میری بوڑھی آنکھوں نے اسّی بہاریں اور اسی پت جھڑ دیکھے ہیں۔ بہار تو خیر نام کے لیے آتی تھی ورنہ جن دنوں میں چھوٹا تھا میں نے کہیں چمن میں گل کھلتے دیکھے ہی نہیں۔ ہر طرف سیلاب، سوکھا، قحط، بھوک مری، غلامی اور بےروزگاری نظر آتی تھی۔ ملک پر فرنگیوں کا قبضہ تھا جو ہمیں غلامی کی زنجیروں میں ہمیشہ جکڑ کر رکھنا چاہتے تھے۔ ان کا قول تھا کہ ہندستانیوں کو اپنا ملک چلانے کی صلاحیت نہیں ہے۔ ادھر میں زندگی کے زینے چڑھتا گیا، ادھر ملک کروٹیں لیتا رہا۔ کہیں عدم تشدد کا صور پھونکا جا رہا تھا اور کہیں تشدد لہو کی لکیریں کھینچ رہا تھا۔ کسی کے ہاتھ میں چرکھے والا ترنگا نظر آ رہا تھا اور کسی کے ہاتھ میں درانتی ہتھوڑے والا سرخ پرچم۔
جوانی میں انقلاب، بغاوت اور جدلیات کی باتیں اچھی لگتی ہیں۔ ابلتا خون رگ رگ میں دوڑنے لگتا ہے۔ سو میں نے بھی اپنی آنکھوں میں نئے عزم اور انقلاب کے خواب سنجوئے۔ مارکس، اینگلز اور لینن کو اپنا رہنما بنایا، پشکن، گورکی، دوستوفیسکی اور چیخوف کا مطالعہ کیا، ترقی پسند تحریک کا حصہ بن گیا اور احمری رہنماؤں کی خوش الحانی سے محظوظ ہوتا رہا۔ میں اس بات کا قائل ہو گیا کہ قوم کی تعمیر انفرادی ضرورتوں سے زیادہ اہم ہے۔
افسوس کہ آزادی کا سورج طلوع ہوتے ہی میرے خواب ریزہ ریزہ ہو گئے۔ فرنگی حکمرانوں نے انتہا پسندوں کی جگہ اعتدال پسندوں سے سمجھوتا کر لیا تاکہ خود انگریز منتقمانہ خونریزی سے بچ جائیں، ان کا بنایا ہوا راشی نظام بدستور چلتا رہے اور فرنگی کمپنیوں کا دبدبہ یوں ہی قائم رہے۔ اِدھرکمیونسٹ پارٹی بھی انتشار میں مبتلا ہو گئی، کئی قائدین پاکستان جا کر بس گئے، ہندستان میں پارٹی کے ٹکڑے ہو گئے، کوئی مارکسی بن کر الگ ہو گیا اور کوئی نکسلی بن کر جنگلوں میں سرگرم ہو گیا۔ ہر روز ایک نیا مسیحا سامنے آتا رہا۔ مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ان میں سے غریبوں کا حقیقی مسیحا کون ہے۔ ایک صدی کی تگ و تاز کے باوجود ہم دو تین ریاستوں سے آگے اپنا اثرو رسوخ نہیں بڑھا پائے۔
بنگال، ترپورا اور کیریلا میں میرے رفیقوں نے کرسیاں سنبھالیں۔ اب وہ جدلیاتی مادیت کو بھول کر انتخابات، سوشلزم اور مساوات کی باتیں کرنے لگے۔ جس ہندستان کے سپنے ہم نے مل کر دیکھے تھے اس میں نہ غربت کے لیے کوئی جگہ تھی، نہ استحصال کے لیے، نہ مذہب کے لیے اور نہ ہی ذات پات کے لیے۔ اس کے برعکس ہم نے تخریبی نظام کو ترجیح دی۔ ہندستان کچھ اور ہی بنتا جا رہا تھا۔ ہڑتالیں۔۔۔ چکا جام۔۔۔ ملیں بند۔۔۔ دفتر بند۔۔۔ کام ٹھپ۔۔۔ !ہمارے رہنماؤں نے غریب رعایا کو برس ہا برس اپنے لیے قبریں کھودنے میں مصروف رکھا۔ روز بروز جاہلوں اور بےروزگاروں کی فوج بڑھتی رہی جبکہ رہنما اپنے منشور چاٹتے رہے۔ کوئی کسی کو ٹوکنے کے لیے تیار نہ تھا۔ اب تو عوام کے بدلے ووٹ بنک کی باتیں ہو رہی تھیں۔ مانا سیلاب، خشک سالی اور بھوک مری قدرت کی دین ہیں مگر آبادی تو روک سکتے تھے، ماحول کی حفاظت تو کر سکتے تھے، جنگلوں کی بے دریغ کٹائی تو روک سکتے تھے۔ نہیں ایسا نہیں ہوا۔ کیونکہ میرے رفیقوں کو اس بات کا احساس ہوا کہ جب تک اس ملک میں بھوک اور بیکاری ہے، ان کی تاجداری قائم ہے۔ اس لیے وہ غریبوں کی جھولیوں میں سبسڈیاں ڈال کر رجھاتے رہے۔ ہر الیکشن سے پہلے نئی فلاحی سکیموں کا اعلان کرتے رہے۔ ان سکیموں پر زمین پر کم اور کاغذ پر زیادہ عمل کرتے رہے اور ہر وہ موقع ڈھونڈتے رہے جسے ذاتی مالی منفعت بہم پہنچ سکے۔ دونوں سیاست داں اور افسر شاہی غیر ملکی کھاتوں میں اپنی بڑھتی بنک بیلنسوں کو دیکھ کر بغلیں بجاتے رہے۔
حیرت کی بات تو یہ ہے کہ آزادی کے بعد کمیونسٹ، جو لامذہبیت کا دعویٰ کرتے ہیں، مذہبی بولیاں بولنے لگے۔ ہر سال کروڑوں روپے درگا پوجا پنڈالوں پر خرچ کرتے رہے۔ اقتصادی پسماندگی کو دور کرنے کی بجائے ذات پات اور مذہبی الجھیڑوں میں دلچسپی لینے لگے۔ سچ پوچھو تو آزادی کے بعد مذہبی رہنماؤں، سیاسی لیڈروں اور ان کے گرگوں کی تگڑی ہمارے ملک پر حاوی ہو گئی۔
جب میں نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا، اپنے گھر کا ماحول قدامت پرست اور مذہبی پایا۔ میں چوری چھپے فیضؔ، مخدومؔ، سردارؔ، مجروحؔ اور ساحرؔ کی شاعری سے فیضیاب ہوتا رہا۔ ان کی شاعری سے تحریک پا کر میری رگوں میں گرم لہو گردش کرنے لگا۔ اس لیے میں خود بھی میدان عمل میں کود پڑا۔ ابتدا میں تک بندی کرتا تھا لیکن بعد میں باضابطہ شاعری کرنے لگا۔ ترقی پسند شاعروں کی مجلسوں اور مشاعروں میں جانا میرا معمول بن گیا۔ میرے نام کی تقلیب ہوئی اور میں وحید الدین چودھری سے وحیدؔ بھارتی بن گیا۔
ایک روز مشاعرے کے اختتام پر صاعقہ نصیری ہال کے باہر میرا انتظار کر رہی تھی۔ جونہی میں باہر نکلا تو وہ کسی ہچکچاہٹ کے بغیر مجھ سے مخاطب ہوئی۔ ‘’وحیدؔ بھارتی صاحب، میں آپ کی بہت بڑی فین ہوں۔ کیا آپ مجھے اس کتاب پر اپنا آٹوگراف دے سکتے ہیں؟’‘ اس نے کتاب میرے ہاتھ میں تھما دی۔
کتاب کو دیکھ کر میں اچنبھے میں پڑ گیا۔ میری شاعری کا پہلا مجموعہ ’آزاد لبوں سے پرے‘ تھا۔ میں نے اپنے تاثرات لکھ کر دستخط کر دیے۔ ’’صاعقہ نُصیری کے نام۔۔۔ بولنا ہی کافی نہیں، اس پر عمل کرنا بھی ضروری ہے۔ ڈھیر ساری محبتوں کے ساتھ۔ وحیدؔ بھارتی‘۔
اس روز کے بعد صاعقہ سائے کی طرح میرے ساتھ رہنے لگی۔ بہت ہی جذباتی اور نڈر لڑکی تھی۔ گریجویشن کر کے ایم اے پولیٹکل سائنس میں داخلہ لیا تھا۔ کمیونزم نے اس کو بھی اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔ البتہ میں نے اسے ابتدا ہی میں آگاہ کیا کہ ‘’میری زندگی غریبوں اور مفلوک الحال لوگوں کی خدمت کے لیے وقف ہو چکی ہے اور شاید زندگی میں مجھے کبھی استحکام نصیب نہیں ہوگا۔ اس لیے مجھ سے کوئی امید رکھنا بیوقوفی ہوگی’‘۔ لیکن اس پرتو عشق کا بھوت سوار ہو چکا تھا۔ میری ہزار کوشش کے باوجود وہ مجھ سے دور رہنے کو تیار نہ تھی۔ در اصل جوانی میں جوکھم اور رومانس انسان کو دیوانہ بنا دیتے ہیں۔ عاشق کی عقل پر تالے پڑ جاتے ہیں۔
صاعقہ کے قرب نے میری شخصیت میں ایک عجیب سا ٹھہراؤ پیدا کر لیا۔ پس آزادی اکثر رفیقوں کو اپنا گھربساتے دیکھ کر مجھے بارہا خیال آیا کہ کیوں نہ میں بھی ازدواج میں بندھ جاؤں۔ اپنے سے زیادہ مجھے صاعقہ کی فکر ستا رہی تھی کیونکہ وہ عسکری تحریک سے وابستہ ہونے لگی تھی اور مجھے خدشہ تھا کہ کہیں وہ کوئی انتہا پسند قدم نہ اٹھا لے۔ وہ رفتہ رفتہ عید کا چاند ہونے لگی تھی۔
بہت عرصے کے بعد وہ مجھ سے ملنے آئی۔ میں نے موقع غنیمت جان کر اپنے دل میں ٹھان لی کہ آج تو میں اپنی بات کہہ کر رہوں گا۔ مگر وہ اس دن بہت ہی طیش میں تھی۔ بیٹھتے ہی گویا ہوئی: ’’وحید، میں نے نکسلی تحریک کے ساتھ جڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔’‘
مجھے معلوم تھا کہ وہ جھوٹ بول رہی ہے۔ وہ تو کب سے اس تحریک کے ساتھ جڑ چکی تھی۔ شاید میرا دل رکھنے کے لیے گوش گزار کرنا چاہتی تھی۔ دراصل وہ ضرورت سے زیادہ جذباتی، بغاوت پسند اور اشتعال پسند تھی۔ نہ جانے کس کے زیر اثر وہ طبقاتی جد و جہد کا اہم رکن بن گئی اور نکسلی مہم کے ساتھ جڑ گئی۔ اور وہ بھی زندگی کے اس موڑ پر جب میں اپنے خوابوں کی نئی تعبیریں سوچ رہا تھا۔ میرے دل میں نکسلیوں کے خلاف عجیب سی نفرت پیدا ہو گئی۔
‘’تم پاگل ہو گئی ہو صاعقہ۔ ہمارا ملک آزاد ہو چکا ہے۔ تین ریاستوں میں مارکسی کمیونسٹوں نے اقتدار سنبھالا ہے۔ جمہوری ملک ہے، بدلنے میں وقت تو لگ ہی جائےگا۔’‘ وہ بپھر کر بولی۔ ‘’خاک بدل جائے گا۔ مساوات، آزادی اور اخوت کے حسین خواب۔۔۔ ! سب کافور ہو چکے ہیں۔ گلی سڑی پیپ کی طرح بہہ رہے ہیں۔ اب تو انھیں نکاسی کے لیے کوئی راستہ بھی نہیں مل رہا ہے۔ سارا معاشرہ متعفن ہو چکا ہے۔ جن کمیونسٹوں پر تمھیں ناز ہے۔۔۔ جو تمھارے رفیق کار ہیں۔۔۔ وہ خود سرمایہ داری کی چکا چوند میں کھو چکے ہیں۔ ان کے بچے امریکا، جرمنی اور جاپان میں جا کر بس چکے ہیں اور جو یہاں ہیں وہ صنعت کار بن چکے ہیں۔ لاچار غریب بچے کیڑے مکوڑوں کی طرح کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں میں اپنی زیست تلاش رہے ہیں یا پھر چوراہوں پر لال بتی ہونے کا انتظار کرتے ہیں تاکہ موٹر کاروں میں سفر کرنے والے ان کے پھیلے ہوئے ہاتھوں پر چند سکّے ڈال سکیں۔ یہ ملک صارفی آکٹوپس کے پنجوں میں پھنس گیا ہے۔ اب کسانوں کو ہر سال کمپنیوں سے بیج خریدنے پڑتے ہیں۔ فصلوں پر دوسری کمپنیوں میں بنی ہوئی زہریلی کرم کش دواؤں کا بےتحاشہ چھڑکاؤ کرنا پڑتا ہے۔ یہ زہر کچھ ان کی رگوں میں اور کچھ صارفین کی رگوں میں پھیلتا جاتا ہے۔ پھر بیماریاں پھیل جاتی ہیں جن کے لیے کچھ اور کمپنیوں کی بنائی ہوئی ادویات کی ضرورت پڑتی ہے۔ شیطان کی آنت کی طرح ایک لمبا کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے یہ۔ زمین سے نل اکھڑتے جا رہے ہیں۔ ان کی جگہ پانی کی بوتلیں اگ رہی ہیں۔ پانی قدرت مہیا کرتی ہے مگر ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنے لیبل چڑھا کر اسے بیچتی ہیں۔ جو قیمت ادا نہیں کر پاتا اسے آرسینک ملے زہریلے پانی پر اکتفا کرنا پڑتا ہے۔ اس کی ہڈیاں پگھلتی رہتی ہیں۔ پھر بھی ہماری سوشلسٹ حکومتیں غریب نواز ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں۔’‘
‘’مگر صاعقہ تم سمجھتی کیوں نہیں یہ جمہوریت کا تقاضا ہے۔ جمہوریت میں لوگوں کی مرضی چلتی ہے۔ وہ جو چاہتے ہیں وہی ہوتا ہے۔ بنگال ہو یا کیریلا، بہار ہو یا گجرات، حکومتیں تو لوگ چنتے ہیں۔’‘
’’لوگوں کو بدنام نہ کرو، نئے طفیلی حکمرانوں کی بات کرو۔ چھ دہائیوں تک سوشلزم کے نام پر دیش کو لوٹتے رہے اور جب ملک کنگال ہوا تو نئے راگ الاپنے لگے۔ پہلے سوشلزم اور قومیانے کے نعرے بلند کر کے رعایا کو بیوقوف بناتے رہے اور اب کھلے بازار، سرمایہ کاری اور پیداواریت کی باتیں کر رہے ہیں۔ قدرتی وسائل سے جتنا نچوڑا جا سکتا تھا اتنا امیٹھ لیا۔ انسانی وسائل کی باتیں کرنے والے اب مشینوں اور کمپیوٹروں کی باتیں کر رہے ہیں۔ کسی کو اس بات کی فکر نہیں کہ آخر کب تک یہ دھرتی ہمارا بوجھ اٹھاتی رہےگی۔ کہاں تک ہماری معیشت قرضے کا اتنا بوجھ برداشت کر تی رہے گی۔ غور سے دیکھو چہرے وہی ہیں صرف چارٹر بدل گئے ہیں۔’‘
صاعقہ نصیری بولتی چلی جا رہی تھی۔ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ ‘’وحید، اب تو زمینوں پر فصلوں کی نہیں بلکہ بلند و بالا مکانوں کی کھیتی ہو رہی ہے۔ شہروں میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ملتی، انسان مٹھی بھر دھوپ کے لیے ترستا ہے، موریاں زمین دوز ہو گئی ہیں، برسات میں شہر کے شہر ڈوب جاتے ہیں، گندے پانی کی نکاسی نہیں ہوتی، ہر طرف جوہڑ، تالاب اور ان میں پلتے مچھر دکھائی دیتے ہیں۔ جدھر دیکھو پلاسٹک اور پولی تھین کے پہاڑ جمع ہو رہے ہیں۔ کرم کش دوائیاں اب اثر نہیں کرتیں۔ ہر سال نئی نئی بیماریوں کے نام سننے میں آتے ہیں۔ ملیریا، ڈینگو، چکن گونیا، ایچ ون این ون، ایڈس، ہپاٹائٹس۔۔۔ اس پر ہسپتالوں کی بد نظامی۔۔۔ اور مرتے ہوئے لوگوں کے ٹھٹ۔ دھرتی پانی کے بدلے زہر اگل رہی ہے اور ہوا آکسیجن کے بدلے دمّے کی بیماری پھیلا رہی ہے۔ پھر رات کے مناظر بھی کچھ الگ نہیں ہیں وحید۔ اگلے زمانے میں طوائفیں ہوتی تھیں، بالاخانے ہوتے تھے، اب ہوٹل، ڈسکو، پارلر اور لاج ہیں۔ کالج ہیں، اسکول ہیں، یونیورسٹیاں ہیں، ہوسٹل ہیں۔ اب تو یہ منظر بھی پرانا ہو گیا ہے۔ آج کل انٹرنیٹ پر سب کچھ دستیاب ہے۔ ایسکارٹ، لڑکے، لڑکیاں، پورن اور دیگر من بہلاوے اب گھروں میں گھس آئے ہیں اور اس تناظر میں مجبور اور لاچارانسان کرے تو کیا کرے؟ ہم اس کو ترقی سمجھ بیٹھے ہیں!
صاعقہ کے تیور دیکھ کر میں نے چپ رہنا ہی مناسب سمجھا۔ کچھ بھی نہ بولا۔ دل کی بات دل ہی میں رہ گئی۔ بس اس کے ہونٹوں پر ایک لمبا سا بوسہ دے کر الوداع کہہ دیا۔
پھر اکیلے میں فکر مند ہوا۔ ‘’ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہے صاعقہ۔ آزادی کے بعد کچھ بھی تو نہ بدلا۔ صرف حکمران بدل گئے۔ پہلے بدیشی تھے اور اب سو دیشی ہیں۔ سوشلزم، کمیونزم، مساوات، عوام شاہی، طبقاتی جد و جہد۔ کھوکھلے نعرے ہوا میں تحلیل ہوتے رہے۔ سرمایہ داری ہماری رگ رگ میں بس گئی ہے جبکہ ہم ان کھوکھلے نعروں سے اپنا دل بہلا رہے ہیں اور بیوقوف بنتے جا رہے ہیں۔
انسانی جذبات اور اذیتوں کی کہانی بھی عجیب سی ہے۔ جب نکاس کے لیے جگہ نہیں ملتی تو انقلابی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ پھر نظر آتے ہیں جنتر منتر، رام لیلا میدان اور تحریر سکوائر۔’‘
مجھے احساس ہوا کہ میری رگوں میں اب خون سرد پڑ چکا ہے تاہم میں نے ہمت نہیں ہاری۔ میں بدستور غریبوں کی بستیوں میں جاکر ان کی باز آباد کاری کے لیے کام کرتا رہا۔ ان گندی بستیوں میں آج بھی زندگی ویسی ہی ہے جیسی انگریزوں کے زمانے میں ہوا کرتی تھی۔ ایک بار مجھے اپنے این جی او کی خاطر امداد حاصل کرنے کے لیے دہلی جانا پڑا۔ بیس سال پہلے میں اس شہر میں پہلی بار وارد ہوا تھا۔ ان دنوں جگہ جگہ غریبوں کے لیے ڈھابے ہوتے تھے، کاونٹر کے پیچھے مالک کھڑا ہوتا تھا، ساتھ ہی دو چار پیتل کے بڑے بڑے پتیلے سجے ہوتے تھے جن میں دال، سبزی، راجما اور چاول ہوتے تھے۔ نزدیک ہی تندور میں روٹیاں سینکی جاتی تھیں۔ پوری تھالی کی قیمت ڈیڑھ روپے ہوتی تھی۔ دال اور پیاز مفت مل جاتے تھے۔ غریب سے غریب آدمی بھی شکم سیر ہو کر باہر نکلتا تھا۔ ان بیس برسوں میں نہ جانے کیا ہوا۔ ڈھابے اڑ گئے، غریبوں کی دکانیں اڑ گئیں، ان کی جگہ اونچے اونچے مال بن گئے جن کے اندر غریب لوگ قدم رکھنے سے بھی ڈر جاتے ہیں۔ اندر میک ڈونلڈ ہے، پیزا ہٹ ہے، برجر کنگ ہے اور بھی نہ جانے کس کس ملک کے طعام ہیں مگر سستی دال روٹی نہیں ملتی۔ ایسا لگتا ہے کہ ہماری نئی نسل دیسی طعام کا مزہ ہی بھول چکی ہے۔ عام لوگوں کے لیے باہر ریڑھیوں پر پاؤ باجی، چھولے کلچے، سبزی پوری اور اڈلی ڈوسا ملتا ہے جن میں ملاوٹی مصالحوں کے علاوہ سڑکوں کی دھول ملی ہوتی ہے۔ ان برسوں میں دہلی کتنی بدل چکی تھی۔ مجبور ہو کر میں بھی ایک ریڑھی والے کے سامنے کھڑا ہو گیا اور چھولے کلچے کھا کر پیٹ کی آگ بجھاتا رہا۔
رات کا ڈنر لاجپت نگر میں ایک دوست صابر محمود کے گھر میں کر لیا جو میری ہی طرح انقلابی تھا مگر زمیندار باپ کی وجہ سے جلد راہ راست پر آ گیا اور ایم اے، پی ایچ ڈی کر کے یونیورسٹی میں لکچرر ہو گیا۔ دراصل جوانی میں کئی رئیس زادے سوشلزم کی باتیں کرنے میں جوش و ہیجان سا محسوس کرتے ہیں۔ حالانکہ صابر محمود آج بھی دوسرے انٹلکچول لوگوں کی طرح سوشلزم پر لمبے لمبے لکچر دیتا ہے مگر اس کے گھر میں جاگیر داری کی ٹھاٹ اب بھی باقی ہے۔ ڈنر کھاتے وقت مسز صابر نے اپنے شوہر سے پوچھا۔ ‘’آپ آج جنید کے نئے سکول گئے تھے؟‘‘
‘’ہاں فارم لے کر آیا ہوں۔ انھوں نے ایڈمشن فیس میں اضافہ کر لیا ہے۔ اب ڈیڑھ لاکھ دینا پڑےگا اور ماہانہ فیس بیس ہزار الگ۔‘‘
‘’اس میں تو کوئی چارہ نہیں ہے۔ بچے کو اچھی تعلیم دینی ہے اتنا تو کرنا ہی پڑےگا۔ آج کل ہر جگہ یہی ریٹ چل رہی ہے۔’‘
میں خاموشی سے ان کی گفتگو سن رہا تھا اور فکر و تردد کے اتھاہ سمندر میں غوطے کھا رہا تھا۔ ڈیڑھ لاکھ داخلے کے لیے اور ماہانہ بیس ہزار! ہمارے زمانے میں سرکاری سکولوں سے کتنے ہی ڈاکٹر انجینئر، سائنس دان اور دانشور نکلتے تھے اور اپنے ملک کا نام روشن کرتے تھے۔ ان سکولوں میں فیس برائے نام ہوتی تھی۔ پھر یہ سب کیا ہوا؟ یہ کونسی ترقی کر لی ہم نے؟ میری سمجھ میں کچھ بھی نہ آ رہا تھا۔
خیر وقت کی رفتار کسی کے لیے نہیں رکتی۔ صاعقہ اور میں ایک دوسرے سے دور ہوتے چلے گئے۔ وہ بارہا انڈر گراونڈ ہو جاتی اور مہینوں اس کا کوئی اتا پتا نہیں ملتا تھا۔ کہاں ہے، کیسی ہے، زندہ ہے یا مر گئی، کوئی بتا نہیں سکتا تھا۔ اس بار وہ کئی مہینوں تک غائب رہی۔ نہ جانے کہاں کہاں گھومتی رہی اور پھر ایک روز آدھی رات کے قریب دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے اندر سے پوچھا۔ ’’کون؟‘‘
’’صاعقہ’‘ دروازے کے باہر سے آواز آئی۔ میں نے جھٹ سے دروازہ کھول کر اسے اندر کھینچ لیا اور خاموش رہنے کے لیے کہا۔ ان دنوں حکومت نکسلیوں کی دھر پکڑ میں زور و شور سے مصروف تھی۔ میں نے اس کو باز رکھنے کی بہت کوشش کی تھی، کئی بار سمجھایا بھی تھا لیکن صاعقہ کے سر پر جو بھوت سوار ہو چکا تھا وہ نہ اترنا تھا اور نہ اترا۔
میں نے کمرے کی ساری کھڑکیاں بند کر لیں اور ان پر پردے ڈال دیے۔ پھر دوسرے کمرے کی بتی جلائی تاکہ ہمارے کمرے میں زیادہ اجالا نہ ہو۔ میں صاعقہ سے رازدارانہ لہجے میں مخاطب ہوا۔ ’’صاعقہ یہاں تم کو ڈھونڈنے کے لیے کئی بار پولیس آ چکی ہے۔ تم کوئی غلط کام تو نہیں کر رہی ہو۔ مجھے تمھاری سخت فکر لگی رہتی ہے۔’‘
‘’کم آن، کس بات کی فکر؟ میں تو سر پر کفن باندھ کر نکلی ہوں۔ اب کیسا واپس مڑنا۔ ہمیں یہ متعفن نظام بدلنا ہے۔ بندوق کے بغیر یہ کبھی نہیں بدل سکتا۔ بنگال اور ترپورا میں تمہارے دہریہ کمیونسٹ رفیق ہر سال پوجا پنڈالوں پر کروڑوں روپے پھونکتے ہیں۔ انھیں معلوم ہے کہ ہندستانیوں کے لیے کمیونزم کا مطلب صرف روٹی کپڑا اور مکان ہے اور کچھ نہیں۔ وہ اس دنیا کی بجائے دوسری دنیا میں سکون کے متمنی ہیں۔ مندر مسجد وہ چھوڑ نہیں سکتے۔ صبح اٹھ کر اذان بھی سننا چاہتے ہیں اور مندروں کی گھنٹیاں بھی بجانا چاہتے ہیں۔ ہندو کمیونسٹوں نے مارکس کو قشقہ لگایا ہے اور مسلمان کمیونسٹوں نے اس کا ختنہ کر دیا ہے۔ مرنے کے بعد بھی پرمپراؤں کا خیال رکھا جاتا ہیں۔ ہندو لاش کو جلا کر ہی مکتی مل جاتی ہے اور مسلمان لاش کو قبر ہی میں آرام مل جاتا ہے گو پوری عمر وہ الحاد کا حامی رہا ہو۔ تم سمجھتے ہو کہ تمھارے دوست ثقافتی انقلاب لائیں گے۔ کبھی نہیں۔ وہ کرسیوں پر بیٹھ کر سرشار ہو رہے ہیں۔’‘
اس رات بہت دیر تک باتیں ہوتی رہیں۔ صبح پو پھٹنے سے پہلے میں نے اس کو خفیہ راستے سے بستی سے دور پہنچا دیا۔
پھر کچھ مہینے بعد کسی نے خبر دی کہ صاعقہ نے کسی اورسے دوستی کر لی ہے۔ دونوں جنگلوں میں مارے مارے پھرتے رہتے ہیں۔ حکومت نے اس کے دوست شاہ نواز اور اس کے سر پر پچاس پچاس ہزار کا انعام رکھا ہے۔ پولیس کو میری اور صاعقہ کی دوستی کی خبر مل چکی ہے اس لیے میرے گھر پر چوبیس گھنٹے پہرہ لگا رہتا ہے۔ لیکن وہ میرا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے کیونکہ میں ان حرکتوں میں کبھی شامل ہوا ہی نہیں۔ اس کے باوجود پولیس نے مجھے کئی بار تفتیش کے لیے تھانے پر بلایا اور صاعقہ کے بارے میں پوچھ گچھ کی مگر میں کیا بتاتا، مجھے تو اس سے ملے ہوئے بہت عرصہ ہو چکا تھا۔ وہ مجھ سے پوچھ پوچھ کے تھک گئے۔
دھیرے دھیرے پانی میرے سر سے اونچا ہو گیا۔ پولیس کی یاتنائیں بڑھتی گئیں۔ میں بہت پریشان ہو گیا۔ پیشیاں، سوالات، ایذا رسانی۔۔۔! کئی بار میرے ساتھ زیادتیاں بھی کی گئیں۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ میرا قصور کیا ہے۔۔۔؟ کیوں بار بار مجھے تھانے پر بلایا جا رہا ہے۔۔۔؟ اب تو اپنے پرائے کو بھی مجھ پر شک ہونے لگا تھا۔ کوئی نکسلی سمجھتا تھا اور کوئی دیش دروہی۔ کوئی سلام کا جواب دینا مناسب نہیں سمجھتا تھا اور کوئی دیکھ کر کنی کاٹ لیتا۔ میں اندر ہی اندر گھلتا جا رہا تھا مگر چہرے سے کبھی ظاہر نہ ہونے دیا۔
ایک روز ایک قریبی دوست سومناتھ بسواس نے مجھ سے کہا۔ ‘’شاعر بابو، تم کیا سمجھتے ہو کہ اپنے نام کے ساتھ ’بھا رتی‘ جوڑنے سے تم بھارت واسی ہو گئے۔ تم نے بہت بڑی غلطی کر لی۔ تقسیم کے وقت پاکستان چلے گئے ہوتے، اس وقت نہ جانے کس بڑے عہدے پر فائز ہوتے۔ یہ لوگ تو تمھیں شک کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ آتنک وادی سمجھ بیٹھے ہیں۔ وحید بھارتی جی، یہ دھرتی اب تم لوگوں کو قبول نہیں کرتی۔ کمیونسٹ ہو تو کیا ہوا۔ ہو تو مسلمان ہی۔’‘
مجھے سومناتھ کی باتیں سن کر ایسے لگا جیسے کسی نے میرے ذہن پر کوڑے برسائے ہوں۔ ان دنوں ہمارے علاقے میں زبردست فرقہ وارانہ فساد رونما ہوا تھا۔ پولیس کئی لوگوں کو آئی ایس آئی ایجنٹ بتا کر حراست میں لے گئی تھی۔ میں سومناتھ بسواس کو کیا جواب دیتا۔ کیسے بتاتا کہ میرے خاندان نے ہندستان کی آزادی کے لیے کتنی قربانیاں دی تھیں۔ خود میں نے حرص وہوس کو کبھی آگے پھٹکنے نہیں دیا۔ میں نے کسی عہدے کے لیے جد و جہد نہیں کی تھی۔ میں نے تقسیم وطن کو نامنظور کیا تھا۔ میرا یہ ارادہ تھا کہ جس دھرتی پر پیدا ہوا ہوں اسی پر آخری سانس لوں گا۔ بہر حال میری سمجھ میں کچھ بھی نہیں آ رہا تھا کہ چند ہی دہائیوں میں ہوا کیسے بدل گئی۔ یہ سب کیا ہوا، کیسے ہوا؟ سب کچھ میری سمجھ سے باہر تھا۔ میرے ارد گرد دنیا بدل چکی تھی اور میری حیثیت اب تماشائی سے کچھ زیادہ نہ تھی۔ جیسے شاہ مار خزانے کے اوپر کنڈلی مار کر بیٹھا رہتا ہے ویسے ہی میں اپنے اصولوں پر کنڈلی مار کر بیٹھا رہا۔ پھر یہ سومناتھ بسواس کیا کہہ گیا؟میری سمجھ میں کچھ بھی نہیں آ رہا تھا۔
سب کچھ بدل گیا اور میں محض تماشائی بنا رہا۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہا ہے۔ ان سب تبدیلیوں کی شروعات کب ہوئی اور کیوں ہوئی۔ صارفی دنیا۔۔۔ کھلا مارکیٹ۔۔۔ عالمی گاؤں۔۔۔ انسانیت کو دھوکا دینے کے لیے ایک مکروہ جال۔ آج کل سوشلزم اور کمیونزم کی بات کرنا گناہ ہے۔ لوگ ہنستے ہیں ان الفاظ پر۔ شکر ہے کہ میں نے بہت پہلے خاموشی اختیار کر لی ورنہ لوگوں کے مضحکے کا نشانہ بن جاتا۔
صاعقہ اور اس کے نکسلی دوست شاہ نواز کو ہفتہ بھر پہلے سیکورٹی فورسز نے پکڑ لیا۔ دو دن تفتیش کی گئی۔ دونوں کے بدن پر جلے سگریٹ مروڑے گئے۔ ہزار وولٹ برقی رو کے کرنٹ دے کر ان سے راز اگلوانے کی کوشش کی گئی۔ یخ کی سلوں پر سلایا گیا۔ صاعقہ کی چھاتیوں کو نارنگیوں کی طرح نچوڑا گیا۔ شرم گاہ میں گرم سلاخیں ڈالی گئیں۔ اس کے باوجود پولیس کے ہاتھ کچھ بھی نہ لگا۔ تین روز بعد دونوں کی مسخ شدہ لاشیں دور جنگل میں پائی گئیں۔ پولیس کا انکاونٹر اخباروں اور ٹیلی ویژن چینلوں پر تب سے چھایا ہوا ہے۔ کوئی جائز ٹھہرا رہا ہے اور کوئی ناجائز۔
مجھے نہ جانے کیوں ایک موہوم سی امید تھی کہ صاعقہ ضرور واپس آئے گی اور ہم دونوں اپنا چھوٹا سا گھر بسائیں گے۔ مگر وہ خواب چکنا چور ہو گیا۔ اب آنکھوں میں کوئی اور خواب باقی نہیں رہا۔ آنکھیں خالی خالی سی ہیں۔ ذہن بھی خالی خالی سا ہے۔ دل بھی خالی خالی سا ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.