فردوس حزیں
آبشارکی زیریں لہروں کی بازگشت وصال و فراق کے زمزمے سنا رہی تھی، دیودار کے پتوں، ڈالیوں اورجڑوں پر جمی ہوئی برف بتدریج پگھل کر زمین میں جذب ہو رہی تھی، سردی ہڈیوں میں اتر رہی تھی، سویٹر، مفلر اور دستانے خودآتش بدن مانگ رہے تھے اور دور بہت دور چنار کے نرم پتوں کو چوم کرآنے والی نیم برفانی ہوائیں شہرواپسی کا وقت بتا رہی تھیں۔ سطح سمندر سے کوئی بارہ ہزار فٹ اوپریہ ’شین‘ کی سرد تپش سے نصف سوختہ مرغزا ر وادی تھی جہاں صرف برفاب تھے، جھرنے تھے، سروصنوبر اور چھوٹے چھوٹے کوہستانی پیڑ جن کے پتوں کو کسی زمانے میں لکھنے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا، جنگلی جانوروں کی آوازیں نہیں آ رہی تھیں، شاید وہ دن ڈھلنے کا انتظار کر رہے تھے، خورشید رات کی وسیع قبر میں داخل ہونے کی تیاری کر رہا تھا۔ یہ ایک شورش زدہ ریاست کا مشہور سیاحتی مقام تھا۔ زمستان میں دور دور سے لوگ برفانی کھیلوں کا لطف لینے آتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’کیا کہا تم نے ’تھا‘؟ راوی! مجھے اس’تھا‘ پر شدید اعتراض ہے۔ سب کچھ حال میں چلنا چاہئے۔ جگہ ابھی زندہ ہے، اس کی روح ہماری روح سے گرچہ کہیں زیادہ بوڑھی ہے مگر توانا اور زندگی سے لبریز ہے۔ یاد رہے جگہ نہیں مرتی، ہمارے مرجانے کے بعد بھی زندہ رہے گی اور اس فسانے کے ختم ہو جانے کے بعد بھی۔ تمہاری اس کہانی میں میری مداخلت کچھ غیر ’تکنیکی‘ ہے لیکن امید ہے کہ اس دخل در معقولات کو برداشت کریں گے۔ میں اپنا احتجاج درج کروا چکی ہوں اب تم شوق سے اپنی کہانی جاری رکھ سکتے ہو۔۔ہاں تو تم کیا کہہ رہے تھے’’ زمستان میں دور دور سے لوگ برفانی کھیلوں کا لطف لینے آتے تھے‘‘۔ پھر وہی ماضی کا جبر مسلط کر رہے ہو۔ کیا یہ ’تھا اور تھے‘ تمہارے شعور کا جزء لاینفک نہیں بن چکے ہیں؟ داستاں گو! ماضی، موت اور محرومی یا ہر وہ چیز جو تمہارے قبضہ قدرت سے نکل چکی ہو عزیز کیوں ہو جاتی ہے؟۔ ہم حال میں جینا چاہتے ہیں۔ یہ لازم تو نہیں کہ سب کو ماضی عزیز ہو اس لئے ’تھا اور تھے‘ اس فسانے کا محور کیوں ہیں؟ میں بھی ایک کہانی تھی؟ ان کہی؟ان سنی؟ ان دیکھی اور ان چھوئی ؟۔۔۔۔۔۔ ’تھا‘ دراصل تمہاری اجتماعی فکر کا نچوڑ ہے اور یہ صرف چند لمحوں کے گزر جانے پر محیط نہیں بلکہ پوری زندگی پر دال ہے۔ زندگی جو کبھی ’ہماری‘ دسترس میں تھی ہی نہیں۔ کیا تم ماضی،حال اور مستقبل تینوں کو ملاکر کوئی ایک ایسا وقت پیدانہیں کر سکتے جس میں سب کچھ ’حال‘ میں ہواور حسب حال ہو؟ ویل! میں نے اپنا احتجاج درج کرا دیا ہے اب تم شوق سے اپنی کہانی جاری رکھ سکتے ہو۔۔۔ معذرت! میری کہانی۔۔۔۔۔ہاں تو تم کیا کہہ رہے تھے؟۔۔۔
قدسی کا احتجاج نوٹ کر لیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زمستان میں دور دور سے لوگ برفانی کھیلوں کا لطف لینے آتے تھے۔ اس وقت بھی کافی تعداد میں مقامی، ہندوستانی اور بیرونی سیاح آئے ہوئے تھے۔ وہ مقامی نہیں تھا لیکن اب تک یہ سمجھ نہیں پایا تھا کہ وہ بیرونی تھا یا ہندستانی؟ یہ سیاحتی مقام اپنے سیاحوں سے ایک ایک کرکے خالی ہورہا تھا، تقریباً خالی ہو چکا تھا، اب صرف وہی لوگ بچے تھے جن کی اپنی دکانیں تھیں۔ وہ کیوں نہیں آئی؟ جگہ تو یہی تھی، وقت اور مقام اسی نے متعین کیا تھا۔ پانچ بج رہے ہیں، فون نہیں اٹھا رہی ہے، اب تو موبائل بھی ’آؤٹ آف کوریج ایریا‘ بتا رہا ہے، اب نہیں آئےگی۔ وہ اضطراب و اضمحلال کے جاں گسل لمحوں میں ریستوراں سے باہر آتا، سگریٹ سلگاتا، ایک ہی کش میں پوراسگریٹ پی لینا چاہتا، دھوئیں کے دبیز مرغولے فضامیں یوں رقص کرتے نظرآتے گویا دھندلے بادلوں میں تحلیل ہونے کی خوشی منارہے ہوں، گویا بادلوں کو برشگال کی دعوت رہے ہوں، وصال کی دعوت۔ آخری کش تک اپنے خیالوں میں گم رہتا اور سگریٹ ختم ہوتے ہی اسے ہوائیں ہڈیوں کے اندر اترتی ہوئی محسوس ہوتیں، عجیب سی الجھن اوربے چینی کی لکیریں اس کے چہرے پر بنتی اور مٹتی رہتیں،کیا ہوا ہوگا، نہیں نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ حالات اتنے خراب نہیں لیکن پرآشوب ریاست کے شورش زدہ حالات میں وسوسے اور واہمے بھی شورش زدہ اور متوحش ہوتے ہیں اور پھر انتظار کا اضطراب کسی ایک جگہ سکون سے کہاں بیٹھنے دیتا ہے۔ غلے پر بیٹھا ہوا شخص اب عجیب دزدیدہ نگاہوں سے دیکھ رہا تھا اور پھر اس نے محسوس کیا کہ ریستوراں میں موجود تمام لوگ اسے مشکوک نظروں سے دیکھنے لگے ہیں۔ اس نے محسوس کیاکہ وہ غیرمرئی طور پر راڈار پر ہے، کوئی ایک سایہ اس کا پیچھا کر رہا ہے۔ نہیں کوئی ایک نہیں بلکہ کئی سائے اس کا تعاقب کر رہے ہیں۔۔۔ باس، آرمی، ایجنسی،اسکی اپنی شوریدگی اور’قدسی‘۔ آزمائشوں کو دعوت دینا کوئی اچھی بات نہیں اور یہ سوچتے ہوئے بےجان قدموں سے نیچے اترنے لگا۔ آبادی، کیمپ، ہوٹل اور فردوس بریں تین ہزار فٹ نیچے تھے۔ کچھ چہرے نظر آئے تروتازہ، ہشاش بشاش اور کچھ جوڑے بھی تھکے ہوئے، بوجھل مگر زندگی سے بھرپور۔۔۔ قدسیہ سے ملنے کی یہ آخری کوشش تھی جو رائگاں چلی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تقریباً سال بھر پہلے کی بات ہے، اسے شہر میں آئے ہوئے کوئی تین ماہ ہوئے تھے۔ اس نے بوریت سے بچنے کے لئے اپنے شب وروز کوتین حصوں میں بانٹ دیا۔ صبح دس سے چار بجے تک فیلڈ میں ہوتا، بھانت بھانت کے لوگوں سے ملاقات، قصے، کہانیاں اور محاکات۔ جنگجوئیت، فوج، انسانی حقوق کی پامالی، انفارمر، کولیبوریٹر اور سیاسی مقامری یہ پسندیدہ موضوعات تھے۔ پانچ سے دس بجے تک آفس میں اور دس سے بارہ بجے تک سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر ’دانشوری‘۔ دفتر پہنچتے ہی سب سے پہلے میل، آرکٹ اور فیسبک چیک کرتا اور اس کے بعد معمول کے کام میں مصروف ہو جاتا۔ دفتری عملے کے علاوہ دو چار لوگوں سے شناسائی تھی برائے نام اور برائے کام۔ ویٹر اور کمپوزرصحافی بن بیٹھے تھے۔ چھوٹے شہروں کی اپنی محرومیاں ہوتی ہیں اور یہ انہیں محرومیوں کی پیداوار تھے۔ قدسی بھی انہی دنوں کی ایک امید تھی۔ اس نے انباکس چیک کیا، ایک نیا میل منتظر تھا۔
’’آداب! آپ بہت اچھا لکھتے ہیں، آپ کی اسٹوریز اور مضامین بہت بولڈ ہوتے ہیں لیکن ان جنرل۔یہ صرف زخموں کو کریدتے ہیں۔وہ زخم جو کچھ مندمل ہو رہے ہوتے ہیں۔ یہ کہنا کہ فوج نے ظلم کیا بہت آسان ہے لیکن یہ کہنا کہ فوج کی فلاں بٹالین کے فلاں کمانڈر یا فلاں سپاہی نے فلاں کا قتل کیا ہے اور فلاں کا ریپ کیا ہے تقریباً ناممکن ہے۔یہ لکھنے کی ہمت آپ کے اندر نظر نہیں آ رہی ہے۔ اگر آپ لوگوں نے یہ لکھا ہوتا تو شاید حالات وہ نہیں ہوتے جو نظر آ رہے ہیں۔میں وہ تحریریں دیکھنا چاہوں گی جو ’آفیشیل ٹروتھ‘ سے اوپر ہوں۔‘‘ قدسیہ امین
’قدسیہ امین صاحبہ! آپ کا میل پڑھا، یقین کیجئے حیرت کے ساتھ ساتھ بے انتہا خوشی بھی ہوئی۔ آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں میرے اندر کمٹمنٹ کا وہ لیول نہیں جو آپ دیکھنے کی متمنی ہیں۔ میں بنیادی طور سے بہت بزدل آدمی ہوں، کوئی دانشور بھی نہیں ہوں۔ ابھی تو میری کل عمر ہی ۲۵ سال ہے ۱۵ سال بعد کہیں وجدان وعرفان کا دعویدار ہو سکتا ہوں۔ ’نبوت‘ اس لئے نہیں کہا کہ مبادا کفر کا فتویٰ نہ عائد کر دیں۔ میں چیک جمہوریہ کے ایک ادیب کی بات نقل کرنا چاہوں گا ’اقتدار کے خلاف ایک آدمی کی جدو جہد فراموشی کے خلاف یاد داشت کی جدو جہد ہے‘ یعنی جبر کو یاد رکھنا بھی اقتدار کے خلاف ایک جدو جہد ہے۔ ویسے میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں نے آپ کو وضاحت کیوں پیش کی ہے۔خیر خوش رہئے۔ بیسٹ ریگارڈس۔‘ احمد سعید
’خوش کیسے رہ سکتی ہوں،چپے چپے پر فوج ہے، پولیس ہے، ناکہ بندی ہے، گھر گھر میں ’جنگجو‘ ہیں، کوئی ایسا گھر نہیں جس میں کوئی ایک کرسی خالی نہ ہو۔ دو ماہ سے کرفیوزدہ حالت میں ہیں، خوش کیسے رہ سکتی ہوں؟‘‘
’میں آپ کو جانتا نہیں ہوں اس لئے مزید بات نہیں ہو سکتی، آپ اپنا نمبر ڈراپ کر دیجئے اور کچھ تصویریں بھی۔ اگر نمبر نہیں دینا چاہتی ہیں تو یہ میرا نمبر ہے۔ کبھی بھی کال کر سکتی ہیں‘
’’واہ کیا بات ہے۔ اگر کال کرونگی تو میرا نمبر آپ تک نہیں پہنچ جائےگا؟ اچھا حس مزاح رکھتے ہیں۔ یہ لگژری صرف آپ ہی لوگ افورڈ کر سکتے ہیں۔ بہر حال یہ آپ کا escapism ہے۔نہ میں نمبر دونگی اور نہ ہی تصویریں اور ہاں آپ ہی کی زبان میں نہ میں کوئی سایہ، کوئی دیوار اور کوئی ہیولیٰ ہوں، پولیٹیکل سائنس سے ایم اے کیا ہے اور ہیومن رائٹس ایکٹی وسٹ ہوں۔ میرے والدین ٹیچر تھے، انسرجنسی کی نذر ہو گئے، ماموں کی کفالت میں رہتی ہوں، میں نے پوچھا تھا کہ آپ یہاں کیوں آئے ہیں؟‘‘
’آپ کیوں جاننا چاہتی ہیں؟ نزاعی یا بہت زیادہ حساس معاملات پر میرے اپنے تحفظات ہیں۔ کچھ سوالوں کا جواب آپ کو خود بخود مل جائےگا۔ آپ پڑھی لکھی خاتون ہیں لیکن لہجے سے ’اندازہ‘ہو رہا ہے کہ آپ مفروضوں کو یقین سمجھنے لگی ہیں۔ اب میرے جانے کا وقت ہو گیا ہے۔ پھر کبھی بات ہوگی۔ اللہ حافظ‘
’’تحفظات‘‘ کیا ہی جامع لفظ ہے۔ ہم لوگوں کی ترجمانی کے لئے آپ لوگوں کے پاس اس سے بہتر کوئی اور لفظ نہیں؟۔بہت خوب!مفروضوں کو یقین سمجھنے لگی ہوں؟ یقین کیجئے اس سے بڑی گالی کسی نے آج تک ہمیں نہیں دی تھی۔‘‘
’آپ اپنی بات کیجئے۔ میرا خیال آپ کو گالی لگا، مجھے بےحدافسوس ہے‘۔
اسے آفس سے نکلے ہوئے ابھی دس منٹ ہوئے ہوں گے کہ موبائل وائبریٹ کرنے لگا۔ نامعلوم نمبر سے کال تھی۔
’’آپ سے ہی بات کرنی ہے۔میں قدسی بول رہی ہوں‘‘
’قدسی کون؟‘
قدسی ایک متوسط اور خوشحال گھرانے کی لڑکی تھی جو تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد وقت گزاری کے لئے جبری گمشدہ افراد کی تلاش سے متعلق ایک این جی او میں رابطہ کار کا فریضہ انجام دے رہی تھی .اس پر جدید فیشن کالمس لئے ہوئے دیہی پیرہن بہت اچھے لگتے تھے، خاص طور سے تھوڑی لمبی اور قدرے ابھری ہوئی ناک پرسرخی مائل نتھنی ایک عجیب وجد آمیز کشش پیدا کرتی تھی .وہ اپنے پہناوے اور رکھ رکھاؤ میں اس بات کا خاص خیال رکھنے کی کوشش کرتی تھی کہ وہ ’’نیم وحشی‘‘ نظر آئے۔۔۔ ایسے ہی جیسے ہم شہروں میں رہتے ہوئے اپنے دل میں ایک گاؤں بسائے رکھتے ہیں نیم دہقانی نظرآنے کے لئے یا پھر ایک تعلق کو مرنے سے بچانے کے لئے۔۔۔ اور غور سے دیکھنے پر نظر بھی آتی تھی. آنکھیں بڑی، نیلگوں اور حسب تناسب نکلی ہوئی۔۔۔ چنار کے پتوں کی طرح تمام پتوں سے الگ۔۔۔اسکا کہنا تھا پہاڑی لڑکیوں میں آبشار کی آواز جیسی میوزیکل روانی ہوتی ہے لہٰذا اگر وہ میوزیکل نظرآنے کی کوشش کرتی ہے تو اس میں قباحت کیا ہے؟ حسن جبلت رکھ رکھاؤ کے تعلق سے تبدیلیاں پیدا کرتی رہتی تھی۔ اسکا کوئی ایک رنگ اور کوئی ایک مزاج نہیں تھا۔ ہر رنگ اور ہر مزاج میں ایک جیسی ہی دکھتی تھی۔۔۔ نیم وحشی۔
’’میں قدسیہ امین۔ابھی آپ سے چیٹ ہو رہی تی‘‘
اور پھر یہ سلسلہ چل نکلا۔ فون پر بات کم ہی ہوتی تھی۔ رات دس بجے ایک میسیج کے پاپ اپ (Pop up) ہونے کا انتظار رہتا۔ کبھی اس طرف اور کبھی اس طرف۔ منحصر تھا کہ رات کس نے کس کو کتنا ناراض کیا ہے۔ زندگی، موت، جسم، روح، عشق، ہوس، سیکس۔ خاکداں کا کون سا ایسا موضوع تھا جو باقی بچا ہو۔ اگر بات نہیں ہوتی تھی تو ان خونچکاں واقعات کی، زمین اوراس کی پامالی کی، مکینوں اور ان پرجبر کی، فوج اور ان کے سیاسی آقاؤں کی، جنگجو اور ان کے مرشدین کی جس کے راوی چنار کے پتے، دیودارکی ڈالیاں، فلک بوس پہاڑوں کی گپھائیں، چناب اور جہلم تھے۔
اب قدسی احمد کے ساتھ ساتھ چلنے لگی تھی۔خیالوں میں۔۔۔ تقریباً ہر جگہ۔ رات اور دن کا فرق مٹ چکا تھا۔ اب اس کا اپنا کام باقاعدہ ڈسٹرب ہونے لگا تھا۔ ایسے ہی کئی ماہ گذر گئے۔ ایک دن وہ ڈھیر ساری بحث و تمحیص کے بعدملاقات پر راضی ہو گئی۔
’’فلاں تاریخ کوہم لوگ ایک سیمینار کر رہے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ آپ اس میں شریک ہوں‘‘
’مجھے سیمنارمیں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔یہ صرف وقت اور پیسے کی بربادی ہے‘
’’پھر کس میں دلچسپی ہے؟‘‘
’تم میں‘
’’اوہ۔۔۔ اوریہاں کی خوبصورت جگہوں میں نہیں؟‘‘
’دنیا کی ہر وہ جگہ خوبصورت ہے جہاں موت نہ آتی ہو‘
’’اور موت کیا ہے؟‘‘
’پتہ نہیں شاید! A parting kiss of life
’’کبھی محسوس کئے ہو؟‘‘
’ہلکا سا، ابھی لائیو انکاؤنٹر کور کرکے آیا ہوں‘
’’اور زندگی کیا ہے؟‘‘
بقول ایک ادیب’ایک طویل موت کا نام ہے‘
’’لیکن یہاں موت طویل نہیں ہوتی‘‘
’کیا سب پیدا ہوتے ہی مر جاتے ہیں؟‘
’’نہیں! جوان ہوتے ہوتے ہی مار دیئے جاتے ہیں۔‘‘
’ایک بات بتاؤ، تم پیریڈ سے ہو کیا؟‘
’’۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں! پچھلے بیس سال سے‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی آٹھ گھنٹے کے طویل سفر کے بعدوہ شہر آشوب میں داخل ہو رہا تھا، ایک مناسب ہوٹل میں کمرہ بک کیا، تھکن کی گرد کوغسل خانے میں جھاڑ کر سیمینار میں شریک ہونے کے لئے چلا گیا۔ سیمنار ہال مختلف شعبہ ہائے جات کے تعلیم یافتہ افراد سے بھرا ہوا تھا۔ ایک نوجوان لڑکی کنوینر کا فریضہ انجام دے رہی تھی۔ پہلے تو اسے لگا کہ شاید یہی قدسیہ ہے لیکن پھر اس نے پنا خیال مسترد کر دیا کیونکہ جھلمل دوپٹے سے جھانکتے ہوئے اس کے پستان کچھ زیادہ بڑے نظر آ رہے تھے اور قد بھی اور شکل بھی بیضوی نہیں تھی۔ یہ یقیناًً عروسہ ارسلان ہوگی۔ ایک گھنٹے بعد لنچ بریک ہو گیا۔
’ہائے! میں احمد سعید، قدسیہ نے مدعو کیا تھا‘
’اوہ تو آپ ہیں وہ اسپیشل گیسٹ! بہت خوشی ہوئی آپ سے مل کر‘‘ پھر اس نے ایک ہینڈسم جوان کو مدعو کیا ’’ارسلان! یہ احمد ہیں، وہی احمد اور احمد! یہ ارسلان ہیں، میرے ہزبینڈ‘‘
احمد سمجھ نہیں پایا کہ ’وہی احمد‘سے کیا مراد ہے اور پھر عروسہ کے چہرے کی مسکراہٹ؟ معنیٰ خیز، شرارت آمیز اور خوف انگیز۔ احمد اس پراسرار مسکراہٹ کو کوئی مفہوم عطا نہیں کر پا رہا تھا۔
’اوکے! لیکن قدسی کہیں نظر نہیں آ رہی ہے۔ آپ لوگوں نے اسے کہاں غائب کر دیا‘
’وہ اپنی ایک کزن کی منگنی میں گئی ہوئی ہے، یہاں سے کوئی سو کلومیٹر دور۔ آپ ارسلان کی کمپنی انجوائے کریں۔ یہ بینگلور کی ایک کمپنی میں پروجیکٹ مینیجر ہیں۔ لٹریچر اور فلسفے سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ آپ کے لئے ان کا ورژن شاید زیادہ درست اور Unbiased ہو۔
ارسلان نہایت زندہ دل اورخوش مزاج تھا۔ عروسہ کی ان سرگرمیوں کو وہ پسند نہیں کرتا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ یہ اسٹیٹس کو پچاس سال کے جبر کی پیداوار ہے۔پہلی دو نسلیں تنازع اور تذبذب کی نذر ہوئی ہیں اور یہ تیسری نسل متضاد ذہنیت کی شکار ہو رہی ہے۔
’یہ مہلوکین کا ڈیٹا آپ کے پاس کہاں سے آیا؟‘
’’ ہمیں معلوم ہے کہ ہر گھر میں ایک کرسی خالی ہے۔ کیا اتنے گھر نہیں ہیں اس پوری ریاست میں؟‘‘
’لیکن ہم آئے نہیں تھے، ہم کو بلایا گیا تھا‘ احمد نے فوج کی آمد کے تعلق سے ایک تاریخی اشارہ کیا
’’آپ مہمان تھے نا،چلے جاتے‘‘
اس نے عروسہ کے لہجے میں بیگانگی محسوس کی۔بات ایک تنازعہ کی طرف بڑھ رہی تھی، پچاس سال پیچھے، دائروں کا سفر شروع ہونے والا تھا اور وہ ڈنر کا لطف پھیکا نہیں کرنا چاہ رہا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ ایک خوش حال لڑکی ایک پرامن زندگی کیوں نہیں گذارنا چاہتی۔ ’قومیت‘ کیا واقعی اتنا اہم ہے کہ اس کے بغیر مستقبل کا تصور نا ممکن ہے؟ ارسلان کو ان باتوں سے کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی۔اس کا خیال تھا کہ نیلم کا پانی اب اتنا مٹ میلا نہیں ہے۔ رات میں عشائیہ کے بعد اس نے قدسی سے واپس رابطہ قائم کیا اور دوسرے دن بارہ بجے ملاقات طے پائی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور قدسی نہیں آئی۔ جب وہ تین ہزار فٹ نیچے مرکز پر آیا تو معلوم پڑا کہ ٹرانسپورٹ کی سہولت منقطع کر دی گئی ہے۔ بہرحال کسی طرح سے وہ رات ۹ بجے تک اپنے ہوٹل پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ استقبالیہ پر دانش موجود تھا، اس نے خبر دی کہ بس ابھی کچھ دیر پہلے کوئی ایک لڑکی آپ کے بارے میں پوچھ رہی تھی۔ یہ خبر صدیوں کی تھکان اتارنے کے لئے کافی تھی۔ اس وقت وہ کمرہ نمبر ۳۰۲ کے باہر تھا۔
’’کون؟‘‘
’جی میں احمد سعید۔‘
دروازہ ہلکی سی آواز کے ساتھ کھلا۔۔۔ تھوڑا تھوڑا کرکے۔۔۔ پہلی بار دونوں آمنے سامنے تھے۔ دم بخود، ساکت، منجمد۔ بھاری سانسوں کے ساتھ۔ ایسے ہی نہ جانے کتنے سکنڈ گذر گئے۔کسی کے لب نہیں ہلے۔
’لگتاہے تم ابھی آئی ہو، بال ابھی مکمل طرح سے سوکھے نہیں ہیں‘
’جی۔ ہمارے یہاں حالات اچانک خراب ہو گئے۔ ملٹری نے پورے ایریا کو کورڈن آف(گھیرے میں لے لینا) کر لیا۔ موبائل نیٹ ورکس جام کر دیئے۔ کئی گھنٹوں تک فائرنگ ہوتی رہی۔ بالآخر اس مکان کو بارود سے اڑا دیا گیا۔۔۔ حد ہے میں وضاحت پیش کر رہی ہوں حالانکہ تم کو تو اب ان تمام چیزوں کی عادت ہو جانی چاہئے تھی‘‘
’تھا، تھی اور تھے پر تمہارا اعتراض مجھے یاد ہے۔ اس لئے مجھے عادت ہو گئی ہے۔ جسے تم زبان کا جبر کہتی ہو وہ مجھے تم سے جاننا ہے لیکن اس جبر سے آزاد ہونے کے بعد‘۔ اس نے قدسی کے نیم وحشی بدن کی طرف اشارہ کیا۔
اس نے معنیٰ خیز مسکراہٹ کو نوٹ کر لیا ’یو آر سو ولگر‘
ڈنر سے فارغ ہونے کے بعداس نے ہوٹل کے لان میں حسب معمول چہل قدمی کی خواہش ظاہر کی جسے قدسی نے منع کر دیا۔
’ہنی! حالات اتنے خراب تو نہیں، اس نے کمزور سا احتجاج کیا۔
’’تمہیں کچھ پتہ نہیں،یہاں کبھی کبھی پرچھائیاں بھی گولی چلاتی ہیں‘‘
دونوں کمرے میں آ گئے۔۔۔ باتیں تھیں کہ ختم نہیں ہو رہی تھیں۔ مسام اندام محبت کے ہارمونز کا تبادلہ کر رہے تھے۔ زندگی بہت آگے نکل چکی تھی۔ ایک ہلکی سی چیخ، یک ساعت میٹھا درد اور تھپ تھپ کی ہم وزن آوازوں کے ساتھ مکمل ہو گئی تھی۔ تشنگی کے صحرا میں بھٹکنے والی روحوں کو ’آب حیات‘ نے سیراب کردیا تھا۔ ’تنگنائے غزل‘ سے کچھ قطرے نکل کر تپتی رانوں کے ریگزرا پر مصرعوں کی صورت پھیل چکے تھے۔لیکن جب پیاس عین شباب کی ہو تو ایک دو قطروں سے بجھتی نہیں بلکہ اور بڑھ جاتی ہے اور پھر یہ تو ریت کے بدن تھے جوشب دیجورم یں پرسکون سمندر کا مدو جزر مانگ رہے تھے۔ گھڑی پر ان کی نظر پڑی، رات کے چار بج رہے تھے۔ وقت بہت تیزی سے گذر گیا تھا اور ساتھ میں زندگی کا سب سے بہترین پل بھی۔
تین دن کا قیام عشرے میں تبدیل ہو گیا۔ شہر کے سارے اچھے ریستوران، تفریحی باغات، مقامات اور چنارکے چار بڑے پیڑوں کی چھال پر رقم Q.A ان کی محبت میں ہم زمزمہ تھے۔
’قدسی! شادی کے بارے میں تم نے کچھ بتایا نہیں؟‘
’’مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ میں نے اس دس دن میں اپنی پوری زندگی جی لی ہے۔‘‘
’میں سمجھا نہیں!‘
’’پہلے میں زندگی سے نہیں ڈرتی تھی اب ڈرنے لگی ہوں۔ شاید یہی دس دن جینے کے لئے پیدا ہوئی تھی‘‘
شہرآشوب سے لوٹنے کے بعد قدسی سے کچھ دنوں تک رابطہ رہا اور پھر اچانک سارا سلسلہ منقطع ہو گیا۔ گھڑی سہ پہرتین بجے کے کانٹے پر آکر رک گئی تھی۔ جس این جی او میں وہ کام کر رہی تھی وہ زندہ تھی لیکن اس نام کی کوئی لڑکی وہاں کام نہیں کرتی تھی۔ عروسہ آخری لنک تھی لیکن وہ بھی غائب تھی۔ اسی انتظار، کشمکش اور امیدو بیم میں ایک ماہ اور گذر گئے کہ شاید ققنس اپنی راکھ سے دوبارہ جنم لے۔شاید کوئی فون آئے۔۔۔ شاید۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’ہیلو! جی سوامی ناتھن جی کیسے ہیں، اتنے دنوں بعد اچانک کیسے یاد کیا؟‘
وہ ’صاحب‘ سے دوسری بار ملنے جا رہا تھا۔ پہلی بار اس وقت ملاقات ہوئی تھی جب اس نے ڈیوٹی جوائن کی تھی اور اب۔۔۔ چھٹی حِس بیدار ہو گئی۔ اوہ مائی گاڈ۔
بریگیڈیئر منوج شرما اس کے علاقے کے رہنے والے تھے۔ نرم گو،خلیق اور ملنسار آفیسر تھے۔ انہوں نے چائے کا آرڈر دیا اور اصل مدعا پر آ گئے
’سنا ہے کل آپ کسی افغانی کی قبر تلاش کر رہے تھے؟ ہم سے کہا ہوتا، ہم بتا دیتے‘۔ ’کسی‘ پر انہوں نے خاص زور دیا
’سر آپ کو کیسے معلوم پڑا؟‘ احمد حیران تھا کہ جب وہ قبرستان گیا تھا تو اس وقت اس کے فوٹوگرافر قاسم پیرزادہ کے علاوہ کوئی اور نہیں تھا۔
’آپ کو معلوم ہے کہ یہاں تمام قبرستانوں کے دروازے ہماری چابیوں سے کھلتے اور بند ہوتے ہیں‘
’یہ تو پوری دنیا جانتی ہے سر‘احمد نے بھی لطیف سا طنز کیا۔
’احمد صاحب یہ طنز کرنے کا وقت نہیں، آپ کو پتہ ہوگا کہ آپ کو ٹرمینیٹ کر دیا گیا ہے۔‘
’یہاں تو سب کچھ آپ کے رحم و کرم پر ہے‘ احمد کو اب کوئی حیرانی نہیں تھی۔ اسے مزاحمت کاروں، فوج اور کولیبوریٹرز (رابطہ کاروں) کے مایبن سنڈیکیٹ کا کچھ مبہم ادراک ہونے لگا تھا۔
’آپ کرپٹ نہیں ہیں اور یقین کیجئے میں آپ سے بہت متاثر ہوں۔ اس لئے میرا مشورہ ہے کہ ناشکروں کے درمیان خود کو ضائع مت کیجئے۔‘
چائے ختم ہو گئی۔ جب وہ بریگیڈیئر شرما کی آفس سے نکل رہا تھا تو پیچھے سے ان کی آواز آئی۔
’احمد صاحب! آپ کو کوئی اور قبر تلاش کرنی چاہئے تھی۔ آپ بہت بھولے ہیں‘‘
’سمجھا نہیں سر؟‘‘ احمد کے قدم جہاں تھے وہیں رک گئے۔
’’جلدہی سمجھ جائیں گے۔ ویسے میں نے جو مشورہ دیا ہے اس پر غور کیجئےگا‘‘۔ شرما صاحب کے لہجے میں کوئی دھمکی نہیں تھی۔ جب وہ شرما صاحب کے دفتر سے باہر نکلا تو اس کی نظر دفتر رابطہ عامہ کے باہر چہل قدمی کرتی ہوئی ایک جواں سال عورت پر پڑی۔ وہ گاگل پہنے ہوئی تھی اور موبائل پر کسی سے بات کر رہی تھی۔ پہلے تو اسے یقین نہیں آیا پھر حیرت اور خوشی دونوں نے اس کے جذبات کو شل کر دیا۔ عروسہ کے چہرے پر ایک رسمی تاثر تھا گویا اسکرپٹ میں یہ ملاقات پہلے سے لکھی ہوئی ہو۔ اسے قدسی کی بات یاد آئی ’عروسہ سے ذرا محتاط رہنا‘ اور اس نے ہنستے ہوئے بات کا رخ پلٹ دیا تھا ’بے فکر رہو میں womanizer نہیں ہوں‘‘
’’ہائے! آپ یہاں پر!!!!! سب خیریت؟‘‘
’’جی! شرما صاحب سے ملنے آئی تھی، کچھ ڈیٹا کے لئے‘‘ اس کی آواز میں لرزش تھی۔ عروسہ کو دیکھتے ہی قدسی اس کے ذہن میں دوڑنے لگی۔
’قدسی کا کچھ پتہ نہیں چل رہا ہے۔‘‘
’احمد! وہ جنگجوؤں کے ساتھ ایک فوجی کارروائی میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘
۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عروسہ کے گاگل سے اسے یاد آیا کہ یہی وہ گاگل تھا جس میں وہ کتنی سندر لگ رہی تھی۔ اب بھی لگ رہی ہوگی؟؟؟؟ ایتھنک لباس، سر پر سرخ دوپٹہ، جس سے تھوڑی قدامت پسند اور پھروے فیرر سیریز کا رے بین جس سے تھوڑی فیشن پرست اور پھر اس امتزاج سے پیدا ہونے والی سادگی، شائستگی اور نفاست۔۔۔ یہ خوش خرام میرے مقدر میں کیوں نہیں تھی؟
قدسی قطرہ بن کر پلکوں پر آکر ٹھہر گئی۔
’’احمد! تم کو معلوم ہے زندگی کا حسن کیا ہے؟ ایک دن سب کو مرنا ہے‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.