اس نے خود کو کبھی بے کار نہیں سمجھا۔ نہ اس وقت، جب وہ گرلز کالج کے گیٹ کے باہر سفید خوبصورت کبوتریوں کی آمد و رفت سے اپنی آنکھوں کو طراوت پہنچاتا تھا اور نہ اب جب وہ گھر میں بیٹھا بیوی کے لوٹ آنے کا انتظار کرتا ہے۔ لڑکپن میں والدین نے خوب سمجھایا کہ تعلیم سے تقدیر بدل جاتی ہے مگر اس کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ تقدیر میں کچھ اور ہی لکھا تھا۔ ایک سیدھی سادی، حسین اور پیار کی بھوکی لڑکی نرغے میں پھنس گئی۔ لڑکا جوان، خوبرو، ہنس مکھ اور خوش لباس تو تھا ہی، اپنی پرکشش شخصیت کو بطور پریم بان استعمال کیا اور لڑکی کو اپنے دام میں پھنسایا۔۔۔ اس کے بعد شیاما خود کو کبھی آزاد نہ کر پائی۔
اجودھیا ناتھ کتنی بار بی اے کے امتحان میں شریک ہوا تھا اسے یاد بھی نہیں۔ ہر سال والدین کو یقین دلاتا کہ اب کی بار میں ضرور پاس ہو جاؤں گا مگر قسمت نے کبھی ساتھ نہ دیا۔ بھولے بھالے اور سریع الاعتقاد والدین کے پاس اس پر اعتبار کرنے کے بغیر چارہ بھی تو نہ تھا۔ اس کا دوست، جو کچھ برس پہلے اس کا ہم جماعت تھا، انجینئرنگ مکمل کر کے نوکری بھی لگ گیا مگر وہ ابھی بھی امتحان کی تیاری کر رہا تھا۔ ماں نے تھک ہار کر ایک روزاس کے انجینئر دوست سے پوچھا، ’’بیٹے کچھ اپنے دوست کو بھی سمجھایا کرو، کچھ پڑھے لکھے، محنت کرے اور انسان بنے۔ وہ تو کئی برسوں سے بی اے میں اٹک گیا ہے۔’‘
دوست نے جواب دیا۔ ’’آنٹی، وہ کیا خاک پڑھےگا، صبح کالج کے لیے نکلتا ہے اور جاکر گرلز کالج کے گیٹ پر لڑکیوں کو دیکھتا رہتا ہے اور ان پر پھبتیاں کستا ہے۔’‘
ماں ہنس دی۔ ’’ارے بیٹا، کیا کروں، اس کو لڑکیاں بہت پسند ہیں۔ جاتا ہو گا دل بہلا ئی کے لیے۔’‘
دوست کے جی میں آئی کہ کہہ دے ’’آنٹی، میں کوئی نامرد ہوں کیا کہ مجھے لڑکیاں پسند نہیں آتیں۔ آدمی کو زندگی میں کچھ تو ترجیحات ہونی چاہئیں۔’‘ مگر عمر کا لحاظ کر کے وہ کچھ بھی نہ بول پایا اور چپ چاپ اپنے گھر چلا گیا۔
ایک روز ماں کو معلوم ہوا کہ پھر سے نتیجے آنے والے ہیں۔ بہت پریشان ہوئی کہ نہ جانے کیا ہو گا۔ اس نے کئی بار اپنے بیٹے کے منہ سے سنا تھا کہ اب کی بار اگر وہ پاس نہیں ہوا تو خودکشی کر لےگا۔ اسے فکر لگی کہ نہ جانے اس کا بیٹا کہاں ہو گا کیونکہ اس نے دھمکی دی تھی کہ اگر وہ اس بار فیل ہوا تو زہر کھا لےگا۔ ماں نے اس کے ایک اور قریبی دوست کو بلوایا اور اس سے گذارش کی۔ ’’بیٹے، نہ جانے اجودھیا کہاں ہو گا۔ سنا ہے اس کا رزلٹ نکل چکا ہے اور وہ دوبارہ فیل ہو چکا ہے۔ کہیں سن کے کچھ کر نہ بیٹھے۔ اس لیے اس ماں کی لاج رکھو اور جاکر اسے ڈھونڈ لاؤ۔ وہاں پر اسے رزلٹ کے بارے میں کچھ نہ بتانا۔’‘
دوست کو معلوم تھا کہ ملا کی دوڑ مسجد تک۔ وہ سیدھا خیبر سینما پہنچا جہاں کا گیٹ کیپر جان پہچان کا آدمی تھا۔ اس کو ساری بات سمجھائی اور اجودھیا ناتھ کو باہر بلوایا۔ دوست گویا ہوا۔ ’’بھئی جلدی گھر چلو۔ تمھاری ماں بہت پریشاں ہے۔ تمھارے رزلٹ کا اعلان ہو چکا ہے۔ وہ کہہ رہی تھیں کہ اس کو بلاکر لے آؤ تاکہ رزلٹ معلوم کرنے جائے۔’‘
اجودھیا نے پھیکی سی ہنسی ہنس دی اور پھر دوست سے مخاطب ہوا۔ ’’ارے بھائی، وہاں کیا دیکھنا ہے۔ مجھے تو اپنا رزلٹ معلوم ہی ہوتا ہے۔ تم تو میرے دوست ہو، میرے لیے ایک کام کر لو، گھر جا کر ماں سے کہہ دو کہ بہت کوشش کے باوجود اجودھیا کہیں نہیں ملا۔ نیا فلم ہے اور ہیرو بھی میرا پسندیدہ ہے۔ بلیک میں ٹکٹ خرید لی ہے۔ مجھے یہ فلم پورا دیکھنے دو۔ ختم ہوتے ہی گھر پہنچ جاؤں گا۔ تب تک تم کیسے بھی مورچہ سنبھالو۔’‘ یہ کہہ کر وہ دوڑتا ہوا سینماہال کے اندر چلا گیا۔
دوست کو پہلے ہی سے اس جواب کی توقع تھی پھر بھی ماں کا دل رکھنے کے لیے چلا گیا۔ دو گھنٹے کے بعد صاحب زادہ غمگین سا چہرہ بنا کر چلا آیا اور ماں سے لپٹ کر بولا۔ ’’مجھے گھر آتے وقت ایک ہم جماعتی نے نتیجے کے بارے میں آگاہ کیا۔ معلوم نہیں ان یونیور سٹی والوں کو میرے ساتھ کیا بیر ہے کہ پاس ہی نہیں کرتے۔’‘
ماں زار و قطار رو تی رہی اور بیٹا رونی صورت بنا کر سامنے بیٹھا رہا۔
کئی برس یوں ہی گزر گئے۔ پھر تھک ہار کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ گیا۔ کرتا بھی کیا اور کوئی چارہ بھی تو نہ تھا۔ والدین نے اپنا بوجھ کم کرنے کے لیے شیاما کو قربانی کا بکرا بنا لیا۔ تقدیر اچھی تھی کہ شیاما کو سرکاری ادارے میں نوکری مل گئی جس کے سبب گھر کے اخراجات پورے ہوتے رہے۔ اجودھیا بدستور آوارہ دوستوں کی منڈلیوں میں گپیں ہانکتا رہا۔ گاہے دکانوں کے تھڑوں پر، گاہے سرکاری پارکوں میں اور گاہے سڑکوں پر بے سمت چل کر۔ شام کو آتے ہی تھکی ماندی بیوی کی آغوش میں پناہ لیتا۔ طفیلی زندگی کی اس سے بڑھ کر اور کیا مثال ہو سکتی ہے۔ دنیا میں بہت سے لوگ ہیں جو دوسروں پر اپنا بوجھ لادتے ہیں اور خود بے نیل و مرام جیتے ہیں۔
بہرحال ایسا کب تک چل سکتا تھا۔ والدین اس فکر میں تھے کہ بیٹے کو کہیں کوئی چھوٹی موٹی نوکری مل جائے۔ مندروں آستانوں میں حاضری دی۔ پیر فقیروں کے در پر سجدے کیے۔ گنڈے تعویذ باندھے۔ آخرکار ماں کا سونا بیچ کر تیس ہزار اکٹھے ہوئے اور انھیں نذرانہ دے کر ایک سرکاری محکمے میں عارضی طور پر ملازمت مل گئی۔ امید یہ تھی کہ دو تین برسوں میں مستقلی ہو جائےگی۔ ہوا بھی یہی ساڑھے تین سال بعد سبھی عارضی ملازموں نے مورچہ لگایا، ہڑتالیں کیں اور کام روکو تحریک چلائی۔ بڑے بڑے یونین لیڈروں نے ان کو اپنا سمرتھن دیا۔ خوش نصیبی یہ رہی کہ الیکشن سر پر تھا اس لیے سرکار ان کی مانگیں ماننے کے لیے مجبور ہو گئی۔
دراصل گورنمنٹ دفتروں میں یہ ایک نئی وبا پھیلی ہے۔ سرکاری خرچے کو کم کرنے کے لیے دکھاوے کے لیے تقرریوں پر روک لگائی جاتی ہے جبکہ دوسری جانب ہنگامی صورت میں احتیاج کے تحت ایسے نا اہل لوگوں کو عارضی طور نوکری پر رکھا جاتا ہے جو یا تو ان کے قریبی ہوتے ہیں یا پھر جنھوں نے مٹھی گرم کی ہوتی ہے۔ بعد میں عارضی کو مستقل کرنے کے لیے نئے نئے حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔ انھیں اس بات کا بخوبی احساس ہے کہ سپریم کورٹ کے احکامات کے تحت کسی عارضی ملازم کو تین سال نوکری کرنے کے بعد نکالا نہیں جا سکتا ہے۔ ہندوستانی افسر شاہی کی کارستانیاں۔۔۔ ! جیب بھی گرم ہوئے، سیاسی آقا بھی خوش ہوئے، نہ سرکاری حکم کی ان دیکھی ہوئی اور نہ کورٹ کی توہین ہوئی۔ دوسری جانب تعلیم یافتہ، قابل اور میرٹ والے امیدوار اپنی قسمت اور سرکاری نظام کو کوستے رہ جاتے ہیں۔
خیر آمد بر سر مطلب۔ تیس ہزار کی رقم کام کر گئی۔ اب تو ٹھاٹ تھی۔ سرکاری ملازمت۔۔۔ بالائی آمدنی۔۔۔ نئے سوٹ۔۔۔ نئے جوتے۔۔۔ کبھی کبھار کوئی انڈیا کنگس سگریٹوں کا پیکٹ دے جاتا اور کوئی ہیورڈس کی بوتل پکڑا دیتا۔ کایا پلٹ ہو گئی۔ سچ پوچھو تو گھر پھر بھی شیاما کی تنخواہ پر ہی چلتا تھا۔ اس کی تنخواہ کے مقابلے میں شوہر کی تنخواہ عشر عشیر تھی۔ پھر بالائی آمدنی تو جنس میں ملتی تھی جیسے سگریٹ، بوتل یا فارین سینٹ۔ ان سے کنبے کا کیا فائدہ ہو سکتا تھا۔
کئی برس بعد زندگی نے ایسی کروٹ لی کہ سب کچھ تہس نہس ہو گیا۔ وادی کے چپے چپے پر بارود بچھ گئی۔ سڑکوں پر لہو بہنے لگا۔ رات کی تاریکی میں فرمان اور دھمکیاں جاری ہوئیں۔ اجودھیا، شیاما اور ان کے دو بچوں کو وادی چھوڑ کر جموں میں پناہ لینی پڑی۔ شیاما چونکہ مرکزی محکمے میں ملازم تھی، اس لیے کچھ عرصے بعد اس کو لکھنٔو میں تعینات کیا گیا۔ سارا کنبہ لکھنٔو منتقل ہو گیا اور آہستہ آہستہ نئے ماحول اور نئی چنوتیوں کا مقابلہ کرنے میں منہمک ہو گیا۔
کرائے پر سستا فلیٹ پندرہ کلو میٹر دور مل گیا۔ شیاما صبح سے لے کر آدھی رات تک پہلے دفتر اور پھر گھر کے جھمیلے سلجھاتی رہی۔ ادھر بچوں کے اخراجات بڑھتے گئے۔ سکول کی فیس، کپڑا لتا، جیب خرچ اور پھر ٹیوشن کا خرچہ! اجودھیا چونکہ ریاستی سرکار میں ملازم تھا اس لیے گھر بیٹھے تنخواہ ملنے لگی مگر اب بالائی آمدنی بند ہو چکی تھی۔ سگریٹ وغیرہ کے لیے جیب سے خرچ کرنا پڑتا تھا مگر وہ ٹھاٹ اب کہاں!
وہ من ہی من میں بہت خوش تھا کہ گھر بیٹھے ہر مہینے تنخواہ مل رہی ہے اور کوئی جوکھم بھی اٹھانی نہیں پڑتی۔ جب مرضی جاگو، جب مرضی کھاؤ اور جب مرضی آرام فرماؤ، کوئی بندش نہ تھی۔ ہاں جہاں کہیں کشمیری مہاجروں کی کانفرنس ہوتی، یگیہ ہوتا یا پھر کسی سنت سادھو کی آمد ہو تی، فوراً پہنچ جاتا اور کشمیری پنڈتوں کے مستقبل پر بحث و مباحثے میں حصہ لیتا۔ اچھا فورم تھا جہاں برادری کی خوب ساری خبریں مل جاتیں جن کو وہ آل انڈیا ریڈیو کی مانند نشر کرتا۔ کس کا بیٹا ایم بی کر کے امریکا چلا گیا، کس کی بیٹی انجینئرنگ کر کے جرمنی میں بیاہی گئی، کس کی لڑکی کس کے ساتھ بھاگ گئی، کس جوڑے کا حال ہی میں جھگڑا ہوا اور کس نے زہر کھا کر جان دی، اجودھیا ناتھ ان سب خبروں کا پٹارا تھا۔ مگر گھر پہنچتے ہی یہ بیماری اور وہ بیماری۔ کام کرنے کی سکت ہی نہ رہتی تھی۔
چند قریبی رشتے داروں نے بہت کوشش کی کہ اجودھیا ناتھ گھر کا ایک فرض شناس رکن بن جائے۔ کوئی پرائیویٹ ملازمت کر کے مزید آمدنی گھر لائے جو مستقبل میں بچوں کے کام آ سکے۔ یہاں تک کہ ایک بارسوخ رشتے دار نے اچھی خاصی نوکری دلوا دی۔ مگر پرائیویٹ نوکری میں محنت کرنی پڑتی۔ نہ وہ سرکاری نوکری کی ٹھاٹ باٹ تھی اور نہ ہی بالائی آمدنی۔ نہ فلٹر سگریٹ تھے اور نہ تکے کباب۔ دن بھر پسینے بہانے والا معاملہ تھا گو پرانی نوکری کے مقابلے میں پانچ گنا تنخواہ ملنے والی تھی۔ بیچارے نے دس بارہ روز حاضری دی پھر بیمار پڑ گیا اور بہت دنوں تک بستر پر پڑا رہا۔ اس طرح نوکری سے جان چھوٹ گئی اور وہ اندر ہی اندر خوش ہوا۔
صحتیاب ہونے کے بعد شیاما نے پھر کسی کی منت سماجت کر کے پاس ہی ایک این جی او میں نوکری کا انتظام کروایا۔ زیادہ محنت کا کام نہیں تھا۔ دس سے پانچ تک کی نوکری تھی اور وہ بھی آمدنی اور خرچے کا حساب رکھنا تھا۔ تنخواہ البتہ پہلے جیسی نہ تھی مگر معقول تھی۔ بچنے کی کوئی سبیل نظر نہیں آئی۔ بے چارا نوکری کرنے ایسے جاتا جیسے سوئے دار جا رہا ہو۔ آخر کب تک۔ پہلے مہینے کی تنخواہ۔۔۔ دوسرے مہینے کی تنخواہ۔۔۔ پھر دل میں گھبراہٹ ہونے لگی، ایک روز دفتر سے لوٹتے وقت غش آ گیا اور ڈاکٹر کے پاس لے جانا پڑا۔ انجام کار اس نوکری سے بھی چھٹکارا مل گیا۔
’’ایسے ہی ایک دو تجربے اور ہوئے مگر صحت کی ناسازی اور سر میں چکر آنے کے بہانے جان چھوٹتی رہی۔ ایک روز بڑا بھائی کولکتہ سے آیا اور بات بات میں نصیحت کرنے لگا۔ ’’ ’’اجودھیا، دن بھر یوں ہی پڑا رہتا ہے۔ کچھ کام شام کیا کرو، صحت بھی اچھی رہےگی اور وقت بھی گزر جایا کرےگا۔ ساتھ ہی گھر کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوگا۔’‘
اجودھیا نے جواب دینے میں زیادہ دیر نہ لگائی۔ ’’میں کیا گھاس کاٹتا رہتا ہوں۔ ہر مہینے سرکار تنخواہ دیتی ہے۔ پھر اور نوکری کرنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘
شکر ہے کہ نصیحت دینے والا کوئی اور نہیں بلکہ اس کا اپنا بڑا بھائی تھا۔ ورنہ بات نہ جانے کہاں تک بڑھ جاتی۔
ادھر اخراجات روز بروز بڑھ رہے تھے۔ اجودھیا ناتھ، جو تب تک’ شیر آیا شیر آیا‘ کی رٹ لگائے ہوئے تھا اب سچ مچ شیر کی گرفت میں آ گیا۔ ذیابیطس اور قلب کی بیماری نے مستقل طور پر دبوچ لیا۔ اب تو محفلیں بھی چھوٹ گئیں۔ ہجرت کے بعد کشمیری پنڈتوں میں دو چیزیں بہت عام ہو گئیں۔ ایک بسر اوقات کے لیے آشرموں کے چکر لگانا اور دوسرے ذیابیطس کی بیماری جو جونک کی طرح اکثر لوگوں کے ساتھ چمٹ گئی ہے۔ اجودھیا ناتھ کو بھی دونوں نے جکڑ لیا۔ مندر اور آشرم کی لت ایسی پڑی کہ گھنٹوں بیت جاتے گھر کا خیال ہی نہ رہتا۔ ادھر ذیابیطس نے اندر ہی اندر گھن کی طرح چاٹ لیا اور حرکتِ قلب نے کئی بار بند ہونے کی دستک دی۔
کچھ لوگوں کے لیے بیمار ہونا بھی افتخار کی علامت ہوتی ہے۔ اجودھیا ناتھ جہاں جاتاسب سے پہلے اپنی بیماری کا بکھان کرتا کہ ’’خون میں شکر بہت بڑھ گیا ہے، اس کے لیے ڈاکٹر نے چار دوائیاں دی ہیں۔ پھر فشار خون کی وجہ سے دل پر اثر پڑا ہے اور دو جگہ آپریشن کر کے خون کے بہاؤ کو نارمل کیا گیا۔ اس بیماری سے بچنے کے لیے روزانہ پانچ دوائیاں کھانی پڑتی ہیں۔ کھانے میں سب کچھ بند۔ نمک، چینی، مرچ، مصالحے، آلو اور چاول۔ معلوم نہیں پھر کیسے جئیں گے۔ میں تو آج کل ہوا پر جی رہا ہوں۔’‘
اور سچ بھی یہی ہے کہ اجودھیا ناتھ نے کبھی اپنے جینے کے ڈھنگ پر غور ہی نہیں کیا۔ وہ ہمیشہ ہوا پر جیتا رہا۔ کبھی والد کی کمائی نے سہارا دیا، کبھی بیوی کی کمائی نے اور کبھی مفت مل رہی تنخواہ نے۔ کہیں پر بھی اس کو محنت کرنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ وہ جیتا رہا، زندگی کے سفر کے سنگ میل طے کرتا رہا اور اب منزل بھی زیادہ دور نہیں رہی۔ طفیلی زندگی نے اسے ایک ہی سبق سکھایا کہ جینے سے مطلب رکھو، اس کی پرواہ نہ کرو کہ کیسے جینا ہے۔ ان بھول بھلیوں میں جھانکنے کی کوشش کرو گے تو زندگی کا سکھ چین کھو دوگے۔
اور اجودھیا ناتھ نے یہ سبق ازبر کر لیا ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.