Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

فاصلے

دیپک کنول

فاصلے

دیپک کنول

MORE BYدیپک کنول

    حاکم دین کا ڈھوکا لائن آف کنٹرول سے چار ہاتھ کے فاصلے پر تھا۔ لائن آف کنٹرول وہ سرحد ہے جو کشمیر کو دو حصوں میں بانٹتی ہے۔ ایک حصہ اس طرف ہے جس میں جموں اور لداخ بھی شامل ہے اور ایک حصہ اس طرف ہے جو پاکستان کے زیر کنٹرول ہے۔ ادھر والے اس حصے کو آزاد کشمیر کہتے ہیں جب کہ ہم اسے مقبوضہ کشمیر کے نام سے جانتے ہیں۔ حالات کی ستم ظریفی یہ ہے کہ اس ریاست کی طرح ہی دلوں کے بھی تیا پانچے ہو گئے ہیں۔ ایک ٹکڑا ادھر ہے تو ایک ٹکڑا ادھر۔ سن سنتالیس کے قبائلی حملے کے بعد سینکڑوں خاندان دوحصوں میں بٹ گئے۔ ایک بھائی اس طرف رہ گیا اور ایک بھائی اس طرف۔ بس رہ گیا یہ اوڑی کا پل جو ان دونوں حصوں کو ملاتا ہے۔ اس پل کا نام لال پل ہے جو برسوں سے کسی راہ گیر کی قدم بوسی کے لئے ترس رہا ہے۔ برسوں سے یہ پل دل میں نہ جانے کتنی حسرتیں لئے ویران اور اداس آنکھوں سے کبھی اس طرف کے باسیوں کو تکتا ہے تو کبھی اس طرف کے لوگوں کو نہارتا رہتا ہے۔ اس پل کی دیکھ ریکھ کرنے والا اگرکوئی ہے تو وہے اس سے لگی ایک آرمی پوسٹ جس کا نام امن سیتو ہے۔

    حاکم دین اوڑی کی ان ہی پہاڑیوں پر رہتا تھا جہاں سے وہ اس طرف کے لوگوں کی نقل و حرکت دیکھ تو سکتا تھا البتہ ان سے مل نہیں سکتا تھا۔ بیچ میں جو ندیایک لکیر کی شکل میں بہتی تھی اس کا پانی دونوں اطراف کو میسر تھا مگر کنارے جدا جدا تھے۔ ایک کنارے پر پاکستانی رینجروں کا قبضہ تھا اور دوسرے کنارے پر ہندوستانی افواج کا۔ بیچ میں یہ جو ندی بہتی تھی وہ آزاد تھی۔ آج تک کوئی بھی ملک نہ اسکی روانی پر روک لگا پایا تھا اور نہ ہی اسکی سرکشی کو دبا پایا تھا۔ یہ شوریدہ سر ندی کبھی شانت رہتی تھی تو کبھی بے قابو ہو جاتی تھی۔ یہی حال پرندوں چرندوں کا تھا۔ وہ جب چاہتے ادھر سے ادھر چلے آتے تھے۔ کوئی انہیں روکنے ٹوکنے والا نہ تھا۔ ان کے لئے نہ یہ سرحد کوئی معنی رکھتی تھی، نہ اس سرحد پر پہرہ دینے والے۔ آزاد پنچھی جو ٹھہرے۔ بس اگر ممانعت تھی تو وہ تھی انسانوں کو۔ شاید اس لئے کہ ہر فساد کی جڑ انسان ہی ہوتا ہے۔ چاہے وہ جس قوم کا ہو یا جس ملک کا۔ کیونکہ تعمیر کے ساتھ ساتھ تخریب بھی اس کی سرشت میں شامل ہوتا ہے۔

    حاکم دین اوڑی کا باسی تھا۔ اس کے پاس کئی بھینسیں تھیں جن کا دودھ مکھن بیچ کر وہ اپنا گزارہ چلاتا تھا۔ وہ صبح صبح دودھ بیچنے سلام آباد چلا جاتا تھا۔ وہاں سے الٹے پاؤں پھر کے آتا تھا اور پھر دودھ مکھن امن سیتو پر دینے چلا جاتا تھا۔ امن سیتو کی پوسٹ پر جتنے بھی فوجی طعینات تھے ان کو حاکم دین کے دودھ مکھن کا ایسا چسکا لگ چکا تھا کہ وہ رات کی شراب قربان کر سکتے تھے مگر حاکم دین کے مکھن سے بنا پرانٹھا لینا نہ بھولتے تھے۔ حاکم دین کا شدھ اور گاڑھا دودھ پی کر آدمی ماں کے تھن سے پئے ہوئے دودھ کی لذت کو بھول جاتا تھا۔ اتنا بڑھیا اور لذیذ دودھ ہوا کرتا تھا حاکم دین کا۔ اس کی صبح اور شام فوجیوں کے ساتھ ہی گزرتی تھی اسلئے وہ ان سے بڑا گھلمل گیا تھا۔ کبھی کبھی وہ اسے خوش کرنے کے لئے اسے گرم کپڑے اور کمبلیں اسٹاک سے نکال کر دے جاتے تھے۔ حاکم دین انہیں دعائیں دے کر چلا جاتا تھا۔

    حاکم دین جب بھی امن سیتو پر دودھ دینے جایا کرتا تھا تو دودھ دے کر وہ لال پل کی منڈھیرپر جا کے بیٹھ جاتا تھا اور پھر گھنٹوں پل کے اس اور دیکھنے لگتا تھا۔ جہاں اس کا بڑا بھائی جمال دین کہیں کھو کر رہ گیا تھا۔ بھائی کی یاد آتے ہی اس کا کلیجہ منہ کو آ نے لگتا تھا۔ کتنا چاہتا تھا وہ اپنے بڑے بھائی کو۔ جمال دین بھی اُس پر جانچھڑکتا تھا۔ کیا مجال کہ کوئی حاکم دین کی طرف ترچھی نظر سے بھی دیکھے۔ وہ اپنے بھائی کے چہرے پر مکھی تک بیٹھنے نہیں دیتا تھا۔

    ایک دن اسی گاؤں کے ایک گوجر شاہ باز خان نے حاکم دین کو بڑے بھائی کے خلاف ورغلانے کی کوشش کی۔ شاہ باز خان کو ادھرکی ادھر کرنے کی بڑی بری عادت تھی۔ اس نے حاکم دین کو یہ کہہ کر بھڑکانے کی کوشش کی کہ اس کا بڑا بھائی جان بوجھ کر اس کی شادی نہیں کر رہا ہے تاکہ وہ اسی طرح اس کی فرما بنداری کرتا رہے۔ بات ایک طرح سے صحیح بھی تھی مگر حاکم دین اپنے بھائی کے خلاف ایک لفظ سننے کے لئے تیار نہ تھا۔ اُسنے جاکر اپنے بڑے بھائی سے شکایت کردی۔ جمال دین اُلٹی کھوپڑیکا آدمی تھا۔ اُسکا دماغ اتنا گرم تھا کہ زرا سی بات پر وہ ابلنے لگتا تھا۔ اُسنے جاکر شاہ باز خان کی جم کر پٹائی کر دی۔ شاہ باز خان چار چوٹ کی مار کھانے کے بعد اپنی فریادلے کر اس بستی کے چودھری کے پاس گیا جس کا اس علاقے میں کافی دبدبہ تھا۔ اس نے اُسی وقت جمال دین کو اپنے گھر پر طلب کیا اور اس کی نہ صرف سرزنش کی بلکہ اسے سات دن کی مہلت دی کہ وہ سات دن کے اندر حاکم دین کے نکاح کر ڈالے۔

    چودھری کی بات پتھر کی لکیر ہوا کرتی تھی۔ کوئی بھی اس کے حکم کو ٹال نہیں سکتا تھا۔ حکم عدولی کا مطلب چودھری کا عتاب مول لینا تھا۔ جمال دین نے اپنی بیوی زیتون کا سارا ماجرا سنا ڈالا۔ زیتون کا ایک رشتہ دار تھا جس کا نام سر فراز خان تھا۔ اس کی ایک جوان بیٹی تھی جو اب تک کنواری تھی۔ زیتون نے سرفراز خان کے گھر جاکرشادی کی بات چلائی۔ سرفراز خان کو اس رشتے میں کوئی قباحت نظر نہ آئی۔ اُسنے زیتون سے ایک رات کی مہلت مانگی تاکہ وہ اپنی بیوی سے بھی اس ضمن میں صلاح مشورہ کر سکے۔ زیتون خوشی خوشی گھر لوٹ آ گئی۔

    اس سے پہلے کہ بیل سرے چڑھ جاتی شاہ باز خان نے جاکر بھانجی مار دی۔ اس نے سرفراز خان کے کان میں پھونک دیا کہ حاکم دین اور زیتون کے آپس میں ناجائز رشتے ہیں۔ اس لئے وہ اپنی گائے جیسی بیٹی کی زندگی غارت نہ کردے۔ سرفراز خان کان کا کچا تھا۔ وہ فوراََ شاہباز خان کی باتوں میں آگیا اور اس نے اس رشتے کو آگے بڑھانے سے صاف انکار کر دیا۔ شاہ باز خان کی بد بختی دیکھئے کہ اُسنے بے خیالی میں بڑے اتراتے ہوئے اس بات کا اعلان کر دیا کہ اُسنے سرفراز خان کے کان حاکم دین کے خلاف بھر دئے۔ یہ ساری باتیں جمال دین نے سن لیں۔ بس پھر کیا تھا۔ جب جمال دین کو اصلیت معلوم پڑ گئی تو وہ شاہ باز کے خون کا پیا سا ہو گیا۔ وہشاہ باز کے سات خون معاف کر سکتا تھا مگر اپنی بیوی اور بھائی پر لگی جھوٹی تہمت وہ کسی بھی طور برداشت کرنے کے لئے تیار نہ تھا۔ اُسکے سر پر خون سوار ہو گیا۔ اس نے شاہ باز خان کو تہہ تیغ کرنے کا فیصلہ کیا۔ زیتوں نے اسے بہترا سمجھایا، بھائی نے روکنے کی کوشش کی۔ وہ کہاں رکنے والا تھا۔ اس کے اندر تو انتقام کی آگ دہک رہی تھی۔ وہ ملک الموت بن کر شاہ باز کے پیچھے پڑ گیا۔ شاہ باز نے اپنی جان بچانے کے لئے کیا کیا نہ تدبیریں کیں مگر اس کی ساری تدبیریں الٹی پڑ گئیں۔ ایک رات جب وہ چودھری سے پناہ مانگنے گیا اور چودھری نے اسے پناہ دینے سے انکار کر دیا تو وہ وہاں سے دل برداشتہ ہو کے نکلا۔ وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ موت چودھری کے دروازے پرکھڑی اس کا انتظار کر رہی ہے۔ شاہ باز خان تبر لے کے دروازے پر کھڑا تھا۔ اُسنے ایک ہی وار میں شاہ باز خان کو موت کی نیند سلا دیا۔

    شاہ باز کی ہلاکت کی خبر پوری بستی میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ لوگ شاہ باز خان کی لاش کے پاس جمع ہونے لگے جہاں اس کی بیوہ سیاپا کر رہی تھی۔ اتنے میں چودھری کو خبر ہوئی۔ اس نے ترت پھرت اپنا ایک آدمی تھانے کی طرف دوڑایا تاکہ پولیس کو خبر ہو اور جمال بچ کے نہ جائے۔ پولیس آ گئی اور سب سے پہلے ان ہوں نے شاہ باز کی لاش اپنی تفو یض میں لی اور اس کے بعد ایک پارٹی جمال کے گھر پر دھاوا بولنے چلی گئی۔ جمال تو وہاں تھا ہی نہیں اس لئے پولیس خالی ہاتھ لوٹ آئی۔ چودھری نے تھانیدار کو صاف طور پر یہ ہدایت دی کہ وہ جمال کو فرار ہونے کا موقع نہ دیں اور اسے کسی بھی قیمت پر اپنی گرفت میں لیں۔ چودھری کی شہہ پاکر پولیس جمال کی جان کی لاگو ہو گئی۔ وہ کئی روز تک بھوکا پیاسا پولیس سے چھپتا چھپاتا پھرتا رہا۔ ایک رات گھر میں پنا ہ لینے کی کوشش کی وہاں بھی حالات اس کے حق میں نہ تھے۔ گھر والوں نے اسے گھر میں پناہ دینے سے صاف انکار کر دیا کیونکہ پولیس نے روز روز کی پوچھ تاچھ سے اُن کی ناک میں دم کرکے رکھا تھا۔ زیتون اور حاکم کے اس رویے سے جمال کا دل ریزہ ریزہ ہوکر رہ گیا۔

    وہ اس کے بعداس علاقے سے یوں غائب ہو گیا جیسے اسے زمین کھا گئی۔ پولیس کو کافی جدو جہد کے بعد بھی اس کی گرد تک نہ ملی۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آیا کہ آخر وہ گیا کہاں اسے زمین کھا گئی کہ آسمان نگل گیا۔ پولیس پر ہر طرف سے دباو پڑ رہا تھا۔ وہ جاکر حاکم دین کے گھر پر ہلہ بول کے آ جاتے تھے پر وہاں سے خالی ہاتھ لوٹتے تھے۔ اس روز روز کی زلت سے وہ دونوں اس قدر عاجز آ گئے کہ اُنہوں نے چودھری سے جاکر شکایت کر ڈالی۔ چودھری کی مداخلت سے ان کی جان چھوٹی اور وہ پھرسے زندگی کو پٹری پر لانے کی کوشش کرنے لگے۔

    آخر جمال گیا کہاں؟ یہ سوال حاکم دین اور زیتون کو بار بار پریشان کئے جا رہا تھا۔ کہیں وہ سرحد پار تو نہیں چلا گیا۔ حاکم دین کو وہ دن یاد آنے لگے جبوہ اپنے ڈنگر لے کر سرحد کے اس پار غلطی سے چلے جاتے تھے تو ادھر کے فوجی زیادہ باز پرس نہیں کیا کرتے تھے۔ بس دو چار طمانچے مار دئے اور جانے دیا۔ جمال دین بھی کبھی اپنے ڈھور ڈنگر لے کر پاکستان والے کشمیر میں چلا جاتا تھا۔ دن بھر اس کے ڈنگر اُس علاقے میں چرتے رہتے تھے۔ شام ہوتے ہی وہ اپنے ڈنگر لے کر واپس چلا آتا تھا۔ کبھی حاکم دین یہ غلطی کر بیٹھتا تھا تو کبھی جمال دین۔ رات کو دونوں بھائی زیتون کا ہاتھ بٹاتے تھے جو اکیلی بیس بھینسوں کا دودھ نکالتی تھی۔ زیتون جمال دین کیبیوی تھی۔ بڑی ہی خوبصورت اور وضع دار عورت تھی وہ۔ اس کے آنے سے گھر کا نقشہ ہی بدل گیا تھا۔ پہلے باندی خانے کی صفائی ہفتے میں ایک بار ہوا کرتی تھی لیکن جبسے زیتون اس گھر میں آ گئی تھی باندی خانے کی صفائی روز ہوا کرتی تھی۔ زیتون کے آنے سے ڈنگروں کا ہی بھلا نہیں ہوا تھا بلکہ جمال دین کے گھر میں بڑی برکت آگئی تھی۔ پہلے چالیس کلو دودھ نکلتا تھا، اب ستر کلو دودھ بازار پہنچ جایا کرتا تھا۔ یہ سب کچھ زیتون کی اقبال مندی کے صدقے تھا۔ اس کا بھائی اور بھابی اُس سے کتنا پیار کرتے تھے۔ جمال تو اس کی ناک پر مکھی بھی بیٹھنے نہ دیتا تھا۔ کتنا پیار کرتا تھا وہ اس سے۔

    اس بیچ اس پار کے کشمیر میں شورش نے سر اٹھا لیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے حالات بد سے بد تر ہونے لگے۔ جنگ تو نہیں چھڑ گئی تھی مگر حالات جنگ کے ماحول سے بھی بدتر تھے۔ سرحد پر چوکسی اس حد تک بڑھ گئی تھی کہ چوری چھپے سرحد پار کرنا پل صرا ط کو پار کرنے کے مترادف تھا۔ اب سرحد پر پرندہ بھی پر مارتا تھا تو فوجیوں کو ترتخبر لگ جاتی تھی۔ جب سے جمال لا پتہ ہو گیا تھا حاکم دین نے بھائی کی تلاش میں بستی کا چپہ چپہ کھنگالا مگر جمال کا کوئی سراغ نہ ملا تھا۔ پولیس بھی حیران و پریشان تھی کہ آخر جمال کہاں چلا گیا۔ ایک طرف حاکم دین بھائی کی اچانک گمشدگی کی وجہ سے پریشان تھا تو دوسری طرف زیتون نے رو رو کر اپنا برا حال کر دیا تھا۔ وہ ڈھنگ سے کھاتی تھی نہ سوتی تھی۔ بس جمال کو یاد کرکے آٹھ آٹھ آنسو بہایا کرتی تھی۔ حاکم اپنا غم بھول کر زیتون کو سنبھالنے میں لگتا تھا۔ اس کی دلجوئی کرنے میں ہی اس کا بیشتر وقت گزر جاتا تھا۔

    ایک سال بیت گیا۔ جمال کے لوٹ آنے کی ساری امیدیں ایک ایک کرکے دم توڑنے لگیں۔ زیتون اپنے شوہر کی جدائی کے غم میں آدھی ہو چکی تھی۔ وہ بس آنے والوں کا منہ دیکھتی تھی اور جانے والوں کی پیٹھ۔ اس بیچ گاؤں میں طرح طرح کی چمیگوئیاں ہونے لگیں۔ بات چودھری کے کانوں تک پہونچی۔ چودھریجہاں دیدہ آدمی تھا۔ وہ اس بستی کے ہر فرد کی فکر کرتا رہتا تھا۔ ایک دن مقدم چودھری دلنواز خان حاکم دین کا حال چال پوچھنے اس کے گھر پر چلا گیا۔ حاکم دین کسی حد تک بھائی کی جدائی کے غم کو بھول چکا تھا مگر زیتون سوکھ کر کانٹا ہو چکی تھی۔ زیتون کی حالت دیکھ کر مقدم کے دل کو گہرا دھچکا لگا۔ چودھری نے بڑی دنیا دیکھی تھی۔ زیتون کی بھرپور جوانی ایک نظر میں اُس سے بہت کچھ کہہ گئی۔ اس نے حاکم دین کو پاس بٹھایا اور پھر تحکمانہ انداز میں اسے سمجھاتے ہوئے بولا۔

    ”یا تنے کے ہو یا ہے۔ تنے کچھ دکھائی نہیں دیتو؟“

    حاکم دین چودھری کی بات سن کر پہلے چونکا اور پھر جی کڑا کرکے اس نے چو دھری سے پوچھا۔

    ”منے سے کے بے ادبی ہوگئیو چودھری؟“

    ”بےادبی نہیں۔ یہ پوچھ تنے سے کے گناہ ہوگئیو ہے۔ یہ توں کے حال کر چھڑیا ہے زیتون دا۔ کدی تو نے سوچو اس کا کے بنے گو؟“

    حاکم دین کا کلیجہ اچھل کر حلق میں جا کے اٹک گیا۔ چہرے کا رنگ پھیکا پڑ گیا۔ وہ بدقت تمام بولا۔

    ”گل کے ہے۔ صاف صاف دسو نا چودھری؟“

    ”گل اے ہے کہ جمال نو لا پتو ہوئے ایک سال ہوگئیو ہے۔ منے تو پکو یقین ہے کہ جمال زندو نہیں مکی (مر) گئیو ہے۔ جدو وہ زندو ہوتو تو اتنو دن کدی دور نا رہتو۔ مارودل کہندا ہے کہ وہ ہون کدی نہیں آوےگو۔ جمال کو آس امید میں بیسن (بیٹھے) رہن کی ہون کوئی لوڑ نہیں۔ توں جمال نو چھڑکے جمال دی بوٹی کا کچھ خیال کر۔ کے حال بد ہوگئیو ہے بیچاری دا۔ رب دے واسطے یا تو سوچ یا اکیلو کے کرےگو؟ ماری صلاح مان۔ زیتون نو اپنو امان میں لو۔ رب تنے اس نیک کام دا اجر ضرور دیوں گو۔ زیتون کو بھلو بھی ہو جاوں گو اور تھارو ٹبر بھی بن جاوےگو۔“

    بھائی کے موت کے خیال سے حاکم دین کے کلیجے پر چھریاں چلنے لگیں۔ آنکھوں سے آنسوں کی جھڑی لگ گئی۔ اسے خود اس بات کا اعتراف تھا کہ ابجمال کی آس امید میں بیٹھے رہنا عبث تھا۔ وہ اگر زندہ ہوتا تو ایک سال تک روپوش نہ رہتا۔ کہیں کسی آفت افتاد میں پھنس بھی گیا ہوتا تو بھی کسی کے ہاتھ خیر خبر بھیجنے میں کوتاہی نہ برتتا۔ حالات تو مظہر تھے کہ جمال اب اس دنیا میں موجود نہیں ہے۔ اب اس کی راہ دیکھنا فضول تھا۔ بستی کے لوگوں کا بھی یہی خیال تھا کہ اب جمال کے انتظار میں بیٹھے رہنے کا مطلب زیتون کے ساتھ سراسر ظلم اور نا انصافی کا مرتکب ہونا تھا۔ آخر وہ کب تک دہکتے انگاروں پر لوٹتی رہےگی۔ کب تک وہ اپنی جوانی کو اکیلے پنکی صلیبپر لٹکائے رکھےگی؟ کب تک وہ اپنے سلگتے ارمانوں کو تنہائیوں کا کفن پہناتی رہے گی؟ یہ وہ سوال تھے جو چودھری کے من میں بار بار اٹھتے تھے۔ چناچہ انسارے سوالوں کاایک ہی جواب تھا کہ حاکم دین زیتون سے نکاح کرلے۔ زیتون کو بھی سہارا مل جائےگا اور حاکم دین کا گھر بھی بس جائےگا۔

    حاکم دین کو اس سجھاو میں کوئی کھوٹ خرابی نظر نہ آئی۔ گھر کی چیز گھر میں ہی رہ جائے گی تو گھر بھی صیح و سلامت رہے گا۔ پر وہ جلد بازی میں کوئی قدم اُٹھانا نہیں چاہتا تھا کیونکہ یہ ایک زندگی کا سوال نہ تھا، بلکہ اس فیصلے کے ساتھ دو زندگیاں جڑی ہوئی تھیں اسلئے اُس نے چودھری سے دو دن کی مہلت مانگی۔ چودھری تو خوشی خوشی چلا گیا مگر حاکم دین عجب مخمصے اور تردد میں الجھ کر رہ گیا۔ وہ اس بات سے بے خبر نہ تھا کہ لوگ پیٹھ پیچھے کیا کیا باتیں کرتے رہتے ہیں۔ وہ اُن دونوں کو ایک ساتھ رہنے کو بھی اخلاق اور شرعا کابل مذمت سمجھ رہے تھے۔ حاکم دین زیتوں کی بڑی عزت کرتا تھا۔ وہ اُسے اس طرح رسوا ہوتے نہیں دیکھ سکتا تھا۔ وہ اس ضمن میں زیتون سے بات کرنا چاہتا تھا۔ اس کی رائے جاننا چاہتا تھا پر زیتون سے بات کرنے میں اس کی ہمت نہیں پڑ رہی تھی۔ بس اُسے ایک ہی اندیشہ پریشان کئے جا رہا تھا کہ زیتونکہیں اس کی بات کا کچھ اور مطلب نہ نکالے۔ زیتون بڑی حساس عورت تھی۔ پر اس سے بات کرنا بھی ضروری تھا کیونکہ اب تو بات قرب و جوار میں بھی پھیل گئی تھی۔وہ جب دودھ دینے امن سیتو پر جاتا تھا تو لوگ اسے گھور گھور کے دیکھتے تھے جیسے وہ کوئی عجوبہ ہو۔ ایک طرف یہ صورت حال اور دوسری طرف آپس کی اپنی مجبوریاں۔ اُ سنے ایک دو بارزیتون سے بات کرنے کی کوشش کی پر کامیابی نہیں ملی۔ آخر تیسری بار اس نے ہمت جٹا ہی لی۔ اس نے زیتون کا ہاتھ پکڑ کر اُسے اپنے پاس بٹھا لیا اور پھر اسے بڑے پیار سے سمجھاتے ہوئے بولا۔

    ”منے ایک گل دس۔ تنے کے لگدا ہے۔ جمال زندو ہے؟“

    ”زندو ہوتو تو منے یوں بھول نہ جاتو۔ کدی خیر خبر لین واسطے آہی جاتو۔“

    حاکم دین نے اسے سہارا دیتے ہوئے کہا۔

    ”چودھری یا ہی گل بات کرن واسطے آ گئیو تھو۔ آخر توں لوکاں کے طعنے کد تک جھلے (جھیلے) گو۔ کدی کوئی اونچ نیچ ہو گئی تو رب سانو دوزخ میں جلائےگو۔ چودھری یہی گل بات دسن واسطے آئیو تھو۔ چودھری دا حکم ہے کہ ما تھارے نال نکاح کر لوں۔ تو دس تھاری کے مرضی؟“

    زیتون نے پہلے چونک کر حاکم دین کی طرف دیکھا، پھر وہ شرما گئی۔ اس کا شرمانا اس بات کا مظہر تھا کہ اسے اس رشتے پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ حاکم دینکا دل بلیوں اچھل پڑا۔ اُسنے فوراََ جاکر چودھری کو یہ خوش خبری سنا ڈالی۔ چودھری بھی اس خبر سے باغ باغ ہو اٹھا۔ اس نے اُسی وقت قاضی کوَ بلاوا بھیجا۔ قاضی چودھری کا حکم پاتے ہی دوڑا دوڑا چلا آیا۔ چودھری نے اسے سمجھایا کہ اگلے ہفتے حاکم دین اور زیتوں کو وہ دو بول پڑھوا کے آ جائے۔ وہ وقت اور تاریخ طے کرکے چلا گیا۔ حاکم دین شادی کی تیاریوں میں جی جان سے جٹ گیا۔ اسنے زیتون کے لئے کئی سارے زیور اور کپڑے لتے خرید لئے۔ خوشی کے مارے حاکم دین کے پاؤں زمین پر نہیں پڑ رہے تھے جب کہ زیتون اپنی خوشی کو اپنے ہی سینے میں چھپا کے بیٹھی تھی۔ اس کے دل میں جہاں خوشی کی ترنگ اٹھتی تھی وہیں ساتھ میں درد کی لہر بھی اُٹھنے لگتی تھی۔ جمال کتنا بھی برا سہی پر تھا تو اس کا پہلا شوہر۔ اس کی یاد آنا ایک فطری احساس تھا۔ اگلے ہفتے قاضی نے ان دونوں کو نکاح پڑھوا کے ازدواجی رشتے میں باندھ لیا۔ حاکم دین ایک طرف خوش تھا تو دوسری طرف بھائی کی یاداس کے دل کو برما رہی تھی۔ وہ نکاح کے بعد گھر سے نکلا اور سیدھے ندی کے کنارے جا کے بیٹھ گیا۔ پھر وہ وہاں پر بھائی کی یاد میں چھاجوں روتا رہا۔ جب من کچھ ہلکا ہوا تو وہ گھر چلا آیا گھر میں زیتون پھر سے دلہن بنی اپنے دوسرے شوہر کا انتظار کر رہی تھی۔ جب تک حاکم دین گھر نہیں لوٹا اس کی جان سولی پر ٹنگی رہی۔ حاکم دین نے جونہی گھر میں پاؤں دھر لیا زیتون کی جان میں جان آ گئی۔ پھر وہ کمرے میں جاکر پہلی سہاگ رات منانے لگا۔

    مولا کا کھیل دیکھئے۔ ادھر حاکم دین اپنی پہلی سہاگ رات منا رہا تھا اور ادھر جمال دین سرحد کے اس پارجیل کی ایک کال کوٹھری میں زیتوں کو یاد کر رہا تھا۔ ادھرمرد کی قربت پاکر زیتون کی مرجھائی ہوئی زندگی میں پھر سے بہار آ گئی۔ اس کی کھوئی ہوئی خوشی پھر سے اس کے چہرے پر کھل اٹھی۔ اُدھر جمال دین قید و بندکیس ختیوں سے پریشان تھا۔ ادھر حاکم دین کی بے معنی اور بےرنگ زندگی کو ایک نئی رنگینی، ایک نیا مفہوم اور مقصد مل گیا۔ اب جب بھی وہ دودھ دینے باہر جاتا تھا تو زیادہ دیر تک باہر رہ نہیں پاتا تھا۔ باہر جاتے ہی اسے زیتون کی یاد ستانے لگتی تھی۔ ادھر جمال دین کی ساری امیدیں، سارے ارمان جیسے اس کال کوٹھری کے اندھیارےمیں دفن ہوکر رہ گئے تھے۔

    زیتون کی زندگی پر چھایا ہوا دکھ اور مایوسیوں کا پت جھڑ رخصت ہوا اور اس کی جگہ بہار نے لی تھی۔ وہ حاکم کا اتنا بھرپور پیار پا کر پھولے نہیں سما رہی تھی۔ اس بیچ زیتون نے ایک گول مٹول سے بیٹے کو جنم دیا۔ حاکم دین کو لگا جیسے اُسکے دونوں جہاں روشن ہو گئے۔ وہ بیٹا پا کر خوشی سے نہال ہو اٹھا۔ اس نے اپنے بیٹے کا نام اپنے بڑے بھائی جمال دین کے نام پر رکھ دیا تاکہ اسی بہانے وہ اپنے بھائی کو یاد کرتا رہے۔

    زندگی بڑے اطمینان اور چین سے گزر رہی تھی کہ اچانک ایک دن ایسا زلزلہ آگیا جس نے حاکم دین اور زیتون کی زندگی ہلا کر رکھ دی۔ جمال مرا نہیں بلکہزندہ تھا اور وہ غیرقانونی طور بوڑر کر اس کرنے کے جرم میں دھر لیا گیا تھا اور وہ مظفرآباد کی ایک جیل میں دو سال تک قید رہا۔ رہا ہوا تو ایک سال تک وہ اسی تک و دو میں لگا رہا کہ کسی نہ کسی طرح وہ سرحد پار کرکے اپنے عیال تک پہونچ سکے۔ آخر ایک دن وہ سرحد پار کرنے میں کامیاب ہو گیا۔

    جب اس نے اپنی بستی میں قدم رکھا تو اس کے پاؤں زمین پر نہیں پڑ رہے تھے بلکہ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ ہوا میں اڑا جا رہا ہو۔ اپنے گھر والوں سے ملنے کی خوشی کا احساس ایک نشہ ایک سرور بن کر اس پر طاری تھا۔ وہ دل میں ہزاروں خواب سجائے جب گھر میں داخل ہو ا توسب سے پہلے اس کی نظر نو زائیدہ بچے پر پڑی۔ اسے لگا کہ حاکم دین نے اس کے پیچھے شادی کی ہوگی اور یہ اسی کا بچہ ہوگا۔ وہ اسے گود مین اٹھا کر پیار کرنے لگا۔ اتنے میں زیتون آ گئی۔ جونہی زیتون کی نظر جمال دین پر پڑی تو اسے لگا جیسے اس کی زندگی میں ایک زبردست بھونچال آ گیا ہو۔ وہ تیورا کر نیچے بیٹھ گئی۔ اس کی آنکھوں میں اندھیرا چھا گیا اور وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے جمال کو دیکھنے لگی۔ جمال کو لگا کہ اسے زندہ دیکھ کر اس کی عورت اس خوشی کو سنبھال نہ پائی ہو اس لئے وہ بچے کو گود میں لے کر زیتون کے پہلو میں بیٹھا اور اسے یقین دلانے کی کو شش کی کہ وہ جمال دین ہی ہے اور وہ زندہ لوٹ کر آیا ہے۔ زیتون پر تو جیسے آسمان ٹوٹ پڑا تھا۔ وہ جمال سے آنکھیں نہیں ملا پارہی تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد جب اُس نے بچے کے بارے میں زیتون سے پوچھا تو اب کے زیتون نے اسے یہ خبر سنا ڈالی کہ اس نے حاکم دین سے نکاح کر ڈالا ہے۔ یہ روح فرسا خبر سن کر اس کے پاؤں تلے کی زمین سرک گئی ۔ اسے لگا جیسے اس پر سات آسمان ایک ساتھ ٹوٹ پڑے ہیں۔ اس نے بچے کو اس طرح اچھال کر زیتوں کی گود میں پھینک دیا جیسے وہ کوئی سنپولا ہو۔ اسے لگا کہ اس کے بھائی نے اس کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا ہو۔ اس صدمے نے اسے اس قدر مجروح اور مشتعل کر دیا کہ وہ مارے غصے اور انتقام کے کسی جلتی بھٹی کی مانند دہکنے لگا۔ اتنے میں حاکم دین بھی آ گیا۔ وہ بھی اسے دیکھ کر حواس باختہ ہو گیا۔ وہ اُس کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ اُسے پوری روداد تفصیل سے سنانے لگے مگر حاکم دین اور زیتون کی کوئی بھی دلیل، کوئی بھی صفائی اسے جھوٹ اور مکاری لگی۔ چناچہ وہ غصے سے اس قدر پاگل ہو اٹھا تھا کہ اُس نے کلہاڑی اٹھا کر زیتون پر وار کرنے کی کوشش کی مگر پڑوسیوں کی بر وقت مداخلت سے زیتون کی جان بچ گئی۔ ادھر کسی نے جاکر پولیس میں خبر کر دی۔ اس ے پہلے ہی جمال دین گھر سے نکل چکا تھا۔ حاکمدین قسمت کے اس بےرحم مذاق پر اپنا ماتھا پیٹ کر رہ گیا۔ جمال دین ہنگامہ کرکے چلا تو گیا البتہ جاتے جاتے یہ فہمائش کرکے گیا کہ وہ اس گھر میں تبھی قدم رکھےگا جب زیتون پھر سے اس کی ہو جائےگی۔ وہ حاکم دین سے جاتے جاتے یہ دھمکی دیکر بھی گیا کہ وہ زیتون کو واپس حاصل کرکے رہے گا چاہے اس کے لئے اسے حاکم کیجان ہی کیوں نہ لینی پڑے۔ جمال سرحد پار چلا گیا پر جاتے جاتے وہ حاکم دین اور زیتون کو ایسا درد دے گیا جس کی کسک انہیں رات دن تڑپاتی رہتی تھی۔ یہ ایسا درد تھا جس کی دوا تھی نہدرمان۔ آخر قدرت ان کے ساتھ یہ کیسا کھیل کھیلا تھا کہ وہ گنہگار نہ ہوتے ہوئے بھی گناہ گار ٹھہرائے گئے تھے۔ جمال اُنہیں ایسا شراپ دے کے چلا گیا تھا کہ اُن کی اچھی خاصی گھر گرہستی زیر و زبر ہو کر رہ گئی تھی۔ سب کچھ اُلٹ پلٹ ہو کے رہ گیا تھا۔ حاکم دین سب کچھ سہہ سکتا تھا مگر اپنے بھائی کی نفرت اور بد گمانی کو وہ برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اس کا بھائی اتنا ضدی ہے کہ وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔ وہ ان کی جان بھی لے سکتا ہے۔

    ایک دن اس نے اپنے سینے پر پتھر رکھ کر زیتون کو اپنی زندگی سے الگ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ یہ فیصلہ لیتے وقت اسے جس قدر تکلیف ہوئی وہ نا قابل ِبیان تھی۔

    بہر حال اس کے لئے ایسا فیصلہ لینا بہت ضروری تھا۔ اگر ایک پھوڑا بہت زیادہ تکلیف دے تو اس پر نشتر چلانے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ حاکم دین بھی اس پھوڑے کی پیڑا سے نجات پانا چاہتا تھا جس کا درد اب اُس کی برداشت سے باہر ہوتا جا رہا تھا۔ جمال کی کہی ہوئی باتیں اُسے باربار کچوکے مارتی رہتی تھی۔ جس بھائی نے کبھی اسے ٹیڑھی آنکھ کرکے نہیں دیکھا تھا وہی بھائی اسے ڈھیر ساری بد دعائیں دے کر چلا گیا تھا۔ اُسکی باتوں کو یاد کرکے وہ پورے وجود سے تڑپ اٹھتا تھا۔ وہ اس ساری تباہی کا ذمہ دار اپنے آپ کو ٹھہراتا تھا اور وہ اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرنا چاہتا تھا۔ایک دن زیتون کو اس کے ارادوں کی بھنک لگ گئی تو اس کے ہوش اڑ گئے اور وہ دوڑی دوڑی چودھری کے پاس چلی گئی اور اسے رو رو کر اپنا دکھڑا سنایا۔ چودھرینے اس کی ڈھارس بندھائی اور اسے یقین دلایا کہ وہ حاکم دین کو ایسا کوئی قدم اٹھانے کی ہرگز اجازت نہیں دےگا جس سے اس کی اور بچے کی زندگی داو پر لگ جائے۔ وہ اسے کوئی بھی من مانی کرنے سے روکےگا چاہے اس کے لئے اسے سختی سے کیوں نہ کام لینا پڑے۔ چودھری کی اس یقین دہانی کے بعد زیتون کے کچھ آنسو پچھ گئے اوروہ خوشی خوشی گھر لوٹ آئی۔

    اس سے پہلے کہ چودھری حاکم دین کو کوئی بھی قدم اٹھانے سے باز رکھ پاتا اس نے زیتون کو ایک دن غصے میں آکر جھٹ سے طلاق دے ڈالی۔ زیتون کے وجود پر جیسے بجلی گری۔ آناََ فاناََ یہ خبر بستی میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ سبھی لوگ حاکم دین کے اس فیصلے سے سکتے میں رہ گئے۔ حاکم دین کے اس قدم سے سبھی کو دکھ اور افسوس ہو رہا تھا۔ حاکم دین کی اپنی دلیل تھی۔ وہ اپنے روٹھے ہوئے بھائی کے آگے زیتون کو چارہ بنا کر ڈالنا چاہتا تھا تاکہ اس کی بد گمانی دور ہو جائے۔ اس کھیلمیں دونوں بھایؤں کا کچھ نہیں بگڑ رہا تھا۔ اگر کسی کا کچھ بگڑ رہا تھا تو وہ زیتون تھی جس کی تو دنیا ہی لٹ رہی تھی۔ وہ تو ایک کھلونا بن کر رہ گئی تھی۔ چند دن بڑا بھائی اس کھلونے سے کھیلتا رہا اور پھر چند دن دوسرا بھائی۔ وہ تو دل بہلانے کا سامان بن کر رہ گئی تھی۔ اس کا جیسے اپنا کوئی وجود تھا ہی نہیں۔

    حاکم دین اپنے ارادے کا اٹل اور ضد کا پکا تھا۔ اس نے یہ طے کر لیا کہ وہ زیتون کو لے کر سرحد کے اس پار چلا جائےگا اور اسے جمال کو سونپ کر واپس چلا آئےگا۔ وہ زیتون کو اپنے بھائی کو سونپ کر اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کر لےگا۔ کوئی زیتون کے بارے میں سوچ ہی نہیں رہا تھا۔ کل کو اگر جمال کا اس کھلونے سے جیبھر گیا تو اُس کا کیا ہوگا۔ کیا وہ اسی طرح ایک ہاتھ سے نکل کر دوسرے ہاتھ میں جاتی رہےگی۔ کیا اس کی اپنی کوئی ہستی نہیں؟ کیا اس کا اپنا کوئی وجود نہیں؟ کیا اسے اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کا کوئی حق نہیں۔ یہ وہ سوال تھے جن کا کسی کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ مہ حاکم دین کے پاس اور نہ چودھری کے پاس۔ حاکم نے طے کر لیا تھا کہ وہ بچے کا اپنے ساتھ رکھ لےگا۔ اس کے جینے کے لئے اس کے بچے کا سہارا کافی تھا۔ وہ باقی کی زندگی اسی کے سہارے کاٹنے کے لئے تیار تھا۔ زیتون حالانکہ ابھی تک اُسی کے گھر میں رہ رہی تھی مگر وہ اس کے تئیں ایسی لاپرواہی اور بےرخی سے پیش آ رہا تھا جیسے وہ اسے جانتا تک نہ ہو۔ دونوں ایک ہیچھت کے نیچے رہ کے بھی ایک دوسرے سے کتنے دور چلے گئے تھے جیسے دو اجنبی ایک جگہ آکے رکے ہوں۔ جمال کے نازل ہونے سے ان کی زندگی کا ڈھرہ ہی بدل چکا تھا۔ ایک طوفان، ایک تلاطم، ان کی خاموش زندگی میں اٹھا تھا جس نے سب کچھ تلپٹ کرکے رکھ دیا تھا۔ وہ اس طوفان میں اپنا سب کچھ گنوا بیٹھے تھے۔

    اسی دوران سیاسی فضا میں اچانک ایک طوفانی بدلاو آنے لگا۔ اوڑی کا لال پل جو برسوں سے اداس اور ویران پڑا ہا تھا، اس پر نیا رنگ و روغن چڑھنے لگا۔

    کاروانِ امن کے نام سے ایک بس شروع ہو گئی جو بچھڑوں کو ملانے کا کام کرنے لگی۔ حاکم دین بھی اس پار جانے کے کاغذات حاصل کرنے میں جٹ گیا۔ زیتون رورو کر ایک ایک کو اپنا دکھڑا سناتی جا رہی تھی کہ آخر اسے کس جرم کی پاداش میں اپنے لخت جگر سے الگ کیا جا رہا ہے۔ کسی کے پاس اُسکے درد کا مداوانہ تھا۔ تھک ہار کے وہ ایک دن چودھری کے گھر پر چلی گئی۔ اس کے آگے اپنا بچہ رکھ کر وہ روتے ہوئے بولی۔

    ”تم ات چین سے بسیو (بیٹھے) ہے اور ات ماری دنیا ویرانو ہوگئیو۔ کے گناہ ہے مارو۔ یا توں تھو جس دی صلاح من کے ای نکاح ہوگئیو۔ اب جمال سے ڈر کے حاکم منے طلاق دےگئیو اب تو دس مارو کار کت ہے؟ مارو کار آلو کون ہے؟ مینوں دس کہ مارے پوت کاکے بنےگو کے ما اس دے دو ٹکڑے کرکے جاوں یا اسے مار چھڑوں“

    چودھری منہ میں گھنگھیاں بھر کر بیٹھا رہا۔ پہلی بار اسے لگا کہ اس کے پاس زیتون کے سوالوں کا کوئی جواب نہیں ہے۔ پہلی بار اس نے اپنے آپ کو بڑا بے بس اور لاچار پایا۔ کبھی کبھی حالات ایسا رخ اختیا ر کر لیتے ہیں کہ منصف خود سوالی بن کر کھڑا ہو یاتا ہے۔ یہی حال اسوقت چودھری دلنواز خان کا تھا۔ وہ زیتون کے روبروسرنہوڑے بیٹھا تھا جیسے وہ منصف نہیں بلکہ خود مجرم ہو اور انصاف کے کٹہرے میں کھڑ ا اپنا فیصلہ سننے کا انتظار کر رہا ہو۔

    وہ گھڑی قریب آ ہی گئی جب زیتون کو حاکم دین کے ساتھ اس پار جانا تھا اور اپنے روٹھے ہوئے شوہر کو منا کر لانا تھا۔ وہ اپنے لخت جگر کو اپنے آپ سے الگ کرنا نہیں چاہتی تھی۔ وہ الگ کہاں تھا۔ وہ تو اُسکے وجود کا ایک حصہ تھاجس کے بنا وہ جی نہیں سکتی تھی۔ ایک شام وہ ننگے پاؤں اور ننگے سر گھر سے نکلی اور پوری رات کھلے آسمان کے نیچے بیٹھ کر وہ اپنے مالک سے یہ پوچھتی رہی کہ آخر اسے کس خطا کی یہ سزا مل رہی ہے۔ وہ فریاد بھی کرتی رہی اور ساتھ ہی آنکھوں سے اشکوں کے دریا بہاتی رہی۔ بےکس اور لاچار کے پاس تو بس مولا کا ہی سہارا ہوتا ہے۔ اس نے بھی مولا کا ہی دامن تھام لیا تھا۔

    جمال کے پاس جانے کی گھڑی جتنی قریب آرہی تھی زیتون کے دل کی دھڑکنیں اتنی تیزی سے بڑھ رہی تھیں۔ وہ اپنے بچے کو سینے سے لگاتی اور پھر وہ پھپھک کے روتی۔ اچانک اس رات ایسا ہولناک بھونچال آ گیا جس نے دھرتی کو ہلا کر رکھ دیا۔ گوجروں کے ڈھوکے تاش کے پتوں کی طرح بکھر کر رہ گئے۔ اس پار تو زلزلہ اتنا شدید نہ تھا مگر اُس پار تو قہر مچ گیا تھا۔ اس آفات سمادھی نے ایک جھٹکے میں ہزاروں جانیں نگل ڈالیں تھیں۔ زلزلے نے ایسی بھاری تباہی مچائی تھی کہ لاکھوں گھر ریت کے گھروندوں کی طرح مسمار ہو کر رہ گئے تھے۔ پاکستان کے زیر کنٹرول کشمیر کے پہاڑی علاقوں میں بہت کم لوگ بچے تھے۔

    ایک دن خبر آئی کہ جمال دین کو بھی اس زلزلے نے نگل ڈالا تھا۔ کدا جانے یہ گل بانو کی آہوں کا ثر تھا یا زیتوں کے آنسوں کا۔ یہ خبر سن کرحاکم دین تو اپنا سرپیٹنے لگا مگر زیتون بت بنی کھڑی رہی۔ اسے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ اس خبر پر روئے یا خوشی منائے کیونکہ وہ ایک بار پھر ایک عجب دوراہے پر آکے کھڑی ہو گئی تھی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے