وہ روشنی کی شہزادی تھی۔ میں روئی جیسے گالوں سے بنے بادلوں کا باشندہ۔ میں اسے ہمیشہ روشنیوں کے سہارے ہی دیکھتا تھا۔ کبھی چاندنی کی نورانی کرنوں میں اس کا عکس ابھر آتا تھا تو کبھی سورج جیسی روشنی میں اس کے مدھم مدھم نقوش میری آنکھوں کو خیرہ کر دیتے تھے۔ جب کبھی وہ میری طرف اپنی مسکراہٹ کے پھول اچھال دیتی تھی تو وہ شام میرے لئے شام عشرت میں بدل جاتی تھی۔۔۔ ایک دن میرے نرم بادلوں کے دیش میں چاندنی کی برسات ہوئی تو میں نے دونوں ہاتھوں سے دامن پھیلاکر ساری چاندنی اپنی جھولی میں بھر لی۔ چاندنی کے ذرے ذرے میں شہزادی کا عکس منقش تھا۔ تب مجھ پر یہ راز منکشف ہوا کہ چاند کی اپنی کوئی رمق نہیں ہوتی۔ یہ تو روشنی کی شہزادی کا حسن ہے جس کا عکس چاند کی بے نور آنکھوں میں نور بھر دیتا ہے اور وہ اپنے سارے ارد گرد کو اپنی نورانی چاندنی سے نہلاتا ہے۔
ایک مست شام کو چاندنی مسکراتے ہوئے مجھے دیکھ رہی تھی کہ میرے سارے برفیلے وجود میں سورج جیسی گرمی بھر گئی۔ شہزادی کی باتیں مجھے اپنی حدت سے پگھلا رہی تھیں اور اس کی سرگوشیاں الفاظ کے معنٰی کھو رہی تھیں۔۔۔ اس کی محبت جیسے مدھر، مٹھاس، رس بھرے ساگر میں گھل رہی تھی اور بھاب بن کر ٹپ ٹپ میری بےباک سوچ پر گر رہی تھی۔ میرے ذہن و دل کو بس میں کرکے میرے سارے وجود کو سیراب کر رہی تھی۔
روشنی کے دھاگوں سے کڑھا ہوا شہزادی کا عکس اب روز مجھ سے باتیں کرنے لگا تھا۔
‘’تم کب کب مجھے یاد کرتے ہو’‘
‘’یہ پوچھو کب یاد نہیں کرتا ہوں۔ تیری چاندنی تو جھلمل جھلمل کرتی میرے دل کے نہاں خانوں میں اجالا کئے ہوئے ہے۔ میرے وجود کے سارے اندھیرے تیری روشنیوں سے روشن ہیں۔ تیری یاد نہ آئے تو من کی ساری روشنیاں گل نہ ہو جائیں گی۔’‘
‘’اپنے دل میں کس کس کو بسا رکھا ہے۔’‘
‘’تصورات میں بسی مبہم اور غیرمانوس سی سیاہی جو کونوں کھدروں میں کائی کی طرح جمی تھی۔ تجلی کا تاب نہ لا سکی۔ سارے طور سور ہو گئے۔ سیاہی کے بت ریزہ ریزہ ہو گئے۔ عبادات کو ایک روشنی ملی۔ اب تو سارے راستے منور ہیں۔ روشنی میں کہاں الگ الگ خانوں میں الگ الگ خدا ٹک پاتے ہیں۔ ایک صورت، ایک مورت کے جوگی کے مصداق ہوکر رہ گئے ہیں۔’‘
‘’اففف۔۔۔‘‘ اس کی تاسف بھری پھنکار۔
‘’یقین دلانے کے میرے پاس ہزار بہانے ہیں۔ پر وہ پیار ہی کیا جہاں حربے آزمائے جائیں۔۔۔ جتن کرنا بھلا دو۔ دل کو گواہ کر لو۔ یقین کے دروازے وا ہو جائیں گے۔ نگاہوں کا ایک مرکز ہو جائےگا۔ تصورات پر ایک ہی صورت منعکس ہو جائےگی۔
‘’مجھے چاند اور چاندنی سے جدا کرکے دیکھوگے تو دل بھر جائےگا۔ نہ شہزادی کا بھرم رہےگا نہ اجالوں کے آفاقی تجلی کا تصورہی ہوگا۔ تم بھی بادلوں سے اتر آؤگے تو زمینی حادثات میں دفن ہوکر رہ جاؤگے۔’‘
‘’کیوں اتنی جلدی تخیل کے گہرے نیلے سمندر کو جلتی ریت سے پاٹ دینا چاہتی ہو۔ کیوں آکاش کی گہری وسعتوں کو کالے بادلوں سے ڈھک دینے کی متمنی ہو۔ زمینی سوچ میں دلدل ہوتے ہیں۔ خاردار راستے ہوتے ہیں۔ ریتیلے صحراؤں میں پیروں کے تلوے جلتے ہیں۔ تخیل کی وسعتیں لامحدود ہوتی ہیں۔۔۔ تصورات کے پیر نہیں پر ہوتے ہیں۔ اڑانوں پر کوئی قید نہیں۔ کوئی قدغن نہیں ہوتی۔ آ میری آفاقی سوچ میں بس جا۔ میرے بحر بیکراں جیسے سینے پر اپنا سر رکھ دے۔ میرے تخلیقی بازؤں میں سما جا۔ ایک نئی کہانی کو جنم دیں گے۔ جو امر ہو گی۔ لافانی ہوگی۔
‘’میں تیرے فعل کی مرتکب گردانی جاؤں گی۔ تجھے جنت سے نکال باہر کر دیا جائےگا۔ پھر مجھے تیرے ساتھ تیری خواہشوں کی تکمیل میں سرگرداں رہنا ہوگا۔۔۔ نہیں نہیں میں کبھی تیرے قریب بھی نہیں پھٹکوں گی۔ تیرے تصور میں بھی نہیں۔۔۔ تیرے تخیل میں بھی نہیں’‘
‘’میں تخلیق کار ہوں۔ اولاد آدم ہوکر بھی وہ حرکات نہیں دہراؤں گا جن سے تم بےزار ہو۔ مجھ سے بدظن ہو۔ تجھے تراش خراش کر من موہک بنا دوں گا۔ ایک تخلیق کار کی امر پریمیکا۔ جس کی بس پوجا ہوگی۔’‘
‘’اففف۔۔۔ ہاہاہاہا’‘
’’تیرا یہ تاسف اور اس تحقیر کو کس معنٰی میں لوں میں۔۔۔‘‘
‘’کہانیاں گڑھنے والے صورت کو مورت بنانے کی فکر میں خود کو کرداروں میں گم کر جاتے ہیں۔ اپنی ساری حرارت خیالی اپسراؤں کے بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔ چاشنی سے لبالب سارا جوش تراشیدہ پیکروں میں انڈیل دیتے ہیں۔ جذبات میں شدت اور شریر میں تناؤ کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے تو جنون کے ہتھے چڑ جاتے ہیں۔ جنوں کے بہاؤ میں بہہ جاتے ہیں۔ تیز بہاؤ جب کنارے پر اچھال دیتا ہے تو ٹھنڈے پسینے میں تر بتر ہوتے ہیں۔۔۔ تم سوچو ں میں الجھے لوگ ظاہری رچاؤ بساؤ میں بہت پھیکے ہوتے ہو۔’‘
میں جلدی جلدی فیس بک سے لاگ آوٹ ہو گیا۔ پھر گھبراہٹ میں کمپیوٹر ہی شٹ ڈاون کر دیا۔ کافی دیر تک انگلیاں بالوں میں پھرتا رہا۔ قوت ارادی یکجا کرنے میں مجھے کافی دیر لگی۔ اس نے میری تخلیقی صلاحیت کا مذاق اڑایا تھا۔ میری قوت بشری کو چلینج کیا تھا۔۔۔ میں کافی دیر تک اس بات پر غور کرتا رہا کہ کیا واقعی ایک تخلیق کار خیالی دنیا کا باشندہ ہوتا ہے جس کا ظاہری رچاؤ بساؤ پھیکا ہوتا ہے۔ ہم تو کرداروں کو فاتح بنانے کا ہنر جانتے ہیں۔ خود کیسے کاغذی گھوڑے ثابت ہو سکتے ہیں۔ چاہے میدان عملی ہو یا تخلیقی۔
میں نے اداسیوں کے سمندر پر عارضی خوشی کا برش پھیر دیا اورسر پر کالے بادلوں کا سائبان پھیلا دیا۔ اب نہ چاندنی ہی جھلمل جھلمل کرتی میرے وجود سے ٹکراتی تھی اور نہ شہزادی کا عکس ہی میرا مذاق اڑانے کے لئے سامنے آتا تھا۔
لیکن میرا یہ عارضی سکون تب درہم برہم ہو گیا جب اچانک بادلوں نے مجھے اپنے دیش سے باہر اچھال دیا۔۔۔ میں ہوا میں ہچکولے کھاتا رہا۔۔۔ لیکن یہ نہ جان پایا کہ گر رہا ہوں کہ تیر رہا ہوں۔۔۔ شہزادی سے چھپا رہنے کا یہ عارضی خول میرا شکنجہ بنا۔ جس میں میرا سارا وجود جکڑا گیا۔۔۔ مجھے وسوسوں اور اندیشوں نے گھیر لیا۔۔۔ مجھے لگا دور کہیں چاندنی اب بھی چھن چھن برس رہی ہے۔ اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ شام کو منور کر رہی ہے۔ شہزادی کسی اور کی راتوں کو رنگین بنا رہی ہے۔ بس اک میں ہوں جس کی کوئی بھی شام تب سے شام عشرت نہ بن پائی تھی۔ میری ہر شام اب۔۔۔ شام غم بنی ہوئی تھی۔
تنہائی اور بےاعتنائی کی یہ سیاہ اور وحشت زدہ رات بہت مختصر رہی۔ شہزادی نے بھی یہ دن بڑی بے قرارمیں گذارے تھے۔ مجھ سے دور رہ کر وہ بھی خوش نہیں تھی۔۔۔ وہ بھی جذبات کی بھٹی میں سلگتی رہی تھی۔ اس کا وجود بھی میری گرم سانسوں کا متلاشی تھا۔۔۔ ہجر و جدائی کا یہ موسم اس کے لئے بھی جان لیوا بن چکاتھا۔۔۔ آخر چاندنی کالے بادلوں میں روزن تلاشنے میں کامیاب رہی اور میری آنکھوں کو خیرہ سر کر گئی۔
جب میری بےقراری حد سے بڑھ گئی اور شہزادی کو بھی کسی کروٹ چین نہ آ رہا تھا تو ہم نے اس سائنسی طلسماتی چکرویو سے باہر آنے کا فیصلہ کیا۔
شہزادی نے میرے بازو پر زور سے کاٹا میں نے دزدیدہ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا۔۔۔ اس کی آنکھو ں کے اسکرین پر بےترتیب مدو جزر کا ابال تھا۔ کچھ دھندلا دھندلا سا عکس ابھر رہا تھا۔ آدم کا خلد سے نکالے جانے کا منظر کبھی ابھرتا اور کبھی ڈوبتا ہوا نظر آ رہا تھا۔ شہزادی کے چہرے پر ہلکی ہلکی سی شرمیلی مسکراہٹ ابھر کر آ رہی تھی اور اوپری ہونٹ پر ننھی ننھی سی شبنمی بوندیں اگ رہی تھیں۔ آنکھوں کا تجسس اور ہاتھوں کی بےچینی اسے بےقرار بنائے ہوئے تھی۔ وہ بار باراپنی مٹھی بند اور کھول رہی تھی جیسے اپنا دہکتا وجود اپنے ہاتھوں میں بھر کر مٹھی بند کرنا چاہتی تھی۔ میں جو کرداروں کو فاتح بنانے کا ہنر جانتا تھا۔۔۔ میں ایک تخلیق کار ایک نئی کہانی کو نیا آکار دینے کی سعی ہی کر رہا تھا کہ مجھ میں اولاد آدم کی روح حلول کر گئی۔ ہاتھ بڑھایا تو حوا کی بیٹی ساری کی ساری میرے وجود کا حصہ ہو گئی۔۔۔ ہمارا ملن ناگزیر تھا۔۔۔ ہمارا فعل ناقابل تنسیخ تھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.