Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

گرمیوں کے دن

کملیشور

گرمیوں کے دن

کملیشور

MORE BYکملیشور

    کہانی کی کہانی

    معاشرے میں بڑھتی ہوئی صارفیت اور آیوروید یعنی قدیم طریقہ علاج کے زوال کا نوحہ ہے۔ وید جی دن بھر بیٹھے رہتے ہیں لیکن ایک بھی مریض ان کے پاس نہیں آتا۔ بھولے بھٹکے کوئی سرکاری ملازم جعلی میڈیکل سرٹیفکیٹ بنوانے آتا بھی ہے توپیسوں پر سمجھوتہ نہیں ہو پاتا۔ وید جی اپنا پیٹ پالنے کے لیے تحصیل کے پٹواریوں کا رجسٹر بناتے ہیں کیونکہ نئے پٹواریوں کو رجسٹر بنانا آتا نہیں ہے۔

    چنگی کادفتر خوب سجایا بنایا جاچکا ہے۔ اس کے پھاٹک پر قوسِ قزح کی وضع کے سائن بورڈ آویزاں ہیں۔ سید علی پینٹر نے بڑے مشاق ہاتھوں سے انہیں بنایا ہے۔ دیکھتے دیکھتے شہر میں ایسی بہت سی دکانیں ہوگئی ہیں جن پر سائن بورڈ لٹک گئے ہیں۔ اب سائن بورڈ لگانا اپنی عزت و وقعت کابڑھانا ہے۔ بہت دن پہلے جب دینا ناتھ حلوائی کی دکان پر پہلا سائن بورڈ لگا تھا تو وہاں دودھ پینے والوں کی تعداد بڑھ گئی تھی۔ پھر جیسے ایک سیلاب سا آگیا اور نئے نئے طریقے اور بیل بوٹے ایجاد کیے گئے۔ ’’اوم‘‘ یا ’’جے ہند‘‘ سے شروع کرکے ’’ایک بار ضرور آزمائش کیجیے‘‘ یا ’’ملاوٹ ثابت کرنے والوں کو سو روپیہ نقد انعام‘‘ کے محاوروں اور نعروں پر عبارت ختم ہونے لگی۔

    چنگی دفتر کا نام تین زبانوں میں لکھا ہے۔ چیئرمین صاحب بڑے عقل مند ہیں، ان کی سوجھ بوجھ کا ڈنکا بجتا ہے، اس لیے ہر سائن بورڈ ہندی، اردو اور انگریزی میں لکھا جاتا ہے۔ دور دور سے لیڈر تقریر کرنے یہاں آتے ہیں، ملکی اور غیرملکی سیاح، تاج محل دیکھ کر مغرب کی طرف جاتے ہوئے یہاں سے گزرتے ہیں، ان پر بہت اثر پڑتا ہے۔ اور رہی موسم کی بات۔۔۔ میلے تماشے کے دنوں میں حلوائیوں، جولائی اگست میں کتاب کاغذوالوں، بیاہ شادی کے دنوں میں کپڑے والوں اور خراب موسم میں وید حکیموں کے سائن بورڈوں پر نیا رنگ روغن کرایا جاتا ہے۔ خالص دیسی گھی والے سب سے اچھے، جو چھپروں کے نیچے دیوار پر کھریا مٹی یا ہرمچی سے لکھ کر کام چلالیتے ہیں۔

    ’’اس کے بغیر کام نہیں چلتا۔‘‘ اہمیت بتاتے ہوئے ویدجی نے کہا، ’’بغیر پوسٹر چپکائے سینما والوں کا بھی کام نہیں چلتا۔ بڑے بڑے شہروں میں جائیے، مٹی کا تیل بیچنے والے کی دکان پر ’’سائن بوٹ‘‘ مل جائے گا۔ بڑی ضروری چیز ہے۔ بال بچوں کے نام بھی سائن بوٹ ہیں، نہیں تو نام رکھنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ اور اب تو سکھدیو بابو بھی سائن بوٹ لٹکاکر کمپوڈر سے ڈاکٹر بن گئے ہیں اور بیگ لے کر چلتے ہیں!‘‘

    قریب بیٹھے رام چرن نے ڈاکٹر صاحب کے ایک نئے کارنامے کی خبردی، ’’اجی کل انہوں نے بدھئی والا اِکہ گھوڑا خریدلیا ہے۔‘‘

    ’’ہانکے گا کون؟‘‘ ٹین کی کرسی پر چلہ کشی کے انداز میں بیٹھے پنڈت جی نے پوچھا۔

    ’’یہ سب جیب کترنے کے طریقے ہیں۔‘‘ وید جی کادھیان اکّے کی طرف زیادہ تھا، ’’مریض سے کرایہ وصول کریں گے، سائیس کو بخشش دلائیں گے، بڑے شہروں کے ڈاکٹروں کی طرح۔۔۔ اس سے پیشے کی بدنامی ہوتی ہے۔ بھائی پوچھو، مریض کا علاج کرنا ہے کہ رعب دکھانا ہے؟ انگریزی آلہ لگاکر وہ مریض کی آدھی جان تو پہلے ہی خشک کرڈالتے ہیں۔ آیورویدی کے لیے نبض دیکھنا تو دور۔۔۔ دور سے ہی چہرہ دیکھ کر روگ بتادیتا ہے۔ اب اکہ گھوڑا اس میں کیا کرے گا؟ تھوڑے دن بعد دیکھنا، ان کا سائیس کمپوڈر ہوجائے گا۔۔۔‘‘ کہتے کہتے ویدجی بڑی گھسی ہوئی ہنسی ہنس پڑے۔

    پھر بولے، ’’کون کیا کہے بھائی! ڈاکٹری تو تماشابن گئی ہے۔ وکیل مختار کے لڑکے ڈاکٹر ہونے لگے! جب کہ خون اور سنسکار سے بات بنتی ہے۔۔۔ ہاتھ میں جس آتا ہے۔ اجی وید کا بیٹا وید ہوتا ہے۔ آدھی ودّیا تو اسے لڑکپن میں ہی جڑی بوٹیاں کوٹتے پیستے آجاتی ہے۔ تولہ، ماشہ، رتی کاایسا اندازہ ہوجاتا ہے کہ اوشدھی اشدھ ہو ہی نہیں سکتی۔ اجی اوشدھی کا چمتکار اس کے بنانے کے طریقے میں ہے۔۔۔ دھنونتری۔۔۔‘‘ ویدجی اس سے آگے کچھ کہنے ہی جارہے تھے کہ ایک شخص کو اپنی دکان کی جانب آتا دیکھ کر چپ ہوگئے اور وہاں بیٹھے لوگوں کی طرف کچھ اس انداز سے دیکھنے لگے کہ جیسے وہ گپ لڑانے والے فالتو لوگ نہ ہوں بلکہ ان کے مریض ہوں۔

    اس شخص کے دکان پر چڑھتے ہی ویدجی نے سب کچھ بھانپ لیا۔ انہوں نے پژمردگی سے اس شخص کی طرف دیکھا اور بے نیاز ہوگئے لیکن دنیاوی دکھاوا بھی کچھ ہوتا ہے۔ ہوسکتا ہے کل یہی آدمی بیمار پڑجائے یا اس کے گھر میں کسی کو روگ گھیرلے، اس لیے حسن سلوک اور پیشے کی عظمت کو بھی قائم رکھنا چاہیے۔ خود کو سنبھالتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’کہو بھئی، راضی خوشی؟‘‘ اس آدمی نے جواب دیتے ہوئے، شیرے کا ایک کنستر ویدجی کے سامنے دھردیا، ’’یہ ٹھاکر صاحب نے بھجوایا ہے۔ منڈی سے لوٹتے ہوئے لیتے جائیں گے۔۔۔ ایک ڈیڑھ بجے کے قریب۔‘‘

    ’’اس وقت دکان بند رہے گی۔‘‘ ویدجی نے فضول کام سے اکتاہٹ محسوس کرتے ہوئے کہا، ’’وید حکیم کی دکانیں دن بھر نہیں کھلی رہتیں۔ بیوپاری تھوڑے ہی ہیں بھائی!‘‘ لیکن پھر کسی اور دن، کسی اور موقعے کی امید نے جیسے ان سے زبردستی کہلوایا، ’’خیر، انہیں دقت نہیں ہوگی۔ ہم نہیں ہوں گے تو بغل والی دکان سے کنستر اٹھالیں۔ میں رکھواتا جاؤں گا۔‘‘

    اس شخص کے جاتے ہی ویدجی بولے، ’’شراب بندی سے کیا ہوتا ہے؟ جب سے ہوئی ہے تب سے کچی شراب کی بھٹیاں گھر گھر چالو ہوگئی ہیں۔ شیرہ گھی کے بھاؤ بکنے لگاہے۔ اور ان ڈاکٹروں کو کیا کہیے۔۔۔ ان کی دکانیں ایسا ٹھیکہ بن گئی ہیں جو ہر وقت کھلا رہتا ہے۔ لائسنس ملتا ہے دوا کی طرح استعمال کرنے کے لیے، لیکن کھلے عام جنجر بکتا ہے۔ کہیں کچھ نہیں ہوتا۔ ہم بھنگ افیم کی ایک پڑیا چاہیں تو تفصیل دینی پڑتی ہے۔‘‘

    ’’ذمہ داری کی بات ہے۔‘‘ پنڈت جی نے کہا۔

    ’’اب ذمہ دار وید ہی رہ گئے ہیں۔ سب کی رجسٹری ہوچکی بھائی! ایرے غیرے اور ٹٹ پونجیے جتنے گھس آئے تھے، ان کی صفائی ہوگئی۔ اب جن کے پاس رجسٹری ہوگی وہی ویدک کرسکتا ہے۔ چورن بنانے والے وید بن بیٹھے تھے۔۔۔ سب کا بوریا بسترگول ہوگیا۔ لکھنؤ میں سرکاری جانچ پڑتال کے بعد پروانہ ملا ہے۔‘‘

    ویدجی کی بات میں دلچسپی نہ لیتے ہوئے پنڈت جی چلے گئے۔ ویدجی نے دکان کے اندر کی طرف قدم بڑھائے اور اوشدھالیہ کا بورڈ لکھ رہے چندر سے بولے، ’’سفیدہ گاڑھا ہے بابو، تارپین ملالو!‘‘ اور وہ ایک بوتل اٹھالائے جس پر ’’اشوکارشٹ‘‘ (قوتِ باہ بڑھانے کی دوا) کا لیبل تھا۔

    اسی طرح نہ جانے کن کن دواؤں کی بوتلوں میں کن کن اجزا کی روح بھری تھی۔ سامنے الماری میں بڑی بڑی بوتلیں تھیں جن پر طرح طرح کے معجونوں اور کشتوں کے لیبل چسپاں تھے اور شیشیوں کی اس قطار کے پیچھے روزمرہ کی ضرورت کا دیگر سامان تھا۔ سامنے میز پر بھی سفید شیشیوں کی ایک قطار تھی جن میں سے کچھ میں مزیدار چورن، لون بھاسکر وغیرہ بھرے تھے۔ دیگر شیشیوں میں جو کچھ تھا اسے محض ویدجی ہی جانتے تھے۔

    تارپین کا تیل ملاکر چندر لکھنے لگا، ’’پروفیسر کویراج نتیا نند تیواری۔۔۔‘‘ اوپر کی سطر، ’’شری دھنونتری اوشدھالیہ‘‘ خود ویدجی اپنے ہاتھ سے لکھ چکے تھے۔ سفیدے کے وہ حروف ایسے لگ رہے تھے جیسے روئی کے پھاہے چپکادیے گئے ہوں۔ اوپر جگہ خالی دیکھ کر ویدجی بولے، ’’بابو، اوپر جے ہند لکھ دینا۔۔۔ اور یہ جو جگہ بچ رہی ہے اس میں ایک طرف وراکشا سو کی بوتل اور دوسری طرف کھرل کی تصویر بنانا۔ آرٹ ہمارے پاس مڈل تک تھا لیکن یہ تو ہاتھ سدھنے کی بات ہے۔‘‘

    چندر کچھ اُوب رہاتھا۔ خوامخواہ پکڑا گیا! خوشخط ہونے کا یہ انعام اس کی سمجھ میں نہیں آرہاتھا۔ بولا، ’’ویدجی، کسی پینٹر سے بنواتے۔۔۔ اچھاخاصا لکھ دیتا۔ اب وہ بات نہیں آئے گی۔۔۔‘‘ پسینہ پونچھتے ہوئے اس نے برش نیچے رکھ دیا۔

    ’’پانچ روپے مانگتا تھا بابو۔۔۔ دولائنوں کے پانچ روپے! اب اپنی محنت کے ساتھ یہ سائن بوٹ دس بارہ آنے کا پڑا۔ یہ رنگ ایک مریض دے گیا۔ بجلی کمپنی کا پینٹر بدہضمی سے پریشان تھا، دو خوراکیں بناکر دے دیں اور پیسے نہیں لیے۔۔۔ سو وہ دو تین رنگ اور تھوڑی سی وارنش دے گیا۔ دو بکسے رنگے گئے۔۔۔ یہ بوٹ بن گیا اور ایک آدھ کرسی رنگ جائے گی۔ بس تم اتنا اور لکھ دو، لال رنگ کا شیڈ ہم دیتے رہیں گے۔۔۔ حاشیہ ترنگا کھلے گا؟‘‘ ویدجی نے پوچھا اور خود ہی تائید بھی کردی۔

    چندر گرمی سے پریشان تھا۔ جیسے جیسے دوپہر نزدیک آتی جارہی تھی، سڑک پر دھول اور لو کا زور بڑھتا جارہا تھا۔ لحاظ کے مارے چندر منع نہیں کرپایا۔ ویدجی نے پنکھے سے اپنی پیٹھ کھجاتے ہوئے پٹواریوں کے بڑے بڑے رجسٹر نکال کر پھیلانے شروع کردیے۔ سورج کی تپش سے بچنے کے لیے دکان کا ایک پٹ بند کرکے ویدجی خالی رجسٹروں میں نقلیں کرنے لگے۔ چندر نے اپنی گلوخلاصی کرانے کے لیے پوچھا، ’’یہ سب کیا ہے ویدجی؟‘‘

    وید جی کا منھ اتر گیا۔ بولے، ’’خالی بیٹھنے سے اچھا ہے کچھ کام کیا جائے۔ نئے پٹواریوں کو کام دھام آتا نہیں، روز قانون گویا نائب صاحب سے جھاڑیں پڑتی ہیں۔۔۔ جھک مار کر ان لوگوں کو یہ کام اجرت پر کرانا پڑتا ہے۔ اب پرانے گھاگ پٹواری کہاں رہے جن کے پیٹ میں دیہی قانون بستاتھا۔ روٹیاں چھن گئیں بیچاروں کی۔ لیکن سچ پوچھو تو اب بھی سارا کام پرانے پٹواری ہی کر رہے ہیں۔ نئے پٹواریوں کی تو ساری تنخواہ اس کی اجرت میں ہی نکل جاتی ہے۔ اب پیٹ ان کا بھی ہے۔۔۔ تیا پانچا کرکے کسانوں سے نکال لاتے ہیں۔ لائیں نہیں تو کھائیں کیا؟ دوتین پٹواری اپنے بھی جاننے والے ہیں، انہیں سے کبھی کبھار ہلکا بھاری کام مل جاتا ہے۔ نقل کا کام، بس رجسٹر بھرنے ہوتے ہیں۔‘‘

    باہر سڑک ویران ہوتی جارہی تھی۔ دفتر کے بابولوگ جاچکے تھے۔ سامنے چنگی میں خس کے پردوں پر چھڑکاؤ شروع ہوگیا تھا۔ دور پیپل کے کھڑکھڑاتے پتوں کا شور لو کے ساتھ آرہا تھا۔ تبھی ایک شخص نے پٹ کے پیچھے سے اندر جھانک کر دیکھا۔ ویدجی کی بات جو شاید لمحہ دو لمحہ بعد درد سے بوجھل ہوجاتی، وہیں رک گئی۔ ان کی نگاہ نے اس شخص کو پرکھا اور وہ سنبھل کر بیٹھ گئے۔ فوراً بولے، ’’ایک بوٹ آگرے سے بنوایا ہے، جب تک نہیں آتا اسی سے کام چلے گا۔ فرصت کہاں ملتی ہے جو اس سب میں سرکھپائیں۔۔۔‘‘ اور ایک دم مصروف بنتے ہوئے انہوں نے اس شخص سے سوال کیا، ’’کہو بھائی، کیا بات ہے؟‘‘

    ’’ڈاکدری سرٹیفیکٹ۔۔۔ کو سماں ٹیشن پر کھلاسی ہیں گے سائب۔‘‘ اس آدمی نے جواب دیا جو ریلوے کی نیلی رودی میں ملبوس تھا۔

    ویدجی اس کی ضرورت کاپورا اندازہ کرتے ہوئے بولے، ’’ہاں، کس تاریخ سے کب تک کا چاہیے؟‘‘

    ’’پندرہ دن پہلے آئے تھے سائب، سات دن کا اور چاہیے۔‘‘

    کچھ حساب جوڑ کر ویدجی بولے، ’’دیکھو بھائی، سرٹیفیکٹ پکا دے دیں گے، سرکار کا رجسٹر نمبر دیں گے، روپے چار لیں گے۔‘‘ پھر ویدجی نے چار روپے پر اس کے بدک جانے کا خدشہ محسوس کرتے ہوئے کہا، ’’اگر پچھلا نہ لو تو دو روپے سے کام چل جائے گا۔۔۔‘‘

    خلاصی مایوس ہوگیا لیکن اس سے کہیں زیادہ مایوسی ویدجی کے پسینے سے شرابور چہرے پر پھیل گئی۔ خلاصی بڑی بے اعتنائی سے بولا، ’’سوبرن سنگھ نے آپ کے پاس بھیجا تھا۔‘‘ اس کے کہنے کا ڈھنگ ایسا تھا جیسے یہ کام اس کا نہ ہو بلکہ سوبرن سنگھ کا ہو لیکن وید جی کے ہاتھ نبض آگئی تھی۔ بولے، ’’وہ تو ہم پہلے ہی سمجھ گئے تھے۔ بغیر جان پہچان کے ہم دیتے بھی نہیں، عزت کاسوال ہے۔ ہمیں کیا معلوم تم کہاں رہے، کیا کرتے رہے۔ سوچنے کی بات ہے۔ وشواس پر جوکھم اٹھائیں گے۔ پندرہ دن پہلے سے تمہارا نام رجسٹر پر چڑھائیں گے، تب کہیں کام بنے گا۔ یہ گھر کی کھیتی نہیں ہے!‘‘ کہتے کہتے انہوں نے چندر کی طرف امداد کے لیے دیکھا۔ چندر نے ساتھ دیا، ’’اب انہیں کیا پتا کہ تم بیمار رہے کہ ڈاکا ڈالتے رہے۔ سرکاری معاملہ ہے۔۔۔‘‘

    ’’پانچ سے کم میں دنیا جہان کا کوئی ڈاکٹر بھی نہیں دے سکتا۔‘‘ اور ویدجی نے سامنے کھلا پڑا پٹواری والا رجسٹر ایک طرف کھسکاتے ہوے پرجوش لہجے میں کہا، ’’ارے دم مارنے کی فرصت نہیں ہے۔ یہ دیکھو، دیکھتے ہو نام؟ مریضوں کو چھوڑ کر، سرکار کو دکھانے کے لیے یہ تفصیل وار رجسٹر بنانے پڑتے ہیں۔ ایک ایک روگی کا نام، مرض، آمدنی۔۔۔ انہیں میں تمہارا نام چڑھانا پڑے گا۔ اب بتاؤ کہ مریضوں کو دیکھنا زیادہ ضروری ہے کہ دوچار روپے کے لیے سرٹیفیکٹ دے کر اس سرکاری جھنجھٹ میں پھنسنا؟‘‘ ویدجی نے تحصیل والا رجسٹر ایک دم بند کرکے اپنے سامنے سے ہٹادیااور محض فیض پہچانے کے لیے رضامندانہ انداز سے بیٹھ کر اپنے قلم سے کان کریدنے لگے۔

    ریلوے کا خلاصی ایک منٹ تک بیٹھا کچھ سوچتا رہا اور وید جی کوسرجھکائے اپنے کام میں مشغول دیکھ کر دکان سے نیچے اترگیا۔ ویدجی نے جھٹ اپنی غلطی محسوس کی کہ انہوں نے بات غلط جگہ سے توڑدی اور ایسی توڑی کہ ٹوٹ ہی گئی۔ یکلخت کچھ اور سمجھ میں نہ آیا تو خلاصی کو پکارنے کے انداز سے بولے، ’’ارے سنو، ٹھاکر سوبرن سنگھ سے ہماری جے رام جی کی کہہ دینا۔۔۔ ان کے بال بچے تو راضی خوشی ہیں؟‘‘

    ’’ہاں، سب ٹھیک ٹھاک ہیں۔‘‘ خلاصی نے رک کر وہیں سے کہا۔

    پھر ویدجی درحقیقت خلاصی کو سناتے ہوئے، چندر سے بولے، ’’دس گاؤں شہر چھوڑ کر ٹھاکر سوبرن سنگھ علاج کے لیے ہمارے پاس آتے ہیں۔ بھائی، ان کے لیے ہم بھی ہمیشہ حاضر رہتے ہیں۔۔۔‘‘

    چندر نے بورڈ پرآخری حرف مکمل کرتے ہوئے پوچھا، ’’چلا گیا؟‘‘

    ’’لوٹ پھر کے آئے گا!‘‘ ویدجی نے جیسے خود کو دلاسا دیا لیکن اس کی ناگزیر واپسی پر یقین رکھتے ہوئے بولے، ’’گاؤں کے وید اور وکیل ایک ہی ہوتے ہیں۔ سوبرن سنگھ نے اگر ہمارانام اسے بتایا ہے تو ضرور واپس آئے گا۔۔۔ گاؤں والوں کی مٹھی ذرا دیر میں کھلتی ہے۔ کہیں بیٹھ کر سوچے گا، تب آئے گا۔۔۔‘‘

    ’’کہیں اور سے لے لیا تو؟‘‘ چندر نے کہا تو وید جی نے بات کاٹ دی، ’’نہیں نہیں بابو!‘‘ پھر وید جی نے بورڈ کی طرف دیکھا اور تحسین آمیز لہجے میں بولے، ’’واہ بھئی چندر بابو! سائن بوٹ جچ گیا۔۔۔ کام چلے گا! یہ پانچ روپے پینٹر کو دے کر بعد میں مریضوں سے وصول کرنا پڑتے۔ اکہ گھوڑا اور یہ خرچہ۔۔۔ بات ایک ہی ہے۔ چاہے ناک سامنے سے پکڑلو، چاہے گھماکر۔ سید علی کے ہاتھ کا لکھا بوٹ مریضوں کو اچھا تو نہیں کردیتا۔ اپنی اپنی سمجھ کی بات ہے۔‘‘ پھر ویدجی دھیرے سے ہنس پڑے۔ پتا نہیں وہ اپنی بات پر ہنسے تھے یا دوسروں پر۔

    عین اس وقت ایک اور شخص داخل ہوا۔ ایسا لگا کہ خلاصی لوٹ آیا ہے لیکن وہ یرقان کا مریض تھا۔ اسے دیکھتے ہی ویدجی کے چہرے پر اطمینان پھیل گیا۔ وہ اندر گئے۔ ایک تعویذ لاتے ہوئے بولے، ’’اب اس کااثر دیکھو! بیس پچیس روز میں اس کاچمتکار دکھائی دے گا۔‘‘ یرقان زدہ کے بازو پر تعویذ باندھ کر اور اس کے کچھ آنے پیسے جیب میں ڈال کر ویدجی سنجیدہ بن کر بیٹھ گئے۔ مریض چلاگیا تو بولے، ’’یہ ودّیا بھی ہمارے پتاجی کے پاس تھی۔ ان کی لکھی پستکیں پڑی ہیں۔۔۔ بہت سوچتاہوں، انہیں پھر سے نقل کرلوں۔۔۔ بڑے تجربے کی باتیں ہیں۔ وشواس کی بات ہے بابو۔ ایک چٹکی دھول سے آدمی صحت یاب ہوسکتاہے۔ ہومیوپیتھک اورایلوپیتھک بھلا کیا ہے؟ ایک چٹکی شکر، جس پر وشواس جم جائے، بس!‘‘

    چندر نے چلتے ہوئے کہا، ’’اب تو اوشدھالیہ بند کرنے کا وقت ہوگیا۔ کھانا کھانے نہیں جائیے گا؟‘‘

    ’’تم چلو، ہم دس پانچ منٹ بعد آئیں گے۔‘‘ وید جی نے تحصیل والا کام اپنے آگے پھر کھول لیا۔ دکان کا دروازہ ادھ کھلا کرکے بیٹھ گئے۔ باہر دھوپ کی طرف دیکھ کر آنکھیں چندھیائی جاتی تھیں۔ ملحقہ دکان دار بچن لال نے اپنی دکان بند کرکے، اپنے گھر جاتے ہوئے ویدجی کی دکان کھلی دیکھی تو پوچھا، ’’آپ کھانا کھانے نہیں گئے؟‘‘

    ’’ہاں، ایسے ہی ایک ضروری کام ہے۔ ابھی تھوڑی دیر میں چلے جائیں گے۔‘‘ وید جی نے جواب دیا اور زمین پر چٹائی بچھائی، کاغذ رجسٹر میز پر سے اٹھاکر نیچے پھیلا لیے۔ لیکن گرمی تو گرمی۔۔۔ پسینہ تھمتا ہی نہ تھا۔ رہ رہ کر پنکھاجھلتے، پھر نقل کرنے بیٹھ جاتے۔ کچھ دیر دلجعمی سے کام کیا لیکن ہمت چھوٹ گئی۔ اٹھ کر دھول سے اٹی پرانی شیشیوں کی جھاڑ پونچھ میں لگ گئے۔ انہیں قطار میں کھڑا کیا۔ لیکن گرمی کی دوپہر، وقت تھما ہوا لگتا تھا۔ ویدجی نے ایک بار دروازے میں سے منھ نکال کر ایک نظر سڑک پر ڈالی۔ وہاں انہیں اکا دکا آدمی نظر آئے۔ بہرحال آتے جاتے لوگوں کی موجودگی سے انہیں بڑا سہارا ملا۔ وہ دکان کے اندر آگئے، سائن بورڈ کا تار سیدھا کیا اور پھر اسے دکان کے باہر لٹکادیا۔ ’’دھنونتری اوشدھالیہ‘‘ کا بورڈ دکان کی گردن میں تعویذ کی طرح جھول گیا۔

    کچھ وقت اور گزر گیا۔ آخر وید جی نے ہمت کی۔ ایک لوٹا پانی پیا اور اپنی دھوتی رانوں تک چڑھاکر بڑی مستعدی سے کام میں جٹ گئے۔ باہر ذراآہٹ ہوئی۔ انہوں نے فکر مندی سے اُدھر دیکھا۔

    ’’آج آرام کرنے نہیں گئے ویدجی؟‘‘ گھر جاتے ہوئے بازار کے ایک دکاندارنے پوچھا۔

    ’’بس جانے کی سوچ رہاہوں۔۔۔ کچھ کام رہ گیا تھا، سوچاکرتاچلوں۔۔۔‘‘ اور وہ دیوار کے ساتھ پیٹھ لگاکر بیٹھ گئے۔ کرتا اتار کر ایک طرف رکھ دیا۔ اکہری چھت کی دکان آگ کی طرح تپ رہی تھی۔ ویدجی کی آنکھیں نیند سے بہت بوجھل ہو رہی تھیں۔ ایک جھپکی سی آئی۔۔۔ کچھ پل بیت گئے۔۔۔ نہیں رہا گیا تو رجسٹروں کاتکیہ بناکر انہوں نے کمر سیدھی کی۔ لیکن نیند آئی اور آتی چلی گئی، نہ جانے کیا ہوگیا تھا۔

    اچانک ایک آہٹ نے چونکا دیا۔ آنکھیں کھولتے ہوئے وہ اٹھ کر بیٹھ گئے۔ بچن لال دوپہر گزار کر واپس آگیا تھا۔

    ’’ارے، آج آپ ابھی تک گئے ہی نہیں؟‘‘

    ویدجی زور زور سے پنکھاجھلنے لگے۔ بچن لال نے دکان سے اترتے ہوئے پوچھا، ’’کسی کا انتظار ہے کیا؟‘‘

    ’’ہاں، ایک مریض آنے کو کہہ گیا تھا۔۔۔ لیکن ابھی تک آیا۔۔۔‘‘ ویدجی نے بچن لال کوجاتے دیکھا تو اپنی بات ادھوری ہی چھوڑ کر چپ ہوگئے اور پسینہ پونچھنے لگے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے