رشوت
’’ایک نوجوان کی زندگی کے تلخ تجربوں کی کہانی ہے۔ نوجوان نے جب بی۔ اے پاس کیا تو اس کے باپ کا ارادہ تھا کہ وہ اسے اعلیٰ تعلیم کے لیے ولایت بھیجیں گے۔ اس درمیان اس کے باپ کو جوا کھیلنے کی عادت پڑ گئی اور وہ اپنا سب کچھ جوئے میں ہار کر مر گیا۔ نوجوان خالی ہاتھ جد و جہد کرنے لگا۔ وہ جہاں بھی نوکری کے لیے جاتا، سب جگہ اس سے رشوت مانگی جاتی۔ آخر میں پریشان ہو کر اس نے اللہ کو ایک خط لکھا اور اس خط کے ساتھ رشوت کے طور پر وہ تیس روپیے بھی ڈال دیے، جو اس نے مزدوری کر کے کمائے تھے۔ اس کا یہ خط ایک اخبار کے ایڈیٹر کے پاس پہنچ جاتا ہے، جہاں سے اسے دو سو روپیے ماہوار کی تنخواہ پر نوکری کے لیے بلاوا آ جاتا ہے۔‘‘
سعادت حسن منٹو
دیوالی
میکوا ساہوکار کے یہاں کام کرتا ہے۔ وہ اپنے کام کو ایمانداری سے اور وقت سے پورا کر دیتا ہے۔ دیوالی کے موقع پر وہ گھر کی صفائی میں مصروف ہے، اسی درمیان اسے دیوار پر لگی لکشمی جی کی تصویر دکھائی دیتی ہے۔ تصویر دیکھ کر اسے اپنی منگیتر لکشمی کی یاد آتی ہے۔ وہ سارا دن اس کے خیالوں میں کھویا رہتا ہے۔ شام کو دیوالی کا پرشاد لینے کے بعد وہ مہتا جی کی خوشامد کر کے چار گھنٹے کی چھٹی مانگ لیتا ہے اور سائیکل پر سوار ہو کر اپنی منگیتر کے گاؤں کی طرف بھاگتا ہے لیکن وہاں جاکر اسے جس سچائی کا علم ہوتا ہے اس سے اس کے پاؤں تلے کی زمین ہی کھسک جاتی ہے۔
قاضی عبد الستار
ماں کا دل
کہانی ایک فلم کی شوٹنگ کے گرد گھومتی ہے جس میں ہیرو کو ایک بچے کو گود میں لے کر ڈائیلاگ بولنا ہوتا ہے۔ اسٹوڈیو میں جتنے بھی بچے لائے جاتے ہیں ہیرو کسی نہ کسی وجہ سے ان کے ساتھ کام کرنے سے منع کر دیتا ہے۔ پھر باہر جھاڑو لگا رہی اسٹوڈیو کی بھنگن کو اسکا بچہ لانے کے لیے کہا جاتا ہے، جو کئی دن سے بخار میں تپ رہا ہوتا ہے۔ پیسے نہ ہونے کی وجہ سے وہ اسے کسی ڈاکٹر کو بھی نہیں دکھا پاتی ہے۔ ہیرو بچے کے ساتھ سین شوٹ کرا دیتا ہے۔ بھنگن اسٹودیو سے پیسے لے کر جب ڈاکٹر کے پاس جاتی ہے تب تک بچہ مر چکا ہوتا ہے۔
خواجہ احمد عباس
یہ پری چہرہ لوگ
ہر انسان اپنے مزاج اور کردار سے جانا اور پہچانا جاتا ہے۔ سخت مزاج بیگم بلقیس طراب علی ایک دن مالی سے بغیچے کی صفائی کرا رہی تھیں کہ وہ مہترانی اور اس کی بیٹی کی بات چیت سن لیتی ہیں۔ بات چیت میں ماں بیٹی بیگموں کے اصل نام نہ لے کر انھیں مختلف ناموں سے بلاتی ہیں۔ یہ سن کر بلقیس بانو ان دونوں کو اپنے پاس بلاتی ہیں۔ وہ ان ناموں کے اصلی نام پوچھتی ہیں اور جاننا چاہتی ہیں کہ انھوں نے اس کا نام کیا رکھا ہے؟ مہترانی ان کے سامنے تو منع کر دیتی ہے لیکن اس نے بیگم بلقیس کا جو نام رکھا ہوتا ہے،وہ اپنے شوپر کے سامنے لے دیتی ہے۔
غلام عباس
آلو
پیٹ کی آگ کس طرح انسان کو نقطۂ نظر تبدیل کرنے پر مجبور کرتی ہے، اور بھلے برے میں تمیز کرنے سے قاصر ہو جاتا ہے، وہ اس کہانی میں بیان کیا گیا ہے۔ لکھی سنگھ ایک انتہائی غریب کامریڈ تھا جو بیل گاڑیوں اور چھکڑوں میں اٹکے رہ گئے آلو جمع کرکے گھر لے جاتا تھا۔ ایک دن کمیٹی کی طرف سے بیل گاڑیوں کے لئے نیو میٹک ٹائروں کا بل پاس ہو گیا، جس کی مخالفت میں گاڑی بانوں نے ہڑتال کی اور ہڑتال کے نتیجے میں لکھی سنگھ اس دن بغیر آلووں کے گھر پہنچا اس کی بیوی بسنتو نے ہر موقع پر ایک کامریڈ کی طرح لکھی سنگھ کاساتھ دیا تھا، آج بپھر گئی، اور اس نے لکھی سنگھ سے پوچھا کہ اس نے ہڑتال کی مخالفت کیوں نہ کی، لکھی سنگھ سوچنے لگا کیا بسنتو بھی رجعت پسند ہو گئی ہے؟
راجندر سنگھ بیدی
نعرہ
یہ افسانہ ایک متوسط طبقہ کے آدمی کی انا کو ٹھیس پہنچنے سے ہونے والی درد کو بیاں کرتا ہے۔ بیوی کی بیماری اور بچوں کے اخراجات کی وجہ سے وہ مکان مالک کو پچھلے دو مہینے کا کرایہ نہیں دے پایا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ مالک مکان اسے ایک مہینے کی اور مہلت دے دے۔ اس درخواست کے ساتھ جب وہ مالک مکان کے پاس گیا تو اس نے اس کی بات سنے بغیر ہی اسے دو گندی گالیاں دیں۔ ان گالیوں کو سن کر اسے بہت تکلیف ہوئی اور وہ مختلف خیالوں میں گم شہر کے دوسرے سرے پر جا پہنچا۔ وہاں اس نے اپنی پوری قوت سے ایک ’نعرہ‘ لگایا اور خود کو بہت ہلکا محسوس کرنے لگا۔
سعادت حسن منٹو
شغل
’’یہ کہانی امیروں کے شوق اور ان کی دلچسپیوں کے گرد گھومتی ہے۔ ایک پہاڑی علاقے میں کچھ مزدور پتھر صاف کرنے کا کام کیا کرتے تھے۔ وہاں سڑک سے گزر نے والی طرح طرح کی لاریاں ہی ان کے تفریح کا ذریعہ تھیں۔ ایک روز وہاں ایک نئی گاڑی آکر رکی، اس میں سے دو نوجوان اترے اور ایک چمار کی بیٹی کو زبردستی اپنے ساتھ لے کر چل دیے۔ ٹھیکیدار نے ان نوجوانوں کے رسوخ کو بیان کرتے ہوئے بتایا کہ یہ تو اپنے شوق کے لیے اس لڑکی کو لے جا رہے ہیں۔ کچھ دیر بعد اسے چھوڑ جا ئینگے۔‘‘
سعادت حسن منٹو
کھل بندھنا
پورنماشی کو ایک مندر میں لگنے والے میلے کے گرد گھومتی یہ کہانی نسائی ڈسکورس پر بات کرتی ہے۔ مندر میں لگنے والا میلہ خاص طور سے خواتین کے لیے ہی ہے، جہاں وہ گھر میں چل رہے جھگڑوں، شوہروں، ساس اور نندوں کی طرف سے لگائے بندھنوں کے کھلنے کی منتیں مانگتی ہیں۔ ساتھ ہی وہ خاندان اور سماج میں عورت کی حالت پر بھی بات چیت کرتی جاتی ہیں۔
ممتاز مفتی
مزدور
’’یہ سماج کے سب سے مضبوط اور بے بس ستون ایک ایسے مزدور کی کہانی ہے، جو شب و روز خون پسینہ بہاکر کام کرتا ہے۔ مگر اس کی اتنی آمدنی بھی نہیں ہو پاتی کہ اپنے بچوں کو بھر پیٹ کھانا کھلا سکے یا اپنی بیمار بیوی کی دوا خرید سکے۔ وہ فیکٹری مالک سے بھی درخواست کرتا ہے، لیکن وہاں سے بھی اسے کوئی مدد نہیں ملتی۔‘‘
سدرشن
مالکن
تقسیم ملک سے بہت سی زندگیوں میں عجیب و غریب تبدیلیاں واقع ہوئیں۔ یہ کہانی ایک ایسے ہی زمیندار کی ہے جس کا پورا خاندان پاکستان ہجرت کر جاتا ہے لیکن حویلی کی مالکن نے ہجرت کرنے سے انکار کر دیا۔ مالکن حویلی کے اندر باہر کا کام اپنے وفادار چودھری گلاب سے کرا لیا کرتی تھیں۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ حویلی کی بچی کھچی شان و شوکت بھی جاتی رہی اور حویلی کھنڈر میں تبدیل ہو گئی۔ حویلی کی مالکن کو گزر بسر کرنے کے لیے سینے پرونے کا کام کرنا پڑا اور اس کام میں بھی چودھری گلاب مالکن کی مدد کرتا رہا۔ چودھری گلاب کی انسانی ہمدردی کو دنیا والے اپنی ہی نگاہ سے دیکھنے لگے۔
قاضی عبد الستار
فرشتہ
زندگی کی آزمائشوں سے پریشان شخص کی نفسیاتی کیفیت پر مبنی کہانی۔ بستر مرگ پر پڑا عطاء اللہ اپنے اہل خانہ کی مجبوریوں کو دیکھ کر خلجان میں مبتلا ہو جاتا ہے اور نیم غنودگی کے عالم میں دیکھتا ہے کہ اس نے سب کو مار ڈالا ہے یعنی جو کام وہ اصل میں نہیں کر سکتا اسے خواب میں انجام دیتا ہے۔
سعادت حسن منٹو
بائے بائے
کہانی ایک ایسے نوجوان کی ہے جسے کشمیر کی وادیوں میں فاطمہ نام کی لڑکی سے محبت ہو جاتی ہے۔ فاطمہ پہلے تو اس کا مذاق اڑاتی ہے، پھر وہ بھی اس سے محبت کرنے لگتی ہے۔ فاطمہ سے شادی کے لیے وہ لڑکا اپنے والدین کو بھی راضی کر لیتا ہے۔ مگر شادی سے پہلے اس کے والدین چاہتے ہیں کہ وہ فاطمہ کی ایک دو تصویریں انہیں بھیج دے۔ علاقے میں کوئی اسٹوڈیو تو تھا نہیں۔ ایک دن اس نوجوان کا ایک دوست وہاں سے گزر رہا تھا تو اس نے اس سے فاطمہ کی تصویر لینے کے لیے کہا۔ جیسے ہی اس نے فاطمہ کو دیکھا تو وہ اسے زبردستی اپنی گاڑی میں ڈال کر فرار ہو گیا۔
سعادت حسن منٹو
بھیک
’’ایک ایسے شخص کی کہانی، جو پہاڑوں پر سیر کرنے کے لیے گیا ہے۔ وہاں اسے ایک غریب لڑکی ملتی ہے، جسے وہ اپنے یہاں نوکری کرنے کا آفر دیتا ہے۔ مگر اگلے دن امید سے لبریز جب وہ لڑکی اپنے چھوٹے بھائی بہنوں کے ساتھ ڈاک بنگلے پر پہنچتی ہے تو ایک ساتھ اتنے بچوں کو دیکھ کر وہ اسے نوکری پر رکھنے سے منع کر دیتا ہے۔ انکار سن کر لڑکی جب واپس جانے لگتی ہے تو وہ اسے دو روپیے دے دیتا ہے۔‘‘
حیات اللہ انصاری
بن بست
افسانہ میں دو زمانے اور دو الگ طرح کے رویوں کا تصادم نظر آتا ہے۔ افسانہ کا مرکزی کردار اپنے بے فکری کے زمانے کا ذکر کرتا ہے جب شہر کا ماحول پر سکون تھا دن نکلنے سے لے کر شام ڈھلنے تک وہ شہر میں گھومتا پھرتا تھا لیکن ایک زمانہ ایسا آیا کہ خوف کے سایے منڈلانے لگے فسادات ہونے لگے۔ ایک دن وہ بلوائیوں سے جان بچا کر بھاگتا ہوا ایک تنگ گلی کے تنگ مکان میں داخل ہوتا ہے تو اسے وہ مکان پراسرار اور اس میں موجود عورت خوف زدہ معلوم ہوتی ہے اس کے باوجود اس کے کھانے پینے کا انتظام کرتی ہے لیکن یہ اس کے خوف کی پروا کیے بغیر دروازہ کھول کر واپس لوٹ آتا ہے۔
نیر مسعود
گوندنی
دوہری زندگی جیتے ایک شخص کی کہانی جو چاہتے ہوئے بھی کھل کر اپنے احساسات کا اظہار نہیں کر پاتا۔ مرزا برجیس کا خاندان کسی زمانے میں بہت امیر تھا لیکن اس وقت اس خاندان کی حالت دیگرگوں ہےَ۔ اس کے باوجود مرزا اسی شان و شوکت اور ٹھاٹ باٹ کے ساتھ رہنے کا ڈھونگ کرتا ہے۔ ایک روز بازار میں خریداری کرتے وقت اس سے کھانے کے لیے پیسے مانگے تو اس نے اسے جھڑک دیا مگر شام کو سینما دیکھتے ہوئے جب اس نے ایک بوڑھیا کو بھیک مانگتے ہوئے دیکھا تو رو دیا۔
غلام عباس
آوارہ گرد
دنیا کی سیر پر نکلے ایک جرمن لڑکے کی کہانی۔ وہ پاکستان سے ہندوستان آتا ہے اور بمبئی میں ایک سفارشی میزبان کے یہاں قیام کرتا ہے۔ رات کو کھانے کی میز پر وہ اپنے میزبان سے جرمنی، دوسری عالمی جنگ، نازی اور اپنے ماضی کے بارے میں باتیں کرتا ہے۔ ہندوستان سے وہ شری لنکا جاتا ہے، دوران سفر ایک سنگھلی بودھ اس کا دوست بن جاتا ہے۔ وہ دوست اسے ندی میں نہانے کی دعوت دیتا ہے اور خود ڈوب کر مر جاتا ہے۔ لنکا سے ہوتا ہوا وہ سیلانی لڑکا ویتنام جاتا ہے۔ ویتنام میں جنگ جاری ہے اور جنگ کی ایک گولی اس یوروپی آوارہ گرد نوجوان کا خاتمہ کر دیتی ہے۔
قرۃالعین حیدر
مہاوٹوں کی ایک رات
مہاوٹوں کی رات ہے اور زبردست بارش ہو رہی ہے۔ ایک غریب کنبہ جس میں تین چھوٹے بچے بھی شامل ہیں ایک چھوٹے سے کمرے میں سمٹے سکڑے لیٹے ہوئے ہیں۔ گھر کی چھت ٹپک رہی ہے، انھیں ٹھنڈ لگ رہی ہے اور وہ بھوک سے بدحال ہیں۔ بچوں کی ماں اپنے پرانے دنوں کو یاد کرتی ہے اور سوچتی ہے کہ شاید وہ جنت میں ہے۔ جب بچے باربار اس سے کھانے کے لیے کہتے ہیں تو وہ اس کے بارے میں سوچتی اور کہتی ہے اگر وہ ہوتا تو کھانے کے لیے کچھ نہ کچھ لاتا۔
احمد علی
پانچ دن
بنگال کے قحط کی ماری ہوئی سکینہ کی زبانی ایک بیمار پروفیسر کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ جس نے اپنے کریکٹر کو بلند کرنے کے نام پر اپنی فطری خواہشوں کو دبائے رکھا۔ سکینہ بھوک سے بیتاب ہو کر ایک دن جب اس کے گھر میں داخل ہو جاتی ہے تو پروفیسر کہتا ہے کہ تم اسی گھر میں رہ جاؤ کیونکہ میں دس برس تک اسکول میں لڑکیاں پڑھاتا رہا اس لیے انہیں بچیوں کی طرح تم بھی ایک بچی ہو۔ لیکن مرنے سے پانچ دن پہلے وہ اعتراف کرتا ہے کہ اس نے ہمیشہ سکینہ سمیت ان تمام لڑکیوں کو جنہیں اس نے پڑھایا ہے، ہمیشہ دزدیدہ نگاہوں سے دیکھا ہے۔
سعادت حسن منٹو
ساڑھے تین آنے
اس افسانہ میں صاحب اقتدار اور حکمراں طبقے پر شدید طنز کیا گیا ہے۔ رضوی جیل سے باہر آنے کے بعد ایک کیفے میں بیٹھ کر فلسفیانہ انداز میں معاشرتی جبر پر گفتگو کرتا ہے کہ کس طرح یہ معاشرہ ایک ایک ایماندار انسان کو چور اور قاتل بنا دیتا ہے۔ اس سلسلہ میں وہ پھگو بھنگی کا ذکر کرتا ہے جس نے بڑی ایمانداری سے اس کے دس روپے اس تک پہنچائے تھے۔ یہ وہی پھگو بھنگی ہے جس کو وقت پر تنخواہ نہ ملنے کی وجہ سے ساڑھے تین آنے چوری کرنے پڑتے ہیں اور اسے ایک سال کی سزا ملتی ہے۔
سعادت حسن منٹو
مزدور
ہمارا مہذب سماج مزدوروں کو انسان نہیں سمجھتا۔ ایک غریب مزدور طبیعت ٹھیک نہ ہونے کے باوجود مجبوری میں بجلی کے کھمبے پر چڑھ کر بجلی ٹھیک کر رہا ہوتا ہے کہ اچانک اس کا توازن بگڑتا ہے اور وہ نیچے آ رہتا ہے۔ کسی طرح اسے اسپتال پہنچایا جاتا ہے۔ ابھی اس کی سانسیں چل رہی ہیں کہ ڈاکٹر اسے مردہ اعلان کر دیتا ہے۔
احمد علی
ڈالن والا
یہ کہانی بچپن کی یادوں کے سہارے اپنے گھر اور گھر کے وسیلے سے ایک پورے علاقے اور اس علاقے کے ذریعے سماج کے مختلف اشخاص کی زندگی کی چلتی پھرتی تصویریں پیش کرتی ہے۔ سماج کے مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے، علاحدہ عقائد اور ایمان رکھنے والے لوگ ہیں جو اپنے مسائل اور مراتب سے بندھے ہوئے ہیں۔
قرۃالعین حیدر
آرٹسٹ لوگ
اس افسانہ میں آرٹسٹ کی زندگی کا المیہ بیان کیا گیا ہے۔ جمیلہ اور محمود اپنے فن کی بقا کے لئے مختلف طرح کے جتن کرتے ہیں لیکن باذوق لوگوں کی قلت کی وجہ سے فن کی آبیاری مشکل امر محسوس ہونے لگتا ہے۔ حالات سے پریشان ہو کر معاشی آسودگی کے لیے وہ ایک فیکٹری میں کام کرنے لگتے ہیں۔ لیکن دونوں کو یہ کام آرٹسٹ کے رتبہ کے شایان شان محسوس نہیں ہوتا اسی لیے دونوں ایک دوسرے سے اپنی اس مجبوری اور کام کو چھپاتے ہیں۔
سعادت حسن منٹو
غلامی
سرمایہ داری نے ہر غریب انسان کو غلام بنا دیا ہے۔ ایک خوشگوار شام کو دو دوست ندی کنارے بیٹھ کر اپنی غربت کے بارے میں باتیں کر رہے ہیں۔ وہ اس بات سے افسردہ ہیں کہ غریب کتنی مصیبتوں کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہے۔ دونوں دوست اب یہاں سے چلنے کی تیاری کرتے ہیں، جبھی ایک غریب عورت ان کے پاس سے گزرتی ہے۔ ان میں سے ایک اس عورت سے فصل کے بارے میں دریافت کرتا ہے کہ وہ عورت رونے لگتی ہے۔ دوسرا دوست اس کی مدد کرنا چاہتا ہے کہ پہلا دوست یہ کہہ کر اسے مدد کرنے سے روک دیتا ہے کہ غلامی تو ان کے اندر بسی ہوئی ہے۔
احمد علی
کپاس کا پھول
ادھوری رہ گئی محبت میں ساری زندگی تنہا گزار دینے والی ایک بوڑھی عورت کی کہانی۔ اس کے پاس جینے کا کوئی جواز باقی نہیں ہے وہ ہر وقت موت کو پکارتی رہتی ہے۔ تبھی اس کی زندگی میں ایک نوجوان لڑکی آتی ہے جو کپاس کے پھول کی طرح نرم و نازک ہے۔ وہ اس کا خیال رکھتی ہے اور یقین دلاتی ہے کہ اس برے وقت میں بھی اس کی قدر کرنے والا کوئی ہے۔ انھیں دنوں بھارتی فوج گاؤں پر حملہ کر دیتی ہے اور مائی تاجو کا وہ پھول کسی کیڑے کی طرح مسل دیا جاتا ہے۔
احمد ندیم قاسمی
گرم کوٹ
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جسے ایک گرم کوٹ کی شدید ضرورت ہے۔ پرانے کوٹ پر پیوند لگاتے ہوئے وہ اور اسکی بیوی دونوں تھک گیے ہیں۔ بیوی بچوں کی ضرورتوں کے آگے وہ ہمیشہ اپنی اس ضرورت کو ٹالتا رہتا ہے۔ ایک روز گھر کی ضروریات کی فہرست بنا کر وہ بازار جاتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ جیب میں رکھا دس کا نوٹ کہیں گم ہو گیا ہے، مگر بعد میں پتہ چلتا ہے کہ وہ نوٹ کوٹ کی پھٹی جیب میں سے کھسک کر دوسری طرف چلا گیا تھا۔ اگلی بار وہ اپنی بیوی کو بازار بھیجتا ہے۔ بیوی اپنا اور بچوں کی ضروریات پوری کرنے کے بجائے شوہر کے لیے گرم کوٹ کا کپڑا لے آتی ہے۔
راجندر سنگھ بیدی
تصویر کے دو رخ
یہ کہانی آزادی سے پہلے کی دو تصویر پیش کرتی ہے۔ ایک طرف پرانے روایتی نواب ہیں جو عیش کی زندگی جی رہے ہو ہیں۔ موٹروں میں گھومتے ہیں، دل بہلانے کے لیے طوائفوں کے پاس جاتے ہیں، ساتھ ہی زندگی کے لیے جدوجہد کرنے والوں کو کوستے ہیں، گاندھی جی کو گالیاں دیتے ہیں۔ دوسری طرف آزادی کے لیے مر مٹنے والے وہ نوجوان ہیں جن کی میت کو کوئی کندھا دینے والا بھی نہیں ہے۔
احمد علی
موم بتی کے آنسو
یہ غربت کی زندگی گزارتی ایک ایسی ویشیا کی کہانی ہے جس کے گھر میں اندھیرا ہے۔ طاق میں رکھی موم بتی موم کے آنسو بہاتی ہوئی جل رہی ہے۔ اس کی چھوٹی بچی موتیوں کا ہار مانگتی ہے تو وہ فرش پر جمے موم کو دھاگے میں پرو کر مالا بناکر اس کے گلے میں پہنا دیتی ہے۔ رات میں اس کا گاہک آتا ہے۔ اس سے الگ ہونے پر وہ تھک جاتی ہے، تبھی اسے اپنی بچی کا خیال آتا ہے اور وہ اس کے چھوٹے پلنگ کے پاس جاکر اسے اپنی بانہوں میں بھر لیتی ہے۔
سعادت حسن منٹو
دیکھ کبیرا رویا
کبیر کو علامت بنا کر یہ کہانی ہمارے معاشرے کی اس حقیقت کو بیان کرتی ہے جس کے بنا پر لوگ ہر اصلاح پسند کو کمیونسٹ، آمریت پسند قرار دے دیتے ہیں۔ سماج میں ہو رہی برائیوں کو دیکھ کر کبیر روتا ہے اور لوگوں کو ان برائیوں سے روکتا ہے۔ لیکن سب جگہ اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ لوگ اسے برا بھلا کہتے ہیں اور مار کر بھگا دیتے ہیں۔
سعادت حسن منٹو
نیند نہیں آتی
’’ایک ایسے نوجوان کی کہانی ہے جو غریبی، بے بسی، بھٹکاؤ اور نیم خوابیدگی کے شعور کا شکار ہے۔ وہ اپنی معاشی اور معاشرتی حالت سدھارنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے مگر کامیاب نہیں ہو پاتا۔ رات میں چارپائی پر لیٹے ہوئے مچھروں کی بھنبھناہٹ اور کتوں کے بھونکنے کی آواز سنتا ہوا وہ اپنی بیتی زندگی کے کئی واقعات یاد کرتا ہے اور سوچتا ہے کہ اس نے اس زندگی کو بہتر بنانے کے لیے کتنی جد و جہد کی ہے۔‘‘
سجاد ظہیر
بہروپیا
ہر پل شکل بدلتے رہنے والے ایک بہروپیے کی کہانی جس میں اس کی اصل شکل کھو کر رہ گئی ہے۔ وہ ہفتے میں ایک دو بار محلے میں آیا کرتا تھا۔ دیکھنے میں خوبصورت اور ہنسوڑ مزاج کا شخص تھا۔ ایک چھوٹے لڑکے نے ایک دن اسے دیکھا تو اس سے بہت متاثر ہوا اور وہ اپنے دوست کو ساتھ لے کر اس کا پیچھا کرتا ہوا اس کی اصل شکل جاننے کے لیے نکل پڑا۔
غلام عباس
خودکشی کا اقدام
افسانہ ملک کی معاشی اور قانونی صورتحال کی ابتری پر مبنی ہے۔ اقبال فاقہ کشی اور غربت سے تنگ آکر خود کشی کی کوشش کرتا ہے جس کی وجہ سے اسے قید با مشقت کی سزا سنائی جاتی ہے۔ عدالت میں وہ طنزیہ انداز میں دریافت کرتا ہے کہ صرف اتنی سزا؟ مجھے تو زندگی سے نجات چاہیے۔ اس ملک نے غربت ختم کرنے کا کوئی راستہ نہیں نکالا تو تعذیرات میں میرے لیے کیا قانون ہوگا؟
سعادت حسن منٹو
اس کا پتی
یہ افسانہ استحصال، انسانی اقدار اور اخلاقیات کے زوال کی کہانی ہے۔ بھٹے کے مالک کا عیاش بیٹا ستیش گاؤں کی غریب لڑکی روپا کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا کر چھوڑ دیتا ہے۔ جب گاؤں والوں کو اس کے حاملہ ہونے کی بھنک لگتی ہے تو روپا کا ہونے والا سسر اس کی ماں کو لعن طعن کرتا ہے اور رشتہ ختم کر دیتا ہے۔ معاملے کو سلجھانے کے لیے نتھو کو بلایا جاتا ہے، جو سمجھدار اور معاملہ فہم سمجھا جاتا تھا۔ ساری باتیں سننے کے بعد وہ روپا کو ستیش کے پاس لے جاتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ روپا اور اپنے بچے کو سنبھال لے۔ لیکن ستیش سودا کرنے کی کوشش کرتا ہے جس پر روپا بھاگ جاتی ہے اور پاگل ہو جاتی ہے۔
سعادت حسن منٹو
ننگی آوازیں
اس کہانی میں شہری زندگی کے مسائل کا احاطہ کیا گیا ہے۔ بھولو ایک مزدور پیشہ آدمی ہے۔ جس بلڈنگ میں وہ رہتا ہے اس میں سارے لوگ رات میں گرمی سے بچنے کے لیے چھت پر ٹاٹ کے پردے لگا کر سوتے ہیں۔ ان پردوں کے پیچھے سے آنے والی مختلف آوازیں اس کے اندر جنسی ہیجان پیدا کرتی ہیں اور وہ شادی کر لیتا ہے۔ لیکن شادی کی پہلی ہی رات اسے محسوس ہوتا ہے کہ پوری بلڈنگ کے لوگ اسے دیکھ رہے ہیں۔ اسی ادھیڑ بن میں وہ بیوی کی توقعات پوری نہیں کر پاتا اور جب بیوی کی یہ بات اس تک پہنچتی ہے کہ اس کے اندر کچھ کمی ہے تو اس کا ذہنی توازن بگڑ جاتا ہے اور پھر وہ جہاں ٹاٹ کا پردہ دیکھتا ہے اکھاڑنا شروع کر دیتا ہے۔
سعادت حسن منٹو
ماہی گیر
اس میں ایک غریب مچھوارے میاں بیوی کے جذبۂ ہمدردی کو بیان کیا گیا ہے۔ مچھوارے کے پانچ بچے ہیں اور وہ رات بھر سمندر سے مچھلیاں پکڑ کر بڑی مشکل سے گھر کا خرچ چلاتا ہے۔ ایک رات اس کی پڑوسن بیوہ کا انتقال ہو جاتا ہے۔ ماہی گیر کی بیوی اس کے دونوں بچوں کو اٹھا لاتی ہے۔ صبح ماہی گیر کو اس حادثہ کی اطلاع دیتی ہے اور بتاتی ہے کہ دو بچے اس کی لاش کے برابر لیٹے ہوئے ہیں تو ماہی گیر کہتا ہے پہلے پانچ بچے تھے اب سات ہو گئے۔ جاؤ انہیں لے آو۔ ماہی گیر کی بیوی چادر اٹھا کر دکھاتی ہے کہ وہ دونوں بچے یہاں ہیں۔