جب ایک جنگلی جانور ہرنوں کے جھنڈ پر حملہ کر دیتا ہے تو پورے جھنڈ میں کھلبلی مچ جاتی ہے۔ کوئی دائیں بھاگتا ہے تو کوئی بائیں۔ ان کا آپس میں کوئی تال میل نہیں رہ جاتا۔ ہر کوئی اپنی جان بچانے کی تگ ودو میں جائے امان ڈھونڈنے کے لئے بھاگتا ہے۔ ٹھیک یہی حال کشمیری پنڈتوں کا بھی ہوا۔ سن نوے کی شورش میں یہ لوگ وادی چھوڑ کر ملک کے کئی ساری ریاستوں میں جاکر پناہ گزیں ہو گئے۔ گنیش بل کا راج ناتھ بھی انہی بد نصیبوں میں سے ایک تھا جو اپنی ماں کا پہلاشرادھ بھی نہ کر سکا جس کا اس شورش سے دس مہینے قبل دیہانت ہوا تھا۔
گنیش بل ایک چھوٹا سا گاوں تھا جو کہ پہلگام سے لگی ایک پہاڑی پر واقع تھا۔ اصل میں یہ گاوں چیڑھ اور دیو دار کے پیڑوں سے اس طرح گھرا ہوا تھا کہ یہ پہلگام کے اتنے قریب ہوکے بھی نظر نہیں آتا تھا۔ یہاں کی آبادی بڑی کم تھی۔ گو کہ یہاں بھی ہندوآٹے میں نمک کے برابر تھے، پھر بھی ہندو اور مسلمان مل جل کر رہا کرتے تھے۔ یہ گاوں بہت خوبصورت تھا۔ ہر طرف چھوٹی چھوٹی گنگناتی ندیاں اور اچھلتی کودتی ہوئی دھارائیں لیدر کی طرف بہتی تھیں اور پھر اس میں ضم ہو جاتی تھیں۔ یہاں رہ کے بھی نالہ لیدر کی چیخ چنگھاڑ صاف سنائی دیتی تھی۔ راجناتھ اسی گاوں کا باسی تھا۔ وہ اسی گاوں میں پنساری کی دکان چلاتا تھا۔ اس کی دنیا اپنی دکان سے گھر تک سمٹ کررہ گئی تھی۔ اس گھر اور گاوں سے پرے کیا ہو رہا ہے اسے ان باتوں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اس کی دکان پر ہمیشہ پاس پڑوسیوں کا جمگھٹا لگا رہتا تھا۔ زیادہ تر گاوں کی باتیں ہی زیر بحث ہوتی تھیں۔ اسے اپنے گاوں سے اس قدر جذباتی لگاو تھا کہ جب وہ ایک آدھ دن کے لئے سری نگر سودا سلف لینے چلا جاتا تھا تو اُسے لگتا تھا جیسے وہ کسی اجنبی شہر میں آ گیا ہو۔ اسے شہری ماحول میں گھٹن ہونے لگتی تھی۔ وہ اپنے گھر اپنے گاوں سے ایک پل کے لئے بھی دور رہنا نہیں چاہتا تھا۔ جب گرمیوں میں پہلگام میں سیاحوں کی آمد رفت شروع ہو جاتی تھی تو وہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کے بھانت بھانت کے لوگوں کو دیکھتا تھا جیسے وہ کوئی عجوبہ دیکھ رہا ہو۔ اُسے حیرت ہوتی تھی کہ یہ لوگ اپنا گھربار چھوڑ کے یہاں کیسے آتے ہیں جب کہ وہ سری نگر سے باہر کبھی نہیں گیا تھا۔ اسے اپنے گھر اور اپنے گاوں کے مقابلے میں ساری دنیا ہیچ لگتی تھی۔
جب وادی میں شورش کی شروعات ہوئی تو اس کے چند پڑوسی نقل مکانی کرنے لگے۔ وہ اپنے پڑوسیوں کے اس انخلا پر بڑا رنجیدہ ہوا۔ بھلا کوئی اپنا پنڈ اپنے یار دوست، اپنا پاس پڑوس چھوڑ کے جاتا ہے۔ چاہے یہ امخلا عارضی ہی کیوں نہ ہو۔ اصل میں شورش کی ابتدا پہلگام سے ہی ہوئی تھی۔ کئی مہینے پہلے چند غیرملکی سیاحوں کا اغوا ہوا تھا۔ اس دن راجناتھ کو لگا کہ کچھ گڑ بڑ ہے مگر وہ اس واقعے سے چندے خائف نہ ہوا کیونکہ اغوا انگریزوں کو ہوا تھا جو کہ غیر ملکی سیاح تھے اور پہلگام کی سیاحت کے لئے آئے تھے۔ اس کے بعد کے واقعات پریشان کن ضرور تھے مگرراجنا تھ تب بھی نہیں گھبرایا کیونکہ یہ گاوں ایک کنبے کی طرح تھا۔ اس کے مسلم پڑوسیوں نے اس کی حفاظت کی ذمہ واری لی تھی اور وہ اُسے ایک پل کے لئے بھی اکیلا نہیں چھوڑتے تھے۔ ہر پل اس کے ارد گرد منڈھلاتے رہتے تھے۔ اُنہیں اگر کوئی مشکوک آدمی گاوں میں دکھائی دیتا تھا تو وہ اسے روک کر اس سے پوچھ تاچھ کر لیتے تھے۔ تسلی ہونے پرہی اسے چھوڑ دیتے تھے۔
جب حالات قابو سے باہر ہونے لگے اور ہر شخص اپنے آپ کو غیر محفوظ محسوس کرنے لگا تو راجناتھ کے بال بچے خوف کے سایے میں جینے لگے۔ رات کو اگر ایک برتن بھی گر جاتا تھا تو ان کی جان نکل جاتی تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے موت اُنکے دروازے پر آکے کھڑی ہوگئی ہو۔ راجناتھ کے گھر والے اس طرح کے خوف و دہشت کے ماحول میں جینے کے عادی نہ تھے اس لئے وہ راجناتھ کے پیچھے پڑ گئے کہ وہ بھی انہیں جموں لے کر چلا جائے۔ راجناتھ کا یقین بھی ڈانو ڈول ہونے لگا تھا۔ اسے بھی لگ رہا تھا کہ اب یہاں رہنا خطرے سے خالی نہیں۔ اس کی برادری کے لوگ یہاں سے چلے گئے تھے۔ وہ تو اکیلا رہ گیا تھا۔ اُسنے سوچا کہ یہاں اب اس کی اور اس کے عیال کی زندگی محفوظ نہیں سو بھاری من سے اس نے گاوں چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ رات کے وقت اس نے ایک دوست کی ٹیکسی میں اپنے بال بچوں کو بٹھایا اور وہ انہیں لے کر چوروں کی طرح گاوں سے نکل گیا۔ گھر والی کا اصرار تھا کہ وہ جاکر جموں میں رہیں مگر راجناتھ اس کے لئے راضی نہیں ہوا۔ کیونکہ وہ کٹر رجائی تھا۔ اس کے دل میں یہ اُمید حالات کی ابتری کے باوجود ڈھلمل نہ ہو پائی تھی کہ آج نہیں تو کل حالات سدھر جائیں گے اور وہ پھر سے اپنے گھر میں جاکر رہئیں گے اس لئے وہ زیادہ دور نکل نہیں جانا چاہتا تھا اس کا بس چلتا تو وہ قاضی گنڈ سے آگے نہیں جاتا مگر یہاں بھی زندگی مامون نہیں تھی اس لئے اس نے مصلحت سے کام لے کر ادھمپور میں جاکے ڈیرہ ڈال دیا۔ ادھپمور جموں کے مقابلے میں سری نگر سے زیادہ قریب تھا۔ راجناتھ نے سوچا کہ جونہی حالات سدھر جائیں گے تو وہ سب سے پہلے اپنے عیال کو لے کے گھر لوٹ جائےگا۔
راجناتھ کے لئے شروع کے چند ہفتے بڑے تکلیف دہ اور جان گسل تھے۔ آسے رات کو نیند نہیں آتی تھی۔ اسے اپنا گھر اپنا گاوں شدت سے یاد آتا تھا اورگھر کی یاد اسے لہو لہو رلا دیتی تھی۔ یہاں کچھ بھی نہیں تھا۔ نہ وہ خنک پروائیاں تھیں، نہ وہ شیتل پانی۔ نہ وہ سائیں سائیں کرتی ہوائیں، نہ گنگناتی ندیاں۔ نہ وہ ہرے بھرے جنگل نہ وہ برف پوش چوٹیاں۔ نہ وہ پرندوں کی چہکار، نہ وہ بھیڑ بکریوں کی ممناہٹ۔ نہ وہ لیدر کا سنگیت، نہ وہ بادلوں کا رقص۔ نہ وہ برسات کی رم جھم نہ وہ بادلوں کی گھڑ گھڑاہٹ۔ نہ وہ گھوڑوں کے سم کی ٹاپیں، نہ وہ برف کے گالے۔ یہاں تو آسمان سے آگ برستی تھی۔ اسے لگ رہا تھا جیسے اسے جیتے جی ہی جہنم واصلکر دیا گیا ہو۔ وہ پاگلوں کی طرح دن بھر ادھر سے اُدھر بھٹکتا رہتا تھا۔ اسے کوئی اپنا کوئی شناسا نظر نہیں آ رہا تھا۔ اسے ہر شخص اجنبی اور بیگانہ لگتا تھا۔
ہر رات اس کی ماں اس کے سپنوں میں چلی آتی اور اس سے پوچھتی، ”بیٹا میرا شرادھ کب کررہے ہو؟“
ماں کو دیکھ کر وہ کرچی کرچی ہو کے رہ جاتا تھا۔ وہ جس حال میں اسے بھٹکتے ہوئے دکھائی دیتی تھی وہ روپ دیکھ کر اس کا کلیجہ پھٹ پڑتا تھا۔ وہ اپنے آپ کو مجرم اور گناہ گار تصور کرنے لگتا تھا۔ کاش وہ دو مہینے اور رک گیا ہوتا اور ماں کا شرادھ کرکے ہی گھر چھوڑ دیا ہوتا تو آج اس کی ماں کی آتما اسے اس طرح بھٹکتی ہوئی نہیں ملتی۔ وہ تو بس ہر رات اس کے سپنے میں آکر اسے یاد دلاتی تھی کہ اسے اس کا شرادھ اپنے ہی پنڈ میں جاکے کرنا ہے تبھی اسے مکتی ملےگی۔ ادھمپور میں اور بھی دو چار مہاجر پریوار تھے۔ جب کبھی راجناتھ ان سے جاکر ملتا اور ان سے گھر لوٹ جاکر ماں کے شرادھ کی بات کرتا تو وہ اسے یہ کہہ کر ڈراتے۔
”تمہاری مت ماری گئی ہے کیا جو موت کے منہ میں جانے کی سوچ رہے ہو۔ ارے بھیا کشمیر میں آج مسلمان محفوظ نہیں، ہماری تمہاری بات ہی کیا۔ دو چار لوگوں نے اس طرح کی حماقت کی۔ آج تک ان کے بارے میں پتا نہیں چلا کہ آیا وہ زندہ ہیں کہ انہیں قتل کر دیا گیا ہے۔“
ایسی باتیں سن کر راجناتھ کا دل بیٹھا جانے لگتا تھا۔ مہینوں، سالوں وہ ماہی بےآب کی طرح تڑپتا رہا۔ حالات سدھرنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ ایک پل کے لئے آس بندھ جاتی تھی تو دوسرے پل ٹوٹ جاتی تھی۔ اُسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ صدیوں سے انگاروں پر لوٹ رہا ہو۔ کوئی اُمید، کوئی کرن اسے دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ وہ رجائیت پسندی سے قنوطیت پرستی کی طرف بڑھ چکا تھا۔ اسے لگ رہا تھا جیسے وہ ہر طرف اندھیرے سے گھرا ہو۔ گھر والے اس کی یہ حالت دیکھ کر کڑھ کے رہ جاتے تھے۔ ایک دو بار اس کی بیوی نے اس کی خوب سرزنش کی۔ جواب میں وہ بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کے رو پڑا۔ اسے دیکھ کر گھر میں سب رونے لگے۔
دھیرے دھیرے اس کا زندگی سے موہ بھنگ ہونے لگا۔ اس نے چپی سادھ لی۔ نہ منہ سے بولتا تھا نہ سر سے کھیلتا تھا۔ بس گھنٹوں خلا کو گھورتا رہتا تھا۔ جب وہ اپنے گھر میں تھا تو وہ کتنا پھرتیلا اور چاک و چوبند تھا۔ وہ سورج اگنے سے پہلے ٹھنڈے اور شیتل پانی سے نہا لیتا تھا اور پھر پاس کے مندر میں جاکر پوجا پاٹھ کرکے آتا تھا۔ پوجا پاٹھ کرنے کے بعد ہی وہ ان گرہن کرتا تھا۔ وہ اگر کسی دن بیمار بھی ہوا تب بھی اس نے نہانے سے ناغہ نہیں کیا۔ یہاں آکر وہ اپنا قاعدہ اور دستور ہی بھول گیا۔ یہاں آسمان سے آگ برستی تھی پھر بھی وہ نہاتا نہیں تھا۔ وہ جب سے یہاں آیا تھا اس نے ایک بار کسی مندر کا رخ نہیں کیا۔ وہ پوجا ارچنا سب بھول چکا تھا۔ بیوی اسے روز ڈانٹتی تھی مگر وہ بھی اتنا ڈھیٹ بن چکا تھا کہ اس پر کسی ڈانٹ ڈپٹ کا اثر نہیں ہو رہا تھا۔ وہ ایک کان سے سنتا تو دوسرے کان سے اڑاتا تھا۔ دراصل اس کے اندر کا انسان مر چکا تھا۔ اُسکی چونچال طبعیت کو اندر کے غم و اندوہ نے نگل لیا تھا اور وہ رنج و محن، درد و الم کی ایک جیتی جاگتی مورت بن کے رہ گیا تھا۔ وہ دن بھر ڈنڈے بجاتا پھرتا رہتا تھا۔ مہینوں سے اس نے اپنی داڑھی نہیں بنائی تھی۔ وہ ژولیدہ منہ لئے ایک پاگل کی طرح گھومتا رہتا تھا۔ اس کی گھر والی اس کی یہ حالت دیکھ کر چھاتی مسوس کے رہ جاتی تھی۔ اسے یہ وہم ہوگیا تھا کہ راجناتھ اپنی سدھ بدھ کھوتا جا رہا ہے۔
ایک دن وہ کسی کو کچھ بتائے بنا گھر سے غائب ہو گیا۔ اس کے بیوی بچے اس کی گمشدگی سے پریشان ہوگئے۔ انہوں نے اسے کہاں کہاں تلاش نہ کیا۔ اس کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ تھک ہار کے انہوں نے پولیس میں اس کی گمشدگی کی رپورٹ درج کروائی۔ ان کے کچھ رشتہ دار جو جموں میں رہتے تھے اس کی گمشدگی کی خبر سن کر ادھمپور چلے آئے۔ انہوں نے بھی اس کی تلاش میں شہر کا کونہ کونہ چھان مارا مگر راجناتھ کی کوئی بو باس نہیں ملی۔ سب حیران تھے کہ آخر وہ گیا کہاں؟ اسے زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔ چند ایسے رشتہ دار بھی تھے جنہیں یہ اندیشہ ہو رہا تھا کہ کہیں کسی ملی ٹنٹ نے اس کا اغوا تو نہیں کر لیا کیونکہ ایسے ایک دو واقعات ہو چکے تھے۔ ہر کوئی اپنی اپنی دانست کے حساب سے اٹکلیں لگا رہا تھا۔
اجناتھ اپنے گاوں پہنچ چکا تھا۔ اس نے کسی کو بتائے بنا یہ فیصلہ لیا تھا۔ وہ اس بات کو بخوبی جانتا تھا کہ اگر اس نے کسی سے بھی اس بات کا زکر کیا تو کوئی اسے ایسی حماقت کرنے کی اجازت نہیں دےگا۔ وہ اس کی بات سننے کی بجائے اسے ڈرادیں گے۔ اسے ایسی ایسی ڈراونی اور خوفناک کہانیاں سنائیں گے کہ اس کی ہمت ٹوٹ جائےگی اور وہ گھر لوٹنے کی جرات ہی نہیں کر پائےگا۔ انہیں باتوں کو دھیان میں رکھ کر اس نے کسی کو بھی اپنے فیصلے کی بھنک تک لگنے نہیں دی اور وہ رات کی تاریکی میں گھر سے نکلا اور ایک ٹرک میں بیٹھ کر اپنے گاوں پہونچ گیا۔ جب اس نے اپنے گاوں میں قدم رکھا تو اسے لگا جیسے وہ سورگ لوک میں پہونچ گیا ہو۔ وہ مٹی اٹھا کر اسے اپنے سر اپنے ماتھے پر ملنے لگا اور پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ یہ غم کے نہیں بلکہ خوشی کے آنسو تھے۔ اسے یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ وہ سچ مچ اپنے گاوں، اپنے گھر پہونچ گیا ہو۔ پہلے تو لوگوں نے اسے پہچانا نہیں کیونکہ اس کا حلیہ ہی بدل گیا تھا۔ اس کی داڑھی کافی بڑھی ہوئی تھی۔ کپڑے تار تار ہو چکے تھے۔ بال بکھرے ہوئے اور چہرے سے وحشت برستی ہوئی۔ وہ عام انسانوں کی طرح نہیں تھا۔ وہ عجیب عجیب حر کتیں کر رہا تھا۔ اس کے رنگ ڈھنگ دیکھ کے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ اپنا دماغی توازن کھو بیٹھا ہے۔ جب گاوں والوں نے اسے پہچان لیا تو انہوں نے اُسے گلے لگانا چاہا مگر وہ تو ایسا برتاو کرنے لگا جیسے وہ کسی کو پہچانتا ہی نہ ہو۔ وہ بس اللہ و اکبر کا ورد کرتا رہا۔ کچھ لوگ تو اس کا حال حلیہ اور اُسکا اللہ اکبر کا ورد کرتے ہوئے شادمان ہو گئے۔ انہیں لگا کہ راجناتھ نے اپنا مذہب بدل دیا ہے او راسلام سے متاثر ہوکے وہ مسلمان ہو گیا ہے۔ یہاں پر ہندو ہوتے تو وہ اسے ذات باہر کر دیتے مگر یہاں تواب اُس طبقے کا کوئی بھی فرد نہیں تھا۔ بہرحال وہ جسطرح بھی برتاو کر رہا تھا یہاں کے لوگ اسے سر آنکھوں پر بٹھا رہے تھے۔ رات کو جب وہ ایک دکان کے تھڑے پر لیٹ گیا تو ایک آدمی بھاگ کے گھر گیا اور وہاں سے رضائی لے کے آیا اور یہ رضائی اس کے اوپر ڈال دی۔ وہ ہر رات اپنا رین بسیرا بدلتا رہتا تھا۔ وہ جہاں بھی سو جاتا تھا کوئی نہ کوئی گھر سے رضائی لا کے اس پر ڈال دیتاتھا۔ اس کے پیچھے کھانا لے کے
دوڑتے۔ وہ نانا کرتا تب بھی اسے دو نوالے کھلا ہی دیتے تھے۔
گاوں کی پنڈال پر روز اس کا چرچا ہوتا تھا۔ کئی لوگوں نے اسے مسجد میں لیجانے کی کوشش کی مگر وہ غیض و غضب ہو کے بھاگ جاتا تھا اور پھر جلال میں آکے اللہ و اکبر کا ورد کرنے لگتا تھا۔ لوگوں کے لئے وہ ایک پہیلی بن کے رہ گیا تھا۔ وہ اگر مسلمان ہو گیا ہے تو پھر مسجد میں جانے سے احتراز کیوں کر رہا ہے۔ بزرگوں نے جب اس مسلے پر مغز پچی کی تو انہیں یہی ادراک ہوا کہ وہ اپنے ہوش و حواس میں نہیں ہے اس لئے وہ اس قسم کی حرکتیں کر رہا ہے۔
ایک دن کیا ہوا کہ اس گاوں کا ایک مسلمان حاجی اکرم ایک پنڈت کی زمین کا سودا کرنے کے لئے جموں چلا گیا۔ وہ جب اس پنڈت کے گھر پہنچا تو ان کی حالت کذائی دیکھ کر اسے صدمہ ہوا۔ وہ تو ایک کمرے میں جانوروں کی طرح رہ رہے تھے جس میں نہ بجلی کا پنکھا تھا، نہ کھانا پکانے کی رسوئی۔ وہ تو جیتے جی ہی دوزخ کی آگ میں جل رہے تھے۔ حاجی پررقت طاری ہوئی۔ یہ اس کا پڑوسی شمبھو ناتھ تھا جس کا گنیش بل میں سات کمروں والا گھر تھا۔ بیس پچیس کنال زمین تھی اور وہی آج اپنے عیال کے ساتھ ایسی کسم پرسی کی حالت میں رہ رہا تھا۔ اس نے شمبھو ناتھ کو سمجھاتے ہوئے کہا۔
”اس طرح اس جہنم میں رہنے سے اچھا ہے اپنے گھر لوٹ چلو۔ اس ڈر کو اپنے دل سے نکال دو کہ وہاں جاکر تمہیں ہم مار ڈالیں گے۔ تمہارا ایک پڑوسی راجناتھ تو لوٹ کے آیا ہے۔ گو کہ وہ اپنے ہوش و حواس میں نہیں ہے، پھر بھی دیکھو اس کا گاوں والے کس طرح خیال رکھتے ہیں۔“
اس انکشاف سے شمبھو ناتھ اچھل پڑا۔ اس نے حاجی اکرم کی طرف پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھ کر پوچھا۔
”مجھے یقین نہیں آ رہا ہے۔ تم سچ کہہ رہے ہو حاجی؟“
”بھائی مجھے جھوٹ بول کے کیا ملنے والا ہے۔ میں سچ کہہ رہا ہوں کہ راجناتھ لوٹ کے آیا ہے مگر یہ خبر سن کے تمہیں دکھ ہو گا کہ اس نے اپنا دین بدل دیا ہے اور وہ مسلمان بن چکا ہے۔“
شمبھو ناتھ کو لگا جیسے اس کے سینے پر ایک وزنی گھونسہ پڑا۔ اس انکشاف نے اسے اندر سے پلپلا کے رکھ دیا۔ ایک عیال بار آدمی اپنے عیال کو چھوڑ کے اپنا دھرم بدل لے۔ وہ اسے دل ہی دل لعنت ملامت کرنے لگا۔ اُس سے رہا نہ گیا۔ وہ حاجی سے بے دغدغے بولا۔
”لعنت ہے اس پر۔ اپنے بچوں کو بھگوان کے رحم کرم پر چھوڑ کر وہ یہاں سے بھاگ گیا اور اپنا دھرم کرم بھول کر دوسرے دھرم کی شرن میں پہنچ گیا۔ اسے نہ یہاں چین ملےگا نہ وہاں۔ ارے اسے دھرم ہی بدلنا تھا تو پھر شادی کیوں کی۔ بچے کیوں پیدا کئے۔؟ اسے جانا ہی تھا تو پہلے انہیں زہر دیکر مار ڈالنا تھا۔ وہ جب یہ خبر سنیں گے تو بےموت ہی مر جائیں گے۔“
حاجی چپ چاپ اس کی جلی کٹی سنتا رہا۔ اس کی باتیں تلخ سہی مگر کسی حد تک سچ تو تھیں۔ راجناتھ نے اپنے دین سے ہی نہیں اپنے بال بچوں کے ساتھ بھی دھوکہ کیا تھا۔ وہ انہیں بےیارومدد گار چھوڑ کے چلا گیا تھا۔
یہ بات جموں کے شر نارتھی کیمپ میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ جو بھی یہ خبر سنتا وہی راجناتھ پر تھو تھو کرکے چلا جاتا تھا۔ حاجی اکرم جس کام کے لئے آیا تھا وہ کام تو ہوا ہی نہیں۔ وہ راجناتھ کے دھرم پریورتن کی بھینٹ چڑھ گیا۔ اسے خالی ہاتھ لوٹنا پڑا۔ وہ اپنے آپ کو کوسنے لگا کہ اُسنے راجناتھ کی خبر سناکر اپنے ہی پاوں پر کلہاڑی ماری۔ اسے راجناتھ کا زکر ہی کیوں کرنا تھا۔ باڑھ میں جاتا وہ۔ مسلمان بن کے وہ کون سا اس پر احسان کرنے والا تھا۔ اس نے دین بدلا تو اپنے لئے بدلا۔ کیا پتا اس تبدیلی مذہب میں اس کی کیا مصلحت رہی ہو۔ ہر انسان جو بھی کرتا ہے اپنے فائدے کے لئے کرتا ہے۔ چونکہ وہ اس وقت غصے میں تھا اس لئے اس نے راجناتھ کی دماغی صورت حال کو اس وقت نظر انداز کیا مگر جب وہ اننت ناگ جانے والی بس میں بیٹھ گیا تب اُسے راجناتھ کی موجودہ صورت حال کی طرف دھیان گیا۔ اسے اس آدمی پر ترس آ گیا۔ وہ تو اپنے جامے میں تھا ہی نہیں اس لئے اسے یہ بھی پتا نہیں تھا کہ اس نے کیا کیا ہے۔
چار دن کے بعد جب حاجی اکرم اپنے گھر پہنچا تو گھر والوں نے آتے ہی اسے گھیر کے پوچھ لیا۔
”ہو گیا سود اکیا؟“
”نہیں۔“
”کیوں۔ شمبھو ناتھ نے زمین بیچنے سے انکار کیا؟“
”نہیں۔“
”تو پھر زمین کا سودا کیوں نہیں کیا؟“
”دل نے نہیں مانا“
اس کی بیوی تنک کر بولی۔
”دل کی بات ہی سننی تھی تو یہیں سنتے۔ اتنے دور جاکر سننے کی کیا ضرورت تھی؟“
”دراصل بات یہ ہے کہ راجناتھ کی وجہ سے یہ سودا نہیں ہوا۔“
”راجناتھ تو یہاں ہے۔ وہ بھی دیوانگی کی حالت میں۔ وہ بھلا تمہارا سودا کیوں بگاڑ دیتا۔ بات کچھ اور ہے۔“
”ہاں بات کچھ اور ہے۔ دراصل میرے منہ سے نکل گیا کہ راجناتھ نے اپنا دین بدل دیا ہے۔ اس خبر سے وہاں کہرام مچ گیا۔ ہر ایک کو اس کے اس فیصلے پر افسوس ہوا کیونکہ اس کے بال بچے بھی ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں۔ بھلا کوئی اپنے معصوم بچوں کو اس طرح دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے۔ اس ہنگامے میں زمین کی بات ہی ہو نہ پائی۔“
حاجی کی بیوی نے بھی اس بات کی تائید کی کہ اسے دین بدلنے سے پہلے اپنے بچوں کے بارے میں سوچنا چاہے تھا۔ اب کون ان کی سدھ لےگا۔ اکیلی عورت بیچاری کیا کر پائےگی۔ کس طرح اپنے بچوں کو پالے گی۔ یہاں ہوتی تو بات کچھ اور تھی۔ یہاں اس کی اپنی زمین زراعت تھی۔ وہاں کیا ہے۔ آگے ہاتھ تو پیچھے پات۔ یہ بحث رات گئے تک چلتا رہا۔
جب حاجی اکرم سونے کے لئے اپنے کمرے میں چلا گیا تو اس نے گھر کے پچھواڑے میں کچھ گرنے کی آواز سنی۔ وہ اُلٹے پاوں نیچے چلا آیا۔ ٹارچ کی روشنی میں دیکھا کہ ایک بلی نے چوہے کو اپنے منہ میں دبا لیا ہے۔ اس نے بلی کو لکڑی مار کے بھگا دیا۔ وہ جب واپس اپنے کمرے کی طرف جا رہا تھا تبھی پاس کے مندرمیں اُسے کوئی سایہ ہلتا ہوا نظر آیا۔ اسے لگا کہ کوئی شر پسند مندر میں گھس گیا ہے۔ وہ دبے پاوں مندر تک گیا۔ اندر جب اس نے دزدیدہ نگاہوں سے دیکھا تو وہ دیکھ کے حیران و ششدر رہ گیا۔ اندر راجناتھ اپنی ماں کی تصویرکو سامنے رکھ کر اس کا شرادھ کر رہا تھا۔ دفعتاََ راجناتھ کی نظر حاجی اکرم پر پڑی تو وہ سن ہوکے رہ گیا۔ اس سے پہلے کہ وہ بھاگنے کی کوشش کرتا حاجی اکرم نے اس کا راستہ روکا۔ وہ منجمد ہوکے حاجی اکرم کے سامنے کھڑا تھا۔ حاجی اکرم کا گلا بھرآیا۔ اس نے بھرے گلے سے کہا۔
”یہ سوانگ رچانے کی کیا ضرورت تھی۔ تم اگر یہ چولا بدل کر نہیں آتے تو کیا ہم تمہیں اپنے گھر میں گھسنے سے روکتے؟ تم نے ہمیں اتنا غیر اور بےدرد کیسے سمجھا۔ جس ماں کا شرادھ کرنے تم آئے ہووہ جتنی تمہاری ماں تھی اتنی ہی میری بھی تھی۔ ہم نے اسے کبھی مذہب کے ترازو پر نہیں تولا۔ ماں کی ممتا کو کبھی تولا نہیں جاتا ہے اور نہ ہی کسی آلے سے آنکا جاتا ہے۔ ماں تو ماں ہوتی ہے جس کا سب سے بڑا دھرم، سب سے بڑا مذہب اس کی ممتا ہوتی ہے اور وہ یہ ممتا بنا کسی سود کے سب میں بانٹتی ہے۔ حالات کے اندھیرے میں رشتے بھلے ہی دھندلے ہو جائیں مگر یہ رشتے کبھی مرتے نہیں، بلکہ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں کیونکہ ان کی جڑیں دلوں میں پیوست ہوتی ہیں۔“
کہہ کر وہ تیزی سے نکل گیا۔ راجناتھ کی آنکھوں سے ساون بھادوں کی جھڑی لگ گئی اور وہ ماں کی تصویر کے سامنے بیٹھ کر چھاجوں روتا رہا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.