تالیاں بجاتے اور اپنے کمروں کی طرف بھاگ گئے۔

    رات کے کھانے کے بعد سب بچے اس کے کمرے میں اکٹھے ہوئے، ان کے والدین بھی تھے۔ سب کے چہروں پر خوشیاں ناچ رہی تھیں۔ ایسا غیر رسمی اجتماع سب کی زندگی میں پہلی مرتبہ ہو رہا تھا۔ بچے چہک رہے تھے۔ بڑے بھی خوش تھے کہ ایسی خوش گوار فضا میں وہ پہلی مرتبہ سانس لے رہے تھے۔ دادا جی نے چاکلیٹ اور ٹافیاں منگوا رکھی تھیں۔ انہوں نے بچوں میں ٹافیاں اور چاکلیٹ تقسیم کیے۔ سب بچے خوشی خوشی ٹافیاں کھانے لگے۔

    ’’دادا جی، بےبی کو بھی ٹافی دو۔‘‘ ننھے رمیش نے اپنی شیر خوار بہن کی سفارش کی۔

    ’’بے بی کے ابھی دانت نہیں نکلے بیٹے۔ وہ کیسے کھائےگی؟‘‘ اس کی ممی نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔

    ’’بےبی کے دانت کب نکلیں گے ممی؟‘‘

    ’’وہ جب بڑی ہوگی تب اس کے بھی دانت نکلیں گے اور وہ بھی ٹافیاں کھائےگی۔‘‘ ماں نے اسے سمجھایا۔

    ’’ممی! دادا جی اتنے بڑے ہو گئے ہیں، ان کے دانت کیوں نہیں نکلے؟‘‘ معصوم رمیش نے بڑے بھولے پن سے دادا جان کے پوپلے منہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ رمیش کی بھولی بھالی بات سن کر وہ قہقہہ مارکر ہنسنے لگا۔ وہ ہنستا رہا، خوب زور زور سے۔

    ہنستے ہنستے ہی اچانک اس کے دل کی حرکت بند ہو گئی۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے