Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ماہی گیر

سعادت حسن منٹو

ماہی گیر

سعادت حسن منٹو

MORE BYسعادت حسن منٹو

    دلچسپ معلومات

    وکٹر ہیوگو

    کہانی کی کہانی

    اس میں ایک غریب مچھوارے میاں بیوی کے جذبۂ ہمدردی کو بیان کیا گیا ہے۔ مچھوارے کے پانچ بچے ہیں اور وہ رات بھر سمندر سے مچھلیاں پکڑ کر بڑی مشکل سے گھر کا خرچ چلاتا ہے۔ ایک رات اس کی پڑوسن بیوہ کا انتقال ہو جاتا ہے۔ ماہی گیر کی بیوی اس کے دونوں بچوں کو اٹھا لاتی ہے۔ صبح ماہی گیر کو اس حادثہ کی اطلاع دیتی ہے اور بتاتی ہے کہ دو بچے اس کی لاش کے برابر لیٹے ہوئے ہیں تو ماہی گیر کہتا ہے پہلے پانچ بچے تھے اب سات ہو گئے۔ جاؤ انہیں لے آو۔ ماہی گیر کی بیوی چادر اٹھا کر دکھاتی ہے کہ وہ دونوں بچے یہاں ہیں۔

    فرانسیسی شاعر وِکٹر ہیوگو کی ایک نظم کے تاثرات

    سمندر رو رہا تھا۔

    مقید لہریں پتھریلے ساحل کے ساتھ ٹکڑا ٹکڑا کر آہ و زاری کر رہی تھیں۔

    دور پانی کی رقصاں سطح پر چند کشتیاں اپنے دھندلے اور کمزور بادبانوں کے سہارے بے پناہ سردی میں ٹھٹھری ہوئی کانپ رہی تھیں۔

    آسمان کی نیلی قبا میں چاند کھل کھلا کر ہنس رہا تھا۔

    ستاروں کا کھیت اپنے پورے جوبن میں لہلہا رہا تھا۔

    فضا سمندر کے نمکین پانی کی تیز بو میں بسی ہوئی تھی۔

    ساحل سے کچھ فاصلے پر چند شکستہ جھونپڑیاں خاموش زبان میں ایک دوسرے سے اپنی خستہ حالی کا تذکرہ کررہی تھیں۔۔۔

    یہ ماہی گیروں کے سر چھپانے کی جگہیں تھیں۔

    ایک جھونپڑی کا دروازہ کھلا تھا جس میں سے چاند کی آوارہ شعاعیں زمین پر رینگ رینگ کر اس کی کاجل ایسی فضا کو نیم روشن کررہی تھیں۔ اس اندھی روشنی میں دیوار پر ماہی گیر کا جال نظر آرہا تھا اور ایک چوبی تختے پر چند تھالیاں جھلملا رہی تھیں۔

    جھونپڑی کے کونے میں ایک ٹوٹی چارپارئی، تاریک چادروں میں ملبوس اندھیرے میں سرنکالے ہوئے تھی۔ اس کے پہلو میں پھٹے ہوئے ٹاٹ پر پانچ بچے محو خواب تھے۔۔۔ ننھی روحوں کا ایک گھونسلا جو خوابوں سے تھرتھرا رہا تھا۔ پاس ہی ان کی ماں نہ معلوم کن خیالات میں مستغرق گھٹنوں کے بل بیٹھی گنگنا رہی تھی۔

    یکا یک وہ لہروں کا شور سن کر چونکی۔۔۔ بوڑھا سمندر، کسی آنے والے خطرے سے آگاہ، سیاہ چٹانوں، تند ہواؤں اور نصف شب کی تاریکی کو مخاطب کرکے گلا پھاڑ پھاڑ کر چلا رہا تھا۔ وہ اٹھی اور بچوں کے پاس جا کر ہر ایک کی پیشانی پر اپنے سرد لبوں سے بوسہ دیا۔ اور وہیں ٹاٹ کے ایک کونے پربیٹھ کر دعا مانگنے میں مصروف ہوگئی۔ لہروں کے شور میں یہ الفاظ بخوبی سنائی دے رہے تھے۔

    ’’اے خدا! اے بے کسوں اورغریبوں کے خدا، ان بچوں کا واحد سہارا، رات کا تاریک کفن اوڑھے سمندر کی لہروں کے ساتھ کھیل رہا ہے۔۔۔ موت کے عمیق گڑھے میں پاؤں لٹکائے ہے۔ صرف ان کی خاطر وہ ہر روز اس دیو کے ساتھ کشتی لڑتا ہے۔۔۔ اے خدا تو اس کی جان حفاظت میں رکھیو۔۔۔ آہ! اگر یہ صرف نوجوان ہوتے۔۔۔ اگر یہ صرف اپنے والد کی مدد کرسکتے۔۔۔!‘‘

    یہ کہہ کر خدا معلوم اسے کیا خیال آیا کہ وہ سر سے پیر تک کانپ گئی اور ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے تھرتھراتی ہوئی آواز میں کہنے لگی،’’بڑے ہو کر ان کا بھی یہی شغل ہوگا۔ پھر مجھے چھ جانوں کا خدشہ لاحق رہےگا۔‘‘

    آہ۔۔۔! کچھ سمجھ نہیں آتا۔ غربت! غربت!!‘‘

    یہ کہتے ہوئے وہ اپنی غربت اور تنگ دامانی کے خیالات میں غرق ہوگئی۔ دفعتاً وہ اس اندھیرے خواب سے بیدار ہوئی۔ اس کے دماغ میں ہوٹلوں کی دیو قامت عمارتیں اور امراء کے راحت کدوں کی تصویریں کھنچ گئیں۔ ان عمارتوں کی دل فریب راحتوں اور امراء کی تعیش پرستیوں کا خیال آتے ہی اس کے دل پر ایک دھند سی چھا گئی۔ کلیجے پر کسی غیر مرئی ہاتھ کی گرفت محسوس کرکے وہ جلدی سے اٹھی اور دروازے سے تاریکی میں آوارہ نظروں سے دیکھنا شروع کردیا۔

    اس کی یہ حرکت خیالات کی آمد کو نہ روک سکی۔ وہ سخت حیران تھی کہ لوگ امیر اور غریب کیوں ہوتے ہیں جبکہ ہر انسان ایک ہی طرح ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے۔ اس سوال کے حل کےلیے اس نے اپنے دماغ پر بہت زور دیا مگر کوئی خاطر خواہ جواب نہ مل سکا۔ ایک اور چیز جو اسے پریشان کررہی تھی، وہ یہ تھی کہ جب اس کا خاوند اپنی جان پر کھیل کر سمندر کی گود سے مچھلیاں چھین کر لاتا ہے توکیا وجہ ہے کہ مارکیٹ کا مالک بغیر محنت کئے ہر روز سیکڑوں روپے پیدا کرلیتا ہے ۔ اسے یہ بات کچھ عجیب سی معلوم ہوئی کہ محنت تو کریں ماہی گیر اور نفع ہو مارکیٹ کے مالک کو۔ رات بھر اس کا خاوند اپنا خون پسینہ ایک کردے اور صبح کے وقت آدھی کمائی اس کی بڑی توند میں چلی جائے۔۔۔ ان تمام سوالوں کا جواب نہ پا کر وہ ہنس پڑی اور بلند آواز میں کہنے لگی،’’مجھ بے عقل کو بھلا کیا معلوم ہو۔ یہ سب خدا جانتا ہے مگر۔۔۔‘‘

    اس کے بعد وہ کچھ کہنے والی تھی کہ کانپ اٹھی، ’’اے خدا میں گناہگار ہوں۔ تو جوکرتا ہے، بہتر کرتا ہے۔۔۔ ایسا خیال کرنا کفر ہے۔‘‘ یہ کہتی ہوئی وہ خاموشی سے اپنے بچوں کے پاس آکر بیٹھ گئی اور ان کے معصوم چہروں کی طرف دیکھ کر بے اختیار رونا شروع کردیا۔

    باہر آسمان پر کالے بادل مہیب ڈائینوں کی صورت میں اپنے سیاہ بال پریشان کیےچکر کاٹ رہے تھے۔ کبھی کبھی اگر کوئی بادل کا ٹکڑا چاند کے درخشاں رخسار پر اپنی سیاہی مل دیتا تو فضا پر قبر کی تاریکی چھا جاتی۔ سمندر کی سیمیں لہریں گہرے رنگ کی چادر اوڑھ لیتیں اور کشتیوں کے مستولوں پر ٹمٹماتی ہوئی روشنیاں اچانک تبدیلی کو دیکھ کر آنکھیں جھپکنا شروع کردیتیں۔

    ماہی گیر کی بیوی نے اپنے میلے آنچل سے آنسو خشک کئے اور دروازے کے پاس کھڑی ہو کر دیکھنے لگی کہ آیا دن طلوع ہوا ہے یا نہیں۔ کیونکہ اس کا خاوند طلوع کی پہلی کرن کے ساتھ ہی گھر واپس آجایا کرتا ہے۔ مگر صبح کا ایک سانس بھی بیدار نہ ہوا تھا۔ سمندر کی تاریک سطح پر روشنی کی ایک دھاری بھی نظر نہ آرہی تھی۔ بارش کاجل کی طرح تمام فضا پر برس رہی تھی۔۔۔ بوڑھا سمندر کھانس رہا تھا۔

    وہ بہت دیر تک دروازے کے پاس کھڑی اپنے خاوند کے خیال میں مستغرق رہی۔ جو اس بارش میں اور سمندر کی تند موجوں کے مقابلے میں لکڑی کے ایک معمولی تختے اور کمزور بادبان سے مسلح تھا۔ وہ ابھی اس کی عافیت کےلیے دعا مانگ رہی تھی کہ یکایک اس کی نگاہیں گہرے اندھیرے میں ایک شکستہ جھونپڑی کے سائے کی طرف اٹھیں جو تاروں سے محروم آسمان کی طرف ہاتھ پھیلائے لرز رہا تھا۔

    اس جھونپڑی میں روشنی کا نام نہ تھا۔ کمزور دروازہ کسی نامعلوم خوف کی وجہ سے تھر تھر کانپ رہا تھا۔ تنکوں کی چھت ہوا کے دباؤ تلے دوہری ہورہی تھی۔

    ’’آہ! خدا معلوم بیچاری بیوہ کا کیا حال ہے۔۔۔ اسے کئی روز سے بخار آرہا ہے۔‘‘ ماہی گیر کی بیوی زیرلب گنگنائی اور یہ خیال کرتے ہوئے کہ شاید کسی روز وہ بھی اپنے خاوند سے محروم ہو جائے۔۔۔ کانپ اٹھی۔وہ شکستہ جھونپڑی ایک بیوہ کی تھی جو اپنے دو کم سن بچوں سمیت روٹی کے قحط میں اپنی موت کی گھڑیاں کاٹ رہی تھی۔ مصیبت کی چچلتی ہوئی دھوپ میں اس پر کوئی سایہ کرنے والا نہ تھا۔ رہا سہا سہارا دو ننھے بچے تھے جو ابھی مشکل سے چل پھر سکتے تھے۔

    ماہی گیر کی بیوی کے دل میں ہمدردی کا جذبہ امڈا۔۔۔ بارش سے بچاؤ کے لیے سر پر ٹاٹ کا ایک ٹکڑا رکھ کر ایک اندھی لالٹین روشن کرنے کے بعد وہ جھونپڑی کے پاس پہنچی اور دھڑکتے ہوئے دل سے دروازے پر دستک دی۔۔۔ لہروں کا شور اور تیز ہواؤں کی چیخ و پکار اس کا جواب تھی۔وہ کانپی اور خیال کیا کہ شاید اس کی اچھی ہمسایہ گہری نیند سو رہی ہے۔اس نے ایک بار پھر آواز دی۔ دروازہ کھٹکھٹایا۔ مگرجواب پھر خاموشی تھا۔۔۔ کوئی صدا، کوئی جواب، اس جھونپڑی کے بوسیدہ لبوں پر نمودار نہ ہوا۔ یکایک دروازہ، جیسے اس بے جان چیز نے رحم کی لہر محسوس کی ہو۔ متحرک ہوا اور کھل گیا۔

    ماہی گیر کی بیوی جھونپڑی کے اندر داخل ہوئی اوراس خاموش قبر کو اندھی لالٹین سے روشن کردیا۔ جس میں لہروں کے شور کے سوا مکمل سکوت طاری تھا۔ پتلی چھت سے بارش کے قطرے بڑے بڑے آنسوؤں کی صورت میں سیاہ زمین کو تر کررہے تھے۔۔۔ فضا میں ایک مہیب خوف سانس لے رہا تھا۔

    ماہی گیر کی بیوی اس خوفناک سماں کو دیکھ کر جو جھونپڑی کی چار دیواری میں سمٹا ہوا تھا۔ سر تا پا ارتعاش بن کر رہ گئی۔ آنکھوں میں گرم گرم آنسو چھلکے اور بے اختیار اچھل کر بارش کے ٹپکے ہوئے قطروں کے ساتھ ہم آغوش ہوگئے۔ اس نے ایک سرد آہ بھری اور درد ناک آوار میں کہنے لگی،’’آہ۔۔۔! تو ان بوسوں کا جو جسم کو راحت بخشتے ہیں۔ ماں کی محبت،گیت، تبسم، ہنسی اور ناچ کا ایک ہی انجام ہے۔۔۔ یعنی قبر۔۔۔!! آہ، میرے خدا۔‘‘

    اس کے سامنے پھوس کے بستر پر بیوہ کی سرد لاش اکڑی ہوئی تھی اور اس کے پہلو میں دو بچے محو خواب تھے۔ لاش کے سینے میں ایک آہ کچھ کہنے کو رکی ہوئی تھی۔ اس کی پتھرائی آنکھیں جھونپڑی کی خستہ چھت کو چیر کر تاروں سے محروم آسمان کی طرف ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی تھیں جیسے انہیں کچھ پیغام دینا ہو۔ماہی گیر کی بیوی اس وحشت خیز منظر کو دیکھ کر چلا اٹھی۔ تھوڑی دیر دیوانہ وار ادھرادھر گھومی۔ یکا یک اس کی نمناک آنکھوں میں ایک چمک پیدا ہوئی اوراس نے لپک کر لاش کے پہلو سے کچھ چیز اٹھا کر اپنی چادر میں لپیٹ لی اور اس دارلخطر سے لڑکھڑاتی ہوئی اپنی جھونپڑی میں چلی آئی۔

    چہرے کے بدلے ہوئے رنگ اور لرزاں ہاتھوں سے اس نے اپنی جھولی کو میلے بستر پر خالی کردیا اور اس پر پھٹی ہوئی چادر ڈال دی۔ تھوڑی دیر بیوہ سے چھینی ہوئی چیز کی طرف دیکھ کر وہ اپنے بچوں کے پاس زمین پر بیٹھ گئی۔ مطلع سمندر کے افق پر سپید ہورہا تھا۔ سورج کی دھندلی کرنیں تاریکی کا تعاقب کررہی تھیں۔ ماہی گیر کی بیوی بیٹھی اپنے احساسِ جرم کے شکستہ تار چھیڑ رہی تھی۔ ان غیر مربوط الفاظ کے ساتھ سنہری لہریں اپنی مغموم تانیں چھیڑ تھیں۔

    ’’آہ! میں نے بہت برا کیا ہے! اب اگر وہ مجھے مارے تو مجھے کوئی شکایت نہ ہوگی۔۔۔ یہ بھی عجیب ہے کہ میں اس سے خائف ہوں جس سے محبت کرتی ہوں۔۔۔ کیا واپس چھوڑ آؤں۔۔۔؟ نہیں۔۔۔ شاید وہ معاف کردے۔‘‘وہ اسی قسم کے خیالات میں غلطاں وپیچاں بیٹھی ہوئی تھی کہ ہواکےزور سے دروازہ ہلا ۔یہ دیکھ کر اس کا کلیجہ دھک سے رہ گیا۔ اٹھی اور کسی کو نہ پا کر پھر وہیں متفکر بیٹھ گئی۔

    ’’ابھی نہیں۔۔۔ بیچارہ۔۔۔ اسے ان بچوں کیلئے کتنی تکلیف اٹھانا پڑتی ہے۔۔۔ اکیلے آدمی کو سات پیٹ پالنے پڑتے ہیں اور۔۔۔ مگر یہ شور کیا ہے؟‘‘

    یہ آواز چیختی ہوئی ہوا کی تھی۔ جو جھونپڑی کے ساتھ رگڑ کر گزر رہی تھی۔

    ’’اس کے قدموں کی چاپ۔۔۔! آہ! نہیں، ہوا ہے۔ ‘‘یہ کہ کروہ پھر اپنے اندرونی غم میں ڈوب گئی۔ اب اس کے کانوں میں ہواؤں اور لہروں کا شور مفقود ہوگیا۔۔۔ سینے میں مختلف خیالات کا تصادم کیا کم شور تھا۔

    آبی جانور ساحل کے آس پاس چلا رہے تھے۔ پانی میں گھسے ہوئے سنگ ریزے ایک دوسرے سے ٹکرا کر کھنکھنا رہے تھے۔ کشتی کے چپوؤں کی آواز صبح کی خاموش فضا کو مرتعش کررہی تھی۔۔۔ ماہی گیر کی بیوی کشتی کی آمد سے بے خبر اپنے خیالات میں کھوئی ہوئی تھی۔

    دفعتاً دروازہ ایک شور کے ساتھ کھلا۔۔۔ صبح کی دھندلی شعاعیں جھونپڑی میں تیرتی ہوئی داخل ہوگئیں۔ ساتھ ہی ماہی گیر کاندھوں پر ایک بڑا جال ڈالے دہلیز پر نمودار ہوا۔اس کے کپڑے رات کی بارش اور سمندر کے نمکین پانی سے شرابور ہورہے تھے۔ آنکھیں کم خوابی کی وجہ سے اندر کو دھنسی ہوئی تھیں۔ جسم سردی اور غیر معمولی مشقت سے اکڑا ہوا تھا۔

    ’’نسیم کے ابا،تم ہو!‘‘ ماہی گیر کی بیوی چونک اٹھی۔ اور عاشقانہ بیتابی سے اپنے خاوند کو چھاتی سے لگا لیا۔

    ’’ہاں میں ہوں پیاری۔‘‘

    یہ کہتے ہوئے ماہی گیر کے کشادہ مگر مغموم چہرے پر مسرت کی ایک دھندلی سی روشنی چھا گئی۔ وہ مسکرایا۔۔۔ بیوی کی محبت نے اس کے دل سے رات کی کلفت کا خیال محو کردیا تھا۔

    ’’موسم کیسا تھا؟‘‘بیوی نے محبت بھرے لہجے میں دریافت کیا۔‘‘

    ’’تند!‘‘

    ’’ مچھلیاں ہاتھ آئیں ؟‘‘

    ’’بہت کم۔۔۔! آج رات تو سمندر قزاقوں کے گروہ کے مانند تھا۔‘‘

    یہ سن کر اس کی بیوی کے چہرے پر مردنی چھا گئی۔ ماہی گیر نے اسے مغموم دیکھا اور مسکر کر بولا، ’’تو میرے پہلو میں ہے۔۔۔ میرا دل خوش ہے۔‘‘

    ’’ہوا تو بہت تیزہوگی؟‘‘

    ’’بہت تیز، معلوم ہورہا تھا کہ دنیا کے تمام شیطان مل کر اپنے منحوس پر پھڑپھڑا رہے ہیں۔۔۔ جال ٹوٹ گیا۔ رسیاں کٹ گئیں اور کشتی کامنہ بھی ٹوٹتے ٹوٹتے بچا۔‘‘ پھر اس گفتگو کا رخ بدلتے ہوئےبولا،’’مگر تم شب بھر کیا کرتی رہی ہو پیاری؟‘‘

    بیوی کسی چیز کا خیال کرکے کانپی اور لرزاں آواز میں جواب دیا، ’’میں۔۔۔! آہ ،کچھ بھی نہیں۔۔۔ سیتی پروتی رہی، تمہاری راہ تکتی رہی۔۔۔ لہریں بجلی کی طرح کڑک رہی تھیں۔۔۔ مجھے ڈر لگ رہا تھا۔‘‘

    ’’ ڈر۔۔۔!ہم لوگوں کو ڈر کس بات کا۔۔۔‘‘

    ’’ اور ہاں، ہماری ہمسایہ بیوہ مر گئی ہے۔‘‘ بیوی نے اپنے خاوند کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔

    ’’ماہی گیر نے یہ دردناک خبر سنی۔ مگر اسے کچھ تعجب نہ ہوا۔ شاید اس لئے کہ وہ ہر گھڑی اس عورت کی موت کی خبر سننے کا متوقع تھا۔ اس نے آہ بھری اور صرف اتنا کہا، ’’بیچاری سدھار گئی!‘‘

    ’’ہاں دو بچے چھوڑ گئی ہے۔ جو لاش کے پاس لیٹے ہوئے ہیں۔‘‘

    یہ سن کر ماہی گیر کا جسم زور سے کانپا اور اس کی صورت سنجیدہ و متفکر ہو گئی۔ ایک کونے میں اپنی اونی ٹوپی، جو پانی سے بھیک رہی تھی پھینک کر سرکھجلانا شروع کردیا۔ اور کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اپنے آپ سے بولا، ’’پانچ بچے تھے۔اب سات ہوگئے۔۔۔ اس سے پیشتر ہی اس تند موسم میں ہمیں دو وقت کا کھانا نصیب نہیں ہوتاتھا۔۔۔ اب،مگر خیر۔۔۔ یہ میرا قصور نہیں، اس قسم کے حوادث بہت گہرے معانی رکھتے ہیں۔‘‘

    وہ کچھ عرصے تک اسی طرح اپنا سر گھٹنوں میں دبائے سوچتا رہا۔ اسے یہ سمجھ نہ آتا تھا کہ خدا نے ان بچوں سے جو اس کی مٹھی کے برابر بھی نہیں، ماں کیوں چھین لی ہے۔۔۔؟ان بچوں سے جو نہ کام کرسکتے ہیں اور نہ ہی کسی چیزکی خواہش کر سکتے ہیں۔ اس کا دماغ ان سوالوں کا کوئی حل نہ پیش کرسکا۔ وہ بڑبڑاتا ہوا اٹھا۔

    ’’شاید ایسی چیزوں کو ایک پڑھا لکھا ہی سمجھ سکتا ہے۔‘‘ اور پھر اپنی بیوی سے مخاطب ہوکر بولا، ’’پیاری جاؤ انہیں یہاں لے آؤ۔ وہ کس قدر وحشت زدہ ہوں گے اگر صبح اپنی ماں کی لاش کے پاس بیدار ہوئے۔ان کی ماں کی روح سخت بےقرار ہوگی۔۔۔ جاؤ انھیں ابھی لے کرآؤ۔‘‘

    یہ کہہ کروہ دل میں سوچنے لگا کہ وہ ان بچوں کو اپنی اولاد کی طرح پالے گا۔ وہ بڑے ہوکر اس کے گھٹنوں پر چڑھنا سیکھ جائیں گے۔ خدا ان اجنبیوں کو جھونپڑی میں دیکھ کر بہت خوش ہوگا اور انہیں زیادہ کھانے کو عطا کرےگا۔

    ’’تمہیں فکر نہیں کرنی چاہیے پیاری۔۔۔! میں زیادہ محنت سے کام کروں گا۔‘‘ اور پھر اپنی بیوی کو چارپائی کی طرف روانہ ہوتے ہوئے دیکھ کر بلند آواز میں کہنے لگا،’’مگر تم سوچ کیا رہی ہو۔۔۔ اس دھیمی چال سے نہیں چلنا چاہیے تمھیں۔‘‘

    ماہی گیر کی بیوی نے چارپائی کے پاس پہنچ کر چادر کو الٹ دیا۔

    ’’وہ تو یہ ہیں۔‘‘

    دو بچے صبح کی طرح مسکرا رہے تھے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25

    Register for free
    بولیے