ایک پھول، ایک تتلی
بنجر زمین پر پھوار پڑے یا موسلا دھار بارش ہو، جب کونپل ہی نہیں پھوٹے گی تو پھر کلی کا چٹکنا معدوم۔ رضیہ چچی بس ایسی ہی ایک بنجر سی زمین تھیں۔
سوکھی ساکھی دھرتی کی طرح چچا کے قدموں کے تلے بچھی رہتیں۔ کٹے ہوئے کھیت کے سوکھے تھنٹھ بھی ہوتے تو کوئی دیکھ سمجھ کر قدم رکھتا کہ مبادا اپنا پیر زخمی نہ ہوجائے یا پھر زندگی کی رسمساہٹ ہی رہے۔ ننھے ننھے ہرے ہرے پودے ہرا ول کی طرح سنہھ تانے کھڑے ہوں تو پھر زندگی کو کچل دینا کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔ اس لیے اٹھنے والے قدم خود ہی پیچھے ہٹ سکتے تھے۔ لیکن رضیہ چچی تو بس سوکھا ساکھا جنگل تھیں۔ چوب خشک صحرا تھیں۔ قافلہ آگ ہی لگاتا تھا نہ روا نہ ہی ہوتا تھا۔ محرومیاں نیکی کا روپ دھار لیتی ہیں تو نیکیاں قابل رحم حد تک مجبوریوں کا پرتو معلوم ہوتی ہیں اور جب یہی مرحومیاں گناہ بن کر چھاتی ہیں تو بیچاری نیکی کو سر چھپانے کو آسرا تک نہیں رہتا۔
رضیہ چچی کی محرومیاں بس نیکی بن کر رہ گئی تھیں۔ ایسی نیکی جو خود نیکی سے خوف کھائے اور خاندان سارا اس نیکی پر مرمٹا تھا۔ خدمت، خدمت۔۔۔ خدمت۔۔۔ اپنے سے چھوٹوں کی خدمت کر رہی ہیں، برابر والوں کی خدمت کر رہی ہیں، بزرگ تو بزرگ ہی ٹھہرے۔۔۔ نہ ستائش کی پرو انہ صلے کی طلب۔ نیکی تقسیم ہورہی تھی۔ اب جس کے دامن میں جتنا گنجائش رہے سمیٹ لے۔ جس کی جھولی جتنی وسیع ہو بھرے اور چچا میاں نے سب سے زیادہ سمیٹا، سب سے زیادہ بھر لیا۔ رضیہ چچی کو چچا میاں کی جھولی بھر کر بڑی خوشی بھی تو ہوتی تھی۔ بڑا آنندبھی تو ملتا تھا۔۔۔ لیکن بقدر ہمت ہر ایک نے رضیہ چچی سے کچھ نہ کچھ لیا اور وہ بھی کس طرح۔ خود انھیں کچھ دینے کے بہانے۔
اور رضیہ چچی دنیا بھر کا دکھ درد سینے میں چھپائے بس نیکی بنی رہیں۔۔۔ اور دنیا کے ٹھاٹھیں مارتے بیکراں سمندر کی موجوں پر بس ڈولتی رہیں۔ غرق ہونے کا ڈر نہیں پار اترنے کی فکر نہیں۔
’’رضو چچی، دو روز ہمارے گھر چلئے نا۔ بس صبح سے شام تک کچھ نہ کچھ کیے جاتی ہیں، کبھی کبھی کوئی تبدیلی تو ہونی ہی چاہئے زندگی میں۔ اس طرح تو زندگی بجائے خود ایک ’’روز مرہ‘‘ بن جائے گی۔‘‘
’’اور پھر تمہارے چچا کو تکلیف ہوگی۔‘‘
بس لاکھوں سوالوں کا ایک جواب رضو چچی کے پاس کانسے کی گولی کی طرح ڈھلا ڈھلایا تیار رہتا۔۔۔ وہ جس سمت میں چاہتیں کھٹ سے اس گولی کو لڑھکا دیتیں۔
’’رضیہ۔۔۔ میری اچھی سی رضو بی بی۔۔۔ پانچویں کو مانجے ہیں، ساتویں کو مہندی، آٹھویں کو ساچق اور نویں کو جلوہ۔ دسویں کو چوتھی ہوگی۔۔۔ گیارہویں کو سورج کی کرنیں اپنے ہی گھر کی چہار دیواری میں اسی طرح محفوظ پاؤگی جس طرح آج چھوڑ جاؤگی۔۔۔ چلو بھی اب۔‘‘
موماں کو یہ نویں کے جلوے کی کیا سوجھی بھلا۔
اماں بی کو یہ یاد ہی نہ رہا کہ وہ جو الٹی سیدھی تاریخیں بتلا رہی ہیں ان میں جلوہ نویں کو آدھمکے گا۔ شادی تھی بھی دور۔۔۔ وہ چلی تھیں رضیہ چچی کو جل دینے۔۔۔ کسی نہ کسی طرح انھیں بہر حال اپنے گھر لے آنا تھا۔۔۔۔ وہ آجاتیں تو جیسے سارے گھر کی آسائشیں آجاتیں۔ دلوں کو اطمینان اور سکون حاصل ہوجاتا۔۔۔ سینے خوشیوں سے منور ہوجاتے، قلب گرما جاتے۔چہرہ دیکھو تو ازل کی بیمار معلوم ہوں لیکن اس ڈھنگ سے اس ڈھب سے ہنسی کا نقاب سارے چہرے پر ڈال رکھتیں کہ اندر کے کرب تک کسی کی کیا مجال جو پہنچ جائے۔ تقریب میں جاتیں، دکھ بیماری میں جاتیں، جہاں اور جس وقت جاتیں، اس طرح جاتیں جیسے خوشی سب کی ہو تو سب کی نہ ہوئی بس انہیں کی ہوئی۔ غم سب کا ہو تو سب کا نہ ہوا بس انھیں کا ہوا۔ایک دن آؤبھگت ہوتی۔۔۔ پھر سب کے سب یہ بھول بھال جاتے کہ بڑے چاؤ اور لگن سے بڑی محبت اور پیار سے انہیں لے آئے تھے کہ کچھ خاطر کریں، کچھ مدارات ہو۔
لیکن رضیہ چچی نے دیر و حرم کی ساری نیکیاں پلو میں باندھ رکھی تھیں۔ اب وہ آہستہ سے پلو کی گرہ کھولتیں اور اجالے سے بکھر جاتے۔ یہ اجالے سارے کے سارے ان کی ذات کے لیے بالکل نہیں تھے۔ وہ تو بس آنکھ بند کیے موتیوں کی طرح نیکیاں بکھیرتی تھیں۔۔۔ اجالے کردینے والوں نے انہیں صرف اندھیرے دیے۔ لیکن ان کے چہرے کی ہنسی نہ گئی۔ سو نہ گئی۔مضمحل سے چہرے پر، دکھتی ہوئی ہڈیوں پر، جھکی ہوئی کمر پر انہوں نے کبھی غم کی پرچھائیں پڑنے نہ دی، نہ محنت پر تھکن محسوس کی، نہ خاندان بھر کا بوجھ اٹھا لینے سے گریز کیا۔
صبح اٹھتیں، الٹی سیدھی پان کی گلوری منھ میں ٹھونس لیتیں۔ کمر اس طرح سیدھی کرتیں جیسے آنکھیں میچ کر طاقت کے انجکشن لگوارہی ہوں اور کام میں جٹ جاتیں۔۔۔ پھر سارے گھر والے مہمان بن کر بیٹھ رہتے۔ رضیہ چچی میزبان بنیں، ہر ایک کا خیال رکھتی پھرتیں۔’’اجو نے کھانا نہیں کھایا، ابو نے چائے نہیں پی۔۔۔ میاں کے لیےپانی تو گرم کردیا ہوتا بوا، وہ اب اٹھتے ہی ہوں گے۔ یہ ہانڈیاں آنگن میں ا س طرح کیوں پھیلا رکھی ہیں۔۔۔ الگنی پر یہ ڈھیر سے کپڑے یوں نہیں رکھ چھوڑتے۔ لاؤ میں سمیٹ لوں۔‘‘
’’ماما جی سن رہی ہو۔۔۔‘‘ لیکن ماما جی کان میں تیل ڈالے بیٹھ رہتیں۔ اور رضیہ چچی خود ہی سودے سلف کا حساب جوڑنے میں ماتھا پچی کرتی رہتیں۔بچے بالے تنگ کرتے سو الگ۔۔۔ مانئیں اڑن گھائیاں بتاتیں اور یہ سب کو بنٹتی پھرتیں۔ سب سے پہلے جاگتیں اور سب کے بعد سوتیں۔۔۔ سانجھ بھئی اجالے بکھیرنا او ررات گیے اندھیرے سمیٹنا۔
منوں بھاری مشین کا ایک پرزہ بھی ڈھیلا ہوجاتا تو ساری مشین ٹھپ ہوکر رہ جاتی لیکن رضیہ چچی ایسی مشین تھیں کہ کل پرزے جھڑتے رہیں۔ چول چول ہل کر رہ جائے۔ انجر پنجر ڈھیلا ہو جائے لیکن کسی کو کچھ خبر ہی نہ ہوتی اور کام برابر چلتا رہتا۔ بے تیل کا چراغ تھیں، بے موم کی باتی، لیکن جلتیں بڑے دھڑلے سے بڑے ٹھسے سے۔
آدمی اگر اپنے آپے کو اس طرح تج دے تو شاید دیکھنے والوں کا احساس بے طرح مٹ جاتا ہے۔۔۔ رضیہ چچی کو سبھوں نے اپنا لیا تھا اور رضیہ چچی نے سبھوں کے کام کواپنا لیا تھا۔ اس طرح یہ ایک دوسرے کو پیارے تھے۔۔۔ اب کون کس کو زیادہ پیارا ہوا۔ یہ آپ طے کیجئے۔
رضیہ چچی کو بنجر زمین کہنا زیادتی ہی نہیں ان کی توہین ہے۔ ایسی عورت جو خاندان بھر کے لیے صرف ابر رحمت نہیں، باران رحمت بھی ہو۔ ایسی عورت جس کے مزاج کے ٹھنڈے سائے نے اور مضمحل چہرے کی نرم دھوپ نے خاندان بھر کی کھیتی ہری کردی اس کی کوکھ سے نمی نہ پھیلے تو کیا، کونپل نہ پھوٹے تو کیا۔ لیکن یہ دکھ درد خاندان بھر کا تو نہ تھا۔۔۔ رضیہ چچی کا اپنا دکھ تھا۔ رضیہ چچی کا اپنا درد۔۔۔ رضیہ چچی کی اپنی خوشی کبھی کسی نے دیکھی نہیں۔ رضیہ چچی کا اپنا دکھ درد کسی نے بانٹ نہیں لیا۔
اسی لیے تو انہیں بنجر زمین کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں معلوم ہوتا۔۔۔ دو دو حمل ٹھہرے دونوں ہی ساقط ہوگیے۔۔۔ رضیہ چچی پھوٹ پھوٹ کر روئیں۔ بلک بلک کر تڑپیں لیکن مولا کی مرضی میں کون دخیل ہوسکتا ہے بھلا۔
’’پتہ نہیں میں کون گناہوں کا خمیازہ بھگت رہی ہوں۔‘‘
کبھی رضیہ چچی نے ایسی بات کی بھی تو کچھ اس انداز سے کی جیسے اپنے گناہ انھیں معلوم ہیں۔ اور پھر انہو ں نے کبھی ایسی بات کی ہی نہیں۔
کونپلیں ایک نہیں دوبار پھوٹی تھیں۔ ننھے ننھے پردوں کا روپ دھارنے سے پہلے سب کچھ خشک ہوگیا اور اس طرح ہوا کہ ساری دھرتی بنجر ہوکر رہ گئی۔
اب ان کی زندگی میں کوئی اجالے کی کرن تھی تو بس یہی کہ وہ خاندان بھر کی پیاری تھیں۔ چاہے جانے اور پسند کیے جانے کی خواہش آدمی کی فطرت ہے۔ پھر ایسے میں جب کہ اپنا کچھ بھی نہ رہے تو یہی دوسروں کی دی ہوئی محبتیں زندگی کے دکھ درد کو مسکراکر سہن کرنے میں بڑی مدد کرتی ہیں اور اس طرح رضیہ چچی کی محرومیاں نیکی بن بیٹھی تھیں۔
چچا میاں تو ان کے رکھوالے تھے ہی، اس سے بھلا کس کو ا نکار ہوسکتا تھا۔ لیکن رضیہ چچی نے چچا میاں کونہ صرف اپنی محبت دی، اپنا ایمان دیا، اپنی زندگی دی۔ معاوضے میں ان کی محبت تک نہیں مانگی۔ کچھ مانگا بھی تو وہ صرف چچا میاں کی خوشنودی تھی۔ اور بس۔چچا میاں خوش ہوجاتے تو رضیہ چچی کے حصے میں جیسے سارے جہاں کی نعمتیں سمٹ آتیں۔۔۔ وہ کسی معمولی سی بات پر بھی برا مان جاتے تو جیتی، جاگتی زندگی ہی میں جیسے ان کی سانسیں ان سے الگ ہو جاتیں۔
او رپھر بڑی چچی کی ہٹ دھرمیوں کو رضیہ چچی نے ہمیشہ یہ جان کر سہہ لیا جیسے ہر حق بڑی چچی ہی کا حق ہو۔۔۔ ان کا اپنا تو جیسے کچھ تھا ہی نہیں اور اگر کچھ تھا بھی تو اس طرح کہ چچا میاں کی خوشی ان کا سب کچھ، بڑی چچی کی خوشی ان کا سب کچھ، یہاں تک کہ بڑی چچی کے بطن سے چچا میاں کی جو اولاد تھی ان کی خوشی بھی ان کاسب کچھ تھی۔
بس رضیہ چچی کو یوں سمجھیے جیسے نیم کا بہت بڑا اور گھنا پیڑ ہوں۔
ننھی منی فاختائیں اس پیڑ کی شاخ پر آ بیٹھتیں تب بھی یہ پیڑ اپنے ٹھنڈے ٹھنڈے سایوں کی شانتی دے گا۔
موٹے تازے گدھ اس پیڑ کی شاخ پر آبیٹھیں تب بھی یہ پیڑ اپنے ٹھنڈے ٹھنڈے سایوں کی شانتی دے گا۔
نہ اچھو ں کی توصیف، نہ بروں کی تخصیص۔
اب جب کسی کا سب ہی کچھ دوسروں کی خوشی ہو تو وہ خود سے رہ ہی کہاں جاتا ہے۔ اس لیے سچ پوچھئے تو اب رضیہ چچی خود سے کچھ تھیں ہی نہیں۔
ایک دن بڑی چچی کسی بات پر برہم تھیں۔ چچا میاں کے تیور بھی کچھ ٹھیک دکھائی نہ دیتے تھے۔۔۔ ٹھنڈی جنگ یکایک بموں کے دھماکوں میں بدل گئی تو رضیہ چچی امن کا پیام لے کر دونوں کے درمیان کود پڑیں۔یہ ان کی زندگی کا پہلا اور آخری وقت تھا جو بڑی چچی اور چچا میاں کے پھیلائے ہوئے اندھیرے کو چھوٹا سا دیا لیے دور کرنے چلی تھیں۔ بڑی چچی کے پیچھے ایک دنیا تھی۔ بال بچے، ایمان، قانون سب ہی کچھ۔ مصالحت کرانے والا یہ تو نہیں دیکھتا کہ لڑتے ہوئے ہاتھوں کی قوت اس میں بھی ہے۔ وہ تو صرف اس سچائی کے بل بوتے پر آگے بڑھتا ہے جس کا نام محبت ہے، جس کا نام اجالا ہے، جس کا نام نیکی ہے۔
اور اگر کوئی اس محبت ہی کے منھ پر تھوک دے تو۔۔۔
اور اگر کوئی اس اجالے ہی کے منھ پر تھوک دے تو۔۔۔
اور اگر کوئی اس نیکی ہی کے منھ پر تھوک دے تو۔۔۔
اور بڑی چچی نے یہی کیا۔۔۔ کہنے لگیں۔۔۔ اپنے کو پہچانو رضیہ بی بی، نہ عقد، نہ نکاح، دعوے برابری کے ہیں۔۔۔ دو ہاتھی ٹکرائیں تو درمیان میں آنے والی چیونٹی، نہ دنیا کی رہے گی نہ دین کی۔۔۔ رضیہ چچی نے ادھر اُدھر آنکھیں گھماکر خاندان بھر کو اس طرح دیکھا جیسے کہہ رہی ہوں مجھے بلندیوں تک لے چلو، مجھے اوپر اٹھالو۔۔۔ دنیا تو میں نے اپنی محبت سے جیت لی ہے۔۔۔ میرا دین کہیں سے ڈھونڈ لاؤ۔۔۔ میں نے اپنے بچوں کو اس دنیا میں آنے سے قبل ہی اس لیے ختم کردیا کہ انھیں بھی ان کا دین نہیں ملے گا۔ ان کا خدا نہیں ملے گا۔
اب رضیہ چچی کو کون سمجھائے کہ جس سے ساری خدائی محبت کرے وہ اس سے بہت بڑا ہوتا ہے، جس سے صرف خدا محبت کرتا ہے۔
اور رضیہ چچی ایسی کوئی بات سمجھیں گی بھی تو نہیں اس لئے وہ تو بھٹکی ہوئی سی ایک نیکی بن کر رہ گئی ہیں۔۔۔ ایک ایسا روپ بن کر رہ گئی ہیں جو اپنا حق بھیک کی طرح مانگتا ہے۔
ایک پھول۔۔۔ ایک تتلی
چھولو تو اپنی خوشبو دے دے
چھولو تو اپنا رنگ روپ تج دے
نہ کانٹا بن کر چبھنا آئے۔ نہ ڈنک بن کر نشتر لگانا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.