ابھی کچھ دن پہلے روزنامہ ''ترنگ’’ کے ادبی ایڈیشن میں ایک سکہ بند نقاد نے میرے تازہ ترین ناول’‘محبت کے سات رنگ’’کو بازاری لٹریچر قرار دیتے ہوئے مجھے ادبی کنوئیں کےاس مینڈک سے تشبیہہ دی ہے جو اگلے سو سال بھی پھدکتا رہے تو شاعرانہ لفاظی اور غیر حقیقی موضوعات کی گرفت سے دامن نہیں چھڑا پائے گا۔ یوں تو نقاد موصوف بذاتِ خود سترہ ناکام کتابوں کے مصنف اور پرلے درجے کے احمق واقع ہوئے ہیں مگر قارئین کے حلقوں میں کافی معتبر گردانے جاتے ہیں۔
غالباً اسی معتبری کا شاخسانہ ہے کہاں کا تبصرہ چھپتے ہی تنقیصی خطوط کا تانتا سا بندھ گیا۔ اب تک پچاس سے زائدخطوط موصول ہو چکے ہیں جن میں سے کچھ چیدہ چیدہ اقتباسات ذیل میں رقم کئے جاتے ہیں:
''محترم سلیم کمال! اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آپ کا طرز نگارش بہت اچھوتا اور خوبصورت ہے مگر خوبصورتی ہی تو سب کچھ نہیں ہوتی حضور! خیال بھی کسی چڑیا کا نام ہے۔۔۔ پچھلے پندرہ برسوں سے ادب کا ایک سنجیدہ قاری ہونے کے باوجود آپ کی ہر تحریر نہایت توجہ سے پڑھتا ہوں اور سچ پوچھئے تو ’‘محبت کے سات رنگ’’کو پڑھ کر کافی بد مزہ ہوا کیونکہ یہی کہانی آپ کرداروں کے نام اور حلیے بدل کر’‘سرخ پھولوں کی راگنی’’ اور ’‘پیار کے مدّو جزر’’ میں پہلے بھی استعمال کر چکے ہیں۔''
‘’معاصر ادب زوال پذیر ہے اور اس زوال کی ذمہ داری آپ جیسے ادیبوں پر عائد ہوتی ہے جو گل کے عشوؤں اور بلبل کے نالوں سے ایک انچ بھی آگے بڑھنے پر آمادہ نہیں۔ خدارا کم سنی کی محبت جیسے فرسودہ اور پامال موضوع کو مزید پامال کرنا اور رگیدنا بند کریں اور سماج کا اصل چہرہ دکھائیں اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا!’’
''بک کے فلیپ پر اس بار آپ کی تصویر زیادہ اچھی نہیں آئی سر! وجہ بھی بتا دوں؟ اوکے۔۔۔ اپنے بال سٹریٹ مت کیا کریں کیونکہ گھنگریالے بال آپ پر کافی سوٹ کرتے ہیں۔ اچھا ایک بات تو بتائیں؟ آپ نے کبھی سچی والی محبت کی ہے؟ کامیاب تو بہت کی ہونگی۔۔۔ ناکام محبت کے بارے میں بتائیے نا! بلکہ ہو سکے تو اس پر ایک کہانی ہی لکھ دیجئے۔۔۔ مجھے سچی کہانیاں پڑھنا بہت اچھا لگتا ہے اس لئے ‘‘تین عورتیں تین کہانیاں’’ میرا آل ٹائم فیورٹ ہے۔''
''مجھے لگتا ہے آپ تخیل کی دنیا میں ڈوبے رہتے ہیں اور آپ نے کبھی ایک لمحے کے لئے بھی اپنے گردو نواح میں جھانکنے کی زحمت نہیں کی ورنہ یہ کیسے ممکن تھا کہ آپ تلخ سماجی قدروں کو اتنی سفاکی کے ساتھ نظر انداز کر دیتے۔’’
‘’ادیب سماج کا اجتماعی ضمیر ہوتا ہے اور ضمیر کا کام افیون کھلانا نہیں، آئینہ دکھانا ہوتا ہے۔’‘
ایک عام قاری کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ نہایت معصوم ہوتا ہے لہٰذا اخبار میں چھپنے والی ہر بات پہ یقین کر لیتا ہے (چاہے وہاس کے اپنے انتقال کی خبر ہی کیوں نہ ہو)۔ میں اسی عام قاری کے لئے لکھتا ہوں اور بخوبی جانتا ہوںاسے محبت کی چاشنی، وصل کی تابانی اور گلابوں کی مہک درکار ہے کیونکہ ان میں سے کچھ بھی حقیقت کی سنگلاخ دنیا میں میسر نہیں۔ لیکن وہ خود یہ بات نہیں جانتا اس لئے ایک گاؤدی نقاد کی سطحی علمیت سے مرعوب ہوکر تلخ سماجی قدروں پر مبنی دل گداز افسانے کا تقاضا کرتا ہے۔
میں نے آج تک کسی کی بے بسی نہیں لکھی اور کسی کے آنسو نہیں بیچے۔ اب تک میں اپنے قاری کے زخمی بدن پر نمک چھڑکنے کے بجائے اس کی نم پلکوں میں خواب پروتا آیا ہوں۔ مگر اب وقت آ گیا ہے کہ بوا حمیدن اور اسی کی بیٹیوں کی کہانی بیان کر دی جائے، کیونکہ میرا قاری مجھ سے یہی چاہتا ہے اور میں اس کی خواہش ٹھکرا نہیں پاؤں گا۔
اگر آپ چاہتے ہیں کہ میں محبت کا خوش نما پرندہ تلخی کی کند چھری سے ذبح کر کے اس کو لفظوں کا تڑکا لگاؤں اور افسانے کی پلیٹ میں رکھ کر آپ کے سامنے پیش کروں تو لیجئے پلیٹ حاضر ہے!
میرے گھر کے سامنے والی گلی کے دائیں نکڑ کا پہلا مکان قریشی صاحب کا ہے۔ بلال ان کا منجھلا بیٹا ہے۔ میڈیکل کے تیسرے سال میں ہے مگر ڈاکٹری سے کہیں زیادہ شعر و شاعری میں دلچسپی رکھتا ہے۔ اچھی غزل کہتا ہے مگر بےاستادا ہے لہٰذا مشاعروں میں نہیں بلایا جاتا۔
قریشی صاحب سکول ماسٹر ہیں۔ ڈاکٹر بننا چاہتے تھے مگر میرٹ نہیں بنا۔ وسائل بھی محدود تھے۔ اب بیٹے کی شکل میں انکو اپنے خوابوں کی تعبیر مل گئی ہے۔۔۔ یہ جانے بنا کہ بیٹے کے خوابوں کا کیا ہوگا شاید دنیا کا دستور یہی ہے کہ ہر خالق چاہے وہ باپ ہو یا خدا، اپنی تخلیق کے جسم کی پرورش کرتا ہے اور اس کے خوابوں کا قتل۔
بلال کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو کسی ایک لمحے کے حسن میں گرفتار ہوکر محبت کے سحر میں مبتلا ہوتے ہیں اور زندگی کی آخری سانس تکاسی ایک لمحے کی لاج رکھتے ہیں۔ وہ اس کھوکھلی محبت کے قائل نہیں ہوتے جو لیکچر تھیٹروں میں جنم لیتی ہے، کوریڈورز میں پروان چڑھتی ہے، ہوٹل کے بند کمروں میں بام عروج پر پہنچتی ہے اور عملی زندگی کے پہلے قدم پر کسی لاچار بڑھیاکی طرح دم توڑ دیتی ہے۔
لاچار بڑھیا سے یادآیا بوا حمیدن کا گھر بھی اسی گلی میں واقع ہے۔ نیک صفت اور ملنسار خاتون ہیں۔ تھوڑا اونچا سنتی ہیں۔ بیٹیاں دو ہیں۔ بیٹا خیر سے کوئی نہیں۔
بوا حمیدن کا خاوند کافی برق رفتار آدمی تھا۔ وراثتی جائیداد کے مقدمے لڑے، آبائی زمین بیچی اور شہر منتقل ہو گیا۔ غلہ منڈی میں آڑھت چلائی، ناکام ہوا تو گھر کے پچھواڑے پرچون کی دکان کھول لی۔ دبئی چلو کا نقارہ بجا تو دوکان بیچ کر دبئی سدھار گیا۔ سنا ہے اس نے بہت ترقی کر لی ہے۔ نہ صرف ایک کمسن بیوی، بلکہ اولاد نرینہ بھی میسر آ گئی ہے۔
غزالہ بوا حمیدن کی چھوٹی بیٹی ہے۔ حسنِ اتفاق سے وہ بھی میڈیکل کے تیسرے سال میں ہے (یعنی بلال کی کلاس فیلو ہے) مگر یہ رشتہ صرف یہیں تک محدود نہیں وہ ایک لمحے کا حسن جس نے بلال کی ساری زندگی کو عشق کے تین حروف میں قید کر دیا ہے، غزالہ کی روشن آنکھوں میں فروزاں ہے۔ لیجئے!پھر وہی لو سٹوری شروع ہو گئی۔ رومانوی ادیب کا المیہ یہ ہے کہانی کی ہر تان بالآخر محبت پہ آکر ٹوٹتی ہے اور بوا حمیدن کی کہانی کہیں پیچھے رہ جاتی ہے۔
بوا حمیدن کو اپنے خاوند پر بہت مان تھا اور مان ٹوٹ جائے تو انسان اندر سے تڑخ جاتا ہے۔ خاوندکی بے اعتنائی کا غم اس کو دھیرے دھیرے یوں چاٹتا رہا جیسے دیمک لکڑی کو چاٹتی ہے۔ پھر ایک دناسے خون کی الٹی ہوئی۔ ہسپتال گئی تو معلوم ہوا کینسر کے عفریت نے جسم میں پنجے پھیلا رکھے ہیں۔ یہیں سے فائزہ کی کہانی شروع ہوتی ہے۔
بوا حمیدن کا علاج ضروری تھا اور علاج کے لئے پیسے چاہئے ہوتے ہیں۔ فائزہ نے اپنے باپ سے رابطے کی بہت کوشش کی مگر رابطہ نہیں ہو پایا۔ امید کی آخری کرن بھی مایوسی کے اندھیروں میں ڈوب گئی تواس نے نوکری کی تلاش شروع کر دی مگر اس غاصب نظام میں، جہاں اٹھائی گیرے اور نوسر باز حکومت کی کرسیوں پر بیٹھ کر راج کرتے ہیں اور پی ایچ ڈی سکالرز رشوت دے کر نوکریاں خریدتے ہیں، ایک آرٹس گریجو ایٹ کی بھلاکیا دال گلنی تھی!
فائزہ نے دیکھا کہ سوٹڈ بوٹڈ افسر (جن کی شرافت کی گواہی مانگی جائے تو مجمع لگ جائے) انٹرویو لیتے ہوئے اسے یوں گھورتے ہیں جیسے آنکھوں ہی آنکھوں میں زندہ نگل جائیں گے۔
فائزہ نے دیکھا کہ موٹی موٹی توندوں والے سیٹھ تعلیمی اسناد دیکھنے کے بجائے اس کی شاداب چھاتیوں کی گولائیاں دیکھتے ہیں۔
فائزہ نے دیکھا کہ بڑی بڑی داڑھیوں والے متّقی اور پرہیز گار منیجر اس کی قابلیت جانچنے کے بہانےاس کا بدن جانچنا چاہتے ہیں۔
فائزہ نے دیکھا کہ زندگی ایک یرقان زدہ بچے کی طرح ہے جس کا نازک پیٹ پھولا ہو اہے اور جس کی زرد آنکھوں میں جینے کی آخری رمق بھی دم توڑ چکی ہے۔
بوا حمیدن کی کیموتھراپی کامیاب رہی۔ غزالہ کا تعلیمی سلسلہ بھی جاری رہا۔ فائزہ کو ایک ابھرتی ہوئی ٹرانسپورٹ کمپنی میں جاب مل گئی تھی جہاں اس نے دن دوگنی رات چوگنی ترقی کی۔ کمپنی کا مالک فائزہ کی کارکردگی سے بہت خوش ہوا اور اس نے متعدد بار اس کی تنخواہ اور دیگر مراعات میں اضافہ کیا۔ خاندان کے لئے علاج معالجہ اور اپنے ہمراہ دوبئی کا فارن ٹرپ بھی دیا۔ ہزار سی سی گاڑی اور شوفر کی سہولت بھی ملنے والی ہے۔
پچھلے سال بلال نے گھر میں شوشا چھوڑا کہ اس کی منگنی غزالہ سے طے کر دی جائے۔ قریشی صاحب بہت برانگیختہ ہوئے تھے۔ عاق کرنے کی دھمکی بھی دی۔ بلال نے انکار کی وجہ پوچھی تو فائزہ کا پست اخلاقی کردار زیر بحث آیا۔ بلال نے بھوک ہڑتال اور کورٹ میرج کی دھمکی دی تو قریشی صاحب چھاتی پکڑ کر لیٹ گئے۔ پورا ہفتہ بستر سے نہیں اٹھے۔ اپنی قربانیا ں گنواتے رہے۔ قریشی صاحب بھی کیا کرتے۔ آخر کو وہ اسی سماج کا ایک پرزہ ہی تھے جو کسی کی طرف انگلی اٹھا تو سکتا ہے، مگراس کے درد کا درماں نہیں کر سکتا، اس کے آنسو نہیں پونچھ سکتا، اس کا سہارا نہیں بن سکتا۔ بلال نے بہت ہاتھ پاؤں مارے مگر کوئی سرا نہیں ملا۔ پھر اس نے زندگی کو ایک ٹوٹے ہوئے پیانومیں تبدیل ہوتے دیکھا اور چپ سادھ لی۔
آج شام کو بواحمیدن کے گھر ایک سادہ سی تقریب منعقد ہوئی اور غزالہ کی منگنی ایک ادھیڑ عمر ڈاکٹر سے طے پا گئی جسے اپنی پہلی بیوی کی حادثاتی موت کے بعد کلینک چلانے اور دو عدد بچوں کو سنبھالنے کے لئے ایک عدد سگھڑ، سلیقہ شعار اور حسین لیڈی ڈاکٹر درکار ہے۔
ڈاکٹر موصوف نہایت عمر چور، مستعد اور زندہ دل آدمی واقع ہوئے ہیں؛ صبح میڈیکل کالج میں فارما کالوجی۔
پڑھاتے ہیں، شام میں کلینک کرتے ہیں؛ اپنی ریشمی ٹائیوں اور پھولدارشرٹوں کی وجہ سے طالبات کے حلقوں میں کافی معروف ہیں۔
ڈاکٹر صاحب ہمیشہ سے غزالہ کے لئے اپنے دل میں ایک نرم گوشہ رکھتے تھے۔ بیوی کی ناگہانی وفات نے گوشے کا حجم بڑھا دیا۔ بے جا التواء کے قائل نہ تھے۔ بیگم کا چالیسواں ہوتے ہی بواحمیدن کے روبرو پیش ہوئے اور غزالہ کا ہاتھ مانگ لیا۔ بواحمیدن تو جیسے اسی انتظار میں بیٹھی تھی۔ فوراً بات پکی کر ڈالی۔ غزالہ نے بھی کوئی اعتراض نہیں کیا۔ ویسے بھی وہ ڈاکٹر صاحب کا بہت احترام کرتی ہے اور احترام کو محبت میں بدلتے دیر ہی کتنی لگتی ہے!
اسے محض اتفاق ہی سمجھا جائے کہ جب ڈاکٹر صاحب گلاب کے پھولوں کا گلدستہ تھامے اپنی نئی نویلی گاڑی کی جانب بڑھ رہے تھے تو ٹھیکاسی لمحے میری نظر ان کے فاتحانہ چہرے اور مسرور آنکھوں سے ہوتی ہوئیان کے نچلے دھڑ اور قدموں پہ جا رکی۔
یہ چال میں نے پہلے بھی کہیں دیکھی تھی مگر کہاں؟
بہت سوچا مگر یاد نہیں آیا۔
پھر ایک دم آنکھوں کے سامنے ایک دھندلی سی شبیہہ لہرائی اور بوا حمیدن کا خاوند لمبے لمبے ڈگ بھرتا دکھائی دیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.