ایک اور داؤ
الف انار۔۔۔ ب بکری۔۔ پ پنکھا۔
طالب علم قاعدے پر جھکے جھوم جھوم کر اپنا سبق دہرا رہے تھے۔ آدھی چھٹی ہوئی تو مٹھو سکول میں موجود تالاب پر بیٹھااپنی تختی پوچ رہا تھا۔ گاچی لگا کر اس نے تختی کلاس روم کی دیوار کے ساتھ دھوپ میں کھڑی کر دی اور خود پیٹو گرم کھیلنے لگا۔ سکول کی گھنٹی بجی تو اس نے تختی اٹھائی۔ کوئی اس کی تختی پرسیاہ روشنائی انڈیل گیا تھا۔ وہ ماسٹر صاحب کے سامنے رونے لگا۔
’’روتا کیوں ہے ابے۔‘‘
’’ماسٹر جی کسی نے میری تختی پر سیاہی پھینک دی ہے۔‘‘
کلاس میں موجود چار پانچ لڑکیاں کھی کھی کر کے ہنس رہی تھیں۔ ماسٹر صاحب نے عینک کے موٹے شیشوں سے جھانک کر انہیں دیکھا۔
’’کس کی شرارت ہے۔؟‘‘
ساری کلاس چپ۔!
ماسٹر صاحب اپنی سٹِک اٹھا کر کلاس میں گھومنے لگے۔ انہوں نے ایک لڑکی کو کندھے سے پکڑ کر اٹھایا۔
’’شمائلہ۔‘‘
’’جی ماسٹر جی۔‘‘ شمائلہ سہم گئی۔ اس کی دونوں ہتھیلیاں کالی تھیں۔
’’ماسٹر جی پھر نہیں کروں گی۔‘‘
باوجود غصے کے ماسٹر صاحب شمائلہ کی معصومیت پر مسکرا کر رہ گئے۔ چھٹی کے بعد وہ اس کا منہ چڑا کر بھاگ گئی۔ شمائلہ ایک بڑے زمین دار کی بیٹی تھی۔
پرائمری کے بعد سکول الگ ہو گئے لیکن شمائلہ مٹھو کو کہیں نہ کہیں نظر پڑ جاتی۔ وہ مسکرا کے گزر جاتا۔ آنکھوں میں مٹھاس تو تھی لیکن کوئی پیغام نہیں تھا۔ بچپن کی چھوٹی چھوٹی یادیں جمع کرتے اس نے میٹرک کر لیا لیکن میٹرک کے بعد وہ تعلیم جاری نہ رکھ سکا اور باپ کے ساتھ ہل کی ہتھی تھام لی۔ زمین کا سینہ چیر کر وہ اپنے حصے کا رزق کھوجتا۔ وہ انتہائی جفاکش تھا، محنتی اور دیانت دار۔
اس روزفضا میں حبس اور گھٹن تھی۔ پرندے تپتی دوپہر میں چونچیں کھولے ہانپ رہے تھے۔ نہروں میں پانی سوکھ گیا تھا۔ ہر ذی روح بے چین تھا۔ حبس میں سانس کھینچنا مشکل ہو رہا تھا۔ غلاما اور اس کے بیٹے بیل روک کے درختوں کی چھاؤں میں آرام کر رہے تھے۔ بیل ایک درخت کے ساتھ باندھ کے وہ پوٹلیاں کھولے روٹی کھانے کی تیاری کر رہے تھے..... مٹھو اب کڑیل جوان تھا۔ بانکا سجیلا، درمیان سے مانگ نکالے، کندھے پر چادر ڈالے، آنکھوں میں سرمے کی لکیر اور کشادہ پیشانی کے ساتھ وہ اپنے گاؤں میں سب سے منفرد نظر آتا۔ کبڈی اس کا پسندیدہ کھیل تھا۔ لنگوٹ باندھ کے اترتا تو مقابل کو اس کے کسرتی بدن پر قابو پانا مشکل ہو جاتا۔۔۔ پالی پالی کی آواز نکالتا وہ کبڈی کے دوران جب مخالف رِنگ میں داخل ہوتا تو مد مقابل کو چیتے کی سی پھرتی سے ہاتھ لگا کے لوٹ آتا۔
اس کے باپ نے ہل روک کر کہا۔
’’کبڈی کے مقابلے کی کوک دور تک سنائی دے رہی ہے۔ تیاری رکھنا جوان۔۔۔‘‘
’’باباسائیں تو فکر نہ کر۔‘‘
وہ ایک معمول کا دن تھا۔ تانگے پر عصر کے بعد کبڈی کا اعلان ہو رہا تھا۔
’’حضرات آج عصر کے بعد ہاکی گراؤنڈ کے ساتھ کبڈی کا زبردست مقابلہ ہو رہا ہے۔ توتی لوہار نے مٹھو کو للکارا ہے۔‘‘ تانگہ ہچکولے لیتا گلیوں میں دھول کے ساتھ ہونے والی للکار کی خبر بھی پھینکتا جا رہا تھا۔ مٹھو نے آئینے میں اپنے سرسوں سے چپڑے بالوں کو دیکھا، مونچھوں کو ہلکا سا تاؤ دیا۔ انگڑائی لے کر اس نے بازو ڈھیلے چھوڑ دیے۔ پلٹ کر دیکھا تو اس کا باپ غلاماں اسے گھور رہا تھا۔
’’ابا۔۔۔ خیر تو ہے۔۔۔۔‘‘ اس نے مونچھوں سے ہاتھ ہٹاتے ہوئے کہا۔
’’پتر۔۔۔ گاؤں کی عزت کا سوال ہے۔ سوچ لے۔‘‘
’’ابا تو فکر کیوں کرتا ہے۔ اللہ مالک ہے۔ گاؤں کا شملہ اونچا ہی رہےگا۔‘‘
’’کبڈی دیکھنے عورتیں بھی تیار بیٹھی ہیں۔۔۔‘‘ اس کے باپ نے کہا۔
’’ہمارا تو یہ رواج نہیں ہے۔‘‘
’’سنا ہے چودھری کی دھی نے کبڈی دیکھنے کی ضد کی ہے۔ گاؤں والوں نے الگ ٹینٹ لگا کر انتظام کیا ہے، گاؤں کی عورتیں بھی تیار بیٹھی ہیں۔ مقابلہ کانٹے دار ہے۔ ‘‘
عصر سے پہلے ہی پنڈال میں لوگوں کی آمد شروع ہو گئی۔ برف کے رنگین گولے بنانے والے اپنی ریڑھیاں دھکیلتے وہاں آ پہنچے۔ تربوز والے نے چار بانسوں پر چادر تان کے تربوز ڈھیر کر دیے۔ شربت والی ریڑھیاں بھی گھنٹیاں بجاتی آ پہنچیں۔ وہاں میلہ لگ گیا۔
حالانکہ ملک میںآئے روز کے خود کش دھماکوں نے کروڑوں شہریوں کے چہروں سے خوشی نوچ لی تھی۔ تفریح قصہ پارینہ ہو چکی تھی۔ ہر شہری راستے میں، بھیڑ کے درمیان، مسجد اور بس میں، ہر جگہ ہراساں تھا۔ وہ بھول گیا کہ وہ کبھی کھل کے ہنسا بھی تھا۔ گاؤں بھی محفوظ نہیں تھے۔ کسی جگہ کسی لمحے آگ برس سکتی تھی۔
پنڈال میں لگے سپیکر علاقائی موسیقی اگل رہے تھے۔ پنڈال بھر چکا تھا۔ گاؤں کے چودھری اکڑے شملوں کے ساتھ پنڈال میں اپنے اپنے صوفوں پر براجمان تھے۔ غلاما پنڈال کی مشرقی سمت ایک کرسی پر زیر لب کوئی ورد کر رہا تھا۔ آس پاس کے گاؤں سے بھی لوگ پہنچ چکے تھے۔ کسی کو خبر نہیں تھی کہ لاہور اور اسلام آباد میں خود کش بمباروں نے پچاسی نوے بے گناہ انسانوں کو خون میں نہلا دیا ہے۔ خودکش بمبار جنت میں پہنچا، یا نہیں پہنچا، زمین پر کئی گھر اجاڑ گیا۔ پنڈال میں ڈھول اور شہنائی کی سریلی آواز نے سماں باندھ دیا۔ پہلے چند بانکے نوجوان میدان میں اترے اور اپنے جوہر دکھا کر ٹینٹ کے نیچے سانس بحال کرنے کو آ بیٹھے۔ لوگ چہ مگوئیاں کر رہے تھے کہ عورتوں کے ٹینٹ میں گاؤں کے چودھری کی بیٹی جو کالج پڑھتی ہے وہ بھی کبڈی دیکھنے آئی ہے۔ سب سانسیں روکے مٹھو اور توتی لوہار کا پیچ دیکھنے کے منتظر تھے۔ توتی لوہار بھی ایک گٹھے ہوئے بدن والا نوجوان تھا۔ اس کے بازو پر چمڑے میں منڈھا تعویذ بندھا تھا۔
گرمی سے شمائلہ بے چین ہو رہی تھی۔
’’ابا سے کہنا تھا کہ پہلے مٹھو کا مقابلہ رکھ لیتے تو گرمی میں تو نہ مرتی۔۔۔۔‘‘ ٹشو سے پسینہ پونچھتے اس نے نوکرانی سے کہا۔
’’میں پنکھا جھلتی رہوں گی۔ بی بی جی آپ سکون سے کبڈی دیکھو۔۔۔‘‘ اس نے ہاتھ والے پنکھے کو تیز تیز گھمانا شروع کر دیا۔
’’پنکھا پھر جھلنا، کسی کو کہو مجھے برف کا ایک رنگین گولہ لا دے۔‘‘
’’بی بی جی اس گولے میں چینی کی بجائے سکرین ڈالتے ہیں آپ نہ لیں جی۔‘‘
’’دفعہ ہو۔۔۔ وہ کر جو میں نے کہا ہے۔‘‘
’’جی بی بی جی۔۔۔‘‘
برف کا گولہ چوستے ہوئے شمائلہ نے اپنی ساتھ بیٹھی سہیلی سے کہا۔
’’ایک بات کہوں۔‘‘
’’کہو۔‘‘
’’شکر ہے خود کش بمبار ہمارے گاؤں گاؤں جیکٹ پہنے نہیں گھومتے۔ شہروں میں تو زندگی عذاب ہو گئی ہے۔ اب یہاں دیکھو۔ کتنی رونق ہے۔ وہ سامنے بچی کو دیکھو۔‘‘
’’جس نے دو چوٹیاں گوندھ رکھی ہیں۔‘‘
’’ہاں۔۔۔ کیسے مزے سے تربوز کھا رہی ہے۔۔۔ اور وہ دیکھو ایک بوڑھی عورت مزے سے پنکھا جھلتے ٹانگری اور ریوڑیوں سے لطف اندوز ہو رہی ہے۔‘‘
’’یار۔۔۔ یہاں تو زندگی اپنے مکمل حسن کے ساتھ موجود ہے۔۔۔‘‘ شمائلہ بھی میلے کے شغل سے گلنار ہو رہی تھی۔ اچانک ڈھولوں پر تھاپ تیز ہو گئی۔۔۔ شہنائی سے نواز اللہ دتہ کے گال پھول گئے اور اس نے پھیپھڑوں کی پوری طاقت سے شہنائی میں سر بھر دیے اور جب سر وہاں سے نکلے تو گاؤں کے جوانوں نے جھوم جھوم کر رقص کیا۔ ڈھول والے مراثیوں نے پیلی پگڑیاں باندھ رکھی تھیں۔ وہ بےخود ہو کر دائرے میں گھومتے۔ گلے میں معلق ڈھول لہراتا اور وہ پتلی پتلی چھڑیوں سے ڈھول کو تھاپ دیتے۔ گڈوی بجانے والی اپنے قیامت خیز حسن کا معاوضہ وصولنے کو لہراتی گڈوی بجاتی، اس میں چوڑیوں کی کھنک شامل کرتی پنڈال میں گھوم رہی تھیں۔ دنداسے سے ان کے ہونٹوں پر لالی تھی۔ دانت موتیوں کی طرح آب دار تھے۔ چہرے اور جسم کے نقوش تماشائیوں کو اپنی جانب کھینچتے تھے۔۔۔ سب اپنے اپنے کاروبار میں مصروف تھے۔ جس طرف سے سورج کی کرنیں تماشائیوں کی آنکھوں میں چبھ رہی تھیں، وہ ہاتھ کا چھجا بنائے توتی لوہار اور مٹھو کے میدان میں اترنے کا انتظار کر رہے تھے۔
اچانک ڈھولوں پر تھاپ تیز ہو گئی۔۔۔
مٹھو میدان میں اترا تو لوگوں نے زور زور سے سیٹیاں اور تالیاں بجا کراس کا استقبال کیا۔ اس نے جھک کر دونوں ہاتھ مٹی پر مارنے کے بعد جھاڑے اور اکھاڑے کا چکر لگا یا اور سر کو جھکا کر شکریہ ادا کیا۔ توتی لوہار اپنے بازوؤں کی مچھلیاں ابھارتا اکھاڑے میں اترا تو اس کے گلے میں چاندی کا تعویذ اور بازو پر چمڑے میں منڈھا تعویذ تھا۔۔۔ اس نے رکوع کی حالت میں جھومتے ہوئے مدِ مقابل کو للکارا۔ ہاتھوں سے مٹی جھاڑی۔ مجمعے پر اچٹتی سی نگاہ ڈالی۔۔۔
مجمعے میں بے چینی اور جوش و خروش تھا۔ ایک ریڑھی والے نے علاقائی گلوکار عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی کی کیسٹ لگا رکھی تھی۔
’’دل لگایا تھا دل لگی کے لیے۔۔۔ بن گیا روگ زندگی کے لیے‘‘
موسیقی کے سر، ڈھول، شہنائی، لوگوں کا جوش و خروش، سماں بندھ چکا تھا۔ شمائلہ اس مقابلے کو دلچسپی سے دیکھ رہی تھی۔ اس کا جھکاؤکسی طرف نہیں تھا۔ بس ایک کھیل تھا جس سے وہ لطف اندوز ہونے آئی تھی۔ یہ زندہ دھڑکتا ماحول، ٹی وی ڈراموں اور فلموں سے یک سر مختلف تھا۔ یہاں ایک حرارت تھی جو دل کو چھوتی تھی۔۔۔ مٹھو نے جھک کر ایک بار مٹھی میں مٹی باندھی، دونوں ہاتھوں میں اس کو رگڑا، جھاڑا اور توتی کی رنگ میں لکیر توڑ کر داخل ہوا۔ مقابلہ شروع ہو چکا تھا۔ دونوں ایک دوسرے کے مقابل تھے اور رکوع کی حالت میں آنکھوں میں آنکھیں ڈالے داؤ آزمانے کو تیار۔ دونوں نے ایک دوسرے کے بدن کو چھونے کی کوشش کی لیکن وار خالی گیا۔ مجمع ایسے جیسے اسے سانپ سونگھ گیا ہو۔ وہ ایک دوسرے پر لپک رہے تھے اور مجمعے کی نظریں ان کے کسرتی جسموں سے پھسلتی تھیں۔ مٹھو نے اچانک پینترا بدل کر توتی لوہار کے سینے کے درمیان ہاتھ مارا اور الٹی قلابازی لے کر اس سے پہلے کہ توتی اسے داؤ میں جکڑتا وہ اپنے اکھاڑے میں داخل ہو چکا تھا۔ ڈھولوں پر تھاپ تیز سے تیز تر ہوگئی۔ پنڈال تالیوں سے گونج اٹھا۔ مٹھو نے پینترا ایسے انداز میں بدلا کہ ہزاروں تماشائیوں میں شمائلہ کا دل اس کے داؤ سے نکل گیا۔ اس نے چور نظروں سے آس پاس دیکھا، سب انہماک سے تماشا دیکھ رہے تھے۔ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ ایک تماشائی کو مات ہو گئی ہے۔ شمائلہ نے کن اکھیوں سے آس پاس دیکھا جیسے اس نے کوئی چوری کی ہے۔ اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ وہ ماڈرن تھی، تعلیم یافتہ اور با وقار گھرانے سے لیکن مٹھو کے نوکیلے نقوش، لشکتا کسرتی بدن اور سرمے والی آنکھیں جانے کیسے اس کے دل کو چیر گئیں۔ اس کے سانس کی رفتار تیز ہو گئی۔ وہ دم سادھے دوسرے راؤنڈ کا انتظار کر رہی تھی جس میں توتی لوہار نے مٹھو کے رنگ میں اپنا وار آزمانا تھا۔
نوکرانی سے گلاس لے کر اس نے ٹھنڈے پانی کے دو گھونٹ لیے۔ مجمعے پر ایک نظر ڈالی لیکن کوئی مٹھو، ایسا نہیں تھا۔ یہ کیا پاگل پن ہے۔ میں اتنی پڑھی لکھی ایجو کیٹڈ اور ایک اجڈ دیہاتی کے لیے دل کیوں دھڑکنے لگا ہے۔ یہ کوئی پیار ویار نہیں بس ماحول کا سحر ہے۔ ابھی ختم ہو جائےگا۔ اس نے چہرے سے پسینہ پونچھا اور میدان میں نظریں جما دیں۔ غلاما زیر لب کچھ ورد کر رہا تھا۔ تماشائی ایک دوسرے سے گردنیں آگے نکالنے کی کوشش میں تھے۔۔۔ توتی نے منہ پر الٹا ہاتھ جما کر عجیب و غریب ’’بب بب‘‘ کی آواز نکالی اور لکیر عبور کر کے مٹھو کے مقابل ہوا۔
’’شاباش اے۔۔۔ مٹھو واپس نہ جائے۔۔۔‘‘ ایک کونے سے کسی نے نعرہ لگایا۔
’’مٹھو حرامی۔۔۔ تو ہار گیا نا۔۔۔ تو گاؤں سے نکال دیں گے۔‘‘ ایک کسان کی کھردری آواز ابھری۔
’’اوئے تسیں فکر نہ کرو، اپنا مٹھو اسے گرا کر اس کے سینے پر سواری کرےگا۔۔۔‘ برف کے رنگین گولے والا بولا۔
’’اوئے پترا۔۔۔ ماں دے ددھ دی لاج رکھیں۔۔۔‘‘ غلامے نے با آوز بلند کہا۔
صوفے پر براجمان چودھری نے لال آنکھیں گھما کر اپنے نوکر کو دیکھا۔ وہ ذات کا مراثی ساری بات سمجھ گیا۔ اپنے ڈھول والوں کو اشارہ کیا، انہوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔۔۔
’’اوئے توتیا۔۔۔ تینوں جمن والی جیوندی رہوے اس دی لج رکھیں۔۔۔‘‘
’’پنڈ والیو تہاڈی بھل اے۔۔۔ توتی شیر اے۔۔۔ شیر۔۔۔ اے کدی نہیں ہارا۔۔۔ بھلا کدی شیر وی ہاردے نیں‘‘
دونوں طرف سے جملے بازی زوروں پر تھی اور وہ آمنے سامنے تھے۔ ہزاروں کے اس ہجوم میں شمائلہ پریشان تھی کہ یہ میرے دل کو کیا ہو گیا ہے۔ اس پاگل کو کوئی تو سمجھائے۔ یہ سب ممکن نہیں ہے۔ میں بھی کون سی اتنی بہادر ہوں کہ صدیوں سے پھیلی خودساختہ روایات سے ٹکرا سکوں۔ اللہ میں کیا کروں۔ یہ دل کو کیا ہو گیا۔ یہ کیوں سودائی ہو گیا۔ کوئی تو اسے سنبھالے۔ یہ میرے ہاتھوں سے چلا۔ مٹھو ہار گیا تو میں مر جاؤں گی لیکن میں کیوں مر جاؤں گی۔ مٹھو میرا کون ہوتا ہے جو میں مر جاؤں گی۔ لیکن لیکن کیا۔۔۔ بس مٹھو کو جیتنا ہوگا۔۔۔ میرے لیے۔۔۔ میرا دل خوش ہوگا۔ لیکن اسے خبر کون کرےگا کہ اس ہزاروں کے مجمعے میں ایک دل اس کے لیے دھڑک رہا ہے۔ ابھی وہ سوچوں میں غلطاں تھی کہ ان ہونی ہو گئی۔ مٹھو جھک کے اپنے مقابل کی آنکھوں میں تیر گاڑے اس کے داؤ کو جانچ رہا تھا کہ ریفری نے سیٹی بجائی اور کہا کہ توتی دوبارہ واپس جا کر پھر داؤ کے لیے آئے۔ یہی وہ لمحہ تھا کہ مٹھو نے سامنے دیکھا اور شمائلہ سے اس کی نظریں ٹکرا گئیں۔ شمائلہ اپنے قد کھڑی اسے اشتیاق سے دیکھ رہی تھی۔ سکول کی دیوار کے ساتھ سوکھتی تختی پر کتنی ہی تحریریں تصویریں ابھر آئیں۔ وہ چکرا گیا اور اسے وہم جانا۔ ساری کائنات کا حسن شمائلہ کے سراپے میں سما گیا۔ توتی دوبارہ داؤ آزمانے کے لیے رِنگ میں داخل ہوا۔ دونوں کبڈی باز ایک دوسرے کو تول رہے تھے، جانچ رہے تھے۔۔۔ وارتوتی لوہار نے کرنا تھا۔ اس نے مٹھی میں مٹی لے کر ہاتھ جھاڑے۔ دائرے میں گھماتے گھماتے مٹھو اسے ایک کونے میں لے آیا کہ وہ کہیں بھاگ نہ سکے۔
’’بلے او بلے۔۔۔ جانے نہ پائے۔۔۔‘‘ ڈھولوں کی تھاپ قدرے نرم تھی۔
توتی لوہار نے جیسے ہی لپک کر مٹھو کے کندھے پر وار کیا۔ مٹھو نے اس کی کلائی کو گرفت میں لیا اور اپنی ٹانگوں کی قینچی میں توتی لوہار کی ٹانگ جکڑ لی۔۔۔ توتی نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا لیکن کلائی چھڑا سکا نہ ٹانگ۔۔۔ وہ دونوں پسینہ پسینہ مٹی مٹی ہو رہے تھے۔ شمائلہ نے اپنی کلائی غورسے دیکھی۔ وہ حیران رہ گئی اس کی کلائی پر مٹھو کی انگلیوں کے نشانات تھے۔ اس نے اپنا بدن ڈھیلا چھوڑ دیا۔ وہ کلائی چھڑانا ہی نہیں چاہتی تھی۔ اب توتی لوہار پورا زور آزما کر مٹھو کو کھینچ رہا تھا۔ اگر وہ ہمت کر کے درمیانی لکیر کو پشت لگنے سے پہلے چھو لیتا تو پھر ایک راؤنڈ اور ہونا تھا۔ مضبوط گرفت کے باوجود وہ مٹھو کو کھینچتا سرکتا لکیر کی طرف بڑھ رہا تھا۔ مجمعے پر سکتہ طاری تھا۔ ابھی لکیر جسے توتی نے عبور کرنا تھا قریباً دس فٹ دور تھی۔ مجمع دم سادھے دونوں کو دیکھ رہا تھا۔ کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ وہ جس نے بدن ڈھیلا چھوڑ دیا تھا، کلائی کے کنگن وارنے کو تیار بیٹھی تھی۔ لکیر جسے سفید چونا چھڑک کر نمایاں کیا گیا تھا، قریب آرہی تھی۔ مجمعے کے ساتھ شمائلہ کا دل بھی بیٹھنے لگا۔ وہ کھیل میں خود شامل ہو گئی تھی۔
کسی لمحے کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ مجمع ششدر رہ گیا۔ سب پلک جھپکتے میں ہوا، جیسے کسی جادوگر نے اپنا کمال دکھایا ہو۔ مٹھو نے توتی کی کلائی چھوڑ دی، ساتھ ہی اپنی ٹانگوں کی قینچی کھول دی۔ توتی کمر کے بل گرا۔ اس سے پہلے کہ وہ سنبھلتا مٹھو اس کی گردن داؤ میں لاکر اسے پیٹھ کے بل پٹخ چکا تھا۔ توتی کے سینے پر چڑھ کر اس نے اس کے دونوں بازو کندھوں سے دبا ڈالے۔ پیٹھ لگ چکی تھی۔ ڈھولچیوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ شہنائی والا شہنائی سمیت جھوم رہا تھا۔ نوجوان مجمعے کو توڑ کر پنڈال میں داخل ہوئے اور مٹھو کو کندھوں پر اٹھا لیا۔
شام ڈھلے گاؤں کے ہر گھر میں کبڈی کا چرچہ تھا۔ سب کے چہرے مٹھو کے جیت جانے سے گلنار تھے۔
شمائلہ گھر پہنچی لیکن اپنا آپ کبڈی کے میدان میں چھوڑ آئی۔ بیڈ روم میں لیٹی وہ سوچ رہی تھی مٹھو تک کیسے پہنچوں۔ وہ اندھی ہو گئی تھی۔ صبح اس نے اپنی خاص۔ نوکرانی کو بلایا۔
’’یہ خط ہے۔۔۔ مٹھو کو پہنچا آؤ۔‘‘ اس نے بے خوف کہا۔
’’بی بی جی۔۔۔ آپ ہوش میں تو ہیں۔‘‘ نوکرانی نے دوپٹہ سر پر جمایا۔
’’ہاں ہوش میں ہوں۔ بس وہ کرو جو میں نے کہا ہے۔‘‘ اس نے ہزار روپے کا نوٹ اسے پکڑایا۔
نوکرانی کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ وہ ایسے کاموں کی ماہر تھی لیکن اسے ہزار کا نوٹ پہلی بار ملا تھا۔ وہ اپنے ذہن میں تانا بانا بن رہی تھی۔ ایک لمحے میں اس نے فیصلہ کر لیا کہ یہ رقعہ کیسے پہنچانا ہے۔
’’بی بی جی۔۔۔ ایک بات پوچھوں۔۔۔‘‘ نوکرانی نے سہمے لہجے میں سوال کیا۔
’’پوچھ۔۔۔ کیا پوچھنا ہے؟‘‘
’’بی بی جی۔۔۔ اب تو موبائل عام ہو گیا ہے۔ اپنے پھتو کبھار، عارفے لوہار کے پاس بھی ہے۔ ہاں جی وہ سبزی کی ریڑھی والا جو ہے اس کے پاس بھی ہے۔ آپ کے پاس تو بہت سوہنا موبائل ہے۔ آ پ آپ۔؟‘‘
’’آپ آپ کیا۔۔۔ کھل کے بول‘‘ شمائلہ نے کہا۔
’’بی بی جی آپ فون کر کے مٹھو کو بلا لو۔۔۔‘‘وہ جواب کے انتظار میں ہونقوں کی طرح شمائلہ کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔
’’کملی۔۔۔ مجھے اس کا نمبر نہیں معلوم۔۔۔ یہ بھی ہو سکتا ہے اس کے پاس موبائل نہ ہو۔ بس تم رقعہ پہنچا آؤ۔‘‘
وہ گاؤ ں کی پگڈنڈیوں اور راستوں سے مانوس تھی۔ ہر پگڈنڈی اس کی ہم راز تھی۔ وہ قدم دھرتی مٹھو کے گاؤں کو جا رہی تھی۔ آسمان پر کالی گھٹا امڈ آئی اور کچھ ہی دیر میں اس پر ٹپ ٹپ بوندیں گرنے لگیں۔ اس کے قدم تیز ہوگئے۔ جب وہ مٹھو کے گھر داخل ہوئی بارش زور پکڑ چکی تھی۔۔۔!
’’دھیے خیر ہو۔۔۔ تو کیسے ہمارے گاؤں میں آئی ہے۔۔۔‘‘مٹھو کی ماں نے پوچھا۔
’’ماسی میں مامے گے گھر جا رہی ہوں اچانک بارش تیز ہو گئی۔‘‘
’’خیر سلا میری دھی۔۔۔ چائے بناؤں تیرے لیے۔‘‘
’’نہیں ماسی۔‘‘
’’ماسی اس دن کبڈی میں مٹھو نے سارے گاؤ ں کی عزت رکھ لی۔۔۔‘‘ وہ ادھر ادھر جھانکتے ہوئے بولی۔
’’وہ تو ہے لیکن یہ بتا تیرے چودھریوں نے تو کچھ نہیں کہا۔‘‘
’’او۔۔۔ ماسی انہوں نے کیا کہنا تھا۔۔۔ کون سا توتی لوہار ان کا بیٹا ہے۔‘‘
’’تو بھی میرے گبھرو پتر کے جیت جانے پر خوش ہو ئی تھی۔‘‘
’’کیوں نہیں ماسی۔۔۔ بھلا مٹھو ہے کہاں۔؟‘‘
’’بیلوں کی جوڑی ہانک کے ہل چلانے گیا ہے۔ آج اس کے بابا کی کچہری میں کوئی تاریخ تھی وہ وہاں گیا ہے۔‘‘
’’اچھا..... ماسی میں چلتی ہوں۔‘‘
وہ کچی گلی سے نکلی۔ ایک بکری بجلی کے کھمبے سے بندھی منمنا رہی تھی۔ ایک خچر دیوار کے ساتھ کھڑا اپنے سامنے رکھی گھاس پر منہ مار رہا تھا۔ وہ گلی کا موڑ مڑی تو سامنے ایک بوڑھا کسان بیل ریڑھی پر چارہ لادے آ رہا تھا۔۔۔ دیواروں کی اوٹ سے ہوتی وہ درختوں کے جھنڈ سے گزرتی کھال کے پاس پہنچ کر رک گئی۔ پائینچے اڑس کر وہ کھال سے گزری۔ دور سامنے مٹھو کھیتوں میں ہل چلا رہا تھا۔ اس نے سکھ کا سانس لیا کہ مٹھو اکیلا تھا۔ چند ایکڑ دور دو کسان کھیتوں کو پانی دے رہے تھے۔ سامنے ایک کسان اپنے ٹیوب ویل کے پیٹر انجن پر جھکا ہوا تھا۔ غالباً وہ اس سے سٹارٹ نہیں ہو رہا تھا۔ وہ منظر پر اچٹتی نظریں ڈالتے مٹھو کی جانب بڑھی۔ مٹھو نے ہل روک کر پوچھا۔
’’خیر سے ہمارے ورے کیسے پھیرا ڈالا؟‘‘
’’ایک کام ہے تم سے۔‘‘ وہ سہمی سی آواز میں بولی۔
’’ڈر کیوں رہی ہو۔ کھل کے بات کرو۔۔۔‘‘مٹھو کے دنداسے دار دانت چمکے۔
’’چودھری کی بیٹی نے تیرے نام یہ کھت ( خط) دیا ہے۔‘‘ اس نے دوپٹے کے پلو سے ایک مڑا تڑا کاغذ کھول کر مٹھو کو تھمایا اور تیز قدموں سے دوسرے رستے پر مڑ گئی۔ وہ اتنی ہراساں تھی کہ مڑ کر بھی نہ دیکھا۔ گیلی پگڈنڈیوں پر وہ اپنے سلیپر بغل میں دابے تیز تیز قدموں سے جا رہی تھی۔
مٹھو نے مڑا تڑا کاغذ کھولا تو وہ کبڈی کے میدان میں بدل گیا۔۔۔ ایک ہی آواز آ رہی تھی۔۔۔ کبڈی کبڈی کبڈی۔۔۔ میلے کے منظر اس کے سامنے کھلنے لگے۔ وہ جھک کر توتی لوہار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے داؤ کو تیار تھاکہ ریفری نے سیٹی بجائی اور وہ ہجوم سے نکل کر ایک ایسی لڑکی کی آنکھوں میں جا گرا جو اپنے قد کھڑی اسے پر شوق نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ عنابی رنگ میں ملبوس وہ قیامت خیز نظارہ بادل اور بارش کے اس موسم میں اس پر برسنے لگا۔ اس کے اندر خوشی کی ایک لہر اٹھی اور اس نے سوچا وہ رات سے پہلے ہی حویلی کے بغلی دروازے سے شمائلہ کو جالے۔۔۔ ہل چلاتے وہ گنگنانے لگا۔ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔
’’تیرے لونگ دا پِیا لشکارا، تے ہالیاں نے ہل ڈک لے۔
تیرے لونگ د ا پیالشکارا۔۔۔‘‘
ہاں اس کی ناک میں لونگ تھا۔ ڈھلتی سہ پہر میں جب کبڈی ختم ہونے کو تھی تو اسے معلوم نہیں تھا کہ وہ لونگ میں اٹکا، یا آنکھوں میں جا گرا۔ رات ابھی کیوں نہیں اترتی۔ رات کو اتر آنا چاہیے۔
آدھے چاند کی رات تھی جب وہ چودھری کی حویلی کے باغ میں سے گزرا۔ ہر طرف خاموشی کا راج تھا۔ جھینگر وں کے ساتھ مینڈکوں کے ٹرانے کی آواز آ رہی تھی۔۔۔ وہ نپے تلے قدموں سے ارد گرد اندھیرے کو ٹٹولتا آگے بڑھ رہا تھا۔ اچانک ایک سایہ اس کے سامنے آیا۔
’’بی بی جی تیرا انتظار کر رہی ہیں۔۔۔‘‘ نوکرانی کی آواز میں ہراس تھا۔
’’تم صرف راستہ سمجھا دو۔۔۔ پھر تم جا سکتی ہو۔۔۔‘‘
’’سامنے جس کھڑ کی میں سے روشنی آ رہی ہے وہ بی بی جی کا کمرہ ہے۔۔۔ اسی دیوار کے ساتھ چلتے جاؤ۔ حویلی کا چھوٹا دروازہ کھلا ہے۔۔۔ تم وہاں پہنچو گے تو بی بی جی کو موجود پاؤ گے۔۔۔‘‘نوکرانی الٹے قدموں واپس ہوئی۔
وہ بےخوف دیوار کے ساتھ آگے بڑھا۔ سرکنڈے اور جھاڑ جھنکار اس بات کا ثبوت تھے کہ حویلی کی یہ سمت کم ہی استعمال میں ہے۔ وہ دروازے کے سامنے جا کر رکا۔ ادھر ادھر نظر دوڑائی۔ دروازے پر ہاتھ رکھا تو وہ خود بہ خود کھل گیا۔ خوشبو نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
’’تم سچ مچ آ گئے۔۔۔‘‘ شمائلہ کی سانسیں بےترتیب تھیں۔
’’تم نے بلایا تو کیسے نہ آتا۔۔۔‘‘
’’میں سمجھی صرف فلموں اور ڈراموں میں ایسا ہوتا ہے۔۔۔‘‘
وہ وہیں گھاس پر بیٹھ گئے۔ اندھیرے میں وہ ایک دوسرے کے نقوش پہچاننے لگے تھے۔ چاند ابھی طلوع نہیں ہوا تھا۔ دونوں ایک دو جملوں کے بعد چپ تھے۔ کوئی سرا ان کے ہاتھ نہیں آ رہا تھا۔ چپ کی اپنی ایک زبان تھی۔ لیکن وہ باتیں کرنے کو بےتاب تھے۔
’’تمہیں یہاں آتے ہوئے ڈرتو نہیں لگا۔۔۔؟۔۔۔‘‘شمائلہ بولی۔
’’ڈر۔۔۔؟ وہ کیا ہوتا ہے۔۔۔؟ ڈر تو ملنے کا لطف ستیا ناس کر دیتا ہے۔۔۔‘‘ مٹھو نے اندھیرے میں اپنی آنکھوں سے اس کے نقوش ٹٹولتے ہوئے کہا۔
’’کوئی تمہیں دیکھ لیتا تو۔۔۔‘‘
’’زیادہ سے زیادہ مار ڈالتا نا۔۔۔ تم جیسی سوہنی بلائے تو پھر مرنا بھی اچھا لگتا ہے۔‘‘
’’بہادر ہو۔۔۔‘‘
’’بہادر تو تم ہو۔۔۔ لڑکی ہو کر ملنے چلی آئی ہو۔‘‘
یہ کہہ کر مٹھو نے اس کی کلائی پر ہاتھ رکھا تو اس کی سانس سینے میں یوں تڑپی کہ وہ اندر تک اسے چیر گئی۔ یہی تو میں نے خواب دیکھا تھا کہ وہ میری کلائی پکڑے۔ اسے کس نے سمجھایا، کس نے خبر کی کہ میرے دل میں یہ خواہش تڑپ رہی ہے کہ وہ میری کلائی پکڑے اور چھوڑنا بھول جائے۔ مرد کے کھردرے ہاتھ کے لمس نے اسے بے خود کر دیا۔
’’مٹھو۔۔۔ تمہارا نام کیا ہے۔‘‘
’’شکیل۔۔۔!‘‘
’’لیکن مٹھو۔؟‘‘
’’سب بچپن سے مٹھو کہتے ہیں۔‘‘
’’میں تمہیں شکیل پکار لوں۔؟‘‘
’’تیری مرضی جو تیرا جی چاہے۔ پکار۔ مجھے یہ سب بہت اچھا لگ رہا ہے۔‘‘
’’تم نے تعلیم کہاں تک حاصل کی ہے شکیل۔؟‘‘
’’دس جماعت پاس کی ہیں۔‘‘
’’موبائل ہے تیرے پاس۔؟‘‘
’’نہیں جی۔ مہنگا ہے ہم خرید نہیں سکتے۔ خرید لیا تو اس میں پیسے کیسے ڈالیں گے؟‘‘
’’میرا موبائل تم لے لو۔‘‘
’’جی نہیں۔ عورتوں سے ہم نہیں لیتے۔‘‘
وہ کھل کھلا کر ہنسی۔۔۔ ’’شکیل میں نے تجھے اس لیے بلایا ہے کہ میں زندگی سے تھک گئی ہوں۔ میں مرنا چاہتی تھی۔ مجھے مشینی زندگی نے تھکا دیا ہے۔ یہ جو ہم اونچی دیواروں میں بند رہنے والی ہوتی ہیں، ہم بھی انسان ہوتی ہیں۔ ہم بھی خواہش رکھتی ہیں کہ ہم اپنی مرضی سے سانس لیں لیکن ہمارے ماحول کا بس چلے تو وہ ہمارے حصے کی آکسیجن بھی روک لے۔ جہاں ہم رہتی ہیں وہاں آکسیجن ہمیں اتنی مقدار میں مہیا کی جاتی ہے کہ ہم سانس لے سکیں۔ مجھے بہت اچھا لگ رہا ہے کہ تم مجھے ملنے آئے ہو۔ ہمارا بھی من چاہتا ہے کوئی ہمیں پوجے، ہمیں سوچے۔ ہم اپنی مرضی کے ساتھ اس کے ساتھ سانس لے سکی۔‘‘
’’لیکن آپ تو شہر میں رہتی ہیں وہاں پر تو آپ پر پابندی نہیں ہوگی۔۔۔‘‘ شکیل نے بے ساختہ اس کا ہاتھ چوم لیا۔
’’ہم حویلی میں رہیں یا شہر میں، دیواریں موجود رہتی ہیں۔ یہ پار کرنا ہمارے بس میں نہیں ہوتا۔‘‘
’’ایک بات پوچھوں۔۔۔؟‘‘ شکیل نے سرگوشی کے انداز میں سوال کیا۔
’’ہاں کیوں نہیں۔۔۔ جو جی میں آئے پوچھو۔۔۔ اس وقت میں مکمل تمہاری ہوں۔‘‘
’’صرف اس وقت۔۔۔‘‘
’’کل کس نے دیکھا ہے۔۔۔‘‘ شمائلہ نے ٹھنڈی سانس لی۔
’’مجھے یہ پوچھنا ہے کہ میں تمہیں کیوں اچھا لگا۔۔۔‘‘
’’میں نے تمہیں بتایا نا۔۔۔ ہماری زندگی کاغذی ہوتی ہے۔ اس میں کوئی خوشبو نہیں ہوتی۔ شہر میں ہوں یا گھر پر۔۔۔ کیبل، کمپیوٹر، انٹر نیٹ ہی ہماری تفریح کا واحد ذریعہ ہیں۔ یہ سب مشینی انداز ہیں۔ دوسرا شہر میں ہونے والے خود کش دھماکوں نے ذہن اور زندگی مفلوج کر کے رکھ دی ہے۔ پارک ویران ہو گئے ہیں۔ ہوٹلوں میں جائیں تو مکمل تلاشی، پھر بھی دھڑکا لگا رہتا ہے۔ وہاں کھیل کے میدان بنجر ہو گئے ہیں۔ میں جب گاؤں پہنچی تو کبڈی کے میچ کی خبر اڑی ہوئی تھی۔ میں نے بابا سے کہا تو وہ مان گئے۔ میں نے زندگی کو پہلی بار اتنا زندہ، جان دار اور دھڑکتا ہوا پایا۔ جب کبڈی کے دوران تم نے توتی کی کلائی پکڑی تو میں اپنا آپ تمہارے سامنے ہار بیٹھی۔۔۔‘‘
’’اب کیسا لگ رہا ہے۔۔۔؟‘‘ شکیل نے اس کے گداز بازو پر ہاتھ رکھ کر کہا۔
’’بہت اچھا اس لیے لگ رہا ہے کہ تم بزدل نہیں ہو، تم نے مردوں کی طرح میری کلائی تھام لی ہے۔ مجھے بزدل مرد ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ جو دور دور سے بس حرکات و سکنات کو ہی بہادری سمجھتے ہیں۔ مجھے تو موبائل پر محبت جھاڑنے والوں سے بھی الجھن ہوتی ہے۔ عورت کی خواہش ہوتی ہے کہ اسے چاہنے والا با ہمت ہو۔ مرد ہو مکمل مرد، بڑھ کے اس۔ کو تھام لینے والا۔ وہ عورت کی روح اور بدن کی زبان سمجھتا ہو اور اس زبان کو سمجھے کے لیے کسی تعلیم کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ اندر سے پھوٹتی ہے اور پورے وجود کو بھگو دیتی ہے۔‘‘
’’میرا کلائی تھامنا تمہیں سچ مچ اچھا لگا۔؟‘‘
’’ہوں۔‘‘
’’یونیورسٹی جا کر بھول جاؤ گی۔۔۔؟‘‘شکیل نے سوال کیا۔
’’کیا بھلانے کے لیے تمہیں یہاں بلایا ہے؟۔۔۔‘‘ شمائلہ نے اس کا ہاتھ اپنے نرم ہاتھوں میں لے کر کہا۔
’’کیا وہاں تم سے ملا جا سکتا ہے۔۔۔؟‘‘
’’ہاں تم شہر آنا۔۔۔ میں شہر تمہیں اپنی آنکھوں سے دکھاؤ ں گی۔‘‘
چاند نکل آیا تھا اور وہ دونوں بھیگ چکے تھے۔۔۔ مٹھو واپسی کے لیے مڑا تو شمائلہ نے اسے دونوں کندھوں سے پکڑ کر کہا۔
’’میری محبت کی لاج رکھنا۔‘‘
دن گزرتے رہے۔ دن جو ایک سے طلوع ہوتے ہیں لیکن کہا جاتا ہے کہ وہ پلٹ کر نہیں آتے۔ جانے انسانوں کی طرح وہ مرنے کے بعد کہاں جاتے ہیں ان کا کوئی مدفن بھی تو نہیں۔۔۔ ان کی زندگی میں بھی دن ایک ایک کر کے گزرتے رہے۔ اسے شہر جانا تھا۔ شہر اس کے لیے اجنبی نہیں تھا لیکن اب کی بار ایک اور خوشبو اسے کھینچ رہی تھی۔ شہر کے بارونق بازاروں میں وہ اس کے سنگ گھومتا رہا اور اپنے آپ کو بھول گیا۔ ایک بے خودی ایک سرشاری کی کیفیت تھی جس کے سحر سے وہ نکلنا نہیں چاہتا تھا۔ لیکن محبت سے پیٹ تو نہیں بھرتا۔ بھوک سب فلسفے بھلا دیتی ہے۔ مٹھو کے ساتھ بھی بھوک بندھی تھی، اس کے باپ نے کہا کہ جا اور شہر میں اپنی قسمت آزما۔۔۔ کہیں پولیس، فوج یا کسی اور جگہ بھرتی ہو جا۔ گھر کا خرچ تو آسانی سے چلےگا۔ سرد چولہے نے اس کی آنکھوں سے نیند نوچ لی۔ وہ سوچتا رہا اور پھر گہری نیند سو گیا۔
آنکھ کھلی، اس نے منہ ہاتھ دھویا۔ ناشتہ کیا اور باپ سے کہا کہ شہر میں میرا ایک دوست ہے اس سے مجھے ملنا ہے اور قسمت آزمائی کرتا ہوں۔ جب وہ ریلوے اسٹیشن پر اترا تو شمائلہ موجود تھی۔ ہلگے گلابی سوٹ میں کھلے بالوں اس کا حسن اور نکھر آیا تھا۔
’’خیریت۔۔۔ تم نے مجھے پریشان کر دیا۔۔۔؟‘‘ شمائلہ کی آنکھوں میں رت جگا تھا۔
’’بیٹھ کر تم سے تفصیلی بات کرنی ہے۔۔۔‘‘ مٹھو کے چہرے پر سفر کی تکان تھی۔ پلیٹ فارم کے ایک دیوار پر رومن حروف والا وال کلاک صبح کے پونے دس بجا رہا تھا۔ ٹکٹ کلکٹر سواریوں سے ٹکٹ لے رہا تھا۔ بنچ پر ایک خاندان ناشتہ کرنے میں مصروف تھا۔ گارڈ کی بکس پر ایک مقحوط چہرے ولا شخص بیٹھا سگریٹ پی رہا تھا۔ ریلوے پٹریوں کے درمیان ایک چرسی کاغذ چن رہاتھا۔ بارش کے بعد فضا بھیگی بھیگی تھی۔ ریلوے اسٹیشن کے بک سٹال کے ساتھ ریسٹورنٹ تھا۔ دونوں قدیم کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ ویٹر نے ان کے سامنے ناشتہ چن دیا۔
’’اب کچھ کہو بھی۔۔۔ میری سانس اٹکی ہوئی ہے۔۔۔‘‘ شمائلہ نے اس کی چائے میں دودھ انڈیلتے ہوئے پوچھا۔
’’ایک مشکل کام آ پڑ اہے تم سے۔۔۔‘‘
’’ہچکچا کیوں رہے ہو۔ میں جان سے گزر جاؤں گی۔۔۔ کہہ کے تو دیکھو۔‘‘
’’گھر میں غربت اب ننگے پاؤں گھومنے لگی ہے۔۔۔‘‘ مٹھو کا چہرہ راکھ تھا۔
’’کھل کے بات کرو۔۔۔ میرا دل بیٹھ رہا ہے۔۔۔‘‘ اس نے ڈھلکا دوپٹہ سمیٹتے ہوئے کہا۔
’’شمائلہ۔‘‘
’’مٹھو۔۔۔ تم نے پہلی بار مجھے میرے نام سے پکارا ہے۔ میں اندر تک سرشار ہو گئی ہوں۔‘‘
’’ہم لوگ محبت میں بھی ایک احساسِ کمتری کا شکار رہتے ہیں۔‘‘
’’لیکن کیوں۔‘‘
’’یہ چیز ہمارے لہو میں کہیں شامل ہوتی ہے۔‘‘
’’اچھا چھوڑو ساری باتیں۔۔۔ مشکل کیا ہے۔۔۔؟‘‘
’’میرا ایک کام کر دو۔ مجھے پولیس میں سپاہی بھرتی کرا دو۔‘‘
’’کیا۔‘‘ وہ ہونقوں کی طرح اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔
’’کچھ غلط کہہ گیا۔‘‘
’’نہیں مٹھو۔ یہ بات نہیں۔ میں نے تیرے لیے جو خواب دیکھے ہیں ان میں پولیس مین شامل نہیں۔‘‘
’’کیا پولیس والے انسان نہیں ہوتے، کیا ان کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔‘‘
’’ہوتا ہے بابا ہوتا ہے۔ میں کسی پرائیویٹ فرم میں تمہیں بہت اچھا جاب دلا دیتی ہوں۔‘‘
’’نہیں میں نے گورنمنٹ کی پکی نوکری کرنی ہے۔‘‘
’’بہت ضدی ہو۔ اچھا با با ہو جائےگا۔‘‘
وہ پولیس کی وردی میں گھر آیا تو سب نے اسے مبارکباد دی۔ پکی نوکری سے سب گھر والوں کے چہرے پر اطمینان تھا۔ وہ ہر ماہ باقاعدگی سے گھر آتا۔ ساری تنخواہ ماں کے ہاتھ پر رکھتا۔ ایک بار جب وہ گاؤں آیا تو اس کے ساتھیوں نے کہا۔
’’یار تو نے کبڈی کیوں چھوڑ دی۔؟‘‘
’’کبڈی کہاں چھوڑی ہے وقت ہی نہیں ملتا۔‘‘
’’اب کی بار تو چھٹی لے کے آ۔۔۔ نا تو کبڈی کادنگل رکھتے ہیں۔‘‘
’’اچھا ٹھیک ہے۔‘‘ وہ زیر لب مسکرایا۔۔۔ پرانے کبڈی میچ اور شمائلہ اس کی آنکھوں میں تیر گئے۔۔۔ میں اس سے کہوں گا میں صرف اس کبڈی میں حصہ لیا کروں گا جہاں تو آیا کرے گی۔ محبت خون کو کتنا گرم کر دیتی ہے۔ اسے جھر جھری سی آ گئی۔
شمائلہ کا یونیورسٹی میں آخری سال تھا۔ وہ اپنی تعلیم میں بے حد مصروف تھی۔ جب تھکن اس کے بدن کو توڑنے لگی تو وہ اٹھ کر کامن روم میں آگئی۔ ٹی وی آن تھا۔۔۔ لڑکیاں خوش گپیوں میں مصروف تھیں۔ اس نے ایک پیالی چائے کا کہا اور ٹی وی دیکھنے لگی۔
’’بریکنگ نیوز۔‘‘
’’خودکش بمبار نے پولیس وین میں چھلانگ لگا دی اور خود کو دھماکے سے اڑا دیا انیس پولیس اہلکار جاں بحق۔‘‘
پیالی اس کے ہاتھ سے گر کر ٹوٹ گئی۔۔۔ وہ اپنے کمرے کی جانب تیزقدموں سے بھاگی۔ موبائل سے مٹھو کا نمبر ڈائل کیا۔
’’آپ کے مطلوبہ نمبر سے اس وقت جواب موصول نہیں ہو رہا۔‘‘
اس کی سانسیں اس کے اندر مر گئیں۔۔۔ نہیں نہیں یہ میرا وہم ہے۔ ہزاروں پولیس والے ہیں۔ یہ مجھے کیا ہو گیا ہے۔ مٹھو کو کچھ نہیں ہوا۔ یہ وہ خوف ہے جو اب ہماری سائیکی کا حصہ ہو گیا ہے۔ مٹھو نہیں مر سکتا۔ وہ الٹے قدموں پھر کامن روم میں آئی اور سانس روک کر بیٹھ گئی۔ لاشیں ہی لاشیں۔۔۔ خون، ایمبولینس کے سائرن، ہسپتالوں میں ایمر جنسی، انسانی لوتھڑے۔۔۔ میرے خدا یہ کیا ہے۔ یہ کون لوگ ہیں۔۔۔؟ کہاں سے آئے ہیں؟ ان کے دماغوں میں کس نے بارود بھر دیا ہے۔ یہ انسان کے دشمن کہاں سے اگ آئے ہیں۔ یہ فصل پک کر جوان ہو گئی تو زمین پر بے گناہ انسانوں کا کیا ہوگا۔ کوئی تو یہ فصل کاٹ کر پھینک دے۔ مٹھو نہیں مر سکتا۔ وہ مر گیا تو میں مر جاؤگی۔
اناؤنسر کی آواز ابھری۔۔۔ جاں بحق ہونے والوں کے ناموں کی فہرست جاری کر دی گئی ہے۔۔۔ شمائلہ کے آنسو بہنے لگے۔ ہر نام اس کے دل میں تیر بن کے اتر رہا تھا۔
’’کتنے گھر بے چراغ ہو گئے۔۔۔‘‘
اس کی نظریں اناؤنسر کے ہونٹوں پر تھیں۔
’’محمد شکیل ولد غلام محمد۔۔۔ چک نمبر 43 - FR شمالی۔‘‘
کبڈی کے میدان میں اس کا جنازہ رکھا تھا اور۔۔۔ جنازہ پڑھنے والے ہراس میں تھے کہ جنازے میں کوئی خود کش بمبار نہ گھس آئے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.