جارج ششم کی عدالت
پینانگ سے ایک تارملا، ’’مٹتّی رام سیریس۔ جلدپہنچو۔‘‘ بسترمرگ پرپڑے ہوئے آدمی کے بارے میں ہی ایساتاربھیجاجاتاہے۔ ’’سخت بیمار۔‘‘
پھر مٹتی رام چل بسا۔ مرگیا۔ مرجانے دو۔ برے لوگ مرتے ہی ہیں۔ اچھے لوگ لوٹ آتے ہیں۔ دونوں میں اتنا ہی فرق ہے۔ لوٹ آنے والے بہت ہی کم ہوتے ہیں کیونکہ اچھے لوگ نایاب ہوتے ہیں۔ لوٹ آنے کونجات کہا جاتاہے۔
ایسی حالت میں سفیدبال سیاہ ہوجائیں گے۔ گنج پرنئے بال اگیں گے۔ جھریاں جاتی رہیں گی۔ جسم فربہ ہوجائے گا۔ ہاتھ، آنکھ اورچھاتی کے بال گرجائیں گے، چہرے کے روئیں بھی۔ آواز کچھ بھاری ہوجائے گی۔ دانت گرپڑیں گے۔ درجہ ہفتم میں پڑھے گا، پھرششم میں۔ پھر ششم سے پنجم میں۔ یوں پہلے درجہ تک ناکام ہوتے آئیں گے۔ اس کے بعدکلری (کیرل کے قدیم دیہی اسکولوں کو کلری کہتے ہیں، جہاں شاستروں سے متعلق تعلیم دی جاتی ہے) کی طرف تاڑکے پتے پرلکھنے سے لے کرخدا کی یاد۔ بھول کے دن۔ پھرسے تعلیم کاآغاز۔ چلتے چلتے تھک جاتا ہے۔ گھٹنے ٹیکتا ہے۔ سرکتاہے۔ بچہ بنتاہے۔ ماں کا دودھ پیتا ہے۔ ایک دن جس راہ سے آیا اسی راہ سے لوٹ جاتاہے۔
ماں کے بطن کی طرف۔
اس کے بعد شمار کا عمل الٹا شروع ہوتا ہے۔ دس مہینے، نومہینے، آٹھ مہینے، سات، چھ، پھر خاص کھانے میں دلچسپی، پھر دلچسپی نہ ہونا، الٹی آنا۔ خون کا خون کی طرف لوٹ آنے کا بیکراں عمل۔ مگر۔۔۔ اس کے لیے ماں کہاں ہے؟
ماں کہاں ہے؟ باپ کہاں ہے؟ سلسلہ نسل کہاں؟ سلسلہ نسل میں لوٹ جانے کے دروازے ہیں۔ سونے کی جیسی چمکدار پیتل کی چٹخنیاں ڈالے ہوئے دروازے۔ ان کو زمانوں سے ہوکر لوٹ جانا ہے۔ کوتم (جنوبی کیرل کا معروف شہر، ۸۲۵ء میں یہاں کیرل کا ملیالم سال شروع ہوا) پہنچے تو وہاں چیڑم (یکم تاریخ) روم پہنچے توصلیب پر چڑھائے عیسی کو دیکھا۔
پھر ایسا سفر ہے جب ماہ وسال کا شمار نہیں ہوتا۔
سب گذرے ہوئے اوتار جاگ اٹھتے ہیں۔ سورسے کچھوے کی طرف۔ کچھوے سے مچھلی کی طرف اور مچھلی سے نجات کی طرف لوٹ جاتا ہے۔ تباہی کی حالت سے ہوکر تخلیق کی طرف۔ تخلیق اور تباہی ایک ہونے کی حالت ہے۔ برے لوگ مر جاتے ہیں۔ جیسے سیار، آ نول نال کی چیر پھاڑ کرتا ہے، ویسا ہی حال ان بدوں کی لاشوں کا بھی ہوتا ہے۔
آنول انسان کی ایک رشتہ دارہے۔ بچے کا کسی کے ذریعہ ایک بار بوسہ لیے جانے سے پہلے ہی انسان کی اس رشتہ دار کو کتے نے پھاڑ دیا۔ اسے احاطہ میں گھسیٹ کر لے گیا۔ زچگی ہوتے ہی سیاہ گائے آنول کھاتی ہے۔ یہ اس کے حمل کی حفاظت کے لیے فطرت کا دیا ہوا کیمیا ہے۔ بلی بھوک کے مارے اپنے بچے کو کھاتی ہے۔ مکڑی کی اولاد اپنی ماں کو بھی کھاتی ہے۔ چالاکی کی وجہ سے انسان چوری کرکے کھاتا ہے۔ چوری کرکے کھانے والے برے ہوتے ہیں۔ مٹتی رام کے جیسے برے لوگ۔
شیوراتری کے تیوہار کے ریگستانی میدان میں اس نے مجھے پکڑ لیا تھا، جیب سے دو روپے لے گیا۔ میں نے جب اس سے ایک پیالی چائے کے لیے کم ازکم دونی واپس دینے کو کہا تو ہاتھ پکڑکر موڑ دیا۔ انگلیاں توڑنے لگا تھا۔
اس کو مار ڈالنا چاہئے۔ سبھی بروں کا قتل کرنا چاہئے۔
اچھے لوگ زندہ رہتے ہیں۔ زندگی سے اکتا جانے پر وہ لوٹ آتے ہیں۔
آسمان سے دیوتا زمین پر اترتے ہیں۔ جانوروں سے مباشرت کرتے ہیں۔ اس سے اچھے انسانوں کی پیدائش ہوتی ہے۔ چوری نہ کرنے والے، ڈاکہ نہ ڈالنے والے لوگوں کی۔
یرگ اسپتی مہارشی کی پیدائش اسی طرح ہوئی۔ وہ مٹتی رام نام کے اس شیطان کو بددعا دے کر خاکستر کر دیتے ہیں جس نے مہارشی کے دشت پرستش کی پاکیزگی کو تباہ کیا تھا۔ جس مٹی میں وہ خاکستر گری وہاں سیہنڈببول وغیرہ کے خاردار پورے اگتے ہیں۔ کنیار، کچلا وغیرہ پیڑ پودے اگتے ہیں۔ خاردار پودے۔ کڑوے پتے۔ زہر اگلنے والے پھل۔ مارگزیدہ امرود۔ آم لگنے پر جلنے والی سیہنڈ کا دودھ۔
سیہنڈ کا دودھ جلانے کے لیے ایسی جادوگری کی ضرورت ہے جو جلے ہوئے مرغ کو اڑا دیتی ہے۔ یہ گھٹیا عمل ہے اور قابل نفرت۔
سیاہ بلی کی کھوپڑی اس کے تلسی کے پودے کے نیچے گاڑی جاتی ہے۔ اس کے بعد اس کو کچلے کے تختے پر کیل سے گاڑ دیا جاتا ہے۔ تب دیکھیں، وہ کیسے ہل سکتا ہے۔ قیدی۔
ایسا کیے جانے پر وہ قیدی سڑک پر ملتے ہی میری دھوتی اتار کر پھینک نہیں دےگا؟
پھر وہ میری طرف کیسے پتھر پھینک سکےگا۔ اس کے ہاتھ کچلے کے تختے سے ٹھونکے جا چکے ہیں۔
اگر ہلےگا تو درد ہوگا۔ نیلے رنگ کا خون بہے گا۔ بڑوں کا خون نیلے رنگ کا ہوتا ہے۔ ان کے دل سے شریانوں میں جوخون دوڑتا ہے وہ ناپاک ہی ہوتا ہے۔
ڈنڈے کے سرے پر دو کتوں کا سر۔
ڈنڈا سانپ بنتا ہے۔ کتے پاگل ہو جاتے ہیں۔ پاگل کتوں کا سر والا سانپ اس کے سرپر ڈسے گا۔
اس نے مرچ پسی ہوئی چکی کا دھویا ہوا پانی میرے چہرے پر انڈیل دیا تھا، اس کے لیے یہی سزا ہے۔
جہانگیر بادشاہ کا انصاف اس کو سزا دےگا۔
کوئی بھی ہو، قصوروار کو سزا ملنی چاہئے۔
مہرالنساء بیگم ہو، مٹتی رام ہو، ملزم سزا کامستحق ہوتا ہے۔
مجسٹریٹ کی عدالت سے سیشن کچہری کے سامنے مقدمہ رکھا جاتا ہے۔ عدالت میں پھانسی کی سزا کا فیصلہ ہوتا ہے۔ عدالت عالیہ نے نظرثانی کی درخواست رد کر دی۔ پھانسی کے پہلے کا آخری کھانا، جلاد، پھانسی کی بارہویں نمبر والی رسی۔
پنیانگ سے پھر تار، ’’رسوم میت ہو چکی ہیں، اب نہ آنا۔‘‘
نہ آنے کی اطلاع پہلے ہی دی جا چکی ہے۔
غیر ملک میں مرنے سے نجات حاصل نہیں ہوتی۔ موت باپ کے لیے ایصال ثواب لینے سے انکار کر دیتی ہے۔ آخر ثواب پہنچانے والا کو اکچا چاول چگتا ہے۔ کاگ شیطانوں کی نسل ہیں۔ انسان کی نسل کوے ہیں۔ دیوؤں کی سنتان کویل ہیں۔
مٹتی رام کے باپ کاگ کوے ہیں۔ وہ شیطان ہیں اور شیطان سے جنگ ہوتی ہے۔ دیوتاؤں کی دنیا سے تار آتا ہے۔
’’مٹتی رام جلدی سے چلے آؤ۔‘‘ شیطان سے مل کر جنگ کرنا ہے۔ منظور ہے۔ گھمسان کی لڑائی میں شیطان کی شکست ہوتی ہے۔ مہاوشنو کا چکر دیووں کی حفاظت کرتا ہے۔ بدن کے حصے آسمان سے زمین پر گرتے ہیں۔ بےسر کا جسم۔ یہ سرکس کا ہے؟ کالا تل اور کنکھجورے جیسی مونچھیں! مٹتی رام کا ہے یہ ہاتھ، یہ سینہ جس پر چھری چبھونے کا نشان ہے، یہ سب مٹتی رام کا ہی ہے۔
آتشک میں مبتلایہ کمر کس کی ہے؟ بالوں والے کان کس کے ہیں؟ یہ بھی اسی کا ہے۔
ماں! توکیوں روتی ہے؟ تیری کوکھ نے شیطان کو جنم دیا تھا۔ وہ عذاب میں مبتلاہے۔ شیطان کے ذریعہ چوسی ہوئی تیری پستان، شیطان کو چومے ہوئے تیرے لب، شیطان کو دیکھ کر شادمان تیرا بدن سب مبتلائے عذاب ہیں۔ تم عذاب سے نجات کے لیے دعا کرو۔ نجات حاصل کرنے کے لیے۔
مٹتی رام! تونے مجھے قیدی بنایا تھا۔ چابک سے مارا تھا۔ ’’نایکرنا‘‘ جیسے زہریلے پودے کا رس میرے چہرے پر پوت ڈالا تھا، جس سے ناقابل برداشت کھرونچ پڑی۔ میرے زانو اور پیٹھ پر کھرونچیں پڑیں۔ تونے آنکھوں میں بھی وہ رس لگایا تھا۔ تونے مجھے بھوکا رکھا۔ تونے مجھ پیاسے کے منھ پر نمک ڈال دیا۔ سیندھا نمک۔ پاگل پن کے لیے علاج۔ پیاس لگانے کے لیے سیندھا نمک۔ سیندھا نمک دوا ہے۔ تونے میرے منھ پر جو کچھ ڈال دیا، وہ سیندھا نمک نہیں شورہ تھا۔ اس کے بعد گندھک ڈالا۔
شورہ اور گندھک۔ جلے بھوسے کی راکھ سے سویرے مسواک کرنے کے وقت دھماکہ ہونے کے لیے۔
تجھے معلوم تھا کہ شورہ گندھک اور بھوسے کی راکھ سب ملاکر پیسنے کے وقت بارود بنتا ہے فریبی۔
اسی دن سے میں نے دانت مانجھنا چھوڑ دیا۔
گندھک اور شورے کا مزہ ابھی تک ختم نہیں ہوا ہے۔
تو چیچک کا ٹیکہ لگانے والے کا بھیس بدل کے مجھے ڈھونڈتا رہا۔ تیری سرینج میں ٹیکے کی دوا نہیں تھی بلکہ اصلی چیچک کے زندہ کیڑے تھے۔
نارد مہرشی، لاٹ گرو کی شکل میں ظاہر ہوئے۔ اس نے مجھے اس مذکورہ بات کی اطلاع دی تھی۔ میں بہت متاثرہوا اور اسی دن سے میرا ٹھکانہ مندر کا زچہ خانہ ہو گیا۔ برے برہمنوں نے مجھے وہاں نہ رہنے دیا۔ انہوں نے باہر نکال دیا۔ چبوترے پر برگد کے درخت سے مجھے باندھ دیا۔ چبوترے کے اسی برگد سے جس سے ’’اہور‘‘ رننپوتری مٹھ کے پدم ناتھ نام والے سست ہاتھی کو زنجیرسے باندھا گیا تھا۔
برسات اور گرمی سے میرے بدن میں کائی لگ گئی، دیمکوں نے تلووں کوچاٹ چاٹ کے کھا لیا۔ انگلیوں کے اگلے حصے پر پودے اگے۔ میرے روئیں جڑ بنے۔ ہاتھ شاخوں کی شکل میں بدل گئے۔ نئی انگلیاں، نئی ٹہنیاں، نئی نئی کونپلیں آئیں، ہرے رنگ کے پتے نکل آئے، پکنے پر وہ زرد رنگ کے ہوگئے۔ موسم بہار میں پھول اگے۔ تتلیاں زرگل لے کر آئیں تومجھے گدگدی ہوئی۔ اڑنے والی چڑیاں میری ڈالیوں پر آ بیٹھیں اور آرام کیا تو میں خوش ہوا۔
مفت کھانا دینے والی طعام گاہ کی تعمیر کے لیے برہمنوں نے وہ درخت کاٹ ڈالا۔ سب سے پہلے تونے ہی کلہاڑی ماری، تیری کلہاڑی کو بھی کوڑھ نہیں لگا۔ کوڑھی کو کاٹتے ہوئے بھی کلہاڑی کو کوڑھ نہیں لگتا۔
کسی نے امیما رانی (تِردو تانکو رریاست کی شہزادی) کی آٹھوں نسلوں کو کلپیان کلم تالاب میں ڈبوکر دم گھونٹ کر مار ڈالا تھا۔
آیلیم ترونال مہاراج (تردو تانکور کے مہاراج اپنے پیدائشی ستاروں کے نام سے پہچانے جاتے ہیں) کو شری پدم ناتھ سوامی مندر کے پرساد’’نیپالیم‘‘ (گھی، شکر، چاول سے بنی کھیر) میں کس نے زہر ملا کر دیا؟
مٹتی رام تونے ہی!
کس نے وانپلی کو نکاب کے بڑے کھیتوں کو عطیہ کی شکل میں اپنانے کے بعد گروی رکھا۔ میں پوچھتا ہوں کس نے؟
یہ سچ ہے کہ یہ کو نکاب نے دوستی میں عطیہ کے طور پر دی تھی مگر وہ چیز اس کی نہیں تھی۔ دوسروں کی تھی۔ یہ اہورننپوتری برہمن مٹھ کا پجاری تھا۔
آلا ڈاٹ دیوسوم کی دولت کللل شارت (خدام مندر کا ایک خاندان) کی وصیت سے ملی ہوئی اور کو نکاب کے ساتھ شادی۔
کو نکاب کے ساتھ شادی کرنے کا وعدہ کرکے اس کی بڑی بڑی آمدنی کے کھیتوں کو عطیہ میں حاصل کرکے اس کی آنکھوں میں دھول کس نے جھونکی؟
مٹتی رام!
برہمنوں سے جل فریب کرنا برہمن کا قتل ہے، دیوتاؤں کو فریب دینا دیوتا کا قتل ہے۔ اس دنیا اور عالم آخرت میں تجھے سکون نہیں ملےگا۔
پالا درخت (ایک تناور درخت جو مندروں کے پاس لگایا جاتا ہے) کے نیچے کے عامل کے قبضہ میں سترہ کھوٹے دیوہیں۔ کھوٹے دیوسترہ ہیں۔ پالا کے نیچے کے عامل سے کھیلنا آگ سے کھیلنا ہے۔ تونے پالا کے
عامل کو قابو کرکے مجھے پاگل بنانے کی کوشش کی ہے نا؟ شوری گری شاستا (کیرالا کا مشہور مندر) کے پرساد کے بہانے زہر میرے پاس بھیج دیا تھا۔ جب میں کھانے لگا تو آتش دان کے کونے (شمال مشرق
گوشہ) سے چھپکلی نے تین چار بار چو، چو، چو، آواز کی تھی۔
’’مت کھا زہر ہے۔ مت کھا۔‘‘
میں نے نہیں کھایا۔
تب وہ کھوٹے دیو آئے۔ پیرے کاپلی کنجن فورا چوٹا نکرا دیوی مندر میں جاکر بھجن میں بیٹھا اور دیوی کے نام جپے۔ کسم کے سرخ پھول اور پوجا کے پتے لے آئے۔ کھوٹے دیو واپس چلے گئے۔ سمجھا دیا کہ پیرے کا پلی کنجن کو بالکل ختم نہیں کیا جا سکتا۔ عامل نے پھر بدچلن عورتوں کو بھیج دیا۔
کھوٹے دیودن میں اور بدچلن عورتیں رات میں ناک میں دم کرتی ہیں۔ پالاکے نیچے کے عامل نے ان عورتوں کو اپنی داشتہ کی شکل میں رکھا ہے۔ پوری طرح اپنے بس میں۔ تاڑکے جھرمٹ سے لمبے بال والی شیطانی عورتیں رات میں گھنگھرو بجاتی آتی ہیں۔ ایک نہیں، دو نہیں، کئی ایک۔ مندر کے تالاب میں۔ تروو اترا غسل کرتی ہیں اور آنکھ مار کر لے جاتی ہیں۔ انسان صرف ایک ہی دھوتی پہنے ان کے پیچھے جاتا ہے۔ کہاں جا پہنچتا ہے۔ شاہی محلوں میں حرموں میں۔ کس کے حرم میں؟ کیا اکبر بادشاہ کے حرم میں؟ پالا کے نیچے کے عامل کے حرم میں۔
ادھر گیتا گووند۔ یہ شیطان عورتیں انسان کو سینہ سے لگاتے وقت ان کی زرین کی کمربند توڑ لیں گی۔ بوسہ لینے کے وقت زبان سے سونے کے دانت اکھاڑ دیں گی پھر خون چوس لیں گی۔ بالکل سوکھ جانے پر آنکھیں باندھ کر روکھے سوکھے کھیت میں پھینک دیں گی۔ وہاں چاندنی میں چھوڑے گئے مرغے کی طرح چکرکاٹ کر مر جائیں گے۔
جس دن تونے پالاکے نیچے کے عامل کو قبضہ میں کر لیا تھا تب سے میں نے سونا چھوڑ دیا ہے۔ میں نے طے کیا کہ رات میں سونا نہیں چاہئے۔ پلک جھپکتے ہی تو برباد ہو جائےگا۔ رات فریب ہے۔ سب دغا اور بغض ہے۔ سراب ہے۔
بھیس بدل کر چلنے والی فاحشہ عورتیں، شیطان چڑیل بھوت پریت۔
چور پولیس کے بھیس میں اور پولیس چور کے بھیس میں، کون کس کی چوری کرتا ہے۔
اس میں بن باس کے لیے پانڈوبھی ہیں۔ بھیم سین کیچک کے شاہی محل میں ہے۔ یہ معلوم نہیں کہ لاکھ کے محل میں کب آگ لگے گی۔ مندر بھی لاکھ کے محل کی طرح ہے۔ مگر لاکھ کے محل کے جل جانے پر بھی دیو کا کچھ نقصان نہیں ہوتا۔ پیرے کے پلی کنچن کاکچھ نقصان نہیں ہوگا۔ پجاری آتا ہے، جاتا ہے، مر جاتا ہے۔ مالا پرونے والی وارسیا (کیرل کے مندروں میں مالا پرونے کا کام کرنے والی ایک قوم) نامعلوم طور پر ہی بوڑھی ہو جاتی ہے۔ مارنمار (مندروں میں شنکھ بجانے والی ایک قوم) مر جاتے ہیں۔ کارکن بدل جاتے ہیں۔ چپراسی بدل جاتے ہیں۔ بھٹ تری پاڑ کی (کیرل کے برہمن ذات کے ایک اعلی طبقہ کا انسان) جائداد کے لیے تکرار ہوا۔ کا ٹکہ کاٹ دیوکس کے نام پر ہے؟ اس انصاف کے لیے عدالت میں پہنچا۔ کمبھ کے مہینے کی شوراتری کو فیصلہ ہوا۔
دیوتائی کسی کے بھی نام پر نہیں ہے۔ دیوکے نام پر ہے۔ دیو تبدیل ہونے والے نہیں ہیں۔
پرے کا پلی کنجن کی بھی تبدیلی نہیں ہوتی۔ دیوپرے کے کنجن کوذلت حاصل ہوئی۔
لیکن کنجن کو سونا نہیں چاہئے۔ پلک بھی نہیں جھپکنی چاہئے۔ مرغے کا خون پینے کے لیے شیطان چائے کے پودوں کے بیج میں چھپے رہتے ہیں۔
شیطان اور سانپوں کو مرغے کا خون چاہئے۔
سانپ کی پوجا غیرمشروط کرانی چاہئے۔ چھٹی کے دنوں میں سرکاری ملازمین کوسانپوں کے علاوہ بچھو کھنکھجورے وغیرہ کی عبادت کرنی چاہئے۔ خبیثوں اور چڑیلوں سے حفاظت کے لیے سانپ کی پوجا ضروری ہے۔ سانپوں کو مرغوں کا خون دینا ہے۔ مرغا، مرغی، دشتی مرغا، زمانی مرغا، بحری مرغا، مرغی وغیرہ سفید مرغی کا خون، شیش ناگ، تکشک، واسکی آٹھ فٹ لمبا بھجنگ، سفید سانپ سفید پیلا سانپ، آبی سانپ، پنیالا سانپ، کان سانپ، پان سانپ، سپاری سانپ، بنباک سانپ وغیرہ سبھی سانپوں کی پوجا کرنی چاہئے۔
سانپوں کے دیو پانپومیکاٹ مٹھ کے پجاری ہیں۔ پانپومیکاٹ مٹھ سے دو سانپوں کوایک شیشی میں ڈال کر واریکاٹ سانپ گھر کے ایک بل میں ان کی عزت و احترام کرتے ہیں۔ دودھ پلاکر پوجا کرتے ہیں۔ گائے کا دودھ، بھینس کا دودھ، بکری کادودھ، شیرنی کا دودھ، سیہنڈ کا دودھ، ربڑکادودھ، ماں کا دودھ، دودھ کا سفوف، جیسے دودھ کافی مقدار میں دیتے ہیں۔
’’زہر سونے کے برتن میں رکھنے سے آب حیات نہیں ہو جاتا۔‘‘
سانپ کو دودھ پلانے پر وہ دوسرے ہی لمحہ ڈستا ہے مٹتی رام کو۔
مرغی کا خون پی کرپاگل بنے ہوئے پان سانپ خبیثوں کو ڈستے ہیں۔ برگد کی شاخوں پر بیٹھنے والے کرشن! تو پان سانپوں سے میری حفاظت کر۔
مٹتی رام کی شکل والے شیطان نے عامل کو اپنے قابو میں کر لیا، یہی ان سب کی وجہ ہے۔ گوشت خوری فطرت کا اصول ہے۔ مرغا دیمک کو کھاتا ہے۔ سیار مرغ کو کھاتا ہے۔ انسان سیار کو کھاتا ہے۔ انسان انسان کو کھاتا ہے۔ شیر انسان کو کھاتا ہے۔ گدھ شیر کو کھاتا ہے۔ چیونٹی گدھ کو کھاتی ہے۔ ایک کیڑا چیونٹی کو کھاتا ہے۔ دیمک اس جاندار کو کھاتی ہے۔ مرغا دیمک کو کھاتا ہے۔ انسان مچھلی کھاتا ہے۔ مچھلی انسان کو کھاتی ہے۔
یہ نظام صحیح نہیں۔ خود کفالت حاصل کرنی چاہئے۔ ہم کو دوسرے جاندار کا گوشت نہیں کھانا چاہئے۔ اپنا ہی گوشت کھانا چاہئے۔ سانپ کو بھوک لگنے پر اپنی دم کھانی چاہئے۔ ہاتھی کو اپنی سونڈ کھانی چاہئے۔ دھان کے پیال کودھان کے لیے کھاد بننا چاہئے۔
طفیلی مٹتی رام سزا کا مستحق ہے۔
ولایت سے تار آیا۔ پرپکاپل کنجن کو فوراً چل دینا چاہئے۔ ولایت کی طرف۔ جارج ششم کے شاہی محل میں پہنچنا چاہئے۔ پرپکاپکل کنجن کو حرم کے دربان کی ملازمت ملےگی۔ آج سے وہ ولایت میں ہوگا۔ مگر کنجن شاہی محل کا کھانا نہیں کھاتا۔ جارج ششم عیسائی ہیں۔ عیسائی کا کھانا نہیں کھانا چاہئے۔
ایک دن کنجن نے جارج ششم سے کہا، ’’ہمارے ان داتاشری مان مہاراج کنتوو ناٹو تعلقہ کے رائے منگل گاؤں کے پلووشی کریل مٹتووٹل و یلوپلے رامن نایر کی وجہ سے ہم تنگ آ چکے ہیں۔ یہ رامن انسانوں اور جانوروں کو مار کھاتا ہے، ٹیکس بھی لیتا ہے۔‘‘
جارج ششم کو غصہ آیا ہے۔
’’ہائے میری حکومت میں ایک دوسرا بادشاہ بھی ہے۔‘‘
فوراً حکم جاری کیا گیا۔
’’پرے کاپل کنجن جاکر مٹتی رام کو قیدی بناکر میرے سامنے حاضر کرو۔‘‘
کنجن دو وارنٹ چپراسیوں اور ایک گماشتے کے ساتھ مٹتی رام کو ہتھکڑی بیری پہنائے شاہی محل میں لایا۔ جارج ششم کے سامنے پیش کیا۔ جارج ششم کی عدالت میں۔
جارج ششم ملکہ وکٹوریہ شری اترنال مہاراج (چترا ستارہ مہاراج) بال رام ورما مہاراج اہیرتھ کے وشنو نپوتری اور شاہی طبیب دھنتوتری موست (نپوتری ذات کا اعلی طبقہ کا انسان) سب حاضر ہیں۔ رام ملزم کے کٹہرے کے اندر ہے۔ کنجن نے فرد جرم پڑھا۔ مقدمہ شروع ہوا۔
جارج ششم نے پوچھا، ’’مٹتل رام یامٹتل گھر کا رامن نایر حاضر ہے؟‘‘
’’حاضر جناب!‘‘
’’اسٹینڈ اپ۔۔۔ سٹ ڈاؤ ن۔۔۔ اسٹینڈ اپ۔۔۔ سٹ ڈاؤن۔‘‘
’’اتار چڑھاؤ کی حالت کا مطلب کیا ہے؟ مٹتی رام بولو۔‘‘
وہ خاموش رہا۔
جیوگرافی کے معنی کیاہیں؟
پھر بھی خاموش رہا۔
’’تمہیں کچھ بھی معلوم نہیں۔ بے وقوف کہیں کے۔ کچھ بھی پڑھے بغیر یہاں چلا آیا؟‘‘
’’پسو کیسے پیدا ہوتا ہے؟ بتاؤ مٹتل رامن؟‘‘
’’بڑے پسو چھوٹے پسو کو پیدا کرتے ہیں۔‘‘
’’درست۔ پتنگ کیسے بنتے ہیں؟‘‘
’’روشنی دیکھنے پر۔‘‘
’’غلط۔ کنجن تم بتاؤ۔‘‘
’’دیمک کو پر لگنے پر پتنگے بنتے ہیں۔‘‘
’’جگنو کیسے بنتے ہیں؟ مٹتی رام اس بار تم ہی بتاؤ۔‘‘
’’کان سانپ کو پر لگنے پر جگنو بنتے ہیں۔‘‘
’’امربیل کھاکر جینے والے جاندار کون کون سے ہیں؟‘‘
’’طفیلی سور۔‘‘
’’ستائیس سرکاری چکر (تروو تانکور میں رائج ایک سکہ) کی قیمت کے کتنے برٹش روپے ہوتے ہیں؟‘‘
’’اٹھائیس!‘‘
’’غلط، اٹھائیس سرکاری روپے کے برابر ہیں ستائیس برٹش روپے۔ خیر تم جا سکتے ہو۔‘‘
فیصلہ دودن کے لیے ملتوی رکھا گیا۔ اگلے دن مٹتی رام کو پھانسی کی سزا فیصلہ ہوا۔ جس طرح ویلوپتنی کو پھانسی پر لٹکایا گیا تھااسی طرح بازار کے چوراہے پر کھلے عام پھانسی دینے کی سزا دی گئی۔ اسی دوپہر کو مٹتی رام نے موت سے پہلے کا آخری کھانا آٹا پرتھمن (چاول پیس کر بنائی گئی میٹھی کھیر) کے ساتھ کھایا تھا۔
جلاد نہاکر تلک لگائے آ پہنچا۔ پالاعامل کو بلاکر پھانسی پر چڑھانے کا وقت طے کیا گیا۔ جادوگر کو بلاکر بھوت پریت کی بندش اور رکاوٹ بچانے کے لیے تدبیر کرنا ہے۔ نہیں تو مٹتی رام بھوت ہوکر ساتھ رہےگا۔ یہ بری موت ہوگی نا؟ کون آیا ہے؟ کہہ دو، کنجن ادھر نہیں ہے، ولایت گیا ہے۔ شیطان کی مرمت کرنی ہے۔
کچلے کے تختے پر۔۔۔ ر ال کوٹ کر بنی ہوئی غبار، دو پاؤ چونے اور ہلدی ملا ہوا پرا (قریب چالیس پاؤ کا ناپ)
پھر کوئی آیا۔۔۔ کیوں آئے ہو؟ ا۔۔۔ ا۔۔۔کیوں کرتے ہو؟ میں نے پہلے ہی کہہ دیا ہے کہ کنجن نہیں ہے۔
ہیں۔ کون آیا؟
اچھا تم ہو۔
ارے دیکھ۔ مجھ سے مت کھیل۔ میرا کہنا سن۔
ہائے رے انگلی کی چوٹ نہ پہنچاؤ۔ وہ ٹوٹ جائےگی۔ دھوتی دوں گا۔ اے مٹتی رام میری انگلی مت توڑ۔ ارے دیکھ اس جیب میں دو روپے چار آنے ہیں۔ پیسہ لے مگر دھوتی نہ لے جانا۔ پہننے کو میرے پاس دوسری دھوتی نہیں ہے۔ مٹتی رام! مجھے اس حال میں چھوڑکر مت جا۔ مٹتی رام وہ دھوتی مجھے دے کر پھر کہاں جانا۔
ہائے۔ مٹتی رام۔
میرے۔۔۔
کہاں ہیں جارج ششم؟
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.