Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

گڑھی سے ابھرتا سورج

نورالحسنین

گڑھی سے ابھرتا سورج

نورالحسنین

MORE BYنورالحسنین

    قاضی سلطان کا سیدھا ہاتھ اتنی شدت سے ہوا میں بلند ہوا کہ اگر وہ ان کے بھانجے کے منہ پر گرتا تو یقیناً اس کے پورے دانت زمین پر ہوتے، لیکن ہاتھ اوپر ہوا ہی میں معلق رہ گیا اور پھر ان کی تین انگلیاں اور انگوٹھا ہتھیلی میں گھڑی ہو گئے اور ا نگشت شہادت آسمان کی طرف اٹھ گئی۔ ٹھیک اسی وقت زور دار بجلی کڑکی اور پھر موسلادھار بارش شروع ہو گئی۔ غصے میں قاضی سلطان نے کیا کچھ کہا بارش کی آوازوں نےاسے اپنے اندر سمیٹ لیا۔ بھانجے کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ بکھری ہوئی تھی اور آنکھوں میں ڈر و خوف کی جگہ ایک ایسی بےنیازی تھی گویا اینٹ کا جواب پتھر سے دے رہا ہو لیکن آواز۔۔۔ آواز تو صرف وہی سن رہا تھا۔

    ٹین کے شیڈ سے نکلنے کے لیے جیسے ہیاس نے قدم اٹھایا قاضی سلطان کی آواز پھر گونجی، ‘’ٹھہرو انور۔۔۔! جو سوال میرے اور تمہارے درمیان اختلاف کا سبب بن گیا ہے وہ غلط ہے یا صحیح ہے، میں نہیں جانتا لیکن میرے اندر تمہارا ایک ماموں بھی موجود ہے اور اس کی ممتا تمہیں اتنی شدید بارش میں جانے کی اجازت نہیں دے سکتی۔۔۔!’‘

    وہ ٹھہر گیا۔ طوفان بڑھ رہا تھا۔ اس نے ایک بار گہری نظروں سے اپنے ماموں کی طرف دیکھا اور پھر چپ چاپاس تخت کے ایک کونے پر بیٹھ گیا جس پر مصلا اور کلام پاک رکھا ہوا تھا۔ ماموں کا پورا بدن اب بھی غصے سے کانپ رہا تھا۔ وہ ٹہلنے لگے تھے۔ ٹین کے شیڈ میں دونوں ہی خاموش تھے۔ اس نے جالیوں سے باہر جھانکا، بارش اپنے شباب پر تھی۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنے سر کو تھام لیا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ جو ماموںاسے اپنی اولاد سے زیادہ چاہتا تھا۔ جس نے ہمیشہ ہیاس کی کامیابیوں پر خوشیاں منائیں، اب وہ اسے کھیت خریدنے سے کیوں روک رہا ہے۔ کیوں آگ بگولہ ہو رہا ہے۔ اس نے پھر ایک بار ماموں کی طرف دیکھا۔ ان کے جلالی چہرے پر اب بھی اسے ممتا صاف جھلکتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔۔۔ ماموں۔۔۔ آپ تو اماں کا کتنا خیال رکھتے تھے۔ آپ نے ہی میری تعلیم و تربیت کا سارا بار اٹھایا تھا۔ آپ۔۔۔ آپ اب مجھ سے اس قدر ناراض کیوں ہیں۔۔۔؟ اس کے لبوں سے ایک ٹھنڈی آہ نکلی، کہیں ماموں آپ میرے عروج سے جلن تو محسوس نہیں کر رہے ہیں۔۔۔؟ کیا آپ یہی چاہتے ہیں کہ جس طرح غربت اور بیوگی کا عذاب سہتے ہوئے میری ماں کی زندگی گزری وہی میرا بھی مقدر ہو۔۔۔؟ کہیںآپ کو یہ خوف تو نہیں کہ چند ایکڑ زمین کی خریداری کی وجہ سے میرا شمار بھی گاؤں کے زمینداروں میں ہونے لگے۔۔۔؟

    بجلی پھر ایک بار زور سے کڑکی تھی۔

    ماموں وہ آپ ہی تو تھے۔۔۔؟ اچانک ہوا کا ایک خوشگوار جھونکا برسات کی پھوار کو جالیوں سے اندر لے آیا اور اس کا بدن ٹھنڈی پھوار کے لمس سے شرابور ہو گیا۔ اس نے آنکھیں بند کر لیں۔ تو دور کہیں موہن کی بانسریا کا سریلا راگ فضاء میں پھیل گیا۔ آم کے درخت پر کووں کا جوڑا کوئل کے بچّے کو اڑنا سیکھا رہا تھا۔ ماں برتن مانجھ رہی تھی۔ وہ ماں کے پیچھے کھڑا تھا۔ اس کا جسم ایک چھ برس کے بچے میں ڈھل گیا تھا۔ ماموں دالان میں بیٹھے کسی کتاب کی ورق گردانی کر رہے تھے۔ انھوں نے کتاب سے نظریں ہٹائیں اور اپنی بہن کو مخاطب کیا، ‘’آپا۔۔۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ آخر دولہا بھائی کے انتقال کے بعد آپ اس ویرانے میں کیوں مصیبتیں جھیل رہی ہیں۔ میں آج پھر آپ کو اپنے ساتھ گاؤں لے جانے آیا ہوں’’

    نجمہ بیگم نے کانچ کی پلیٹ کو احتیاط سے رکھا، ‘’سلطان جانی میں یہاں پر مزے میں ہوں۔ میں گاؤں نہیں آ سکتی۔’‘

    ‘’کیوں نہیں آ سکتیں۔۔۔؟’‘ قاضی سلطان نے سوالیہ نظروں سے اپنی بہن کی طرف دیکھا اور بہن کی زبان سے نکلا، ‘’انور۔۔۔!’‘

    ‘’آپا ۔۔۔!’‘ قاضی سلطان اپنی جگہ سےاٹھے اور انور کو گود میں اٹھاتے ہوئے بولے، ‘’آپا۔۔۔انور بھی میری ہی ذمہ داری ہے۔ میں اس کی پرورش میں کوئی کمی نہیں کروں گا ۔’‘

    نجمہ بیگم نے دھلے ہوئے برتنوں کے ٹوکرے کو اٹھایا اور باورچی خانے کی طرف جاتے ہوئے کہنے لگیں، ‘’سلطان جانی تمہارے دولہا بھائی نے اپنی زندگی میں مجھے کہیں بھی جانے نہیں دیا ۔ان کی آنکھیں بند ہوتے ہی اگر میں گھر سے باہر نکلی تو روز حشران کو کیا جواب دوں گی۔۔۔؟’‘ پھر وہ باورچی خانے سے باہر آتے ہوئے بولیں، ‘’بھیا مجھے تمہاری محبت اور خلوص پر کوئی شک نہیں ہے، لیکن سوچو، تمہاری بیگم کیا مجھے اب بھی وہی عزت دےگی جو تمہارے دولہا بھائی کی حیات میں۔۔۔ میرا مطلب کام کاج تو وہاں بھی کرنا ہی پڑےگا اور پھر یہاں کوئی غلطی سے بھی مجھ پر طنز نہیں کرےگا کہ میں اپنے بھائی پر بوجھ بن گئی۔’‘ نجمہ بیگم کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ قاضی سلطان تڑپ اٹھے۔ وہ کسی بھی صورت اپنی بہن کو دکھی کرنا نہیں چاہتے تھے ۔انھوں نے انور کو گود سے نیچے اتارا اوربہن کے سینے سے لگ گئے۔

    ‘’آپا۔۔۔مجھے صرف آپ کی خوشی اور آپ کا سکھ چاہیے۔ مجھے معاف کر دیں۔ آپ یہیں پر رہیں، لیکن میں آپ سے کبھی غافل نہیں رہوں گا۔ انور کو اسکول میں داخل کروا دیں۔ اس کی پڑھائی کا خرچ میں اٹھاؤں گا۔ بس مجھے اس ذمہ داری سے روکنا مت۔۔۔’‘

    بہن کے چہرے پر پھیکی سی مسکراہٹ پھیل گئی اور آنسووں کی برسات رک گئی۔

    انور نے آنکھیں کھولیں تو بارش تھم چکی تھی۔ ٹین کے شیڈ میں وہ اکیلا ہی بیٹھا ہوا تھا۔ وہ خاموشی سےاٹھا اور باہر نکل گیا۔

    ’’قاضی سلطان اپنے گاؤں میں کسی مطلق العنان حاکم سے کم نہیں تھے۔ حالانکہ نہ وہ سرپنچ تھے اور نا ہی کوئی سرکاری عہدہان کے پاس تھا۔ لیکن وہ ہمیشہ ہی گاؤں اور گاؤں والوں کی فلاح و بہبود کے بارے میں سوچتے تھے اور گاؤں والے بھی ان کی ہر بات کو اپنے لیے حکم ہی تصور کرتے تھے۔ چنانچہ جب انھوں نے یہ دیکھا کہ گاؤں کے غریب کسان اپنی چھوٹی موٹی ضروریات کی خاطر اپنی کھیتیاں بیچتے ہیں اور شہر کے لوگ محض اپنی تفریح کی خاطر کھیتیوں کو فارم ہاؤس میں تبدیل کر رہے ہیں تو ایک دن انھوں نے اعلان کیا کہ آج سے کوئی بھی کسان اپنی کھیتی فروخت نہیں کرےگا اورخصوصاً باہر سے آنے والوں کو بالکل نہیں۔۔۔ میں نے یہ فیصلہ بہت سوچ بچار کے بعد کیا ہے۔ تم کو جس قدر روپیہ کی ضرورت ہوگی وہ مجھ سے لے لینا، کھیت تمہارے ہی قبضے میں رہےگا۔ تم ہی اس پر کاشتکاری کروگے اور جو بھی پیداوار ہوگی اس کا تیسرا حصّہ مجھے دوگے اور تھوڑا تھوڑا قرض بھی ادا کروگے۔ جس دن تمہارا قرض ادا ہو جائےگا تم پھر سے اپنے کھیت کی پوری پیداوار کے مالک ہو جاؤگے۔۔۔ بولو تمہیں منظور ہے۔۔۔؟’‘

    تمام لوگوں نے اس اعلان کو خوشی خوشی قبول کیا۔ قاضی سلطان کے اس منصوبے نے گاؤں میں ایک نیا سویرا روشن کر دیا۔ کھیتیاں محفوظ ہو گئیں اور لوگوں کی مشکلات بھی حل ہونے لگی تھیں۔

    دراصل کبھی قاضی سلطان کے آبا و اجداد کا شمار گاؤں کے بڑے زمینداروں میں ہوتا تھا۔ ان کی نیکی اور شرافت کے قصّے آج بھی گھر گھر سنائے جاتے تھے۔ جب تک دکن پر شاہی حکومت برقرار رہی اس خاندان کے افراد نے گاؤں کی فلاح و بہبود کا ایسا انتظام کیا تھا کہ نہ کسی کو کبھی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کی نوبت آئی اور ناہی روزی روزگار کے لیے شہر کا رخ کرنا پڑا تھا لیکن سقوط حیدر آباد کے بعد جہاں مسلمانوں کی بڑی آبادی تباہیوں کا شکار ہوئی وہیں قاضی سلطان کے خاندان نے بھی بہت کچھ کھویا تھا۔ پھر حکومتِ ہند نے کل قاعدے (حیدر آباد ٹینانسی اینڈ ایگری کلچرل لینڈ ایکٹ ۱۹۵۰ کا قانون لاگو کر دیا۔ اس قانون نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی لیکن چونکہ قاضی سلطان کا خاندان اپنی بہت ساری اراضی پر خود ہی کاشت کیا کرتے تھے اس لیے وہ بچ گئے اوران کا رعب داب باقی رہ گیا۔

    انور ماموں کے گھر سے نکلا تو بارش نے گاؤں کے راستوں کو کیچڑ میں تبدیل کر دیا تھا۔ وہ کسی طرح احتیاط سے قدم اٹھاتا ہوا جونہی بازار میں پہنچا تو اسے تھوری بہت چپل پہل نظر آئی۔ ہلکی ہلکی بارش اب بھی ہو رہی تھی۔ اس نے جونہی ہوٹل میں قدم رکھا تو جمو باغبان، نرائن کمہار، پرکاش نائی اور مجّو خان زمیندار کو پہلے ہی سے وہاں مؤجود پایا۔ اسے دیکھتے ہی انھوں نے ایک دوسرے کو معنی خیز اشارے کیے اور پھر آداب سلام کرتے ہوئےاس کے ٹیبل پر پہنچ گئے۔

    ‘’بولو انور میاں۔۔۔ مان گئے تمہارے ماموں۔۔۔،’‘ نرائن کمہار نے پرکاش نائی کو آنکھ مارتے ہوئے انور سے سوال کیا۔

    ‘’ارے بھیا جب تلک اس گاؤں میں کاجی سلطان کا راج باکی رہےگا نہ کوئی اپنی مرجی سے کھیت کھرید سکےگا اور نا ہی بیچ سکےگا’’

    پرکاش کے چہرے پر طنز ابھر آیا۔

    ‘’نہیں دادا۔۔۔!’‘ مجو خان زمیندار نے پانی کا گلاس اٹھاتے ہوئے کہا اور پھر ایک ہی سانس میں پانی حلق سے نیچے اتار کر بولا، ‘’قاضی سلطان کے بارے میں ایسی باتیں مت کرو۔ انھوں نے جو کچھ بھی کیا گاؤں والوں کی بھلائی کے لیے ہی کیا ہے۔’‘

    ‘’سن رہے ہو پرکاش بھیا۔۔۔!’‘ نرائن نے بیڑی سلگائی، ‘’ارے احسان جب پیٹ میں اترتا ہے تو سچ بات بولنے کی شکتی بھی چلی جاتی ہے۔’‘

    ایک زور دار قہقہہ بلند ہوا۔

    ‘’مجو بھیا۔۔۔ اپنے کھیت میں محنت کر کرکے تم نے کاجی جی کے گھر میں کتنا روپیہ ٹپکایا ہے۔۔۔؟ بو لو۔۔۔ارے بولو نا۔’‘

    ‘’اس سے کیا فرق پڑتا ہے نرائن راؤ، پن یہ کیا بڑی بات نہیں ہے کہ قاضی صاحب کی وجہ سے آج میرے پاس میری کھیتی رہ گئی’‘

    ‘’مجو بھائی یہ تمہارا نصیب تھا۔ کاجی جی کے ہاتھوں میں تمہارے اللہ میاں نے ہمارے نصیب کی چوپڑی نہیں دے دی کہ وہاس میں من مانا پھیر پھار کریں۔۔۔؟’‘ پرکاش نائی کی آواز کچھ اونچی ہو گئی، ‘’میں کہتا ہوں ہم لوگ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ اس بہانے کاجی جی کی سمپتی (دولت) کتنی بڑھ گئی ہے۔ ارے آج پورے گاؤں کو کھریدنے کی شکتی آ گئی ہے ان کے پاس۔۔۔!’‘

    ‘’مگر انھوں نیکسی کی کھیتی خریدی تو نہیں۔۔۔؟’‘

    ‘’ارے کاہے کو خریدیں گے۔ بنا خریدے ہی مال کا تیسرا حصّہ گھر بیٹھے جوان کے پاس پہنچ رہا ہے۔’’ جمو باغبان نے ٹیبل پر ہاتھ مارا۔

    سب کچھ دیر کے لیے خاموش ہو گئے۔ انور نے سب کی طرف باری باری سے دیکھا، ‘’لیکن میں تو کھیت خریدوں گا اور اسی گاؤں میں خریدوں گا، ضرور ضرور خریدوں گا۔’‘

    ‘’انور میاں تم اس گاؤں میں کھیت نہیں کھرید سکوگے۔۔۔!’‘

    ‘’ارے کیوں نہیں کھرید سکیں گے۔۔۔؟ منہ مانگا دام دے رہے ہیں انور میاں۔’‘

    ‘’انور میاں برا نہیں ماننا۔’‘ نرائن نے بیڑی کا آخری کش لیا، ‘’میرے کو بولو، تم کو کھیتی کاہے کے واسطے ہونا۔۔۔؟ ویسے بھی کھیتی باڑی کا کام آسان نہیں ہے۔ قلم چلانے والے ہاتھ ہل کیسے چلائیں گے۔۔۔؟’‘

    ‘’وہ میں نہیں جانتا۔۔۔!’‘ انور زمین کو تکنے لگا، ‘’میری ماں یہاں کے بڑے زمین دار کی بیٹی تھیں۔ وہ ساری زندگی اپنے کھیتوں کا بکھان کرتی رہیں اوران کی بڑی خواہش تھی کہ میرے پاس بھی کھیتی ہو۔ میں تو بس اپنی ماں کی روح کو سکھ پہنچانا چاہتا ہوں۔ لیکن ماموں۔۔۔’‘

    ‘’لیکن تمہارے ماموں چا ہتے ہیں کہ ا س گاؤں میں آج بھی تمہاری یہی پہچان باقی رہے کہ تم ماموں کے ٹکڑوں پر پلنے والے بھانجے ہو۔۔۔’‘ جمو باغبان نے انور میاں کا جملہ پورا ہونے سے پہلے ہی کہا۔

    انور کا چہرا سرخ ہو گیا۔ آسمان پر بجلی زور سے چمکی اور پھر اس کی گرج کی آواز تہہ در تہہ گونجتی چلی گئی، ‘’ماموں نے جو کچھ بھی میرے ساتھ سلوک کیا ہے وہ مجھ پر کوئی احسان نہیں ہے۔ میری ماں اگر ماموں سے اپنا حصہ مانگتی تو۔۔۔؟’‘

    ‘’تو تمہاری ماں غربت کی زندگی بسر نہ کرتی۔’‘ جمو باغبان نے پھر جلتی پر تیل کا چھڑکاؤ کیا، ‘’ارے بھیا تم ا سی گاؤں میں کھیت ضرور خریدو گے۔ ہم ہیں نا تمہارے ساتھ، وہ سندر لال تو راضی ہے نا۔۔۔؟’‘

    ‘’وہ راضی ہیں اپنی پانچ ایکڑ زمین بیچنے کے لیے۔ رقم بھی طئے ہو گئی ہے۔’‘ انور نے آہستہ سے کہا۔

    ‘’تو بس۔۔۔ اب تم اپنی کار نکالو اور اپنے شہر کو جاؤ۔ کل ہم لوگ سندر لال کو لے کر تمہارے گھر پہنچتے ہیں۔’‘

    مجو خان زمیندار نے آسمان کی طرف دیکھا، سارا آسمان کالے کالے بادلوں سے اٹ گیا تھا، ‘’جاؤ انور میاں اپنے گھر جاؤ۔۔۔ طوفان آنے والا ہے۔۔۔’‘

    ‘’طوفان کو تو آنا ہی ہے۔۔۔!’‘ انور نے سب کی طرف فاتحانہ نظروں سے دیکھا اور پھر ہوٹل سے باہر نکل گیا۔

    موسم کی اس اچانک تبدیلی نے سارے ماحول کو بدل کر رکھ دیا تھا۔ جدھر بھی نگاہ اٹھتی، گندگی اور کیچڑ ہی کیچڑ تھا۔

    انور جونہی گھر میں داخل ہوا، بیوی کو دیکھتے ہیاس کا غصہ بھڑک اٹھا، ‘’رضیہ۔۔۔! کیا سمجھتے ہیں خود کو تمہارے ابا جان۔۔۔؟ ارے میں جس محکومے کا سربراہ ہوں وہاں پر قاضی سلطان کے جیسے ہزاروں لوگ صرف مجھے سلام کرنے کے لیے آتے ہیں۔۔۔ ہونہ۔۔۔ مجھے اڑائیں گے۔ میرے کام کو روکیں گے۔۔۔؟ ارے ایسے بہت سارے طرم خاؤں کو میں کچل چکا ہوں۔۔۔انھیں یہ بھرا ہوگا کہ انھوں نے مجھ پر احسان کیا ہے لیکن کان کھول کر سُن لو رضیہ بیگم۔۔۔! احسانانھوں نے نہیں بلکہ الٹا میں نے ان پر کیا ہے۔ اتنی بلندی پر پہنچ کر میں نے ان کی دیہاتن گنوار بیٹی سے شادی کی ہے۔۔۔ سن رہی ہو تم۔۔۔؟ کل صبح میں ہر قیمت پر اسی گاؤں میں کھیت خریدوں گا۔ دیکھتا ہوں گاؤں کی ہمدردی کے نقاب کے پیچھے سے تمہارے اباجان اب کون سا وار کرتے ہیں۔’‘

    رضیہ کا چہر ہ آنسووں سے بھر گیا۔ اس کی زبان سے ایک لفظ بھی نہیں نکلا۔ وہ خاموشی سے ڈائیننگ ٹیبل کو سجانے لگی۔

    قاضی سلطان یونہی بے مقصد اپنے کھیتوں میں گھومتے رہے۔ انھیں عجیب سی بےچینی تھی۔ انھیں نہ تو قرار کنویں کے پاس آیا اور نا ہی امرائیوں کے نیچے۔ وہ موسمبی کے باغ میں پہنچے۔ سارے کام کاج حسب معمول ہو رہے تھے پھر بھیانھوں نے اپنا غصہ مالی پر اتارا۔ ندی میں کچھ دیر غوطے بھی لگائے لیکن ان کی طبعیت پرسکون نہیں ہوئی۔ ہلکی ہلکی پھوار برستی رہی لیکن ان کے اندر کی آگ سرد نہ ہوئی۔ تھک کر آخر وہ اپنی گڑھی میں پہنچے، جونہی دالان میں قدم رکھا تو ان کےاترے ہوئے چہرے کو دیکھ کران کی بیوی پریشان ہو گئی، ‘’کیا بات ہے جی۔۔۔؟ آپ کی طبعیت تو ٹھیک ہے نا۔۔۔؟’‘

    قاضی سلطان کے سینے میں ہلچل مچی ہوئی تھی، ‘’انور آیا تھا۔۔۔‘‘ان کی آواز بہت دور سے آتی ہوئی محسوس ہوئی۔

    ‘’آپ بھی۔۔۔’’ بیوی نے کچھ کہنا چاہا لیکن شوہر کی پیشانی پرابھری ہوئی لکیروں کو دیکھ کر خاموش ہو گئی۔

    ‘’بیگم لوہا ہی لوہے کو کاٹتا ہے۔۔۔’‘

    ‘’کیا آج بھی اس نے آپ کے ساتھ کوئی بد تمیزی کی۔۔۔؟’‘ وہ تلملا اٹھی، ‘’خوب صلہ دے رہے ہیں انور میاں۔۔۔ میں تو کہتی رہ گئی، لیکن میری سنتا کؤن۔۔۔؟ اپنے بچوں سے غفلت برت کر آپ نے بھانجے کو تعلیم دی، روپیہ پیسہ پانی کی طرح بہایا۔۔۔ جواب میں کیا ملا۔۔۔؟’‘

    قاضی سلطان نے گہری نظروں سے بیوی کی طرف دیکھا اور پھر ان کی گردن جھک گئی، ‘’بیگم میں نے اور میرے پرکھوں نے ہمیشہ ہی اپنے گاؤں کے بارے میں سوچا ہے۔ میں نے بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کی۔ میں چاہتا تھا کہ میرا گاؤں ایک مثالی گاؤں بن جائے۔ کوئی باہر کا بیوپاری ہماری مجبوریوں کا فائدہ اٹھاکر ہمیں بے زمین نہ کر دے۔ ہمارے مالکانہ حقوق چھین کر ہمیں مزدور نہ بنا دے۔۔۔ اسی کی خاطر میں نے ایک منصوبہ بنایا تھا۔ وہ اب تک کامیاب بھی رہا۔ آج بھکو، لالہ، موٹو، گردھاری، مجو خان، رمبا بائی، رامو، کاشی ناتھ، عبدالکریم، سبحان چاچا اور نہ جانے کتنے لوگوں کی کھیتیوں کو میں نے بچایا۔ میں سمجھتا تھا کہ آدمی کی چھوٹی موٹی ضروریات کی تکمیل ہو جائے تو وہ شانت ہو جاتا ہے لیکن میں یہ بھول گیا تھا کہ ہر بستی میں ایک کوفہ بھی ہوتا ہے۔ میرے لاکھ منا کرنے کے باؤجود بلکہ ڈرانے دھمکانے کے بعد بھی سندر لال نے کچھ لوگوں کے دباؤ میں آکر آخر انور سے اپنی کھیتی کا سودا کر لیا ہے۔ ‘’

    وہ ایک لمحہ خاموش ہو گئے۔ پھر انھوں نے آسمان کی طرف دیکھا ۔ان کا پورا کربان کی آنکھوں میں اتر آیا تھا، ‘’بیگم میری جنگ سندر لال جیسے مجبور لوگوں سے نہیں، اپنوں سے چھڑ گئی ہے اور بیگم میں یہ۔۔۔ یہ جنگ ہار گیا ہوں۔۔۔’‘

    ‘’تو پھر اب آپ کیا کریں گے۔۔۔؟’‘ بیگم نے اپنے شوہر کے اداس چہرے کی طرف دیکھا لیکن قاضی سلطان نے کوئی جواب نہیں دیا اور چپ چاپ جاکر اپنے بستر پر لیٹ گئے۔

    آسمان میں بادلوں نے گہرا اندھیرا کر دیا تھا۔ طوفانی ہوائیں سائیں سائیں کر رہی تھیں۔ قاضی سلطان نے اپنی آنکھیں بند کر لیں تو انھیں ایسا محسوس ہوا گویا ان کے اپنے اندر بھی شدید طوفان برپا ہے۔ ان کے دل کی دھڑکنیں تیز ہو گئیں اور درد کی ٹیسوں نے انھیں بے چین کر دیا اور پھر انھوں نے اپنی آنکھیں کھول دیں۔۔۔باہر کوئی دستک دے رہا تھا۔

    دستک کی آواز سن کر انور نے دروازہ کھولا۔ اس کے سامنے سندر لال، مجو خان زمیندار، جمّو باغبان، پرکاش نائی اور نرائن کمہار کھڑے تھے۔ اس کے چہرے پر مسرت بخش مسکراہٹ پھیل گئی، ‘’آج کا دن قاضی سلطان کے بناوٹی آدرشوں کے خاتمے کا دن ہے۔ آئیے۔۔۔ اندر تشریف لائیے۔۔۔ سندر کاکا رقم آپ کا انتظار کر رہی ہے ۔’‘

    ‘’نہیں انور میاں ۔۔۔! اب اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔۔۔’‘ سندر لال نے جواب دیا، ‘’یہی بات کہنے کے لیے ہم تمہارے گھر آئے ہیں۔‘‘

    ‘’دراصل ہماری پھوٹ، حسد، جلن اور انتشار ہی نے ہمیشہ ہم کو نقصان پہنچایا ہے۔ یہ بات تمہارے جانے کے بعد جب ہم نے سوچی تو ہمیں عقل آ گئی ۔۔۔’’ مجو خان زمیندار کے فخریہ لہجے نے انور کو حیرت میں ڈال دیا۔ اس کا منہ کھلا کی کھلا ہی رہ گیا۔

    ‘’ہم کاجی جی سے رات ہی کو ملنے گئے تھے۔’‘ پرکاش نائی نے سب کی طرف دیکھا، ‘’ہماری بھی سمجھ میں آ گیا۔ پڑوسی گاؤں میں بھی اگر کوئی کا جی سلطان پیدا ہو جاتا تو آج اس کی یہ حالت نہ ہوتی۔’‘

    ‘’بھیا ہم کو معاف کر دو۔’‘ اور پھر سب کے سب نہایت تیزی کے ساتھ واپسی کے لیے پلٹ گئے۔ انور کھڑاانھیں دیکھتا رہ گیا۔ آم کے درخت پر کووں کا جوڑا کوئل کے بچّے کو پہچان گیا تھا اور اسے ٹھونگیں مار رہا تھا اور ر ضیہ کے چہرے پر مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے