Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

گہن چاند کا

مشتاق احمد نوری

گہن چاند کا

مشتاق احمد نوری

MORE BYمشتاق احمد نوری

    اسے جیسے ہی ابو کا خط ملا وہ پریشان ہو گیا۔ خط بہت مختصر تھا، صرف چند سطریں

    ’’بیٹے ،خط ملتے ہی تم فورا چلے آؤ۔ تفصیل یہاں آنے پر بتاؤں گا۔‘‘

    اس کی الجھن بڑھ گئی۔ آخر گھر میں کیا ہو گیا ہوگا؟ کہیں امی کی طبیعت تو پھر خراب نہیں ہو گئی، کہیں اس کی بیگم کو تو کچھ نہیں ہو گیا؟ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ منے کو کچھ ہو گیا ہو؟

    سوال تھے کہ ذہن میں ککرمتے کی طرح اگے جا رہے تھے، یہ ہوا ہوگا، وہ ہوا ہوگا، اسی چکر میں رات گئی اور دوسرے دن اس نے گھر جانے کی عرضی دے دی۔

    وہ اپنے گھر کا بڑا بیٹا تھا۔ باپ نے بڑی محنت و مشقت سے اسے پڑھایا اور وہ بڑی مشکل سے کسی طرح بی اے پاس کر گیا۔ اس نے انڈیا میں لاکھ سرپیر مارا، مگر نوکری نہیں ملی۔ بڑی دقتوں کے بعد شکور بھائی کے کرم سے اسے سعودی عرب میں اسٹور کیپر کی نوکری مل گئی۔ شکور بھائی نے بہت سے گھروں کے اندھیرے کو دور کیا تھا۔ ان کے اس احسان کے عوض اس کے باپ کی ایک بیگھ زمین بک گئی۔

    گزشتہ پانچ چھ برسوں سے وہ سعودی عرب کی راجدھانی ریاض میں رہ رہا تھا۔ ان برسوں میں گھر والوں کی زندگی میں خوشحالی آ گئی تھی اور اس سے چھوٹی دونوں بہنوں کی شادیاں اچھے گھروں میں ہو گئی تھیں۔ پانچ سال قبل باپ نے اس کی شادی بھی کر دی تھی۔ لڑکی والوں سے کیا لین دین ہوا، اس کی اسے جانکاری نہ ہو سکی۔ وہ تو بس اسی با ت سے خوش تھا کہ اس کی بیوی شاذیہ بےحد خوبصورت تھی۔ وہ اس کے حسن میں ایسا ڈوبا کہ اب تک نکل نہیں پایا تھا۔

    شادی کئے ہوئے ابھی مہینہ بھی نہیں گزرا تھا کہ اس کی چھٹی ختم ہو گئی اور وہ بھرے من سے ریاض واپس چلا گیا۔ جاتے وقت اس کی بیوی کے آنسو تھے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے اور اندر ہی اندر وہ بھی تو لہو رو رہا تھا۔ اس کی مجبوری یہ تھی کہ ہر دو سال بعد ہی اسے فرصت ملتی تھی۔ دو سال بیوی کی جدائی برداشت کرنے کے تصور سے ہی وہ کانپ گیا تھا، لیکن مرتا کیا نہ کرتا۔ دکھی من سے بیوی کو ڈھارس بندھا کر وہ اپنے کام پر لوٹ آیا۔

    تیسرے مہینے ہی بیوی نے امید سے ہونے کی خبر بھیج دی۔ اس کی خوشی کا تو کوئی ٹھکانہ نہیں رہا اور جب بیٹے کی پیدائش کا خط آیا تو وہ ناچنے لگا تھا اور اس نے اپنے سارے دوستوں کو جی بھر کر مٹھائیاں کھلائی تھیں۔

    ’’سنا ہے تم گھر جا رہے ہو؟‘‘ اسلم کی آواز پر وہ چونکا تھا۔

    ’’ہاں۔ ابو کا خط آیا ہے کہ فوراً پہنچوں۔‘‘

    ’’لیکن ابھی تو آئے ہوئے ڈیڑھ سال ہی ہوئے ہیں۔‘‘

    ’’ہاں، لیکن کیا کیا جائے، کمپنی والے نے اس شرط پر چھٹی دی ہے کہ وہ کرائے کی رقم نہیں دیں گے۔‘‘

    ’’خیر گھر ہو آؤ، کوئی بات ہی ہوگی اسی لئے تو وہ تمہاری چھٹی کا انتظار نہ کر سکے۔‘‘ وہ خلا میں گھورنے لگا۔

    ’’آخر کون سی فوری وجہ آپڑی ہوگی۔۔۔؟‘‘

    ’’یہ خط اور کچھ سامان ہے۔ اسے میری بیگم کو دے دینا اور واپسی میں ان سے ملاقات کرتے ہوئے آنا۔‘‘ اسلم نے ایک چھوٹا سا پیکٹ اسے تھماتے ہوئے کہا۔

    ’’اور ہاں! سراج اور سلیم بھی کچھ سامان اپنے گھر بھیجیں گے، لیتے جاتا۔‘‘ یہ کہہ کر اسلم تو چلا گیا او وہ پھر کہیں کھو گیا۔

    جب اس نے اپنے بیٹے کو پہلی بار دیکھا تھا تو وہ اتنا خوش ہوا تھا کہ کوئی اگر اس کی جان بھی مانگ لیتا تو شاید وہ دے دیتا۔ وہ بچے کو خود سے جدا ہی نہ کرتا تھا۔ اس کی اس دیوانگی کی شکایت اس کی بیوی نے یوں کی تھی:

    ’’بیٹے کے علاوہ کوئی اور بھی تو ہے جسے آپ کی ضرورت ہے۔‘‘ یہ کہہ کر شاذیہ نے نگاہیں نیچی کرلی تھیں اور وہ صرف اس کا ہاتھ پکڑ کر رہ گیا تھا۔

    اس کا گھرانہ ایک متوسط طبقے کا تھا۔ والدین قدامت پسند خیال کے تھے گوکہ اب ان کی سوچ میں قدرے تبدیلی ہونے لگی تھی۔ شاذیہ بےحد خوبصورت ہونے کے ساتھ خوش مزاج اور نیک سیرت بھی تھی۔ اس نے اس کے والدین کی اتنی خدمت کی تھی کہ کوئی بیٹی بھی نہ کر سکتی تھی۔ وہ اسے بار بار بیٹی بیٹی کہتے نہیں تھکتے تھے۔ اس کی ماں بھی روایتی ساس نہ ہوکر ماں کی طرح اپنی بہو کو پیار کرتی تھی۔غرض کہ ہر طرف سے راوی چین ہی چین لکھتا تھا۔

    ’’لیکن گھر میں آخر کیا ہوا ہوگا؟ ‘‘سوالات کے لجلجے دلدل میں وہ دھنستا چلا گیا۔

    رات کی فلائٹ ملی۔ صبح وہ دلی پہنچا۔ وہاں سے ٹرین پکڑ کر وہ سیوان آیا۔ پھر ایک جیپ کرایہ کر کے اپنے گاؤں پہنچا۔ آنگن میں داخل ہوتے ہی اسے چاروں طرف ایک سناٹا پسرا ملا۔ اس نے والدین کو سلام کیا۔ اس کا بیٹا دوڑا ہوا آیا اور اس سے لپٹ گیا۔ ایک ہی نظر میں اس نے دیکھا کہ ہر شخص تندرست ہے۔ کہیں کوئی بیمار نظر نہ آیا۔ اسے قدرے اطمینان ہوا۔ کمرے کے اندر سامان رکھ کر وہ بیوی سے کچھ پوچھنے ہی والا تھا کہ ماں نے پکار لیا:

    ’’شوکت بیٹے، ذرا ادھر تو آنا۔‘‘

    اس نے شاذیہ کی جانب دیکھا اور نظروں سے اسے تسلی دیتے ہوئے ماں کے پاس چلا گیا اور باپ کی جانب سوالیہ نگاہوں سے دیکھنے لگا۔ اس سے قبل کہ باپ کچھ بولتا، ماں اسے پکڑ کر کمرے کے اندر لے گئی۔

    ’’آخر بات کیا ہے امی جان۔؟‘‘ وہ پوچھ ہی بیٹھا۔

    ’’تمہاری بیوی پیٹ سے ہے۔‘‘

    یہ سننا تھا کہ اس پر آسمان ٹوٹ پڑا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا بولے۔۔۔ ماں نے تفصیل بتائی۔

    ’’یہ اس کا چوتھا مہینہ چل رہا ہے۔ وہ تو ایک دن اچانک میں نے اس کے پیٹ کا ابھار دیکھ لیا تو چونکی اور جب اس سے دریافت کیا تو اس نے اس بات کا اقرار کیا کہ اسے چار مہینے سے مہینہ نہیں آیا ہے۔‘‘

    تفصیل سن کر شوکت ساکت رہ گیا۔ اس کی زبان تالو سے چپک گئی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ یہاں تو سر منڈاتے ہی اولے پڑ گئے تھے۔ اس نے تو خواب میں بھی یہ نہیں سوچا تھا کہ شاذی ایسی بےوفائی کرےگی۔

    ماں کمرے سے جا چکی تھی۔ وہ کسی طرح وہاں سے نکلا اور اپنے کمرے میں جا کر اوندھے منھ بستر پر گر پڑا۔ اس کے ذہن میں آندھیاں سی چل رہی تھیں۔ اچانک اپنے بالوں میں اس نے شاذی کی انگلیوں کا لمس محسوس کیا جسے اس نے جھٹک دیا۔ بیٹا دوڑا ہوا آیا اور اس سے لپٹنے لگا اس نے ایسا ہاتھ جھاڑا کہ اس کی ناک میں زبردست چوٹ آئی اور وہ بلبلاکر رونے لگا۔ شاذی اسے لے کر دوسرے کمرے میں چلی گئی۔

    ’’یہ شاذی نے آخر کس کے ساتھ منھ کالا کیا ہوگا؟ یہ کس حرامی کا پلا اس کی کوکھ میں پل رہا ہے؟‘‘ اس سوال نے اسے اور الجھا دیا اور وہ اپنے ذہن میں ان دوستوں کی فہرست بنانے لگا جن کا آنا جانا اس کے یہاں ہوتا تھا۔

    نعیم۔۔۔؟ بشیر۔۔۔؟ شکیل۔۔۔ ؟ شاکر۔۔۔؟

    ہرنام پر وہ ٹھہرتا، اس کے بارے میں سوچتا پھر دوسرے نام پر آ جاتا۔ بہت سوچ بچار کے بعد اس کا ذہن شاکر پر آکر رک گیا۔

    یہ شاکر ہی ہو سکتا ہے، سالا بڑے باپ کا بیٹا ہے۔ میری موجودگی میں اس نے منے کی سالگرہ پر کتنا قیمتی تحفہ دیا تھا اور پھری بیوی سے بھی تو کتنا مذاق کیا کرتا تھا اور یہ سالی حرامی پلو میں منھ چھپائے، ہنستی رہتی تھی۔ مجھے کیا پتہ تھا کہ میرے جاتے ہی یہ گل کھلائےگی۔

    وہ شاکر کے بارے میں تفصیل سے سوچنے لگا۔ اسے یاد آیا کہ گزشتہ سال جب وہ گھر آیا تھا تو شاذیہ بے حد خوبصورت قیمتی ساڑی پہنے ہوئے اس کی منتظر ملی تھی اور اسے معلوم تھا کہ اس نے ایسی کوئی ساڑی نہیں لائی تھی۔ اس کے استفسار پر شاذی نے مسکراتے ہوئے ایک کارڈ سامنے رکھ دیا تھا جس پر لکھا تھا:

    ’’بہت ہی پیاری بھابھی کے لئے۔۔۔ اپنے یار شوکت کی جانب سے۔۔۔ شادی کی سالگرہ کے موقع پر‘‘

    اس وقت تو وہ صرف مسکرا کر رہ گیا تھا اور شام میں جب شاکر نے دوسرے دن ان دونوں کو اپنے یہاں مدعو کیا تھا تو وہ انکار بھی نہ کر سکا تھا۔

    اس کا شک یقین میں بدلنے لگا اور دل کے کسی گوشے میں تھوڑا سا اپنا قصور بھی سائے کی طرح لہرانے لگا۔

    اسے ان امیرزادوں سے پرہیز کرنا چاہئے تھا۔ ایک جوان لڑکی دو سال تک اپنے شوہر سے الگ رہے، یہ بھی تو ایک طرح کی سزا ہی ہے۔ ایک ایسے قصور کی سزا جسے اس نے کیا ہی نہ ہو، لیکن اس کے خیال نے دوسری جانب پلٹا کھایا:

    ’’میں اکیلا تھوڑے ہی ہوں عرب میں۔ اسی گاؤں کے چار لڑکے اور بھی ہیں۔ ان کی بیویاں تو حاملہ نہیں ہو گئیں؟ آخر انہوں نے بھی تو شوہر کی جدائی جھیلی ہے۔ اچھے اور تابناک مستقبل کے لئے اپنے حال کا کچھ حصہ تو برباد کرنا ہی پڑتا ہے۔‘‘

    ’’لیکن یہ شاذیہ ۔۔۔؟ آخر اس نے یہ کس جنم کا بدلہ لیا ہے اس سے ۔۔۔؟

    اس رات جب سب سو گئے تو اس نے شاذی سے پوچھا:

    ’’شاذی مجھے سچ سچ بتا دو یہ سب کیسے ہوا؟‘‘

    ’’میرا یقین جانئے، میں کچھ نہیں جانتی۔‘‘ وہ بےحد معصومیت سے بولی۔ ایک لمحہ کے لئے اس کی صورت دیکھ کر وہ پگھل ہی تو گیا لیکن پھر دوسرے ہی لمحہ پہاڑ جیسا سچ سامنے آ گیا۔ اس نے پھر سوال کیا:

    ’’تمہیں مہینہ کب سے نہیں ہوا؟‘‘

    ’’پچھلے چار مہینے سے بند ہے۔‘‘

    ’’آخر اس کی وجہ ؟ بن بچہ ہی مہینہ بند ہو جائےگا؟‘‘

    ’’آپ میرا یقین کریں۔۔۔ میں بالکل بے قصور ہوں۔‘‘ وہ بہت ہی بے بسی سے بولی۔ اسے یقین تھا کہ اس کا شوہر اس کی باتوں پر یقین کر لےگا، لیکن شوکت چڑھ گیا:

    ’’تم کوئی مریم ہو کیا کہ فرشتہ آیا اور بیٹے کی خوشخبری دے کر چلا گیا۔‘‘

    وہ روہانسی ہو گئی اور سسکنے لگی۔ اس کے آنسوؤں نے شوکت کے جلتے پر تیل کا کام کیا:

    ’’یہ ٹسوے کسی اور کے سامنے بہانا۔ مجھے تو صرف سچ سچ بتا دو ،ورنہ انجام بہت برا ہوگا۔‘‘

    پھر وہ اس کے پیٹ سے کپڑا ہٹاتے ہوئے بولا۔

    ’’یہ دیکھو، چار مہینے کا پیٹ کتنا ابھرا ہوا ہے۔ تم نے مجھے کہیں کا نہیں رکھا شاذی۔ میں نے تم پر کتنا بھروسہ کیا تھا۔ میں نے تمہیں خوش رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی، لیکن تم نے مجھے کس عذاب میں مبتلا کر دیا۔‘‘

    وہ اپنے بال نوچنے لگا اور شاذی سسکتی ہوئی بولی:

    ’’میرا یقین کیجئے۔ میں نے آپ کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچایا ہے۔ ‘‘ وہ رکی، پھر گویا ہوئی

    ’’آپ کو بھروسہ نہ ہو تو آپ میری ڈاکٹری جانچ کروا دیجئے۔‘‘

    یہ سن کر وہ چونک پڑا پھر انجام سوچ کر قدرے زور سے بولا:

    ’’تم مجھے پاگل سمجھتی ہو؟ ابھی تو بات آنگن کے اندر ہے۔ ڈاکٹری جانچ سے بات قابو سے باہر ہو جائےگی۔ ہم لوگ کسی کو منھ دکھانے کے لائق نہیں رہیں گے۔ میرے باپ کی عزت کا کیا ہوگا۔ گاؤں والے تو ان پر تھوکیں گے اور میں کہاں منھ چھپاؤں گا شاذی؟‘‘

    وہ بےبسی سے اس کی جانب دیکھتا رہا اور وہ زمین پر نظریں گڑائے سسکتی رہی۔ شوکت اندر ہی اندر کھولتا رہا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ بڑی مشکل سے اس نے خودپر قابو پایا اور شاذی کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا:

    ’’میں ایک سوال کروں گا، صرف ہاں اور نہیں میں جواب دو۔‘‘

    پھر اس نے اس کا ہاتھ سوتے ہوئے بچے کے سر پر رکھتے ہوئے کہا۔

    ’’تمہیں منے کی قسم، دیکھو شاذی جھوٹ مت بولنا۔‘‘

    ’’پوچھئے، میں قسم کھاتی ہوں کہ جھوٹ نہیں بولوں گی۔‘‘

    اس نے اس کے پیٹ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے پوچھا:

    ’’اس میں شاکر کا کرتوت ہے یا نہیں؟‘‘

    ’’نہیں۔۔۔‘‘ شاذی کے جواب نے اسے اور الجھا دیا۔ اس نے ہمت نہیں ہاری:

    ’’تم نے منے کی قسم کھائی ہے۔ جھوٹی قسم سے منے کی جان بھی جا سکتی ہے اس لئے پھر سے سو چ لو۔‘‘

    وہ منے کو خود سے لپٹاتی ہوئی بےقابو ہو گئی اورتقریبا چیختے ہوئے بولی:

    ’’نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔‘‘

    وہ کیا کرتا اسے یقین تو نہیں آ رہا تھا، لیکن سسکتی ہوئی بیوی،سویا ہوا منا۔۔۔ اور پھر اس کے ساتھ گزارے ہوئے حسین لمحات کو یاد کر کے وہ ہاں اور نہیں کے پل صراط پر لٹکنے لگا۔

    پھر وہ کمرے سے باہر نکل آیا، آنگن میں ٹہلنے لگا اور اس کے ذہن میں بگولے چلنے لگے:

    ’’شاکر نہیں تو پھر یہ کون ہو سکتا ہے؟‘‘

    اچانک نعیم کا ایک جملہ اس کے ذہن میں کوند گیا۔ جب اس نے پہلی بار شاذی کو دیکھا تھا بے ساختہ بول پڑا تھا۔۔۔

    ’’یار تم بےحد لکی ہوکہ اتنی حسین بیوی ملی۔ پتہ نہیں میری قسمت میں کیا لکھا ہے۔‘‘

    اس وقت تو واقعی اسے اپنی قسمت پر رشک آیا تھا، لیکن آج یہی جملہ اسے کھائے جا رہا تھا۔

    ’’کہیں اس حادثے کی پشت پر نعیم تو نہیں۔۔۔‘‘

    سوچ کے سائے طویل ہونے لگے۔۔۔

    نعیم یوں تو بہت ملنسار تھا۔ لیکن اس کی موجودگی میں بھی بس صرف دو چار بار ہی آیا تھا۔ وہ شاذی سے کھل کر بات بھی نہیں کرتا تھا۔ وہ اس کا کلاس فیلو بھی رہ چکا تھا اور بہت سنجیدہ لڑکا تھا۔

    ’’ایسے ہی لوگ تو بھیتر گھات کرتے ہیں۔ اوپر سے سنجیدگی کا پوز کرتے ہیں اور اندر سے۔۔۔‘‘

    اس کے اندر سے آواز آئی اور وہ شک کے چکرویو میں پھنس گیا۔

    ’’کیا واقعی نعیم ایسا کر سکتا ہے؟‘‘

    اس سوال کو وہ کھینچ تان کرتا رہا لیکن کوئی سراغ نہیں ملا۔ وہ آنگن میں ٹہل رہا تھا کہ گھڑی میں ہلکی آواز ہوئی۔ اس نے کلائی کی طرف دیکھا، رات کا ایک بج رہا تھا۔ وہ پھر کمرے میں لوٹ آیا۔

    شاذی اس کے انتظار میں بیٹھی ہوئی تھی۔ منا سو رہا تھا۔ اس کی ناک قدرے پھول گئی تھی ۔ اسے بے حد افسوس ہوا۔ خواہ مخواہ منا کو مار بیٹھا۔ وہ اس کے سر پر ہاتھ پھیرتا رہا اور دزدیدہ نگاہوں سے شاذی کی جانب بھی دیکھتا رہا۔ شاذی کا سراپا اچانک لو دینے لگا۔ ڈیڑھ سال کی جدائی کے لمحات بیکل کرنے لگے۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کر بیٹھتا اچانک اس کی نظر شاذی کے پیٹ پر گئی اور اس کے انگارے جیسے جذبات سرد پڑ گئے۔

    دوسرے دن وہ صبح ہی صبح گھر سے نکل گیا۔ اس کی سمجھ ہی میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کہاں جائے۔ مسئلہ تو پہاڑ جیسا تھا اور فیصلہ بھی اسے ہی کرنا تھا۔ کسی اور اسے مشورہ بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ والدین نے گیند اس کے پالے میں ڈال دیا تھا۔ اب وہ مطمئن تھے۔ ویسے بھی اس معاملے میں وہ کر بھی کیا سکتے تھے۔ اب چونکہ شوکت آ گیا تھا اس لئے جو کرنا تھا اسے ہی کرنا تھا۔

    وہ سڑکوں پر یوں ہی مارا مارا پھر رہا تھا کہ اچانک بشیر سامنے آ گیا اور دیکھتے ہی بول پڑا:

    ’’ارے یار تم کب آئے؟ تمہارے آنے کی کوئی اطلاع تو نہیں تھی۔‘‘ وہ اندر سے جلا ہوا تھا ہی، زبان سے پھسل پڑی یہ بات:

    ’’تو کیا تمہیں اطلاع دے کر اس گاؤں میں آؤں؟‘‘

    بشیر نے اسے مذاق ہی سمجھا اس لئے ہنستے ہوئے بولا:

    ’’وہ بات نہیں ہے یار، دو چار روز قبل ہی بھابھی سے ملاقات ہوئی تھی۔ میں نے تمہاری خیریت بھی دریافت کی تھی۔ انہوں نے تمہارے آنے کی کوئی خبر نہ دی تھی۔‘‘ یہ سننا تھا کہ اس کا دل اندر سے دھک دھک کرنے لگا۔

    ’’اب چور پکڑ میں آیا۔ یہ سالا بشیر ہی گرو گھنٹال ہے۔ اس کی جانب تو میرا شک جاہی نہیں سکتا تھا۔‘‘

    پھر اس نے بات کی تہہ تک پہنچنے کے لئے بشیر سے گفتگو بڑھائی:

    ’’اور کیا کیا باتیں ہوئیں بھابھی سے۔۔۔؟‘‘

    ’’ارے کچھ نہیں یار، وہ منے کے ساتھ کہیں سے آ رہی تھیں تو میں نے منے کو پہچان لیا، تب پتہ چلا کہ گھونگھٹ کے اندر بھابھی ہیں۔ پھر میں نے یوں ہی تمہاری خیریت دریافت کر لی۔‘‘

    اور شوکت کی توجہ دوسری جانب مڑ گئی۔۔۔

    ’’آخر شاذی کہاں سے آ رہی تھی۔۔۔؟ ہو نہ ہو۔۔۔‘‘

    وہ مزید الجھ گیا، لیکن دوسرے ہی پل اسے ایک معتبر گواہ بھی نظر آ گیا، جو جھوٹ نہیں بول سکتا اور اسی سے سب کچھ سچ سچ اگلوایا جا سکتا ہے۔

    اس گواہ کا نام ذہن میں آتے ہی اس کا ذہن قدرے نارمل ہونے لگا۔ اس طرح ٹنشن میں رہ کر وہ حقیقت کی تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہوگا۔ اسے تو خود پر قابو رکھنا ہوگا۔ دل پر پتھر رکھ کر مسکرانے کی ایکٹنگ کرنی ہوگی۔ کہیں اس کے پاگل پن کی وجہ سے یہ راز طشت ازبام نہ ہو جائے۔ یہ سوچ کر وہ اندر ہی اندر خود کو سمیٹنے میں کامیاب ہو گیا اور آنگن میں داخل ہوتے ہی اس کی نظر سب سے پہلے معصوم منا پر پڑی۔۔۔ اس کا سب سے معتبر اور اہم گواہ منا۔۔۔ اس نے مسکرا کر اس کی جانب دیکھا تو وہ سارا غم بھول کر دوڑ آیا اور باپ سے لپٹ گیا۔ شوکت کو بھی اس پر پیا ر آ گیا۔ وہ بیچارا معصوم کیا جانے کے باپ کے دل پر کیا بیت رہی ہے۔

    شوکت نے منے کو پیار کیا۔ اس کا دل بھی ہلکا ہوا اور اس نے اپنے بیگ سے ڈھیر سارے کھلونے نکال کر اس کے سامنے ڈال دئے۔ منا یہ سب دیکھ کر کھلکھلاکر ہنس پڑا اور کھلونے کی جانب لپکا۔ پھر وہ کبھی ہوائی جہاز اڑاتا، کبھی ٹرین کو اس کی پٹریوں پر ڈال کر اپنے منھ سے چھک چھک کی آواز نکالتا اور کبھی موٹر گاڑی لے کر پوں پوں کرنے لگتے۔

    اسے اتنا خوش دیکھ کر شوکت بھی اپنا غم تھوڑی دیر کے لئے بھول گیا۔ پھر اس نے شاذی کی جانب دیکھا جو منے کو ہنستا کھیلتا دیکھ کر خود بھی مسکرانے کی کوشش میں سرگرداں تھی۔ شوکت نے اشارے سے اسے پاس بلایا اور اپنے سوٹ کسی سے تین پیکٹ نکال کر اس کی جانب بڑھا دیا۔ دو پیکٹ میں کپڑے تھے اور تیسرا چھوٹا پیکٹ سونے اور موتی کے کچھ زیورات سے بھرا تھا۔ شاذی نے بڑی محبت سے اس کی جانب دیکھا اور شوہر کے اس التفات پر اپنا سارا دکھ بھول گئی اور شوکت کے اتنے قریب آ گئی کہ اس کا کمان کی طرح کسا ہوا جسم شوکت کے جسم سے مس کر گیا۔ شوکت کے اندر اس لمس نے جادو کا کام کیا۔ پل بھر کے لئے وہ سب بھول گیا اور اس نے شاذی کے رخسار پر ہلکی سی چپت لگا کر اپنی محبت کا اظہار کیا۔ وہ بھی مسکرا پڑی۔

    شوکت نے اپنے دوستوں کا پیکٹ نکالا اور ان کے گھروں کی جانب چل پڑا، تا کہ ان کے سوغات انہیں سونپ آئے۔ وہ سامان دے کر گھر واپس آ ہی رہا تھا کہ ایک موٹر سائیکل زوں کرتی اس کے بغل سے نکل گئی۔ پھر آگے جاکر رکی، پھر مڑی اور تیزی سے اس کی جانب آئی اور شدید بریک کے جھٹکے کے ساتھ رک گئی۔

    سامنے شاکر مسکراتا ہوا کھڑا تھا۔ اس کی شکل پر نظر پڑتے ہی وہ اندر تک دہل گیا۔ اسے دیکھ کر شاکر حیرت سے بولا:

    ’’شوکت تم۔۔۔؟‘‘ پھر کچھ سوچ کر بولا

    ’’ابھی تو تمہاری چھٹی میں چھ ماہ باقی ہیں یار۔۔۔ یوں اچانک۔۔۔؟ خیریت تو ہے۔۔۔؟‘‘

    اب شوکت کو یقین ہونے لگا:

    ’’یہ سالا میرے نہ آنے کے دن گنتا رہا ہے۔ اسے معلوم تھا کہ ابھی چھ ماہ اور نہیں آنا ہے۔ یوں اچانک مجھے دیکھ کر اسے حیرت ہو رہی ہے۔ ہو نہ ہو، اسی حرامی کی کارستانی ہو۔‘‘ یہ سوچ کر اس نے شاکر سے کہا:

    ’’کیوں میرے بے وقت آنے سے تمہیں پریشانی ہو گئی کیا۔۔۔‘‘

    ’’ارے نہیں دوست، یہ تو خوشی کی بات ہے اور پھر اصلی خوشی تو بھابھی کو ہوئی ہوگی۔‘‘ پھر وہ ایک آنکھ داب کر بولا۔۔۔ ’’کیوں بھابھی کی یاد کھینچ لائی کیا۔۔۔‘‘

    شوکت کا شک اب پختہ ہونے لگا۔ یہ سالا بھابھی کی بڑی فکر کر رہا ہے۔ اصل میں اس کی خوشی کا فور ہو گئی ہے، اس لئے وہ دوسروں پر ٹال رہا ہے۔

    شوکت نے خود پر قابو پاتے ہوئے اور اپنے ہونٹوں پر مسکراہٹ طاری کرتے ہوئے کہا:

    ’’اب چلوں یار، تمہاری بھابھی منتظر ہوگی۔‘‘

    ’’ہاں، ہاں جاؤ۔ شام میں نازل ہو رہا ہوں میں بھی۔‘‘

    شوکت اندر ہی اندر بولا: ’’سالے تم کہاں کہاں انزال فرماتے رہے ہو، سب پتہ ہے مجھے۔ سالے تمہارا ٹینٹوا نہ دبا دیا تو کتا پال لینا میرے نام کا۔‘‘

    شوکت گھر آ گیا۔ منا پر نظر پڑتے ہی اسے یاد آیا کہ اس کا سب سے بڑا گواہ تو وہی ہے، اس لئے اس نے خود پر قابو پا لیا۔ ناشتے سے فارغ ہوکر اس نے والدین کا پیکٹ منے کے ہاتھ بھیج دیا کیوں کہ ان کا سامنا کرنے سے وہ کترا رہا تھا۔

    وہ منے کو لے کر آم کے باغیچے میں آ گیا۔ یہاں تنہائی تھی۔ اس نے منے کو خوب پیار کیا اور ایک ماہر سراغ رساں کی طرح اس کے اندر سے سچ نکلوانے کی ترکیب کرنے لگا۔ اس کا پہلا سوال تھا:

    ’’اچھا بیٹا آپ مجھے یاد کرتے تھے۔‘‘ منا نے ہاتھ پھیلا کر کہا

    ’’بہوت بہوت یاد کرتا تھا۔‘‘

    ’’اچھا بیٹا یہ تو بتاؤ کہ آپ سے کون کون انکل ملنے کو آتے تھے۔‘‘ منا سوچنے لگا پھر مسکراتے ہوئے بولا:

    ’’شاکر انکل آتے تھے، بہت سا چاکلیٹ لاتے تھے۔‘‘

    ’’اور کیا کیا کرتے تھے؟‘‘

    ’’ہنساتے تھے، کہانی سنایا کرتے تھے۔‘‘

    ’’اور آپ کی امی کیا کرتی تھیں؟‘‘

    ’’وہ انہیں چائے پلاتی تھیں۔‘‘

    ’’اور امی بھی کہانی سنتی تھیں؟‘‘

    ’’ہاں سنتی تھیں اور وہ بھی ہنستی تھیں‘‘

    ’’اور کیا کیا کرتے تھے شاکر انکل؟‘‘

    ’’دادی کو ڈاکٹر پاس لے گئے تھے۔‘‘

    (یہ دادی اس کہانی میں کہاں سے کہاں آ گئیں، اس نے سوچا)

    ’’آپ کی امی کو بھی کبھی لے گئے تھے؟‘‘

    ’’ہاں، لے گئے تھے۔۔۔ اپنے گھر۔‘‘

    (اب معاملہ قدرے صاف ہوتا ہوا نظر آ رہا تھا۔ اسے محسوس ہوا کہ وہ سچ کی تہہ تک پہنچ رہا ہے)

    ’’اور کون گیا تھا امی کے ساتھ؟‘‘

    ’’میں گیا تھا اور دادی گئی تھیں۔‘‘

    (یہ دادی باربار سین میں کیوں آ رہی ہے؟ اسے قدرے الجھن ہونے لگی)

    ’’پھر کیا ہو اتھا؟‘‘ انکل کے گھر میں اور کون کون تھے؟‘‘

    ’’بہوت آدمی تھے‘‘

    ’’پھر آپ لوٹے کب۔۔۔‘‘

    ’’پتہ نہیں۔۔۔‘‘

    ’’آپ اپنے گھر کب واپس آئے۔‘‘

    ’’پتہ نہیں۔۔۔‘‘ منے کے جواب سے اس کی الجھن بڑھ گئی۔ اس نے پوچھا

    ’’آپ کو معلوم ہی نہیں کہ آپ اپنے گھر کس وقت آئے۔‘‘

    ’’میں کیا جانوں، میں تو سو گیا تھا۔‘‘

    اس کا مطلب ہے دیر رات گھر واپس آئے ہوں گے۔ لیکن امی جان کی موجودگی ؟ یہ سالا بہت گھاگ ہے۔ انہیں بھی مہرا بنا لیا۔ انہیں اس نے کہیں الجھا دیا ہوگا اور خود۔۔۔ اس سے آگے اس کی سوچ کے پر جلنے لگے۔ اب اس کے پاس یقین کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ یہ ضرور شاکر ہی ہوگا۔ قیمتی تحفے، منے کو چاکلیٹ، سب کو ہنسانا، شاذی کو پھنسانا، منے کا سو جانا، امی جان کا عورتوں میں الجھ جانا۔۔۔اور۔۔۔

    اس کے ڈھیر سارے سوالات اور منے کے معصوم جواب سے وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ اس پوری کہانی کا اصل ہیرو شاکر ہی ہے۔ اس کے بعد اسے یاد آیا کہ شاذی نے منے کے سر پر ہاتھ رکھ کر قسم کھائی تھی کہ شاکر بےقصور ہے۔ کتنی پر فریب ہے یہ عورت۔ اپنے یار کے لئے کچھ بھی کر سکتی ہے۔ اپنے اکلوتے بیٹے کی جھوٹی قسم بھی کھائی۔ اس نے ایک ٹھنڈی سانس لے کر سوچا:

    ’’یہ سقراط، بقراط اور ارسطو تو عورت کو سمجھ ہی نہ پائے۔ عورت توازل سے ہی ایک پہیلی رہی ہے۔ اگر آدم نے ہی اسے سمجھ لیا ہوتا تو جنت سے یوں نکالے نہیں جاتے۔ اف۔۔۔ عورت۔۔۔ زہرکی پڑیا۔۔۔ تیرے کتنے روپ ہیں۔‘‘

    وہ اندر ہی اندر کھولتا رہا اور ان سارے معاملات سے بےخبر منا باغ میں کھیلتا رہا۔ وہ ہوائی جہاز میں چابھی بھر بھر کر اسے اڑانے میں مصروف تھا اور ادھر شوکت کی سوچ شک کے جہاز پر سوار بے یقینی کے آسمان میں غوطہ کھا رہی تھی۔

    وہ منا کو لے کر گھر آ گیا۔ آتے ہی امی جان پر نظر پڑی۔ ایک سوال نے سر ابھارا:

    ’’کہیں اس سازش میں امی بھی تو شریک نہیں؟‘‘

    وہ سیدھے امی کے پاس گیا اور امی رازداری کے لئے کمرے کے اندر چلی گئیں اور دھیرے سے بولیں:

    ’’کچھ پتہ چلا۔۔۔؟‘‘

    ’’میرا شک بار بار شاکر پر ہی جاتا ہے۔ میری غیر موجودگی میں وہی تو برابر یہاں آتا رہا ہے اور منے کو قیمتی تحائف کے ساتھ شاذی کو بھی تحفہ دیتا رہا ہے۔‘‘

    پھر وہ ماں کی جانب گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا:

    ’’وہ تو آپ کا بھی لاڈلا ہے نا۔۔۔؟ اس نے آپ کی ڈاکٹری جانچ کروائی اور اپنے گھر بھی لے گیا اور ۔۔۔‘‘

    ’’توبہ توبہ، یہ کیا اناپ شناپ بکنے لگا۔‘‘ وہ ناک بھوں چڑھاتی ہوئی بولیں:

    ’’وہ بےچارہ تو بےحد سیدھا اور شریف ہے۔ ہاں منھ پھٹ ضرور ہے۔ جو بولنا ہو سامنے بول دیتا ہے۔ تمہارا نام لے کر اکثر بہو کو چھیڑتا بھی تھا، لیکن وہ ایسی گندی حرکت نہیں کر سکتا۔‘‘

    ’’کیا کوئی آپ کو دکھا کر گندی حرکت کرےگا؟ امی جان۔ ایک شکاری پہلے جال بچھا تا ہے، پھر دانہ ڈالتا ہے اور پھر شکار اس کے فریب میں پھنس جاتا ہے۔‘‘

    ’’نہیں بیٹا، میرا دل نہیں مانتا۔‘‘

    ’’میرا بھی دل نہیں مانتا کہ شاذی نے غلط کیا ہے، لیکن سچ تو آپ کے سامنے ہے امی جان۔‘‘

    ماں چپ رہی اور اس نے بات جاری رکھی۔

    ’’امی جان آپ شاذی اور منا کو لے کر شاکر کے یہاں بھی گئی تھیں جب اس کے یہاں بہت سارے لوگ آئے تھے اور آپ لوگوں کی واپسی رات دیر گئے ہوئی تھی۔‘‘

    ’’تمہیں کیسے پتہ۔۔۔؟ دلہن نے بتایا۔۔۔؟‘‘

    ’’بس پتہ چل گیا۔۔۔میں غلط تو نہیں کہہ رہا۔۔۔؟‘‘

    ’’نہیں، یہ بات سچ ہے، لیکن بات دراصل یہ تھی کہ شاکر کی شادی کی بات چل رہی تھی، اپنے رشتہ دار کی ہی لڑکی سے ۔ اتفاق سے لڑکی بھی آئی ہوئی تھی تو شاکر نے ضد کی کہ بھابھی کے فیصلے سے ہی شادی ہوگی، اس لئے میں دلہن کو لے کر وہاں گئی تھی۔‘‘

    ’’تو پسند آئی دلہن۔۔۔؟‘‘

    ’’نہیں شاذی نے منع کر دیا اور شاکر نے نا کر دی۔‘‘

    یہ سنتے ہی شوکت کا سارا گمان یقین میں بدل گیا۔ اس نے سوچا:

    ’’بھلا شاذی یہ کیوں چاہےگی کہ اس کا یار کسی اور کا ہو جائے۔ اگر وہ شادی کر لیتا تو پھر وہ گل چھرے کس کے ساتھ اڑاتی۔‘‘

    وہ اندر ہی اندر مطمئن ہو گیا کہ چور پکڑ میں آ گیا۔ وہ ماں کے پاس سے سیدھے شاذی کے پاس آیا اور اس سے سوال کیا:

    ’’تم نے شاکر کو شادی سے کیوں منع کر دیا؟‘‘

    ’’۔۔۔میں نے۔۔۔؟ نہیں تو۔۔۔؟‘‘ شاذی چونک کر رہ گئی۔

    ’’تم نے منع نہیں کیا۔۔۔ دلہن دیکھنے اور پسند کرنے کا سارا اختیار شاکر نے تو تمہیں ہی دیا تھا نا۔۔۔؟‘‘

    ’’اچھا۔۔۔ تو یہ بات آپ کو بھی معلوم ہو گئی۔‘‘ وہ مطمئن ہوتی ہوئی بولی:

    ’’دراصل وہ لڑکی اپنے پہناوے اڑھاوے، انداز گفتگو اور دیگر ہاؤ بھاؤ سے لچی لگتی تھی اس لئے میں نے۔۔۔‘‘ اس کی بات پوری ہونے سے قبل ہی اس نے سوال داغا:

    ’’اور جو اپنے پہناوے اڑھاوے اور دیگر انداز سے بے حد شریف لگتی ہیں، وہ اندر سے لچی نہیں ہو سکیں۔۔۔؟ ضروری ہے جو باہر سے دکھے وہ اندر سے بھی ہو۔۔۔؟‘‘

    شاذی کو یہ سمجھتے دیر نہیں لگی کہ سیدھے اسی پروار ہے، اس لئے اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس کی خاموشی شوکت کے لئے کام کر گئی اور اس نے سوچا:

    ’’اب اندر کا سارا سچ سامنے آ گیا ہے۔۔۔ میری الجھن دور ہو گئی۔‘‘

    لیکن دوسرے ہی پل اس کے خیال نے پلٹا کھایا

    ’’مسئلہ یہ تھوڑے ہی ہے کہ بچے کا باپ کون ہے، مسئلہ تو دراصل یہ ہے کہ یہ پاپ کا گھڑا بیچ چوراہے پر پھوٹےگا تو کیا ہوگا۔۔۔‘‘

    یہ سوال سامنے آتے ہی اسے یہ محسوس ہوا کہ وہ جہاں سے چلا تھا پھر اسی نکتے پرکھڑا ہے۔ اصل مسئلہ تو جوں کا توں ہے۔۔۔!

    ’’آخر اس سے کس طرح چھٹکارا پایا جائے؟‘‘ سب سے بڑا سوال تو یہی تھا۔

    شاذی کا کیا کرنا ہے۔۔۔؟ یہ تو بعد میں بھی دیکھ لیا جائےگا۔ فی الحال تو عزت سادات جا رہی ہے۔ بات اگر آنگن سے باہر نکل گئی تو۔۔۔؟

    یہ ’’تو۔۔۔‘‘ پھیل کر بہت بڑا ہو گیا۔ اس کے بعد اس کی سوچ کے سارے دروازے بند ہو گئے۔ اس کے شک کے دائرے میں اب اس کی ماں بھی آ گئی تھی، اس لئے اس سے بھی کسی طرح کا مشورہ بےکار تھا۔

    اسی طرح دو چار ماہ یقین و گمان کے جھولے پر جھولتا ہوا اپنی حدوں سے نکل گیا۔ اس نے اپنی بیماری کا بہانہ بناکر اپنی کمپنی کو اپنی چھٹی مزید بڑھانے کے لئے درخواست بھیج دی۔

    اب شاذی کا پیٹ کافی ابھر آیا تھا۔ ایک دوبار تو ہلکی Bleeding بھی ہو گئی اور اس نے درد کی بھی شکایت کی۔ شاذی دن بدن دبلی ہوتی جا رہی تھی اور اس کے چہرے کا رنگ بھی اڑتا جا رہا تھا۔

    شاذی کا گھر سے نکلنا بند کر دیا گیا۔ باہر کی عورتوں کے سامنے بھی اسے نہیں آنے دیا جاتا تھا۔ بہت غور کرنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ شاذی کو گاؤں سے باہر لے جانا ازحد ضروری ہے۔ گاؤں والے سمجھیں گے کہ شوکت دلہن کو لےکر کہیں سیر کرانے گیا ہے۔

    ایک شام اس کے دروازے ایک ماروتی وین آئی اور رات کے اندھیرے میں دو نفوس اس پر سوار ہو کرپٹنہ کی جانب روانہ ہو گئے۔ پٹنہ پہنچ کر شوکت نے پارک لاجنگ میں ایک کمرہ بک کیا۔ راستے بھرکے سفر نے شاذی کے درد میں کافی اضافہ کر دیا تھا۔ درد سے اس کا چہرہ پیلا پڑتا جا رہا تھا۔

    شوکت یہ فیصلہ کر کے آیا تھا کہ بچے کی پیدائش کے بعد وہ بچے کا گلا گھونٹ کر مار دےگا اور شاذی کو اس کے مائیکے چھوڑ آئےگا۔ پھروہ اطمینان سے واپس چلا جائےگا۔ گھر والوں کو تاکید کر دے گاکہ شاذی کو واپس نہیں لانا ہے۔

    دن توکسی طرح گزر گیا۔ رات آتے ہی شاذی درد سے تڑپنے لگی۔شوکت قدرے گھبرایا باہر گیا۔ دوا دکان سے درد کی دوا لا کر اسے کھلا دیا۔ احتیاط کے طور پر اسے نیند کی ایک گولی بھی کھلا دی۔

    دوسرے دن وہ اسے لے کر لیڈی ڈاکٹر کے پاس گیا۔ ڈاکٹر نے مریض کو اندر لے جا کر اسے باہر ہی رکے رہنے کا اشارہ کیا۔ پون گھنٹے کی جانچ کے بعد اس نے یہ کیس ڈاکٹر وجئے کمار کو ریفر کر دیا۔ شوکت کو حیرت ہوئی اس نے پوچھا :

    ’’میڈم یہ کیس توآپ کا ہے اور آپ۔۔۔‘‘

    ’’میں نے دیکھ لیا ہے۔ آپ انہیں آج ہی ڈاکٹر وجئے کمار کے پاس لے جائیں۔‘‘

    وہ شاذی کو لے کر سیدھے ڈاکٹر وجئے کمار کے پاس آیا۔ کمپاؤنڈر نے ایک ہفتے بعد کا وقت دیا، لیکن جب اس نے ڈاکٹر سنہا لتا کا پرزہ دکھایا توا اس نے اسے آج کا وقت دے دیا۔

    تھوڑی دیر کے بعد شاذی ڈاکٹر وجئے کمار کے سامنے تھی۔ ڈاکٹر نے بغور اس کا معائنہ کیا ۔ اسے اندر لے جا کر جانچ بھی کی۔ سوالات بھی شاذی سے دریافت کئے۔ پھر اس نے پر زے پر کچھ ہدایتیں درج کیں اور تفصیل معلوم کرنے کے لئے کمپاؤنڈر کے پاس بھیج دیا۔ کمپاؤنڈر نے بتایا کہ دو چار طریقے کا بلڈ ٹسٹ کروانا ہے۔ ایک اکسرے بھی ہوگا اور بچہ دانی کا الٹرا ساؤنڈ بھی ضروری ہے، پھر اس نے مختلف شائع شدہ پرزہ اس کے حوالے کرتے ہوئے کہا۔

    ’’جہاں جہاں جانچ ہوگی اس کی تفصیل اس پر درج ہے۔ آپ آج ہی سارا ٹسٹ کرا لیں۔ کچھ رپورٹ تو آج ہی مل جائےگی اور کچھ پرسوں شام میں ملےگی۔ اس لئے آپ پرسوں شام میں ہی ساری رپورٹ لے کر آئیں۔ مریض کو لانا اب ضروری نہیں ہے۔‘‘

    یہ عجب چکر تھا اس کے لئے۔ اسے ان ڈاکٹری معاملات کی بنیادی جانکاری بھی نہیں تھی۔ ایسے تجربے سے وہ پہلی بار گزر رہا تھا۔ لیکن چارہ بھی کیا تھا۔ ساری جانچ تو کرانی ہی تھی۔ بس ایک بار حرامی کا پلا باہر آ جائے، پھر دیکھا جائےگا۔

    مختلف جانچ کے لئے وہ شاذی کو لےکر مختلف مختلف جگہ گیا۔ اس بھاگ دوڑ سے وہ اور بھی پریشان ہو گئی۔ ڈاکٹر نے کچھ دوا بھی لکھی تھی اسے لے کر وہ پارک لاجنگ آیا۔ شاذی کو دوا کھلائی اور لاجنگ والے کو کھانے کا نظم کرنے کی ہدایت دے کر وہ باہر نکل گیا۔ وہ شہر میں بغیر مقصد کے یوں ہی مٹر گشتی کرتا رہا۔

    وہ شام گئے واپس آیا اور شاذی کو دیکھ کر کانپ گیا۔ ا س کی حالت بالکل خستہ ہو رہی تھی، لیکن یہ تو اس کا آٹھواں مہینہ چل رہا تھا۔ آٹھویں مہینے میں بچے کی پیدائش ممکن نہیں ہوتی۔ ہاں ساتواں رہتا تو شاید۔۔۔ کیوں کہ اس نے سن رکھا تھا کہ کچھ بچے ’’ست مسوا‘‘ بھی ہوتے ہیں۔

    بہرحال اس نے کسی طرح شاذی کو سنبھالا۔ اسے ڈبل روٹی کھلائی جو وہ مشکل سے ہی کھا سکی۔ پھر دوا دے کر وہ اسے بغور دیکھنے لگا۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر وہ مغموم بھی ہو گیا۔ آخر کو تو وہ اس کی بیوی تھی۔اب جو ہونا تھا و ہ تو ہو ہی گیا تھا۔ اس نے اسے چائے کی پیالی تھماتے ہوئے کہا۔

    ’’شاذی صبر کرو، سب ٹھیک ہو جائےگا۔‘‘

    ’’ہاں میں اب تک صبر ہی تو کر رہی ہوں کہ سنا ہے اللہ بھی صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔‘‘

    ’’آپ کو میری باتوں پر اب بھی یقین نہیں آ رہا ہے نا۔۔۔؟ لیکن اب وقت آ گیا ہے جب میری بے گناہی ثابت ہو جائےگی۔‘‘

    ’’یہ تو آنے والا وقت ہی بتائےگا۔‘‘ یہ کہہ کر شوکت خلا میں گھورنے لگا۔

    تیسرے دن وہ ساری رپورٹ لے کر ڈاکٹر کے پاس گیا۔ ڈاکٹر نے سارے کاغذات غور سے دیکھنے کے بعد اس سے دریافت کیا

    ’’اس کی جانکاری آپ کو کب ہوئی۔۔۔‘‘

    ’’جی ، چار ماہ قبل۔۔۔ اس وقت بھی چار ماہ گزر چکے تھے۔‘‘

    ’’آپ اسی وقت لے کر کیوں نہیں آئے؟‘‘

    ’’وہ ایسا ہے نا ڈاکٹر صاحب کہ۔۔۔‘‘ اس کی سمجھ میں یہ نہیں آرہا تھا کہ وہ ڈاکٹر کو یہ کیسے بتائے کہ یہ حمل اس کا نہیں ہے، اس لئے وہ لوک لاج کے مارے نہیں آ رہا تھا۔ اسے چپ دیکھ کر ڈاکٹر نے کہا:

    ’’آپ رہتے کہاں ہیں؟‘‘

    ’’جی ریاض میں۔۔۔‘‘ اچانک اس کے منھ سے نکلا

    ’’آپ کی بیوی کس کے ساتھ رہتی ہے۔۔۔؟‘‘

    اب تو اس کا چور پکڑا جا چکا تھا اس لئے اس نے تفصیل بتانا ہی بہتر سمجھا۔

    ’’جی ڈاکٹر صاحب میں تو ریاض میں تھا۔ یہ بات سب سے پہلے میری ماں کو معلوم ہوئی ۔ پھر میرے ڈیڈی نے خط لکھ کر مجھے یہاں بلایا اور آنے پر یہ سب مجھے بھی معلوم ہوا۔ آپ کو کیا بتائیں ڈاکٹر صاحب۔ میں تو بہت پریشان ہو گیا۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کیا جائے۔ اسی لئے اتنے دنوں سے اس معاملے کو دبائے رکھا۔‘‘

    ’’آپ نے معاملہ دبا کر غلطی کی۔ اگر اسی وقت لے آتے تو آپریشن سے اسے ختم کیا جا سکتا تھا۔ لیکن اب تو معاملہ میرے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ اس اسٹیج پر آپریشن بھی ممکن نہیں ہے۔ بس ایک آدھ مہینہ اور۔۔۔ پھر۔۔۔‘‘ ڈاکٹر نے اپنی بات ادھوری چھوڑ دی اور اس نے من ہی من میں دہرایا۔

    ’’ہاں بس ایک آدھ مہینہ اور۔۔۔ یہ آٹھواں ہے، اگلا مہینہ نواں ہوگا اور پھر۔۔۔‘‘ اس نے ڈاکٹر سے پوچھا

    ’’تو اب کیا کیا جائے ڈاکٹر صاحب۔۔۔؟‘‘

    ’’دیکھئے اب تو کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ اب سب اوپر والے پر چھوڑ دیجئے اور انہیں گھر لے جائیے۔ میں نے دوا لکھ دی ہے اس سے تکلیف تو کچھ کم ہو جائےگی، بس آپ ان کے آرام کا خیال رکھئے۔ ایسے موقع پر آپ اگر انہیں خوش رکھ سکیں تو بہتر ہوگا۔‘‘

    وہ گاؤں کا سیدھا سادا جوان کل کے انجام سے بے خبر ساری رپورٹ لے کر ڈاکٹر کی کلینک سے باہر نکل گیا اور ڈاکٹر نے اس کے جانے کے بعد اپنے اسسٹنٹ سے کہا۔

    It is a clear case of uterus carcinoma

    ’’کیسے کیسے بےوقوف لوگ ہوتے ہیں۔ اسے دبانے کی کیا ضرورت تھی۔ اگر یہ چار ماہ قبل ہی آ جاتا تو Uterus کو Remove کیا جا سکتا تھا، لیکن اب تو پھول کر اس قدر خراب ہو گیا ہے کہ اسے چھیڑتے ہی یہ کینسر فوراً اس کی جان لے لےگا۔ ویسے بھی وہ مشکل سے ایک آدھ مہینہ ہی جی پائےگی۔‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے