ایک تھا راجہ اور اس کی تھی ایک۔۔۔ لیکن ٹھہریے۔ راجہ اور رانی کی کہانی سنانے سے پہلے یاد دلادوں کہ آپ نے بھی میری طرح اور شاید سب کی طرح اپنے بچپن کے دنوں میں اپنی دادی اماں سے کسی نہ کسی راجہ کی کہانی سنی ہوگی۔
جی ہاں راجہ کی کہانی، ایک تھا راجہ اور اس راجہ کی ایک رانی۔۔۔ دیکھیے نا، جب بھی راجہ کا ذکر آتا ہے تو رانی کا وجود خود بہ خود ابھرتا ہے، جیسے رانی کے بغیر اس کا وجود ادھورا ہے۔ ٹھیک ہی تو ہے۔ دادی اماں سنایا کرتی تھیں کہ ایک تھا راجہ۔ اس کی تھی ایک بڑی سلطنت۔ سارے ملک میں اس کا سکہ اور حکم چلتا تھا۔ اسے ایک رانی کی تلاش تھی۔ اس نے حکم دیا کہ شہر کا دروازہ کھول دیا جائے اور اس دروازے سے جو عورت سب سے پہلے داخل ہوگی وہ راجہ کی رانی بنے گی۔ خدا جانے اس بات میں کہاں تک صداقت ہے، اب تو یہ بات بہت ہی پرانی نظر آتی ہے اپنی دادی اماں کی طرح۔۔۔
ذرا ایک لمحے کے لیے ٹھہریے اور میری طرف دیکھئے۔ جی ہاں میں بھی خوبصورت رہا ہوں۔ آپ نے ٹھیک ہی سوچا۔ یہ جو ریڈیو کے سامنے آپ تصویر دیکھ رہے ہیں۔ یہ میری ہی تصویر ہے۔ جی نہیں، جوانی کی نہیں، جوان تو میں اب بھی ہوں۔ یہ دوسری بات ہے کہ اب۔۔۔ لیکن یہ بات چھوڑیے نا۔ آپ تصویر میں جھانکیے، دیکھیے نا آنکھیں کس قدر خوب صورت نظر آتی ہیں۔ بادام کے شگوفے آپ نے ضرور دیکھے ہوں گے، بس میری آنکھیں ان شگوفوں سے ذرا خوب صورت تھیں اور میرا چہرہ لگتا تھا جیسے انار کے پھول کھل اٹھے ہوں اور ہونٹ۔۔۔ جیسے واٹ ۶۹ کی۔۔۔ ؟
ان دنوں میں شراب تو نہیں پیتا تھا اور اب میں شراب پی کر بہک رہا ہوں۔ بات راجہ کی ہو رہی تھی جسے ایک رانی کی تلاش تھی اور شہر کا دروازہ کھلا تھا تاکہ جو عورت۔۔۔
اور دادی اماں کہا کرتی تھیں کہ ایک روز بالکل سویرے جب کیکر کے پھولوں کی خوشبو نے سارے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا، ایک عورت۔۔۔ عورت یا لڑکی، بات ایک ہی ہے، حالاں کہ بات بہت بڑی ہے۔ عورت اور لڑکی۔۔۔ جی ہاں ایک عورت اس دروازے سے داخل ہوئی اور اس عورت کو دیکھ کر راجہ نے کہا، ’’میں پچھلے دس برسوں سے تمھارا انتظار کر رہا تھا۔ یہ شان و شوکت، یہ حویلیاں، یہ ہیرے جواہرات تمھارے لیے ہیں۔‘‘
عورت چونک پڑی۔ اس نے حیرانی سے راجہ کی طرف دیکھا۔ اس نے کئی بار اپنے ہونٹوں کو جنبش دینا چاہی مگر جانے کیوں ایسا نہ کر سکی، شاید راجہ کے جلال کا اثر تھا یا وہ ہیرے اور یاقوت اس کی نظروں کے سامنے گھومنے لگے تھے جن کے بارے میں اس نے کبھی سوچا تک بھی نہ تھا۔
لیکن اب تو یہ بات پرانی ہو چکی ہے۔ صدیوں پرانی۔ اب تو دادی اماں کو مرے ہوئے بھی کتنے سال ہو گئے ہیں۔ ان کی قبر کا لوح بھی مٹی تلے دب کر رہ گیا ہے لیکن ان کی نورانی صورت اب بھی میری آنکھوں کے سامنے لہک رہی ہے، جیسے وہ آج بھی اپنے مخصوص انداز میں کہانی سنا رہی ہوں۔
’’آج تم میرے لیے بسکٹ لائے؟‘‘
’’خاموش ہوجاؤ بے بی۔‘‘
’’مجھے پیسہ دو، میں بسکٹ خریدوں گی۔‘‘
’’بے بی۔‘‘
’’پیسہ!‘‘
آؤ۔ آج تمھیں ایک کہانی سناؤں گا۔۔۔ ارے تو بھاگ رہی ہے۔ کہانی نہیں سنوگی۔ اف! ان بچوں کو نہ جانے کیا ہو گیا ہے۔ انھیں کہانیاں سننے کا بالکل شوق نہیں۔ جیسے مجھے تھا اور اپنے بچپن اور لڑکپن کے دنوں میں اپنی دادی اماں کی گود میں سر رکھ کر کہتا، ’’دادی کہانی سناؤ۔۔۔‘‘ اور دادی کہتی، ’’ایک تھا راجہ اور اس کی۔۔۔‘‘
’’جی ہاں راجہ اور رانی کی کہانی۔‘‘
’’آؤ بے بی کہانی سنو۔‘‘
دادی کہتی تھی، ’’ایک تھا راجہ۔۔۔ بہت پہلے وہ راجہ نہیں تھا، ایک معمولی آدمی تھا، معمولی ملازم تھا۔ پھر ایک دن اس نے ملازمت چھوڑ دی اور اپنے حاکم کے خلاف بغاوت شروع کر دی۔ وہ قید ہوا۔ چھوٹ آیا۔ جلاوطن ہوا، لوٹ آیا، رعایا نے اس کا ساتھ دیا اور وہ مظلوم اور بے بس رعایا کار ہبربن بیٹھا۔ سلطنت رعایا کے ہاتھوں میں آ گئی اور وہ رعایا کا نیا راجہ بن گیا اور ایک ہی رات میں کتنے ہی لوگ دھرتی سے اٹھ کر آکاش کی بلند پر پہنچ گئے اور کچھ۔۔۔!
ڈاکٹر اپنے کہانی کار دوست سے کہہ رہا تھا، ’’تم نے کچھ سنا؟‘‘
کہانی کار نے نفی میں گردن ہلا دی۔
’’راجہ قتل کیا گیا۔‘‘
کہانی کار چونک اٹھا۔
’’اور۔۔۔‘‘
’’اور باغی راجہ بن گیا۔ انقلاب زندہ باد۔۔۔!‘‘
یہ کہانی کار کہاں سے آ ٹپکا؟
آپ اسے شاید نہیں جانتے لیکن میں اسے جانتا ہوں۔ اچھی طرح، ریڈیو کے سامنے اسی کی تصویر تو لٹک رہی ہے۔ وہ کہانی کار میرے من میں چھپا ہوا ہے۔
یہ جنگلی گلاب کس قدر خوبصورت ہوتے ہیں لیکن خوشبو نہیں۔۔ اور ساری کوٹھی میں گلاب کھلے ہوئے ہیں۔ ایک سے ایک بڑھ کر، ایک سے ایک خوبصورت، لیکن کوئی خوش بو نہیں۔
’’ارے تم رو رہی ہو، تمھاری بہن کی شادی ہے آج اور اس خوشی کے روز رونا برا شگون ہے۔‘‘
سسکیاں!
’’تمھارا کہانی کار جب بڑا آدمی بنے گا تو میں تمھاری شادی اس سے کروں گی۔‘‘
’’لیکن محبت۔‘‘
’’محبت سے مجھے نفرت ہے۔ مجھے اس کوٹھی سے محبت ہے جس کی ہر سیڑھی سنگ مرمر کی بنی ہوئی ہے اور جس کے ہر کمرے میں ایرانی قالین بچھے ہوئے ہیں اور۔۔۔‘‘
آنسو تھم گئے ہیں۔
غم اور پریشانی کے اظہار کے لیے آنسوؤں سے بڑھ کر کسی چیز کا سہارا نہیں ہو سکتا۔
’’او کریما! سالن جل گیا ہے۔‘‘
’’ممی کہاں جل گیا سالن؟‘‘
’’تو کون ہوتی ہے اس حرام زادے کی وکالت کرنے والی۔‘‘
یہ سالن نہیں جلا ہے۔ کہانی کار کا دل جلا ہے۔
’’ویٹر۔۔۔ ایک بڑا وہسکی۔ میرا دل جل گیا ہے، میں وہسکی پی کر ایک کہانی لکھنا چاہتا ہوں اور اس کہانی کا عنوان ہوگا ایک تھا راجہ۔ نہیں نہیں میں راجہ کی کہانی نہیں لکھوں گا۔ راجہ مجھ سے میری دو سو روپے کی نوکری چھین لےگا اور میرے بوڑھے ماں با پ بھوک سے مر جائیں گے۔ میری بہن کے کتنے ہی ان دیکھے خواب ادھورے رہ جائیں گے۔‘‘
اے گلاب کے پھول، تو کیا اداس ہو گیا ہے۔ تیرا رنگ تو سرخ ہے اور سرخ رنگ سہاگ کا رنگ ہوتا ہے، حرارت اور تازگی کا رنگ ہوتا ہے۔
دیکھ رات جھک رہی ہے۔ وہ آرہا ہوگا۔ تمھارے لیے نئی نئی ساڑھیاں لائےگا۔ خوب صورت خوب صورت کپڑے لائےگا۔ تمھارے حسن میں تازگی پیدا کرنے کے لیے خوشبو خرید لائےگا۔ تو ایک پھول ہے رات کی رانی کا۔۔۔ وہ راجہ ہے۔ اس کا حکم چلتا ہے۔ اس کے اشارے سے امیر فقیر اور فقیر امیر بن جاتے ہیں۔
یہ سنگمرمر کی کوٹھی، یہ ایرانی قالین اس کے ہونٹوں کی ایک جنبش سے وجود میں آتے ہیں۔
یہ ہیرے یہ یاقوت سب کچھ خرید سکتے ہیں!
کہانی کار کی محبوبہ۔
کہانی کار کی کہانیاں اور۔۔ اور۔ ۔۔!
آؤ میں تمھارا ہاتھ دیکھوں گا۔ تمھارے ہاتھ کی ریکھائیں بتاتی ہیں کہ۔۔۔
’’یہ سب جھوٹ ہے۔ ہاتھ کی ریکھائیں بتاتی ہیں کہ میں بڑا آدمی بنوں گا۔ مجھے میری محبت ملےگی۔۔۔ لیکن تم نے کبھی میری روح کو مرجھائے ہوئے دیکھا۔ تم نے میری زندگی کو کراہتے ہوئے دیکھا؟‘‘
’’ایڈیٹ تم نے یہ فائل پر کیا لکھ دیا ہے۔ یہ رانی کون ہے؟ یہ حلیمہ کون ہے؟‘‘
’’بھول ہو گئی صاحب۔ معاف کر دو۔‘‘
’’یہ کافی ہاؤس نہیں ہے کہ تم اپنی کہانیوں کے کرداروں کو Discuss کرلو۔‘‘
کہانی کے کردار۔۔۔ حلیمہ۔۔۔ رانی!
دادی اماں تم نے کسی رانی کو تپ دق سے مرتے ہوئے نہیں دیکھا ہوگا، البتہ تم نے ضرور کسی حلیمہ کو مرتے ہوئے دیکھا ہوگا۔
سینی ٹوریم سے خط آیا ہے۔ حلیمہ کو دوائی کے لیے پیسے کی ضرورت ہے اور کہانی کار کی کہانیاں اسے پیسہ نہیں دے سکتیں۔ وہ دوائی نہیں خرید سکتی۔ ایک شام جب برف گر رہی ہوگی، وہ مر جائےگی اور پھر برف کی قبر بنےگی۔
اپنی رانی کے لیے سنگ مرمر کی کوٹھی بنانے والے راجہ کیا تو میری بہن کے لیے دوائی کا انتظام نہیں کر سکتا۔ وہ جینا چاہتی ہے۔ وہ ابھی مرنا نہیں چاہتی۔ وہ بابل کے گیت سنانا چاہتی ہے۔ اپنے نرم و نازک ہاتھوں پر منہدی لگانا چاہتی ہے۔
’’تم راجہ ہو۔‘‘
’’ملک کے۔‘‘
’’اور میرے۔‘‘
’’غلام ہو۔‘‘
’’تم خاموش کیوں ہو گئیں۔ آؤ میرا ہاتھ مضبوطی سے تھام لو۔ آؤ آج دور برف پوش پہاڑوں پر چلے چلیں جہا ں ہماری ملاقات کی گھڑیاں گننے والا کوئی نہ ہو۔‘‘
’’میرا دل دھڑک رہا ہے۔‘‘
’’اسے دھڑکنے دو۔ تمھاری یہ دھڑکنیں مجھے زندگی کا پیغام دیتی ہیں۔‘‘
’’لیکن؟‘‘
’’میں نے تمھارے لیے رسوائی مول لی۔ بدنامی خرید لی۔‘‘
’’اور میں۔۔۔ ؟‘‘
دیکھ رانی، راجہ سے یہ نہ کہنا کہ تم نے سنگ مرمر کی کوٹھی کے لیے، قیمتی ساڑیوں، یاقوت اور ہیرو ں کے لیے اپنی محبت کو فروخت کر ڈالا۔
’’آج کی رات کس قدر خوب صور ت ہے۔ آج میں اپنے سر پر سنہری کرنوں کا تاج رکھ کر تمھارے سامنے سنگ مرمر کے فرش پر بچھے ہوئے سرخ قالین پر بیٹھ کر اولڈ اسمگلر کی پوری بوتل ختم کر دوں گا۔‘‘
’’شراب منگاؤ۔‘‘
’’نہیں ہے۔‘‘
’’پوری بوتل رکھی تھی۔‘‘
’’تمھاری غیر حاضری میں کرن اور پورن نے تمھاری صحت کے لیے چند جام ٹکرائے۔‘‘
’’کمینے راجہ کی شراب پیتے انھیں شرم نہ آئی۔‘‘
’’راج!‘‘
’’جناب۔‘‘
’’شراب ختم ہو گئی ہے۔‘‘
’’جناب!‘‘
’’کیا جناب جناب کر رہے ہو۔ جاؤ شراب لاؤ۔ آج مابدولت رانی کے ہاتھوں ساری رات شراب پیتے رہیں گے۔ کل مابدولت کی سال گرہ ہے۔‘‘
’’کون سی؟‘‘
’’سترویں۔‘‘
’’میری بھی ہے۔‘‘
’’تیئسویں۔‘‘
’’---؟‘‘
’’ہم کل مل کر سال گرہ منائیں گے۔‘‘
سترویں!
’تیئسویں۔‘‘
اشوکا بار میں اس کا دوست کہانی کار سے کہہ رہا تھا، ’’میں سوچ رہا ہوں کیا دولت اور اقتدار کے لیے لوگ اس حد تک بھی جا سکتے ہیں۔‘‘
آج کی تازہ خبر۔۔۔
لڑکی والوں نے دولھن دینے سے انکار کیا۔
کل رات شہر میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہوا، جب لڑکی والوں نے دولھا کے ساتھ دولھن بھجوانے سے انکار کیا۔ کیوں کہ دولھا چالیس سال سے زیادہ عمر کا تھا اور دولھن صرف سولہ سال کی۔
اے نیلی اور سنہرے بالوں والی لڑکی، تمھیں دکھ ہے کہ تمھاری شادی پچاس سالہ آدمی سے کیوں کر دی گئی۔ تو رو رہی ہے اور تیرے ساتھ ساری دھرتی رو رہی ہے۔ یہ پہاڑی پھول، یہ پہاڑی چاندنی اور یہ پہاڑی ہوائیں روتی ہیں۔ نہ جانے کس کی جستجو میں رو رہی ہیں۔ کون ہے وہ! کہاں ہے وہ!
اشوکا کے چکنے سپید فرش پر ناچنے والی لڑکی تو عظیم ہے۔ مقدس ہے۔ جب تو رقص کرتی ہے تو میرا سر جھک جاتا ہے احترام سے، اس لیے کہ تم عظیم ہو اور اس لیے کہ تم میں اور سنگ مرمر کی کوٹھی میں رہنے والی عورت میں بہت فرق ہے۔ تم سیکڑوں نظروں کے سامنے اپنے فن کا مظاہرہ کرتی ہو اور کوٹھی میں رہنے والی تیئس سالہ عورت ستر سالہ بوڑھے کے اشارے پر عریاں ہو جاتی ہے۔ رقص کرتی ہے اور جب رقص کر کے تھک جاتی ہے تو اس کے سینے پر سر رکھ کر کہتی ہے، ’’تم میرے تخیل سے بھی زیادہ خوب صورت ہو۔ تم میرے اس خواب کی تعبیر ہو جو صدیوں پہلے میں نے دیکھا تھا۔‘‘
’’دادی اماں! تم رک کیوں گئیں؟ آگے سناؤ نا؟‘‘
’’اب سو جاؤ میرے بچے!‘‘
’’نہیں پہلے کہانی ختم کرلو۔‘‘
پھر پھول نے اپنی پنکھڑیوں کو سمیٹا اور اس حقیقت کو پہچان لیا کہ وہ بے رس او ربے خوشبو رہ گیا ہے۔
سونے اور چاندی کے سکوں نے پھول کی خوشبو خرید لی۔
ایک زعفرانی رنگ کی فیٹ کار نے راتیں خرید لیں۔
ریڈیو بند کر دو۔ لتا سے کہہ دو کہ وہ خاموش ہو جائے،
نیند اس کی ہے دماغ اس کا ہے راتیں اس کی ہیں
جس کے بازو پر تری زلفیں پریشاں ہو گئیں
میں اپنے دل کے تاروں پر انگلیاں رکھنا چاہتا ہوں جو مجھے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بے خود کردے تاکہ پھر کسی کہانی کار کی محبوبہ سنگ مرمر کی کوٹھی، چاندی اور سونے کے سکوں اور زعفرانی رنگ کی فیئٹ کار کے لیے اسی کی محبت کو فروخت نہ کر دے۔
مرد جس زمین پر آگ برساتا ہے، عورت اسی زمین پر محبت اور ا من کے شگوفے کھلاتی ہے۔ وہ ازل سے زندگی کو سنوارتی آئی ہے۔ راجہ کی رانی بھی کبھی عورت تھی۔ اس نے اپنے خوابوں میں ایک گھر بسا رکھا تھا۔ وہ محبت اور تعمیر ی زندگی کی راہ پر جانا چاہتی تھی۔ وہ اپنے کہانی کار کے لیے چھوٹے چھوٹے تحفے اس کے کمرے میں رکھ آتی تھی۔ اس کے کاڑھے ہوئے تکیہ کے غلافوں پر سر رکھ کر وہ اپنی نئی کہانیوں کے تانے بنتا۔۔۔ تب شہر کا دروازہ نہ کھلا تھا۔ راجہ کو رانی کی تلاش نہ تھی اور وہ خود رانی نہ بنی تھی بلکہ کہانی کار کے گھر کے آنگن میں محبت اور امن کے شگوفے کھلانے والی لڑکی تھی۔
پھر ایک طوفان آیا۔ ایک زبردست آندھی چلی۔ شہر کا دروازہ کھل گیا۔ اِس پار کہانی کار تھا، اس کی کہانیاں تھیں۔ اس پار سنگ مرمر کی کوٹھی تھی، ایرانی قالین تھے، زعفرانی رنگ کی فیئٹ کار تھی۔۔ اور پھر کہانی کار کی محبوبہ راجہ کی رانی بنی۔ کہانی کار مر گیا۔ اس کی محبت سنگ مر مر کے نیچے دفن ہو گئی۔
دادی اماں تم بھی کب کی مرچکی ہو۔ تمھاری کہانی بھی مر چکی ہے۔
سگریٹ سلگا لو!
اب رات اتر رہی ہے اور جب رات اترتی ہے تو میرے دل کی تنہائی کا ہر درد جاگ اٹھتا ہے اور سوچتا ہوں کہ یہ رات کب ختم ہوگی اور پھر خود ہی سوچتا ہوں کہ یہ رات کبھی ختم نہ ہو، تا کہ شہر کا دروازہ نہ کھولا جائے اور شہر میں داخل ہونے والی کوئی عورت کسی راجہ کی رانی نہ بنے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.