ایک سو اکیاون
کمرے کے شمال مغربی کونے میں اس کے ابو کا پلنگ بچھا تھا۔ سرہانے کی سمت دیوار پر تیل کا نشان تھا۔ اب وقت کی دھول سے اس کا رنگ مٹیالہ ہو چلا تھا۔ اس کے ابو اخبار اور رسائل کے مطالعے کے دوران اپنے سرخ کڑھائی والے عربی رومال کا سینو بناکر سر کے نیچے رکھ لیتے اور باقاعدگی سے بالوں میں تیل لگانے کی وجہ سے دیوار پر ان کے سرکی پشت کا نشان زندہ رہ گیا تھا۔ ایک دن اس نے اپنے سونے کے لیے پلنگ کی جگہ بدلی توبہت نرمی اور آہستگی سے اس نشان کو چھوکر دیکھا۔ اس کی آنکھیں نم ناک ہو گئیں۔ اس کی بیٹی پاس ہی کھڑی تھی۔
ابو۔۔۔ آپ کیوں روئے۔۔۔؟
بیٹا۔۔۔ یہ دیکھو میرے ابوکی نشانی۔ ابو کا پلنگ ہمیشہ اسی کونے میں رہتاتھا۔ وہ چیزوں کی ترتیب بارباربدلنے کے قائل نہیں تھے۔
ابو آپ کو بھی اپنے ابو اسی طرح اچھے لگتے ہوں گے جیسے آپ ہمیں اچھے لگتے ہیں۔۔۔ بیٹی نے معصومیت سے پوچھا۔
جی بیٹا۔۔۔!
اس نشان کو اس نے اسی محبت، عقیدت اوراحترام سے چوما جیسے اس نے ابوکی پیشانی کو سفرِ آخرت کے وقت بوسہ دیا تھا۔ آنکھ کے کونے پرٹھہرے ہوئے آنسو کو اس نے شہادت کی انگلی سے سمیٹتے ہوئے بیٹی سے کہا۔۔۔ ’’بیٹا تمہارے دا ابو بہت عظیم تھے۔‘‘
ابو آپ نے اسی لیے دا ابو کی جوتی، جرابیں، پرفیوم، عطر، گھڑی، کپڑے، کپڑوں کا وہ آخری جوڑا بھی جو ایکسیڈنٹ کے روز وہ بدل کرگئے تھے، قراقلی ٹوپی، سگریٹ لائیٹر، سگریٹ کیس اور بندوق سنبھال کر رکھی ہوئی ہے۔
بیٹا۔۔۔ اس خزانے میں اب بندوق نہیں ہے۔
کیوں ابو۔۔۔؟
جب تمہاری دادو کو Pancreas کا کینسرہوا تھا۔۔۔ نا، اس وقت مالی مسائل کی وجہ سے اسے چودہ ہزار روپے میں بیچ دیا۔ اتنی قیمتی متاع میں نے کوڑیوں کے مول بیچ دی۔۔۔ صرف چودہ ہزار۔
ابو وہ ہماری دادو سے زیادہ قیمتی تونہیں تھی۔۔۔ نا۔۔۔ بیٹی نے کہا۔
بیٹا ماں باپ کی ہرچیز، باتیں، یادیں، دوست احباب، ان کی استعمال شدہ چیزیں، گھر اور۔۔۔ اور۔۔۔ قبریں تک۔۔۔ انمول ہوتی ہیں۔
اس کی بیٹی ماں کے آواز دینے پر باہر چلی گئی۔
بیٹی پوچھ رہی تھی۔۔۔ ابو جب یہ کمرہ پینٹ کرایا جائےگا، یہ نشان تومٹ جائےگا۔ بیٹی ٹھیک ہی تو کہتی ہے۔ اس نشان کو باقی رکھنے کے لیے کمرہ پینٹ ہی نہ کرایا جائے۔
ابو جس عجلت اور تیزی سے زندگی کے مسائل نمٹاتے تھے، اسی تیزی سے انہوں نے آخرت کا سفر باندھا۔ اس کے لیے یہ بات حیران کن تھی کہ اس کے ابوخوابوں میں اسے تواتر سے ملتے رہے۔ کوئی ایک خواب بھی ایسا نہیں تھا جسے خواب کہا جا سکے۔ سب پر حقیقت کا گماں گزرتا تھا۔ ابو کا وہی اجلا لباس، قراقلی ٹوپی، واسکٹ، جوتیوں کی چمک، رے بین کی عینک، کبھی زمینوں کی دیکھ بھال کے لیے ایک کھال پر کبھی دوسرے کھال پر، کبھی سنبل اورشیشم کے درختوں کے درمیان، بیٹے سے سوال کرتے ہوئے’’میرے جانے کے بعد تم تکلیف میں تو نہیں ہو۔؟‘‘ توکیا ماں باپ مر جانے کے بعد بھی زندہ ہوتے ہیں، خبرگیری کرتے ہیں۔!
ان کا تعلق ایک انتہائی سفید پوش اور متوسط گھرانے سے تھا۔ اس کے والد سادگی کا بےمثال نمونہ تھے۔ گھر میں تہہ بند باندھتے، کرتہ اور سر پر سرخ کڑھائی والا رومال لپیٹ لیتے۔ زمین چند ایکڑ تھی۔ گھر میں خوش حالی تو نہیں تھی لیکن عسرت بھی نہیں تھی۔ اس کے ابوجب صبح موٹرسائیکل پر قریبی شہر اپنے کاموں سے نکلتے تواجلے کپڑے پہن کر، سر پر قراقلی ٹوپی لیتے اور رے بین کا چشمہ لگاتے۔ ان کا مزاج انتہائی نفیس تھا۔ صحت قابلِ رشک تھی۔ عمرکے پچاسویں سال میں بھی وہ جوان نظر آتے تھے۔ زندگی میں نہ کبھی کسی کے سامنے اپنے مسائل کا رونا رویا اورنہ ہی ہاتھ پھیلایا۔ وہ قناعت کے بہت اونچے منصب پر فائز تھے جو کم کم ہی کسی کے نصیب میں آتا ہے۔ ماں کھانے کے دوران جو بھی سامنے لاکر رکھ دیتی چپکے سے کھا لیتے۔ کبھی مین میخ نہیں نکالی۔ پوری زندگی میں ایک بھی دن ایسا نہیں تھا جب اس کے ابونے کھانے پر اعتراض کیا ہو۔ معترض ہونا ان کی فطرت میں تھا ہی نہیں۔ لگتاتھا، ان کا خمیرقناعت اورصبرکی مٹی سے گوندھا گیا ہے۔ سالن میں اگر مرچ نمک ذرا تیز ہوتی یا ذائقہ ان کے مزاج سے مطابقت نہ رکھتا تو امی کو آواز دے کر اتنا کہتے، بی بی دودھ کا گلاس لادو۔!
گرمیوں میں باقاعدگی سے صبح ناشتے میں آم نچوڑ لیتے۔ اس میں چینی ملاتے اوردیسی گھی اور اسی سے ناشتہ کرتے۔ یہ ان کا معمول تھا۔ گرمیوں کی دوپہر میں لسّی اور مکھن ضرور لیتے۔ کبھی کبھی مکھن میں شکر ملا لیتے۔ سردیوں میں بچوں کے لیے میوہ جات چلغوزے، اخروٹ، پستہ اور بادام باقاعدگی سے لاتے۔ ان کی پوتیاں اور نواسیاں جیب میں ہاتھ ڈال کر کھلکھلا کر ہنستیں تووہ بہت خوش ہوتے۔
ابو نے ٹریکٹر خرید کیا تویہ وہ عہد تھا جب دور دور تک کسی کے پاس ٹریکٹر کی سہولت موجود نہ تھی۔ لوگ دور دور سے دیکھنے کو آئے۔ پہلا سائیکل اور موٹر سائیکل بھی علاقے میں ان ہی کا مقدر ٹھہرا۔ ٹریکٹر کے آ جانے سے گھر میں خوش حالی آ گئی۔ زمین کی بیجائی میں بھی آسانی ہو گئی۔ ماں رقم پس انداز کر کے بیٹیوں کے جہیز کے لیے چیزیں جوڑ جوڑ رکھنے لگی۔ ابو کے لباس، انداز اور طرز زندگی میں سرموفرق نہ آیا۔ لوگ چہ مگوئیاں کرنے لگے کہ ٹریکٹر کے آجانے سے ان کے گھر ہن برسنے لگا ہے۔ غلے کے ڈھیر دیکھ کر حاسد حسد کی آگ میں جلنے لگے۔ انہوں نے تعویذ گنڈے کا سہارالے کر اس گھر کو برباد کرنے کی اپنی سی کوشش کر دیکھی۔ لیکن اﷲ حفاظت کرے توسانچ کو آنچ نہیں۔
ایک دن اس کی ماں نے پوچھا۔۔۔ ٹریکٹرکی بہت زیادہ آمدن ہوتی ہے کیا۔؟
نہیں بی بی، لوگوں کی باتوں پر کان نہ دھرا کرو۔ اﷲ نے دال روٹی دے رکھی ہے۔ صبر شکر کیا کرو، سفیدپوشی کا بھرم قائم ہے۔
اسی سفید پوشی کے بھرم کے قائم رکھنے کو بیٹیوں کی شادی پر تیس ایکڑ زمین بک گئی۔ تاکہ وہ اپنے سسرال میں آسودہ رہیں۔ چنیوٹ سے فرنیچر بن کر آیا۔ جس نے دیکھا، انگشت بدنداں رہ گیا۔ بیٹیوں کی رخصتی آن بان اورشان سے ہوئی۔ بیٹیوں کی رخصتی کے بعد پھروہی زمین، دولت اور امارت کے بارے لوگوں کی چہ مگوئیاں اور اس کے ابوکی وہی بردباری، تحمل اور قناعت۔۔۔ گھرمیں سادگی اور معمولاتِ زندگی معمول پر۔
اس کے ابوکی کل کائنات لکڑی کی ایک الماری اور چمڑے کا خاکستری رنگ کا بکس تھا۔ بکس میں کبھی چار سے پانچ جوڑے کپڑوں کے نہ ہوئے۔ استری شدہ تہہ بہ تہہ رکھے ہوئے کپڑے، واسکٹ کی تعداد ہمیشہ دو ہی رہی۔ بوسکی کا ایک کرتہ، تین چارعدد بنیان جس میں جیب لگے تھے، ابو ان کو ’’پھتوئی‘‘ کہا کرتے تھے اور دو ایک جیب والے رومال۔
ایک دن ماں نے پوچھا۔۔۔ ’’بیٹیاں تو اپنے گھر کو سدھاریں، بیٹے کے لیے کچھ پس انداز کیا ہے؟‘‘
تربیت اور تعلیم کے لیے جو مجھ سے بن پڑا، میں نے کمی نہیں کی۔ آگے اﷲ مالک ہے۔
آپ اپنی آمدن مجھ سے چھپا کر رکھتے ہیں۔؟
نہیں بی بی میں نے کبھی کچھ نہیں چھپایا۔ پہلے بھی کہا تھا، لوگوں کی باتوں پرکان نہ دھرا کرو۔ اب تو ہاتھ تنگ ہونے لگا ہے۔
ایک دوست کے ساتھ آپ نے جو اسّی ہزار روپے کی رقم کاروبار میں لگا رکھی تھی، وہ کیوں نکلوا رہے ہیں؟
قرض بہت چڑھ گیا ہے۔
قرض اور آپ پر۔؟
بی بی۔ تم نے دیکھا نہیں، ٹریکٹر بکا، ٹرالی، ہل، بلیڈ، تھریشر
رقم کہاں گئی۔؟
تمہاری ضد کی بھینٹ چڑھ گئی۔ تمہارا اصرار تھا کہ بیٹیوں کا جہیز کسی پہلو سے کم نہ ہو۔
اس کی ماں کو یقین تھا کہ تمام مسائل کے باوجود یقیناً کچھ نہ کچھ تو پس انداز ہوگا اوریقین نہ کرنے کی کوئی وجہ بھی نہ تھی۔ آخر اتنے بہت سے لوگوں کی باتوں میں کچھ نہ کچھ تو سچائی ہوگی۔ گھرمیں کسی چیز کی کمی تو نہیں۔ اس کی ماں نے سوچا، یہ مجھ سے چھپا رہے ہیں۔
اچانک ایک صبح قیامت گزر گئی۔ خون پیتی شاہراہوں پراس کے ابوایکسیڈنٹ میں اپنی جان ہار گئے۔
پھر وہی نسل درنسل مسائل کا سلسلہ۔۔۔ معاشی تنگی۔۔۔ قرض۔۔۔ تفکرات۔۔۔ الجھنیں۔۔۔ سوچیں۔!
گھر میں بچوں کی طرح ابوکی لکڑی کی الماری اور چمڑے کا خاکستری بکس بھی تنہارہ گئے۔ وہی بکس جس میں کبھی چار سے پانچ جوڑے نہ ہوئے۔
ابوکی الماری ہمیشہ مقفل رہتی تھی۔ کسی کو بھی معلوم نہیں تھا اس میں کیا ہے۔۔۔؟ ڈیتھ سرٹیفکیٹ بنوانے کے لیے شناختی کارڈ کی ضرورت پڑی تو اس کی ماں نے زندگی میں پہلی بار مقفل الماری کو کھولا۔
الماری میں کیا تھا۔؟
حساب کتاب کی ڈائرایاں، زمینوں کے بہی کھاتے، عطر، پرفیوم، پالش، برش، ٹریکٹرکی مرمت کے اوزار، پلاس، رینچ، چابیاں، پانے، ٹریکٹرکی بیٹری چارج کرنے والا آلہ، جوارش جالینوس، قراقلی ٹوپی، ڈبل بیرل بندوق، خاندانی خطوط، تصاویر اور کبھی اداسی اور مایوسی درآنے پر ڈائری میں لکھے چند اشعار۔۔۔ سٹیمپ پیڈ، مہر اور۔۔۔ تین بینکوں کی کیش بکس۔
شناختی کارڈ اٹھاکر الماری پھر مقفل کر دی گئی۔
بہت سے دن گزر گئے، گھرمیں مالی مسائل ابھرنے لگے۔ ماں نے بیٹے کی پریشانیاں دیکھ کر ایک دن اسے اپنے پاس بلایا، پیار کیا، سمجھایا اور کہا۔
بیٹا۔۔۔ تمہارے ابو بہت زیرک اور دانا انسان تھے۔ ایک نہیں تین بینکوں میں ان کا اکاؤنٹ ہے۔ یہ لو اکاؤنٹ نمبر اور جاکر بیلنس معلوم کر آؤ۔
بیٹے نے ماں کی تسلی آمیز گفتگو اور چیک بکس دیکھ کر اطمینان کا سانس لیا اور بینک کی راہ لی۔
تینوں بینکوں کی بیلنس شیٹ لے کر وہ گھر پہنچا۔ اس کی ماں منتظر تھی۔
بیٹا۔۔۔ کتنی رقم ہے بینکوں میں۔۔۔؟
بیٹے کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔
ماں۔۔۔ ایک سو اکیاون روپے۔!
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.