Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

فرشتے کے آنسو

بلند اقبال

فرشتے کے آنسو

بلند اقبال

MORE BYبلند اقبال

    چھت کے کونے پہ مکڑی کے جال میں پھنسی ہوئی ایک مکھی اپنی زندگی کی آخری لڑائی لڑ رہی تھی اور فرش پر بیٹھا ہوا ایک فرشتہ جس کا کل وجود محض ایک قلم اور دوات تھا، اسے تک رہا تھا۔ میز کے کونے پہ پڑی دوا ت اور اس میں ڈوبا ہوا قلم۔۔۔ کمرے کے کسی مکیں کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایک فرشتہ کسی استعارے کی شکل میں وہاں موجود انسانوں کی سرنوشت کو پڑھ رہا ہے اور اپنے رب الجلیل کے لیے قرطاس کی جبیں پہ ان کی تقدیر لکھ رہاہے۔۔۔ کچھ دیر بعد فرشتے نے اکتا کر چھت سے نظر ہٹائی اور پھر خالی خالی نظروں سے کمرے کو تکنے لگا۔

    کمرے میں دوائیوں کی گھٹی گھٹی بساند بو پھیلی ہوئی تھی، دیواروں کا چونا پپڑیابن بن کر اتر رہا تھا، دروازے کھڑکیوں کے باریک جال دار پھٹے ہوئے پردے ہوا کے جھوکوں سے اٹکھلیاں کر رہے تھے، کمرے کے کونے میں ایک پرانی سنگار میز رکھی تھی جس میں جڑا ذنگ آلود آئینہ گزرے ہوئے وقت کی چغلی کھا رہا تھا۔ کمرے کے ایک کونے میں ایک لکڑی کی الماری تھی جس کا آدھا ٹوٹا ہوا پٹ الماری کے اندر کا کچھ کچھ حال دکھارہے تھے۔۔۔ دواؤں کی نئی پُرانی بوتلیں، سرنجوں کی تھلیاں، گرم پانی کا مرتبان، چھوٹے بڑے تولیے اور سفید سوتی چادریں۔ کمرے کے بیچوں بیچ ایک پرانی وضع کی مسہری تھی جس کے اصل نقش و نگار محض دیمک کی غذا بن کر رہ گئے تھے۔ مسہری پر لیٹی ہوئی ایک آدھ مری لڑکی بےبس نگاہوں سے مکڑی کے جال میں پھنسی مکھی کو آہستہ آہستہ مرتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔

    فرشتے نے خالی خالی نظروں سے اس لڑکی کو دیکھا جو پچھلے اکیس سال سے جان کنی کی حالت میں بستر پہ پڑی تھی۔۔۔ لمحے بھر میں فرشتے کو لگا جیسے ہوا کا ایک تیز جھونکا، کھڑکی کے پردے کو اڑاتا ہوا آیا اور لڑکی کی نوشت کو ماضی میں دھکیل گیا۔۔۔ قرطا س کے پنے پلٹتے چلے گئے، کمرے کی نگارش بدلتی چلے گئی۔

    ایک خوبصورت سی چھ سال کی بچی اپنی ماں کی گود میں سر رکھے بخار میں پُھنک رہی تھی۔ اس کی رنگ برنگی مسہری پہ کھدے خوشنما پھول اداس نظروں سے اسے تک رہے تھے۔ وہ ڈری ڈری خوفزدہ نظروں سے اپنی ماں کی طرف دیکھ رہی تھی اور تتلا تتلا کر منتیں کر رہی تھی۔۔۔ ’اماں مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے، مجھے اکیلا نہ چھوڑنا‘ اور اس کی سہمی ہوئی ماں اسے روتے ہوئے گلے سے لگا کر کہہ رہی تھی۔۔۔ ’نہیں میری بچی ۔۔۔کبھی نہیں‘ اور پھر فرشتے نے دیکھا کہ جان کنی کی حالت میں پڑی بیٹی جیسے وہی ٹھیر سی گئی۔۔۔ جن سانسوں کو اکھڑنا تھا وہ نہیں اکھڑی۔۔۔ وہ زندہ تورہی مگر چپ چاپ آنکھیں موندے ایک انجان گہری نیند میں چلے گئی۔۔۔ ماں نے روتے ہوئے اپنی پیاری بیٹی کے کانوں میں کتنا ہی چیخا تھا مگر آوازیں جیسے بازوگشت بن گئی اورپھر ہر آواز اسی گونج سے لوٹ کر اسے واپس آنے لگی۔۔۔۔ اس کے آس پاس کھڑے ہوئے طبیب اسے سمجھاتے تھے۔۔۔ تمھاری بیٹی Locked-in syndrome میں ہے کہ وہ زندہ تو ہے مگر اس کا دماغ مر چکا ہے۔۔۔۔ عجیب موت تھی وہ جس میں دل بھی دھڑکتا تھا، سانس بھی چلتی تھی،آ نکھیں دیکھتی بھی تھی، روتی بھی تھی اور ہنستیں بھی تھیں مگر۔۔۔ ہونٹ چُپ تھے اور جسم بےجان تھا۔۔۔ فرشتے نے خالی خالی نظروں سے اپنے اندر کو ٹٹولا مگر وہاں سوائے قلم و دوات کہ کچھ بھی نہیں تھا۔ اس نے چپکے سے مصلحت رب الکریم کے آگے سرنگوں کر لیا اور سر نوشت کے پنے پلٹنے لگا۔

    دن مہینوں میں بدلنے لگے اور اور مہینے سالوں میں۔۔۔ ماں روز صبح اٹھتی، اپنی بیٹی کا منہ گرم پانی کے تولیے سے صاف کرتی، اس کے بال سنوارتی، پیٹ میں لگی مصنوعی نالی سے اس کے جسم میں غذا اتارتی، انسولین کے ٹیکے لگاتی، ہر دو دو گھنٹے بعد اس کی کروٹ بدلتی، روزانہ اس کا بدن دھلاتی۔ کپڑے بدلتی، بستر ٹھیک کرتی۔ اکیس سال سے وہ اسی طرح روزانہ صبح سے شام کرتی مگر جب رات ہو جاتی تو کھڑکی میں کھڑے ہوکر نہ جانے اندھیرے میں کیا ڈھونڈتی رہتی اور جب اس کے کچھ سمجھ میں نہیں آتا تو خود سے بڑبڑانے لگتی۔۔۔ ’وعدہ تو وعدہ ہے۔۔۔ وعدہ تو وعدہ ہے‘ پچھلے اکیس سال سے فرشتہ ماں کے انہی لفظوں کا کاتب تقدیر بننا ہوا تھا۔

    مگر سرنوشت کا حال تو سوائے رب الجلیل کے کسی کے بھی علم میں نہ تھا تو اچانک ایک دن۔۔۔ فرشتے کے ہاتھ کانپ سے گئے۔۔۔ عجیب صبح تھی وہ کہ ماں جو روز صبح اٹھتی تھی، اس دن صبح نہ اٹھی۔۔۔ ہوائیں کھڑکیوں کے پر دوں سے چھن چھن کر آ رہی تھی، قرطاس کے پنے ایک کہ بعد ایک پلٹ رہے تھے مگر۔۔۔ صفحے سادہ تھے، لفظ گم ہو گئے تھے۔ فرشتے نے حیران نگاہوں سے قلم کو دیکھا مگر سیاہی خشک تھی۔ اس نے بے چینی سے نظر گھماکر بیٹی کی طرف دیکھا جو بےبس آنکھوں سے مکھی کو مکڑی کا شکار ہوتے دیکھ رہی تھی مگر ابھی تک اپنی ماں کا انتظار کر رہی تھی جو اکیس سال کی طویل تھکن کے بعد اچانک گہری ابدی نیند میں سو گئی تھی۔

    فرشتے نے لرزتے ہاتھوں سے دوبارہ قلم اٹھایا اور لکھنے کی کوشش کی مگر اسے لگا جیسے اس کا بنایا ہوا ہر لفظ اس کے آنسووں میں بھیگ کر اس کے روتے ہوئے دل کی تصویر بنتا جا رہا ہے۔ آہ۔۔۔ کیا فرشتے رو نہیں سکتے۔۔۔ اس نے خداوند تعالی کے آگے سر نگوں کیا اور پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے