Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

فرشتہ موت سے سوال

پٹتوولا کروناکرن

فرشتہ موت سے سوال

پٹتوولا کروناکرن

MORE BYپٹتوولا کروناکرن

    میں نے تجھے بارہا سمجھانے کی کوشش کی لیکن تو نے کبھی سمجھانے نہ دیا۔ میری تمام ابتدائی کوششیں ناکام رہیں۔ تو کامیابی سے ہمیشہ اتنی آسانی سے بچتی رہی کہ کسی کو یہ محسوس نہ ہوسکا کہ توجان بوجھ کرایسا کرتی ہے۔ تونے اکثر بچوں جیسا سلوک کیا ہے۔

    میں نے تلسی مالا اپنا لی جب بھی تجھے شک نہ ہوا۔ تونے خود مالا کے دانوں کو پرویا۔ تونے ہی مندرمیں جاکر پوجا کرنے پرزور دیا۔ تو نے پوشیدہ طورپردوسروں سے کہا،

    ’’میرے پیارے ذرا بھگوان بھگت ہوگئے ہیں۔‘‘

    بھگوان بھگت! تونے کتنی آسانی سے کہہ دیا۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میرے مذہبی جذبے کا تھوڑا بہت اثر دیکھ کر تو ناز کرتی ہے۔ چار پانچ آدمیوں کویہ بات سمجھائی ہے۔ اس کے علاوہ تونے کچھ بھی نہیں سمجھا۔ تجھے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ میرے حساس دل میں کیسے کیسے جذبات مچل رہے ہیں۔

    میں نے دوسرے آشرم کے سفر میں تجھے ایک شاہد کے روپ میں دیکھنا چاہا۔ میں نے ڈاڑھی بڑھائی، بال بڑھائے۔ کبھی کبھی گانجا پیا اوردوسری نشہ آور چیزیں استعمال کیں۔ تیرا خیال تھا کہ یہ سب نئی نسل کی پیروی کی محض کوشش ہے۔ تونے سوچا کہ تلسی مالا اس کا صرف ایک پہلو ہے۔ اس کے ذریعہ میں پاکیزگی اورمجرد کی طرف لوٹ جانا چاہتا ہوں۔ یہ تیرا کتنا بے رحم خیال تھا۔ میں جب بھی مندر میں داخل ہوا تو تونے مجھے کسی تنہا جگہ پرصرف ایک یاتری کی حیثیت سے کھڑا ہوا دیکھا۔ تونے چھپ کردیکھا ہے، ’’میرے پیارے کیا کرتے ہیں؟ ہاتھ جوڑکر بندگی کرتے ہیں‘‘ بھگوان کی پوجا کرنا اورپرساد لینا تیرا ہی کام تھا نا؟ لیکن اب میں تیرے ہمراہ مندر آنے میں جھجکتا نہیں۔ میری پیشانی پرچندن لگانے کی ہمت اب تجھ میں ہے۔ توجانتی ہے کہ میں منع نہیں کروں گا۔ تونے یہ معلوم نہ کیا کہ مجھ میں یہ تبدیلی کیسے آئی ہے اورکب آئی؟ یہ بھی تجھے معلوم نہیں۔ اگر تو وہ بات جان سکتی تو ہم ایک دوسرے کو سمجھ سکتے۔

    ’’ہم دیکھ لیں گے، کچھ وقت گذر جائے۔‘‘

    پندرہ برس پہلے ہماری شادی کے تیسرے دن، میں نے تیرے ساتھ مندر میں جانے میں اپنی نا پسندیدگی ظاہر کی تو اس وقت تیری بڑی بہن نے جوکچھ کہا تھا وہ ابھی تک مجھے یاد ہے۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے کے شریک بننے اورایک ساتھ مرنے کا عہد کیا۔ وہی وقت تھا نا؟ پھر بھی تیرے بھگوان کے سامنے سربسجود ہونے کے لیے تیرے ساتھ نہیں آیا۔ تونے دل شکنی میں آنسو بہائے۔ میں اس سے متاثر ہوا اور نہ تونے توقع کی کہ وقت گذرنے پرمیں تیرے قبضہ میں آجاؤں گا۔ تیری ہوشیار بہن یہ سب جانتی تھی۔ وقت گزر گیا۔ ہماری ایک بچی پیدا ہوئی۔ وہ بڑی ہوئی۔ تونے اسے شام کے بھجن اورکیرتن سکھائے جنہیں وہ پرزور تال اور لے میں گاتی تھی۔ میں مخل نہ ہوا۔ پھر بھی ہمارے درمیان اختلاف باقی رہا۔ کیا تجھے اس سے انکار ہے؟

    پہلے میں بھگوان کی ہنسی اڑاتا تھا تب توخفا ہوجاتی تھی۔ توگہرے دلی رنج کے ساتھ کہا کرتی تھی،

    ’’دیوتا کے سامنے سر نہ جھکانا کوئی بری بات نہیں لیکن اس کی تضحیک تو نہ کیا کرو۔‘‘

    یہ سنتے ہی میں مشتعل ہوجاتا۔ شدید نفرت آمیز جذبات کے ساتھ بچپن کے تجربات سناتا۔

    ’’جانی نے دیوی کو گالیاں دیں۔ اس سے کیا ہوا؟‘‘

    تونے حقارت آمیز لہجے میں ہی دوبارہ سوال کیا،

    ’’کون ہے وہ بہادر انسان جانی؟‘‘

    بچپن کا ساتھی انگلوانڈین لڑکا۔

    میں نے پوری کہانی سنائی،

    ’’میں ہرسنیچر کوماں کے ساتھ دیوی مندر میں جایا کرتا تھا۔ جائے اور ہاتھ جوڑ کر پراتھنا نہ کرے تو درگا ناراض ہوجاتی ہے۔ چھوت کی بیماری پھیل جاتی ہے۔ لیکن ایک دن جانی نے مندر کے سامنے اپنے سارے کپڑے اتار دییے۔‘‘

    ’’میں سننا نہیں چاہتی‘‘

    میں پھر بھی کہتا رہا۔

    جانی اور میں مندر کے میدان میں کبوتر اڑا رہے تھے۔ میرا کبوتر اڑتے اڑتے سفید بادلوں کے پیچھے چھپ گیا اور جانی کا کبوتر اڑتے اڑتے دیوی مندر کی چھت پر اتر آیا۔ اس کے غصے کا ٹھکانہ نہ رہا اس کے ہاتھ میں غلیل تھی۔ اس نے سیاہ پتھر سے بنی دیوی کی مورتی کو نشانہ بنا کر پتھر پھینکا۔

    اس دن جانی کے منھ سے جو گالیاں نکلیں وہ میں نے تجھے سنائی نہیں۔ وہ تیرے سننے کے قابل نہ تھیں۔ دیوی نے ضرور سنی ہوں گی۔ مجھے چیچک نکلی۔ اٹھائیسویں دن جب مجھے غسل صحت دے کر، دھلے کپڑے پہنا کر باجے گاجے کے ساتھ دیوی مندرکا طواف کرایا گیاتو جانی کو یہ سب تماشا لگا۔

    اب بھی میرا زیادہ مطالعہ کرنا یا کمرے میں تنہا ڈاڑھی کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے چھت کی طرف دیکھتے رہنا تجھے پسند نہیں ہے۔ تونے زبردستی مجھ سے کتابیں چھین کر چھپا دیں۔ میں نے احتجاج میں کچھ بھی نہ کہا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ لکھنے پڑھنے کی عمر گزر گئی۔ میرا یقین بھی نہیں ہے کہ اب مطالعہ سے ذہن وسیع ہوگا۔ دراصل اب توروح کونجات چاہئے تاکہ دوسرا جنم نہ ہو۔ میں بہت دیرتک خاموش بیٹھتا تو تومجھے حیرت سے دیکھ کر پوچھتی تھی،

    کیاہوا؟

    میں خاموش رہتا۔ جواب نہ دیتا تو اور بھی زیادہ برہم ہو جاتی۔ میرا خاموش رہنا اور آنکھ بچا کر تجھے دیکھتے رہنا تو برداشت نہ کرسکتی تو مجبور ہوکر ریڈیو بجانے لگتی۔ برتنوں کو توڑ کر انہیں ٹکڑے ٹکڑے کر دیتی۔ مگر پھر بھی کیا تو نے مجھے غصہ کرتے دیکھا ہے؟ وسیع چہاردیواری سے گھرے بنگلے میں جانی رہتا ہے۔ بنگلے کے فرش پر سنگ مرمر لگا ہے۔ دیوار پر حضرت عیسیٰ کی خوبصورت تصویر آویزاں ہے۔ کانٹے کی صلیب دیکھنے میں بھی خوبصورت تھی۔ ہراتوار کو جب جانی گرجاگھر جاتا تو کوٹ پتلون پہن لیا کرتا تھا۔ اس پراسے بہت ناز تھا۔ اس کی بڑی بہن ڈیانا بھی ساتھ جاتی تھی۔ ڈیانا اپنی دادی کے دیے ہوئے قیمتی کپڑے پہنتی تھی۔ اتنا اچھا کپڑا میں نے کبھی دیکھا نہیں تھا۔

    جب میں جانی کی تلاش میں اس کے بنگلے میں جاتا تھا، تب مجھے ڈیانا اندر لے جاکر طشت بھر کرکیک کھلاتی تھی۔ زیادہ تر وہ آئینہ کے سامنے بیٹھی رہتی تھی۔ میزپر آرائش کے سامان قرینے سے سجے ہوتے۔ کمرے میں کیوٹی کیورا پاؤڈر اور ویسلین کی خوشبو چاروں طرف پھیلی ہوتی۔ ڈیانا مجھے کبھی کبھی بلا کر ناخنوں پرنیل پالش اورگالوں پر یوڈی کولون لگا دیتی۔ جانی کہیں نظر نہ آتا۔ میری خواہش اس سے لگ کرکھڑے ہونے کی ہوتی۔ ڈیانا اپنے بالوں میں تیل نہ لگاتی۔ شانوں تک بکھرنے والے بالوں کو برش سے سنوارتی ہوئی وہ مجھ سے کہتی ’’ذرا وہ ربن دینا‘‘ اندر کمرے سے لگاتار گفتگو کی آوازکانوں میں سنائی دیتی۔ مجھے معلوم تھا کہ وہ جانی کی ماں ہے۔ ان کا کمرہ بند رہتا۔ وہ کس سے باتیں کرتی ہیں؟ کیونکہ کسی اور کی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ پھر بھی ان کی باتیں ختم نہ ہوتیں۔ میں نے انہیں کبھی گرجاگھر جاتے نہیں دیکھا۔ گرجاگھر کے پادری کبھی کبھی بنگلے میں آیا کرتے تھے۔ میں جانی کی ماں کوایک بار دیکھنا چاہتا تھا۔

    ایک دن باہر کوئی نہیں تھا۔ میں نے زور سے آواز دے کر جانی کو بلایا۔ اچانک دوڑکر آتی ڈیانا پرمیری نظر پڑی۔ قریب آکر ہی میں نے معلوم کیا کہ وہ ڈیانا نہیں تھی۔ مگرجانی اورڈیانا سے بہت مشابہت رکھتی تھی۔ انہوں نے میرا شانہ پکڑکر پوچھا جو میری سمجھ میں نہ آیا۔ انہوں نے ہنستے ہوئے میرا گال نوچ لیا۔ یکایک ان کی آنکھوں میں خوف نظر آیا اور میں نے محسوس کیا کہ وہ ایک دم سمٹ گئیں۔ مڑ کرجو دیکھا تو ایسا لگا کہ ڈیانا چھڑی پکڑے مارنے کے لیے میرے پیچھے کھڑی تھی۔ وہ فرماں بردار بچے کی طرح کھلے دروازے کی طرف چلی گئیں۔ ڈیانا انہیں کمرے میں بند کرکے واپس آئی اور مجھ سے کہا،

    ’’ارے کسی سے کہنا نہیں سمجھے؟‘‘

    بال منڈائے زعفرانی لباس پہنے جوگی مجھ سے ملنے لگاتار تین دن آئے۔ تو نے اس پرتوجہ کی۔ تو رات بھر جاگتی رہی۔ صبح ان جوگیوں کے جانے پر تونے دریافت کیا،

    ’’کون تھے؟‘‘

    ’’جوگی!‘‘

    ’’مجھے معلوم ہے‘‘

    آج کل تو کتنی جلدمشتعل ہوجاتی ہے۔ شاید دل کو کھول کرسب کچھ بتانے کا مناسب موقع تھا لیکن یہ سمجھ لینے کی خواہش تیرے چہرے پرنظر نہ آئی کہ مطالعہ ترک کرکے میں کیوں گرو کی تلاش کرتا ہوں؟ نجا ت دینے والا انسان کون ہے؟

    ایک بارمیں نے تجھ کو سب کچھ بتانے کی ٹھان لی۔ اس دن تو اچھے موڈ میں دکھائی دی، میں نے سوچا یہ مناسب موقع ہے۔ میں نے مناسب جملے اور ترتیب بھی سوچ لی تھی۔

    ’’رشی کیش چلیں؟‘‘ میں نے شروعات کی۔

    ’’رشی کیش میں کیا ہے؟‘‘ تونے فوراً میری ابتدائی گفتگو پرہی روک لگا دی۔ تیرے ردعمل کوخاطرمیں لائے بغیرمیں نے کہنا شروع کیا تھا۔ یہ میری خامی تھی۔

    پھرمجبورہوکر میں نے بچہ کی طرح ضد کی ’’مجھے سنیاس لینا ہے‘‘ تو قہقہہ لگا کر ہنس پڑی۔

    ’’اوہو۔ ایسا ہے تو میں بھی آتی ہوں!‘‘

    تونے اس عمر میں بڑے تماشے دیکھے ہوں گے۔ زیرلب مسکراہٹ سے تونے میرا مذاق اڑایا۔

    لیکن جب میں نے اپنی خواب گاہ میں گیرو ارنگ کروا یا تو تجھے بہت اچھا لگا۔

    ’’دلآویز رنگ!‘‘ تونے کہا۔

    تونے اپنی سہیلیوں کو بلایا اوررنگ کی دلآویزی دکھانے لگی۔ انہوں نے بھی اس رنگ کو پسند کیا۔ خوابگاہ کے قابل رنگ!

    تونے اس پرفخر کیا۔

    تونے ان کو بتایا کہ یہ میرے پیارے کا ہی انتخاب کردہ رنگ ہے، لیکن جب میں نے تجھ سے اپنا بستر کمرے سے لے جانے کی گزارش کی توتونے کیا کہا تھا! یاد ہے نا؟

    میں یہ آشرم چھوڑنے کا فیصلہ کرچکا ہوں۔ طویل سفر پہ گھر سے نکلتے وقت مجھے روکنا نہیں۔ وید کے دوحصے ہیں۔ عمل اورگیان۔ میں دعویٰ نہیں کرتا کہ میں نے فرائض اور اعمال کو پورے طور پرادا کیا ہے۔ ہماری بیٹی سیانی ہورہی ہے۔ مجھے رخصت لینے کی ضرورت نہیں۔ میرے گیان حاصل کرنے کا وقت آگیا ہے۔ میں باہر نکل رہا ہوں۔ نچکیتا نے فرشتہ موت سے جوکچھ دریافت کیا تھا، وہی مجھے پوچھنا اور جاننا ہے!

    صحیح اورغلط کے علاوہ اور کیا ہے؟

    عمل اورانجام سے ماورا کیا ہے؟

    ماضی حال اور مستقبل کے اُس پارکیا ہے؟

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے