گھنٹی
صبح جاوی بی بی کے میاں فوت ہو گئے ـ۔ وہ بہت افسردہ ہیں۔ اس وجہ سے تو ہیں ہی کہ میاں فوت ہو گئے، مگر ایک احساس غفلت بھی انہیں ستاتا ہے۔ سو ذرا اس سے زیادہ افسردہ ہیں جتنا ادھیڑ عمر بیوہ عورتوں کو یکایک بیوہ ہو جانے پر ہونا چاہیے۔ افسردہ تو ظفر بھی ہے، ان کا بیٹا، مگر جاوید بی بی جتنا نہیں۔ اس کے پاس افسوس وغیرہ کے لیے اتوار تک کا وقت ہے کیونکہ پیر کو اسے ہر قیمت پر فیصل آباد واپس پہنچ کر دفتر میں حاضر ہونا ہے اور کئی ایسے کام کرنے ہیں جو غم میں ایک خاص حد سے زیادہ ڈوب کر نہیں ہو سکتے۔ پھر اسے وہ احساس غفلت بھی نہیں ہے جو اس کی امی کو ستا رہا ہے۔
ہر گزرتے لمحے کے ساتھ جاوید بی بی کا احساس غفلت بڑھ رہا ہے اور وہ بےچین ہوئی جا رہی ہیں۔ کچھ ہی دن پہلے ان کے میاں نے ان سے ایک درخواست کی تھی جسے سن کر وہ گھبرا گئی تھیں اور بات ٹال دی تھی۔ توجہ دیتیں، ٹال نہ دیتیں، تو شایدحالات اس وقت مختلف ہو سکتے تھے۔
غلام مجتبیٰ نے، یعنی غلام مجتبیٰ مرحوم نے، بھی حد ہی کی۔ ایک تو درخواست ایسی اور دوسرا اس کو پیش کرتے ہی فوت ہو گئے۔ خیر پیش کرتے ہی تو فوت نہیں ہوئے۔ یعنی یہ نہیں ہوا کہ انہوں نے کہا ہو کہ میں درخواست کرتا ہوں کہ تم یوں کرو اور یہ کہتے ہی ان کی گردن ڈھلک گئی، مگر اسکے کچھ ہی دن بعد، ہفتہ دس دن گزرے ہوں گے مشکل سے، وہ فوت ہو گئے۔
غلام مجتبیٰ مرحوم عام سے، ہمارے آپ کے سے، آدمی تھے جو صبح پچھلے ماڈل کی ہونڈا سٹی چلاتے محکمہ جنگلات میں اپنے دفتر جاتے تھے۔ کبھی شلوار قمیص پر واسکٹ پہن کر اور کبھی پتلون قمیص پہن کر۔ پتلون پہنتے تو کبھی ٹائی بھی لگا لیتے، مگر اکثر نہیں۔ شام کو گھر آ کر ادھر ادھر پھرتے تھے، ٹی وی دیکھتے تھے اور بیوی سے کچھ باتیں کر لیتے تھے۔ چھٹی کا دن ہوتا تو کہیں ملنے ملانے یا تفریح کے لیے بیوی کے ساتھ باہر کھانا کھانے چلے جاتے۔ خاص بات ان کی زندگی میں فی ا لحال بس اتنی تھی کہ اب کچھ دن سے اپنے لیے ایک تخلص بھی تجویز کر لیا تھا۔ جس طرح ہمارے آ پکے سے کچھ عام آدمی تمام عمر یہ سوچتے ہیں کہ ابھی تو وقت پڑا ہے، دیکھنا، میں ضرور کچھ نا کچھ کر کے دکھاؤں گا، اسی طرح وہ بھی یہی سوچتے تھے۔ انہیں کیا کر کے دکھا نا تھا یہ انہیں معلوم نہیں تھا۔ پھر ایک روز جیسے ان کی یہ الجھن خدا کی طرف سے ہی حل ہو گئی اور انہیں معلوم پڑ گیا کہ آہا، یہ ہے میرا اصل کام۔ یہ ہے وہ کام جس میں میں نام پیدا کروں گا اور جس کی وجہ سے میں پہچانا جاؤں گا۔ محکمہ جنگلات کی نوکریاں کرنے سے کوئی پہچانا جاتا ہے بھلا؟
خداکی مہربانی ان پہ یوں ہوئی کہ ایک شام جب جاوید بی بی گانے لگائے گھر میں ادھر ادھرکچھ کام وام کر رہی تھیں تو ان کے میاں ایک گانا سنتے سنتے یک لخت اچھل پڑے۔ صاحب علم ہوتے، کچھ سائنس وغیرہ جانتے ہوتے اور کائنات کے اسرار جاننے کی انہیں جستجو ہوتی تو ٹب میں نہاتے ننگے ارشمیدس کی طرح ’’یوریکا ‘‘ ’’یوریکا‘‘ چلا اٹھتے۔ مگر وہ صرف اچھل پڑے اور خود سے کہا ’’ آہا۔۔۔ یہ بھلا میرے سوا کون بتا سکتا تھا کہ اس نغمے کے بولوں میں کیسی غلطی ہے؟ کس اور کی اتنی باریک نظر ہوگی؟‘‘
’’چھوٹا سفر ہو، لمبا سفر ہو
سونی ڈگر ہو یا میلہ‘‘
یہ تھے نغمے کے وہ بول۔ ہونہہ، انہوں نے سوچا، سفر کے بارے میں تو ٹھیک ہے کہ چلو چھوٹا ہو گیا یا لمبا، لیکن جب پہلی لائن میں اتنا سفر ہو گیا ہے تو دوسری میں میلے کے ساتھ بھی ڈگر لگانے کی کیا ضرورت تھی؟ ڈگر پہ بھی تو سفر ہی ہوتا ہے۔ اتنا زیادہ سفر؟ صاف بھرتی کی لائن ہے۔انہوں نے کچھ دیر سوچا اور لائن کو بدل دیا۔ پھر اپنی بدلی ہوئی لائن کو گنگنایا:
’’چھوٹا سفر ہو، لمبا سفر ہو
سونا نگر ہو، یا میلہ‘‘
’’بالکل ٹھیک لگتا ہے اب۔ ‘‘ انہوں نے سوچا ـ: ’’سونا نگر ہو یا میلہ۔ ‘‘ اور کچھ دیر بار بار آپ ہی آپ اس کو گنگنائے۔ جب مطمئن ہو گئے اور خوشی اس قدر ہو گئی کہ اظہار کیے بغیر شاید وہ پھٹ جاتے تو موسیقی کو بند کیا اور تیز تیز چلتے جاوید بی بی کے پاس آئے: ’’جاوی دیکھو، ذرا دیکھو کیسے میں نے یہ گانا ٹھیک کیا ہے جو ابھی تم سن رہی تھیں۔ بڑے نغمہ نگار شاعر وغیرہ بنتے ہیں یہ لوگ۔ میں نے ایک سیکنڈ میں غلطی پکڑ لی۔‘‘ انہوں نے گلا کھنکار کے پہلے ہوں ہوں کر کے کچھ مشق کی اور پھر باقاعدہ گانے لگے۔ ایک بار، دوبار، وہی دو لائنیں، لہک لہک کے اور جب وہ ’’سونا نگر‘‘ کہتے تو گانے میں ذراسا، بالکل خفیف سا وقفہ دیتے، جیسے جاوی بی بی کو اشارہ دے رہے ہوں کہ ذرا پہچانو اور دیکھو کہ کیسے میں نے یہاں شاعری درست کر دی ہے۔
’’کیا غلطی ہے؟ آپ نے کیا بدلا ہے؟ وہی گانا ہے۔‘‘جاوی خود بھی تھوڑا سا گنگنائیں۔
وہ جانتے تھے کہ جیسا نازک نکتہ نکال کے انہوں نے گانے میں خفیف مگر بہت ضروری تبدیلی کی ہے وہ ان کی بیوی کی سمجھ میں شاید فوراََنہ آ سکے۔ آسکتا تو بھلا بیوی شاعرہ نہ ہوتیں؟سو انہوں نے ایک بار اور یہ مصرعے دہرائے۔۔۔ گا کے، لہک لہک کے۔۔۔اور پھر بیوی کو بتا یا کہ اصل گانے میں کیا خرابی تھی اور اسے کس طرح انہوں نے درست کیا ہے۔
’’اور یہ خیال بالکل ایک دم اوپر سے آیا ہے۔ ایک دم، آپ ہی آپ۔‘‘ انہوں نے زور دے کر کہا۔ جاوی بی بی کچھ خاص متاثر نہ ہوئیں: ’’اوہو گانا ہی ہے، ڈاکٹر کا نسخہ تو نہیں ہے۔ کیا ہو گیا نگر ہے یا ڈگر۔ ایسے تو نہیں ہے نا کہ غلط گائے تو بندہ مر جائے۔ آپ ذرا باہر جائیں۔مالی کیاری میں پانی لگانے کے لئے نلکا کھلا چھوڑگیا تھا۔ جا کے نلکا بند کر آئیں پلیز۔‘‘
مجتبیٰ اس پر کچھ خوش نہ ہوئے۔ انہوں نے جاوی سے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ وہ شاعرہ نہیں ہیں۔ ان میں وہ حس، وہ ذوق اور وہ قابلیت ہی نہیں تھی جس کی بنا پر وہ یہ غلطی پکڑ سکے تھے۔ پھر انہوں نے گانے کے اصل اور غلط بول گنگنائے۔۔۔۔ ’’سونی ڈگر ہو یا میلہ۔‘‘
’’اوہوں۔ بالکل غلط محسوس ہوتا ہے۔ خاص طور پہ اب کیونکہ میں غلطی پکڑ چکا ہوں۔‘‘ ایک بار پھر انہوں نے غلط لائن گائی، برا سا منہ بنا کے جیسے کوئی بہت ناگوار کام کرنا پڑ رہا ہو یا منہ کا ذائقہ خراب ہو رہا ہو۔ پھر یک دم وہ ٹھٹکے۔ اس میں تو ایک اور بھی غلطی ہے۔ گو ویسی، پہلی کی طرح بھیانک نہیں ہے لیکن اگر کوئی بہت ہی حساس طبع سامع ہو تو اس کو تو یہ غلطی بھی ناگوار گزرےگی۔ انہوں نے احتیاطاً دوبارہ غور کیا اور پھر مطمئن ہو گئے کہ ہا ں غلطی ہے۔ سفر مذکر ہے، چھوٹا ہو یا لمبا۔ سو پہلا سفر یعنی چھوٹا سفر مذکر ہے۔ دوسرا، لمبا سفر، بھی مذکر ہے۔ پھر جب میلہ بھی مذکر ہے تو ان تینوں کے درمیان ایک مونث ڈگر کیوں ہے؟ انہیں یقین تھا کہ کوئی باذوق شخص ہو یا کوئی شاعر، جیسا کہ اب وہ تیزی سے اپنے آپ کو مانتے چلے جا رہے تھے، تو اسے یہ تین مذکروں کے درمیان ایک مونث کا ہونا بہت گراں گزرےگا۔ ظاہر ہے کہ اب اس میں کوئی کلام نہ رہ گیا تھا کہ ان کے اندر شاعری اور اس کی باریکیوں سے تعلق رکھتا کوئی خاص مادہ موجود تھا اور انہیں فی الفور اپنا تخلص تجویز کر لینا چاہیے تھا۔
بس یہی تھا ان کا یوریکا اور اس کے بعد کچھ ہی وقت لگا کہ انہوں نے اپنا تخلص تجویز کر لیا۔ تخلص کے لیے کچھ اور الفاظ بھی ان کے زیر غور رہے جن میں ایک شجر بھی تھا، شاید محکمہ جنگلات کی نوکری کی وجہ سے، لیکن پھر انہیں خیال آیا کہ نگر ہی ٹھیک ہے کیوں کہ اس میں کچھ تائید غیبی نظر آتی ہے۔ آخر اسی لفظ سے ان کی شاعرانہ زندگی کا آغاز ہوا تھا۔
وہ پچپن برس کے تھے جب ان کے تخلص کا یہ سانحہ ہوا۔ اب وہ مستقل فکر سخن میں رہنے لگے تھے مگر وقت گزرتا جا رہا تھا اور ان سے شعر ویر کوئی نہیں کہا جا رہا تھا۔ اتنا اچھا، غیب سے خود بخود نازل ہوا تخلص ضائع جا رہا تھا۔ نگر ہنوز ویران تھا۔
کبھی کبھی جب وہ شعر کہنے کے لیے بہت زور لگاتے تو دل ہی دل میں غیب سے یہ فریاد بھی کرتے کہ ’’نگر ویرا ن ہے۔۔۔ نگر ویران ہے۔۔۔ کوئی شعر اترے، کوئی شعر اترے۔ ‘‘لیکن اس فریاد کا بھی کوئی فائدہ نہ ہوا۔ کبھی جھنجھلا کر وہ اونچی آواز میں گانے سنتے کہ شاید کچھ اور غلطیوں کی نشاندہی کر سکیں اور جس طرح اسی عمل سے انہیں پہلے پہل یہ آمد ہوئی تھی کہ وہ شاعر ہیں اور قریب قریب آمد سے ہی تخلص بھی تجویز ہواتھا، شاید شعر بھی اسی عمل سے یک لخت ان پر اترنے لگیں۔
اپنے یوریکا سے اگلے دن وہ بازار سے شاعری کی کچھ کتابیں لے آئے تھے۔ کچھ غالب، کچھ اقبال، کچھ فیض۔ انہیں ان ہی لوگوں کا پتا تھا۔ ایک کتاب ’’شاعری سیکھیں‘‘ بھی لائے تھے مگر اس کو چھپا کے رکھتے تھے کیوں کہ ان کی حمیت گوارا نہ کرتی تھی کہ کوئی دیکھے کہ وہ شاعری سیکھنے کی کتاب پڑھ رہے ہیں۔ یوں بھی اس کتاب میں کچھ ایسے الفاظ کا ذکر بار بار آتا تھا کہ انہوں نے پہلے پہل اسے مزاح کی کتاب سمجھا۔ فاعلاتن، فعلاتن، مفتعلن، مفاعیلن۔ ایسے الفاظ تھے وہ اور ان کے علاوہ بھی کافی کچھ اس کتاب میں تھا جو کسی ایسے شخص کو پڑھنا زیب نہ دیتا تھا جس پر غیب سے یہ بات واضح ہوئی ہو کہ وہ شاعر ہے۔ وہ کتاب انہوں نے رد کر دی اور اسے چھپا کے الماری میں جرابوں کی دراز میں جرابوں کے نیچے رکھ دیا۔ غالب اٹھایا۔ پہلا شعر پڑھتے ہی گھبراکے کتاب بند کر دی۔ اقبال سے خوف آیا۔فیض کے ورق الٹتے پلٹتے رہتے تھے کیوں کہ وہ کچھ کچھ سمجھ میں آتا تھا مگر اس سے حظ اٹھانے کی جگہ نگر اسی کوشش میں رہتے کہ کلام میں غلطیاں ڈھونڈیں۔ جب یہ ان سے نہ ہوا تو انہیں فیض میں بھی دلچسپی نہ رہی۔
۔۔۔۔
نگر کو اخبار پڑھنے کا کچھ زیادہ شوق نہیں تھا لیکن اب، جب سے وہ شاعر ہوئے تھے، انہوں نے اخبار بڑی توجہ سے پڑھنا شروع کر دیا تھا۔ اگر ایک لچر گانا سنتے سنتے یہ طے ہو سکتا ہے کہ میں شاعر ہوں تو کچھ حیرانی کی بات نہیں کہ اخبار پڑھتے پڑھتے کسی خبر سے میرے دماغ کی کوئی ایسی کل ہل جائے کہ شعر مجھ پر اتر نے لگیں۔ یہ تو طے تھا کہ شعر ان پر اترنے ہیں۔ بس یہی پتا نہیں چل رہا تھا کہ کب اور کس ذریعے وسیلے سے یہ سلسلہ شروع ہوگا۔ اخبار کے مطالعہ سے ا بھی تک شعر تو اترنے شروع نہ ہوئے تھے مگر ایک روز دفتر میں بیٹھے انہوں نے ایک ایسی خبر پڑھی کہ وہ بوکھلا اٹھے۔ یہ خبر ہندوستان سے آئی تھی اور اس میں لکھا تھا کہ ایک مردہ شخص جسے چتا جلانے کے لیے لے جایا جا رہا تھا، یک لخت ہلنا جلنا شروع ہو گیا تھا۔ خبر میں بتایا گیا تھا کہ جب یہ ہوا تو وہاں موجود لوگوں میں سے زیادہ تر تو خوف سے ادھر ادھر بھاگ گئے مگر مردے کے بال بچوں نے آگے بڑھ کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ ان کا باپ بے چارہ ابھی زندہ تھا۔ بچے اسے فوراً ہسپتال لے گئے جہاں اب اس کا کچھ علاج معالجہ کیا جا رہا تھا۔ خبر میں اتنا ہی لکھا تھا۔ یہ تفصیل نہیں تھی کہ وہ پہلے مرسا کیوں گیا تھا اور اب کس بیماری کا علاج کیا جا رہا تھا۔
