غالب سالا بچ گیا
سیاہیٔ شب میں اوپر دوربہت دور آفاق کی پہنائی میں، قوس در قوس ٹمٹماتے ہوئے لرزیدہ تاروں کی زردی مائل مدھم روشنی طوفان میں ہچکولے کھاتی کشتی کے مانند نظر آ رہی تھی۔ پہلے تو اسےکچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ اچانک وہ کس جگہ پر آ گیا ہے، کس ساعت زوال میں کب، کیوں اور کس نے اسے اس پاتال میں پھینک دیا۔ اس قدر پُرہول تاریکی اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی، حالانکہ جدوجہد، گھٹ گھٹی، ناکامیاں اور محرومیاں اس کی زندگی کا جزء لاینفک تھیں لیکن تاریکی اس کی زندگی میں کہیں نہیں تھی، درون و بیرون کہیں بھی نہیں۔ کیوں کہ جب اس نے دیکھا کہ حالات سے مفر کی گنجائشیں ختم ہو گئی ہیں تو اس نے لاحاصلی کی اذیت میں مسرت تلاش کر لی ایک کام چور کند ذہن کلرک یا پھر ایک ناکام چھچھلے شاعر کی طرح۔ لاحاصلی کی کچھ اذیتیں تو اس نے کمائی تھیں، کچھ دوست احباب کی سوغات تھیں اور پھر بہت کچھ اذیتیں رفتگاں کے ساتھ زندگی کا مقدر ہو گئیں، اذیتوں میں مسرت تلاش کرنے کی یہی وہ خو تھی جو چراغ زیست کی لَو کو مدھم نہیں ہونے دے رہی تھی۔
اس نے اپنے چاروں طرف سیم زدہ مٹی کی سیلن کی عجیب سی مہک جس میں سڑی ہوئی بوسیدہ پھٹوں کی بو بھی شامل تھی محسوس کی جونہ تو سوندھی تھی اور نہ ہی کھات کی سڑاند جیسی، جوں جوں حس مشترک تیز ہوتی جا رہی تھی وہ بےنام مشترک بو اس کے وجود سے قریب ترین محسوس ہو رہی تھی۔ دفعتاً اس نے سرمژگاں کوئی چیز رینگتی ہوئی محسوس کی اور پھر ایک تیز چبھن کا درد بھرا احساس ہوا، آنکھ اب پوری کھل گئی تھی۔ جسم زخموں سے لہولہان تھا اور درد کی شدت ناقابل برداشت تھی، اٹھ کر بیٹھنا چاہا لیکن اعضاء نے ساتھ نہیں دیا۔ ذہن میں ایک ہی سوال شور کناں تھاکہ وہ یہاں کیسے پہنچا اور یہ کہ یہاں سے باہر کیسے نکلا جا سکتا ہے، لیکن سوچنے کی سکت اس کے توحش و بےچینی کاساتھ نہیں دے پا رہی تھی، سچ تو یہ ہے کہ اس کے اندر کچھ سکت ہی نہیں رہ گئی تھی، ہاتھ پاؤں شل تھے۔۔۔۔’تو کیا میں مر چکا ہوں؟‘ اس نے سوچنا شروع کیا ’لیکن کب اور کیسے؟۔۔۔ نہیں ایسا نہیں ہو سکتا، مجھے ابھی جینا ہے، ابھی بچی کو سائیکل دلانا ہے، کیسے دلاؤں گا وہ تو مجھے بھی نہیں معلوم لیکن یہی کہہ کر آیا تھا۔ کئی ماہ سے آج کل، آج کل کے وعدے پر ٹالتا آیا ہوں لیکن اب اور نہیں کیوں کہ آج میری بیٹی کی آنکھیں بتا رہی تھیں کہ اسے میرے وعدوں پراب یقین نہیں رہ گیا ہے اور مجھے اس چیز کو غلط ثابت کرنا ہے۔ اگر وہ مجھ پر یقین نہیں کرسکی تو پھر اس کی پوری زندگی لایقینی کے گرداب میں تباہ ہو جائےگی، میں اس کا پہلا یقین ہوں اور اس یقین کو باطل نہیں ہونے دینا ہے، مجھے جلدی گھر پہنچنا چاہئے، میرے بچے انتظار کر رہے ہوں گے۔ بڑے بیٹے کو ڈاکٹر کے پاس لے جانا ہے، دو ماہ سے یہی کر رہا ہوں، میں کتنا بےحس ہوگیا ہوں، یہ میرے ہاتھ پاؤں اٹھ کیوں نہیں رہے ہیں۔ تو کیا واقعی میں مر چکا ہوں؟ لیکن میں تو سوچ سکتا ہوں اور مردے بھلا کہاں سوچتے ہیں۔ کیا پتہ وہ بھی سوچتے ہوں بس ان کی ترسیل نہ ہوپاتی ہو، تو کیا زندگی اور موت کے درمیان ایک سوچ کی ترسیل کا ہی فرق ہے، کیا میں واقعی ایک لاش ہوں، نہیں میں لاش نہیں ہوں، میری بچی کو یہ بات اچھی نہیں لگےگی، میں لاش نہیں ہوں، پھر میں مردوں کے بارے میں اتنا کیوں سوچ رہا ہوں، یہ کونسی جگہ ہے؟ مجھے یہاں سے نکلنے کی کوئی تدبیر کرنی چاہئے، یہ میرے ہاتھ کیوں نہیں اٹھ رہے ہیں؟۔۔۔
جب اس نے تاریکی کا سینہ چاک کرکے باہر نکلنے کی کوشش کی تو احساس ہوا کہ بدن کا کوئی بھی عضو ساتھ نہیں دے رہا ہے۔ اپنے اعضا کو ٹٹولنا شروع کیا اور یہ جان کر خوفزدہ ہو گیا کہ جسم کا کوئی بھی عضو اپنی اصل حالت میں سلامت نہیں ہے۔ اعضا ءمیں حرارت ہے لیکن صرف حس کی حد تک، یعنی کہ وہ صرف محسوس کر سکتا تھا۔ بدن میں درد کی تیز لہر دوڑنے لگتی ہے، یہ درد پہلے سے موجود تھا، بچوں کی فرمائشوں کے نامکمل ہونے کی شکل میں، بیوی کے صبراورحالات کے جبر کی شکل میں لیکن محرومیوں نے احساس نہیں ہونے دیا تھا اور اب کچھ زیادہ ہی احساس ہو رہا تھا۔ دفعتاً وہ بھربھری مٹیاں اپنے پاؤں پر گرتا ہوا محسوس کرتا ہے، خوف رگ و ریشے میں واپس دوڑنے لگتا ہے کہ کہیں یہ بھربھری مٹیاں تابوت نہ بن جائیں اور وہ ہمیشہ کے لئے تہہ خاک خاک ہو جائے۔ مدد کے لئے پکارنا چاہتا ہے لیکن آواز حلق سے باہر نہیں نکلتی گویا کہ نرخرےمیں زقوم پھنس گیا ہو۔ تھوڑی بہت مزاحمت کے بعد تھک ہار کر بیٹھ جاتا ہے، آنکھیں پھاڑ کر دیکھنے کی کوشش کرتا ہے لیکن چہار سو مہیب تاریکی میں کچھ نظر نہیں آتا، وہ کسی بڑے گہرے سوکھے کنویں میں ہے، کھائی میں ہے، منہ کھلے غار یا کسی بڑی کھلی ہوئی قبر میں ہےکچھ بھی اندازہ کرنے سے قاصر ہے، دور تک صرف خلا اورخلا میں جگمگاتی سڑک کی مانند ستاروں کی کہکشاں نظر آ رہی ہے جس پر چل کر وہ اپنے گھر پہنچ سکتا ہے۔ کاش ایسا ہوتا۔ وہ آنکھیں موند لیتا ہے اور واپس سوچنا شروع کر دیتا ہے، اسی اثناء میں دور سے بہت ہی کریہہ اور بھیانک آوزیں آتی ہوئی سنائی دیتی ہیں گویا کوئی دیوہیکل پاگل ہاتھی چنگھاڑ رہا ہو، غشی طاری کرنے والی، جان لینے والی آوازیں۔ یہ کوئی اسرافیلی آواز ہے، یا آس پاس کوئی دھماکہ ہوا ہے۔ اسے خبر نہیں کہ کب تک بجلی کی کڑکڑاہٹ سے زیادہ خوفناک آوازوں کی دہشت کے اثر میں رہا، اچانک کوئی چیز اس کےاوپر دھڑ سےگری، چیخ حلقوم میں اٹک کر رہ گئی، درد کی شدت سے پورا بدن اینٹھ گیا۔ وہ اس دھڑ کو اپنے اوپر سے ہٹانا چاہتا ہے لیکن بے بس ہے۔کچھ وقت گزرنے کےبعد اس نےمحسوس کیا کہ سینے پر سینے کا لمس حرارت پیدا کر رہی ہے اور وہ حرارت اندرون بدن رگ وریشے میں خون بن کر دوڑنے لگی ہے۔اب اس کے ہاتھ پاؤں میں صرف حرارت ہی نہیں حرکت بھی تھی، اس نے دھڑ کو اپنے اوپر سے ہٹایا، ٹٹول کر محسوس کیا کہ یہ کوئی لڑکی ہے۔ ہاتھ بدن پیمائی کرتے ہوئے چشمۂ حیات پر پہنچے تو وہ ایک چیخ مار کر اٹھ بیٹھی۔
کیا کر رہا ہے؟
سوری، سوری، غلطی سے ہو گیا۔ آئی ایم سوری۔
کچھ دیر تک دونوں کے درمیان سکوت رہا، پھر اس لڑکی نے خود کو الگ کیا اور گویا ہوئی
میں کہاں ہوں؟ اتل کہاں ہے؟ میں تواس کے ساتھ سلیبریٹ کرنے کے لئے نکلی تھی، یہاں کیسے آگئی؟
’مجھے بھی نہیں معلوم ہم کہاں پھنسے ہیں، باہر نکلنے کا راستہ ڈھونڈو پلیز!‘
’میرے کو کچھ نظر نہیں آ رہا ہے، تو بھی برابر نہیں دکھ رہا ہے۔’ تو کب سے ادھر ہے؟‘
اسے یہ انداز تخاطب انتہائی ناگوار لگا اور بہت بے رخی سےکہا ’نہیں معلوم‘
اور میں کب سے ادھر ہوں؟
’وہ بھی نہیں معلوم۔ یہاں سے باہر نکلیں تو شاید کچھ اندازہ ہو۔‘
مجھے کچھ دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ رات ختم ہو تو شاید کوئی راستہ دکھائی دے۔ مگر رات کب ختم ہوگی۔ اس لڑکی نے بہت بےبسی سے پوچھا
’مجھے تاروں کو دیکھ کر حال بتانا نہیں آتا‘
وہ دونوں اپنے اپنے طور پر حالات اور مقام کا جائزہ لینا شروع کر دیتے ہیں اور اس نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں کہ رات کے ختم ہونے کا انتظار کریں لیکن اس اندھیری رات میں رات کیسے ختم ہ وسو چارو ناچار دونوں اپنی اپنی زندگی کے ضائع کردہ لمحوں کی بازیافت شروع کرتے ہیں۔۔۔
وہ لڑکی جس کےبوائے فرینڈ کا نام اتل ڈھو رہے، اس کی کہانی اور زندگی میں کوئی رس نہیں ہے، رس جسم میں تھا مگر باہر نہیں نکل سکا تھا، وہ ایک اسپرم بینک میں نمونے جمع کرتی تھی، نئی نئی ملازمت پر لگی تھی، ہفتہ عشرہ تک تو اسے اپنی جاب سے گھِن آتی رہی پھر بتدریج فنتاسی کی ایک دنیا آباد ہونا شروع ہوئی۔ مجموعی ماحول اور بالخصوص الگ الگ قد کاٹھ کے ڈونرس کو دیکھ کر عجیب سا سرور حاصل کرتی، جب اصل زندگی میں لذتوں کے حصول میں وسائل حائل ہوں تو فنتاسی اور تخیل کا اپنا الگ ہی لطف ہوتا ہے، بدنی خواہشوں کی طنابیں ٹوٹنے لگتی ہیں۔ وہ بھی منہ زور لہروں کا زیروبم پورے جسم میں محسوس کر رہی تھی اور اسی خوشی میں وہ اپنے دوست کے ساتھ پارٹی منانے نکلی تھی، گھر میں صرف اس کی بیوہ ماں ہے، ایک بڑا بھائی تھا لیکن وہ ایک بار دوا لینے کے لئے نکلا تو پھر واپس نہیں آیا، اسے واپسی میں ماں کے لئے دوائیاں بھی لےکر جانا تھا، اتل نے آخری شو دیکھنے کی ضد کی، لیکن شہر کے حالات کچھ ماہ سے ٹھیک نہیں تھے اس لئے وہ آخری شو پر راضی نہیں ہوئی، کہنے کو تو فرقہ وارانہ فسادبند ہو گیا تھا لیکن سچ یہ ہے کہ یہ یکطرفہ منظم منصوبہ بند فساد تھا اور اس کی راکھ یہاں وہاں حسب خواہش سلگنے لگتی تھی، چونکہ اتل اس کا بچپن کا دوست تھا اور اس سے پیار بھی تھا، اس لئے اس نے اتل کی خواہش کو ٹالنا مناسب نہیں سمجھا لیکن فلم شام کے شو میں دیکھنا طے ہوا۔
جب اتل کے ہاتھ اس کے جسم پر یہاں وہاں پڑنے لگے تو اس کو احساس ہوا کہ یہ آخری شو کی ضد کیوں کر رہا تھا، فلم ختم ہونے کے بعد جب وہ دونوں باہر نکلے تو ایک دوسرے کے لئے جذبات بدل چکے تھے، ہونٹ سے راگنی اور جسم سے چاندنی ٹپکنے لگی تھی، اب درمیان میں ایک حجاب حائل ہو گیا تھا، رسمساتی آنکھوں میں ایک طوفان موجزن تھا، جسم میں خواہشوں کی نہر جاری ہو گئی۔ ایک جگہ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے دونوں بے ترتیب سانسوں اور دھڑکنوں کو سنبھالے ہوئے کھڑے رہے، کچھ اشارے ہوئے اور اشاروں کی پگڈنڈی پکڑے چل پڑے۔۔۔ جب وہ دونوں ایک کمرے میں بیٹھے، بےترتیب دھڑکنوں کی نذر ہونے کا ارادہ کر رہے تھے کہ اسی دوران پولیس نے چھاپہ مارا، بہت سے لوگ گرفتار ہوئے، یہ دونوں بھی پکڑے گئے۔ چونکہ یہ بہت خوبصورت تھی اس لئے آفیسر نے دونوں کو گمنام مقام پر ایک فارم ہاؤس میں رکھ دیاجس کا علم صرف جرم میں برابرکےشریک لوگوں کو ہوتا تھا، انہوں نے کچھ دنوں تک اسے اپنےساتھ رکھا اور جب فساد اپنے عروج پر پہنچ گیا تو انہوں نے۔۔۔
اتل کا کیا ہوا؟
اس کے بعد میرا کیا ہوا؟ یہ نہیں جاننا چاہوگے؟ اس لڑکی کے لہجے میں جس کے بوائے فرینڈ کا نام اتل ڈھور تھا، درد، شکستگی اور لاچاری تھی۔
نہیں، تمہاری کہانی سے کوئی دلچسپی نہیں، لڑکیوں کا ریپ اور قتل اب عام ہو گیا ہے۔ اسے وائکم محمد بشیر کے ایک افسانے کی لائن یاد آ گئی ’عرب اپنی لڑکیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کر دیا کرتے تھے، ٹھیک کرتے تھے۔‘
تو اتل کا کیا ہوا؟
میری امی کا کیا ہوا؟ یہ نہیں جاننا چاہوگے؟
تمہاری امی کے ساتھ کیا ہوا، مجھے اس میں بھی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اگر زندہ ہوں گی تو ہاتھ میں تمہاری تصویر لئے پولیس اسٹیشنوں میں در در کی ٹھوکریں کھا رہی ہوں گی، میرے خیال میں وہ زندہ ہوں گی کیوں کہ مصیبت کی ماری مائیں جلدی نہیں مرتی ہیں، اگر زندہ ہیں تو یہ ان کے ساتھ ٹھیک نہیں ہو رہا ہے، ان کا مر جانا بہتر ہے۔
میری امی زندہ ہوں گی، وہ میری شادی بہت دھوم دھام سے کرنا چاہتی تھیں
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ۔۔۔
ابھی تم نے کچھ پڑھا ہے، کیا مطلب ہے اس کا؟
میں نے کچھ نہیں پڑھا اور اس کا کوئی مطلب نہیں ہے۔
اتل ڈھور کا کیا ہوا؟
آفیسر بول رہا تھا کہ تیرے یار کو مار کر ہم نے ایسی جگہ پھینک دیا ہے کہ وہاں اب اور لاشوں کی بارش ہوگی۔ جلد ہی تجھے بھی اس کے پاس پہنچا دیں گے۔
تجھے کیوں مارنا چاہتا تھا، تجھ سے دل بھر گیا تھا کیا؟
اسے یاد آیا کہ ایک دن بڑے قد اور لمبی انگلیوں والا آفسر اپنے جونئر سے کہہ رہا تھا ’اب یہ لڑکی بھی انجوائے کرنے لگی ہے‘ اور اس کے بعد کا پورا خونریز منظراس کی آنکھوں کے سامنے گھومنے لگا، وہ اپنی پہلی اور آخری چیخ کے بارے میں بتانا چاہتی تھی، وہ بتانا چاہتی تھی کہ پہلی چیخ میں اس کی روح نکل گئی تھی اور آخری چیخ کی کربناک لہروں میں کہیں وہ، کہیں اس کی ماں، کہیں اس کا معشوق اور کہیں اس کے سارے خدا ایک ایک کرکے ڈوب رہے تھے لیکن کہانی سننے والے کو اس کی کسی بھی چیخ سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ستارے ایک ایک کرکے اوجھل ہو رہے تھے، وقت آخر شب میں داخل ہو رہا تھا۔۔۔
تو بول، تو یہاں کیسے آیا؟
آہ !اس نے ایک طویل کراہ بھری سانس لی اور گویا ہوا۔ میری کہانی ذرا طویل ہے، کاش تم میری زبان سمجھتیں۔ لیکن یہاں اب کوئی اور نہیں ہے اس لئے صبر کرو اور سنو اگر کچھ سمجھ میں نہیں آئےگا تو پوچھ لینا۔۔۔
یہ زندگی وہ ندی ہے جو کسی ایک رخ پر کبھی نہیں بہتی کہ یہ ناپیدا کنار ہے، ہاں ٹھہرتی ضرور ہے، سستاتی ہے، تازہ دم ہوتی ہے اور پھر چلنے لگتی ہے، بہنے لگتی ہے، بہکنے لگتی ہے اور پھر پل بھر کے لئے رک جاتی ہے،ادھر ادھر نظر دوڑاتی ہے اور راستہ بھٹک کر کسی پگڈنڈی پر چلنے لگتی ہےجو آگے جاکر اس قدر سکڑ جاتی ہے کہ وہاں سے گذرنا نا ممکن ہوتا ہے۔ یہی وہ مقام ہوتا ہے جب خودکشی عزیز لگنے لگتی ہے، سگریٹ کے آخری کش کی طرح یا زندگی عزیزتر ہو جاتی ہے جام میں بچے ہوئے آخری گھونٹ کےمانند۔ دو سال سے ہماری زندگی مجہولیت و محزونیت کی گرفت میں تھی۔ گرفت دن بہ دن مضبوط ہوتی جا رہی تھی، اس قدر مضبوط کہ کسی بھی وقت ڈھیلی پڑ سکتی تھی اور ایک دن وہ لمحہ آ ہی گیا جب ہرشئی پر گرفت ڈھیلی پڑ گئی۔
ایک دن صبح ناشتہ وغیرہ کرنے کے بعد پہلے تو میں اپنے ایک دوست کے پاس گیا کہ شائد وہاں سے کچھ کام بن جائے۔ نہیں ایسا نہیں ہوا، یہاں پر میں خود کو مہذب ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہوں جب کہ ایسا ہے نہیں، بات یہ ہے کہ صبح جب اٹھا اور چائے طلب کی توبیوی نے کہا کہ چائے نہیں ہے کیوں کہ دودھ، چائے پتی، پیسے کچھ بھی نہیں تھے، بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی، اس نے مجھے لعن طعن کرنا شروع کر دیا، بات بڑھتی گئی یہاں تک کہ میں نے یہاں وہاں کا اپنا سارا غصہ بیوی پر نکال دیا۔
تم سارے مرد ایک جیسے ہوتے ہو، اس لڑکی نے بات منقطع کرتے ہوئے یوں کہا گویا ابھی اس کا گلہ دبا دےگی۔
اور ساری عورتیں ایک جیسی ہوتی ہیں۔ اس نے جواب دیا ،اب تمہیں سمجھ میں آ گیا ہوگا کہ میں تمہاری سرگزشت کیوں نہیں سننا چاہتا تھا۔
اس نے اپنی روداد جاری رکھی۔
تو میں نے سارا غصہ اپنی بیوی پر انڈیل دیا کیوں کہ اب وہ میری حوصلہ افزائی کم اور طعنہ زنی بہت کیا کرتی تھی، میں نے بھی اسے دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا کہ زندگی اتنی خوبصورت نہیں ہے کہ اتنے سارے سمجھوتے کروں۔ میں گھر چھوڑ کر جا رہا تھا کہ میری بچی آ گئی۔ میری بیوی نے اسے بھیجا تھا یا وہ خود ہی آ گئی تھی مجھے علم نہیں، لیکن وہ میرے پاؤں پکڑ کر کھڑی ہو گئی، اس نے کہا ’ابو آج میری سائیکل لائیں گے نا؟‘ اس کی معصوم آنکھوں اور زبان کی مٹھاس میں زندگی کا حسن نظر آیا، اب میں نارمل ہو گیا تھا، ڈھیر سارا پچھتاوا بھی تھا، معافی مانگنے کے لئے بیوی کے پاس واپس گیا لیکن تب تک وہ خود کو باتھ روم میں بند کر چکی تھی، وہ یقیناً باتھ روم میں رو رہی ہوگی اور اپنی قسمت پر ماتم کر رہی ہوگی، اسے دونوں کا حق حاصل تھا، اس کے علاوہ میں اسے اور کوئی خوشی نہیں دے سکا۔ میں نے بچی کو یقین دلایا اور ایک ایک کرکے اپنے تین امیر دوستوں کے پاس گیا اس یقین کے ساتھ کہ بات بن جائےگی، میں نے ہر ایک کو حیلے بہانے سے بتانے کی کوشش کی کہ میں کسی بہت اہم غرض سے آیا ہوں، جب مجھے یقین ہوگیا کہ وہ میرے آنے کا مدعا جان چکے ہیں تو وہاں سے نکل کر پرانے مالک کے پاس گیا، ابھی تک اس نے میرا حساب کتاب کلیئر نہیں کیا تھا۔ جب میں پہنچا تو وہاں مالک کی جگہ میری نجی چیزیں منتظر تھیں۔ چیزیں سمیٹ کر جب سیڑھیاں اتر آیا تو خود کو چوراہے پر کھڑا پایا، سڑک وہی تھی لیکن سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اب کس راستے جاؤں۔ شام ڈھل چکی تھی، گھر جانے کی خواہش تیز ہو رہی تھی لیکن امید مر رہی تھی، تبھی انجنا ہولار کا فون آیا، میں تو اسے بھول ہی چکا تھا۔ نہیں، نہیں، وہ میری معشوقہ نہیں تھی۔ وہ شادی بیاہ میں گانے وغیرہ گایا کرتی تھی، ایک فن شناس نےاس کے اندر پوشیدہ ہنر کو بھانپ لیا، اسے مشق کرنے اور پروفیشنل ہونے کا مشورہ دیا، لیکن شادی بیاہ میں گانا گاکر گھر چلانے والی لڑکیاں یا خواتین مہنگائی کے اس دور میں پروفیشنل ہونے کی قیمت ادا نہیں کر سکتیں۔ اس فن شناس نے رحم کیا اور وہ اس کے ساتھ شہر آ گئی اور اسی کے ساتھ رہنے لگی۔ اس کے ہنر کو نکھارنے میں ایک کردار میرا بھی تھا، میرا کام اس کی زبان ٹھیک کرنا، صحیح تلفظ کی ادائیگی اور شاعری کی نزاکتوں سے واقف کرانا تھا۔ اب وہ اپنے پیشے میں ماہر ہو گئی تھی، اس کی ایک بڑی خواہش یہ تھی کہ وہ مرزا غالبؔ کا کلام گائے، موسیقی کے استاد نے شاید یہ بات کہی تھی کہ جب تک آپ غالبؔ کو نہیں گائیں گی لوگ آپ کو تسلیم نہیں کریں گے، تب سے وہ غالبؔ پر کام کر رہی تھی۔
یہ مرزا غالب کون تھا؟ اس لڑکی نے سوال کیا
اردو کا ایک بہت بڑا شاعر تھا، خود بھی برباد ہوا اور سالے نے مجھے بھی برباد کر دیا۔
اس نے کیا کیا؟ لڑکی نے بہت معصومیت سے پوچھا
خود تو اپنی پوری زندگی تباہ کرلی اور مجھےبھی کہیں کا نہیں چھوڑا، اس کے چکر میں ،میں بھی کہیں کا نہیں رہا۔ بس فرق صرف اتنا ہے کہ وہ برباد ہونے کے باوجود زندہ ہے اور میں؟ میں کہیں نہیں ہوں۔ اس کی شاعری کو میں حقیقت سمجھ کر جینے لگا اور برباد ہوتا چلا گیا، ایک طرف تو کہتا ہے کہ
بندگی میں بھی وہ آزادہ وہ خودبیں ہیں کہ ہم
الٹے پھر آئے در کعبہ اگر وا نہ ہوا
اور پھر دوسری طرف کہتا ہے
پھر دل طواف کوئے ملامت کو جائے ہے
پندار کا صنم کدہ ویراں کئے ہوئے
مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آیاتم کہنا کیا چاہتے ہو؟
جب وہ مجھے سمجھ میں نہیں آیا تو تم کو کیا آئےگا خاک، کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مجھے کچھ اور کرنا چاہئے تھا لیکن اس کی وجہ سے کچھ نہیں کر سکا، اس کی شاعری میں اپنی محرومیوں کا علاج ڈھونڈ لیا تھا۔
اوکے، آگے کیا ہوا؟
ہولار شہر کے ایک دوسرے کنارے پر رہتی تھی،حالات جس رخ پر جا رہے تھے اس حساب سے وہاں جانا جوکھم بھرا تھا، ہرچند کہ چہرے مہرے سے میں کسی خاص کمیونٹی کا فرد نظر نہیں آ رہا تھا پھر بھی میری چھٹی حس جانے کی اجازت نہیں دے رہی تھی، پھر بچی کا پاؤں پکڑ کر کھڑا ہونا مجھے یاد آ گیا۔جب میں وہاں پہنچا تو ہولار باب مارلی کی ’نوویمن نو کرائی‘ سن رہی تھی۔ مجھے بھی سننے کے لئے کہا۔ کوئی وقت ضائع کئے بغیر میں سیدھا اصل موضوع پر آ گیا، غزلیں پہلے ہی اسے منتخب کرکے دے چکا تھا، جہاں جہاں اسے تلفظ کی دقت ہوئی ٹھیک کیا، معانی سمجھائے ،اس نے محسوس کر لیا کہ آج میں اپنے رنگ میں نہیں ہوں۔
ہولار نے آتے وقت ایک لفافہ تھمایا اور کہا’ حالات بہت خراب ہیں، تمہارا اور دیر رکنا ٹھیک نہیں، باقی کام پرسوں دن میں کرلیں گے۔‘
جب میں واپس آ رہا تھا تو پورا شہر فساد کی آگ میں جل رہا تھا، الگ الگ مقامات پرچار دلت نوجوانوں کی لاشیں ملیں اور اقلیتی طبقے کے نوجوانوں کو ان کا قاتل قرار دیا گیا، پولیس اور گورنمنٹ کا یہی ورژن تھا اور یہی ہر جگہ چل رہا تھا۔ مرنے والوں میں ایک کی شناخت اتل ڈھور کے طور پر کی گئی ہے، اسی لئے میں تجھ سے بار بار پوچھ رہا تھا کہ اتل کا کیا ہوا؟
اوہ مائی گاڈ! لڑکی اس سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکی۔
وہ کچھ دیر تک رکا رہا پھر اپنی گفتگو واپس شروع کی۔
جب میں واپس آ رہا تھا تو جگہ جگہ پولیس کی ناکہ بندی تھی، ہر طرف سناٹا تھا، پہلی بار شہر میں رات کا صحیح معنوں میں احساس ہوا، پولیس نے دو تین مقامات پر تلاشی لی، شناختی کارڈ چیک کئے اور پھر ایک جگہ انہوں نے کہا کہ یہ راستہ محفوظ نہیں، دوسرے راستے سے جائیے۔ جب ہم دوسرے راستے سے جا رہے تھے تو کچھ دیر جانے کے بعد بلوائی سامنے آ گئے، انہوں نے رکشہ روکا، میں نے جھوٹ بول کر بچنے کی کوشش کی لیکن میرے ہاتھ میں موجود کتابوں نے ساری کہانی بیان کر دی، کاش وہ کتابیں کہیں راستے میں پھینک دیتا۔
۔۔۔۔۔۔۔
دونوں کی کہانی مکمل ہو چکی تھی، رات ڈھل چکی تھی، ستارے خورشید کی جلو میں روپوش ہو گئے تھے، کہکشاں کی سڑک بھی، جب سورج کی شعاؤں سے اس کی نیند کھلی تو اس نے رات کے اپنے قصہ گو ساتھی کو جگانا شروع کیا، اٹھو صبح ہو گئی۔ اٹھو، دیکھو دن نکل آیا ہے، اس نے الٹ پلٹ کر دیکھا وہ مر چکا تھا۔۔۔ تم ایسے نہیں مر سکتے، تم نے مجھے بہت حوصلہ دیا ہے۔ تم ایسے نہیں مر سکتے، تم ایسے نہیں مر سکتے، اومائی گاڈ، تم ایسے نہیں مر سکتے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک لڑکی اکثر عدالت کے باہر کھڑی نظر آتی ہے کہ ایک دن اسے انصاف ضرور ملےگا، ایک بیٹا سوچ رہا ہے کہ اب اس کی آنکھ کا علاج کون کرائےگا، ایک عورت روز باتھ روم میں بند ہو جاتی ہے کہ کاش اسے جاتے ہوئے ایک بار دیکھ لیتی اور ایک بچی انتظار کر رہی ہے کہ اس کا باپ ایک دن سائیکل لے کر آئےگا اور شہر کے دوسرے چھور پر انجنا ہولار ریاض کر رہی ہے ’لوح جہاں پہ حرف مکرر نہیں ہوں میں۔‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.