فیصلہ
سردی ہڈیوں کو چیرتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔
جج مظفر علی رانا نے لحاف کو اور کس کر اپنے ارد گرد لپیٹا، شیٖر چائے کی چسکی لی اور ٹیلیوژن کی طرف دیکھا۔ چھوٹے پردے پرکوئی سوامی یوگا کے فائدے گنوانے کے بعد ذیابطیس کے علاج کے لیے یوگا کی مشقیں سمجھا رہا تھا۔ جب مجھے ذیابیطس ہو گی تو دیکھا جائے گا، رانا نے لاپرواہی سے سوچا اور ریموٹ کنٹرول سے چینل بدل دیا۔ یہاں کوئی جیوتشی مہاراج مسیحی کیلنڈر کے حساب سے تاریخ پیدائش کے مطابق دن بھر میں ہو سکنے والے واقعات کی پیشین گوئی کر رہے تھے۔ اس نے چینل بدلا۔ اب تین معروف صحافی جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں مغربی طاقتوں کی بالواسطہ یا بلا واسطہ مداخلت سے خطے میں نیوکلیائی جنگ کے امکانات پر بحث کر رہے تھے۔ رانا نے پھر چینل بدلا۔ یہ ایک نیوز چینل تھا۔ میزبان کہہ رہا تھا۔
’’اور آج بارہویں دن بھی بھدرواہ کے علاقے کا باقی ملک سے زمینی رابطہ کٹا رہا۔ بارہ روز پہلے چار دن تک ہونے والی لگاتار بارشوں اوربرفباری سے اونچے اونچے پہاڑوں سے بڑی بڑی چٹانیں کھسک آئی تھیں جس سے سڑک پر گاڑیوں کا چلنا بند ہو گیااور دو سو سے زیادہ مال بردار اور مسافر گاڑیاں برف میں پھنس گئیں جن میں سوار تقریباً دو ہزار مسافروں کے پاس انتظار کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ برف میں پھنسے مسافروں کو اب ہیلی کاپٹروں کے ذریعے نکالاجائے گا، ایسا کہا جا رہا ہے۔ ہماری رپورٹر انجلی ورماؔ وہاں موجود ہیں۔ انجلی وہاں کیا چل رہا ہے؟‘‘
پردے پر منظر بدلا اور ایک جواں سال عورت سامنے آئی جس کے پس منظر میں برف ہی برف تھی۔ وہ گرم کپڑوں میں ملبوس تھی۔ اس کے سر پر سمور کی ٹوپی، ہاتھوں میں چرمی دست پوش اور گلے میں اونی مفلرتھا۔ جب وہ بولی تو اس کے منہ سے بخارات نکلنے لگے،
’’جی۔۔۔ میں ا س و قت جموں سے کشمیر جانے والے نیشنل ہایئوے NH-1A پر بٹوت کے مقام پر ہوں۔ یہاں سے ضلع کشتواڑ ٗ ڈوڈہ اور بھدرواہ کے لیے اسی کلومیٹر سڑک الگ ہو جا تی ہے۔ یہ دیکھیے۔۔۔‘‘ اس نے اپنا ہاتھ ایک طرف اٹھاتے ہوئے کہا اور اس کے ساتھ ہی کیمرا بھی گھوم گیا ’’چاروں طرف برف ہی برف ہے۔ اس موسم میں برف تو ہر سال گرتی ہے اور دو تین دنوں کے لیے راستہ بھی بند ہو جاتا ہے مگرا س بارگیارہ دنوں سے راستہ بندہے۔ چٹانوں کے کھسکنے کی وجہ درختوں کا بے تہاشہ کٹاؤ ہے یاموسم کا بدلاؤ، برف میں پھنسے لوگوں کواس سے دلچسپی نہیں ہے۔۔۔ وہ تو صرف یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ان کی پریشانیاں کب ختم ہونگی۔ یہاں کے ڈپٹی کمشنر نے ہمیں بتایا کہ ائر فورس کے ہیلی کاپٹروں نے مسافروں کے لیے نہ صرف کھانے کے پیکٹ بلکہ میڈیکل ٹیمیں بھی اتاری ہیں۔ وہ ہمارے ساتھ یہیں۔۔۔‘‘ اور بجلی چلی گئی۔
جج مظفر علی رانا نے سمووار سے خالی کپ میں شیٖر چائے انڈیلی اور چسکی لی۔ شیٖر چائے اور نون چائے دراصل کشمیر کا خاصہ ہیں لیکن جموں ڈویژن میں ہونے کے باوجود چو نکہ ڈوڈہ اور کشتواڑ کے پہاڑی اضلاع کا سلسلہ کشمیر سے جا ملتا ہے اس لیے شیٖر چائے اور نون چائے یہاں کے معمول کا بھی حصہ بن گئی ہیں۔ جبکہ عام چائے اسی وقت پی لی جاتی ہے لیکن ان چایٔوں کو گھنٹوں رکھا جا سکتا ہے۔ شیٖر چائے نمکین یا میٹھی ہو سکتی ہے لیکن اس میں دودھ ضرور ہوتا ہے جبکہ نون چائے میں دود ھ توہوسکتا ہے لیکن یہ نمکین ہی ہوتی ہے۔ رانا نے سمووار کے پیندے میں لگی جالی کے اندربجھتے انگاروں کو دیکھا۔ سمووار میں موجود چائے کو گرم رکھنے کے لیے ان میں مزید کوئلے ڈالنے پڑیں گے، اس نے سوچا او ر تانبے سے بنے سمووار کی سطح پرکُندہ پھولوں اور بیلوں کے پیچیدہ نقش و نگار دیکھنے لگا۔ بیچارہ سمووار، اس نے سوچا۔ نہ جانے کتنی صدیوں پہلے ازبیکستان سے جانے کن دشوار گزار اور طویل راستوں کو طے کر کے یہ سمووار کشمیر کی وادی میں پہنچا اورپھر یہاں کے گھریلو سامان کا لازمی حصہ بن گیا۔ لیکن اب الیکٹرک کیٹل اور تھرموس فلاسک کے بالمقابل مسلسل شکست خوردگی سے داستان پارینہ بنتا جا رہا تھا۔
کلچر۔۔۔ رانا نے چائے کا ایک بڑا سا گھونٹ بھر کر سوچا، جدیدتکنالوجی نے لاتعداد اشیائے آسودگی بنا کراس لفظ کے معانی ہی بدل دیے ہیں۔ لیکن کلچر تو کبھی مستقل نہیں رہتا، یہ تو ہمیشہ تغیرپذیر ہوتا ہے۔۔۔ ایک یا دو ہزار سال کا کلچر تو آج کسی معاشرے کے پاس بھی نہیں ہے۔ کلچر توبدلتا رہتا ہے، رانا نے سوچا اور پھر اسے خیال آیا کہ عدالت جانے کے لیے تیار بھی ہونا ہے۔
لحاف کی محفوظ حرارت سے باہر نہ نکلنے کی فطری خواہش کوبے رحمی سے نظرانداز کرتے ہوئے وہ طوعاً و کرہاً بستر سے اترا اور ذہنی طور پر برفیلے موسم سے نبردآزما ہونے کو تیار ہونے کے لیے بڑی احتیاط کے ساتھ کھڑکی کا ایک پٹ کھولالیکن پھر اسے غیر ارادی طور پر ایک قدم پیچھے ہٹنا پڑا۔ یوں لگا جیسے کسی نے کھڑکی کے باہر سے ڈھیر ساری سردی اس کے منہ پر دے ماری ہو۔ یکبارگی سارے جسم میں ایک کپکپی دوڑ گئی۔ چائے کا کپ ابھی تک اس کے ہاتھ میں تھا۔ اس نے جلدی سے ایک گھونٹ بھر کرکھڑکی سے باہر دیکھا۔
حد نظر تک سفید چادر بچھی ہوئی تھی۔ برف کی تہ اس قدر دبیز تھی کہ باہر زمین کے خدوخال میں کسی قسم کا شناختی نشان نظر ہی نہیں آ رہا تھا۔ حد نظر تک برفستان بن گیا تھا۔
’’ساب۔۔۔‘‘
رانا نے مڑ کر دیکھا۔ یہ سرکاری اردلی سلیمان تھا جو صبح سے شام تک گھر اور عدالت میں اس کے ساتھ ہی رہتا تھا۔
’’ساب۔۔۔ ناشتہ کب لگاؤں۔۔۔؟‘‘
’’آج کیا ہے۔۔۔ ناشتے میں۔۔۔؟‘‘
’’آلو ہیں۔۔۔ اور۔۔۔ پراٹھے۔۔۔‘‘
جج رانا نے برا سا منہ بنایا۔ نہ انڈے نہ مکھن۔
’’ٹھیک ہے۔۔۔ میں آدھے گھنٹے میں آ رہا ہوں۔۔۔‘‘ سلیمان واپس چلا گیا۔
وہ واپس مڑ کر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔ آلو اور پراٹھے، اس نے مایوسی میں برا سا منہ بنایا۔ پانچ دن پہلے ہی دکانوں پر انتہائی مہنگے داموں گوشت کی آخری بوٹی تک کے لیے لوگوں میں دھکم پیل کے ساتھ قصابوں کی منت سماجت کا وقت بھی چلا گیا۔ سبزیاں بھی کب کی ختم ہو گئی تھیں اور اب دالوں کی باری تھی۔ سنا ہے آج یا کل جموں سے راشن اور سبزیاں بذریعہ ہیلی کاپٹر منگوائی جا رہی ہیں۔ برف کا قہر اب کے طویل ہو گیا ہے، رانا نے سوچا اور اچانک اسے احساس ہوا کہ صبح سے اس نے ایک سگریٹ بھی نہیں پیا اور اس کی وجہ تھی کمرے کی بند کھڑکیاں۔ دھوئیں کے اخراج کے لیے کوئی رخنہ بھی نہیں تھا اور اس کی بیوی کو کمرے میں سگریٹ کا دھواں سخت ناپسند تھا۔
رانا نے کھڑکی کے مزید قریب ہو کر سگریٹ سلگایا اور ایک بھرپور کش لے کر منہ اور ناک سے دھواں نکالنے لگا۔ آلو اور پراٹھے، اس کا موڈ خراب ہو گیا۔ پانچ دنوں سے اس کی زبان گوشت کی ایک بوٹی کے لیے ترس گئی تھی۔
چھوٹا کشمیر کہے جانے والے بھدرواہ کا علاقہ پہلے ہماچل پردیش کا حصہ تھا جسے 1846ء کے آس پاس یہاں کے ایک مقامی جنگجو شگتو کوتوال نے چمبہ کے راجا سے آزاد کروا کر مہاراجا گلاب سنگھ کی عملداری میں شامل کر دیا۔ اور اب بٹوت سے یہاں تک اسی کلومیٹر لمبی سڑک ہی اس سارے خطے کی شہ رگ ہے۔ اس سڑک کے مسدود ہو جانے سے بازار میں اشیاء ضروریہ کا ذخیرہ تو پانچ چھ ہی دنوں میں ختم ہوگیا اور اب سرکاری گوداموں میں موجود اناج کے ذخیروں کی تقسیم کاری کا اہتمام کیا جا رہا تھا۔ ممکن الحصول گوشت کو تو مقامی آبادی، یہاں تعینات فوجی اور نیم فوجی سیکیوریٹی عملے نے کب کا ہضم کر لیا تھا۔ لیکن آلو اور پراٹھے! رانانے نہ جانے کِتنویں بار برا سا منہ بنایا۔ لیکن اس کا کوئی علاج نہیں تھا۔ اس نے ایک گہرا کش لیا اوربرف پوش پہاڑی سلسلوں پر نظر دوڑانے لگا۔
بھدرواہ کا یہ چھوٹا سا قصبہ ایک وسیع و عریض وادی ہے جسے بہت اونچے اونچے پہاڑوں نے گھیر رکھا ہے جو گرمیوں میں بھی عموماً برف سے ڈھکے رہتے ہیں۔ پہاڑ اتنے قریب ہیں کہ یوں لگتا ہے جیسے ہاتھ بڑھا کر انہیں چھوا جا سکتا ہے۔ ان میں دیودار اور کائل کے درختوں سے بھرے جنگل ہیں جن میں ہرن سے لے کر ریچھ تک ملتے ہیں۔ اس موسم کے دوران صفر سے بھی نیچے گر جانے والے درجۂ حرارت میں صرف بہت سخت جان جانور ہی ان پہاڑوں میں رہ سکتے ہیں اور شکار تو ہمیشہ نیچے اتر آتا ہے۔ جب وہ کالج میں پڑھتا تھاتو اس موسم میں بارہ بور کی بندوق ہاتھ میں لے کر ماں کو کہتا تھا کہ وہ پیاز کاٹ کر، لہسن اور ادرک پیس کر رکھے۔ اور پھر وہ سچ مچ ایک یا دو گھنٹوں میں جنگلی مرغ کا شکار کر کے لے آتا تھا۔ کئی بار عدیم الحصول نیٖل یا پاڑھا بھی ہاتھ لگ جاتا۔ اور یہ اتنی جلد ہوجاتا کہ لگتا تھاجنگل میں شکار نہیں کیا بازار سے خرید لائے ہیں۔ لیکن یہ پرانی بات ہے۔ رانا نے سگریٹ کا کش لگاتے ہوئے سوچا ٗ گزشتہ بیس برسوں میں ملی ٹینسی بڑھنے سے اب فائر کرنا تو درکنار، لایٔسنس یافتہ بندوق لے کر چلنا بھی دشوار تھا۔ فائر کی آواز ہی سے سیکیوریٹی فورسز الرٹ ہو جاتی تھیں اور فائر کرنے والا دشواری میں پڑ سکتا تھا چاہے اس نے ہوا ہی میں فائر کیوں نہ کیا ہو۔
یہ ملی ٹینسی کا مثبت پہلو تھا، جج رانا تلخی سے مسکرا کر سر ہلانے لگا۔ جنگلوں میں جانور محفوظ ہو گئے تھے اور شکار بکثرت دستیاب تو تھا لیکن اب شکار کرنا مشکل ہو گیا تھا۔ شکار کی تعداد اتنی بڑھ گئی تھی کہ پچھلے کئی برسوں سے اس موسم میں اکثر لوگوں کے گھروں میں گھس آتا تھا۔ ملی ٹینسی کے بھی فائدے ہو سکتے ہیں، اس نے حیرت سے سوچا۔ جیسے دیر رات لوگوں کی مٹر گشتی کا ختم ہونا، ملی ٹینسی کے شکار لوگوں کو سرکاری ملازمتیں ملنا، سنیما گھروں کے بند ہو جانے سے اخلاقی قدروں میں اضافہ کے امکانات کا انتظار کرنا۔ اسکولوں میں ملی ٹینسی کے فوائد پرمباحث کروانے چاہیئں اس نے سوچا اور سگریٹ کے ختم ہونے سے پہلے ایک آخری کش لے کر اسے باہر اچھال دیا۔ وہ کھڑکی بند کر کے واپس مڑا۔
صبح کے ساڑھے آٹھ بج چکے تھے اور جج مظفر علی رانا کا عدالت جانے کا وقت ہو گیا تھا۔ اردلی سلیمان نے آ کر اطلاع دی کہ پولیس کے دو باڈی گارڈ آ گئے ہیں۔ جج کی سرکاری رہائش گاہ سے احاطۂ عدالت تک محکماتی کار میں صرف پانچ منٹوں کا سفر تھا۔ لیکن برفباری کی وجہ سے کیونکہ گاڑیوں کی نقل و حرکت معطل تھی اس لیے پیدل سفر میں پندرہ بیس منٹ لگ جاتے تھے۔ حالآنکہ مقدمات کی باقائدہ سنوائی دس بج شروع ہوتی تھی لیکن کئی قسم کے کاغذات اور دستاویزات کی رجسٹری کے لیے نو بجے کا وقت معین تھا اس لیے نو بجے اس کا عدالت کی کرسی پر ہونا ناگزیر تھا۔
رانا نے آخری بار قدآدم شیشے کے سامنے کوٹ کا کالر اور ٹائی کی گرہ درست کی اور کمرے سے با ہر آگیا۔ بیگم کو سخت تاکید تھی کہ وہ سرکاری عملے کے آنے کے بعد سامنے نہ آئے اور پیچھے سے آواز بھی نہ لگائے۔ رانا سرکاری رہائش گاہ سے نکلا۔ اس کا بریف کیس ہاتھ میں لیے سلیمان اس سے ایک قدم پیچھے تھا اور دونوں سیکیوریٹی گارڈز دو قدم پیچھے۔ جج کے عہدے کے وقار کے لیے پولیس کے دو سپاہی حالآنکہ کافی تھے مگر ملی ٹینسی کے اس دور میں محافظوں کی یہ تعداد قطعی ناکافی تھی، پتہ نہیں کس فریق کے تعلقات کس ملی ٹینٹ گروپ سے ہوں۔
رانا چلتا رہا۔ برف جم گئی تھی۔ مقامی بلدیہ کے ملازمین نے بڑی مشکل سے برف کاٹ کاٹ کر چلنے کے لیے راستہ بنایا تھا۔ سڑکوں اور گلیوں کی دونوں اطراف میں بنی ڈھلواں نالیوں میں پگھلتی برف کا پانی ایک واضح شور کے ساتھ نیرو نالے کی طرف رواں تھا۔ آج مطلع تو صاف تھاپر چمکتی ہوئی دھوپ ٹھنڈی تھی۔ سیری بازار سے گزرتے ہوئے اس نے دیکھا کہ بسوں، ٹیکسیوں اور مال بردار گاڑیوں پر جمی ہوئی برف آہستہ آہستہ پگھلنا شروع ہو گئی تھی۔ لوگ کشمیری چغے فِرن پہنے آ جا رہے تھے۔ دکانیں خالی خالی تھیں۔
راستے میں رانا کو کئی لوگ ملے جو ادب سے سلام کر کے احتراماًسامنے سے ہٹ گئے۔ اپنے آبائی شہر میں بطور افسر تعیناتی کا مزہ ہی اور ہے۔ اپنے مخالفین یا وہ لوگ جو آپ کے خاندان کوخاطر میں نہیں لاتے تھے اور وہ بھی جو آپ سے لگّا کھاتے ہیں، جب ان کے ہاتھ بے ارادہ ہی سلام کو اٹھ جاتے ہیں تو اچھا لگتا ہے۔ یہ سوچ کر اسے اطمینان محسوس ہوا کہ ان میں سے بہتیرے تھے جو بلا کسی غرض اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کچھ بھی کر سکتے تھے۔ لیکن ان حالات میں ان سے بھی یہ توقع نہیں رکھی جا سکتی تھی کہ وہ رانا کے دسترخواں پر گوشت کی ایک قاب کا اضافہ کر سکتے، رانا نے سوچا اور اس کے منہ کا ذائقہ خراب ہو گیا۔ پانچ چھ دنوں سے بس دال اور چاول۔ یہ حکومت پتہ نہیں کب کچھ کرے گی۔ ہیلی کاپٹروں سے اگر آٹا، چاول اور سبزیاں آ سکتی ہیں توبکرے اور بھیڑیں کیوں نہیں یا کم سے کم برائیلر تو آہی سکتے ہیں۔ کیا حکومت میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے جس کی عقل سلیم میں آئے کہ انسان بے شک ایک ہمہ خور جانور ہے لیکن گوشت خوروں کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی سزا نہیں ہو سکتی کہ پانچ دنوں تک گوشت کی ایک بوٹی تک نصیب نہ ہو۔ وہ جھنجھلا گیا۔ اسے اس طرح غصے میں نہیں آنا چاہیے، اس نے سوچا، جھنجھلاہٹ میں کہیں کوئی غلط فیصلہ نہ ہو جائے۔ اس کے چہرے کے عضلات ڈھیلے ہو گئے اور وہ معمول پر آگیا۔
اچانک ایک طرف سے کچھ شورسنائی دینے لگاجو بتدریج بڑھتا ہی گیا۔ رانا نے ادھر مڑ کر دیکھا۔ کوئی دس پندرہ لوگ جن میں زیادہ تر بچے تھے، دوڑتے ہوئے اسی طرف آ رہے تھے۔ کوئی پریشانی کی بات نہ ہو، اس نے سوچا اور تھوڑا ہٹ کر رک گیا۔ کوئی جلوس بھی ہو سکتا تھا۔ حالآنکہ بھدرواہ میں کبھی فرقہ وارانہ فساد نہیں ہوئے لیکن فرقہ وارانہ جلوس کبھی بھی نکل جاتے تھے اور ان کا محرک کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ بارش ہو جائے تو جلوس نہ ہو تو جلوس۔ بارش کم ہو تو جلوس زیادہ ہو تو جلوس۔ لوگوں کی سوچ، ان کی عصبیتیں اور ذہنی تحفظات غیر منطقی طور پرکس قدر حساس ہوگئے ہیں اور یہ رحجان جمہوری طرز فکر کے عین مخالف ہے، رانا نے مایوسی سے سوچا۔
لوگ اور قریب آ گئے تھے۔ اسے یہ دیکھ کر کوئی خاص حیرت نہیں ہوئی کہ یہ ایک لاکھا تھا۔ دو ڈھائی کلو وزنی یہ جنگلی مرغ بالائی خطے میں شدید برفباری برداشت نہ کرسکنے کی وجہ سے نیچے اتر کر بستی میں بھٹک گیا تھا۔ جج مظفر علی رانا للچائی نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔ لوگ اور قریب آ گئے تھے۔ یہ دس پندرہ لوگ تھے جو نیم حصارکی صورت اس کے پیچھے دوڑ رہے تھے مگر وحشت زدہ جنگلی مرغ بار بار ان کی گرفت سے چھوٹ رہا تھا۔ جنگل میں شکاری جانوروں سے درپیش لاتعداد خطرے جھیل کر جس مرغ نے ڈیڑھ دو سال کی زندگی گزار لی ہو وہ لوگوں کے ہاتھ کیا آئے گا۔ رانا کے اندر کا پرانا شکاری جاگنے لگا۔ کیوں نہ وہ جھپٹ کر گھر سے بارہ بور کی بندوق لے آئے؟پھر اس نے اس شدید خواہش پر قابوتو پا لیا لیکن اچانک اسے فضا میں بھنے ہوئے گوشت کی اشتہاانگیز مہک سی آئی اور جنگلی مرغ کی بڑی سی ٹانگ کو جبڑوں میں محسوس کرکے اس کی زبان پیشگی لذت سے سرشار ہونے لگی۔
’’صاحب۔۔۔‘‘ اسے منہ چلاتے ہوئے غور سے دیکھ کرسلیمان نے کہا ’’۔۔۔ اگر یہ ہاتھ آ جائے تو۔۔۔‘‘
یہ غلط بات ہے کہ سلیمان نے اس کے خیالات پڑھ لیے، اس نے سوچا، ایک جج کو اپنے عہدے کا وقار رکھنا چاہیے۔ وہ کچھ نہ بولا۔
مرغ اب ایک جگہ کھڑا آس پاس دیکھ کر شاید نکل بھاگنے کا منصوبہ بنا رہا تھا۔ جنگل میں وہ ایسے بہتیرے معرکوں میں بچ کر نکل چکا تھا۔ لوگ آہستہ آہستہ گھیرا تنگ کرنے لگے اور پھر اس پر جھپٹے۔ لیکن ایک تیز رفرف کے ساتھ مرغ کبڈی کے کسی مشاق کھلاڑی کی طرح ان کے نرغے سے صاف نکل گیا۔
رانا کچھ دیر تک تو مرغ کے پیچھے بھاگتے لوگوں کو دیکھتا رہا پھراپنے آپ کو روک نہ سکا۔ بے قابو ہو کر بولا،
’’سلیمان۔۔۔ اسے کوئی نہ کوئی تو پکڑ ہی لے گا۔۔۔ جتنے روپے مانگتا ہے دے کر لے آنا۔۔۔ جاؤ۔۔۔‘‘
سلیمان نے سر ہلا کر بریف کیس ایک باڈی گارڈ کے حوالے کیا اور خود لوگوں کے پیچھے چلا گیا۔
پورے نو بجے جج مظفر علی رانا اپنے چیمبر میں تھا۔ معمول کے مطابق دس بجے تک دستاویزات کی تسجیل کی کاروائی چلتی رہی۔ زمینوں کے وثیقے ٗ رہن نامے ٗ فروخت نامے ٗ شراکت نامے وغیرہ۔ دس بجے سے پانچ منٹ زیادہ ہو گئے تھے۔ اس نے آخری دستاویز پر اپنے ہاتھ سے اندراج کر کے دستخط کر دیے اور فائلیں پرے سرکائیں۔ کلرک فائلیں لے کر چلا گیا۔ اس نے جیب سے کلاسِک کا پیکٹ نکال کر ایک سگریٹ کھینچا۔ پاس میں جلتے برقی روم ہیٹر سے سلگا کر ایک گہرا کش لیا اور کرسی کی پشتگاہ سے ٹک گیا۔
جج مظفر علی رانا عمومی طور پر ایک مطمئن شخص تھا اور اس کی خواہشات بھی کچھ زیادہ بلند نہیں تھیں۔ قانون کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد اس نے کئی سال تک پریکٹس بھی کی تھی پر وکیل کی حیثیت سے زیادہ کامیاب ہونے کی حوصلہ مندی اس میں نہیں تھی۔ لیکن آٹھ سال پہلے جب بطور جج اس کی تقرری ہوئی تووہ اپنی زندگی سے مطمئن ہو گیا۔ وہ مالی طور پر بھی اپنی ضروریات سے کچھ زیادہ آسودہ حال تھا۔ ان آٹھ برسوں میں اس کے پاس بہتیری پیشکشیں آئیں اور کئی معاملات میں اس نے انکار بھی نہیں کیا۔ لیکن اس کا ضمیر بے داغ تھا۔ اس نے کبھی بے انصافی نہیں کی اور اس بات کا ہمیشہ خیال رکھا کہ کسی کی حق تلفی نہ ہو۔ آج بھی ایک ایسا ہی مقدمہ درپیش تھا جس کے لیے اسے ایک وافر پیشکش کی گئی تھی اور اس نے حامی بھر لی تھی کیونکہ اس نے یوں بھی اسی فریق کے حق میں فیصلہ سنانا تھا۔
عجیب بات ہے، سگریٹ کا کش لے کر وہ سوچنے لگا۔ اس مہذب معاشرے میں لوگوں کی زندگیوں کو ایک نظام کے تحت چلانے کے لیے کتنے ادارے بنائے گئے ہیں۔ آپ نے کسی بھی طرح کسی بھی ادارے میں اور کسی بھی سطح پر ایک بار متعین ہونا ہے اور پھر آپ کو لوگوں پر اختیارمل جاتا ہے اور لوگ آپ کو کئی طرح سے خوش رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کمال کا سسٹم ہے، اس نے سوچا اور چونک پڑا۔
چیمبر سے ملحقہ عدالت کے کمرے سے اٹھا پٹک، دھب دھب اور شورکی آوازیں آ رہی تھیں۔
کیا ہو گیا، اس نے گھبرا کر سوچا اور میز کے ایک کنارے پر لگا بزر دبایا لیکن کچھ دیر گزر جانے پر بھی جب کوئی نہ آیا تو اس کی تشویش بڑھ گئی۔ عدالت کے کمرے کی جانب سے آنے والی آوازوں کا حجم اب بڑھ رہا تھااور اب ان میں لوگوں کی آوازیں بھی شامل تھیں۔ ایش ٹرے میں سگریٹ بجھا کر وہ تیزی سے دروازے کی جانب بڑھا اور دروازہ کھول کر عدالت کے اوپری حصے میں آیا۔
اس نے حیرت سے دیکھا کہ کمرۂ عدالت کی ایک بے سلاخ کھڑکی پر وہی جنگلی مرغ کھڑا تھا۔ کھڑکی کے باہر کھڑے لوگوں میں سے دو تین آہستہ آہستہ آگے بڑھے اوراس پر جھپٹے لیکن ایک انتہائی مختصر سی اڑان کے ساتھ وہ کڑکڑاتے ہوئے کمرۂ عدالت میں آکرسراسیمگی سے چاروں طرف دیکھنے لگا۔
جج رانا نے دیکھا کہ اس کا اردلی سلیمان دبے پاؤں چلتا ہوا عدالت کے کمرے کی کھڑکیاں بند کر رہا تھااور عدالت کا ایک چپراسی بھی اس کے ساتھ تھا۔ اس نے دیکھا کہ اس کے ایک مسلح محافظ نے بھی اپنی رائفل ایک طرف رکھی اور ان کے ساتھ ہو لیا۔ ساری کھڑکیاں اور دروازے بند کر کے وہ سب انتہائی ہوشیاری کے ساتھ مرغ کی طرف بڑھنے لگے۔ دراصل وہ اسے ایک کونے میں کھدیڑنے کی کوشش کر رہے تھے۔ آس پاس دیکھتے ہوئے مرغ بڑی ہوشیاری سے پیچھے ہٹ رہا تھا۔ اچانک مرغ نے رک کر ٹھاٹ بدلا۔ تینوں یکبارگی اس پر جھپٹے لیکن وہ جھکائی دے کر نکل گیا۔
لیکن رانا نے جو دم خم اس میں صبح دیکھا تھا وہ اب نظر نہیں آیا۔ کئی شکاری جانور جو اپنے سے بڑی جسامت کے شکار پر فوراً قابو نہیں پا سکتے وہ اسے دوڑا دوڑا کر بے دم کردیتے ہیں اور پھر کسی کمزور لمحے میں اس پر جھپٹ پڑتے ہیں۔ انسان سے بہتر شکاری اور کوئی نہیں تھا اور یہ مرغ بھی اب واضح طور پر تھک چکا تھا، رانا نے سوچا۔ اس نے دیکھا کہ مرغ بار بار سر گھما کر کمرۂ عدالت کی تفصیلات کابہ نظرغائر مشاہدہ کر کے اپنی سلامتی کے امکانات کا جائزہ تولے رہا تھا لیکن صاف محسوس ہو رہا تھا کہ وہ کوئی حتمی فیصلہ نہیں کرپا رہا ہے۔ حالآنکہ جنگل میں زندگی اور موت کے بیچ ایک لمحے سے بھی کم فاصلہ ہوتا ہے اور اپنی ڈیڑھ دو سال کی زندگی میں لاتعداد خطرات کا سامنا کر کے وہ کئی معرکے بھی سر کر چکا تھالیکن تیزی سی زندگی اور موت کی جنگ بنتی جا رہی یہ جھڑپ، اسے لمحہ بہ لمحہ حواس باختہ کرتی جارہی تھی۔
دراصل یہ ایک الگ ہی میدان جنگ تھا جو اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس کمرے میں جو کچھ بھی تھااس کے لیے قطعی غیرمانوس تھا اورنہ ہی اسے جنگل والا ماحول دکھائی دے رہا تھا۔ درخت، جھاڑیاں، جنگلی بیلیں، چٹانیں، چھوٹے بڑے پتھر، گری ہوئی ٹہنیاں اور سوکھے پتے، کچھ بھی تو نہیں تھا۔ جنگل کی یہ چیزیں اس کی حفاظت میں سینکڑوں بار معاون ثابت ہوئی تھیں۔ اور پھر یہاں وہ شکاری جانور بھی نہیں تھے جن کی شکاری حکمت عملیوں سے وہ بخوبی واقف تھا اور انہیں کئی بار جل دے چکا تھا۔ انسان سے یہ اس کی پہلی مڈبھیڑ تھی اور وہ اس نئے حریف کی جنگجویانہ صلاحییتوں سے قطعی نا بلد تھا۔
اس کی زبان چونچ سے باہر نکلی ہوئی تھی اور وہ ہانپتے ہوئے گردن اچکا اچکا کر وحشت زدہ آنکھوں سے چاروں طرف دیکھ رہا تھا۔ اس کے سر کی ہر جنبش کے ساتھ سرخ رنگ کی اس کی بڑی سی کلغی تھرک رہی تھی اور چونچ کے نیچے گل پھڑا اضطراری طور پر تیزی سے پھیل اور سکڑ رہا تھا۔ اچانک وہ ٹھاٹ مارنے لگا۔
جج رانا بھی سب لوگوں کے ساتھ سانس روکے کھڑا تھا۔ یہ ایک انتہائی صبرآزما مرحلہ تھا۔ دراصل تحمل ہی شکاریوں کا سب سے مہلک ہتھیار ہوتا ہے۔ شکاری جانور جانتے ہیں کہ بے آواز سانس لیتے ہوئے طویل دورانیوں کے لیے گھات لگائے بیٹھے رہ کر شکار کے کارگر زد پر آنے کا انتظار کرنا ہی شکار کی بہترین حکمت عملی ہے۔
مرغ اب معمول پر آنے لگا تھاکیونکہ سلیمان، چپراسی اور باڈی گارڈدیر سے بے حس و حرکت کھڑے رہ کر اسے احساس تحفظ کا بھرّا دینے کی کوشش کر رہے تھے تاکہ وہ مشتعل نہ ہو جائے۔ ہوشیاری کے ساتھ انہوں نے ایک بار پھر اس کے گرد گھیرا تنگ کرتے ہوئے بہ آہستگی سرک سرک کر ایک قدم بڑھایا اور کمال صبر سے اسے ایک کونے میں ہنکاتے گئے۔ وہ ہر حالت میں اب اسے پکڑ ہی لینا چاہتے تھے۔ اچانک مرغ نے اُلٹی زقند بھرکر فرش پرپنجے ٹکائے ہی تھے کہ سلیمان اس پر جھپٹا۔ یہ ایک قطعی غیر متوقع لیکن بر موقع حملہ تھا۔ اڑنے کی ایک دل برداشتہ سی کوشش میں مرغ محض پنکھ پھڑپھڑا کر رہ گیااور سلیمان نے اسے دونوں ہاتھوں سے دبوچ لیا۔ لیکن مرغ کابے طرح پھڑپھڑاتا ہوا پنکھ اس کی آنکھ میں لگ گیا اور وہ درد سے چیخ پڑا۔ چپراسی اور باڈی گارڈ بھی اس پر جھپٹ پڑے اور پھر سب نے مل کر اسے قابو میں کر لیا۔ وہ اب بھی بہت اونچی آواز میں کڑکڑا رہا تھا۔ کھڑکی کے شیشوں میں سے باہر کھڑے لوگ یہ تماشہ دیکھ رہے تھے۔
سب نے مل کراس کی پشت پر دونوں پنکھوں میں گرہ لگا کراس کی مشکیں کس دیں۔ سلیمان ایک پاؤں اس کے پھنسے ہوئے پنکھوں پر اور دوسرا اس کی ٹانگوں پر رکھ کراس پر تقریباً بیٹھ گیا اور ایک ہاتھ سے اس کی گردن پکڑ کر چپراسی سے ہانپتے ہوئے بولا،
’’چھری۔۔۔ چھری لاؤ۔۔۔ جلدی۔۔۔‘‘
’’یہاں چھری کہاں ہے؟‘‘ چپراسی نے حیرت سے کہا۔
’’باہر۔۔۔ چائے والے کے پاس۔۔۔ جلدی کرو۔۔۔‘‘ اس نے بائیں آنکھ ملتے ہوئے کہا جہاں اسے پنکھ لگا تھا۔
چپراسی باہر بھاگا۔
مرغ رہ رہ کر چھٹپٹانے کی سعی کر رہا تھا لیکن اب اس کی مدافعتی کوششوں میں پہلے کی سی تندی و تیزی نہیں تھی۔ باڈی گارڈ کی مدد سے سلیمان نے اس کے سر کو موڑ کر اس کا گلا سامنے کیا۔ اتنے میں چپراسی نے آ کر اس کے ہاتھ میں چھری تھما دی۔ اس نے چھری ایک طرف رکھ کر دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کے دباؤ سے چونچ کھول کراس کی زبان باہر نکالی اور دبا کرچونچ بند کر دی۔ جج رانا سکتے کے عالم میں یہ سب دیکھ رہا تھا۔
سلیمان نے اس کا سر موڑ کر اس کے گلے پر چھری رکھی اور زیر لب کچھ پڑھنے لگا۔ مرغ میں اب چھٹپٹانے کی قوت بھی نہیں رہی تھی۔ بقا کی طویل جدوجہد نے اسے تھکا دیا تھااور مزاحمت کے مرحلوں سے گزر کر اب وہ شاید تن بہ تقدیر ہو گیا تھا۔ اس کی چونچ جج رانا کی طرف اٹھی ہوئی تھی اور اس کی آنکھیں رانا کی جانب دیکھتی محسوس ہو رہی تھیں۔ کیا یہ میری طرف دیکھ رہا ہے، رانا نے حیرت سے سوچا اور اسے لمحہ بھر کو لگا کہ وہ واقعی اسی کو دیکھ رہا ہے۔ رانا بھی کچھ دیر اس کی آنکھوں میں دیکھتا رہا۔
پھر جب سلیمان اس کے گلے پر چھری پھیرنے ہی والا تھا کہ رانا بے اختیار چیخ پڑا۔
’’ٹھہرو۔۔۔‘‘
سلیمان نے ہاتھ روک کر حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔ رانا عدالت کے منبر سے اتر کراس کے پاس آ گیا۔
’’اسے چھوڑ دو۔۔۔‘‘
سب اسے حیرت سے دیکھنے لگے۔ گوشت کے اس شدید ترین بحران میں بمشکل یہ ہاتھ لگا تھا اور جج صاحب کیا کہہ رہے تھے۔
’’اسے چھوڑ دو۔۔۔‘‘ جج رانا نے پر سکون لہجے میں کہا۔ ’’یہ عدالت ہے ذبح خانہ نہیں۔۔۔‘‘
اوہ۔۔۔ تو یہ بات ہے، سلیمان نے سرکو تفہیمی جنبش دیتے ہوئے سوچا۔ اس نے چھری چپراسی کو دی، مرغ کو پاؤں کے نیچے سے نکال کر اس کی ٹانگوں پر دائیں ہاتھ کی مضبوط گرفت جمائی اور دونوں ہاتھوں سے بغل میں دبا کر آہستہ سے بولا،
’’ٹھیک ہے۔۔۔ میں اسے گھر لے جاتا ہوں۔۔۔‘‘
’’نہیں۔۔۔‘‘ جج رانا نے سختی سے کہا، ’’میں نے کہا نا۔۔۔ اسے چھوڑ دو۔۔۔ آزاد کر دو۔۔۔‘‘
سلیمان بے یقینی سے اس کی طرف کچھ دیر دیکھتا رہا لیکن پھر اس کی آنکھوں میں ارادے کی پختگی دیکھ کر کھڑکی کی طرف بڑھا۔
’’نہیں۔۔۔‘‘ جج نے کہا ’’ادھر نہیں۔۔۔ اس طرف۔۔۔‘‘ رانا نے سامنے والی کھڑکی کی طرف اشارہ کیا جو نیچے ڈھلان کی طرف کھلتی تھی اور خود بھی کھڑکی کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا۔ سلیمان نے ایک بار پھر جج کی طرف دیکھا کہ شاید وہ ارادہ بدل دے مگر جج نے سر کو ہلاتے ہوئے اسے آگے بڑھنے کا اشارہ کیا۔ سلیمان نے کھڑکی کے پاس آ کر مرغ کے پنکھ کھولے، اسے باہر اچھالا اور خود پیچھے ہٹ گیا۔
رانا نے دیکھا کہ پنکھ پھڑپھڑاتے ہوئے مرغ سلامتی سے برف پر اتر گیااور گردن اچکا اچکا کر سرعت سے چاروں اطراف میں دیکھنے لگا جیسے کسی نئے خطرے کا اندازہ کر رہا ہو۔ لیکن آس پاس کوئی نہیں تھا۔ حد نظر تک بے داغ اور پرسکوت برف دیکھ کر وہ کچھ مطمٔین ہوا اور بہت زور زور سے پنکھ پھڑپھڑانے لگایہاں تک کہ اس کے پروں میں ہوا بھر گئی اور وہ پھول کر پنجوں پر اٹھ گیا۔ پھرآہستہ آ ہستہ معمول پر آ یا اور آس پاس دیکھنے لگا۔ یہ اس کامانوس منظرنامہ تھا۔ پھر اس نے پیچھے مڑ کرکھڑکی سے جھانکتے ہوئے رانا کو دیکھا۔
کیا یہ میری طرف دیکھ رہا ہے؟ رانا نے سوچا۔ کیا اسے احساس ہے کہ میں نے اس کو یقینی موت سے بچایا ہے۔ مگر یہ کیسے ہو سکتا ہے!
مرغ واپس مڑ کر کچھ قدم چلا لیکن پھر رک کر کھڑکی کی طرف دیکھنے لگا۔
اوہ۔۔۔ یہ تو واقعی میری طرف دیکھ رہاہے۔ رانا نے حیرت سے سوچا۔
اچانک مرغ نے سر اٹھا کردو فلک شگاف بانگیں لگائیں پھر کچھ دیر بعدایک جھٹکے کے ساتھ واپس مڑا اور بڑے اعتماد کے ساتھ چھلانگیں لگاتا ہواڈھلان پر اترتا چلا گیا۔
جج مظفر علی رانا اسے جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔ جب وہ نظروں سے اوجھل ہوگیا تو اس نے طویل سانس لی۔ وہ
و اپس مڑ کر عدالت کے منبر پر آ یا اوراپنی نشست پر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر تک کچھ سوچتا رہا اور پھر جب سبھی لوگ کمرۂ عدالت سے باہر چلے گئے تو کورٹ کلرک سے بولا،
’’نیکسٹ کیس۔۔۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.