ایمل وقت کی نبض پہ ہاتھ رکھے محبت کی دھڑکنیں سن رہا تھا۔ کبھی دھڑکنوں کی رفتار اس قدر تیز ہو جاتی جیسے دباؤ سے امید کی رگیں پھٹ جائیں گی او پھر اس کے پاس ٰیادوں کے سوا کچھ نہیں بچےگا۔ تو کبھی اتنی مدھم کہ لگتا وفا کے جسم سے جان نکل ہی جائےگی۔ کبھی دھیرے دھیرے معتدل ہو جاتیں۔
ایمل جب گاؤں سے شہر آیا تو ہاسٹل کی بےپروا زندگی نے اسے اکتا دیا۔ ہر ایک اپنی دنیا میں مگن اپنا پیالہ اپنی پلیٹ اور اپنا بستر جہاں صبحیں اسے قطار میں لگاکر شام تک تھکا کے سلانے کے بجائے مٹر گشتی پہ اکساتیں۔ وہیں شامیں سورج کے ڈھلتے ہی نئی جوت لیے ابھر آتیں۔ گنجان بازار میں ایک کسمساتی شام کے وقت ایمل نے اسے دیکھا تھا۔ سنگِ سیاہ کی طرح آبنوسی آنکھیں، چمکتی اور باتیں کرتی ہوئیں۔ وہ روز سورج ڈھلے شام کے قدموں پہ قدم رکھتا ان آنکھوں کے تعاقب میں آوارہ بھنورے کی طرح ڈالی ڈالی جھول کے واپس آ جاتا۔ مگر وہ آنکھیں پھر نہ دیکھائی دیں۔
کبھی کبھی وہ خود کو کوستا!
’’کیا ہو گیا ہے مجھے، میں گاؤں سے شہر ان آنکھوں میں بسنے کے لیے آیا تھا؟‘‘
پر کوئی جواب نہ ملتا۔
ایمل کے والد گاؤں میں زمینداری کے ساتھ اپنے حجرے کے قریب کھولے گئے ایک شخصی سکول کے مالک اچھی خاصی آمدنی اور خوشحال گھرانے کا سربراه تھا۔ اکلوتے بیٹے سے ذمہ داری اٹھانے کے جو خواب باپ نے منسلک کر رکھے تھے وہی خواب بیٹا بھی دیکھتا تھا۔ لڑکپن کے باوجود سلجھا ہوا، سمجھ دار، برف جیسی شفاف رنگت کتھئی بال، چھدری داڑھی، نیلے آبخورے سی نیلگوں آنکھیں جو روشنی میں چمکتیں تو ایسے لگتا جیسے سیف المکوک جھیل پہ پریاں اتر رہیں ہیں۔ روشنی کی ہر ایک پرت ایک عکس چھوڑ جاتی۔ چنار کی طرح لمبی قامت، ہنستا تو سفید دانت جیسے چن چن کے نفاست سے خدا نے دہن میں رکھ دیے ہوں جو اس کے چہرے کی خوبصورتی میں اضافہ کر دیتے۔ مناسب ناک۔ اس کی لمبی مخروطی انگلیاں جب دیر تک قلم تھامتی تو ان پہ ہلکے نیلے نشان پڑ جاتے۔ خاموش طبع، شعر و شاعری سے شغف تھا جب بھی وقت ملتا ڈائری پہ غنی خان کی نظمیں لکھتا۔
اس کے بستر کی طرف دیوار گلابی، پیلی اور نارنجی اطلاعی چٹھیوں سے اس۔قدر بھر چکی تھی جیسے نیون رنگوں کی جھالر والا وال پیپر ہو۔اس کے باوجود ان چٹھیوں پہ درج بیشتر کام وہ پھر بھی بھول جاتا۔ سائیڈ ٹیبل پہ مرجھائے ہوئے گلابوں کا گلدان اوندھا پڑا توجہ کا منتظر تھا۔ لانڈری کی ٹوکری میں میلے کپڑوں کا انبار لگا رہتا۔
ہنسی مذاق اور دانشگاہ کے چکر میں ایمل کی زندگی اپنے بھرپور دن دیکھ رہی تھی۔ پھر ایک واقعے نے اسے گم سم کر دیا۔ وہ نا چاہتے ہوئے بھی اداسی کے زینے اترتے اترتے مایوسی کے پائیدان تک آ پہنچا۔
مگر اداسی نافرمان اولاد کی طرح اس کے نصیب میں ایسے لکھ دی گئی کہ وہ چاہتے ہوئے بھی اس سے اب پیچھا نہیں چھڑا سکتا تھا۔۔۔ اس کا دل ایسے قفس میں قید ہو چکا تھا جس کا دروازہ ہی نہیں تھا۔
ایک نارنجی شام کے چڑھتے سایے میں وہ اسے بزاز کی فروشگاه کے سامنے کپڑے کا بھاؤ تاؤ کرتے ملی۔ سیاہ سُوتی چادر میں ڈھکی بیش قیمت مصوری کے فن پارے کی طرح تجسس بڑھاتی۔ نقاب سے جھانکتی سیاہ عقیقی آنکھیں ایمل کی آنکھوں سے ٹکرائیں اور شرما گئیں۔
ایمل کا دل جھاگ اڑاتے پہاڑی دریا کے مانند بےترتیب دھڑکنے لگا۔
ایمل نے اپنا فون نمبر ایک چٹ پہ لکھا اور اس فن پارے کے پاس سے گزرتے ہوئے اس کے ہاتھ میں تھما دیا۔
مڑ کے دیکھا چٹ زمین کی زینت بنتی ہے یا محبت قبول ہوتی ہے۔
لوگوں کی دھکم پیل میں وہ نگاہیں تب تک اوجھل ہو چکی تھیں۔
انتظار نزع کے عالم کی طرح جان لیوا ہی تو ہوتا ہے۔ جب انسان یافت اور نایافت کے درمیان امید کی برزخ میں جھولتا ہے۔
ایمل نے مراد پا لی، محبت کی آواز پا لی۔ اب اس کے دن سنہری اور راتیں صندل تھیں۔
آواز جس کی سانسیں وہ محبت کی سماعتوں سے سن سکتا تھا۔
آواز جو روز اسے جینے کے نئے زاویوں سے متعارف کراتی۔
آواز جو اس سے پوچھتی، سرگوشی سے گونج اور گونج سے باز گشت تک ساتھ نبھاؤگے کیا؟
وہ روز ان سوالوں سے سرشار ہو جاتا۔ ایک ایسی لڑکی جس کی صرف آنکھیں دیکھ کر اس سے محبت کی۔ اس کی آواز سے اس کے اخلاق سے۔۔۔ وہ پہلی لڑکی تھی جس نے اس کے اندر تک جھانک کر اسے گداز کر دیا تھا ورنہ باقی وہ لڑکیاں جو اس کی نظر کرم کی متمنی تھیں حسن پرست اور پیسے کی دلدادہ تھیں۔
وہ اقرار کی ساری منزلیں پار کر چکا تو وہ آواز خاموش ہو گئی۔
ایمل کے کان میکانی گھنٹی کو ترس گئے۔ مگر وہ نہ بجی۔
اس کا نمبر کب کا بند ہو چکا تھا کوئی رابطہ نہیں۔
مگر وہ خوابوں میں مسلسل آتی کبھی کسی پینگ پہ جھولتی ہوئی جو سفید جھاگ اڑاتے دریا کے اوپر جھکی ٹہنی پہ باندھی گئی تھی۔۔ اس کے پاؤں دریا کو چھوتے ہی پانی خون آلود ہو جاتا۔
کبھی کہسار کے اوپر ایسے بھاگتی ہوئی جیسے ہوا میں تیر رہی ہو۔
تو کبھی دلہن بنی سرخ گلابوں کی سیج پہ افسردہ بیٹھی۔
ایک عرصے تک وہ ایسے ملے جلے خواب دیکھ دیکھ کر اب عادی ہو چکا تھا اور دھیرے دھیرے جدائی کا زخم بھرنے کو تھاکہ شب کے آخری پہر ڈائری لکھتے لکھتے نیند کا غلبہ طاری ہوا۔ فون اٹھا کر وقت دیکھا رات کے دو بج چکے تھے۔ فون کی بیٹری آخری درجے کو چھو رہی تھی اب اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ فون کو چارج کر دے، وہ اگلے دن بھر کے کاموں کا خاکہ بناتے بناتے سو گیا۔
اس کی سیلانی روح کسی خواب کے دروازے پہ دستک ہی نہ دے پائی تھی کہ میکانی گھنٹی سے وہ بیدار ہوا۔
ہیلو۔۔۔
دھیمی سی آواز ابھری
’’آج رات ملنے آسکتے ہو؟‘‘
ایمل وہ دلنشیں آواز سن کر چونک گیا۔
‘’تم کہاں چلی گئی تھی؟؟’’
سوال نہیں ایمل!
’’آ سکتے ہو یا نہیں؟‘‘
ایمل نے بھرپور محبت سے کہا
’’ہاں ہاں کیوں نہیں!’‘
وہ بولی!
’’پتہ لکھو‘‘
پتہ لکھواتے ہی فون بند۔۔۔ جیسے کسی نے کاٹ دیا ہو۔
ایمل نے دوبارہ اس کا نمبر ڈائل کرنے کے لیے فون آن کرنا چاہا مگر فون تو بند ہو چکا تھا۔
وہ چلایا’‘آہ چارج ختم۔۔۔’’
اس نے فون چارج پہ لگاتے ہی پھر نمبر ڈائل کرنا چاہا مگر اس کے فون میں ماہ پارہ کی کال کی ہسٹری ہی نہیں تھی۔
وہ سوچنے لگا
’’کیا وہ سپنا تھا‘‘
نہیں بالکل نہیں اس کے گھر کا پتہ اس کے دماغ پہ نقش ہو چکا تھا۔
وہ اسی پتے کو لے کر دن بھر رات ہونے کا انتظار کرتا رہا۔
انتظار وہی انتظار جو موت کی علامت ہے جس کا ہر مرحلہ جان کنی کی طرح تکلیف دہ۔
رات گھنے جنگل کی طرح گاڑھی ہو چکی تو ایمل نے محبت کا سفر شروع کیا۔
وہ مرکزی بازار سے ہوتا ہوا ڈھلوانی سڑک کے آخری سرے پہ مڑا اور تنگ گلی میں داخل ہوا۔ یہی گلی بتائی تھی۔ اس نے دائیں بائیں قدیم چوبی گیٹ کی باقیات کو دیکھ کر پہچانتے ہوئے کہا!
’’بالکل یہی گلی ہے' یہی نام تھا مینا بازار’‘
اففف محبت کا احساس اس کے دل کو گداختہ کرتے ہوئے وجود کے ہر مسام سے نمک نکال چکا تھا۔
گلی میں روبرو دکانیں اور ان پہ بالا خانے۔ بیشتر دکاکین قدیم اور چوبی دروازوں والی تھیں۔ دکانوں کے چوبی چھجوں پہ لکڑی سے بیل بوٹے منقش تھے۔ جن پہ دھوپ کی حدت کو روکنے کے لیے چقیں یا سوتی پردے لٹکائے گئے تھے۔ گلی بمشکل چار میٹر چوڑی ہوگی۔ گلی کے سرے پہ مدھم سٹریٹ لائیٹ تھی۔ کہیں کہیں گھروں اور دکانوں کے سامنے لگے زیرو واٹ کے ننھے نیلے پیلے، نارنجی بلب تاریکی سے جیسے خیر کی جنگ لڑ رہے ہوں۔
اس سے پہلے وہ کبھی اندرونِ شہر نہیں آیا تھا۔ تنگ گلی سے جڑے بند کوچے اور پتلی گلیاں، لکڑی کے چھجے، منقش چوبارے جو مدھم روشنی سے قدرے نمایاں تھے۔ دبیز لکڑی کے زنجیر و کڑوں والے دروازے اور ان پہ لگی تختیاں ’‘کاشانہِ شان‘‘ قدیم منزل ‘‘آشیانہ علیزادہ‘‘ اور تقریباً ہر گھر کے دروازے کے دائیں بائیں سیمنٹ کی چوکیاں، بیلوں سے لدی بالکونیاں کہیں قرینے سے رکھے گملے چمپا اور چنبیلی کہیں رات کی رانی سے معطر اطراف۔
وہ جائزہ لیتے یوئے بڑھ رہا تھا۔
گلی میں بھونکے والے کتے کسی مخبر کی طرح اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگےجنھیں وہ کھرے کھرے کہتا ڈانٹتا ڈپٹتا آگے بڑھ رہا تھا۔ خاموشی کتنی جان لیوا اور سنسنی خیز ہوتی ہے۔۔ رات بھر دوستوں کے ساتھ سڑکیں ناپنا تو اس کا محبوب مشغلہ تھا مگر موج مستی میں خوابیدہ شہر بھی خوف کے کسی کھاتے میں شمار نہیں ہوتے۔ یقیناً تاریکی سے ذیادہ تنہائی خو فناک ہوتی ہے۔ پر اس شب کا تو عالم ہی کچھ اور تھا۔ شوق تجسس اور انجانے خوف کی تکون میں وہ خوف کا زاویہ کم کرنے کے چکر میں گنگنانے لگا۔
پرفیوم کی خوشبو سے معطر بھینی بھینی تازہ گجروں کی خوشبو اس کے نتھنوں سے ٹکرائی قدرے محتاط ہوتے ہوئے اس نے دائیں بائیں دیکھا۔۔۔ ایک کوچے میں نقاب والے کالے برقعے اوڑھے عورتوں کی ایک ٹولی ہاتھوں میں خریداری کے تھیلے لیے ایک دوسرے سے باتیں کرتیں ہنستی کھکھلاتی اسے نظر انداز کرتیں بغلی گلی میں مڑ گئیں۔
ایمل نے آسمان کو دیکھ کر سوچا۔
’’آج تو چاند کی بھی شاید آخری راتیں ہیں کیا پتہ پہلی ہو؟‘‘
پر فی الحال چھجوں، چوباروں اور بجلی کے تاروں سے بھری گنجان گلی سے آسمان کی ٹمٹماتی ٹکڑیاں ہی دیکھائی دے رہی تھیں۔ ستارے چاند کی آغوش سے محروم تھے۔ دائیں بائیں خالص زنانہ سامان کی دکانیں وہ دکانوں کے سائن بورڈ پڑھنے لگا ’’بانو شوز۔ معراج جیولرز، رنگ محل۔ ستارہ کلاتھ۔ زنانہ ریڈی میڈ گارمنٹس چوڑی گھر’‘
ایک لڑکا ہانپتا ہوا اس سے ٹکرا گیا۔۔۔ ایمل نے مڑ کے دیکھا اس کے ہاتھ میں گوٹہ کناری کا گچھا تھا جو چمک رہا تھا۔
اس وقت سب دکانیں بند یہ کیا کر رہا ہے؟
‘’کہیں چور تو نہیں۔۔۔’’
‘’چور اگر تھا بھی تو گوٹہ کناری چوری کر کے بھاگےگا کیا؟’’
یہ سوچ کر اسے عجیب سا احساس ہوا جیسے تنہائی میں کسی دوسرے وجود کی سنسنی مساموں میں سرایت کرنے لگتی ہے۔ اس نے مڑ کر بازار کا دیکھا۔ بازار کی تنگ گلی میں سکوت کی دریاں بچھی تھیں۔ اس نے اپنے واہمے کو جھٹکا۔ ٹیلی فون کے کھمبے سے ٹیک لگا کے لمبی سی سانس بھری اور ایک بار پھر چوکنا ہو گیا۔ اسی اثناء بےترتیب سے کچھ سانسیں الجھی ہوئی اسے سنائی دی۔
‘’کیا یہ بازگشت تھی؟۔ نہیں تو۔۔۔ جہاں وہ ٹیک لگائے کھڑا تھا عین اسی کے قدموں کے ساتھ ایک بوڑھی عورت بوسیدہ رومال بچھائے بیٹھی تھی جن پہ دھرے جستی سکے اندھیرے میں چمک رہے تھے۔ اس نے ایمل کو دیکھا اور دوپٹے سے ہاتھ نکال کر ایمل کے سامنے پھیلا دیا۔ ایمل جیبیں ٹٹولنے لگا اسے چند سکے ملے جسے نکال کر جب وہ جھک کے رومال پہ رکھنے لگا اس نے دیکھا عورت کا چہرہ نہیں تھا۔ ایمل کا ہاتھ خوف سے کانپنے لگا سکے اس کے ہاتھ سے گر گئے۔ بوڑھی عورت نے رومال کو جھٹکا اور سکے گراتے ہوئے بولی۔
’’مجھے میرا چہرہ چاہیے۔’‘
ایمل اس کی بات ان سنی کرتا تیز تیز قدم اٹھائے چلنے لگا پیچھے سے بوڑھی عورت صدائیں لگانے لگی۔
’’مجھے میرے بچے تک نہیں پہچانتے اب‘‘
ایمل نے دوڑ لگا دی آواز مذید تیز ہو گئی۔
’’چہرہ نہیں تو نہ سہی آواز اٹھاؤ۔۔۔‘‘
’’ورنہ آج یا کل تم بھی آواز بن جاؤگے۔۔ آواز اٹھاؤ آواز ا ٹھاؤ۔۔۔‘‘
سناٹے میں اس ضعیف عورت کی سسکیاں گونج ریی تھیں گلے میں دبی سسکیاں، دکھ سے بھری سسکیاں۔۔۔
’’منہ کیوں نہیں کھولتے آواز اٹھاؤ‘‘
ہائے۔۔۔ ہائے۔۔۔ کون آواز اٹھائےگا؟۔ کوئی آواز نہیں اٹھاتا’‘۔۔۔
ایمل داہنی گلی مڑ گیا۔۔ سسکیوں کی آواز ساکت ہو گئی۔۔۔
پسینے کے قطرے اس کی ماتھے سے ٹپ ٹپ گرنے لگے۔
اسے سامنے مسجد کے شکستہ مینار نظر آئے تو سکھ کا سانس لیا اس کے پراسرار خوف کو یقین تھا آسیب مسجدوں میں داخل نہیں ہوتے۔ وہ ہانپتے ہوئے دیوار کو پکڑتے پکڑتے مسجد کے قریب پہنچا تو مسجد سے اونچی اونچی آواز میں بچے قرآن کی آیات رٹ رہے تھے کبھی ان کی آواز دھیمی ہو جاتی اور کبھی تیز۔۔۔ اس نے متلاشی آنکھوں سے دروازے کو ڈھونڈا۔ ٹوٹے ہوئے مینار اور بوسیدہ سی مسجد، دوزارہ ندارد۔ محض دو ستون کے درمیان داخلی راستہ تھا۔ شاید اس لیے کہ خدا کا گھر ہمیشہ کھلا رہتا ہے۔ وہ یہ سوچتے ہوئے آگے بڑھا ہی تھا کہ آوازیں ایک دم رک گئیں۔۔ مسجد کے ادھڑے فرش پہ بجری اور پتھروں پہ بیٹھے بچے جن کے چہروں سے سفید روشنی پھیل رہی تھی سیپارے سینے سے لگائے منہ اوپر اٹھائے آسمان کو گھور رہے تھے۔ ایمل مسجد کے اندر داخل ہوا دیوار سے لگی ٹوٹنیوں کی قطار دیکھ کر پیاس کی شدت کا احساس ہوا وہ لپک کر وہیں بیٹھ گیا۔ ایک نل کھولا شو شو کرتی ہوا نکلی۔ دوسرا نل کھولا اور ہاتھ کا پیالہ نل کے نیچے کرتے ہی پانی پینے کو جھکا کہ ابل ابل کر گرم خون بہنے لگا۔ وہ چیخ مارتے ہوئے پیچھے ہٹا اور گر گیا۔ خون آلود ہاتھوں کو زمین پہ ملنے لگا مگر زمین پہ خون نہیں تھا۔ اس نے بچوں کو پکارا بچے ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے دائرہ بنائے ہوا میں تیر رہے تھے۔ سامنے نیلی ادھڑی ہوئی کاشیوں سے مُزین مسجد کا طول کچھ اور ہی قصہ سنا رہا تھا۔ اسے شدت سے احساس ہوا وہ راستہ بھٹک چکا ہے۔ یہ کوئی آسیبی جگہ ہے۔ وہ مسجد سے نکل کر اس کی بیرونی دیوار سے ٹیک لگا کے سر زانو میں دبائے صبح کا انتظار کرنے لگا۔ وہ خوف سے بھاگ بھاگ کر تھک چکا تھا۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ گلی میں نہیں ایک خوفناک دائرے میں حرکت کر رہا ہے۔
کیش۔۔۔ کیش کیش۔
کوئی قدم گھسا گھسا کے چل رہا تھا۔
قدموں کی چاپ نے اسے سر اٹھانے پہ مجبور کر دیا۔ لمبے لمبے پاؤں اسے کے قدموں کو مَس کر رہے تھے اور قدموں کا مالک ساڑھے پانچ فٹ دور ایک بزرگ سفید لباس سفید ٹوپی پہنے ایمل کو گھور رہا تھا۔ بزرگ کے پاوں اس کے وجود جتنے لمبے تھے۔
’’ابے نکمے! یہاں بیٹھے کیا کر رہے ہو؟‘‘
بزرگ نے درشت لہجے میں کہا اور لاٹھی ہوا میں لہراتے ہوئے بجلی کی تاروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ‘’کم از کم ان کو ہی صاف کر لیا کرو‘‘
ایمل نے اوپر دیکھا بجلی کی تاروں پہ گوشت کے جلے بھنے ٹکڑے۔ داڑھیاں، بال، جسمانی اعضاء جو سڑ کے سیاہ ہو چکے تھے ٹنگے ہوئے تھے۔
بزرگ نے ہاتھ لمبا کیا اور وہ لمبا ہوتا گیا اتنا لمبا کہ بجلی کی تاروں کو چھونے لگا۔ بزرگ لمبے ہاتھ سے تاروں پہ لٹکی باقیات نوچ نوچ کے زمین پہ گراتے ہوئے کہنے لگے!
’’تم لوگوں سے کچھ نہیں ہوگا، روز تاریں صاف کرتا ہوں پھر بھر جاتی ہیں‘‘
اس نے پاؤں سے ایمل کو ٹھوکا اور کہا ’’یہاں مجاور بن کے مت بیٹھو، دفع ہو جاؤ یہاں سے۔ بس تماشا کرنے آ جاتے ہیں۔’‘
ایمل وہیں جامد بیٹھا بزرگ کو گھورتا رہا۔
’’اٹھو! اٹھتے کیوں نہیں بزرگ نے جھلاتے ہوئے کہا
مگر ایمل مہبوت تھا۔
بزرگ بڑبڑایا ’’زمین جنبش نہ جنبش گل محمد’‘
بزرگ نے تاسف سے سر ہلاتے ہوئے اپنا پاؤں سرکا کے رخ بدلا اور مسجد میں داخل ہو گئے ایمل نے اپنے ساکت وجود کو بزرگ کے جاتے ہی جنبش دی اور سوچا کہ صبح کا انتظار کرنے کے بجائے سویرے کا تعاقب کیا جائے۔
وہ لباس جھاڑتے ایک بار پھر کھڑا ہوا۔
ابھی چند قدم ہی چلا کہ پانی کے چھینٹے اس کے چہرے پہ گرے۔
بارش۔
مگر آسمان تو شیشے کی طرح صاف ہے۔
پانی کہاں سے گرا۔۔۔؟
وقفے بعد پھر سے چھینٹے اس کے منہ پہ گرے۔
ایک درمیانی عمر کی عورت بالکونی پہ دھلے کپڑے لٹکا رہی تھی۔
ایمل کو دیکھا تک نہیں وہ کپڑوں کو زور سے جھٹکتی جس سے پانی کے قطرے ہوا میں پھیل جاتے۔
پانی کی چند بوندوں نے اسے تازگی کا احساس دیا۔
نجانے کیوں اس نے پیچھے مڑ کے دیکھا۔ کپڑوں کو آگ لگی ہوئی تھی۔
وہ مذید خوفزدہ ہو گیا۔ چند قدم دور ٹرانسفارمر پہ تین لوگ بجلی ٹھیک کرتے دیکھائی دیے۔ بظاہر وہ بازار اور گلی کوچے خالی تھے مگر اسے محسوس ہو رہا تھا یہ لوگوں سے کھچا کچھ بھرے ہوئے ہیں۔ اکا دکا ہیولے جو اسے دیکھائی دیے ان سے کہیں ذیادہ عوام ہے۔ ان دیکھے لوگ اس سے ٹکراتے پر نظر نہ آتے۔ وہ ایک کوچے میں داخل ہوا شاید کوئی رستہ ہو مگر وہ کوچہ بند تھا وہاں ایمل باآسانی لوگوں کے آوازیں اور شور سن سکتا تھا۔ اس نے کانوں پہ ہاتھ رکھ دیے اور کوچے سے نکل آیا۔
اسے گلی میں عجیب پراسرار سے ہیولے دیکھائی دیے۔ ایک آدمی تیزی سے پلٹا اور اس سے ٹکرایا وہ سائے سے ایک انسان بن گیا۔ خاکی بہت سی جیبوں والی واسکٹ پہنے۔ وہ بار بار اپنے کان سے لگے آلے کو درست کر رہا تھا۔
ہیلو ہیلو۔۔۔ ہیلو آواز آرہی ہے۔۔۔
جی آپ دیکھ رہے ہیں ایمبولینس اور پولیس کی گاڑیاں جائے حادثہ پہ پہنچ چکی ہیں، سیاسی شخصیات بھی پہنچنے والی ہیں۔
بہت ہولناک منظر ہے۔
جی جی ہیلو ہیلو۔۔۔
ابھی شہادتوں کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے بیشتر گھر اور دکانیں جل کر خاکستر ہو گئ ہیں۔
ہیلو ہیلو۔۔۔
اس نے کان سے لگے آلے کو درست کیا۔ ناگوار سا منہ بنا کر ایمل کو ہاتھ سے پیچھے ہٹنے کا اشارہ کیا۔ ایمل پیچھے ہٹا۔ صحافی نے ہاتھ پھیلا کر کہا۔
’’جی ناظرین! آپ دیکھ سکتے ہیں۔۔۔‘‘
ایمل نے وہاں دیکھا جس طرف صحافی اشارہ کر رہا تھا۔ ایک عجیب منظر اس کے سامنے عیاں تھا۔ عین دوپہر جا وقت جب سورج پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ گلی میں معمول کی چہل پہل تھی۔ بازارا خرید و فروخت کرنے والوں سے بھرا ہوا تھا۔ سامان سے لدی دکاکین اور ان کے سامنے رکھے خوانچے۔ پھولوں کے سہروں اور جھنڈیوں سے سجا ہوا۔ اچانک منفجرہ مواد سے بھری ایک گاڑی پوری شدت سے پھٹی۔ اس کے پھٹتے ہی ایک قیامت ٹوٹی۔ عمارتیں آن کی آن میں زمین بوس ہو گئیں۔ مکان و دکاکین شعلوں کی لپیٹ میں تھے۔ دھوئیں اور راکھ سے اٹا گنجان بازار ملبے کا ڈھیر بن چکا تھا۔ آہ و بکا، چیخ و پکار۔ لاشیں، خون، آگ اور باورد میں جلتے بھنتے لوگے، خاکستر ملبہ۔ وہی برقع پوش عورتیں ایمل کو نظر آئیں ان کا ماس برقعے سمیت بھک سے اڑا اور ہڈیوں کے زرات ہوا برد ہو گئے۔ انسانوں اور مکانوں سے لپٹی بھڑکتی آگ، ٹوٹتے چھجے زمیں بوس ہوتے ستون، بھاگم دوڑ، ہائے ہائے
انفجار انتشار و انتظار
نجانے کس معجزے کا انتظار
اچانک وہ منظر آنکھوں سے اوجھل ہو گیا پھر ایک سکوت مکمل سکوت۔
ہو کا عالم دھوئیں، وہی سنسان گلی وہی ترسناک رات۔
خون میں مدغم سارا منظر اس کی آنکھوں میں دھند کی طر ح اوجھل ہو چکا تھا نہ وہ صحافی تھا نہ ہی کوئی چیخ و پکار۔۔۔
اسے لگا ماہ پارہ ایک فریب تھی۔ وہ محبت کو یکسر بھول کر اب بس وہاں سے نکلنا چاہتا تھا۔ مگر وہاں سے نکلنا بذاتِ خود اک ازمایش تھی۔ سامنے روشنی اور مڑتی ہوئی گلی نے اسے امید دی اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا خود کو کوستا آگے بڑھا۔
وہ ہانپتا ہوا بڑ بڑانے لگا!
’’محبت میرے ذہن کا فتور تھا۔‘‘
وہ ایک پرانی طرز کی دیوڑھی کے سامنے سیمنٹ کی چوکی پہ ہاتھ رکھے اپنی سانسیں بحال کرنے رکا کہ ریشمی ہاتھ نے نرمی سے اس کا ہاتھ تھام لیا۔ جسے اس نے فوراً جھٹک دیا۔
’’ڈر گئے‘‘
وہی مترنم آواز ایک بار پھر بہت قریب سے گونجی۔ حسین سراپا نازک سے پنکھڑی جیسے گلابی لب۔ کشادہ پیشانی پہ کالی لِٹیں بکھری ہوئیں۔ دھان پان سی ایک گڑیا جس کی مشکی کٹورے جیسی آنکھیں اسے محسور کر رہی تھیں۔
’’ماہ پارہ! تم؟‘‘
اسے اس لڑکی کا وجود بھی ایک واہمہ سا لگا مگر وائے محبت اس نے اس واہمے کو دبوچ لیا۔
’’اففف۔۔۔ چھوڑیں مجھے۔۔۔‘‘
ایمل نے ہاتھ ڈھیلے کر دیے۔
ایک کومل سا احساس ہوا کی طرح اس کی گرفت سے آزاد ہو چکا تھا۔۔۔
’’کتنی پراسرار مایا نگری ہے یہ وہ بڑبڑایا’‘
’’کون سی؟ آپ خوفزدہ ہیں’‘
ایمل نے جواب دیا ‘’نہیں تو’‘
ایمل کے سارے خوف واہمے بن کر اڑن چھو ہو چکے تھے۔ اگر کچھ حقیقت تھی تو وہ جو سامنے سفید لباس میں جگر جگر کرتی حسینہ۔ جس کی چاہ میں ایک عرصہ وہ مجنوں بنا رہا۔ اب مجسم سراپا لیے اس کے سامنے تھی۔
بےنقاب' بےحجاب۔۔
دہکتی ہوئی سانسیں اور نوخیز محبت ایمل نے ماہ پارہ کا ہاتھ تھامنا چاہا کہ اسے دو گھورتی ہوئی آنکھیں زمین پہ پڑیں دیکھائی دیں محبت کی گرمجوشی پہ خدشے کی اوس پڑ گئی۔۔۔
’’یہ کیا ماجرا ہے؟‘‘
ماہ پارہ کی آنکھوں میں آنسو جھلملانے لگے۔
یہ آنکھیں میرے بھائی کی ہیں۔
وہ پتھرائی آنکھیں آن کی اور آن میں لڑھکتی ہوئے بچھڑے وجود کے ٹکروں سے ایسے جا ملیں جیسے منتشر پارہ یکجا ہوتا ہے۔ وہ انکھیں ایک مجسم وجود میں ڈھل کر چلتے چلتے گلی میں گم ہو گئیں۔
ماہ پارہ سسکیاں لینے لگی۔
‘’چھ ماہ پہلے یہاں دھماکے میں یہ سارا علاقہ جل کر خاکستر ہو گیا تھا مسجد، مدرسہ، بازار، گھر اور ان کا سکوت توڑتے لوگ۔۔۔ ان سب کی آہ و بکا اکثر رات کے پچھلے پہر سنائی دیتی ہے۔۔۔
رات ہوتے ہی یہ علاقہ سنسان ہو جاتا ہے۔۔۔ نجانے کیوں؟
‘’لوگ بھی نا بےبس اور گزرے ہوئے کل سے ڈرتے ہیں۔
جو پلٹ کر آ نہیں سکتا جبکہ زندہ عفریت کبھی ان کی آستینوں میں کبھی ان کے محافظوں کی شکل میں قربانی کی کلہاڑی لیے ان کے درپے ہوتے ہیں پھر بھی انھیں ڈر نہیں لگتا۔
وہ آنچل سے اپنے آنسو پونچھنے کے بعد پھر بولی!
‘’ایمل تم نے ابھی المیے کا عشرِ عشیر بھی نہیں دیکھا۔’’
ایمل کے ماتھے پہ ننھے ننھے پسینے کے قطرے اسے مضطرب کرنے لگے۔
ایمل نے ہمت جمع کرکے پوچھا!
میں بھٹک گیا ہوں نا!
وہ بولی!
‘’آپ بھٹکائے گئے ہو۔’’
یہ ایک دم مردہ گلی ہے جہاں سب دم توڑ چکے ہیں۔
آہ !
ایمل نے لمبی سانس لی اس دیوملائی لڑکی کے گندمی ہاتھ پہ بوسہ دیتے ہوئے پوچھا
‘’اور تم؟’‘
وہ مسکراکر بولی!
’’محبت کبھی دم نہیں توڑتی‘‘
ٹنگ ٹنگ ٹنگ۔۔۔ بوڑھے چوکی دار نے کھمبے کو لاٹھی سے ٹھوکا۔ گلے میں لٹکی سیٹی بجائی اور لالٹین لیے آگے بڑھتے ہوئے ایمل کے پاس پہنچا۔
‘’ تم یہاں کیا کر رہے ہو؟’‘
ایمل نے اردگرد دیکھا!
تو وہاں کچھ بھی نہیں تھا سوائے اس کے وجود کے۔ وقت بُری گھڑی کو نِگل کر کب کا نکل چکا تھا۔
ممم۔۔۔ میں۔۔۔ میں۔۔۔ ایمل ہکلانے لگا۔
چوکیدار نے اشارہ کیا!
‘’وہ سامنے مرکزی سڑک ہے۔ اپنا راستہ ناپو اور نکل جاؤ یہاں سے۔۔۔
اور سنو سچ کو جھوٹ کہنا 'افواہ' یا پھر زمین کی قیمت بڑھانے کا تجارتی تلخ۔۔۔
تاکہ یہاں نئی زندگی کا نئے سرے سے آغاز ہو’‘
رات تاروں کو بغل میں دبائے تاریکی کی بساط لپیٹے خوف کی تنگ گلی سے نکل رہی تھی
سپیدی تاریکی کا سینہ چاک کرکے بیج سے نکلے پودے کی طرح پھوٹنے کو بےتاب تھی۔
ایک تارہ آخری سانسوں پہ جھولتے ہوئے ایمل کی آنکھوں میں ٹمٹما رہا تھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.