Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

گھنٹا

گیان رنجن

گھنٹا

گیان رنجن

MORE BYگیان رنجن

    پیٹرولا کافی اندر دھنس کر تھا۔ درزی کی دکان، سائیکل اسٹینڈ اور موٹر ٹھہرانے کی جگہ کو پھاند کر وہاں پہنچاجاتا تھا۔ وہ کافی نامعلوم جگہ تھی۔ اسے صرف پولیس اچھی طرح جانتی تھی۔ ہم لوگ اسی بالکل ٹکڑیاجگہ میں بیٹھنے لگے تھے۔ یہاں جتنا سکون اور آزادی تھی، کہیں اور نایاب تھی۔ ہمیں یہاں پورا چین ملتا تھا۔

    پیٹر ولا ایسی جگہ تھی جس سے شہریوں کو کوئی سروکار نہیں تھا۔ جہاں تک ہم لوگوں کا سوال ہے، ہمارا شہری پن ایک دبلے ہاڑ کی طرح کسی نہ کسی طور بچا ہوا ہے۔ اکھڑے ہونے کی وجہ سے لگ سکتا تھا کہ وقت کے ساتھ سب سے بڑھ کر ہم ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ بیٹھے بیٹھے ہم آپس ہی میں پھنکار لیتے ہیں، ہلتے نہیں ہیں۔ ہمارے جسم میں لوتھڑوں جیسی شانتی بھر گئی ہے۔ نشے کی وجہ سے کبھی کبھار تھوڑا بہت غصہ بن جاتا ہے اور آپسی چل پوں کے بعد اوپر آسمان میں گم ہوجاتاہے۔ اس نشے کی حالت میں کبھی ایسا بھی لگتا ہے کہ ہم بیدار ہوگئے ہیں۔ نجات کا وقت آگیا ہے اور منافقت کو پہچان لیا گیا ہے۔ لیکن ہم لوگوں کے جسموں میں سنت ملوک داس اس قدر گہرا آسن مار کر جمے ہوئے تھے کہ بھیڑیا دھسان ہمیشہ چالو رہا۔

    ایسا لگتا تھا کہ پیٹر ولا کا زندگی سے باہر چلے جانا کافی مشکل ہوگیا ہے۔ یہ جگہ ایک پناہ گاہ میں بدل گئی تھی۔ پیٹر ولا سے نکل کر شہر کے کھشیتر سے گزرتے ہوئے جب ہم اپنے کمروں کو واپس ہوتے تو شہر کا ڈھانچا دکھائی دیتا تھا۔ ہمیں پورا یقین ہے کہ ہم سے بڑھ کر شہر کے ڈھانچے کے بارے میں کم لوگ جانتے ہوں گے۔ میرے ساتھیوں کو بیوی بچوں، سماج اور دیش دنیا سے شاید ہی کوئی تعلق رہ گیا تھا۔ وہ لوگ فطری طور پر ’’اینٹی‘‘ تھے۔ اپنے ساتھیوں میں، میں واحد ایسا فرد تھا جس کا فیصلہ زندگی نے ابھی تک نہیں کیا تھا اور جو دولالچوں کے بیچ ابھی غور اور سوجھ بوجھ کا طریقہ استعمال کر رہاتھا۔ یہ بھی بہت حدتک ممکن ہے کہ میں ہمیشہ کے لیے ایسا چالاک آدمی بن چکا ہوں، لیکن فی الحال میں یقین سے نہیں جانتا۔

    اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب میری صحت گھگھیانے لگتی ہے، رتجگوں کی تعداد حد پار کرجاتی ہے اور مجھے یہ دکھائی دیتا ہے کہ میرا معزز پن ترقی کر رہا ہے اور اس دوران اس میں رتی بھر بھی بگاڑ نہیں آیا ہے، تب میں لمبی تان کر سوتا ہوں، شوونڈو کے گلیاروں میں گھومتا ہوں، کوکا کولا پیتا ہوں، اور ہیلو ہیلو۔ پیڑ ولاکو گولی دے جاتا ہوں۔ میرے ساتھی، ممکن ہے، اس بات کو تھوڑا بہت جانتے ہوں لیکن وہ پروا نہیں کرتے۔ میرے پاس کچھ ایسے کپڑے بھی ہیں جن کا میرے جسم سے اور خود میری پچھلی زندگی سے کوئی میل نہیں ہے اور جنہیں پہنتے ہی مجھے لگتا ہے کہ بھیس بدل گیا ہے۔ میں انہیں تب پہنتا ہوں جب پیٹرولا میں نہیں جانا ہوتا۔ مجھے ان کا سٹیوم جیسے کپڑوں کی شرم بھی ستانے لگتی ہے لیکن میں نے انہیں کبھی ہمیشہ کے لیے پھینکا نہیں۔ برسوں نہیں پہنا، پر سنبھال کر رکھا۔

    ایک دن میں پیٹر ولا سے باہر پان کی دکان تک نکلا تو نیم سے اچانک ملاقات ہوگئی۔ کافی رات جاچکی تھی۔ نیم جب سے بیمہ ایجنسی چلانے لگا ہے، خوب صورت ہوگیا ہے۔ ایک وقت نیم کی زندگی ایسے حالات پر پہنچ گئی تھی کہ لگتا تھا وہ بھی پیٹرولا کے کراؤڈ میں شامل ہوجائے گا، لیکن وہ بال بال بچ گیا۔ پوری طرح سکھی اور محفوظ ہوجانے کے بعد اب وہ جب بھی ملتا ہے، پیٹر ولا کی زندگی پر رال ٹپکانا شروع کردیتا ہے۔ کہتا ہے، ’’کہاں بیمے میں پھنس گیا۔ تم لوگوں کے ساتھ کی زندگی اب کہاں نصیب ہوتی ہے۔‘‘ میں سمجھتا ہوں اب اس کے پاس کافی پیسہ ہے اور آرام بھی خوب ہوگیا ہے۔

    دوچار منٹ مشکل سے بیتے ہوں گے کہ نیم نے کندن سرکار کے بارے میں بات شروع کردی۔ مجھے پتا تھا، وہ کندن سرکار کی بات ضرور کرے گا اور بہت جلدی میں ہونے کے باوجود مجھے اس کی اس بات کا انتظار تھا۔ وہ مجھے جب بھی ملا، کندن سرکار سے تعارف کرانے کے لیے لگ بھگ چمٹ سا گیا۔ ضرور اس میں اس کی کوئی خوشی تھی۔ شاید وہ بتانا چاہتا ہو کہ ہماری دوستی ابھی تک پکی ہے، وقت نے اسے مٹایا نہیں ہے۔

    کندن سرکار والی بات برسوں سے چلتی آرہی تھی اور آج تک ماند نہیں پڑی۔ اس بار نیم نے مسکراکر سرگوشی میں اس کے یہاں اچھی دارو ملنے کا بھی اشارہ دیا۔ اس نے دم دیا کہ کندن سرکار کے ساتھ مجھے بوریت نہیں ہوگی۔ ’’تم لیکھک اور وہ انٹلیکچوئل، واقعی مزہ آجائے گا۔‘‘ حقیقت یہ ہے کہ ادب مجھ سے کافی عرصے پہلے بچھڑ گیا تھا۔ اب مشکل سے تھوڑا بہت چیتھڑا باقی بچا تھا، لیکن یہ بات میں نیم سے دبا گیا۔ میں جانتا ہوں اس سے الجھنا وقت کی ایک واہیات بربادی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ نیم بالکل چیونٹا ہے۔ جاتے جاتے وہ چلاتا گیا، ’’بدکنا نہیں، کل پکارہا۔ ایسا آدمی تم کو کم ملے گا جو اپنی پوزیشن کو لات مار کر چلتا ہو۔ دوست قسم کا شخص ہے او رٹاپ طبیعت۔ بولو، اور کیا چاہتے ہو بھائی؟‘‘ چلتے چلتے وہ پھر رکااور تھوڑا جوش میں آکر بولا، ’’وہ تمہارے ساتھ ہولی چلا جائے گا، نہ کپڑے جھاڑے گا اور نہ ناک سکیڑے گا۔ کل پکا رہا۔‘‘

    میں سب چیزوں کو برداشت کرنے کی تیاری کرتا ہوا، شراب کی کشش کے سہارے، کندن سرکار، کندن سرکار سوچتا ہوا پیٹر ولا واپس پہنچا۔

    کندن سرکار کافی بھبھکتا ہوا نام تھا۔ شہر کے تمام لیکھک اور دانشور اس تک پہنچ چکے تھے۔ یہ سب مڈل کلاس ادیب تھے، جس کا کھاتے اس کا گاتے بھی خوب تھے۔ جہاں سے آدمی کی پونچھ جھڑگئی ہے، ان لوگوں کو اس جگہ، کندن سرکار کو دیکھتے ہی، کھجلی اور خوش نصیبی کی گدگدی ہونے لگتی تھی۔ کندن سرکار اور دانشوروں کے میل جول کو تاکنے والے بہت سے تماشائی چاروں طرف پھیلے ہوئے تھے جنہوں نے شہر کے ادبی حلقوں میں کندن سرکار کی ہوا باندھ رکھی تھی۔ میں نے اپنے ساتھیوں کو کچھ بھی نہیں بتایا اور کچھ عرصے کے لیے پھوٹ گیا۔ انہیں اپنا لالچ بتانا ممکن بھی نہیں تھا۔ پیٹر ولا کے ساتھیوں میں اکثر ایسے تھے جو کندن سرکار جیسے آدمیوں کو ان کی اصل جگہ پر رکھتے تھے۔ وہ لوگ پوری طرح دنیا سے مڑے ہوئے تھے۔ صرف میں تھا، اٹکا ہوا، عزت، شہرت، عہدے پیسے اور دیس سماج سے بے تاب ہونے والا۔

    کندن سرکار ایسے مقام پر تھا جہاں رہ کر عام طور پر جنتا کے قریب نہیں رہا جاسکتا۔ اس کے باوجود وہ ایک بے جوڑ سماجی حیوان تھا۔ حکومت کو پتا نہیں کیسے اس نے بے وقوف بنارکھا تھا۔ اسے ادبی شخصیتوں، فن کاروں اور دانشوروں سے بات چیت کرنے، ان کے درمیان گھلنے ملنے اور انہیں شراب پلانے کی تمنا رہتی تھی۔ اس شہر میں کئی سو ادیب اور فن کار ہیں، لیکن کندن سرکار ان سے کبھی گھبرایا نہیں۔ وہ ایک کو ہمیشہ ساتھ رکھتا تھا۔ ایک وقت میں ایک۔ وہ تجربہ کرتا چلا جارہاتھا۔ اس کے ساتھ رہنے والے کو لوگ کندن سرکار کا گھنٹا کہتے تھے۔

    ان دنوں کندن سرکار کاگھنٹا، میں تھا۔ وہ مجھ سے ذرا بھی نہیں بدکا، حالاں کہ میری حالت کافی گندی تھی۔ اپنی اوگھڑ حالت میں اس کے گھرمیں گھستے ہوئے مجھے لگا، یہ قطعی درست اور آرام دہ جگہ نہیں ہوسکتی، لیکن لالچ کا کہیں کوئی جواب نہیں ہے۔ شراب جیسے جیون جوتی ہوگئی تھی۔ کسی سے شراب کیا پی لی، سمجھا بہت ٹھگی کرلی، یہ حالت تھی۔

    شروع میں اس نے مجھے معمولی شراب پلائی جب کہ اس کے پاس یقیناً اونچی شراب کا بھی اسٹاک موجود تھا۔ وہ بھانپنا چاہتا تھا کہ یہ کتنا اونچا دانشور ہے۔ دوسری بات یہ کہ میں ایک خستہ حال شخص تھا۔ اگر میں مالدار دانشور ہوتا تو کندن سرکار کا سلوک کچھ اور ہی ہوتا۔ کندن سرکار نے خزانہ کھول نہیں دیا۔ میرے ساتھ وہ لوفریٹی کے ڈھرے کی طرف زیادہ بہکتا تھا۔ اس نے مجھ سے کئی بار چالو جگہوں میں چلنے کو کہا جب کہ مجھے چالو ٹھکانوں کا کچھ پتا نہیں تھا۔

    میرے ساتھ اس کی یہ حالت تھی کہ سڑکوں پر ٹہلتے ٹہلتے تھک جانے پر وہ رکشا بھی نہیں کرتا تھا۔ کئی کئی دن ایسے نکل جاتے کہ چائے کافی کے علاوہ کچھ بھی ٹھوس پروگرام نہ ہوتا۔ وہ بیڑی مانگ مانگ کر میرا بنڈل پھونک دیتا جب کہ اس کی جیب میں اس وقت مہنگی بدیسی سگریٹ رکھی ہوئی ہوتی۔ مجھے اس میں کیا فائدہ تھا، پر میں پتا نہیں کیوں انتظار کرتا رہا۔ کندن سرکار کے لیے یہ دن تجربے، مزے اور تمنا پوری ہونے کے دن تھے۔ کیا اسی چیتنیہ چوتیاپے کے لیے میں اپنے ساتھیوں کو چھوڑ کر آیا تھا؟ وہ کہتا بھی تھا، ’’یار، کھلی زندگی کا ایسا مزہ پہلے کبھی نہیں آیا۔‘‘

    ’’مزہ نہیں آیا! مزے کے لیے آئے ہو میرے پاس، کتے کی اولاد؟ میں کڑھتا ہواغصے سے کٹ گیا۔ طبیعت ہوئی کہ پھاڑ کر رکھ دوں اس کا اور اپنا ڈھونگ۔ مجھے شرم بھی ستاتی تھی۔ اپنے ساتھیوں کو چرکا دے کر، انہیں اپنے سے بے خبر رکھ کے، میں یہاں موج کے لالچ میں چلاگیا۔ وہ لوگ خطرناک راستوں میں زندگی کو پھانس دینے کے باوجود کبھی اپنے کوادھر ادھر ہلاتے جلاتے نہیں۔ وہ لوگ پختہ ہیں اور دکھی نہ ہونے والے۔ میں نے فیصلہ کیا کہ جلد ہی ’’نگلا جائے نہ اگلا جائے‘‘ کی حالت کو تمام کردینا ہے۔ سچائی کا لمحہ نزدیک ہے اور اب ٹھکانا ہوجائے گا۔

    جلد ہی یہ اندازہ ہوگیا کہ کندن سرکار کا ساتھ دینا بہت کٹھن کام ہے، اور غیرضروری بھی۔ روز دو گھنٹے اس کے ساتھ لٹریری بات چیت کرسکنے کی طاقت اگر آپ میں ہے تو اس سے اچھی نبھ سکتی ہے۔ مجھے اس کی کرانک حالت کا پتا نہیں تھا۔ لٹریچر اسے بواسیر کی طرح پریشان کرتا تھا۔ کیسی بھی گھامڑ صورت حال ہو اور بات چیت کا کیسا بھی رخ، اس کو لٹریچر کی طرف موڑنے میں اسے اتنابھی وقت نہیں لگتا تھا جتنا ایک گیئر بدل کر دوسرا گیئر لگانے میں لگتا ہے۔ مجھے اتنی مہارت نہیں تھی۔ میں بہت جلد اندر سے بول گیا۔ اپنی حد سے زیادہ برداشت کے باوجود ’’سچائی کا لمحہ‘‘ آہی گیا۔

    کندن سرکار نے ایک بار مجھے تفصیل سے بتایا تھا کہ فنکار کو دکھ بھری، سسکتی ہوئی زندگی جینی چاہیے، تبھی اس کی تجوری تجربوں سے بھری رہ سکتی ہے۔ اسے بے شمار ایسے لوگوں کے نام پتے یاد تھے جنہوں نے تجربے کے بل پر اپنے وقت کے تمام رقیبوں کا پٹرا کردیا تھا۔ ادبی مسئلوں پر اس کے اقوال ایسے عجیب و غریب ہوتے تھے کہ سرپیٹ لینے کو جی چاہتا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ، ’’سماج کے کھیت میں زندگی کھاد ہے، ادیب کسان اور ادب فصل، اسی طرح جیسے عورت دھرتی کی مثال ہے، مرد ہل اور اولاد پھل۔‘‘

    مجھے بھی بولنا پڑا تھا۔ خاموش رہنا ناممکن تھا۔ اگر اسے پتا چل جاتا کہ میں اکتایا ہوا شخص ہوں تو اس سے پہلے کہ میں فیصلہ کرکے خود گیٹ آؤٹ ہوتا، وہ مجھے سلام کردیتا۔ اس لیے میں بھوسے کو رَس لے کر چباتا رہا، ’’آپ کی باتوں میں عجیب کرشمہ ہے۔‘‘ میں کہتا۔ وہ چمک کر بولتا، ’’کرشمہ! حقیقت کو آپ کرشمہ بتاتے ہیں! شاباش!‘‘

    اس نے مجھے بار بار بتایا کہ وہ سچائی کا پجاری ہے، ’’تم دیکھو، میں اسکاچ پی سکتا ہوں، پھر بھی ٹھرا کیوں پیتا ہوں، سڑکوں پر پیدل کیوں بھٹکتا ہوں، بورا کھادی کیوں پہنتا ہوں، گاڑی ہوتے ہوے بھی پیدل کیوں چلتا ہوں، جب کہ میں لیکھک نہیں ہوں۔۔۔ بس انٹلکچوئل ہوں۔ اصل بات یہ ہے کہ مجھے سچائی خوب صورت لگتی ہے۔ میں سچ جمع کر رہا ہوں۔‘‘

    کسی طرح وہ آخری دن آگیا۔ زکام نے میری طبیعت جھک کر رکھی تھی۔ ناک کی حالت ٹونٹی جیسی ہوگئی تھی۔ ایک عجیب چڑچڑچڑچڑ مچی ہوئی تھی۔ زکام کی وجہ سے آخری دن اور پکا ہوگیا۔ ادھر یہ عجیب اتفاق تھا کہ کندن سرکار کی جیبوں میں اسی دن دارو میرے لیے لہریں مار رہی تھی۔ اس دن اس نے خوب خرچ کیا۔ صبح سے شروع ہوکر شام تک ہم پیتے گھومتے رہے۔ میرے دل میں بھی یہی تھا، زیادہ سے زیادہ لوٹ لو کندن سرکار کو۔ ہماری صبح نہیں آنے والی ہے اس چوتیے کے ساتھ۔ جب شام ہوئی اور بتیاں جلیں، وہ مجھے ایسے ریستوراں میں لے گیا جہاں میں کبھی نہیں گیا تھا۔ وہ اتنی شریف جگہ تھی کہ میں وہاں جا بھی نہیں سکتا تھا۔ اگرچہ مالی مسئلہ بھی تھا، مگر اصل میں شریف جگہیں مجھ سے سہی نہیں جاتیں۔ وہاں میں ڈسٹرب ہوجاتا ہوں اور الٹی آنے لگتی ہے۔ اس دن کی بات، لگتا ہے کچھ اور ہی تھی۔ چھتے میں شہد کی طرح نشہ جسم میں چھنا ہوا تھا اور جسم پیڑ کی طرح بغیر گرے جھوم رہا تھا۔

    ریستوراں کا ہال بھرا ہوا تھا۔ مدھم روشنی تھی اور مردوں عورتوں کی تعداد برابر لگتی تھی۔ چاروں طرف خوشبوئیں گتھی ہوئی تھیں اور ذرا ادھر اُدھر ہونے پر بدل جاتی تھیں۔ ہمیں دوکرسیوں والی ایک ٹیبل مل گئی۔ کندن سرکار کے کوٹ میں کے جن کاادّھا تھا۔ بیٹھنے کے فوراً بعد وہ تاک میں لگ گیا۔ میں اس جگہ کافی پھنسا ہوا محسوس کر رہا تھا۔ دھیرے دھیرے میری سانس بہتر ہوگئی اور میں ہوشیار ہوکرادھر اُدھر دیکھنے لگا۔ میں نے ایک ساتھ ایسی عورتیں اور آدمی کبھی نہیں دیکھے تھے۔ میرا دماغ دارو اور زکام میں سنے رہنے کے بعد کہیں تھوڑا بچ گیا تھا۔ یہاں تھوڑی دیر مجھے اپنے بھارت دیش کادھیان آتا رہا۔

    کندن سرکار نے بتایا، اس ریستوراں میں زیادہ تر فوجی افسراور ان کے کنبوں کے لوگ ہی آتے ہیں۔ مجھے فوراً یقین ہوگیا کہ یہاں بیٹھے ہوئے لوگ فوجی افسر ہوسکتے ہیں۔ اس جگہ کا اصل دنیا سے کوئی واسطہ نہیں لگتا تھا۔ یہاں کوئی شخص غصیل، گمبھیر یادکھی نظر نہیں آرہا تھا۔ سب تندرست، تر اور چکنے چہرے تھے۔ کندن سرکار بھی اسی تر دنیا کا رکن لگ رہا تھا۔ صرف ایک اجڑے ہوئے شخص کو بٹھاکر شراب پلانے دینے سے کیا اس کا مقام اس دنیا سے کاٹا جاسکتا ہے؟

    میں نے غور کیا، ہال میں دوطرح کی عورتیں تھیں۔۔۔ کچھ بالکل ہلکی پھلکی، اور کچھ ایسی جنہیں دیکھ کر لگتا تھا بالٹی بھر کے ہگتی ہوں گی۔ موٹی عورتیں مردوں کے ساتھ زیادہ لڑکپن دکھارہی تھیں۔ مرد بھی پیچھے نہیں تھے۔ چیزوں کو چکھتے ہوئے وہ دوسروں کی عورتوں کی اداؤں کو مہذب طریقے سے چاٹ رہے تھے۔ وہ اپنے علاوہ دوسروں کو وہاں موجود ہی نہیں سمجھ رہے تھے۔ کہیں وہ اس خیال کا بھی شکار تھے کہ ریستوراں کا یہ ہال ان کے لیے ماحول بناتا ہے اور یہ دنیا ان کے لیے بنی ہے۔ مادر۔۔۔ میرا دماغ ایک دم سے کڑک ہوگیا۔ آخر تم لوگ کب تک غلام بنے رہوگے اور کب تک ہم اکسٹھ باسٹھ کرتے رہیں گے!

    اب تک کندن سرکار ٹانگوں کے بیچ جن کی سیل توڑ کر اسے ادھ پیے پانی کے گلاسوں میں ڈال چکا تھا۔ جن اب پانی کی طرح ٹیبل پر رکھی تھی اور وہ اسے دھیرے دھیرے پی رہا تھا۔ تبھی ڈائس پر سازسنگیت شروع ہوا۔ سازسنگیت، جیسے سیار بول رہے ہوں، ہواں ہواں، اور جیسے قتل کیے جانے والوں کی چیخ پکار مچی ہوئی ہو۔ بہت گھال میل تھا اس میں۔ میں نہیں جانتا کہ یہ شراب تھی یا میرا اصل روپ، مگر مجھے ساز کی آوازوں سے متلی ہونے لگی۔ میں نے سوچا، اس سے پہلے کہ اندر کی کڑواہٹ اچانک لذیذ ذائقے میں تبدیل ہوجائے، مجھے کچھ کرڈالنا چاہیے۔ ذرا سا سستانے لگو تو دنیا گلے کے نیچے کھسکنا شروع کردیتی ہے۔ میں نگلنا نہیں چاہتا، اگلنا چاہتا ہوں۔ نشے نے مجھے بچا رکھا تھا، نہیں تو اس وقت مجھے پتا ہے، کسمساکر زیادہ سے زیادہ دوچار گالیاں بکتا اور ’’سوسو‘‘ ہوجاتا۔ فی الحال میرا دماغ ایک باغی مستی سے بھرا ہوا تھا۔

    میں نے غور کیا کہ پہلے سے صورت حال بہتر ضرور ہوئی ہے۔ پہلے میں صرف مسکراتا تھا، جیسے دنیا ایک چوتیاپا ہے اور میں اسے سمجھ گیا ہوں۔ حالت یہاں تک پہنچی کہ اس مسکراہٹ کی وجہ سے مجھے گھونگھا سمجھاجانے لگا۔ اس سبزی خور مسکراہٹ سے نظام کا تو کچھ بگڑتا نہیں۔ دَم دار مسکراہٹ تو راجا کی ہوتی ہے، مہنت کی ہوتی ہے، عورت کی ہوتی ہے، اور جن کا چمن خطروں سے آزاد ہے ان کی ہوتی ہے۔ مسکراہٹ گئی تو اب الٹی آنے لگی ہے۔ توڑپھوڑ مچنے لگتی ہے۔ بھرپور طریقے سے ایسا ہی ہوتا رہے، یہ بھی آسان نہیں ہے، کیوں کہ جمہوریت کے رومانس اور شہری پن کے احساس کو پتا نہیں کب اندر ایسا کوٹ کر بھردیا گیا ہے کہ توڑ پھوڑ کر درکنار ہوجاتی ہے، بچی رہ جاتی ہے بس ایک کنکنی بُدبُد۔

    میں نے جلدی سے اپنا گلاس اٹھایا اور پی گیا۔ مجھے ڈر ہوا، آج کی الٹی اور بے چینی اور پھٹتی ہوئی طبیعت کہیں بھاگ نہ جائے۔ کہیں مسکراہٹ کے دن نہ آجائیں۔ مسکراہٹ کو جڑ سے کھود ڈالنا ہے۔ میں نے کندن سرکار کی طرف دیکھا، آج میرا آخری دن ہے۔ آج کے بعد میں تمہارا گھنٹا نہیں رہوں گا کندن سرکار! کندن سرکار کو اس کا کیا پتا۔ وہ اطمینان سے پی رہا تھا۔ پھر ابھی شہر میں بہت سے لوگ موجود تھے، اس کا گھنٹابننے کے لیے۔

    کندن سرکار نے گھڑی دیکھی، بیرے سے کچھ کھانے کو منگوایا اور مجھے دھیمے سے بتایا، ’’وقت ہوگیا ہے، اب چھوکری آئے گی گانا گانے۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے، چھوکری کو آنے دو۔‘‘ میں نے کہا۔

    کندن سرکار نے بچی کھچی شراب بھی گلاسوں میں نکال دی اور میں کرسی ٹھیک کرکے، ڈائس کی طرف منھ کرکے، اس طرح بیٹھ گیا جیسے سامنے فلم ہونے والی ہو۔ میری نظر کے سامنے ایک عورت کی گملے برابر اونچی، کالی کھوپڑی آگئی تھی، اس لیے میں نے کرسی ٹھیک کی۔ اسی دوران کچھ مضبوط اور سندر غنڈے آئے اور ہال کو پورا چکر مار کر واپس کہیں اندر چلے گئے۔ شاید وہ جانچ پڑتال کرنے آئے ہوں گے۔ سب سے پہلے میں نے سوچا، یہ لوگ مال کے چکر میں ہیں، مگر نہیں، وہ لوگ صرف ذمے داری دکھاتے ہوئے چلے گئے، جیسے فوج خاص مقصد سے، جنتا کے لیے سڑکوں پر پریڈ کرتی ہے۔

    لڑکی فراٹے سے ہال میں آئی۔ لگتا نہیں تھا کہ وہ چل رہی ہے، وہ تیر رہی تھی۔ ڈائس پر جانے سے پہلے وہ سب طرف گھومی، جیسے بچے کاغذ کا ہوائی جہاز ہوا میں اڑاتے ہیں۔ اس کا چہرہ تروتازہ تھا اور وہ چھوٹی سی لڑکی لگتی تھی۔ اس کے دھڑ پر ڈیڑھ فٹ کا بے حد کسا ہوا ایک سنہرا کرتا تھا۔ وہ کافی لول طریقے سے گھومتے ہوئے گاتی رہی۔ حرام زدگی اس کی آنکھوں اور اَستنوں پر دیکھی جاسکتی تھی۔ گاتے ہوئے وہ اکثر کندھوں کے زور سے استنوں کو پرندوں کی طرح ہال میں اچکانے کا کھیل کرتی تھی۔ دراصل یہ اس کی ٹرک تھی اور اس کے بعد وہ دونوں ہاتھ ملاکر اطمینان سے آگے کے بول یاد کرتی تھی۔ اسے اپنے پیشے اور ہوتی ہوئی رات کا بالکل ڈر نہیں تھا۔ وہ تھوڑی تھوری دیر بعد اپنے چہرے سے آرکسٹرا کے ساتھیوں کو اکساتی اور شرابور کرتی چلتی تھی۔

    ریستوراں لذّت سے بھر گیا تھا۔ صوفوں میں دھنسے ہوئے لوگ بغیر آواز کیے باتیں کر رہے تھے۔ میں نہیں سمجھتا کہ بکری کی لینڈی کے ناپ سے زیادہ کبھی ان کا منھ کھلتا رہا ہوگا۔ مرد سمجھ رہے تھے کہ گاتی ہوئی لڑکی ویشیا ہے یا چونی برابر، اور ان کی عورتیں ویشیا نہیں ہیں۔ ان کی آنکھوں میں بیڈروم سین چمک رہا تھا۔ دراصل یہ اپنی بیویوں کو دکھارہے تھے کہ تمہارے علاوہ اور بھی مل سکنے والی چیزیں ہیں۔ عورتیں بھی چپ نہیں رہتیں۔ کہتی ہیں، ’’وہ دیکھو، لیفٹ کارنر والی میز۔ نیلی جارجٹ کے بغل والا نوجوان کتنااسمارٹ لگتا ہے ڈارلنگ!‘‘

    ’’ابھی اس کا اسکواڈرن لیڈر کا پروموشن نہیں ہوا ہے۔ جونیئر ہے مجھ سے۔‘‘

    ’’اس سے کیا! وہ چست او رخوب صورت ہے، اور اسکواڈرن لیڈر ہوجانے پر تو اور ہوجائے گا۔‘‘

    ہم سے تھوڑا ہٹ کر، تیسری ٹیبل پر، نہایت لمبی سوئیوں جیسی مونچھوں والا ایک ادھیڑ عمر آدمی بیٹھا تھا۔ بیچ بیچ میں، لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر، وہ مونچھ کی نوک سے اپنے ساتھ والی عورت کا گال گدگدا دیتا تھا۔ ایسا کرتے ہوئے وہ آرکسٹرا ڈائس کی طرف دیکھنے لگتا تھا، یہ دکھاتے ہوئے جیسے مونچھ اور گال کا کھیل غیرارادی ہے۔

    میرے دیکھتے ہی دیکھتے ڈائس پر ایک عجیب بات ہوئی اس لڑکی کے ساتھ، جو گارہی تھی۔ اس کے شلوار کا ناڑا، لگاتار ہپس چلانے یا جلدبازی میں پہننے کی وجہ سے سنہرے لباس کے نیچے لٹک آیا۔ اس کے نیچے اور اوپر کے لباس کے مقابلے میں وہ میلا کچیلا لگ رہا تھا۔ سنگیت کے ساتھ اب یہ ناڑا بھی ہل رہا تھا۔ میں بھنبھناکر ہنس پڑا۔ یہ دل کے علاقے سے نکلی ہنسی تھی، بالکل بے قابو۔ وہ کافی گنوارو لگ سکتی تھی اور کسی بھی وقت آدمی کو ایسے مقام پر بجکاسکتی تھی۔ کندن سرکار چونک پڑا۔ اسے کافی شراب کے بعد بھی جگہ کا ہوش تھا اور اسے میری ہنسی ناگوار گزری۔ یہ ہوش ایسا ہے جو سب کچھ کے بعد بھی زندگی کو محفوظ رکھتا ہے اور اسے ہر حادثے سے بچاتا رہتا ہے۔

    کندن سرکار نے مجھے بری طرح گھڑک دیا، ’’ادب سے رہو، یہ اونچی جگہ ہے۔ تم نے دیکھا، تمہارے علاوہ یہاں کوئی ہنسا ناڑے پر؟ مہذب ہونے کی وجہ سے یہاں بیٹھے ہوئے لوگ یہ محسوس کر رہے ہیں کہ یہ انہیں کا ناڑا ہے جو وہاں لٹک گیا ہے۔‘‘ پھر وہ رعب سے بولا، ’’تم نے شاید اسے پیٹر ولا سمجھ لیا ہے۔‘‘

    ’’چپ بے!‘‘ میں کھڑا ہوگیا۔ پیٹر ولا کا نام میں برداشت نہیں کرسکتا تھا۔ میرے ہاتھ میں کوکا کولا کی گردن تھی۔ وہ کھٹ سے چاپلوس ہوگیا۔ ’’میرے دوست، تمہیں نشہ ہوگیا ہے۔ نیمبو کا پانی منگاتا ہوں۔‘‘ اس نے مجھے پکار کر بٹھادیا۔ پہلی بار اس نے میرے ساتھ اپنی شائستہ زبان کا استعمال کیا اور پہلی بار اپنا مہذب پن ظاہر کیا۔ جو بھی ہو، اس نے میری بیش قیمت ہنسی دبوچ لی تھی۔

    میرا اشتعال پوری طرح ٹھنڈا نہیں ہوا۔ طبیعت کا رخ ہی بری طرح پلٹ گیا۔ آگ کے لیے گھی اور پانی دونوں لیے ہوئے میں اس طرح بیٹھا رہا جیسے اکیلا ہوں اور سامنے کندن سرکار ایک کرسی کی طرح رکھا ہوا ہے۔ مجھے اس کی ڈانٹ ڈپٹ کا بہت دکھ ہوا۔ میں کندن سرکار کے پاس شراب کا لطف اٹھانے آیا تھا، ڈانٹ ڈپٹ سننے، لٹریری بات چیت کرنے اور بدّھی مروانے نہیں آیا تھا۔ کندن سرکار کے لیے بے حیا مسرا چاہیے۔

    افسوس اور غصے کا عجیب کاک ٹیل دماغ میں بنا ہوا تھا۔ چاروں گڈی گڈی چھیچھا لیدر دکھائی دے رہا تھا۔ پتا نہیں کہاں گم ہوگیا ہے میرا جنگلی پن اور زندگی کا بھبھکا۔ بس چھچھورپن بچا ہے، اور زیادہ سے زیادہ ایک تھو تھو۔ اندھیرا غراتا ہوا پھیل رہا ہے۔ بھن بھن بھن، دماغ بھنبھنارہا ہے۔ اچانک میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو مخاطب کرنے لگا، ’’اے فوجی مچھرو اور نازنینو! دور نہیں ہے وقت۔ تہذیب پلٹ کر وہ رپوٹا دے گی کہ تم لوگوں کی لینڈی تر ہوجائے گی۔ پکڑے پکڑے پھروگے۔ یہ جو رائفلیں تمہارے پاس ہیں اور جو صرف تمہارا پیٹ ڈھو رہی ہیں، تمہاری نہیں رہیں گی، بھاگو، بھاگو! رائفل کا کام پیٹ ڈھونا نہیں ہے۔‘‘

    ہاں نہیں تو! دس سال برباد ہوگئے، کبھی الٹی کبھی مسکراہٹ، کبھی مسکراہٹ کبھی الٹی، بس یہی لدھڑپنا۔ وطن کے لیے موٹی تنخواہ کاٹتے ان ترلوگوں اور سنگیت نایکابنی نخاس کی اس رنڈی کو کچھ بھی پروا کیوں ہو۔ یہ سمجھتی ہے کہ سارا ملک جیسے ناری کے ایک سینٹی میٹر والے فلاں پردیش ہی میں گھسڑ جانے کا انتظار کر رہا ہے۔ تھوڑا ٹھنڈا ہونے پر مجھے خیال آیا، باہر کے سیکڑوں تندرست نوجوان سب کچھ چھوڑکر برسوں سے گمٹیوں کے نیچے گانجے کا لپا لگارہے ہیں۔ اُف! لیکن گانجے کا راستہ کبھی پورا نہیں ہوگا۔

    ریستوراں کے ہال میں بدامنی بھرتی جارہی ہے۔ وہاں بیٹھے لوگ خطرے میں پھنس رہے ہیں۔ مجھے خوشی ہو رہی تھی اور ایک گاڑھے سپنے میں ڈوبتا چلاجارہا تھا۔ رگوں میں لہو بے خوف ہوتا جارہا ہے۔ آرکسٹرا کان میں بڑا سست لگ رہا تھا، سن سن کرتا ہوا۔ لڑکی کسی طرح ڈوبتی لے میں ڈوبتی چلی جارہی تھی۔ دماغ میں کوئی نامعلوم اور چپ چاپ طریقہ چل رہا تھا۔ اندرو ضرور آیا ہوگا، یہ آخری وقت ہے۔ اس کے بعد اگر یوں ہی پڑے رہے تو سب کچھ پہلے جیسا ہوجائے گا۔ ایکا ایک کیا ہوا، میری مٹھی اپنے آپ جکڑ گئی، آپے سے باہر ہوگئی۔

    کندن سرکار نے پھرتی سے میرا ہاتھ پکڑ کر کھینچنا چاہا، وہ مجھے تاک رہا ہوگا، لیکن تب تک کوکا کولا کی بوتل مٹھی سے باہر ہوچکی تھی، بے حد جھنجھناتے شور کے ساتھ، سامنے کانچ کی دیوار ٹوٹ پھوٹ گئی۔ میں جاگ سا گیا اور دیکھا ڈائس پر سے لڑ کی بدحواس، ’’پولیس پولیس‘‘ چلاتی بھاگ رہی ہے۔ وہ دوڑتی ہوئی ایک دم سے گرین روم سے باہر آتے ایک غنڈے کی گود میں گرگئی۔ میں نے اپنی ٹیبل الٹ دی اور کمانڈر کی طرح لوگوں کے سامنے تنا ہوا چلانے لگا، ’’چلے جائیے آپ لوگ یہاں سے، نہیں تو دھردیا جائے گا۔‘‘ اور پتا نہیں کیا کیا۔

    جب مجھے ہوش آیا، اس وقت بھی مار پڑ رہی تھی۔ تین چار غنڈوں کے بیچ مجھے ادھر سے ادھر دھکا دیا جارہا تھا۔ ایک آدمی ڈانٹتے ہوئے تماشا دیکھنے والے لوگوں کو اپنی اپنی جگہ بیٹھنے کے لیے کہہ رہا تھا۔ ایک غنڈا ڈری ہوئی گایکا کو سہارا دے کر ڈائس پر لایا اور وہاں چوکیدار کی طرح مستعد کھڑا ہوگیا۔ اس نے لڑکی کا فالتو لٹکتا ہوا ناڑا ہاتھ سے اٹھایا اور گایکا نے اسے خود ہی اندر کھونس لیا۔ میری پٹائی کی نگرانی کرنے والا جو نمایاں شخص تھا اسے لوگ کلو گروکلو گرو کہہ رہے تھے۔ جس طرح سے فٹافٹ حادثے کا ملبہ صاف کیاجاتا ہے، اسی طرح بکھرے ہوئے کانچ کو اور مجھے ہٹانے کی بھاگ دوڑ ہو رہی تھی۔

    کلوگرو نے چوتڑ پر ایک ہی لات دی کہ میں سیڑھیوں کے دہانے تک لڑکھڑاگیا۔ میں نے بیچ بچاؤ اور مدد کے لیے کندن سرکار کو کھوجا، مگر وہ پتا نہیں کب کھسک چکا تھا۔ میں نے ’’کندن، کندن‘‘ آوازیں بھی دیں، تب تک کلوگرو نے کندن کے نام پر مجھے ایک گھونسا اور جڑدیا۔ میرے جبڑے خون میں لت پت تھے۔ جس ٹیبل کاپایہ پکڑ کر میں اٹھنے کی کوشش کر رہا تھا، وہاں ایک بے حد مہذب اور ڈرا ہواشخص سکون کے انتظار میں تھا۔ اس نے ساتھ کی عورت کے کان میں کہا، ’’ہی لکس لائیک اے لوفر۔‘‘ عورت بڑی دلیری کے ساتھ خوش تھی۔ اس پر کوئی فرق نہیں پڑا، وہ مجھے دیکھ کر مند مند مسکراتی رہی۔

    میں اپنے چوتڑ پر دوسری لات کھانے کی حالت میں نہیں تھا۔ میں جلدی سے اٹھا اور زینہ اترنے لگا۔ مجھے دھیان ہے، میں کہیں بیچ میں ہی رہا ہوں گا کہ اوپر ساز بجنے لگا تھا۔ دو ہی تین منٹ میں امن قائم ہوگیا۔ نیچے گیٹ مین نے دروازہ کھولا اور سلام مارا۔ اسے کیا پتا تھا کہ یہ سلام والا آدمی نہیں اترا ہے۔ وہ بے خبر شخص تھا۔

    ایک طرح سے کندن سرکار کا گھنٹا سرک پر گرپڑا۔ جس طرح بھیڑ بھری سڑک پر سائیکل سے گرنے والے کو چوٹ نہیں لگتی، ویسی میری حالت تھی۔ جھاڑ پونچھ کر میں سڑک پر آیا جو کافی سنسان تھی۔ انقلاب کی ترنگ غائب ہوچکی تھی۔ ناک سے لار کی طرح زکام گرنے لگا۔ چلتا ہوا میں اپنی پرانی جگہ پیٹر ولا کے ساتھیوں میں پہنچا۔ مجھے دیکھ کر انہوں نے ایک ہلکا سا قہقہہ لگایا۔ اس کے علاوہ کوئی براسلوک انہوں نے نہیں کیا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے