گھڑیال نے آٹھ بجائے۔ گھنٹیاں بجنے لگیں۔ ہلکی ہلکی موسیقی فضا میں پھیلنی شروع ہوئی۔ مدھم روشنیاں تیز ہوتی گئیں۔ یہاں تک کہ دن کا دھوکا ہونے لگا۔ روشنیاں ایک دھماکے کے ساتھ دھیمی ہوگئیں۔ آخری گھنٹی کے ساتھ چنگ کی آوازیں آنی شروع ہوئیں۔ مہتابی چھوٹی اور سرخ دبیز مخملی پردہ بڑی ناز و ادا کے ساتھ خراماں خراماں اٹھنا شروع ہوا۔ ہال تماشائیوں سے کھچاکھچ بھر گیا تھا۔ (Neon) نیون لائٹ میں اشتہار جگمگا رہاتھا۔
’’آج شب آٹھ بجے امپیریل تھیٹر کمپنی کا مشہور و معروف ڈرامہ ’’ابھیگیان شاکنتلم‘‘ خاص شان و اہتمام اور زرق برق سین سینری کے ساتھ پیش کیا جائے گا، جس میں کمپنی کی مشہور اداکارہ حنا شکنتلا کا پارٹ کریں گی۔‘‘
پردے کے اٹھنے کے ساتھ ہی سوتر دھار نمودار ہوا۔ تماش بین کو جھک جھک کر سات بار سلام کیا پھر بولا، ’’سنیے جناب ڈرامہ کیا ہے؟‘‘ (مدھم آواز میں شادیانے بجنے لگے۔)
ڈراما کافن ویدوں کی طرح خدائی دین ہے۔ تصور یہ بھی ہے کہ ڈرامہ نگاری کسی ایسے دور میں ممکن ہی نہیں جب انسانی زندگی آلام و اضطراب سے آگاہ نہ ہوئی ہو۔ عہد سیمیں میں اس فن کی داغ بیل پڑی۔ اسی دور میں جملہ دیوتا ابوالآبا (برہما) کے حضور میں گئے اور اس سے استدعا کی کہ ایک ایسا فن نمودار کریں جس سے سمع و بصر دونوں محظوظ ہوں۔ یہ پانچواں وید ہو مگر سابقہ ویدوں کے برخلاف اس سے فائدہ اٹھانے کا حق دوسری تمام برادریوں کے لوگوں کو بھی حاصل ہو۔
برہما نے تاریخ اور موعظت کو ملاکر اس کی ترتیب کی اور رگ وید سے انشا، سام وید سے نغمہ، یجروید سے سوانگ اور اتھروید سے جذبات نگاری کے فنون کو ہم آمیز کیا۔ شو نے تانڈو (رقص) اور پاروتی نے لطافت کا اضافہ کیا اور وشنو نے چاروں ڈرامائی اسالیب کا اختراع کیا اور تب وشوکرما کو حکم ملا کہ وہ نگار خانے کی تشکیل کرے اور آخر میں اسی موضوعی فکر و فن کو بھرت منی کے حوالے کیا گیا تاکہ وہ زمین پرآکر اسے معروضی رنگ و روپ میں پیش کرے۔ اس طرح بھرت منی خدائی فن ناٹیہ شاستر کا حامل ہوا۔
سوتردھار نے اپنے لمبے رنگین عصا کو چاروں دِشاؤں میں گردش دے کر شکنتلا کے اسٹیج پر آنے کا اعلان کیا اور خود پردے میں غروب ہوگیا۔ شکنتلا کے بے پناہ حسن کو د یکھ کر راجا دشینت سمیت تمام تماش بیں رنگ و نور کے بحر بیکراں میں غوطہ زن ہوگئے۔ روشنیوں نے ایسا رنگ بکھیرا کہ فضا نیلگوں سمندر میں تبدیل ہوگئی اور ہلکے گلابی لباس میں پری کی طرح تھرکتی دوشیزہ حنا نے ہوا میں اپنے رقص سے تماشائیوں کو مبہوت کردیا۔
گرین روم میں مبارک باد دینے والوں کا تانتا بندھا تھا۔ ان میں وہ جوتے والا بھی تھا، جو پرسوں شام کو حنا کو ملا تھا اور آج اس کے ڈرامے کا اشتہار دیکھ کر آیا تھا۔ حنا کو جوتوں سے عشق تھا۔ طرح طرح کے جوتے اس کی ریک میں سجے تھے۔ اونچی ہیل والے، نیچی ہیل والے، آگے سے بند، پیچھے سے کھلے، بیلی، سلیپر، سینڈل، فل بوٹ، تسمے والے جوتے، بغیر تسمے والے جوتے، سفید، کالے، قرمزی، سنہرے، روپہلے، لال، ہرے، نیلے، پیلے، فالسئی، گلابی، فیروزی، سرمئی رنگ برنگے۔
حنا کسی بھی شخص کو دیکھتی تو پہلے اس کے جوتے دیکھتی۔ جوتے دیکھ کر اس کی شخصیت کا اندازہ لگاتی۔ حنا کا کہنا تھا کہ مضبوط جوتے پہنے ہوئے شخص مضبوط کردار کا ہوتا ہے۔ پھٹے گندے جوتے پہننے والا شخص لاپرواہ اور کمزور کردار کا ہوتا ہے۔ سلیپر گھسیٹتی ہوئی عورتوں کو بددماغ کہتی تھی۔ ہائی ہیل والی نقشے باز اور کم ہیل والی خوش مزاج، گم بوٹ پہننے والے زندگی میں تیزرفتاری پسند کرتے ہیں اور اکثر کامیاب رہتے ہیں۔ عید، بقرعید پر ملنے والی عیدی کے پیسے یا موقع بہ موقع ملنے والے پیسے جوڑ کر حنا ہمیشہ جوتے ہی خریدتی تھی۔ امی لا کھ کہتیں کہ ڈھنگ کا سوٹ خرید لیا کرو یا کچھ اور لے لو لیکن حنا کی ضد تھی جوتے۔
حنا کانپور کے بازار میں
اس شام بھی حنا جوتوں کے شوکیس پر جھکی پڑی حسرت و اشتیاق سے سنہری سینڈل کو نہار رہی تھی۔ اس نے کالج آتے جاتے ان خوب صورت نازک چمکتی سینڈلوں کو ہزار بار دیکھا تھا اور دل مسوس کر رہ گئی تھی۔ ان کی قیمت کا اندازہ اس مہنگی دکان کے باہر سے ہی ہو رہا تھا۔ اس کے مہینے بھر کے ٹیوشن کے پیسے بھی کم ہی تھے۔
“Yes, Please”دکان کے اندر سے ایک خوب صورت، گورے پروقار جوان نے باہر نکل کر اس سے پوچھا۔
’’یہ سینڈل۔۔۔‘‘ وہ ہڑبڑاگئی۔
’’کون سی؟ سنہری سنڈریلا سینڈل؟‘‘ وہ مسکرایا۔
حنا کی نظر اس کے سیاہ چمک دار جوتوں پر پڑی۔ یقیناً امیر ہوگا۔ اب بھئی جوتوں کی اتنی بڑی دکان ہے، وہ بھی اتنے شان دار بازار میں تو۔۔۔ کردار درست ہوگا۔ مضبوط جوتے ہیں اس لیے۔۔۔
’’کیا ہوا محترمہ؟‘‘ وہ پھر مسکرایا۔
’’جی۔۔۔ میرا مطلب۔۔۔‘‘
’’اندر تشریف لے آئیے۔۔۔‘‘
’’نہیں ابھی میں پرس بھول آئی ہوں گھر پر۔۔۔‘‘ اس نے گھبراہٹ میں اپنا ننھا منا سا خالی پرس مٹھی میں دبوچ لیا۔ دکان کے مالک کی نظر اس کے شفّاف کنول جیسے معصوم کبوتر نما ہاتھوں پر پڑی اور ٹھہر گئی۔
’’اندر آکر اپنا سائز تو دیکھ لیجیے؟ پیسوں کی کوئی بات نہیں، پھر آجائیں گے۔‘‘
’’نہیں۔‘‘ اس کی صراحی دار گردن خودداری کے زعم میں تن گئی۔
اس نے شوکیس کھلواکر اس میں سے سینڈل نکلواکر اس کے نازک قدموں کے قریب رکھ دی۔ گہری نیلی شلوار کے پاینچے میں سے سڈول، تراشے ہوئے سنگ مرمر کے پاؤں باہر نکلے جن میں بیر بہوٹی کی طرح عقیقِ یمنی کے ناخن جگمگارہے تھے۔ سنڈریلا کی جوتی بالکل ٹھیک فٹ ہوئی۔
’’قیمت؟‘‘ اس نے آواز دباکر پوچھا۔ جل ترنگ بج اٹھا۔۔۔
’’آپ کے لیے ہی یہ سینڈل بنی ہے محترمہ۔۔۔ قیمت صرف پچاس روپے۔‘‘
وہ حیرت زدہ تھی، ہرنی سی گھبرائی ہوئی۔ پسینہ اس کے ماتھے پر بصرہ کے موتی بکھیر رہاتھا۔ دل میں دعا مانگی، یااللہ عزت رکھ لے۔ پرس کھول کر جوڑا۔ کل پچاس روپے ہی نکلے۔
سنہری رتھ پر بیٹھ کر حنا اڑچلی۔ ’ابھیگیان شاکنتلم‘ کا پارٹ ہونے کے ایک ہفتہ بعد ہی پیغام آگیا۔ ساتھ ہی ایک درجن قیمتی جوتے بھی۔ امی نے کالج سے آتے ہی بلائیں لیں، ’’مبارک ہو حنا۔۔۔‘‘
’’کس بات کے لیے امی؟‘‘ حنا حیران۔ نہ عید، نہ بقر عید، نہ سال گرہ۔۔۔ یہ اچا نک ویران گھر میں مبارک باد کی کیا تک ہے؟
’’میری مشکل آسان ہوگئی حنا۔‘‘ امی کی آواز گیلی ہوگئی۔
’’اللہ نے سن لی، مولانے مشکل آسان کردی بیٹا۔۔۔‘‘
امی۔۔۔ میری جان امی، کیا ہوا؟ وہ ڈر کر امی سے لپٹ گئی۔ امی بری طرح سے کانپ رہی تھیں۔
’’کاش آج تمہارے ابو ہوتے تو۔۔۔‘‘
اس کی نظر شکستہ دالان میں ایک قطار میں رکھے ایک درجن جوتوں کے ڈبوں پر پڑی۔ وہ ہنس پڑی۔
’’یہ کیا امی، بازار ہی اٹھالائیں۔‘‘
’’نہیں حنا، بازار گھر میں آگیا۔‘‘ امی نے اپنی مجبوری اور جوتا کمپنی کے مالک کے آئے رشتے کی بات بڑی خاموشی سے کہہ ڈالی۔
حنا کا بزنس کلاس میں جانا کسی کواچھا نہیں لگا۔ حنا ڈرامے کا چمکتا ہوا ستارہ تھی۔ شہرت و عزت اس کے قدموں میں پڑی تھی۔ لاکھوں چاہنے والے تھے، دوست تھے، ایک بڑا گروپ تھا ان کا، دانشور (Intellectual) ساتھی تھے، ہمدرد تھے۔ حنا خود پڑھی لکھی، ذہین اور نیک تھی لیکن۔۔۔ حنا کی آواز حلق میں گھٹ گئی اور نکاح کے چھوارے بنٹ گئے۔
امی کا بوجھ ہلکا ہوگیا او رحنا کا بڑھ گیا۔ امی خوش تھیں اور حنا خاموش۔۔۔
پھولوں والی رات تھی، ہر طرف پھول ہی پھول تھے۔ یکایک اسے ایک تیز بو کا احساس ہوا۔ کوئی بدبودار چیز بری طرح مہک رہی تھی۔ تمام پھولوں کی خوشبو اس کے آگے ہلکی پڑگئی تھی۔ کمرے میں کوئی چیز نہیں نظر آئی جس سے بو آرہی ہو۔ بستر پر بیٹھتے ہی اس بو کی بھبھک نے زورپکڑا۔ تب اسے یقین ہوا کہ بستر پر پڑے جسم سے ہی چمڑے کی تیز گندھ آرہی ہے۔ طارق لمبا چوڑا، خوب صورت نوجوان، کسی کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے لیکن ایسا ہوچکا تھا۔ پہلے وہ بات سمجھ نہیں پائی لیکن اب سمجھ میں آئی تو بہت دیر ہوچکی تھی۔ اس کے دوستوں نے جو تمام باتیں بتائی تھیں، وہ بے بنیاد نکلیں۔ اس کی بے پناہ خوب صورتی بے کار ثابت ہوئی۔ بستر پر صرف کانٹے تھے اور تنہا وہ تھی۔
وہ زندگی کا سب سے بڑا جوا ہار گئی تھی۔
اس کا کیمسٹری لیب میں رکھا فلاسک اچانک ٹوٹ گیا تھا۔
تیز گرم ابلتا تیزاب اس کو زخمی کرچکا تھا۔ روح تک میں چھالے ابھرآئے تھے۔
تمام رات وہ خراٹے مار کر سوتا رہا۔
وہ پھولوں کی آگ میں جھلستی رہی۔
دن بھر وہ طرح طرح کی دوائیں کھاتا، ہر پیتھی کو آزماتا، ہومیوپیتھی، ایلوپیتھی، نیچراپیتھی، یونانی، آیورویدک، ریکی، ایکیوپریشر لیکن بے کار، بے مقصد۔ اس کے جسم سے چمڑے کی گندھ ہرلمحہ آتی۔ حنا کے کمرے میں رات بارہ بجے کے بعد ہی آتا۔ دیر رات تک اپنی اماں کے پہلو میں بیٹھ کر باتیں بناتا۔ اس کو پاکیزگی، صبر، نیک چلنی کے موضوع پر بھاشن دیتا اور ٹی۔ وی پر بلیو فلمیں دیکھتا رہتا۔ ماہرینِ نفسیات کا کہنا تھا کہ اس کی اَرج (Urge) ختم ہوچکی ہے اور اس کا کوئی علاج نہیں۔ طارق کا کہنا تھا کہ وہ حنا کے حسن کے آگے بے بس ہوجاتا ہے۔ ٹھنڈا پڑجاتا ہے۔ اس کے شعلوں سے ڈر جاتا ہے۔ ہاتھ لگاتے ڈرتا ہے کہ کہیں میلی نہ ہوجائے۔
طارق ہر جمعرات اپنی نظر اترواتا، جھڑواتا، تعویذ گنڈوں کو پہنتا، مولوی بلاکر پانی پھنکواتا، گھر کے چاروں کونوں پر ڈلواتا، خود اس پانی سے نہاتا۔ نظر اتار کر پھٹکری جب آگ میں ڈالی جاتی تو پھٹکری پگھل کر طرح طرح کے روپ میں ڈھل جاتی۔ طارق ان روپوں میں کبھی اپنے پڑوسی کی شکل تلاش لیتا، تو کبھی کسی جوتا بازار کے دکان دار کو اور کبھی رشتے دار عورت کو۔ پھر دونوں ماں بیٹے مل کر اس کے پیچھے پڑجاتے۔ حنا کو ان چیزوں پر یقین نہیں تھا۔
وہ ہر وقت کھانے کا شوقین تھا۔ شاید وہ اپنی کمی کو اس طرح پورا رکرتا تھا۔ صبح سے لے کر شام تک اس کو کھانے کی ہی فکر رہتی۔ ناشتے میں کیا پکاہے؟ بالائی اور کلچے نہیں تو بازار سے منگاؤ۔ دوپہر کا کھانا کیا ہے؟ گوشت کی کتنی قسمیں ہیں؟ میٹھے میں کیا پکا ہے؟ شام کی چائے کے ساتھ پکوان، رات کا کھانا۔۔۔ طارق نے کمپیوٹر میں ہنی مون فائل کھول رکھی تھی۔ اس کو پتہ ہی نہیں تھا، کیوں کہ وہ لوگ تو ہنی مون کے نام پر دودن کے لیے کانپور سے لکھنؤ گئے تھے۔ طارق کی خالہ زاد بہن آئی تھی۔ اس نے کمپیوٹر میں کرفائل دیکھی، ’’آپ لوگ منالی گئے تھے ہنی مون پر؟‘‘
حنا ہکّابکا۔
گم بوٹ میں نوٹ بھرے رہتے۔ جتنا چاہیے، خرچ کرو۔۔۔
حنا کو لگتا، جوتے پیروں سے چل کر دماغ تک آگئے ہیں اور تڑاتڑ پڑ رہے ہیں۔
روپے کی ریل پیل۔ بڑھیا کھانا۔ رہنے کو حویلی۔۔۔ زندہ رہنے کو اور کیا چاہیے۔۔۔ واقعی کیا چاہیے؟
حنا کو اپنی سکڑی گلی میں بساشکستہ، بدرنگ، چھوٹا سا گھر بے حد یاد آتا جس کے کچے آنگن میں جوہی کی بیل تھی اور رات کی رانی مہکتی تھی۔۔۔
اس کی سسرال کا آبائی مکان اترپردیش کے ایک پچھڑے دیہات میں تھا۔
بااقتدار سادات گھرانا
محرم کرنے وہ لوگ گاؤں پہنچے۔ مجلس ماتم کا زور۔۔۔ شور۔۔۔ تعزیہ، علم، ضریح، گہوارہ، تابوت، جھاڑ، فانوس۔۔۔ فرشِ عزا۔۔۔ سفید براق چاندنی۔۔۔ مومی شمعیں بجھی ہوئیں۔۔۔ لوبان کا دھواں۔۔۔ اگر کی مہک۔۔۔ دل گیلا، گیلا۔۔۔ شب بیداری۔۔۔ پرسوزمدھم آواز میں مرثیہ پڑھاجارہا تھا۔۔۔
’’اے رات نہ ڈ ھلنا کہ اجڑ جائے گی زینب۔۔۔‘‘
مرثیے کی آواز دل میں اترتی جارہی تھی۔۔۔
’’اے لڑکی۔۔۔ اے بیٹا۔۔۔ سن۔۔۔ یہ دریا والی مسجد کا علم ہے۔ معجزے کا علم۔۔۔ منت کا دھاگا باندھو تو صاحبِ اولاد ہوگی۔ گود ہری بھری رہے گی۔۔۔ مانگ لو کہ مولا لڑکا ہوگا تو ’قاصدِ صغرا‘ بناؤں گی۔ چھم۔۔۔ چھم۔۔۔ چھم پیک ناچنے لگے۔۔۔ مورپنکھی بالوں میں لگائے۔۔۔ رنگ برنگی پگڑی باندھے۔۔۔ نیچی دھوتی ننگے پاؤں۔۔۔ پیروں میں گھنگھرو با ندھے امام حسین کے نام پر تین دن تین رات ننگے پیر سفر۔۔۔ بناداناپانی کے ہر مذہب کے لوگ منت مانگ کر پوری ہونے پر پیک بنتے یا علی۔۔۔ یا حسین کے بلند نعرے لگاتے۔۔۔
آگ کا ماتم کراؤگی۔۔۔
’’مانگ لو نا؟‘‘
’’یہ کیا ٹھس بیٹھی ہو دلہن؟‘‘
دیہاتی بنجارن تعزیے کے آگے دوہے گا کر رورہی ہے۔۔۔ صغرا بیوی مکھ پر انچرا ڈارے بین سناوت ہے۔۔۔ ہائے حسینا بابا مورے تم بن چین نہ آوت ہے۔۔۔ رین کٹت ہے رہ رہ موری نیند نہ ہم کا آوت ہے۔۔۔ جائے بس ہوکو نے دسوا گھر ہوکو ہوں بھلاوت ہے؟
امام باڑے کا آنگن کالے اور سفید عماموں سے بھر گیا۔ فاتحہ ہوگیا۔ ذوالجناح زنان خانے میں لایا گیا۔ عقیدت مند عورتیں ملیدے کا تھال لے کر دوڑیں۔۔۔ ذوالجناح کو دیسی گھی سے بنی پوریوں اور میووں کا ملیدہ ٹھساتی رہیں۔۔۔ وہ بے چین ہوتا رہا۔۔۔ بھاری کپڑوں وزیوروں سے سجا ذوالجناح پست پڑگیا۔ اس کی پچھلی ٹانگیں بوجھ اور تھکان سے کانپنے لگیں۔ اس کے منہ سے سفید سفید جھاگ نکلنے لگا۔ جھاگ کے ساتھ گرے ہوئے ملیدے کے ٹکڑے کچی مٹی دھول میں سن گئے۔ زمین سے اٹھاکر زبردستی یہ ٹکڑے اس کے منہ میں ٹھونس دیے گئے۔
یکایک اسے ایک تیز ابکائی آئی اور صحن کے کچے فرش پر اندر کا سب باہر آگیا۔ ایک زور دار نعرۂ صلوات بلند ہوا اور چپکے سے کسی نے حنا کو مبارک باد دے ڈالی، ’’مبارک باشد۔‘‘ پاس کھڑی خلیہ ساس نے اسے گھڑکا، ’’ایامِ عزا میں مبارک باد نہیں دیتے۔ کافرہ ہوگئی ہو کیا بی بی؟‘‘
خبر جنگل کی آگ کی طرح دیہات میں پھیل گئی۔۔۔
’’کمینی۔۔۔ دھوکے باز۔۔۔ فاحشہ۔۔۔ منحوس۔۔۔ مکار۔۔۔ مشاطہ۔۔۔ حرافہ۔۔۔ بدچلن۔۔۔ بدذات۔۔۔ دغا باز۔۔۔ بدکار۔۔۔‘‘
رات میں دیسی اترپردیس کے مرد نے اپنی مردانگی دکھائی۔ چمڑے کی مضبوط بیلٹ اتار کر اس کے نرم و نازک سنگ مرمری جسم پر ہزاروں نشان ڈال دیے۔ باہر ماتمی انجمنیں زنجیرں کا ماتم لہولہان ہوکر کر رہی تھیں۔ ان کے شور میں بیلٹ کی آواز ڈوب گئی۔ پھر یہ سلسلۂ روز و شب ہی ہوگیا۔ وہ اسے طرح طرح سے ایذا پہنچاتا۔ روز ہی دھوبی پاٹ لگاتا۔ اس کی پیٹھ نیلی پڑچکی تھی۔ اس ڈر سے کہ کوئی جان نہ لے، وہ گردن تک اونچے اور کمر سے کافی نیچے ناف تک کپڑے سلوانے لگی۔
ہر رات مغلظات کا سلسلہ شروع ہوجاتا۔ ہر رات اس کی روح کی Tanning ہوتی، Nailing کی جاتی۔۔۔ طارق کی چمڑا فیکٹری میں وہ کھال سے چمڑا بننے کا پورا کھیل دیکھ چکی تھی۔ کھال کو پہلے نمک کے گھول میں ڈالا جاتا۔ اس کے بال اور کھال کی اوپری سطح اتار کر پھر اسے تیزاب میں ڈالا جاتا۔ اس کی Tanning کی جاتی۔ اسے سکھاکر پھر اس کی Nailing کی جاتی۔ کھال کو کھینچ کھینچ کر کیلوں سے جڑا جاتا۔ صلیب پر ٹانگا جاتا۔ پھر جس رنگ میں چاہیں چمڑے کو رنگ لیتے ہیں۔ یہی سب اس کے ساتھ بھی ہو رہاتھا۔۔۔ لیکن اس پر کوئی رنگ چڑھ ہی نہیں رہا تھا۔
بعض اوقات وہ حنا سے کوئی مختصر سا سوال کرتا اور اس کی آواز انتہائی سخت، عجب اور کچھ وحشیانہ سی ہوتی، جس سے اس کا جسم لرز اٹھتا۔ وہ تشدد کے نئے نئے طریقے ڈھونڈ لیتا۔ اس کے حلق میں ہاتھ ڈال کر اس میں اپنے گندے ناخن گڑادیتا۔ کبھی سردروازے یادیوار میں ٹکرا دیتا۔ لہو لہان جسم، نیل پڑا جسم۔۔۔ اب مار کھانا اس کی عادت بن چکی تھی۔ روز روز ڈسپنسری جانے کی زحمت سے بچنے کے لیے اور ڈاکٹر کے طرح طرح کے سوالات سے بھی بچنے کے لیے اس نے خود ہی اسپرٹ کی بڑی شیشی اور روئی کا بڑا رول خریدلیا۔ اب وہ اپنی مرہم پٹی خود ہی کرنے لگی۔ لیکن اسے اب اپنی جسمانی کمزوری کا احساس بڑی شدت سے ہونے لگا تھا۔ جسمانی اذیت۔۔۔ روحانی اذیت۔۔۔
اسے یقین تھا کہ اللہ اب اور دکھ نہیں دے گا لیکن اللہ اپنے نیک بندوں کا خوب امتحان لیتا ہے اور وہ شادی شدہ زندگی کے سبھی امتحان دے چکی تھی۔ لیکن رزلٹ زیرو ہی رہا۔ بلکہ اب جس رات وہ نہ مارتا وہ جاگتی رہتی۔ اس کو خلش سی ہوتی۔ اس کو تشدد میں لطف آنے لگا۔ ایک عجیب سا لطف۔۔۔ شروع میں وہ روتی تھی پھوٹ پھوٹ کر۔۔۔ اپنی قسمت کو کوستی۔۔۔ اپنے کو بچاتی تھی۔۔۔ پھر وہ مار کھانے پر ہنسنے لگی۔۔۔ اس کو لطف آنے لگا۔۔۔ وہ مارتے مارتے تھک جاتا۔۔۔ وہ نہ تھکتی۔
’’بنجر مرد مار ہی تو سکتا ہے۔۔۔‘‘ وہ ہنس پڑی، وہ مارتے مارتے ٹوٹ گیا۔
حنا کو پتا چل چکا تھا کہ مذہبی انتہا پسند منطقی دلائل اور مباحث سے ہمیشہ خوف زدہ رہتے ہیں اور اپنی کمزوریوں کو چھپانے کے لیے تشدد میں پناہ حاصل کرتے ہیں۔ شادی کا ڈھول گلے میں پڑا تھا۔ اس کو جب چاہے بجالو۔۔۔ بھنالو۔۔۔ اصل میں کہیں کچھ بھی نہیں تھا۔۔۔ فلاپ شو۔۔۔ فلاپ شو۔۔۔ نہ راحت۔۔۔ نہ وصال۔۔۔ سب جھوٹ۔۔۔ کوئی تحفظ نہیں تھا۔۔۔ کوئی مکان نہیں تھا۔۔۔ کوئی جذباتی لگاؤ نہیں تھا۔۔۔ صرف ڈیوٹی تھی۔۔۔ ڈیوٹی تھی۔۔۔ فرض تھا، وہی نبھانا تھا۔۔۔ وہی نبھارہی تھی۔۔۔
بھرا پرا گھر تھا۔۔۔ ذمہ داریاں تھیں۔۔۔ جو اس پر مسلط تھیں۔۔۔ بس محبت نہیں تھی، باقی سب کچھ تھا۔ پورا خاندان انتہائی قدامت پسند تھا لیکن ذہنی طور پر مفلس۔ جاہلانہ رسومات کی پابندیاں تھی۔ عجب حالت تھی اس کی۔ گھر میں نہ تو کوئی کتاب تھی نہ ہی میگزین لائی جاتی تھی۔ جو کتابیں وہ اپنے ساتھ لائی، سب غائب کردی گئی تھیں۔ وہ کچھ رسالے خریدلائی۔
’’ہمارے یہاں شریف زادیاں اس طرح کی کتابیں نہیں پڑھا کرتیں۔‘‘ اس کے ہاتھ سے رسالہ چھین لیا گیا تھا۔ یہ اکیسویں صدی کا انت تھا۔۔۔ اور ایسی جہالت کا کوئی علاج نہیں تھا۔ اس کی سسرال میں عورتیں سوئیٹر بنتی تھیں یا گل بوٹے چادروں پر کاڑھتیں۔ کروشیا سے میزپوش بناتیں، کھانا پکاتی۔ وہ آسمان پر بادلوں کے رنگ دیکھتی رہتی۔۔۔
’’بہو کو چھت سے اتارو، اس پر کسی کا سایہ ہے۔‘‘ ساس ماں فرماتیں۔
’’تبھی تو بولتی نہیں چپ رہتی ہے۔‘‘ بڑی نند نے پاندان کھول کر پان میں چونا لگایا۔
حنا کے بال ریشم کی طرح چکنے اور ریشمی تھے۔ کسی بندھن میں نہ بندھتے۔ اس کی روح کی طرح آزاد۔ تمام ربر بینڈ سرک جاتے، جوڑے کے ہیئرپن گرجاتے اور بال کھل جاتے۔ طارق زمین اور بستر پر گرے ہوئے ہیئرپن اٹھاکر اکثر دے دیتے۔
ایک دو بار سب کے بہت کہنے پر فلم دکھانے بھی لے گئے، حالاں کہ لے جانا نہیں چاہتے تھے۔ اس دن حنا کی ساس نے حنا کو مہندی لگوائی تھی۔ اس سے دماغ ٹھنڈا رہتا ہے۔ مہندی رچ جائے، اس لیے ہاتھ میں پانی نہیں لگانا تھا۔ پیاس لگنے پر طارق نے پکچر ہال کے باہر لگے نل سے ہاتھ کا چلو بناکر اس کو پانی پلایا۔ حنا نے سوچا، چلو یہی سہی۔ کم از کم کچھ تو ہے زندگی میں۔۔۔ کوئی یاد گار لمحہ۔۔۔ سکون کا ایک پل۔۔۔ بس۔۔۔ لیکن رات میں جب وہ روز پیٹھ موڑ کر لیٹ جاتا تو اس کا خون کھولنے لگتا۔ وہ رات میں ۲۔ ۲بجے اٹھ کر ٹھنڈے پانی سے جاڑوں میں نہالیتی۔۔۔ ساس کہتیں، ’’دیر رات میں حمام سے نہانے کی آوازیں آرہی تھی۔ بہو غوطۂ طہارت کی پابند ہے۔ اللہ کا شکر ہے۔‘‘
اکثر طارق اپنا منہ شرم سے اس کے پلو میں چھپا لیتا۔ عرقِ ندامت میں شرابور ہوجاتا۔ ہاتھ پیر ٹھنڈے ہوجاتے۔ بڑی بڑی آنکھوں میں آنسو بھر کر کہتا مجھے چھوڑ کر مت جانا، مری رس بھری۔۔۔ وہ اس کے ستارکے تارکس دیتا۔ جب ستار تیار ہوجاتا کہ اس پر راگ چھیڑا جائے تو وہ باتھ روم میں گھس جاتا اور دروازہ اندر سے بند کرلیتا۔ لاکھ کھٹکھٹانے پر بھی نہ نکلتا۔ گھنٹوں بعد نکلتا پھر راکھ میں چنگاری تلاش کرتا۔ وہ اپنی ہی آگ کے شعلوں میں نہاجاتی۔ جل جاتی، بال نوچ ڈالتی، چوڑیاں توڑکر اپنے ہونٹ چباجاتی۔ ایک عجب سا بخار۔ بدن کو توڑ دینے والا۔ تمام نسوں اور رگوں میں گرم گرم سیال دوڑتا۔ آنکھوں کو کھولنا مشکل۔۔۔ گرم گرم سلاخیں سی چبھتیں، وجود سے لپٹیں نکلتیں۔
تکلیف سے ایک ایک ریشہ ٹوٹتا پھوٹتا۔۔۔ درد۔ عجیب سا لطف۔۔۔ پھواریں اور بوچھاریں۔۔۔ گرم اور ٹھنڈی، پوری ہولیکا جلتی۔۔۔ ہولیکا دہن۔۔۔ چٹکتی چنگاریاں۔۔۔ انگارے۔۔۔ شعلے۔۔۔ راکھ۔۔۔ دیوالی کے پٹاخے پھٹتے۔۔۔ لہسن دیواروں پر مارے جاتے۔۔۔ پھل جھڑیاں۔۔۔ چکر گھنیاں۔۔۔ سب ناچ رہے۔۔۔ راکٹ ہوا میں چھوڑے جاتے۔۔۔ وہ کبھی آسمان پر ہوتی کبھی زمین پر۔۔۔ بجلی کے تار۔۔۔ تیز کرنٹ کی جھنجھناہٹ۔۔۔ درد کی تیز لہر۔۔۔ اور پھر سب کچھ شانت۔۔۔ وہ گوشت کا سفید لوندا بن کر بستر پر پڑا رہتا۔ حنا کا جی چاہتا ایک زوردار کک مار کر اس کو اپنے بیڈروم سے باہر کردے۔ تھوک دے اس پر۔ مارے نفرت کے اس کو قے آنے لگتی۔ خارش زدہ کتا۔۔۔ کمزور۔۔۔ لجلجا۔۔۔ بدصورت مرد۔۔۔
سینڈل پہنتے وقت اچانک اسے اسی تیز ناقابل بیان بو کا احساس ہوا۔ اسے اپنی ہی سینڈل سے کراہیت آنے لگی۔ جھٹک کر اس نے سینڈل دور پھینک دیے۔ ننگے پاؤں۔۔۔ فرش پر قدم رکھا۔۔۔ پھر کمرے کا دروازہ کھول کر لان میں اترگئی۔ نرم شبنم میں ڈوبی گھاس میں پاؤں جو پڑے تو لگا روح تک معطر ہوگئی۔۔۔ کمرے میں آکر وہ دیر تک ننگے پاؤں ہی گھومتی رہی۔
امی آگئیں۔
’’کیسی ہو بیٹی؟‘‘
’’ٹھیک ہوں۔‘‘
’’یا اللہ۔۔۔ یہ آج ننگے پاؤں کیوں گھوم رہی ہو؟‘‘
’’چپلوں سے بو آرہی ہے امی۔‘‘ اس نے لاپروائی سے کہا۔ امی تشویش سے اسے د یکھتی رہیں۔
’’امی کیا لمبے بال منحوس ہوتے ہیں؟‘‘ اس نے اپنی پشت پر پھیلے سیاہ بالوں سے پانی جھٹکتے ہوئے پوچھا۔
’’حنا۔۔۔ تم یہ کیسی باتیں کرنے لگی ہو۔۔۔ تم تو قنوطی ہوتی جارہی ہو۔۔۔ شادی کے بعد تو لڑکیاں گلاب سی کھل جاتی ہیں۔۔۔ تم مرجھا رہی ہو، کیوں۔۔۔؟ چمپئی رنگت، مٹی کے رنگ سی ہو رہی ہے۔۔۔‘‘ امی نے بدحواس ہوکر اسے گلے لگا لیا اور اسے اپنے ساتھ لے گئیں۔۔۔
ستارہ شناس اسے دیکھ کر مسکرادیا، ’’ذہین لڑکیوں کی خانہ آبادی مشکل سے ہوتی ہے۔۔۔‘‘
’’لیکن کیوں؟‘‘ امی نے برقعے کا کنارہ منہ میں دباکر سسکی لی۔
’’زوال کا پرندہ مسلسل اور مستقل اس کے سر کا طواف کر رہا ہے۔۔۔ زائچہ میں قمر و مشتری دونوں مائل بہ زوال ہیں۔ یہ اس کے تاریک دن ہیں۔ روشن دن شروع ہونے میں۔۔۔‘‘ اس پر غنودگی طاری ہوگئی۔ لوبان کی خوشبو ستارہ شناس کی آواز میں گھل مل گئی۔ یونان کی شہزادی۔۔۔ فصیل شب۔۔۔ طوفانِ نوح۔۔۔ کشتی رواں دواں ہے۔۔۔ زنجیریں ٹوٹ رہی ہیں۔۔۔ کالی آندھی۔۔۔ سیاہ شب۔۔۔ تاریک راستے۔۔۔
حقا۔۔۔ حقا۔۔۔ حقا۔۔۔ ستارہ شناس کی آنکھیں آسمان کی طرف اٹھ گئیں۔ گہرے نیلے آسمان پر ایک سیاہ ننھا سا پرندہ کافی بلندی پر پرواز کر رہا تھا۔ وہ ایک ٹک اسے دیکھتا رہا۔ اچانک پرندہ گھبراکر اپنا راستہ بدل کر تیزی سے اڑا۔۔۔ ایک بڑی چیل نے اسے دھردبوچا۔ زخمی پرندہ ستارہ شناس کے قدموں میں آکر گرا اور تڑپنے لگا۔ ستارہ شناس نے اپنا سیاہ لبادہ سنبھالا اور جھک کر زخمی پرندے کو اٹھانے لگا۔۔۔ لبادے کی ایک جیب سے اس نے ہر سنگھار کے تازہ مہکتے ہوئے نارنگی پھول نکال کر حنا کی مٹھی میں بند کردیے۔۔۔
مکان کی کال بیل دیر تک بجتی رہی، پھر شاید کسی نے دروازہ کھولا۔۔۔
’’شیلی تم؟‘‘ شیلی اس کے گلے لگ چکی تھی۔ مارے خوف اور شرمندگی سے حنا نے آنکھیں موندلیں۔
اس کی پشت سے ساڑی کا پلو سرک کر نیچے گر چکا تھا۔ پوری پیٹھ نیلی تھی۔ شیلی ساکت کھڑی رہی، پتھر کے بت کی طرح۔ حنا سوال سے ڈرتی تھی۔ اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ ’’حنا، میں حقوقِ نسواں کے لیے گزشتہ پندرہ برسوں سے کام کر رہی ہوں۔ خواتین کے مسائل پر ویکلی کالم لکھتی رہی ہوں، جو بے حد مفید سمجھے جاتے ہیں اور وہ مقبول بھی ہوئے ہیں۔ میں اپنے بارے میں یقیناً مبالغے سے کام نہیں لے رہی ہوں۔ تم سندھی ادب کے کسی بھی قاری سے تصدیق کرسکتی ہو۔۔۔‘‘
’’میں جانتی ہوں۔‘‘
’’جانتی ہو۔۔۔ لیکن مانتی نہیں۔۔۔ مظالم پر خاموش رہنا بھی۔۔۔‘‘
’’میں اپنی تمام کشتیاں جلاچکی ہوں۔۔۔‘‘
’’میں بھی پھولوں کی سیج پر نہیں بیٹھی ہوں۔ آگ سے مقابلہ کر رہی ہوں۔‘‘ سولہ سال کی عمر میں جب انٹر کارزلٹ لے کر گھر آئی کہ ’’ابا دیکھیے، میں کلاس میں اول آئی ہوں۔‘‘ تو مجھ پر پردہ واجب ہوچکا تھا، اسی شام میرا نکاح ایک ۴۵/سال کے بوڑھے ہوس پرست رئیس سے کردیا گیا تھا کیوں کہ میری پانچ او رچھوٹی بہنیں بیاہی جانی باقی تھیں۔ بیس سال کی عمر میں میں تین معصوم بچیوں کی ماں بن چکی تھی اور اکیسواں سال لگنے سے پہلے ہی میرے شوہر نے مجھے لڑکیاں پیدا کرنے کے جرم میں طلاق نامہ پکڑا دیا۔ میری ہی کم سن بھتیجی سے اس کا نکاح ہوگیا۔۔۔ میں نے عدالت کا دروازہ چھوا۔ مجھے سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں۔۔۔ میرے بچے چھین لیے گئے پھر بھی میں تنہا لڑتی رہی۔‘‘
’’لوشیلی شربت پی لو۔۔۔ اب تم تھک گئی ہو۔۔۔‘‘
’’نہیں میں تھکی نہیں ہوں۔۔۔ جنگ ابھی جاری ہے۔۔۔‘‘
’’شیلی تم نے کوئی ڈرامہ دیکھا ادھر؟‘‘
’’ہاں! بھاس کا ’چارودَت‘ د یکھا۔ اس میں کیوٹ، ودوشک اور شکار تینوں ہیں اور راجا دشینت نے بھی تم کو یاد کیا ہے۔‘‘ اس نے شربت کا گلاس اپنے ہونٹوں سے لگالیا۔
’’کون راجا دشینت؟‘‘
’’لو۔۔۔ یہ بھی بھول گئیں؟‘‘
’’اوں۔۔۔‘‘
’’ارے روہت کمار۔۔۔‘‘
روہت کمار کی سیاہ گھنی کالی پلکیں اوپر اٹھیں۔ وہ طنزیہ مسکرارہا تھا۔۔۔
ساس اس کو دیکھتے ہی جھلاگئیں، ’’دلہن تم نے پھر سارے زیور اتاردیے۔۔۔ جھاڑ جھنکار بن گئیں۔ اللہ نے اتنا دیا ہے۔۔۔ اوڑھا پہنا کرو۔۔۔ یہ بدشگونی نہ کیا کرو۔۔۔ میرا لال سلامت رہے۔۔۔ تمہارا سہاگ بنارہے۔۔۔ یہ فیشن نے دماغ خراب کردیا ہے تمہارا۔۔۔‘‘ ایک فریم میں سے تصویر نکل کر اچانک دوسری جڑگئی۔۔۔
’’پھولوں کو زیور پہنے دیکھا ہے کبھی؟‘‘ روہت کا زوردار قہقہہ فضا میں چھاگیا۔
ریہرسل کرتے ہوئے تمام فن کار پلٹ کر اسے دیکھنے لگے۔ وہ سین کے لیے پھولوں کے زیوروں سے سجائی جارہی تھی۔ شرماگئی تھی وہ۔ گرجتا چمکتا بھادوں برس رہا تھا لگاتار۔۔۔ سلسلے وار بارش۔۔۔
’’آج فائنل ریہرسل ہے، کیسے جاؤں گی؟‘‘ وہ بار بار کھڑکی کا پردہ اٹھاکر باہر دیکھتی۔ تیز بارش سے پانی گھر کے احاطے میں بھر گیا تھا۔ سونے احاطے میں موٹرسائیکل کا شور گونجا۔ بھیگا ہوا روہت گنگناتے ہوئے دروازے کی کنڈی کھٹکھٹارہا تھا، لائٹ جاچکی تھی۔
’’کالی گھوڑی دوارے کھڑی۔۔۔‘‘
’’ارے واہ، روہت بیٹا اندرآؤ۔‘‘ امی نے بھیگے ہوئے روہت کو اندر بلالیا۔
’’آداب امی!‘‘
’’جیتے رہو۔۔۔ اتنی بارش میں کہاں گھوم رہے ہو؟‘‘
’’امی جی، میں تو خادم ہوں۔۔۔ ڈائیریکٹر صاحب کا حکم نامہ ابھی ابھی ملا ہے کہ نیلم پری کو تختِ طاؤس پر بیٹھا کر فوراً لے آؤ تو جناب ہم حاضر ہوگئے۔۔۔‘‘
اس کو دیکھتے ہی ڈائیریکٹر عثمان عابد نے حیرت کا اظہار کیا۔
’’تم اتنی آندھی بارش میں کیسے آئیں۔ میں تو ریہرسل کینسل کرنے جارہا تھا۔۔۔‘‘
روہت نے اس کی طرف دیکھ کر لبوں پر شرارت سے انگلی رکھ لی۔
کسی شخص کو نہ بھی یاد کرنا چاہو، پھر بھی وہ بے طرح کیوں یاد آجاتا ہے؟
وہ چپ چاپ اوبرائے کانٹی نینٹل کی آخری میز پر طارق کے ساتھ بیٹھی فش سیزلر کی طرف دیکھتی رہی۔ اس نے اپنا سر میز پر اتنا جھکا لیا تھا کہ طارق اس کی طرف دیکھ نہ سکے اور اپنی پلیٹ پر جھک گئی۔ اس نے شمع کا رخ طارق کی طرف کردیا اور چینی کے گلدان میں سجے گلدستے کو اپنی طرف گھسیٹ لیا تاکہ طارق اس کا چہرہ نہ دیکھ سکے اور اس کی آنکھ سے موتی ٹوٹ ٹوٹ کر پلیٹ میں گرنے لگے۔۔۔
آج اس کی شادی کی دوسری سال گرہ تھی اور طارق اپنے دوستوں کے حکم کی وجہ سے اس کو بڑے ہوٹل میں ڈنر کرانے لائے تھے۔ دھول، بادلوں او ردھند سے گزرتا ہوا اس کا ذہن ایک دم کالج کی دیوار سے نیچے کود گیا او ر چرمراکھانے لگا۔ سفید سفید لیا، سرخ مونگ پھلی کے دانے، بیسن کے پیلے سیو۔۔۔ پیاز کے کٹے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے، چٹ پٹا مسالا، نمک، ہری دھنیا اور کتری ہوئی ہری مرچ کی ترشی۔۔۔ تیزی۔۔۔ آنسوؤں کے ساتھ گھل مل گئے۔
ڈرامے کے ریہرسل کے ٹی بریک میں اکثر روہت چُرمرالے آتا۔ اس فائیواسٹار ہوٹل کی ڈش سے اچھا مزہ چُرمرے کا تھا۔ یہ ذائقہ اس چرمرے کا نہیں بلکہ اس لمحے کا تھا جو اس کی زندگی سے جاچکا تھا۔
’’تم نے تو کبھی فائیواسٹار ہوٹل دیکھا نہیں ہوگا؟‘‘ طارق کے لہجے میں حقارت تھی۔ اس نے خاموشی سے سرجھکا کر چاندی کے بول میں ہلکے گرم پانی میں پڑے لیموں کے ٹکڑے کو ہاتھ میں تھام لیا۔
’’ہیلو۔۔۔‘‘
’’ہیلو۔۔۔ حنا۔‘‘
’’جی سر۔۔۔ سر آپ نے میری آواز کیسے پہچان لی؟‘‘
’’تمہاری آواز بھی کوئی بھول سکتا ہے۔ تم ہمیں بھول گئیں۔۔۔ اپنے ساتھیوں کو بھول گئیں۔۔۔ لیکن ہم تمہاری جادوئی۔۔۔ کانوں میں شہد گھولنے والی آواز نہ بھول سکے۔‘‘
’’سر۔۔۔ میں نہ آپ کو بھول سکی نہ اپنے ساتھیوں کو۔۔۔ بس حالات۔۔۔‘‘
’’میں جانتا ہوں۔۔۔‘‘
’’آپ جانتے ہیں۔۔۔؟ کیا سر؟‘‘
’’یہی کہ تم کو اسٹیج بار، بار پکار رہا ہے۔۔۔ تالیاں تمہارا انتظار کر رہی ہیں، ناظرین سانس روکے بیٹھے ہیں۔۔۔‘‘
’’سر اب تو میری جگہ کوئی دوسرا۔۔۔‘‘
’’حنا تم بھول گئیں، کسی کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا۔ سب کی اپنی جگہ ہوتی ہے۔‘‘
’’تو کیا سر میں اب بھی آسکتی ہوں؟‘‘ اس کی آواز کانپ رہی تھی۔
’’حنا رِگ وید کا یہ شلوک سنو۔
مل کر چلو، مل جل کر کام کرو
تمہارے یتن ایک سمان ہوں۔
تمہارے ہردئے ایک مت ہوں۔
تمہارے من سینیکت (مشترک) ہوں۔
جس سے ہم سب سکھی ہوسکیں۔
حنا ہم سب اگلے مہینے سنسکرت ناٹیکا ’مِرچھ کٹی کَم‘ فن لینڈ لے جارہے ہیں۔‘‘
’’اچھا۔‘‘
اس نے اپنے بیگ میں دونیلے کھدر کے کرتے اور ایک سفید شلوار رکھی۔ اپنی کچھ کتابیں اور ڈائری سمیٹی۔ امی کی یاد برچھی کی طرح سینے میں اترگئی۔۔۔
’’ہم جارہے ہیں۔۔۔‘‘
’’گم بوٹ میں مال بھرا ہے لے لو۔۔۔‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’کب لوٹوگی؟‘‘ آواز میں لجلجاپن اترآیا۔ باہر نکل کر اس نے دروازہ زور سے بند کردیا۔
بس سے پورا گروپ ایرپورٹ کے لیے بیٹھ چکا تھا۔ اس کے سامنے ہی کی سیٹ پر روہت بیٹھا تھا۔ اس کی کالی گہری آنکھیں حنا کے چہرے کا طواف کر رہی تھیں۔ حنا پر ایک روحانی کیفیت طاری تھی۔ روہت کے لبوں پر مسکراہٹ تھی۔ حنا کے دل میں کویل کوکنے لگی، پتوں کی پازیب بجنے لگی۔۔۔ پپیہا من کے سونے آنگن میں چہکنے لگا۔ اس نے کھڑکی کا پردہ اٹھاکر باہر گہرے کالے آسمان کو د یکھا۔ ستارۂ سہیل جگمگارہا تھا۔ اس کے کانوں میں رویندرناتھ ٹھاکر کی نظم گونجنے لگی۔۔۔
’’میں یاتری ہوں۔۔۔
مجھے کوئی روک کر نہیں رکھ سکتا۔۔۔
سکھ دکھ کے سب بندھن متھیا ہیں۔۔۔
یہ گھر، یہ بندھن۔۔۔ سب کہاں تو پیچھے پڑے رہ جائیں گے۔۔۔
جال مجھے نیچے کھینچے رہتے ہیں۔۔۔
ان کا ایک ایک تار ٹوٹ ٹوٹ کر بکھر جائے گا۔۔۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.