نگر یہ خبر پڑھ کے بہت گھبرائے۔ اگر کچھ دیر ہو جاتی تو بے چارہ راکھ بن جاتا، انہوں نے سوچا اور جھرجھری لی۔ شام کو گھر جاتے ہی انہوں نے جاوی بی بی سے اس خبر کا ذکر کیا۔ وہ ابھی تک بہت گھبرائے ہوئے تھے اور انہیں اس بات پر جھرجھری پہ جھرجھری آئے جاتی تھی کہ اگر ان کے ساتھ ایسا ہوا اور کسی ڈاکٹر کی نالائقی کی وجہ سے انہیں زندہ در گور کر دیا گیا تو وہ قبر میں آنکھ کھل جانے پر کیا کریں گے؟ وہ موٹی موٹی سیمنٹ کی سلیں جن سے جلدی جلدی قبر بند کرتے ہیں اور ان پہ مٹی کی جو چھوٹی سی پہاڑ ی بنا دیتے ہیں، اس سب میں سے کیسے نکلیں گے؟ فرض کیا ان میں اس حالت میں کچھ توانائی بھی ہو تو بھی یہ کام بہت مشکل ہوگا۔ چیخیں چلائیں گے بھی تو نہ جانے آواز قبر سے باہر جائےگی یا نہیں۔ مدھم سی چلی بھی گئی تو قبرستان میں کون سی لوگوں کی چہل پہل ہوتی ہے کہ کوئی سن لےگا اور سن بھی لے کوئی تو زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ ڈر کر دور بھاگ جائےگا۔
جاوی بی بی نے یہ بات سنی تو کہا کہ اوہو، یہ ہندوؤں کی باتیں ہیں۔ ان کے ہاں ایسا ہوتا ہوگا کہ مردے اٹھ بیٹھتے ہوں گے۔ ہو سکتا ہے کہ اس ہندو نے کوئی نیا جنم لیا ہو۔ ہندو لوگ تو یہ مانتے ہیں نا کہ وہ بار بار نئے نئے جنموں میں دنیا میں آتے چلے جاتے ہیں۔ مگر وہ یہ کہتے ہی نادم ہوئیں کیوں کہ یہ کہنے کا مطلب تھا کہ ہندو لوگ شاید ٹھیک ہی کہتے ہوں۔ انہوں نے دل میں استغفار پڑھی۔
’’فکر نہ کریں۔ ہم مکمل تسلی کرلیں گے کہ آپ خدانخواستہ پوری طرح فوت ہو گئے ہیں۔‘‘ وہ بولیں۔
لیکن نگر مطمئن نہ ہوئے: ’’ہندو آدمی کے گھر والوں نے تسلی نہیں کی ہوگی؟ تسلی وسلی کچھ نہیں ہوتی۔ میر ی آنکھ قبر میں کھل گئی تو کیا ہوگا؟‘‘
’’آپ ایساسوچ کیوں رہے ہیں؟ یہ مرنے ورنے کی باتیں نہ کریں پلیز!‘‘ جاوی بی بی روہانسی ہو کر بولیں:’’ آپ کون سے بوڑھے ہیں اتنے یا خدانخواستہ بیمار؟‘‘
لیکن نگر کے دماغ میں یہ بات گھر کر چکی تھی اور اب تو یہ خیال بھی آنے لگا تھا کہ شاعر لوگوں کے بارے میں سنا ہے کہ وہ اکثر جلد مر جاتے ہیں۔ گو ان کی اپنی عمراس سے آگے جا چکی تھی جس میں جلدی مرنے والے شاعر لوگ مر جاتے ہیں یعنی تیس بتیس، پینتیس، مگر ان کی شاعرانہ عمر تو بہت کم تھی نا۔ اس مسئلے کے لیے تو ان کی شاعرانہ عمر کو ہی دیکھنا چاہیے تھاجو ابھی بہت ہی کم تھی۔ انہوں نے تو اب تک ایک شعر بھی نہیں کہا تھا۔ شعر تو شعر، اپنے یوریکا سے لے کر اب تک وہ کسی کے کلام میں کوئی غلطی بھی نہیں نکال پائے تھے۔ وہ جھنجھلا گئے کہ شعر تو آ نہیں رہے مگر جلدی مرنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ ’’دفع کرتا ہوں شاعری کو‘‘ انہوں نے سوچا۔ مگر شاعری دفع کر کے بھی آ خر ایک دن مر تو جانا ہی تھا۔ کہاں شاعر بن کے جاوداں ہوجانا تھا اور کہاں اب یہ قبر کی نئی مصیبت کھڑی ہوگئی تھی۔
’’جاوی! تم مجھ سے ایک وعدہ کرو۔‘‘ انہوں نے کافی دیر سوچ میں ڈوبے رہنے کے بعد کہا۔
جاوی بی بی گھبرائیں اور سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھا۔
’’تمہیں کوئی ایسا بندوبست کرنا ہوگا کہ جب مجھے دفنایا جائے تو میری انگلی کے ساتھ ایک ڈوری یا پتلی رسی باندھ دی جائے۔وہ رسی سیمنٹ کی سلوں میں ایک درز سے باہر نکلے اور مٹی میں سے گزرتی ہوئی کہیں ایسی جگہ پہنچے جہاں آس پاس لوگ ہوں۔ اس کے دوسرے سرے پر ایک گھنٹی لگی ہو۔ اگر میں قبر میں اٹھ بیٹھا تو انگلی تو ہلا ہی لوں گا اور انگلی ہلاکر گھنٹی تو بجا ہی دوں گا۔‘‘
جاوی بی بی کی سمجھ میں نہ آیا کہ اس بات پر کیا کہیں۔ وہ کچھ اور روہانسی ہو گئیں:’’آپ پلیز یہ باتیں بند کریں۔ ‘‘انہوں نے کہا۔
’’نہیں تم وعدہ کرو۔ ‘‘نگر نے اصرار کیا۔
’’میں کیسے وعدہ کروں؟ مجھے قبروں کا، دفنانے شفنانے کا، ایسی چیزوں کا کچھ پتہ نہیں کہ یہ کام کیسے ہوتے ہیں۔ عورتیں بھلا کب جاتی ہیں قبرستانوں میں مردے دفنانے۔ میں یہ کیسے کروں گی؟ ظفر کو بھی کہہ دوں کہ وہ کر لے تو یہ بھی نہیں پتہ کہ ایسے بندوبست کی اجازت بھی ہے ہمارے مذہب میں یا نہیں۔‘‘
’’خیر وہ بھی ہم پتہ کر لیں گے کل پرسوں۔‘‘ نگر بولے: ’’اگر اجازت ہوئی تو تمہیں بس یہ کرنا ہے۔ لازماً۔‘‘
’’وہ گھنٹی کہاں جا کے لٹکےگی؟‘‘ جاوی نے پوچھا: ’’اتنی لمبی رسی ہو گی کہ گھر تک آ جائے؟ یا نزدیک کے کسی بازار میں بس یونہی کسی کھمبے سے گھنٹی لگوا دیں گے ہم؟ بازار میں لوگوں کو کیا پتا یہ گھنٹی کیوں بج رہی ہے؟‘‘
نگر سوچنے لگے۔ جاوی بھی خاموش ہو گئیں۔ کچھ لمحے موت کے سے سکوت کے گزرے۔
’’ظفر کو کہہ کر آپ کے کفن میں موبائل فون نہ رکھوا دوں؟‘‘ جاوی بی بی نے دھیمی سی آواز میں پوچھا۔
نگر نے تجویز سنی اور کچھ دیر اس پر غور کیا: ’’ہوں۔ قبر میں شاید سگنل نہ آئیں اور یہ بھی نہیں معلوم کہ میرے اندر اتنی طاقت ہو گی یا نہیں کہ میں فون کر سکوں۔ انگلی ہلانے اور فون کرنے میں بڑا فرق ہے۔ یہ بھی تو پوچھنا ہی پڑےگا کہ قبر میں کوئی چیز چھوڑنے کی اجازت ہے یا نہیں۔‘‘
’’اچھا اس پر آپ سوچ لیں۔ ابھی تو یہ بات چھوڑ دیں پلیز۔ پھر کبھی اس پہ بات کر لیں گے۔‘‘ جاوی نے اس ہولناک گفتگو سے عاجز ہو کر کہا۔
۔۔۔۔
دور دراز کے ایک شاعر نے کہا ہے کہ اجل کے سو ہاتھ ہیں اور وہ ہزار راستوں پر چلتی ہے۔ وہ سرگوشی کرتی آتی ہے یا کھوپڑی پر ناگہانی چوٹ کی صورت میں نازل ہوتی ہے۔ انسان رات کو چراغ لیکر چلتا ہے لیکن نالے میں ڈوب جاتا ہے۔ دن دہاڑے زینہ چڑھتا ہے اور ایک شکستہ سیڑھی سے اس کا پاؤں پھسل جاتا ہے۔
جاوی بی بی کی سہیلی سینما میں فلم دیکھ کر آئیں تو بڑی خوشی سے جاوی کو فون کیا۔ فلم اور اس کے گانوں کی تعریف تو کی ہی، سینما کی بھی بہت تعریف کی۔ یہ سینما نیا نیا کھلا تھا اور جاوی ابھی تک اس میں نہ گئی تھیں اور چیزوں کی تعریف تو انہوں نے جو کی، سو کی، سینما ہال میں بچھے قالین کے بارے میں تو بہت ہی بولیں۔
’’اینا موٹا قلین جاوی۔ تے اینا نرم۔ میں ایہوجیا قلین نئیں کدی ویکھیا۔ بندہ تے اودے وچ ڈب ای جائے۔ ہائے ہائے میرا تے دل کرے میں اوتھے ای چدر وچھا کے سوں جاواں۔ آخری شو سی ناں تے مینوں نیندر بڑی آئی سی۔‘‘۱
جاوی نے کہا اچھاہم بھی دیکھ کر آتے ہیں فلم۔ نگر فلموں کے بہت شوقین نہیں تھے مگر مخالف بھی نہیں تھے۔ انہوں نے کہا، ہاں چلتے ہیں۔ میں چاہے شاعری کروں یا اپنی سلامتی کی خاطر چھوڑ دوں ذرا یہ تو جاکے دیکھیں کہ آج کل لوگ کیا گانے لکھتے ہیں۔ ویسے ہی سونی ڈگر کی طرح کی بے ہودہ باتیں لکھتے ہیں یا کچھ بہتر لکھتے ہیں؟
فلم میں کوئی خاص بات نہ تھی مگر دلچسپ تھی۔ ہال کا قالین البتہ واقعی بہت ہی حیران کن طورپر نرم اور گہرا تھا اور ریشے اس کے ایسے تھے کہ سیڑھیوں پہ بچھا ہو اور انسان اس پر بیٹھ کے نیچے کی طرف دھکا لے تو خود بخود پھسلتا ہوا سیڑھیوں کے آخیر تک پہنچ جائے اور کوئی چوٹ بھی نہ لگے۔ فلم ختم ہوئی تو میاں بیوی اپنی پچھلی سیٹوں سے اٹھ کے سیڑھیاں اترتے دروازے کی جانب جانے لگے۔ تیسری چوتھی سیڑھی پہ نگر کا پائوں پھسلا۔ نرم ریشوں پر سے پھسلایا بس رپٹ گیا۔ وہ موٹے قالین پہ اس طرح گرے کہ ان کا سر ہال کی ایک کرسی کے ساتھ زور سے ٹکرایا۔ اس قدر زور سے کہ وہ درد سے چلا اٹھے۔
وہ کافی دیر وہیں پڑے رہے۔ جاوی بار بار ان کا سر سہلاتی تھیں اور ان کی خیریت پوچھتی تھیں مگر وہ بولتے نہ تھے۔ ان کا سر گھوم رہا تھا اور کچھ دیر کے لیے تو ان کی آنکھوں کے آگے اندھیرا بھی چھایا رہا تھا۔ چند لوگ بھاگے بھاگے آئے اور ان کے گرد جمع ہو گئے۔ کچھ خیریت پوچھنے لگے اور کچھ نے مشورے دیے۔
’’نہیں، نہیں! ابھی نہ اٹھیں۔ ٹھہر جائیں۔‘‘
’’انہیں اٹھائیں۔ اٹھاکے چلائیں پھرائیں۔ ایسے پڑے رہنا ٹھیک نہیں ہے۔‘‘
’’ایمبو لینس بلائیں۔ ہسپتال لے جائیں۔ بڑے زور کی چوٹ ہے۔ توبہ۔ اتنی اونچی آواز آئی تھی۔‘‘
نگر خاموشی سے وہیں پڑے رہے۔ تھوڑی دیر بعداٹھنے کی کوشش کی تو کھڑے تو نہ ہو سکے البتہ وہیں نرم قالین پر بیٹھ ضرور گئے۔ اکٹھے ہوئے لوگ آہستہ آہستہ جانے لگے تو جاوی نے کہا کہ ذرا ہمت کر کے کھڑے ہوں۔ آہستہ آہستہ چل کے گاڑی تک جانے کی کوشش کریں۔ کچھ دیر بعد انہوں نے پھر کوشش کی اور اٹھ کھڑے ہو گئے۔ آہستہ آہستہ باقی سیڑھیاں جاوی کے سہارے اتر آئے اور چلتے چلتے گاڑی تک آ گئے۔ جاوی بی بی گاڑی چلانا نہیں جانتی تھیں۔ انہوں نے کہا گاڑی یہیں چھوڑتے ہیں اور رکشہ لے کر گھر جاتے ہیں۔ گاڑی صبح آ جائےگی۔
نگر نے کہا نہیں میں ٹھیک ہوں۔ گاڑی چلا لوں گا۔ وہ اب ٹھیک نظر بھی آ رہے تھے اس لیے جاوی نے زیادہ اصرار نہ کیا۔ لوگ گرتے رہتے ہیں۔ چوٹیں آتی رہتی ہیں۔انسان گر جاتا ہے، اٹھ بھی جاتا ہے۔ پھر کبھی دوبارہ بھی گر جاتا ہے۔ ایسی کیا بڑی بات ہے۔
نگر ہر روز جاوی سے پہلے صبح بیدار ہوتے تھے لیکن اگلی صبح جاوی اٹھیں تو وہ ابھی سو رہے تھے۔ جاوی نے انہیں جگانے کی کوشش کی تو وہ نہ اٹھے۔ ہلایا جایا مگر وہ نہ اٹھے۔ جاوی سرپٹ بھاگیں۔چیخ کے نوکر کو جگایا۔ پھر تیر کی طرح گھر سے باہر نکل کر ہمسائیوں کا گیٹ کھٹکھٹایا۔
۔۔۔۔
ہسپتال والوں نے بتایا کہ نگر تین چار گھنٹے پہلے ہی فوت ہو چکے تھے۔جاوی روتی دھوتی مردہ نگر کو لے کر واپس گھر آئیں۔ دوپہر تک ظفر پہنچ گیا اور عصر کے بعد لوگ جا کے نگر کو دفنا آئے۔ کیسے آناً فاناً یہ سب ہوا تھا۔ ایک دم۔
کیوں کہ وہ سرگوشی کرتی آتی ہے، یا کھوپڑی پہ ناگہانی چوٹ کی صورت میں نازل ہوتی ہے۔۔۔
اور اب شام کے وقت جاوی غم زدہ بیٹھی ہیں۔ غم زدہ اور احساس غفلت میں مبتلا۔ لوگوں کا آنا جانا اب ذرا کم ہو گیا ہے۔ مگر صبح لوگ پھر سے آنا شروع کریں گے اور یہ سلسلہ کچھ دن چلتا رہےگا۔ جاوی کی بہن ان کے سہارے اور دل جوئی کی غرض سے کچھ دن کے لیے ان کے گھر اٹھ آئی ہیں۔ ان کے میاں نے ان کے اس فیصلے پر ناک بھوں چڑھائی ہے مگر واقعہ ہی ایسا ہے کہ وہ کچھ زیادہ نہ کہہ سکے ہیں۔
اچانک غم زدہ اور اداس جاوی لوگوں میں سے اٹھ کر اپنے کمرے میں جاتی ہیں اور ظفر کو اشارہ کرتی ہیں کہ وہ بھی آئے۔
’’مجھے قبرستان لے چلو۔‘‘ وہ کمرے میں جاکر کہتی ہیں۔
’’اس وقت؟‘‘ ظفر حیرت سے پوچھتا ہے۔
’’اسی وقت۔ فوراً۔‘‘ وہ رونے لگی ہیں۔’’گاڑی نکالو۔ ابھی۔ میں دو منٹ میں آتی ہوں۔ کسی سے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
جاوی تیز تیز چلتی گھر کے صحن کے ساتھ جڑی کوٹھڑی میں جاتی ہیں جہاں طرح طرح کا سامان رکھا ہے۔ ایک پرانا خراب چولہا، رضائیوں کی پیٹی، مالی کے باغبانی کے اوزار، دو ٹوٹی ہوئی کرسیاں جن کی مرمت کروانی ہے اور ایسی کچھ اور چیزیں۔ وہ مالی کا کھرپا اٹھاتی ہیں اور تیز تیز چلتی، گھر کی گلی سے گزرتی، باہر آکر گاڑی میں بیٹھ جاتی ہیں۔
حواشی:
۱۔ اتنا موٹا قالین جاوی اور اتنا نرم۔ میں نے کبھی ایساقالین نہیں دیکھا۔ انسان تو اس میں ڈوب ہی جائے۔ ہائے ہائے میرا تو دل کیا کہ میں ادھر ہی چادر بچھا کے سو جاؤں۔ آخری شو تھا نا، اس لیے مجھے بڑی نیند آئی ہوئی تھی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.