Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ایک تھی دردانہ

اقبال انصاری

ایک تھی دردانہ

اقبال انصاری

MORE BYاقبال انصاری

    رواج کے مطابق دردانہ نے ایک ایک کے گلے لگ کر رونا شروع کیا۔ دولہا بھائی سے لپٹ کر تو کچھ اس طرح روئی کہ دیکھنے والوں میں سے کچھ کے آنسو نکل پڑے اور کچھ کی آنکھیں۔ کچھ دولہا بھائی کی قسمت پر بے اختیارانہ رشک کرنے لگے۔ بھائی نے کچھ دیر تو انتظار کیا، پھر آگے بڑھ کر اس کے بازو پر ہاتھ رکھ دیا۔ دیکھنے والوں نے صرف یہ محسوس کیا کہ ماجد نے بہن کے بازو کو دھیرے سے پکڑ لیا ہے، مگر دردانہ کو محسوس ہوا کہ بھائی کی انگلیاں ہی نہیں، پورا پنجہ سیاہ برقعے کے ریشمی کپڑے، پھر اس کے نیچے جمپر کے سرخ ساٹن، اس کے نیچے کھال اور اس کے نیچے گوشت کو پھاڑ کر ابھی آن کی آن میں بازو کی ہڈی تک پہنچ جائے گا اور ہڈی کو پیس کر رکھ دے گا۔ مجبوراً اسے دولہا بھائی کے گرد اپنے بازوؤں کو ڈھیلا کرنا پڑا، پھر نیچے گرا دینا پڑا۔

    ’’بھائی ہے کہ قصائی!‘‘ اس نے دل میں کہا اور دولہا بھائی کو چھوڑ کر آگے بڑھ گئی پھر بڑی بےدلی سے بچے کھچے لوگوں سے گلے لگ کر رونے کا تاثر دیا اور دانت بھینچ کر، شانوں کو ہلکی ہلکی جنبش دے کر پر آواز سسکیاں ناک سے خارج کرتی ہوئی ایک طرف ہو گئی۔

    رخصتی سے کچھ ہی دیر پہلے ماجد اسے اپنے کمرے میں لے گیا۔

    ’’غور سے سنو دردانہ‘‘ اس نے سپاٹ لہجے میں بہن کو مخاطب کیا ’’پرانی زندگی کو یہاں چھوڑ جاؤ۔ جمیل اچھا لڑکا ہے۔۔۔ بہت نیک، بہت شریف، بہت سیدھا سادہ، اس کی خدمت کو زندگی بنا لو اور ایک بات اچھی طرح سے سن لو۔ اماں ابا تو اب اس دنیا میں ہیں نہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ ابا تمہارے کرتوت دیکھنے سے پہلے ہی اللہ کو پیارے ہو گئے۔ اماں کے مرنے کی خوشی مجھے اس لیے ہے کہ اب تمہاری حرکتوں پر پردہ ڈالنے والا کوئی نہیں ہے، تمہیں شہ دینے والا کوئی نہیں ہے، اس لیے حواس میں رہنا ہی تمہارے لیے مفید ہوگا۔ بالکل واضح الفاظ میں کہہ رہا ہوں۔۔۔ اچھی طرح سے یاد رکھنا کہ جس دن تم نے جمیل کو چھوڑا، یا جمیل نے تم کو چھوڑا، اس دن کہیں بھی جانا، اس گھر کا رخ نہ کرنا، اس لیے کہ اس صورت میں اس گھر کے دروازے تمہیں ہمیشہ بند ملیں گے۔۔۔ اور۔۔۔’‘

    اس کا جملہ ختم ہونے سے پہلے کچھ لوگ کمرے میں آ گئے۔ بات ادھوری بھی رہ گئی، ختم ہو گئی۔

    دردانہ رخصت ہو گئی۔

    جمیل کے گھر اس نے نئی زندگی شروع کی جس کے بیشتر حصوں پر بہت سے پرانے رنگ چڑھے ہوئے تھے کچھ رنگ تو اتنے گہرے اور اتنے واضح تھے کہ جمیل کی نگاہوں میں آ ہی نہیں گئے۔۔۔ چبھنے بھی لگے۔

    کوئی مہینہ نہیں جاتا تھا کہ دولہا بھائی چکر نہ لگاتے ہوں۔ تیسرے چوتھے مہینے دردانہ بھی بہن کے گھر چکر لگا آتی تھی، مگر اسے بہن کے گھر جانے کے بجائے دولہا بھائی کا اپنے یہاں آنا پسند تھا، جمیل کے دفتر چلے جانے کے بعد گھر میں وہ ہوتی تھی اور دولہا بھائی۔

    جمیل خاموشی سے سب کچھ۔۔۔ دیکھتا رہا۔

    وہ بہت معمولی صورت شکل کا آدمی تھا، دردانہ بے حد حسین تھی۔ جمیل بےحد خاموش انسان تھا۔ دردانہ انتہائی چرب زبان۔

    جمیل نہایت سیدھا سادہ شخص تھا۔ دردانہ بلا کی تیز۔

    آتے ہی وہ پوری طرح سے جمیل پر چھا گئی تھی۔ حاوی ہو گئی تھی۔

    ایک دن جمیل نے زبان کھولی ’’یہ عتیق بھائی کچھ زیادہ ہی آتے ہیں۔‘‘

    ’’ایک لفظ بھی ان کے خلاف نہ کہنا‘‘ دردانہ نے آنکھیں نکالیں، وہ میرے دولہا بھائی ہیں۔ تم سے میرے تعلقات صرف 6 مہینے سے ہیں، ان سے 6 سال سے ہیں۔ تم انہیں کیا جانو۔ وہ تو یہاں آئیں گے۔ اگر تمہیں ان کا یہاں آنا پسند نہیں تو میں بھی جا رہی ہوں، میرا مائکہ اتنا کنگال نہیں ہے کہ مجھے رکھ نہ سکے۔

    ’’تم غلط سمجھ رہی ہو دردانہ۔۔۔ میں تو یہ کہہ رہا تھا۔۔۔’‘

    جمیل نے بڑی لجاجت سے کچھ کہنا چاہا، مگر اس کی بات کاٹ کر دردانہ اور تیز آواز میں بولی ’’میں اچھی طرح سمجھتی ہوں کہ تم کیا کہہ رہے تھے۔۔۔ تم۔۔۔ جلتے ہو۔۔۔ جلا کرو، میری بلا سے لیکن یہ بات اچھی طرح سے سمجھ لو کہ دولہا بھائی نہیں چھوٹ سکتے۔ تمہارا جب جی چاہے مجھے طلاق دے دو‘‘ اس کا لہجہ فیصلہ کن تھا اور تیور بھی۔

    جمیل سناٹے میں آ گیا۔

    پھر اس نے کچھ نہیں کہا۔

    ڈیڑھ سال بعد رفیق پیدا ہوا۔

    جمیل تو اس کا نام ’’شکیل‘‘ رکھنا چاہتا تھا، لیکن دردانہ ’’رفیق‘‘ پر اڑ گئی۔

    رفیق تین مہینے کا ہوا، پھر تین برس کا۔

    ایک دن جمیل نے اپنے سالے ماجد کو خط لکھا۔

    ماجد بھائی سلام و رحمت

    ساڑھے چار سال ہو گئے۔ کبھی آپ نہیں آئے۔ دردانہ بھی آپ کے گھر نہیں جاتی۔ بھائی بہن کے تعلقات کا مجھے علم نہیں۔ کبھی آپ کا ذکر کیا بھی تو دردانہ ٹال گئی۔ وہ بہرحال اپنی بہن کے گھر جاتی رہتی ہے۔ کہتی ہے اس کی دونوں بھانجیاں اس سے بہت مانوس ہیں، اسے بہت چاہتی ہیں۔ آپ نے کبھی مجھے نہیں بلایا۔ چلئے میں ہی آپ کو بلا رہا ہوں۔ ایک بار تو آئیے۔۔۔ رفیق کو دیکھنے ہی آ جائیے۔

