موت کے بارے میں مجھے سب سے پہلے کارتّونام کی ایک دائی نے ہی بتایاتھا۔ جھریاں پڑاہواچہرہ اورلٹکے ہوئے پستان والی کارتّودائی۔
بیس سال پہلے برسات کی بھیگی ہوئی ایک رات کومیں اپنی ماں سے لپٹاپڑاتھا۔ میرے چاروں طرف زچگی کی بوتھی۔ زچگی کی تکلیف سے بے ہوش ماں کی چارپائی کے نیچے بوڑھی کارتّو پان چبارہی تھی۔ جب وہ سرہلاتی تو اس کے لمبے کانوں کے آویزے بھی ہلتے۔ صرف ایک انگوچھے سے اس کی پستان ڈھکی تھی جس کی کھال سوکھی اورسکڑی پڑی تھی۔
کچھ دیرکے بعد جب ماں نے آنکھیں کھولیں تب کارتّونے کپڑے میں لپٹے مجھ نوزائیدہ کواٹھاکردکھایا۔
’’کلیانی اماں تیرے لڑکاہواہے۔‘‘
اس کے بعداپنے گندے اورلال ہونٹوں کومیری پیشانی پررکھ کرپھسپھسانے لگی اور کہا، ’’لڑکاپیداتوہواہے لیکن اسے بھی مرنا ہے۔‘‘
ماں نے یہ نہ سنا۔ پہلی زچگی کی تکلیف بھرے احساس میں اسے پھرنیندآگئی۔
کارتو نے میرے کان میں کہا، ’’بیٹا کیا تجھے موت عزیز ہے؟‘‘
میں نے سرہلایا۔
’’پھرتوکیوں پیداہوا؟‘‘
مجھے اس کاجواب نہ سوجھا۔ کاش میں کہہ سکتا، ’’تومجھے کھینچ لائی، اس وجہ سے میں پیداہوا۔‘‘ لیکن میں بول نہیں سکتاتھا۔
کئی سالوں کے بعدہی میں نے الف بااور اے بی سیکھاتھاتب تک میرے افکارنے حروف کی شکل اختیارنہیں کی تھی۔ وہ صرف تصورہی تھے۔ مختلف شکلوں اوررنگوں میں وہ تصویریں میرے ننھے دماغ میں کروٹیں بدلتی تھیں۔ میں نے پانچ سال کے بعددرخت پرچڑھنے کافن سیکھا۔ ان دنوں ہی ایک شام کومیں نے کارتو کی موت ہوتے دیکھی۔
وہی کارتومرگئی جس نے میری موت کی بات کہی تھی۔ مجھے اس بات پرغصہ بھی آیا اور ہنسی بھی۔ موت دروازے کے اندرچھپی رہتی تھی۔ یہ جانتے ہوئے بھی میں اس کی موت کے تھوڑے دنوں پہلے اس کٹیامیں داخل ہوا۔
گوبرسے لپی زمین پرایک چٹائی پرکمبل بچھاتھا، جس پرکارتو دائی بے جان سی پڑی تھی۔ اس کے سرہانے کانس کا ایک چراغ جل رہاتھا۔ اس بوڑھی کے تین بیٹے باہر کے برآمدے میں بیٹھے بیڑی پھونک رہے تھے۔ بھوانی نام کی بیٹی کوکوئی بلانے گیاتھا جوجنوبی ریاست میں کہیں رہتی تھی۔ صحن کے ایک کونے میں اُپلے اورناریل کے چھلکے رکھے تھے۔
چیتن 1 رام نایرگھڑی پہنے رسوم میت کرانے کے انتظار میں بیٹھاتھا۔ وہ باربار گھڑی میں وقت دیکھتا۔ جنوبی سمت میں پڑوس کے کچھ نوجوان چتاتیار کرنے میں مشغول تھے۔
سب انتظارمیں تھے۔
مجھے ڈرلگا۔ موت ایک کالے گدھ کی شکل میں بازوپھیلائے گھرکے اوپرمنڈلارہی ہے، ایک جنگلی بھینسے کی شکل میں باہرغرا رہی ہے۔ موت گلے میں پھنسائی جانے والی رسی بن کر باغ میں کہیں سکڑی پڑی ہے۔ چاروں طر ف موت کی بو۔ اس گھر کے سب لوگ اس کے چنگل میں ہیں۔ موت کی بری نگاہ کہیں غلطی سے کسی دوسرے پرپڑگئی توکارتو بچ جائے گی اوروہ ماراجائے گا۔ اس کے پہلے کہ اورکوئی حادثہ ہومیں ہڑبڑااٹھا۔ وہاں سے کہیں بھاگ نکلنے کی سوچی۔
مسرت بھری آوازمیں چیخ اٹھا، کارتواماں۔
میری چیخ سن کرکونے میں مطمئن بیٹھی دوبوڑھیوں نے سراٹھاکردیکھااورپوچھا، ’’کیوں بیٹاشام کوتویہاں کہاں کھڑاہے؟ماں تجھے ڈانٹے گی نہ؟‘‘
میں نے ہمت سے کہا، ’’نہیں نہیں، میں کارتو کی موت دیکھنے آیاہوں۔ میری موت کی بات اس نے کہی تھی۔ اس لیے ہی مجھے اس کی موت دیکھنی ہے اورمجھے اس سے پوچھناہے۔۔۔ بوڑھی تم اب مررہی ہو نہ؟‘‘
میں نے پوچھ تاچھ کی، ’’بوڑھی کے مرنے میں کتنی دیر ہے؟‘‘
بوڑھیوں میں سے ایک نے چھینک کرکہا، ’’ایسا نہ کہو بیٹا، اس دنیا کوچھوڑنااتناآسان نہیں، دنیا کا بندھن جکڑ کرپکڑتاہے۔ ڈھیلا کرنے پربھی ڈھیلانہیں ہوتا۔ کاٹنے پربھی نہیں کٹے گا۔‘‘
میں نے بوڑھی کے پاس گھٹنے کے بل بیٹھ کر ہلکی آواز میں پکارا، ’’کارتواماں!‘‘ آوازدینے پرانہوں نے آنکھ کھولی۔
میں نے سوال کیا، ’’تم کب مروگی؟‘‘
وہ ہلکی آوازمیں بولی، ’’جب خدا بلائیں گے تب ہی چل بسوں گی بیٹا!‘‘
’’کیاتمہیں موت عزیز ہے؟‘‘
’’نہیں بیٹا، بھوانی کی بیٹی کی شادی دیکھے بغیرکیسے مرجاؤں؟‘‘
’’پھرتم نے میری موت کی بات کیوں کی تھی؟‘‘
’’بیٹا توبھی جلدی ہی مرجائے گا۔ چلناہے۔ چل، میں تجھے لے چلوں۔‘‘
بوڑھی کارتوکی پھیلی آنکھیں چمک اٹھیں۔ اس میں ایک عجیب چمک تھی۔ اس نے مجھے ڈرایا۔ بوڑھی میری مو ت کی پھرپیشین گوئی کررہی ہے۔ وہاں سے کہیں بھاگ کربچ نکلنے کے لیے دل چاہا۔ جب پیدائش ہوئی تھی تب میں نے کہا تھا کہ مجھے مرنے کاخوف نہیں، مگراب مرنے سے ڈرلگتاہے۔ اس بوڑھی سے بہت سی باتیں پوچھنے اور سمجھنے کی خواہش ہوئی۔
’’میں کب مروں گا؟کیسے مروں گا؟
تب تک کارتو کابدن یک بیک کانپ اٹھا۔ سرایک طرف ڈھلک گیا۔ منھ کھل گیا۔ اسی لمحے ایک کالامرغاباہرچیخ اٹھا۔ دوسرا کالامرغا بھی چیخا۔ سارے باغ میں عزرائیل کاصورگونج اٹھا۔ بوڑھی کی آنکھیں، ادھ کھلی ہیں۔ بوڑھیوں نے اٹھ کر اپنی اپنی آنکھیں پونچھ لیں اورہلکے ہلکے سسکتی رہیں۔ جوبیٹے برآمدے میں بیٹھے بیڑی پی رہے تھے وہ دوڑکرآئے۔ رامن نائر نے گھڑی میں دیکھ کرلمبی سانس لی۔ میں اپنے آپ کواتنامضمحل محسوس کرنے لگا جیسے میں کوئی خوفناک خواب دیکھ کرابھی جاگاہوں۔ جس بوڑھی دائی نے بتایاتھا کہ میں مرجاؤں گا، وہ مرگئی۔ اس کے ساتھ وہ رازبھی مرگیا۔ مجھے اب کسی سے بھی اس کے بارے میں کچھ نہیں کہنا۔ وہ بات اب کوئی بھی نہیں بتاسکتا۔
میری پچھلی یادیں جاگ اٹھیں۔ دسویں سالگرہ کے دن کی باتیں یادآئیں۔
برسات کی ایک شام کوجب میں اسکول سے آرہا تھا تب کوٹیل نام کی پہاڑی کے بغل سے کسی نے مجھے پکارا، ’’اپوکٹا۔۔۔‘‘
میں نے چاروں طرف دیکھا، وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ تھوڑی دیر میں رات ہونے والی تھی۔ جس مندرکے میدان میں لڑکے کھیلنے کے لیے جمع ہوتے تھے وہ خالی پڑاہے۔ کاجو کے درختوں سے اب بھی پانی کے قطرے ٹپک رہے ہیں۔ مجھے کچھ ڈرلگا۔ پانی برسا۔ شام کی سیاہی آگے بڑھتی جارہی ہے۔ اگرمیں شام سے آگے نہ بڑھا تو تاریکی کے گڈھے میں جاکرپھنسوں گا۔ اس طرح میں ہڑبڑاکراورتیزبھاگا۔ پھروہی آواز آئی، ’’اپوکٹا۔۔۔‘‘ اس بارمیں نے دیکھاکہ کاجو کے درخت کی شاخ پرایک کالی چڑیاچونچ پھاڑکے کوک رہی ہے۔ میں نے اچانک مڑکرپوچھا، ’’تجھے کیاچاہئے؟‘‘
’’کیاتومجھے پہچانتا ہے؟‘‘
’’نہیں!‘‘
’’نہیں، ایک باراوریادکرکے دیکھو۔‘‘
’’نہیں، مجھے تیرے بارے میں ذرابھی یادنہیں۔‘‘
پرندہ چونچ کھول کرزوردارجوشیلے جذبے سے ہنس پڑا۔ اسی درمیان کاجو کے باغ میں بارش ہوئی۔ پرندوں کا ایک جھنڈ شورکرتا اڑگیا۔ برسات کی بوچھار سے پتے جھڑگئے۔ اوپرسے آئی ہوا کے جھونکوں میں پتے اڑتے رہے۔ میرا سارابدن بھیگ کر سرد ی سے ٹھٹھراٹھا۔ دانت کٹکٹانے لگے۔
’’مجھے پہچانتانہیں، نہیں؟ ہ۔۔۔ ہ۔۔۔ ہ۔۔۔ میں ہی تجھے ماں کی کوکھ سے باہر لائی۔ توبھول گیاکیا؟‘‘
خوف کی وجہ سے میں کچھ بول نہ پایا اور کھڑا کا کھڑا رہ گیا۔ بارش سے، کوٹیل نام کی پہاڑی کی ہواسے، کالی چڑیا سے بچنے کے لیے میں ایک آم کے درخت کے نیچے ایک محفوظ مقام ڈھونڈہی رہاتھا کہ وہ لفظ پھرایک بار اورسنائی پڑا، ’’اپوکٹا۔۔۔ ایک باراورادھر دیکھ۔‘‘
میں نے دیکھا۔
پرندہ کے لمبے کانوں میں آویزے ہلتے دکھائی دیے۔ پانی کے رنگین سرخ ہونٹوں کے اوپرجھریاں پڑی کھال۔
یادوں نے مجھے ایک بارپھرقید کرکے شکست دی۔
’’اپوکٹا، آتجھے میں لے جاؤں گی۔‘‘
’’نہ، نہ۔۔۔‘‘ میں ڈرا، بغیرمڑے دوڑتا ہی گیا مگرپھربھی پیچھے پیچھے پرجوش ہنسی سنائی پڑتی رہی۔
’’بچنے کی کوشش نہ کرنا، میں پھرکبھی آؤں گی۔‘‘
گھرپہنچتے ہی میرے منھ سے جھاگ آنے لگا۔ میں مضمحل ہوکرگرپڑا۔ تین دن اسی حالت میں پڑا رہا۔ بخار کی تپش میں جھلستا رہا۔ ماں نے کہا، ’’ڈرگیاہوگا۔‘‘ وہ بے اختیار روپڑیں۔
تب گوپال عامل آیا۔ بھینگی آنکھ والاگوپال عامل۔ اس نے زائچہ کھینچا۔ کوڑی برابررکھی۔ تب میری گرہوں کی چالیں اس نے سمجھ لیں۔ انہوں نے اس کے دل میں رنگین تصویرنقش کی۔ اس تصویر کوزمین پربھی بنایا۔ مرے ہوئے لوگوں کی ارواح اورکالے پرندوں کوڈرایا، دھمکایااورشکارکیا۔
آخر میں مجھے پتہ چلا۔
’’عمرکی بری حالت ہے۔ موت کبھی بھی آسکتی ہے۔ آج یاکل۔‘‘
ماں سسک سسک کرروئی۔ بڑے انتظار اورمنت کرکے حاصل شدہ بیٹے کی زندگی کی مدت غیریقینی ہے۔ آج یاکل خطرناک موت ہونے والی ہے۔
کارتو دائی نے جوکچھ کہاتھا وہ ٹھیک ہی نکلا۔
کاجو کے باغ والی کالی چڑیانے جوکہا وہ بھی صحیح ہے۔ آج یاکل۔۔۔ بغیر تاخیر میں نے اپنی زندگی کے لمحے گنے جوپتنگوں کی مانند اڑتے اڑتے جھڑبھی گئے۔
گوپال عامل نے یقین سے کہا، زمین پرہی حادثہ ہوگا۔ پانی میں محفوظ رہے گا۔
اسی وقت سے مجھ پر پابندی لگ گئی۔ پہرے دارمیرے لیے رکھا گیا۔ اسکول جاتے پڑوس کے دوبچے میرے ساتھ پہریدار کی شکل میں جانے لگے۔ تعطیل کے دنوں میں گھرکے نوکر پنکنی نایر کی سرخ آنکھیں میری حفاظت کے لیے چاروں طرف گھومتی رہیں۔ درخت پر چڑھنے کی اجازت نہیں تھی۔ کٹہل، آم اور امرود کے درختوں پرموت کا خطر ہ ہے۔ پانی سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ نہاسکتاہوں، تیرنے جاسکتا ہوں۔
یوں دن آگے کی طرف بڑھتے گئے۔ ماضی کی شام کی طرف، یادوں کی شام کی طرف۔
پندرھویں سال گرہ کا دن آیا۔
ایک دن ایک گوسائی میری تلاش میں بغیربلائے مہمان کی طرح چلاآیا۔ ڈیوڑھی کے فرش پرآبیٹھا۔ گٹھری نیچے رکھی۔ اس کی پیشانی پرراکھ لگی تھی۔ بیج میں کم کم کی ایک بڑی بندی بھی تھی۔ اس کاچہرہ سرخ تھا، ہونٹ بھی سرخ تھے اورکانوں کے کنڈل بھی سرخ۔
میری طرف گھورکردیکھتے ہوئے بناوٹی ہنسی ہنس کراس نے پوچھا، ’’یاد ہے؟‘‘
’’نہیں!‘‘
’’یادتوکرکے دیکھ۔‘‘
’’نہیں بالکل یادنہیں آتا۔‘‘
اس نے اپنی تھیلی سے ایک چٹکی راکھ لے کرمیرے چہرے پرپھونک ماردی۔ میری آنکھیں دھندلی پڑگئیں۔ چہرہ مضمحل ہوگیا۔
میری یادیں سالوں کے کیلے کے چھلکوں کی گزری ہوئی بات کی طرف واپس گئیں۔ اس وقت میں نے اس چہرے پرکارتودائی کی شکل دیکھی۔ برسوں پہلے اس ٹوٹی پھوٹی کٹیامیں چارپائی پردیکھا ہواوہی چہرہ راکھ لگایاچہرہ، ادھ کھلی آنکھیں اس نے مجھے گھورکردیکھا۔ آنکھیں چارہوئیں۔ اس مقناطیسی طاقت سے میں فریفتہ ہوا۔
’’اب یادآیا؟‘‘
’’ہاں!‘‘
’’اب، کہاں مجھ سے ملے تھے؟‘‘
’’سالوں سے۔۔۔ پیدائش سے۔۔۔‘‘
آنکھیں باہم رازدارانہ باتیں کرنے لگیں۔ بوڑھی کارتو کی بھرائی ہوئی آواز سنائی پڑی، گویا ایک بارپھر وہ یاددلانے کے لیے آئی ہے۔ ایسا معلوم ہوابوڑھی کی آوازبددعا کی زنجیربن کرمیرے سامنے آرہی ہے۔
پیداہوتے ہی موت کے بارے میں اس نے مجھ سے کہاتھا۔ مرنے سے پہلے ایک بار اور یاددلایاتھا۔ اب پھریاددلاتی ہے۔
دائی کارتو بھوت بن کرکیوں زندگی کومتاثرکرتی ہے۔ کیا میری زندگی اورموت کا وقت متعین کرنے کا حق اسے اس لیے دیاگیا ہے کیوں کہ اس نے ہی مجھے اس دنیا میں گھسیٹ لانے کا کام کیاتھا۔ وہ دائی ایسا نہ کرتی توکیاماں مجھے پیدانہیں کرسکتی تھی۔ ماں کی بڑی کوکھ میں دم گھٹ کرایک سڑے ہوئے بیج کی شکل میں میری بربادی ہوجاتی۔
گوسائی تمسخرآمیز آوازمیں ہنس پڑا۔ چٹکی بجاکراشارہ سے مجھے پکارکرپوچھا، ’’چلے گا میرے ساتھ؟‘‘
’’نہیں، نہیں۔‘‘
’’پھرکب آئے گا؟‘‘
’’دسویں درجہ کے امتحان کانتیجہ آنے کے بعد۔‘‘
’’اچھا، میں تب ہی آؤں گا۔ یادرکھنا۔‘‘
’’نہیں، نہیں۔۔۔ یہاں کبھی مت آنا۔ مجھے تمہاراچہرہ کبھی نہیں دیکھناہے۔ کارتو ایک بارایک کالی چڑیابن کرکاجو کے درختوں پرآبیٹھی تھی۔ اب ایک گوسائی کی شکل بدل کرآئی۔ اب اس گھرمیں کبھی نہ آنا۔ اگرادھرآئی توچیخ چلاکرغل مچاؤں گا۔ لوگ تمہیں مارڈالیں گے۔‘‘
ہ۔۔۔ ہ۔۔۔ ہ۔۔۔ اس کی وہ بے مزہ ہنسی باغ میں ہرجگہ گونج گئی۔ برسوں پہلے کٹیامیں جولفظ سنائی پڑے تھے وہی لفظ باہرکالے مرغے چلااٹھے۔ عزرائیل کے صورکی آواز۔
بھینسے کاغرانا۔
میں زور سے رودیا۔
ماں اوربڑی بہن دوڑی چلی آئیں۔
’’کیا ہوااپوکٹا؟‘‘
’’گوسائی گوسائی۔۔۔‘‘ میں نے پھاٹک کی طرف اشارہ کیا۔
’’گوسائی کہاں ہے؟‘‘
پھاٹک کھلاپڑا تھا۔ وہ جاچکاتھا۔
’’کہیں کچھ دیکھ کرڈرگیاہوگا۔ ایسا بھی کیا ڈرنا۔ ہم نے ایسا ڈرپوک کبھی دیکھاہی نہیں۔‘‘
میں تھراگیا۔ پرانی یادیں میرے لیے بددعابن گئیں۔
میں پھر آگے بڑھا۔ یادو ں کی شام کی طرف۔
میری عمر کے لمحے جھڑرہے تھے۔ مرجھائے پھول کی مانند، پکے پتے کی طرح۔
اسکول چھوڑکرکالج میں داخل ہوا۔ نیکر کے بدلے دھوتی پہننا شروع کیا۔ جوانی آئی۔ ناک کے نیچے بال اگے، یہ گھنے بھی ہوئے، کہیں موت ہوتواب وہ آکرتودیکھے، میں اس کا مقابلہ کروں گا۔
ماں ایک نئے عامل سے ملی اوریہ پتہ چلایاکہ زمین پرنہیں مجھے پانی میں خطرہ کاسامنا کرناپڑے گا۔ اس لیے پانی سے ہوشیار رہناہے۔ تمہارالڑکاکتنا ہی بڑاکیوں نہ ہوجائے، اسے پانی کی طرف تنہاکبھی نہ جانے دینا۔ اگر وہ پانی میں گیاتوخواہ کتناہی کم پانی کیوں نہ ہو، آبی شیطان اسے گہرائی کی طرف گھسیٹ کرلے جائے گا۔
مجھے دریاکی طرف جانے کی ممانعت تھی۔ بیسویں سالگرہ کے دن مجھے درختوں پرچڑھنے کی اجازت مل گئی۔
اسی دن بیلچپا 2 کی بیٹی رادھاسے میراتعارف ہوا۔ سانولا سلوناچہرہ، منھ پرجوانی کے مہاسے، گویااس کی جوانی ابلی پڑرہی تھی۔ جلسہ میدان کے اس پاردرگادیوی کے مندرکے اس پار ٹوٹے پھوٹے پتھرکے چبوتروں کے پیچھے دریا کے گھاٹ پرہم دونوں روزانہ شام کوملاکرتے تھے۔ شام کورادھا نہانے آیاکرتی تھی۔ دریاکے ساحل پراورکوئی نہ ہوتاتھا۔ موٹے گول مٹول بدن والی رادھا کمرتک پانی میں انگیاپہنے نہایاکرتی۔ میں کنارے پراس کے انتظار میں رہتا کیوں کہ مجھے پانی میں اترنے کی اجازت نہیں تھی۔ مجھے بتایاگیاتھا کہ میری موت پانی میں ہوگی۔ میرے اوررادھا کے درمیان ایک سرحدی لکیر ہے۔ پانی کی ایک باریک لکیر۔ اسے پھلانگوں گا تو موت ہوجائے گی۔
وہ ایک پرفریب ہنسی سے بھیگے کپڑے پہنے پانی میں کھڑی ہوکرمجھے اشارہ کرکے بلاتی۔ اس کے لعن وطنز میں نہ پھنسنے کی خواہش سے میں کنارے پرہی مضبوطی سے کھڑارہتا۔ نہانے کے بعدمیری طرف دیکھے بغیرہی وہ چل دیتی۔ اسے پانی میں ہی میری ضرورت ہے زمین پرمیری ضرورت نہیں۔
ایک شام جب اس نے پہلے پہل اپنی انگیا اتاری تب میں نے بھی سرحدی لکیر کی خلاف ورزی کی۔
دریاکے ساحل کی ریت پررادھاہانپتی سی لیٹ گئی۔ دونوں آپس میں ہم آغوش ہوگئے۔ میرے بدن کی گرمی سے وہ لوٹ پوٹ ہوگئی۔ محبت کے فوارے پھوٹ نکلے۔ ایک آبی شیطان کی طرح وہ پانی کی طرف لڑھکتی چلی گئی۔ میں بھی ساتھ ہولیا۔
پہلی ملاقات کی مستی میں وہ پانی میں کودپڑی۔ وہ پانی میں مزے لیتی رہی۔ پانی پھلجھڑی کی شکل میں پھیل گیا۔ تب اس کاچہرہ بھی غائب ہوگیا۔ مگراس کی مست ہنسی اورہانپنے کی سائیں سائیں سنائی پڑرہی تھی۔ شام کی آخری کرن بھی پانی میں چھپ چکی تھی۔ ہلکے اندھیرے میں کالاپانی پھیلتا بکھرتامعلوم دیتا۔ میں تشنہ کام اور مایوس ہوکراپنی سرحدی لکیروں کوپارکرکے پانی سے ہوکر آگے سرکتا رہا۔ ہاتھ پیر چلاتے چلاتے اس کی تلاش میں دوربہت آگے بڑھ گیا۔
اندھیرے میں میری آنکھیں دھندلی پڑگئیں، پانی کی لہروں میں سے مجھے وہ لفظ پھرسنائی پڑا، ’’اپوکٹایادہے؟‘‘
میں چونک اٹھا۔ کتنے خوفناک تھے یہ لمحے۔ وہ لمحے جومیرا شکار کررہے تھے۔ پانی کی کالی پھلجھڑیاں آنکھوں کے سامنے بکھرگئیں۔ میرے چہرے پرپانی کے ابال کاطوفان پھرآیا۔
عورت کابھرایالفظ، ’’اپوکٹا! میرے ساتھ آئے گا؟‘‘
ہ۔۔۔ ہ۔۔۔ ہ۔۔۔
میں سرسے پیرتک تھرتھرکانپ اٹھا۔ سربھاری ہوگیا۔ ہاتھوں پرشیطان بھرپورطاقت سے کھرونچیں ماررہاتھا۔ نہیں، اسے دوہرانے نہ دیاجائے گا۔ کارتودائی بن کر، کالی چڑیابن کر، رادھا کی شکل میں آبی شیطان بن کر۔۔۔
نہیں
نہیں
نہیں۔
جنون اوربڑے جوش کے ساتھ میں آگے کی طرف کودپڑا۔ پانی کی لہریں کیلے کے چھلکے کی مانندپھٹ گئیں۔ کالی چڑیا کا گلاگھٹ گیا۔ بھاری سرلیے کنارے کی طرف دوڑآیا۔ اگرچہ اس وقت میں کانپ رہا تھا، پھربھی مجھے غیرمعمولی طاقت کا احساس ہورہا تھا۔ میں موت کابندھن کاٹ چکاہوں۔ پیچھے پڑنے والا سایہ دورہٹ گیا۔
اگرچہ میں اب امن سے تھا۔ کل میراوکیل آیا۔ کٹہرے کے اس پار، ایک تماش بین کی طرح اس نے کہا، ’’موت سے بچناناممکن ہے۔‘‘ آخری درخواست کی بھی تحقیرہوئی۔
میں نے کل رات کارتودائی کاوہ بھرایاہوالفظ پھرسنا۔ کٹہرے کے باہرسے، دیوارکے باہرسے، وہ مجھے ڈھونڈتارہا۔
اپوکٹا میرے ساتھ چلتے ہو؟
’’ہاں، ہاں۔‘‘ میں چلاٹھا۔
حواشی
(۱) کیرل میں چیتن نائر قبیلے کا چیتن نام والاہندوآخری رسوم کراتاہے۔
(۲) دیوتا کے بس میں پڑکررقص کرتے کرتے پیشین گوئی کرنے والا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.