جب بھی کوئی میرے ماضی کے تاروں کو چھیڑنے لگتاہے تو مجھ پرایک عجب سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے؟ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے میرے اندر ایک پھوڑا نکل آیا ہے جس کے اندر زہریلا مواد بھر گیا ہو۔ یہ پھوڑا ایک دہکتے انگارے کی مانند مجھے اندر ہی اندر جلاتا رہتا ہے، تڑپاتا رہتا ہے۔ میں اس پھوڑے کو دباکر اس میں سے یہ سارا فاسد مواد باہر نکال دینا چاہتا ہوں تاکہ مجھے اس پیڑا اور جلن سے نجات ملے۔
جب بھی میں یادوں کے جھروکے سے جھانک کر دیکھتا ہوں تو مجھے اپنے بچپن کے کچھ ایسے یاد گار پل یاد آ جاتے ہیں جنہیں یاد کرکے میری آنکھیں بھر آتی ہیں۔ ہائے وہ بچپن کے دن۔ کتنی بےفکری اور لاابالی پن کے دن تھے وہ۔ نہ کوئی فکر نہ غم۔ صبح ہوتی تھی تومیری آنکھ ان ننھے منے معصوم پرندوں کی چہکار سے کھل جاتی تھی۔ نہ جانے وہ کہاں سے اڑ کر آتے تھے اور پھر کھڑکیوں کے کھلے پٹ پر بیٹھ کر چہکنے لگتے تھے۔ اماں ان کی چہکار سن کر کچن سے نکل کر کھڑکی کے پاس آتی تھی اورپھر ان کے آگے دانہ دنکا پھینک کر واپس رسوئی میں چلی جاتی تھی۔ وہ اس دانے پر ایکساتھ ٹوٹ پڑتے تھے۔ کھاتے کم تھے لڑتے زیادہ تھے۔ آخر شکم سیر ہونے کے بعد وہ پھر کرکے اُڑ جاتے تھے۔ پھر وہ شام تک کہیں دکھائی نہیں دیتے تھے۔ مجھے ان سب پرندوں میں سے وہ دو رنگا بلبل پسند تھا جسکی چوٹی اور پنکھ مٹیالے رنگ کے تھے اور پیٹ کارنگ پیلا تھا۔ وہ ان سب پرندوں میں سے نرالا تھا۔ بابو جی جب صبح کھڑکی کے پاس بیٹھ کر ناشتہ کرنے بیٹھ جاتے تھے تو وہ عین اسی وقت یوں اڑ کے آ جاتا تھا جیسے وہ کب سے اسی گھڑی کے انتظار میں بیٹھا ہواور پھر وہ کھڑکی کے پٹ پر بیٹھ کر چہکنے لگتا تھا۔ وہ شاید بابو جی کو اپنی موجودگی کا احساس دلانا چاہتا تھا۔ بابو جی اپنے منہ میں روٹی کا ٹکڑا توڑ کر پہلے اسے چباتے تھے اور پھر اپنے منہ کھول دیتے تھے۔ وہ بلبل آکر بابوجی کے منہ سے وہ چبائی ہوئی روٹی کا ٹکڑا اپنی چونچ سے اٹھا لیتا تھا۔ یہ عمل بہت دیر تک جاری رہتا تھا۔ ہمیں ہمیشہ یہ کھڑکا لگا رہتا تھا کہ کہیں بابوجی کی زبان بلبل کی چونچ سے زخمی نہ ہو جائے، پر ایسا کبھی نہ ہوا۔ مزے کی بات یہ تھی کہ آج تک اس کی چونچ کا نشانہ کبھی چوکا نہیں تھا۔ وہ روٹی کا ٹکڑا اپنی چونچ سے اس خوبی اور مہارت سے اٹھا لیتا تھا کہ بابو جی کو پتا بھی نہیں چلتا تھا۔ بابو جی بڑے اطمینان سے بیٹھے رہتے تھے جب کہ ہمارا جی اوپر نیچے ہوتا رہتا تھا۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ وہ بابوجی کے سوا کسی اور کی روٹی نہیں اٹھاتا تھا اور وہ آتا بھی تب تھا جب بابو جی کھڑکی پر بیٹھے ہوتے تھے۔
برسوں میں نے بابو جی کو اس بلبل کو یوں ہی کھلاتے دیکھا۔ مجھے آج بھی یاد آتا ہے کہ وہ بابو جی کو دیکھ کر کیسے اپنا بھورے رنگ کاخم دار کلس ہلاتا تھا۔ یہ چوٹی اس کے غم، اس کی خوشی کا اظہار کرتی تھی۔ وہ جب خوش ہوتا تھا تو چہکنے کے ساتھ ساتھ وہ اپنی چوٹی بھی ہلاتا رہتا تھا۔ جب اداس ہو جاتا تھا تو بس اپنا کلس ہلاکر رہ جاتا تھا۔ بابو جی ان بےزبانوں کے ہر اشارے کو سمجھتے تھے۔
ان بلبلوں کے ساتھ یہ روایت بھی جڑی تھی کہ جب کوئی مہمان گھر میں چلا آتا ہے تو بلبل کو اُسکی آمد کی آگہی پہلے سے ہو جاتی ہے اور وہ گھر میں آکر چہکنے لگتا ہے جو اس بات کا عندیہ ہے کہ گھر میں مہمان آنے والا ہے۔ اُسکی پیش گوئی سولہ آنے درست ثابت ہوتی تھی۔ کبھی ایسا نہ ہوا کہ اس نے چہکا اور مہمان نہیں آیا۔ نہ جانے ان بلبلوں کو کہاں سے آگہی ہو جاتی تھی جو وہ مہمانوں کی آمد سے پہلے مہمانوں کے آنے کی خبر کر دیتے تھے یہ تو آج تک کوئی سمجھ نہیں پایا۔ کمال کی بات یہ تھی کہ وہ اسی گھر میں جا کے چہکنے لگتا تھا جہاں پر مہمان آنے والا ہو۔ کیا ایسے مواقع پر ان کی چھٹی حس متحرک ہو جایا کرتی تھی یہ اب تک کوئی جان نہ پایا تھا۔ ایک دن کی بات ہے۔ میں نے دیکھا کہ اس بلبل نے ہمارے ہی گھر کے سامنے ایک خوبانی کے پیڑ پر اپنا نیا گھونسلہ بنانا شروع کیا۔ اس کام میں اس کا نر بلبل بڑے شد و مد سے اس کا ساتھ دے رہا تھا۔ وہ یہاں وہاں سے تنکے اٹھا کر لاتے تھے اور پھر کمال مہارت سے ان تنکوں کو جوڑ کر ایک گھونسلہ بنا رہے تھے۔ میں نے اپنی ماں کو باہر بلا کر وہ گھونسلہ دکھایا اور پھر اس سے پوچھا۔
”اماں یہ بلبل نیا گھونسلہ کیوں بنا رہا ہے۔“
”یہ نیا گھونسلہ تبھی بناتے ہیں بیٹا جب یہ انڈے دینے والے ہوتے ہیں۔ وہ اس گھونسلے میں ان انڈوں کو سی لیں گے اور پھر ایک دن نئے چوزوں کا جنم ہوگا۔“
اماں کی بات کچھ دن بعد سچ نکلی۔ میں نے دیکھا کہ مادہ بلبل نے کئی انڈوں کو جنم دیا اور اب وہ ان پر بیٹھ کر انہیں سئیے جا رہی تھی۔ قدرت کا نظام جتنا نرالا ہے اتنا ہی پیچیدہ۔ اسے جتنا سمجھنے کی کوشش کی جائے اتنا ہی آدمی اسمیں الجھتا جاتا ہے۔ اب یہی دیکھئے نا کہ انڈے دینے سے پہلے پرندوں کے نئے گھونسلے بنانا۔ پھر مل کر بچوں کو جنم دینا۔ یہ باتیں انہیں کون سکھا دیتا ہے۔ جتنے دن بچے انڈوں سے باہر نہیں آئے نر بلبل، ہر پل اپنی مادہ کے ساتھ رہا۔ وہ جب دانہ دنکا چننے جاتی تھی تو نر اس کی جگہ انڈوں کی رکھوالی کرنے بیٹھ جاتا تھا۔ کتنا تال میل تھا ان دونوں کا آپس میں۔ وہ ماں اور باپ کا فرض بخوبی نبھا رہے تھے۔
کچھ ہفتے بیت جانے کے بعد دوچوزے انڈوں سے باہر آ گئے۔ روئی کے گالوں کی طرح ایک دم نرم و نازک۔ ماں باپ کو دیکھ کریہ ننھے چوزے گھونسلے میں غل مچائے رہتے تھے۔ نر اور مادہ باری باری ان کے لئے کھانا لے کر آتے تھے اور پھر وہ اپنی چونچ ان کی چونچ میں ڈال کر کھانا ان کے پیٹ میں ڈالا کرتے تھے۔ وہ تو جیسے جنم جنم کے بھوکے تھے۔ شکم سیر ہونے کے بعد بھی شور مچائے رہتے تھے۔ ماں باپ کو اُنہیں خوش رکھنے کے لئے بڑی مشقت کرنی پڑتی تھی۔
ایک دن کی بات ہے۔ صبح کا وقت تھا۔ میں اپنے کمرے میں لمبی تان کر سویا تھا کہ اچانک میں شور سن کے ہڑبڑا کر اٹھا۔ باہر کافی شور غوغا مچا ہوا تھا۔ میں ایک جست مار کر اُٹھا اور کھڑکی سے نیچے جھانکنے لگا۔ آنگن میں پورا پریوار ہی نہیں پاس پڑوسی بھی جمع ہو گئے تھے۔ مجھے لگا کہ کوئی ہنگامہ ہو گیا ہے۔ میں دروازے کی جانب لپکا اور پھر بجلی کی رفتار سے سیڑھیاں پار کرتا ہوا آنگن میں جا پہنچا۔ آنگن میں خوبانی کے پیڑ کے نیچے سبھی لوگ جمع تھے۔ میں بھی دیکھنے کے لئے آگے بڑھا۔ سامنے کا منظر دیکھ کر میرا دل دھک سے رہ گیا۔ کسی شرارتی لڑکے نے خوبانیاں توڑنے کی غرض سے پیڑ پر پتھر مارمار کر یہ گھونسلہ توڑ دیا تھا اور اس میں جو دو بلبل کے چوزے پل رہے تھے وہ اتنی اونچائی سے گرنے کے بعد مر گئے تھے۔ ان چوزوں کے ماں باپ اس صدمے سے جیسے پاگل ہو چکے تھے۔ وہ بد حواسی کے عالم میں اپنے ان مرے ہوئے چوزوں کے ارد گرد منڈھلا رہے تھے۔ ان بے زبانوں کی تڑپ دیکھ کر میری چھاتی پھٹی جا رہی تھی۔ انسان کتنا بےرحم اور سفاک ہے۔ اپنے زرا سے فائدے کے لئے کسی کا بھی آشیانہ اجاڑ دیتا ہے۔ بلا وجہ کسی کی زندگی فناکر دیتا ہے۔
ایک پڑوسی آگے بڑھا اور اس نے ان چوزوں کو ہاتھوں میں اٹھایا۔ دونوں تو مر چکے تھے۔ اس نے انہیں پھر سے نیچے رکھ دیا۔ دیواروں پر بیٹھے ہوئے کالے کوے کب سے گھات لگائے بیٹھے تھے۔ جونہی ہم وہاں سے ہٹے وہ ان چوزوں پر ایک ساتھ جھپٹ پڑے اور دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے ان دو چوزوں کی تکا بوٹی کر ڈالی۔ مادہ اور نر بلبل دور ایک ڈال پر بیٹھے اپنی بربادی کا تماشہ دیکھتے رہے۔ مجھے جب وہ منظریاد آتا تھا تو میں اپنا کلیجہ مسوس کر رہ جاتا تھا۔ ایک پل میں کیسے ان بےزبانوں کی دنیا اجڑ گئی۔ وہ نہ کسی کو اپنی فریاد سنا سکتے تھے نہ کسی کے سامنے اپنا دکھڑا رو سکتے تھے۔ وہ بس اپنا دردو الم اپنے ہی سینے میں چھپائے پھرتے رہے۔
بلبلوں کا وہ گھونسلہ اجڑنا بڑا منحوس ثابت ہوا۔ اس واقعے کے کچھ دن بعد شہر میں آگ لگی۔ ایسی بھیانک آگ جو بجھنے کا نام ہی نہ لے۔ اس آگ نے ہر ایک کو اپنے لپیٹے میں لے لیا۔ کاخ و کو کو ہی نہی بلکہ اُس ا ٓگ کی ذد میں بے زبانوں کے گھونسلے تک آ گئے۔ اس آگ نے سب کچھ جلا کر راکھ کر دیا۔ یہاں کا صدیوں پرانا معاشرہ بھی نفرت کی اس آگ کی چپیٹ میں آ گیا۔ لوگ مذہبی میں خانوں میں بٹ گئے۔ ہزاروں گھر جل کر راکھ ہو گئے۔ کتنے ہی کنوارے خواب ٹوٹے۔ کتنی ہی آرزوئیں مسلی کچلی گئیں۔ کتنے ہی ارمان دلوں میں ہی سلگتے رہ گئے۔ یہ بڑا ہی بھیانک دور تھا۔ اس دور میں ہر شے تہہ و بالاہوکر رہ گئی۔ کچھ بھی نہیں بچا۔ پیار نہ محبت۔ دوستی نہ بھائی چارہ۔ قرن ہا قرن سے چلی آ رہی قدریں پامال ہو گئیں، اس اندھکا ر میں ہم اس طرح ڈوب گئے کہ ہمیں اپنا وجوداس اندھیرے میں غرق ہوتا نظر آنے لگا۔ ہم نے بھی اپنا سب کچھ کھو دیا۔ ہمارا آشیانہ بھی ہم سے چھن گیا۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ انسان اپنی وحشی جبلت کو چھوڑ کیوں نہیں پاتا۔ وہ اپنی نفرتوں کا اپنی رنجشوں کا بدلہ اپنے ہی لوگوں سے کیوں لیتا ہے۔ وہ اپنی وحشت کا شکار انسانوں کے ساتھ ان بےزبان جانور ں کو کیوں بناتا ہے جب کہ ان کا ہماری ان رنجشوں ان عداوتوں اوران سیاسی نیرنگیوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
ہم گھر سے بےگھر ہونے کے بعد دلی کی گلیوں کا طواف کرتے رہے۔ ہمیں اتنے بڑے شہر میں سر چھپانے کی جگہ نہیں مل رہی تھی۔ یہ کتنا بڑا انسانی المیہہے کہ ایک انسان اپنے ہی ملک میں رفیوجی بن کر جی رہا ہے۔ سیاسی شعبدہ باز اپنا کھیل کھیلتے ہیں اور اس کھیل کا شکار ایک عام آدمی ہو جاتا ہے۔ ہم بھی انسانی عتاب کا ہدف بنے۔ گھر سے بےگھر ہونے کے غم نے بابوجی سے سب کچھ چھین لیا۔ ان کے مزاج کی شادابی۔ ان کے ہونٹوں کی مسکراہٹ، ان کے دل کا سکون۔ اس دن کے بعدمیں نے انہیں کبھی مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا۔ یہ غم انہیں اندر ہی اندر کھائے جا رہا تھا۔ ایک دن جب وہ سخت علیل ہو گئے تو ہم نے انہیں دلی کے ایک اسپتال میں بھرتی کرا لیا۔ وہ کافی بیمار تھے۔ ان کی آنکھیں پتھرا گئیں تھیں۔ میں اچھی طرح سے ان کی آنکھوں میں چھپا ہوا غم و اندوہ کا وہ طوفان دیکھ سکتا تھا جو وہ کتنے برسوں سے اپنے دل میں چھپائے بیٹھے تھے۔ ایک دن اُنہوں نے مجھ سے کہا۔
”مجھے اپنے گھر کی بڑی یاد آ رہی ہے۔ مجھے یاد آ رہی ہے ان بلبلوں کی جو مجھ سے کسقدر مانوس تھے کہ ہر صبح کواڑ کھلتے ہی وہ اڑ کے آ جاتے تھے اور پھر وہ کھڑکی کے پٹ پر بیٹھ کر مجھے اپنی مدھر چہکار سنا دیتے تھے۔ کتنے برسوں سے میرے کان ان کی چہکار سننے کے لئے ترس رہے ہیں۔ کیا تم مجھے بلبل کے دیدار کرا سکتے ہو۔ کیا ان کی مدھر چہکار مجھے سنوا سکتے ہو؟“
اپنی زندگی میں میں نے بابوجی کو کچھ دیا نہ تھا بلکہ ان سے لیا ہی لیا تھا۔ آج پہلی بار انہوں نے مجھ سے کچھ مانگا تھا جو کہنے میں بڑا حقیر سا لگ رہا تھا مگر حقیقت میں وہ کسی کوہ نور ہیرے سے کم نہ تھا۔ ہم لوگ دلی میں مقیم تھے۔ دلی کی پتھریلی زمین بلبلوں کے موافق نہ تھی۔ یہاں بھانت بھانت کے پرندے چرندے تھے مگر جو مجھے چاہیے تھا وہ نہیں تھا۔ یہاں پر بلبل کے دیدار کرنا آکاش سے تارے توڑ کر لانے سے کم نہ تھا۔ میں نے ان کی یہ آخری خواہش پوری کر نے کے لئے کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہ کیا۔ میں دلی کے گلی کوچوں میں گھوما۔ جہاں پر بھی کہیں کوئی پرندے بیچنے والا ملا میں اُس کے سامنے گڑگڑایا۔ اسے منہ مانگے پیسے دینے کا لالچ دیا مگر سب بےسود ثابت ہوا۔ سب کا یہی کہنا تھا کہ بلبل دلی یا اسکے مضافات میں ملنے سے رہے کیونکہ یہ جانور کشمیر میں ہی پایا جاتا ہے۔ یہاں بلبل کوپانا ہتھیلی پر سرسوں اگانے کے مترادف ہے۔ یہ بات میں بھی جانتا تھا کہ بلبل توصرف میرے کشمیر میں رہتے ہیں۔ اب حالات موافق ہوتے تو میں اپنے بابو جی کی خواہش پوری کرنے کے لئے وہاں سے بلبل پکڑ کر لے آتا۔ وہاں تو کشت و خون کا بازار گرم تھا، ایسے میں میں اپنی جان جھوکم میں کیسے ڈالتا۔ میں بابو جی کو دلاسے دیتا رہا، جب کہ میں یہ بات اچھی طرح سے جانتا تھا کہ یہ کار دادراوالا معاملہ ہے۔ ایک دن جامع مسجد کے ایک پنچھی فروش نے مجھے فون کرکے یہ بشارت دی کہ اس نے کشمیر سے ایک بلبل منگوا لیا ہے اور وہ آکر اسے لے جائے۔ پہلے تو مجھے اپنے کانوں پر اعتبار ہی نہیں آیا۔ میں نے دوبارہ اُس سے پوچھ کر بات کی تصدیق کی۔ جب اُسنے مجھے یقین دلایا کہ واقعی اس کے پاس بلبل آ گیا ہے تو میں فرط مسرتسے اچھل پڑا۔ میں نے ایک پل ضائع کئے بنا نیچے جاکر ایک ٹیکسی پکڑ لی اور ایک گھنٹے میں میں جامع مسجد کے علاقے میں کھڑا تھا۔ اس بندے کی دکان تلاش کرنے میں مجھے کوئی دشواری پیش نہ آئی کیونکہ میں اُس سے پہلے بھی کئی بار اسی سلسلے میں مل چکا تھا۔ وہ بڑی بےصبری سے میرا انتظار کر رہا تھا۔ وہ مجھے اپنی دکان کے پیچھے لے گیا۔ وہاں ایک پنجرے میں واقعی ایک بلبل قید تھا۔ میں نے جب اس ننھی سی جان کو دیکھا تو مارے خوشی کے میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ میں اس بلبل کو لے کر اپنے بابو جی کے پاس اڑ کر پہنچ جانا چاہتا تھا۔ دکان دار نے مجھ سے منہ مانگے پیسے وصول کئے اور چھوٹا سا پنجرہ میرے ہاتھ میں دیکر بولا۔
”اسے سنبھال کر لے جانا۔ کہیں غلطی سے بھی پنجرہ کھل گیا نا تو یہ اڑن چھو ہو جائےگا۔“
میں اس کا شکریہ ادا کرکے وہاں سے نکل پڑا۔ مارے خوشی کے میرے قدم زمین پر نہ پڑ رہے تھے۔ آخر میں نے اپنے بابو جی کی خواہش پوری کی تھی۔ میں راستے میں یہ سوچ کر شاداں و فرحاں ہوئے جا رہا تھا کہ جب بابوجی اس بلبل کے دیدار کریں گے تو وہ کتنے خوش ہونگے۔ آخر میں نے وہ کام کیا تھا جو ممکنات میں تھا ہی نہیں۔ یہی سوچتا ہوا جب میں اسپتال پہنچا تو یہ دیکھ کر میں دھک سے رہ گیا کہ گھر کے سبھی لوگ اسپتال کے باہر ایک ایمبولینس کے پاس کھڑے تھے۔ جونہی میں اپنی ماں کے قریب چلا گیا تو وہ ایک چیخ مار کر مجھ سے لپٹ گئی اور پھر کہرام مچ گیا۔ بابو جی کی لاش ایمبولینس میں پڑی تھی۔ وہ ہمیشہ میں عجلت میں رہتے تھے۔ اس بار بھی وہ عجلت کر گئے۔ میں نے ماں کو حوصلہ دیا اور پھر میں نے ایکطرف ہٹ کرپنجرے میں قید بلبل کی طرف دیکھا جو اس پنجرے میں کب سے پھڑ پھڑا رہا تھا۔ میں نے پنجرے کا منہ کھول دیا۔ بلبل نے ایک ساعت کے لئے میری طرف دیکھا اور پھر وہ اس پنجرے سے نکل کر اڑ گیا۔ بلبل آزاد ہو چکا تھا۔ بابوجی بھی بلبل کی طرح پنجرے سے آزاد ہو گئے تھے۔ میرے ہاتھ میں خالی پنجرہ تھا۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے بلبل کی جگہ میں اس پنجرے میں اسیر ہو کر رہ گیا ہوں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.