    نیاز مند جمیل

    مگر۔۔۔ آئیے ضرور جمیل

    پندرہ دن کے بعد ماجد آ گیا۔

    اور رفیق پر نظر پڑتے ہی اس کا سرگھوم گیا۔

    ’’پروردگار!‘‘ اس نے دانت پر دانت جما کر دل ہی دل میں کہا۔ اسے لگا جیسے خون نے اچانک اس کی رگوں میں دوڑنا بند کر دیا ہو۔

    نگاہ تھی کہ اٹھنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔

    مگر پھر کسی طرح دھیرے سے اس نے نگاہ اٹھائی۔

    جمیل کے پورے چہرے پر مسکراہٹ تھی اور نگاہیں ماجد کے چہرے پر مرکوز تھیں۔

    ایک بار پھر ماجد نے رفیق کے چہرے پر نظر ڈالی اور آنکھیں بند کر لیں، اس کا جی چاہا کہ زمین پھٹ جائے اور وہ اس میں سما جائے۔

    شرمندگی سی شرمندگی۔

    رفیق کا چہرہ ہو بہ ہو عتیق کے چہرے کی کاپی تھا۔

    ’’ماجد بھائی‘‘ جمیل نے اپنی سدھی ہوئی آواز میں ماجد کو مخاطب کیا ’’رفیق میاں بڑے آپریشن کے بعد پیدا ہوئے تھے کچھ کامپلی کیشن ہو گئے تھے۔ ان کامپلی کیشن نے دردانہ کو اس لائق رہنے ہی نہیں دیا ہے کہ وہ کسی دوسرے رفیق یا رفیقہ کو جنم دے سکے، اس لیے آپ کو دوبارہ کبھی ایسی شرمندگی جھیلنی نہیں پڑےگی۔‘‘

    ’’یہ ایک شرمندگی ہی ساری زندگی کے لیے کافی ہے‘‘ ماجد نے دھیرے سے کہا، پھر اس نے نگاہیں جمیل کے چہرے پر ڈالیں۔ خاموشی سے اسے دیکھتا رہا پھر دھیرے سے کہا ’’تمہارا ضبط حیرت انگیز ہے۔ لگتا ہے فرشتے ہو۔‘‘

    ’’نیئں، نیئں، نیئں، نیئں۔‘‘ جمیل نے تیزی سے نفی میں سر ہلایا ’’اس غلط فہمی میں نہ رہیےگا۔ ایساکچھ بھی نہیں ہے۔‘‘

    ماجد اسی دن چلا گیا۔ دردانہ کی صورت تک اس نے نہیں دیکھی۔ چلتے وقت اس نے جمیل سے کہا ’’رفیق کو کسی یتیم خانے میں ڈال دویا۔۔۔ اور جو کچھ مناسب سمجھو، کرو، میں تمہارا ساتھ دوں گا‘‘ لیکن رفیق کو نہ کسی یتیم خانے میں ڈالنے کی ضرورت پڑی نہ اور کچھ کرنے کی نمونیا ہوا اور رفیق آناً فاناً ختم ہو گیا۔

    نارمل ہونے میں دردانہ کو تین ماہ کا وقت لگا۔

    پھر وقت گزرنے لگا۔ ایک ایک کر کے دس سال گزر گئے۔

    اب دردانہ 35 برس کی ہو گئی ا ور لگنے لگا تھا کہ جیسے اچانک وہ جوانی کی ڈھلان پر آ گئی ہو، دولہا بھائی کا آنا اب کم ہو گیا تھا؟ لیکن ان کے فون مہینے میں دو ایک بار آ جاتے تھے۔ دردانہ ہر تیسرے چوتھے مہینے بہن کے گھر چلی جاتی تھی۔

    ایک بار سردیوں میں وہ بہن کے پاس سے واپس آئی، مگر دوسرے ہی دن اسے بہن کی بیماری کی اطلاع ملی۔ شام کو فون آیا کہ انہیں اسپتال میں ایڈمٹ کرا دیا گیا ہے۔ جسم کا بایاں حصہ پوری طرح سے مفلوج ہو گیا تھا۔

    صبح قمر کا فون آیا کہ ممی کا انتقال ہو گیا۔

    جمیل دردانہ کو لے کر عتیق صاحب کے گھر گیا۔

    اور تین دن بعد دردانہ کے ساتھ ہی واپس آ گیا۔

    دردانہ صرف بالکل نارمل ہی نظر نہیں آ رہی تھی۔ ۔۔۔ بےحد خوش بھی نظر آ رہی تھی۔

    خوش جمیل بھی تھا، لیکن اس نے اپنی خوشی کا اظہار نہیں کیا۔

    اسی دن شام کو باہر سے واپس آکر اپنے بیگ سے کچھ کاغذات نکالتے ہوئے جمیل نے دردانہ سے کہا ’’دردانہ میں وقت کا انتظار کر رہا تھا۔۔۔ آخر کار وقت آ ہی گیا۔ یہ۔۔۔ طلاق نامہ ہے۔۔۔ اور یہ مہر اور نان نفقہ کا چک۔‘‘

    بڑی عجیب نظروں سے دردانہ نے جمیل کی طرف دیکھا۔۔۔ ایک نگاہ چک پر ڈالی، دوسری طلاق نامہ پر۔۔۔ دھیرے دھیرے۔۔۔ بڑی دلکش مسکراہٹ اس کے چہرے پر پھیلتی چلی گئی۔

    ’’یہ بھی اچھا ہے کہ تم نے خود ہی مجھے طلاق دے دی۔۔۔ مجھے مانگنی نہیں پڑی‘‘ اس نے کہا اور اٹھ کر ایک بڑی اٹیچی میں اپنے کپڑے اور زیور رکھنے لگی۔

    جمیل خاموشی سے اس کی مسرور مصروفیت دیکھتا رہا۔

    اٹیچی پیک ہو گئی۔ ایک خاموش نظر دردانہ نے جمیل پر ڈالی اور جھک کر اپنی وزنی اٹیچی اٹھائی جب وہ دہلیز پار کرنے لگی تو جمیل نے کہا ’’ایک بات سنتی جاؤ۔۔۔ شاید تمہیں اچھی تو نہ لگے، لیکن پھر بھی۔۔۔ سوچتا ہوں، بتا ہی دوں۔۔۔ میں گزشتہ تیرہ برس سے شادی شدہ ہوں۔‘‘

    ’’تمہارا حساب کمزور ہے‘‘ دردانہ ہنس کر بولی۔۔۔ ’’تیرہ برس سے نہیں، پندرہ برس سے تم شادی شدہ۔۔۔ ہو نہیں۔۔۔ بلکہ تھے۔‘‘

    ’’نہیں دردانہ‘‘ جمیل اپنی مخصوص نرم آواز میں بولا ’’میرا حساب ٹھیک ہے پندرہ نہیں، تیرہ برس سے۔ پندرہ برس پہلے تو میری شادی تمہارے ساتھ ہوئی تھی اور وہ شادی تھی ہی نہیں۔۔۔ ایک دھوکہ تھا جو میرے ساتھ کیا گیا تھا۔۔۔ ایک ڈرامہ تھا جو میرے ساتھ کھیلا گیا تھا۔ میں اس دھوکے، اس ڈرامے کی بات نہیں کر رہا ہوں۔ میں تو اپنی شادی کی بات کر رہا ہوں جو میں نے تیرہ برس پہلے رقیہ نام کی ایک بڑی غریب اور انسان لڑکی سے کی تھی، جو آج میری بیوی ہے۔۔۔ میرے دو بچے بھی ہیں۔۔۔ بیٹے جن کی شکلیں ہو بہ ہو میری جیسی ہیں، وہ سب یہیں، اسی شہر میں رہتے ہیں۔‘‘

    ’’اوہ، تو تم مہینے میں بیس دن ٹور پر نہیں رہتے تھے، بلکہ اپنی فیملی کے ساتھ رہتے تھے‘‘ کہہ کر دردانہ نے اپنا نچلا ہونٹ دانتوں سے دبا لیا۔

    جمیل نے اقرار میں سر ہلا دیا۔

    ’’کتنے بڑے دھوکے باز ہو تم!‘‘ دردانہ نے بڑی نفرت کے ساتھ کہا اور ایک جھٹکے سے پلٹ کر گھر سے نکل گئی۔

    باہر چاروں طرف رات پھیلی ہوئی تھی۔

    سڑک پر آ کر دردانہ نے رکشہ لیا، ریلوے اسٹیشن پہنچی، ٹکٹ خریدا اور پلیٹ فارم پر آکر ٹرین کا انتظار کرنے لگی۔

    دوسرے دن صبح صبح وہ دولہا بھائی کے مکان پر پہنچ گئی۔

    بڑی خوشگوار صبح تھی۔

    اس نے گھنٹی کے بٹن پر انگلی رکھی اور مانوس دروازے پر مشتاق نگاہیں مرکوز کر دیں۔ دروازہ اس طرح کھلا جیسے اس کا منتظر ہو۔

    دردانہ کی دونوں بھانجیاں دروازے میں کھڑی تھیں، قمر بیس برس کی پیاری سی لڑکی تھی۔ بدر اٹھارہ برس کی۔ دونوں کے چہروں پر اب تک بھولا پن تھا، معصومیت تھی، بچپن تھا، دونوں کالج میں زیر تعلیم تھیں۔ دردانہ ان دونوں کو دیکھ کر ہمیشہ کی طرح بڑی شفقت سے مسکرائی، لیکن اس کے کچھ کہنے سے پہلے ہی قمر بولی ’’میڈم رات کو ہی ہمیں علم ہو چکا ہے کہ آپ کے ہسبنڈ نے آپ کو طلاق دے دی ہے۔ جمیل صاحب نے فون کیا تھا۔۔۔ ہم لوگ آپ کے آنے کی امید کر رہے تھے کیوں کہ ہمیں یہ بھی علم ہے کہ ماموں جان آپ کی شکل بھی دیکھنا پسند نہیں کرتے۔۔۔ اور اب تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اس لیے آپ سیدھی یہیں آئیں گی، آپ یہ توقع اور یہ یقین لے کر یہاں آئی ہیں کہ ڈیڈی آپ کو اپنا لیں گے، آپ سے شادی کر لیں گے۔۔۔ اور آپ ممی کی جگہ لیں گی۔ آپ احمقوں کی جنت میں رہ رہی ہیں۔ جمیل صاحب کا فون آنے کے بعد ہم دونوں نے کل رات کو ہی ڈیڈی سے صاف صاف بات کی تھی۔۔۔ ڈیڈی نے دو ٹوک کہہ دیا کہ وہ آپ جیسی عورت سے۔۔۔ یعنی آپ سے کبھی شادی نہیں کریں گے۔۔۔ اور انہوں نے کبھی ایسا کرنا بھی چاہا تو ہم انہیں ان کی رکھیل سے شادی نہیں کرنے دیں گے۔‘‘

    ’’ڈیڈی اندر ہیں، وہ آپ سے ملنا نہیں چاہتے، اسی لیے دروازہ ہم نے کھولا ہے۔۔۔ اور اب یہ دروازہ آپ پر ہمیشہ کے لیے بند ہو رہا ہے۔‘‘

    کہہ کر قمر نے دروازہ بند کر لیا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے