Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

فرصت کا دن

شفق

فرصت کا دن

شفق

MORE BYشفق

    کہانی کی کہانی

    یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے، جو بچے کو اسکول بھیجنے کے بعد فرصت سے وقت گزارنے کے بارے میں سوچتا ہے۔ بیوی کے ساتھ وقت گزارنے، اخبار پڑھنےاور چائے پی چکنے کے بعد ہی اسے تنہائی کا احساس ہونے لگتا ہے۔ وہ بار بار گھڑی کی طرف دیکھتا ہے اور اندازہ لگانے کی کوشش کرتا ہے کہ بچے کے اسکول سے واپس لوٹنے میں ابھی کتنا وقت باقی ہے۔

    اسکول بس جا چکی تھی۔

    وہ دور تک اسےجاتے دیکھتے رہے یہاں تک کہ بس اگلے موڑ پر گھوم کر نظروں سے اوجھل ہو گئی۔ بچوں کو پہنچانے والے اپنے اپنے راستوں پر جا چکے تھے اور بس اسٹاپ خالی ہو گیا تھا۔ ابھی دن کے نو بجے تھے دھوپ میں تمازت تھی اور کپڑوں پر سرسراتی ہوئی ہوا بہت اچھی لگ رہی تھی۔ شوہر نے بیوی کی طرف دیکھا۔ وہ بےحد گمبھیر تھی۔ شوہر کو اپنی طرف دیکھتے پاکر رندھی ہوئی آواز میں بولی، ’’بہت روئےگا۔‘‘

    ’’ہاں یہ لمحہ ہر والدین پر بھاری ہوتا ہے جب بچہ پہلے دن اسکول جاتا ہے،‘‘ شوہر نے لاپرواہی سے جواب دیا۔ ’’آؤ چلیں۔‘‘

    بیوی چلتے چلتے ٹھٹھک گئی۔ ’’ہم کہاں جارہے ہیں، یہ گھر کا راستہ نہیں ہے۔‘‘

    ’’کچھ دیر باغ میں چہل قدمی کریں گے، پھولوں کے کنج میں بیٹھیں گے اور ۔۔۔’’ وہ معنی خیز انداز میں مسکرایا تو وہ ہلکی سی گلابی ہوئی۔۔۔ ’’یقین کرو اب یہ بچے زحمت بن گئے ہیں اب کوئی پل ہمارا نہیں۔ کیسا جی چاہتا ہے صرف ہم تم ہوں سمندر کا کنارہ ہو، ٹھنڈی ٹھنڈی ریت۔ آسمان میں چمکتا ہوا چاند، بھیگی بھیگی ہوا اور چاندنی میں جلتے ہوئے ہم دونوں،’’ شوہر بے حد رومانی ہو رہا تھا۔ ’’ہماری شادی اب ہونی چاہئے تھی۔‘‘

    ’’سنئے یہ سمندر کا کنارہ نہیں ہم شہر کی سڑک پر ہیں،‘‘ بیوی نے ٹوکا۔ ’’کوئی سن لے گا تو دیوانہ سمجھےگا۔‘‘

    ’’آج میں تہذیب کا لبادہ اتار کر پھینک دینا چاہتا ہوں۔ بڑی گرمی اور گھٹن ہے۔ قدم قدم پر پہرے ہیں، اخلاقیات کی دیواریں ہیں اور بے شمار کان، دیواروں میں، دروازوں چھتوں پر اور پھر ماں باپ کے ایک ایک پل کے نگراں بچے۔‘‘

    عورت نے گھر کا تصور کیا۔ کہنے کو تو دو کمروں کا فلیٹ اور اس کے لئے بھاری رقم ادا کی گئی تھی۔ مگر کمرے کی دیواریں اتنی پتلی ہیں کہ بغل کے گھر کی ساری آوازیں برہنہ۔ اور بچے بےحد سیانے، پڑھتے وقت بھی ان کے کان ہماری باتوں پر لگے رہتے ہیں، بعد میں پوچھتے ہیں پاپا یہ کیا کہہ رہے تھے اور وہ دھک سے ہوجاتی ہے۔ بڑے منہ پھٹ ہیں وہ بھی۔ یہ بھی نہیں سوچتے کہ بچے سن رہے ہیں اور رات کا بھی کیا بھروسہ، کیا پتہ کون جاگ جائے یا جاگ ہی رہا ہو، صرف گھٹن ہی نہیں خوف کی قینچی بھی ہے جو ہر پرواز کے پر کتر ڈالتی ہے۔ اسے اپنے شوہر کی چڑچڑاہٹ اچھی نہیں لگتی تھی اور اسے خود غرض سمجھتی تھی مگر جب اس نے غور کیا تو محسوس ہوا کہ اس کے اندر کی عورت بھی بہت پیاسی اور قید و بند کی صعوبتوں سے تھک گئی ہے۔ اس نے والہانہ نظرو ں سے شوہر کو دیکھا۔ کنپٹیوں پر دو چار بال سفید ہو گئے ہیں پھر بھی کتنا بھرپور ہے، مضبوط جذباتی اور تجربہ کار۔ مسافروں سے بھری ایک تیز رفتار بس ان پر دھول اڑاتی گزر گئی۔ پھر بریک چیخے اور ٹائروں کی آواز پر انہوں نے مڑ کر دیکھا۔ تیز رفتاری سے موڑ کاٹتی ہوئی بس کے ایک طرف کے دونوں پہئے سڑک سے اوپر اٹھ گئے مگر خیریت ہوئی بس الٹی نہیں۔

    ’’یہ سالے ڈرائیور مسافروں کی زندگی کو کھلونا سمجھتے ہیں،‘‘ شوہر نے کہا اسی لیے حادثے زیادہ ہونے لگے ہیں۔

    عورت کی نظروں کے سامنے اسکول بس ایسی ہی ایک موڑ پر چیختی چرمراتی ایک پیڑ سے ٹکراکر الٹ گئی تھی اور اس کے تینوں بچے۔۔۔ روکنے کی کوشش کے باوجود اس کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکل گئی اور شوہر گھبرا کر اسے دیکھنے لگا۔

    ’’کیا ہوا؟‘‘

    کچھ نہیں، ایڑی میں کنکر چبھ گیا تھا۔ اس نے خود کو سنبھال کر اپنے تصور کو کوسا، مگر وہ کیا کرتی کہ آئے دن اخبار میں حادثے کی خبر پڑھتی تو پریشان ہو جاتی، دل میں برے برے خیالات آتے۔ حالانکہ دل کو یہ تقویت رہتی کہ منا ان کے پاس ہے پھر بھی جب تک عامر اور رضیہ اسکول سے نہ آجاتے وہ بےچین رہتی۔

    باغ میں مالی کے سوا کوئی نہیں تھا۔ اس نے مشکوک نگاہوں سے انہیں دیکھا، مگر وہ مشتبہ نہیں لگے تو وہ پھر گلاب کے تھالے کی مٹی ملائم کرنے لگا۔ وہ دیر تک ہری ہری گھاس پر ننگے پاؤں چلے، مگر سورج کی کرنوں نے رات کی شبنم جذب کر لی تھی اس لئے ٹھنڈک نہیں تھی۔ پھر وہ پھول کے ایک گھنے پودے کی اوٹ میں بیٹھ گئے۔ مرد نے اپنا سر بیوی کی گود میں رکھ دیا۔ بیوی اس کے بالوں میں دھیرے دھیرے انگلیاں پھیرتی ہوئی جوئیں تلاش کرنے لگی۔

    ’’میں منا نہیں ہوں جو جوئیں تلاش کر رہی ہو۔‘‘

    وہ ہنس دی۔ دیکھئے نامنے کو روز نہلاتی ہوں پھر بھی اس کے سر میں جوئیں ہو جاتی ہیں۔‘‘

    تمہارے ساتھ سوتا ہے تمہاری چڑھ گئی ہوگی۔

    ’’پتہ نہیں اسکول میں کیا کر رہا ہوگا؟ اسے بیٹا یاد آ گیا۔ میں نے ٹفن باکس میں اس کی چاکلیٹیں بھی رکھ دی ہیں۔‘‘

    ’’اب اسے مناسب کہو۔ وہ اسکول جانے لگا ہے اور اسکول میں اس کا نام صدام حسین ہے۔‘‘

    ’’جانتی ہوں مگر اب یہ نام ظلم سے ٹکرانے والے کی بجائے ظلم سہنے والے کی علامت بن گیا ہے۔‘‘

    ’’تم ایسا سوچ سکتی ہو مگر حقیقت یہ ہے کہ ظلم کرنے والے کو اس کے عوام نے ہٹا دیا اور صدام اپنی جگہ قائم انہیں چیلنج کر رہا ہے۔ ہمارا بیٹا بھی ویسا ہی حوصلہ مند ہوگا۔‘‘

    ’’ہاں سنئے،‘‘ عورت کو اچانک یاد آ گیا۔ عامر کو یہ احساس ہونے لگا ہے کہ ہم اسے کم چاہتے ہیں اس احساس کا بڑھنا اچھا نہیں ہے۔‘‘

    ’’اسے یہ احساس اس لئے ہے کہ منا تمہارے ساتھ سوتا ہے۔‘‘

    میں نے اسے کئی بار عامر اور رضیہ کے ساتھ سلایا۔ وہ دونوں نیند میں منے پر پاؤں رکھ دیتے ہیں، ابھی بہت چھوٹا ہے نا۔‘‘

    ’’چھوٹا ہے یا پورا شیطان ہے۔ جہاں تم ادھرا دھر ہوئیں وہ اٹھ کر امی امی کرنے لگتا ہے۔‘‘

    بیوی کی ہنسی میں ممتا اور اذیت پسندی دونوں شامل تھی۔ ’’کتنے بیزار ہیں آپ بچوں سے۔‘‘

    ’’اچھا فرض کیجئے ابھی جو بس الٹتے الٹتے بچی ہے وہ اسکول بس ہوتی اور اس میں ہمارے بچے۔۔۔‘‘

    مرد تڑپ کر اٹھ بیٹھا۔ ’’بیکار کی باتیں مت کرو۔‘‘

    ’’نہیں میں تو صرف آپ کا ردعمل جاننا چاہتی ہوں۔ بسوں میں دھماکے ہورہے ہیں، اسکول بسیں اغوا ہو رہی ہیں، ہر حادثے میں زیادہ شکار بچے ہو رہے ہیں، اگر خدا نخواستہ ہمارے بچوں کی بس بھی اخبار کی ہیڈلائن بن گئی تو؟‘‘

    ’’کیا ہم یہی بیکار باتیں کرنے یہاں آئے ہیں۔ شوہر کھڑا ہو گیا۔ تم ماں ہوکر ایسا سوچتی ہو اس سے زیادہ اذیت پسندی کیا ہوگی۔‘‘

    بیوی کو اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ اس نے شوہر کا موڈ خراب کر دیا اور وہ تب سے اب تک صرف بچوں کی باتیں کرتی رہی تھی جب کہ آج مرد نے دفتر سے اس لئے چھٹی لی تھی کہ تنہائی کا مصرف لےگا۔ اس نے شوہر کا ہاتھ پکڑ کر بٹھانا چاہا مگر وہ بیٹھنے پر رضامند نہیں ہوا۔

    پارک سے نکلتے وقت شوہرنے گھڑی دیکھی۔ دن کے دس بجے تھے۔ آخر وہ اتنی دیر پارک میں کیا کرتا رہا۔ اس نے سوچا۔ نہ بیوی کو باہوں میں بھرا نہ ہونٹ چومے۔ نہ ہی لباس شکن آلود ہونے کے احتجاج کے باوجود گھاس روندی۔ اس نے سوچا بہت تھا، کیا کچھ نہیں۔ اس نے ایک بار بھی گفتگو کا موضوع بدلنے کی کوشش نہیں کی۔ گویا یہ بھی اس کے دل میں تھا۔ اتنے قیمتی لمحات کا زیاں اسے اچھا نہیں لگا۔ تو کیا عمر کی وہ سرحد شروع ہوگئی ہے جہاں تصور حقیقت سے زیادہ لذت آمیز ہو جاتا ہے۔ اس نے کئی دن پہلے سے آج کے دن کا پروگرام بنایا تھا جس کا پہلا حصہ ضائع ہو گیا۔ بچے اسے بھی عزیز ہیں مگر اسی حد تک جہاں اس کے حق پر ڈاکہ نہ پڑے، مگر یہ حد کہاں ہے۔ یہاں سے وہاں تک ہر جگہ بچے ہی ہیں۔ پارک کی پرسکون خلوت میں بھی وہی ٹہلتے رہے۔ ابھی پانچ گھنٹے ہمارے پاس ہیں، اب وہ بیوی کو بیکار باتیں نہیں کرنے دےگا۔

    اس نے سڑک پر نظریں دوڑائیں۔ کاریں، ٹمپو، اسکوٹر اور بسیں بے تحاشہ بھاگ رہی تھیں۔ اگر سڑک پار کرنے میں ذرا سی چوک ہو جائے تو؟ اسے گلف کے ایک شہر میں ایک ہندوستانی جوڑے کا واقعہ یاد آ گیا۔ مرد اپنے دو چھوٹے بچوں کو گھر میں مقفل کر کے عورت کو اسپتال داخل کرانے گیا تھا۔ واپسی میں ٹریفک کی خلاف ورزی کے الزام میں گرفتار ہو گیا۔ وہ تین دنوں تک حوالات میں چیختا رہا میرے بچے گھر میں بند ہیں۔ مگر کسی نے اس کی بات نہیں سنی اور تین دنوں بعد جب اس نے اپنا گھر کھولا تو دونوں بچے مر چکے تھے۔ اس نے ایک جھرجھری سی لے کر بیوی سے کہا، ’’ہم باری باری سڑک پار کریں گے۔‘‘

    عورت نے کچھ پوچھا نہیں، خاموشی سے آگے بڑھ کر بچتی بچاتی سڑک پار کر گئی۔ تب اس نے بھی سڑک پار کی۔ گھر پہنچ کر عورت باتھ روم میں چلی گئی اور مرد کمرے میں۔ باتھ روم سے نکل کر وہ کچن میں گئی اور چائے کا کپ لے کر کمرے میں پہنچی تو مرد کو اس کے اصلی روپ میں دیکھ کر جھینپ گئی۔

    ’’بےشرم۔‘‘

    ’’چائے ادھر رکھ کر میرے پاس آ جاؤ۔ مرد نے حکم دیا اس نے بھی مکمل سپردگی کا مظاہرہ کیا۔ صرف چڑھتی سانسوں سے اتنا پوچھا۔ باہر کا دروازہ بند کر دیا ہے نا؟‘‘ مرد نے بیکار باتوں میں وقت ضائع کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ عورت بھی کھلی کھلی تھی۔ آج انہیں پلنگ کے متواتر احتجاج کی پروا تھی، نہ کسی کے آجانے یا جاگ جانے کا خوف۔

    دور دور تک سایہ دار شجر تھے اور ان پر گاتے ہوئے طیور پہاڑوں سے جھرجھر بہتا ہوا جھرنا اور سائیں سائیں کرتی ہوا، تو وہ پھیل کر گھاس کا میدان بن گئی اور اس نے خود کو گھوڑے کے سموں کے سپرد کر دیا۔ وہ کسی اور دنیا میں پہنچ گئے تھے۔ وحشت اذیت اور لذت چڑھتی سانسیں اور بے پناہ آزادی کا احساس۔ عورت نے اپنی ساری پرتیں کھول دی تھیں، مرد کسی اور پرت کی جستجو میں سرگرداں۔ بدن پسینے میں نہا گئے، سانسیں دھونکنی کی طرح چلنے لگیں۔ پھر وہ پہاڑ کی چوٹی سے پھسل گئے، زمین ابھی دور تھی۔ ہنڈولے کی واپس آتی پینگ جیسی سنسناہٹ۔

    زمین پر اترکر مرد الگ ہٹ گیا۔ اسے عجیب سے گھن کا احساس ہوا۔ تخلیقی عمل کیسا وحشیانہ فعل ہے اور اس وحشت میں کتنی لذت ہے۔ مرد نے سوچا آج بیسویں صدی میں بھی ہم ویسے ہی وحشی ہیں جیسے ابتدائی زمانے میں رہے ہوں گے۔ معلوم نہیں بعد میں انہیں گھن آتی تھی یا نہیں۔

    عورت ویسے ہی پڑی گہری گہری ساسیں لے رہی تھی۔ مرد بستر سے اترا تو اس نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا جیسے پوچھ رہی بس۔۔۔ مرد نے اس پر چادر ڈال دی پھر جب کرسیوں پر بیٹھے تو چائے کا خیال آیا۔ چائے ٹھنڈی ہوچکی تھی۔ عورت اسے گرم کرنے کچن میں چلی گئی۔

    وہ خود کو بہت ہلکا ہلکا محسوس کر رہا تھا۔ اس نے گھڑی دیکھی دن کے بارہ بجے تھے، منے کو بھوک لگی ہوگی اس کے کھانے کا وقت ہوگیا ہے۔ مگرٹفن سوا ایک بجے ہوتی ہے۔ اس نے عجیب سی بےکلی محسوس کی اور اس سے نجات پانے کے لئے وہ کوئی ضروری کام سوچنے لگا۔

    دفتر کا بکھیڑا وہ گھر نہیں لاتا تھا اور بیوی گھر کا کوئی گوشہ خالی نہیں چھوڑتی تھی۔ لائٹ نہیں تھی اس لئے وہ ٹی وی بھی نہیں دیکھ سکتا تھا اور اخبار وہ پڑھ چکا تھا۔ گویا کوئی کام نہیں ہے۔ بیوی چائے لائی تو اس نے سوچا باتوں میں وقت کٹ جائےگا۔ مگر جب وہ ٹی وی سیریل کی بات کرنے لگی تو اسے اکتاہٹ ہوئی۔ کیا ضروری ہے کہ بات کرنے کے لئے کوئی غیرضروری بات کریں۔

    اگر اس وقت بچے ہوتے تو وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوتا۔ عامر کتنے سوالات پوچھتا ہے۔ پاپا اس لفظ کی انگریزی کیا ہوگی، میزائل کیا ہوتا ہے، ہوائی جہاز بم کیسے گرارتا ہے۔ رضیہ کتاب لئے کھڑی رہتی ہے۔ پاپا میتھ کا یہ سوال کیسے حل ہوگا، دیکھئے کاپی ختم ہوگئی، صرف چار پیج رہ گئے ہیں۔ منا گود میں بیٹھ جاتا اور اترنے کا نام نہیں لیتا۔ اس نے بیزاری سے گھڑی دیکھی۔ ساڑھے بارہ۔ ابھی چار گھنٹے انتظار کرنا ہے تب بس آئے گی اچانک اسے بیوی کا سوال یاد آ گیا۔ اگر خدانخواستہ ہمارے بچوں کی بس اخبار کی ہیڈلائن بن گئی تو؟

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے