Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

گٹھری

MORE BYسیدہ عفراء بخاری

    یہ اس کے گناہوں کی گٹھری تو نہ تھی کہ وہ اس سے آنکھیں چرائے شرمسار ہو رہی تھی۔

    اس نے اب گٹھری کو اپنی آنکھوں کے سامنے سے ہٹادیا تھا مگر اس کے باوجود اسے اطمینان نصیب نہیں ہوسکا تھا۔ وہ گٹھری گویا اس کے تصور میں گڑگئی تھی، اور وہ اسے بغیر دیکھے ہی اسے دیکھ رہی تھی اور اپنے کام میں مصروف بار بار جھنجھلارہی تھی۔

    کبھی سوچتے سوچتے اس کا چہرہ غصے سے تمتما جاتا، گال لال ہوجاتے اور اس کا جی چاہتا وہ اونچی بلند آواز میں سوچے، ’’اسے یوں ذلیل کرنے کا حق نوشابہ کو ہرگز نہیں پہنچتا تھا۔ اس نے کھلے طور پر اس کی ہتک کی تھی اور اس ہتک کا احساس اسے پھونکے ڈال رہاتھا۔ کیا وہ ایسی ہی گئی گزری ہوچکی ہے۔۔۔؟‘‘ مگر دوسرے لمحے جب وہ اپنی بے بسی پر غور کرتی تو اس کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو ڈھلک پڑتے۔

    ’’ٹھیک تو ہے لوگ جو کچھ دیکھیں گے وہی سمجھیں گے۔‘‘ ہاتھ کی پشت سے آنسو پونچھتے پونچھتے چولہے کی سیاہی بھی اس کے چہرے پر مل گئی تھی۔ ننھے پپونے کھیل سے سراٹھاکر ماں کی طرف دیکھا تو بھولپن سے ہنس کر بولا، ’’امی جی کا منہ کالا۔‘‘

    وہ اپنی پریشان کن سوچوں میں بے خبر بیٹھی چونک گئی۔ اس نے گہری اور عجیب نظروں سے پپو کی طرف دیکھا اور اسے محسوس ہوا جیسے یہ آواز پپو کے منہ سے نہیں خود اس کے اندر سے نکلی تھی۔ اس کا دل کٹ کر رہ گیا اور وہ منہ پھیر کر بلک پڑی۔ عاقبت کی خبر خدا جانے مگر اس دنیا میں تو وہ واقعی رو سیاہ ہوچکی تھی۔ وہ اس کالک لگے منہ کو کس کس سے چھپائے گی۔ اس کا دل نہ چاہا کہ اٹھ کر منہ دھوئے مگر کچھ دیر بعد جب اس نے آئینے میں اپنی صورت دیکھی تو وہ اسے اس قدر بھیانک لگی کہ اس نے فوراً غسل خانے میں جاکر منہ دھوڈالا۔

    ’’خدا بڑا بے نیاز ہے۔‘‘ اس نے کسی صابر و شاکر انسان کی طرح آخر کار ٹھنڈا سانس بھر کر سوچا۔

    ابھی کچھ دیر پہلے نوشابہ آئی تھی اور وہ اسے دیکھتے ہی کھل اٹھی تھی۔ نوشابہ اندر آئی اور اس نے وہ گٹھری صحن میں بچھی چارپائی پر رکھ دی۔ بغیر کچھ پوچھے بغیر کچھ سوچے۔ اس نے اپنے اندر فرحت محسوس کی تھی اور اس وقت نوشابہ اسے نیکی کے فرشتے کی طرح اچھی لگی تھی۔ گٹھری کو کھول کر د یکھنے کی کمزور سی خواہش ہی اس کے اندر پیدا ہوئی تھی، مگر یہ بھی اچھا ہوا کہ اس نے یہ احمقانہ حرکت نہ کی اور قدرے بردباری سے کام لے کر ہنستی کھلکھلاتی نوشابہ کے ساتھ کمرے کے اندر چلی گئی۔

    نوشابہ ہونٹوں پر بڑی مربیانہ مسکراہٹ لیے کرسی پر اٹنگے پن سے بیٹھ گئی۔ جو اسے اس وقت بڑی اچھی لگ رہی تھی۔ کیو نکہ خود نوشابہ بھی اسے اس وقت محبت اور ا خلاص کی پوٹ نظر آرہی تھی۔ بار بار اسے خیال آرہا تھا کہ نوشابہ اچھی ہے۔ بہت اچھی ہے۔ سب بہنوں کو بس ایسا ہونا چاہیے۔ ایک بار تو اس کے جی میں آئی تھی کہ وہ اپنے اتنے اچھے جذبات کا اظہار کردے مگر یہاں پھر اس نے عقل سے کام لیا اور فقط اظہار نیاز مندی سے کام لیتی رہی، ’’کیا کھاؤگی؟‘‘ اس نے پوچھا، ’’ٹھنڈا منگواؤں؟‘‘

    ’’نہیں اس وقت خواہش نہیں۔‘‘

    ’’چائے؟‘‘

    ’’ہائے یہ بھی کوئی چائے پینے کا وقت ہے۔‘‘

    ’’اچھا تھوڑی سویاں بناتی ہوں کچھ تو ہو۔‘‘

    ’’نہیں بھئی اس وقت تو کچھ بھی کھانے کو جی نہیں چاہتا۔‘‘

    ’’کھانا کھالو پھر۔۔۔‘‘ آخر اس نے کچیانے پن سے کہا، ‘‘ دراصل دال پکارکھی ہے اس لیے پوچھ نہیں رہی تھی۔‘‘

    نوشابہ مسکراتی رہی۔

    ’’آج ناغہ ہے نا۔۔۔‘‘ اس نے خود ہی شرمندگی مٹانے کو کہا۔

    ’’اچھا! بھئی ہمیں تو ناغے کا پتہ نہیں چلتا۔ ایک دن پہلے گوشت منگواکر فریج میں رکھ دیتے ہیں۔ دوسرے دن مچھلی یا مرغی پک جاتی ہے، میرے بچے تو دال کے نام سے بھاگتے ہیں۔ اپنے لیے کبھی کبھار ماش کی بگھاری دال بنوالیتی ہوں۔‘‘

    ’’ہاں بچوں کی یہی دقت ہے۔ میرے بچوں کو کبھی دیکھو دال کے نام پر کیسے ناک بھوں چڑھاتے ہیں۔ مگر مجبوری ہے۔ فریج خریدتو لوں مگر مکان میں گنجائش کہاں ہے۔ پہلے مکان کا بندوست ہوجائے تو پھر خریدوں۔‘‘

    ’’ہاں تو یہ ہے۔‘‘ نوشابہ بڑی فراخدلی سے مسکرا رہی تھی اور اس کے ملے ہوئے متبسم ہونٹوں پر اب اسے بندھی ہوئی گٹھری کا گمان گزر رہاتھا۔۔۔ کچھ دیر کی خوش کن بے تکلفی میں خود بخود ایک تکلف سا نمودار ہوگیا تھا۔ اسے محسوس ہو رہا تھا جیسے اس کی خوشیوں کا کوئی کنکرہ چپکے سے گرپڑا ہے اور اس کی آواز کھوکھلی ہوتی جارہی ہے۔

    ’’اچھا میں چلتی ہوں۔‘‘ نوشابہ نے ٹانگ پر سے ٹانگ اتاری تو وہ کچھ اور بجھ سی گئی۔

    ’’بیٹھو ابھی تو آئی تھیں۔۔۔ بچوں کے بارے میں کچھ بتایا نہیں کیسے ہیں۔‘‘

    ’’دونوں ٹھیک ٹھاک ہیں۔‘‘

    ’’انہیں بھی ساتھ لے آتیں۔‘‘

    ’’کسی دن لاؤں گی اس وقت جلدی تھی۔ آج بڑے دنوں بعد پکچر کا پروگرام بنا ہے۔‘‘

    ’’مگر پکچر میں تو ابھی بہت وقت پڑا ہے۔‘‘

    ’’ہاں اس سے پہلے کچھ شاپنگ بھی کرنی ہے۔ سردی آرہی ہے۔ بچوں کے لیے گرم کپڑے وغیرہ خریدنے ہیں تم جانو ایک سال پہلے کے بنے کپڑوں کو تو وہ ہاتھ نہیں لگاتے۔‘‘

    ’’یہ تو ہے۔۔۔‘‘ اس کی آواز قطعی خشک ہوچلی تھی۔ نوشابہ چلی گئی۔۔۔ مگر وہ کیوں اچانک مرجھا کر رہ گئی تھی۔ یہ بات تو و اضح تھی کہ وہ اب خوش نہ تھی مگر اب وہ کیوں اور کس وجہ سے خوش نہ تھی۔ اس نے اپنا بھرم رکھنے کو جگہ جگہ سفید جھوٹ بولے تھے۔ مگر پھر بھی وہ مطمئن نہ ہوسکی تھی۔ وہ کھوئی کھوئی سی کمرے میں چیزوں کو بے مطلب ایک جگہ سے دوسری جگہ پر رکھتی پھری۔ پھر اچانک اسے باہر سے بوبی کی آواز آئی۔

    ’’امی اس گٹھری میں کیا ہے؟‘‘

    وہ گویا ناخوشگوار خواب سے بیدار ہوگئی۔ وہ تیزی سے باہر آئی اور چیل کی طرح جھپٹ کر گٹھری بابی کے ہاتھ سے نوچ لی پھر وہ اسی تیزی سے اندر آئی اور گٹھری کو بڑے ٹرنک میں دھکیل دیا۔ اس کا دل بڑے بے تکے پن سے دھڑک رہا تھا۔ آخر ہوا کیا تھا۔ اس کے جذبات اس قدر ڈانوا ڈول کیوں ہو رہے تھے۔ وہ گم سم سی باورچی خانے میں آئی اور دال بگھارنے لگی۔ عین اسی وقت ایک پڑوسن اندر آئی اور لمبی سی ’’سوں‘‘ کے بعد بولی، ’’واہ بھئی تمہاری پکائی دال کا جواب نہیں۔ ایسی خوشبو اڑاتی ہو کہ آدمی کو دور سے کھینچ لاتی ہے۔ محلے میں ایک وہ نعیمہ کی ماں ہے، گوشت کوئی ایسا منتر پڑھ کر بھونتی ہے کہ برہمن کی بیٹی مسلمان ہوجائے اور دال پکانے میں تم ا یسا کمال کسی دوسرے کو حاصل نہ ہوگا۔‘‘ اس تعریف سے خوش ہونے کی بجائے اس کا دل کچھ اور رنجیدہ ہوگیا۔ مہینے کے آخری دن تھے اور مسلسل چھ دن سے دا ل پک رہی تھی۔ بگھار کی نامراد خوشبو ضرور سبھوں کی ناکوں تک پہنچتی ہوگی مگر اب کیا بھی کیا جاسکتا تھا۔

    پڑوسن ایک پاؤں دہلیز پر رکھ کر کھڑی ہوگئی تھی۔ اس نے کھسیانے پن سے پڑوسن کی طرف دیکھا اور بولی، ‘‘ آج ناغہ تھا نا؟‘‘ پڑوسن اس کی معذت کو ان سنا کرکے بولی، ’’ابھی نوشابہ کی آواز آئی تھی۔ چلی گئی کیا؟‘‘

    ’’ہاں اسے کچھ شاپنگ کرنا تھی۔ سردی آرہی ہے۔ بچوں کے لیے کچھ گرم کپڑے وغیرہ خریدنے تھے۔‘‘

    ’’ہاں بہن سردی تو واقعی آرہی ہے۔ ایک بارش ہوگئی تو گرم کپڑوں کی ڈھنڈیا پڑ جائے گی۔ چلو پھر ہم بھی کسی روز بازار چلیں۔‘‘

    ’’ضرور چلتی مگر میں نے بچوں کے کپڑوں اور اون کے لیے نوشابہ کو پیسے دے دیے ہیں۔ اسے ان چیزوں کی بڑی پہچان ہے۔‘‘

    ’’تمہیں تو چار پانچ سو کا خرچہ پڑجائے گا۔‘‘

    ’’ہاں بہن ہر سال یونہی ہوتا ہے۔ اب بچوں کو ننگا تو پھرا نہیں سکتے۔ ادھر بچے ایسے نخریلے ہیں کہ پرانا کپڑا د یکھ کر ٹھنکنے لگتے ہیں۔ گرمی آئے یا سردی آئے، یہ فالتو خرچ اٹھانا ہی پڑتا ہے۔ بچے بھی ماشاء اللہ ایک پلٹن کے برابر ہیں۔‘‘

    ’’اتنے بچوں کے ساتھ پانچ چھ سو میں کہاں پوری پڑتی ہے۔ گلبرگ میں زمین لے رکھی ہے۔ وہاں مکان بن جائے تو کرائے سے نجات ملے۔ سوچتی ہوں دوکمرے کھڑے کرکے چلے جائیں، پھر آہستہ آہستہ بنتا رہے گا مگر پہلے تو گراج بنانا پڑے گا۔ بس اسی خیال میں ہوں کہ کہیں سے کھلا پیسہ ہاتھ آجائے تو کام شروع کروائیں۔ اس سال نہیں تو اگلے سال تو انشاء اللہ اپنے مکان میں چلے جائیں گے۔‘‘

    پڑوسن ہوں ہاں کیے بغیر مسکرادی، گویا یہ کہانی بہت پرانی اور کئی بار سنی سنائی تھی۔ پڑوسن چلی گئی تو اس کی آنکھیں پھر چھلک پڑیں۔ آج تو اس نے آنکھیں پونچھ لیں اور کٹوریوں میں دال نکالنے لگی۔ دسترخوان پر جب سب بچوں کو بٹھاچکی تو اس کی نظریں دیر تک بچوں کے چہروں کو ٹٹولتی رہیں۔ کسی کے چہرے پر بھی کسی طرح کا برا تاثر موجود نہ تھا۔ گویا سب کچھ معمول کے عین مطابق تھا۔ حالات نے بچوں کو کیسا قانع بنادیا تھا۔ خوش ہونے کی بجائے اسے دکھ ہوا، اگر اس وقت کوئی بچہ منہ بسور دیتا یا دال کی کٹوری فرش پر پٹخ د یتا تو اسے یقیناً بڑی خوشی ہوتی کہ ابھی بچوں میں برے بھلے کی تمیز باقی ہے۔ بچوں کو یوں حالات کا عادی نہیں ہوجانا چاہیے تھا۔ اس کے ذہن اور جذبات پر مایوسی کی کہرسی چھاگئی۔

    نوشابہ اور اس میں ایک سال کا فرق تھا۔ دونوں کی شادی بھی ساتھ ساتھ ہوئی۔ یہ قسمت کی بات تھی کہ نوشابہ کی شادی ایک کھاتے پیتے گھرانے میں ہوئی۔ اس کے دو بچے تھے اور وہ ایک مطمئن اور خوشحال زندگی بسر کر رہی تھی۔

    اس کے شوہر کی بھی تنخواہ معقول تھی۔ اگر تھوڑی سی دوراندیشی سے کام لیا جاتا تو وہ بھی ایک خوشحال گھرانے کی بنیاد رکھ سکتی تھی مگر ہوا یوں کہ شروع کے چارپانچ سال مزے سے گزارنے کے بعد جو بچوں کا تانتا بندھا تو سفید پوشی کی قلعی بگڑ کر رہ گئی۔۔۔ اور اب تو ان کی حالت اس قدر پتلی ہوچکی تھی کہ مہینے کے آخر میں کچھ نہ کچھ ادھار ضرور چڑھ جاتا۔ اور آج نوشابہ نے تو اسے گویا ذلت و رسوائی کی کیچڑ میں دھکیل دیا تھا۔

    اپنی بے بسی پر آنسو بہانے کے بعد اسے ا یک بار پھر نوشابہ کی ذہنیت پر غصہ آنے لگا تھا۔ آخر اس نے اسے سمجھا کیا تھا۔ وہ اتنی بھی گئی گزری نہیں کہ لوگ اس کی ہتک کرنے پر تل جائیں اور ایسی حرکتیں کریں۔ کل کو اس کے معصوم بچوں کو دوسروں کے طعنے سننے پڑیں۔ اس کے ذہن میں طرح طرح کی سوچیں آرہی تھیں اور اس نے دل میں تہیہ کرلیا تھا کہ وہ اس بے عزتی کو نوشابہ تک لوٹاکر رہے گی۔ ساری بات چار سو روپوں کی تھی۔ اتنی معمولی رقم کے لیے وہ دوسروں کی نظروں میں کیوں ہیٹی ہو۔ اتنی رقم یقیناً کہیں نہ کہیں سے حاصل کی جاسکتی تھی۔ کیا وہ اتنا بھی نہیں کرسکتے۔ کوشش سے کیا حاصل نہیں ہوسکتا۔ اگر یہ رقم مل جائے تو سردیوں کی فکر سر سے اترجائے۔ تین چار سو کوئی بڑی رقم نہیں ہے۔ وہ آج ضرور ان سے بات کرے گی۔

    ایک تو وہ ایسے سست آدمی ہیں۔ دوسرے لوگ ہاتھ پاؤں مارتے ہیں، کئی ذرائع سے پیسہ کماتے ہیں مگر انہیں تو بس ایک کام آتا ہے۔ صبح سے شام تک دفتر میں سرمارا اور ہر ماہ وہی لگی بندھی تنخواہ ہتھیلی پر دھر کر بے فکر ہوگئے۔ کہیں اور سے چار پیسے پیدا کرنے کی کبھی توفیق نہ ہوئی۔ لیکن اس بار خواہ کچھ ہوجائے، انہیں تین چار سو کی فالتو رقم کہیں نہ کہیں سے ضرور پیدا کرنی پڑے گی، ورنہ اس وقت تک چین سے بیٹھنے نہ دوں گی۔ رقم ملنے کے امکانات پر غور کرنے کی بجائے وہ اخراجات کا حساب لگانے لگی۔ دو دو سوئٹر، کچھ کپڑے اور جوتے۔ بس اتنی رقم میں ضرورتیں پوری ہوجائیں گی۔ اس سوچ نے اس کے بوجھل دل اور ذہن کو ہلکا ہلکا کردیا، وہ یوں اطمینان سے اٹھی جیسے ساری مشکلیں حل ہوگئی ہوں۔

    اس نے بچوں کی طرف غور سے دیکھا جن کے دبلے اور زرد چہروں پر محرومی اور شکایت کی بجائے قناعت اور صبر کی چھاپ تھی اور اس کا دل ایک بار پھر بلبلا سا گیا۔ پچھلے کئی دنوں سے دودھ بند تھا او رچھوٹی بچی روٹی اور چاول سے بہلنے میں نہ آتی تھی۔ وہ ہروقت دودھ کے لیے ہلکان ہوتی اور اس کی جان سے چمٹی رہتی، تنگ آکر وہ اسے بے تحاشا پیٹتی۔

    اس وقت وہ روٹی کا سوکھا ٹکڑا منہ میں دبائے اسے چوس رہی تھی۔ یہ بھی ایک دن دوسرے بہن بھائیوں کی طرح اپنی محرومیوں کی شکایت کرنا بھول جائے گی۔ اس نے بچی کو گود میں اٹھاکر اس کا منہ چوما اور اپنے ہاتھ سے اس کے بکھرے بالوں کو سنوارا اور یوں اطمینان محسوس کیا جیسے اچھے دن بس آیا ہی چاہتے ہوں۔ پیسے کے محض تصور میں بھی کس قدر قوت ہے۔ کہیں سے رقم مل جانے کی توقع نے اسے مسرور کردیا تھا۔ اب زندگی اتنی پھیکی او رمشکل نہ رہی تھی۔

    اس دن اس نے ساری بچوں پر خصوصی توجہ دی اور اندھیرا ہوتے ہی انہیں بستروں میں تھپک کرسلادیا۔ اس دن وہ ہمہ تن شوہر کی منتظر تھی۔ اس کا شوہر معمول سے قدرے دیر میں آیا۔ اس کے تھکے ماندے چہرے کو د یکھ کر اس کی ممتا ابل پڑی۔

    ’’ہائے بے چارے دن بھر بھوکے پیاسے کیسے کام کرتے ہوں گے۔ جیب میں پھوٹی کوڑی نہیں۔ ادھر دفتر اتنا دور۔ وہ جلدی سے گلاس میں ٹھنڈا پانی لے کر آئی۔ پانی پی کر او رلباس تبدیل کرنے کے بعد اس کا شوہر غسل خانے میں گیا تو وہ جلدی سے کھانا نکال لائی۔ اس کا شوہر اس کے خلاف معمول مستعدی پر حیران ضرور تھا مگر اس نے حیرت کا اظہار نہیں کیا بلکہ سرجھکائے نوالے نگلتا رہااور وہ اس کے چہرے کی طرف دیکھتی رہی۔ جب بیاہ ہوا تو یہ چہرہ کتنا خو بصورت اور بھرا بھرا تھا۔ رنگ کیسا صاف تھا۔ مگر اب تو جیسے کسی نے چہرے پر دھول بکھیردی تھی۔ وہ پہلے والی بات نہ رہی تھی۔ صبح کئی دنوں سے استعمال شدہ بلیڈ سے شیو بنانے کی وجہ سے چہرے پر کئی جگہ خراش آگئی تھی۔ سچ وہ محض چند آنوں کے لیے شوہر سے جھگڑ کر اسے برا بھلا کہتی رہتی تھی اور اتنے زور زور سے چیختی تھی کہ اس کی آواز ضرور پڑوسنوں نے سن لی ہوگی۔

    وہ بھی کسی وقت بالکل د یوانی ہوجاتی ہے۔ اسے یوں تو نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اب اسے اپنی اس حرکت پر ملال اور افسوس ہو رہا تھا۔ یوں لڑنے جھگڑنے سے کیا دکھ کٹ جاتے ہیں۔ مشکلیں آسان ہوجاتی۔ وہ بھی کیسی احمق ہے۔ اب وہ ایسا کبھی نہیں کرے گی بلکہ باہمی مفاہمت میں اپنے دکھوں کا مداوا ڈھونڈے گی۔

    رات کو بجلی بند کرکے جب وہ لیٹے تو اس نے آہستہ آہستہ گفتگو کا آغاز کیا، ’’سردی آرہی ہے۔ پچھلے دو سال سے بچوں کے لیے کچھ نہیں بنواسکے۔ اب کے مجھے کہیں سے تین چار سو رقم ضرور لادیجیے گا۔ بس اتنے میں سب ٹھیک کرلوں گی۔‘‘

    ’’تین چار سو۔‘‘ اس کا شوہر حیرت سے کسمسایا۔ آج دن بھر سگریٹ نہیں پیا۔ صبح کند بلیڈ سے شیو بنایا۔

    ’’سن رہے ہو۔‘‘

    ’’ہوں۔‘‘

    ’’ہوں ہاں سے کام نہیں چلے گا۔ یہ رقم میں لے کر چھوڑوں گی۔ آج تک کبھی کوئی فرمائش نہیں کی۔ قسم کھاؤ کبھی دوسری عورتوں کی طرح تنگ کیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آپ میری اس پہلی فرمائش کا کوئی احترام کرتے ہیں یا نہیں۔ آپ کو میری جان کی قسم میرا مردہ د یکھیں جو میری بات نہ مانیں۔ بس تین چار سو کہیں سے لادیں۔ یہ رقم کوئی اتنی بڑی بھی نہیں کہ یوں چپ ہوگئے ہیں۔‘‘

    اس کا شوہر دم بخود لیٹا سوچ رہا تھا۔ تین چار سو پیدا کرنا گویا پہاڑ سے دودھ نکالنا ہے۔ یہاں تو کسی کا مردہ د یکھنے کا حوصلہ بھی نہیں ہے کیونکہ مردہ دیکھ کر مردے کو ٹھکانے بھی لگانا پڑتا ہے اور اس میں بھی خاصی رقم خرچ ہوتی ہے۔ مگر اس بے وقوف کو آج ہوا کیا ہے؟

    شوہر کی خاموشی سے اس کی آنکھیں چھلک پڑیں۔ اب وہ سسک سسک کر رو رہی تھی۔

    ’’بس زندگی میں ایک بار فرمائش کی اور انہوں نے چپ سادھ لی۔ میری قسمت خراب ہے۔ آخر یہ معمولی رقم کیا آپ کے لیے بہت بڑی ہے کہ اس کے حصول کے خیال سے آپ خاموش ہیں۔ نہ ہوں نہ ہاں، کچھ تو کہیے کیا ہمارے بچے بالکل گئے گزرے ہیں کہ آپ انہیں ننگے پھرتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ میری بات سن رہے ہیں؟‘‘

    اس کا شوہر گھبراگیا۔ اس نے اندھیرے میں اسے نظروں سے ٹٹولا۔۔۔ پھر بولا، ’’نہیں۔ نہیں بھئی ایسی کوئی بڑی رقم نہیں ہے۔ کوشش کروں گا کہیں سے مل جائے۔‘‘

    ’’کوشش نہیں وعدہ کیجیے۔‘‘

    ’’وعدہ۔‘‘

    ’’ہاں ہاں وعدہ، چند دنوں کے اندر رقم دلوادینے کا وعدہ۔‘‘

    ’’اچھا بھئی وعدہ ہی سمجھو۔‘‘

    ’’ہائے کیسا ڈھیلا ڈھالا وعدہ ہے۔ پکا وعدہ کیجیے۔‘‘

    اس کے لہجے کے اطمینان اور شگفتگی پر اس کے شوہر کو ہنسی آگئی۔

    ’’آج یہ کسی احمقانہ باتیں کر رہی ہے۔ آخر ہوا کیا؟ کسی نے کیاپھونک دیا کان میں۔ کیا واقعہ پیش آیا۔ اچھی طرح جانتی ہے۔ اس کے غریب شوہر کے لیے یہ رقم ہرگز معمولی نہیں ہے، پھر بھی جانے کس وہم میں پڑی ہے احمق کہیں کی۔‘‘ مگر یوں سوچنے کے باوجود جب اس نے مضبوط لہجے میں کہا، ’’بالکل پکا وعدہ۔ لو اب خوش ہوجاؤ۔‘‘ تو اس نے اپنے دل میں فرحت محسوس کی۔ جیسے رقم حاصل کرنا واقعی کوئی مشکل بات نہ ہو۔ اسے خود اپنے الفاظ پر یقین سا آگیا۔ ساری مشکل حل ہوچکی تھی۔ بہت دنوں بعد میٹھی اور گہری نیند آگئی۔

    صبح وہ بہت جلد اٹھی۔ ناشتہ تیار کیا۔ پہلے شوہر کو پھر بچوں کو کھلایاپلایا۔ پھر بچوں کے سر پر ہاتھ پھیر کر انہیں ا سکول رخصت کیا۔ اس وقت اسے سارا گھر محبت، شفقت، ہمدردی، سکون اور خلوص کی نعمت سے بھرا بھرا لگ رہا تھا۔ شوہر جب سائیکل تھامے باہر نکلنے لگا تو اس نے آہستہ سے پوچھا، ’’آج انتظام ہوجائے گا نا؟‘‘

    اس کا شوہر مسکرادیا۔

    ’’اب اتنی جلدی تو نہ ڈالو۔ ایک ہفتے کے اندر ضرور کوئی نہ کوئی انتظام کردوں گا۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے۔‘‘ اس نے کسی اطاعت گزار بیوی کی طرح کہا۔ ابھی سردی بھی کون سی آگئی تھی۔ کمروں میں ہلکے کپڑے اوڑھ کر سونے کا موسم تھا اور سوئٹر پہننے کا موسم تو حقیقت میں ابھی ایک ماہ بعد آنے والا تھا۔ بہت دن پڑے تھے۔ گھر میں ایک سکون سا پھیلا رہنے لگا تھا۔ لڑائی جھگڑے یکسر موقوف ہوچکے تھے۔ وہ دھیمی آواز میں بات کرتی اور گھڑی گھڑی بچوں کے منہ چوما کرتی۔ ان کی لڑائیاں بڑی خوش اسلوبی سے نپٹاتی اور رات کو دونوں میاں بیوی سونے سے پیشتر کچھ دیر گفتگو ضرور کرتے۔ گفتگو کے دوران دبی دبی ہنسی کی آواز بھی ابھرتی رہتی۔ روپوں کا ذکر اس دوران کسی نے ا یک دوسرے سے نہیں کیا تھا۔ دونوں خاموش اور اپنے اپنے طور پر مطمئن تھے۔ اس رات اچانک زور کی آندھی چلی اور بارش کے ساتھ موٹے موٹے اولے گرے اور صبح ہوتے ہوتے تھرتھری پیدا کردینے والی سردی ہوگئی۔ بادل بھی آئے ہوئے تھے۔

    صبح وہ صندوق کھولے دیر تک پرانے رنگ اڑے سویٹروں کو آنکھیں پھاڑے دیکھتی رہی۔ بڑے بچوں کے سوئٹر پھر بھی بہتر حالت میں تھے مگر چھوٹے بچوں کے سوئٹروں کی حالت ناگفتہ بہ تھی کیونکہ وہ ایک کے بعد دوسرے بچے تک پہنچے تھے۔ اس نے خاموشی سے ٹرنک میں سے بندھی ہوئی گٹھری نکالی۔ اسے کھولا۔ گٹھڑی رنگ برنگے بمشکل ایک ایک سال پہنے ہوئے سوئٹروں اور گرم کپڑوں سے بھری ہوئی تھی، وہ دیر تک انہیں الٹ پلٹ کر دیکھتی رہی۔ اس کا شوہر بھی پاس آکھڑا ہوا تھا۔ بچے بھی گھیرا ڈال کر کھڑے ہوگئے تھے اور للچائی نظروں سے سوئٹروں کو تک رہے تھے۔ اچانک اس نے نظریں اٹھاکر شوہر کی طرف دیکھا۔

    شوہر کی نظروں میں ایک سوال تھا۔

    ’’نوشابہ لائی تھی۔‘‘ وہ جذبات سے خالی سرد آواز میں بولی۔

    ’’بالکل نئے ہیں۔‘‘

    ’’ہاں واقعی بالکل نئے معلوم ہوتے ہیں۔ اس کے شوہر نے ہاں میں ہاں ملائی اور ایک سوئٹر ہاتھ میں لے کر اسے دیکھا۔ بوبی بولا، ’’امی یہ نیلا میں لوں گا۔‘‘

    روبی بولی، ’’یہ سرخ والا مجھے دے دیجیے۔ کیسا اچھا کالر لگا ہے۔‘‘

    ’’ریڈی میڈ ہے نا۔‘‘ ایک اور بچی نے کہا۔ اس نے خاموشی سے سب بچوں کو سوئٹر پہنادیے۔ جب بچے اسکول اور شوہر دفتر چلا گیا تو وہ دیر تک پلنگ پر مردے کی طرح بے سدھ پڑی چھت کو تکتی رہی۔

    وہ بندھی ہوئی گٹھری کھل گئی تھی مگر اس کی حماقتوں اور ناعاقبت اندیشوں کا بھید فاش ہوچکا تھا۔ یہ تو سچ مچ اس کے گناہوں کی گٹھری تھی مگر ان گناہوں کی سزا اس کے بھولے بھالے معصوم بچوں کو بھگتنا پڑ رہی تھی۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کتنا اچھا ہوتا۔ ایک پچھتاوے کے ساتھ اس نے سوچا اور آنسوؤں کے دوموٹے قطرے اس رخساروں پر لڑھک آئے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے