آج جمعے کی شام تھی اس لئے بطحیٰ کے بازار میں بہت بھیڑ تھی۔ ہمیشہ کی طرح ٹیکسیوں اور پرائیوٹ کاروں کا دریا سا بہہ رہا تھا۔ سار ابازار برقی روشنیوں سے روشن تھا۔ الکٹرونک سامان بنانے والی مشہور کمپنیوں، سونی، L۔ G، سنسو ئی، سیمسنگ کے بڑے بڑے بورڈ وں سے سجی دکانیں ہمیشہ کی طرح پررونق تھیں۔ فٹ پاتھ پر سستی گھڑیوں کے ڈھیر اور چائنا کے بنے سستے کھلونوں اور کپڑوں کی دکانوں کے سامنے کافی بھیڑ تھی۔ پیدل چلنے والوں کے لئے سڑک کراس کرنے والے پل پر مردوں کے غول کے غول لدے ہوئے تھے۔ اکا دکا کوئی عورت کالے برقعے میں چھپی اپنے شوہر کے ہمراہ نظر آ جاتی تھی۔
زبیر نے اپنی ٹیکسی ہر مال دو ریال والی دکان سامنے کھڑی کردی جس کے اندر چائنا اور تائیوان کا سستا مال بھر ا ہوا تھا۔ حا لانکہ وہاں ممنوع الوقوف ) (No Parking) کا بورڈ لگا تھا مگر جمعے کی شام پل کے قریب اسی دکان کے سامنے ہی اشتیاق نے مغرب کی اذان سے پہلے ملنے کو کہا تھا۔۔۔ اب بس وہ جلدی آ جائے ورنہ ٹریفک پولس والا آ گیا تو مشکل ہو جائےگی۔۔۔ زبیر نے ڈرائیور سیٹ سے سر ٹکاکر پاؤں پھیلا تے ہوئے سوچا۔ تھوڑی ہی دور پر ماڈرن طرز کی بڑے بڑے شیشوں کی کھڑکیوں والی پرنس سلمان بلڈنگ میں نیا شاپنگ سینٹر جمگمگا رہا تھا۔ اسے خیال آیا کہ ابھی چند برس پہلے یہاں اس عالی شان پرنس سلما ن بلڈنگ کی جگہ پر بڑا سا کھلا میدان تھا، جمعہ کی شام سب یہاں ہی جمع ہوا کرتے تھے۔ پاکستانیوں کا زیادہ تر اڈٌا دوسرے محلے شمیسی میں ہوتا تھا۔ یہاں، سوڈانی، یمنی، ترکی، مصری، یوپی والے، ملیالی، حیدرآبادی، راجستھانی، بہاری لوگوں کا قبضہ تھا۔ بھانت بھانت کے لوگ بھانت بھانت کی بولیاں۔ یہ لوگ جو مزدور، کاریگر وغیرہ تھے ریاض اور آس پاس کے گاؤں سے اور شہر سے دور فیکٹریوں سے ہر ہفتے آکر یہاں ہی ملتے تھے۔ اب وہ میدان نہیں رہا اور اس کی جگہ یہ بلڈنگ بن گئی تو ان لوگوں نے اپنی اپنی ملنے کی جگہیں پل کے نیچے، مختلف گلیوں میں یا کسی پارکنگ لاٹ میں مقرر کر لیں ہیں۔
زبیر نے گھڑی پر نظر ڈالتے ہوئے سوچا کہ مغرب کا وقت ہونے والا تھا۔۔۔ اشتیاق نہ جانے کہاں رہ گیا۔ ابھی اذان ہو جائےگی تو یہاں کھڑے رہنا بھی مشکل ہو جائےگا۔ اشتیاق پرسوں چھٹی پر انڈیا جا رہا ہے۔ اس کے ہاتھ کچھ سامان اور خط گھر بھجوانے تھے۔۔۔ پچھلے ہفتے گھر سے اماں کا خط آیا تھا پھپی کے دیور کا بیٹا اشتیاق جو برتنوں کی اک دکان پر سیلز مین ہے چھٹی پر انڈیا آنے والا ہے اس کے ہاتھ خط اور سامان بھجوا دینا۔
اماں کی فرمائشوں کی ایک لمبی لسٹ تھی۔۔۔ اب دوسری بہن کی شادی کی تیاریاں شروع کر دی ہیں، تکئے کے غلاف اورچادریں اگر ابھی سے نہ تیار کی ہوئیں تو مشکل ہو جائےگی اس لئے ایک تھان اچھی والی کیٹی کے کپڑے کاھیج دینا۔۔۔ اور پروین کی شادی کے بعد سسرال میں پہلی عید ہے اس کو عیدی کا جوڑا اور کچھ برتن اور میوہ مٹھائی تو بھیجنی ہی ہے اس کے لیے بھی ایک اچھا جوڑا بھجوا دینا۔۔۔ زرینہ کو عید پر سعودیہ عرب سے آیا ہو جوڑا نہ ملا تو وہ لوگوں میں شان سے کیا دکھائے گی لہذا زبیر نے خود ہی اس کے لئے بھی ایک جوڑا کپڑا لے لیا۔ اماں کوکچھ نہ بھیجوں تو زن مریدی کا طعنہ مل جاتا ہے، اس لیے ان کے برقعے کا کپڑا بھی خریدلیا۔۔۔ رمضان شروع ہونے والے ہیں اس لیے بادام اور کھجوریں تو بھیجنی ہی ہیں۔۔۔ زبیر نے فرمائشوں کے علاوہ خود ہی سوچ کر سارا سامان خریدکر پیکٹ بنا کر تیار کر لیا تھا۔ اماں کہتی ہیں کہ سحری میں سعودیہ کے بادام کی تری (حیریرہ ) اچھی بنتی ہے، ادھر انڈیا کے بادام بہت چھوٹے چھوٹے ہو تے ہیں۔ زبیر نے سوچ کر ہنسی بھی آئی اور غصہ بھی۔۔۔
’’اب خدا جانے اشتیاق کے پاس سامان لے جانے کی کی جگہ ہوگی کہ نہیں۔‘‘ زبیر نے سوچا۔ اشتیاق خریداری کے سامان سے لد پھندا پل سے اترتا نظر آیا۔ قریب کی کئی مسجدوں سے اذان کی آواز آئی تو اس نے گاڑی اسٹارٹ کر دی اور جلدی سے دروازہ کھول کرشتیاق کو اندر بٹھا کر چل دیا۔ اشتیاق کو چنو بھائی کے روم پر جاکر بھی ان سے بھی کچھ سامان لینا تھا۔
’’بھیا بہت راہ دکھائی، ہم تو تہرے انتظار میں کبو سے کھڑے ہیں’‘۔ جب اپنی طرف کا کوئی آدمی مل جاتا ہے تو نہ جانے کیوں ادبداکر زبیر اپنی ہی بولی میں بات کرنے لگتا تھا۔
‘’کا بتائی زبیر بھائی، دو سال بعد چھٹی جا رہے ہیں تو سامان کھریدے کا تو پڑی نا‘‘۔
’’کتنے دن کی چھٹی پر جا رہے ہو؟‘‘ زبیر نے اس کے خریداری کئے ہوئے تھیلوں اور کارٹنوں پر نظر ڈالتے ہوئے کہا۔
’’اب دیکھو، تین مہینے کی اکزٹ ری اینٹری لگی ہے۔ کفیل تو ہمارا بھلا آدمی ہے، لیکن اگر اگر زیادہ دن غائب رہے تو فرنٹ نہ ہو جائے اور پھر چھٹی پر زیادہ دن گھر رہیں تو وہاں بھی اماں ابا اور سب گھر والوں کا دم پھولنے لگتا ہے کہ کہیں واپس سعودیہ نہ گئے تو کیا ہوگا۔’‘ اشتیاق نے کہا۔
’’ہم سے کیا کہتے ہو بھائی۔ دس برس سے یہی کہانی چل رہی ہے’‘۔
زبیر نے تیزی سے یو ٹرن بناتے ہوئے کہا۔
بازار میں جگمگاتی دکانوں کے پیچھے پتلی سی گلی میں ایک پرانی بلڈنگ میں چنو بھائی کا گھر تھا۔ گلی کے اندر داخل ہوتے ہی باسی مچھلی کو بو نے بتا دیا کہ یہا ں پر بنگلہ دیشیوں کا ڈیرا ہے۔ چنو بھائی کے چھوٹے سے خستہ حال فلیٹ میں حسب عادت بھیڑ لگی تھی۔یہ ہی وقت ہوتا ہے جب ہندوستان سے ٹیلی فون کی لائن ملتی ہے۔ وہا ں کا آپریٹر جہاں چاہو وہاں کا نمبر ملا دیتا ہے اور لوگوں کے لئے پچاس ریال میں آدھے گھنٹے گھر پر فون کر لینا گھاٹے کا سودا نہیں تھا۔ یوں عام فون سے کرو تو اس سے دگنے پیسے لگتے ہیں۔ دوسرے کمرے میں فون پر کوئی چیخ چیخ کر باتیں کر رہا تھا۔
‘’اماں! سلام علیکم۔ خیریت ہے۔۔۔ کیا؟ اب دیکھئے زیادہ دماغ خراب نہ ہو شکیل کا۔۔۔ سار ا دن آوارہ گردی ہی تو کرتا ہے ہیرو بن کر۔ سارا دن پھول پور کے بازار میں چائے کی دکان پر بیٹھنے سے فرصت ہو تو کچھ کرےگا نا۔ ارے کیایہاں ویز ا پیڑ پر لٹکتے ہیں اماں جو بھیج دوں۔ کاہے نہیں کھیتی باری دیکھتا۔ کوئی لاٹ صاحب ہو گیا ہے ہائی اسکول کرکے، کیا کہیں گورنر لگ جائےگا کیا۔۔۔ ہاں! ہاں! بھیجے تو تھے پیسے پچھلے مہینے، مل گیا ڈرافٹ’‘۔
ایک صاحب چنو بھائی سے پوچھ ہے تھے۔
‘’ایک پیٹی کتنے کی پڑ رہی ہے آجکل۔۔۔ اور کتنے دن میں پہنچیں گے پیسے گھر پر، ذرا ایمرجنسی ہے اور بھیا گارنٹی ہے نا پہنچے کی؟‘‘۔
چنو بھائی کو غصہ آ گیا۔
‘’تم کاہے نہیں اپنا پیسوا بنک سے بھجوا دیتے اگر اتنی ہی پریشانی ہے تو۔ ہم تو لاکھوں ریال روز ادھر سے ادھر کرتے ہیں‘‘۔
اسی دوران دوسرے فون پر چنو بھائی ان لوگوں کے نام اور فون نمبر لکھ رہے تھے جو اپنے گھروں سے ہی انڈیا کے آپریٹر کے ذریعے فون پربات کرنا چاہتے تھے۔
’’کہوچنو بھائی، بہت مال توڑ رہے ہو‘‘۔ زبیر نے پرانے صوفے پر سے الم غلم سامان سمیٹ کر اس پرنیم دراز ہوتے ہوئے کہا، اس کی کمر دکھ رہی تھی۔
’’ارے کہاں کا مال۔ اب تو یہ سالے کیرالا والے پندرہ پندرہ ریال میں موبائل سے فون کراتے پھر رہے ہیں بازار میں۔۔۔ اب تو اس دھندے میں کچھ نہیں رکھا ہے۔ ہٹاؤ ان باتوں کو، آج بہت بڑھیا نہاری پکائی ہے کھا کر جانا‘‘۔ چنو بھائی نے چائے کا پانی گیس کے چولہے پر چڑھاتے ہوئے کہا۔ چھوٹے سے کچن میں نہاری کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔
‘’ارے بھیا! ہم پوریبا ارہر کی دال کھانے والے کب سے نہاری، پائے کھانے لگے‘‘۔ زبیر نے ہنس کر کہا۔
اشتیاق بول پڑا۔ ‘’اب سعودیہ میں آکر بھی ارہر کی دال کھائیں تو پھر یہاں آئے کا فائدہ۔’‘ کھانے کے دوران چنوبھائی گاؤں کی باتیں کرتے رہے۔ پرانی اسکول کے زمانے کی باتیں، چھپ کر گاؤں میں نوٹنکی دیکھنے کی باتیں، گھر کے مسائل، وغیرہ۔ کھانا کھاکر جب وہ فارغ ہوئے تو رات کے نو بج گئے تھے۔ چنو بھائی کے گھر سے نکل کر کوئی سواری لینے کے لئے وہ گاڑی مین سڑک پر لے آیا۔ بازار کی بھیڑاور رونق کچھ اور بڑھ گئی تھی، مگر اس کے دل میں جیسے زیرو واٹ کا بلب سا جل رہا تھا۔ وہ یوں ہی بےدھیانی سے شہر کی چکنی چمکتی سڑکوں پر گاڑی چلاتا رہا۔
‘’اب ایسا لگتا تھا کہ اس شہر کی سڑکوں پر گاڑی خود بخود مڑ جاتی ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے کتنی نئی بلڈنگیں ریاض میں بن گئی ہیں‘‘۔ کنگڈم ٹاور کی بلند وبالا عمارت پر جلتی بجھتی روشنیوں پر نظر ڈالتے ہوئے اس نے سوچا۔ اس کے سامنے ہی یہ عمارت بننی شروع ہوئی تھی۔ دن رات نہ جانے کتنے ہندوستانی اور پاکستانی مزدو ر اس کے بنانے میں لگے ہوئے تھے۔ علیا کے فیشن ایبل بازار سے گذر کر وہ شہر سے باہر نکل آیا۔۔۔ اس نے گاڑی بےارادہ ہی ٰئر پورٹ والی ہائی وے پر موڑدی۔۔۔ رات میں صحرا کا سناٹا اسے اچھا لگ رہا تھا۔
‘’چلو ٹھیک ہے‘‘ اس نے سوچا۔۔۔ ایک کوئی سواری ایئرپورٹ سے اٹھا کر روم پر جاکر جلدی سو جایا جائے، آج کے ڈیڑھ سو ریال تو ٹیکسی کمپنی کو دینے کے ہو ہی گئے ہیں۔ ایئر پورٹ کے ٹرپ سے کچھ اور کمائی ہو جائےگی۔۔۔ بس کافی ہے۔۔۔ آج وہ کچھ زیادہ ہی تھکا ہوا لگ رہا تھا۔ آج کا فی وقت گھر سامان بھیجنے کی خریدارسی میں نکل گیا تھا۔
وہ ایئر پورٹ والی سٹرک پر چل رہا تھا اور سوچوں کاسفر بھی جاری تھا۔ تین سال ہو گئے گھر گئے ہوئے۔۔۔ پچھلے مہینے کسی کے ہاتھ زر ینہ کا خط آیا تھا کہ اب مجھے اپنے بچوں کے لئے بھی سوچنا چاہئے۔ ابھی تو میری ہی دو بہنیں شادی لائق ہیں۔ چھوٹا بھائی نہ جانے کتنے سال سے بی اے میں فیل ہو رہا ہے کچھ نہیں کرتا۔۔۔ چھ بیگھا زمین ہے اپنے پاس، اس میں کتنا غلہ پیدا ہو سکتا ہے۔ ریڈلائٹ پر کھڑا وہ سوچ رہا تھا۔
لائٹ ہری ہوئی تو جیسے خود بخود گاڑی چل پڑی۔ ائیر پورٹ سے ایک مصری فیملی کو بٹھاکر ان کی منزل پر پہنچایا اور پھر سیدھا اپنے روم پر چلا گیا۔ الیا س اور اعظم ابھی نہیں آئے تھے۔ الیاس درزی کی دکان پر کام کرتا تھا اور اعظم اس کی طرح ٹیکسی چلاتا تھا۔ اعظم کا معمول تھاکہ رات کو بارہ بجے کے بعد آتا تھا اور ساتھ میں کوئی نہ کوئی ویڈیو فکم کا کے کر آتا تھا۔ فلم دیکھ کر ہی سوتا تھا۔ زبیر اس کی اس عادت سے بہت بیزار تھا، لیکن آج وہ خود ہی ایک دیڈیو کیسٹ وی سی آر پر لگا کر آرام سے لیٹ گیا۔ بھاڑ میں جائے سورایاں اور ٹیکسی۔۔۔ اس نے سوچا۔
اسکرین پر شلپا شیٹھی برائے نام کپڑے پہنے ٹھمکا لگا رہی تھی۔ ’’جوانی کا عالم بڑا بے خبر ہے، دوپٹے کا پلو کدھر کا کدھر ہے‘‘۔ ‘’لاحول ولاقوۃ،’‘ وہ بے ارادہ کہا اٹھا، لیکن ویڈیو بند نہیں کیا۔ اس کی آنکھیں مندنے لگیں۔ شلپا کے چہرے میں اسے اپنی بیوی زر ینہ کا چہرہ نظر آنے لگا۔ تین برس ہو گئے گھر گئے ہوئے۔ چھوٹے والے بچے کی تو شکل بھی ابھی میں نے نہیں دیکھی ہے۔۔۔ زرینہ سے تنہائی میں ملنے کے لئے بھی اپنے ہی گھر میں کیا کیا جتن کرنے پڑتے ہیں۔ اماں کابس نہیں چلتا کہ مجھے اپنے کولھے سے لگائے بیٹھی رہیں۔ رات کو بہت مشکل سے چھت پر اپنے کمر ے میں جانے کا وقت ملتا تھا۔ اماں کا خیال تھاکہ بیوی کہیں پٹی نہ پڑھا دے کہ میں ڈرافٹ اس کے نام بھیجنے لگوں۔۔۔ شلپاشیٹھی کے پتلی کمر جھٹکے کھا رہی تھی۔ دیڈیو چلتا رہا اور وہ سو گیا۔
رات بھر خواب میں دھان کے کھیت، گاؤں کی گلیاں، زرینہ، ریاض کی سڑکیں، ہوائی جہاز، جانے کیا کیا گڈ مڈ ہوتا رہا۔ صبح اٹھا تو بالکل باہر جانے کو دل نہیں چا ہ رہا تھا لیکن سات بجے صبح اسکول کے کئی بچوں کو اسکول لے جا کر چھوڑنا ہے ورنہ گڑ بڑ ہو جائےگی۔ اس کام کے اچھے پیسے مل جاتے ہیں اس لئے اٹھنا تو پڑےگا ہی زبیر میاں۔۔۔ اس نے خود سے باآواز بلند کہا۔
‘’اٹھ چندا تیرا وہ ہی دھندا’‘
جلدی سے منہ دھوکر، کپڑے بدل کر نکل کھٹر ا ہوا۔ چارگھروں سے بچوں کو لیا اور اسکول چھوڑنے کے بعدناشتہ کرنے اپنے مخصوص بوفیہ (چھوٹا ہوٹل ) پہنچ گیا۔ وہ ناشتہ اسی وقت اسی جگہ کیا کرتا تھا۔ کڑک چائے پیتے ہوئے اس نے سگریٹ سلگایا۔ آج ریاض بھٹی بھائی کاؤنٹر پر نہیں تھے۔ ان کے ساتھی بشیر بھائی نے بتایا۔
’’وہ، وہ تو جی قصیم گئے ہوئے ہیں۔ پرسوں ان کے رشتے کے چچا فوت ہو گئے۔ وہی چا چا جو قصیم کے ایک گراج میں پچھلے بیس برس سے کام کر رہے تھے‘‘۔ بشیر بھائی پتیلے سے چھولے مرغ کا سالن پتیلے پلیٹ میں ڈالتے ہوئے بولے۔
’’جی! بندے نے اپنے خاندان کو کیاسے کیا بنا دیا پاکستان میں۔ بیٹیوں کی شادیاں دھوم سے بڑے بڑ ے گھروں میں کر دیں۔ اب بڑے لڑکے کو بھی بلوا نے والے تھے۔۔۔ ویزا نکلوانے والے تھے بیٹے کے لئے۔۔۔ بس یوں ہی چپ چپاتے رات کو سوتے میں ہی گذر گئے۔۔۔ اللہ کی مرضی۔۔۔ ان کی میت پاکستان بھجوانے کا انتظام کرنا تھا۔۔۔ اسی کے لیے ریاض بھائی گئے ہیں۔۔۔میت بھجوانے میں بہت بھاگ دوڑ کرنی پڑ تی ہے۔۔۔ اب دیکھو کتنے دن لگتے ہیں‘‘
’’یوں ہی چپ چپاتے رات کو سوتے میں گذر گئے’‘۔
زبیر ہوٹل سے نکلا تو دن بھر یہ جملہ اس کے ساتھ ساتھ چلتا رہا۔ وہ سواریوں کو ان کی منزلوں پر چھوڑتا رہا۔ سڑکوں کے چکر لگاتا رہا۔۔۔ سوچوں کا لامتناہی سلسلہ بھی ساتھ ساتھ چلتا رہا۔۔۔ وہ گویا خود سے ہی دل ہی دل میں الجھتا چلا جا رہا تھا۔ اب کچھ زیادہ سواریاں بھی نہیں ملتیں۔۔۔ ایک سواری کے لئے تین تین ٹکیسیاں لپکتی ہیں۔۔۔ کیوں؟ کب تک، میں اس چکر میں لگا رہوں۔
وہ خود سے الجھتا رہا۔۔۔ ہائی اسکول پاس کرکے یہاں آ گیا تھا سوچا تھا کہ دو چار سال یہاں رہ کر کچھ پیسے جمع کرکے ایک دکان گاؤں میں کھول کر بیٹھ جاؤں گا۔ پہلے سال یہاں کی کمائی سے وہ ادھار چکایا جو سعودیہ کے ویزے اور ٹکٹ کیلئے ایجنٹ کو دینے کے لئے لیا تھا۔ اس کے بعد۔۔۔ لیکن اس کے بعد۔۔۔ سارے گھر کی بڑھتی ہوئی ضرورتوں کا بوجھ اور سعودیہ سے گئے ڈرافٹوں کاکچھ ایسا جادو کہ واپس جانے کی بات ہی نہیں آتی تھی۔ گھر والے بھی میرے واپس آنے کی بات کرنا بھول گئے۔
بہنوں کو اچھے جہیز او ر کھاتے پیتے گھرانوں کی تمنا۔۔۔ اماں کویہ فکر کہ چھوٹے بھائی کے لئے یا تو وہاں سے ویزا خریدکر بھیجویا انڈیا میں ہی کسی دھندے کے لیے رقم مہیا کرو ۔۔۔اور وہ لاٹ صاحب ہیں کہ ٹیری کاٹ کے پتلون اور شرٹ پہن کر، ہاتھ میں سیکو گھڑی لگا کر گھومنے سے فرصت نہیں۔ ٹو ان ون، دیڈیو سے دل بہلاتے ہوئے چھ سال سے بی۔ اے۔ کر رہے ہیں۔۔۔ اور اب تو موبائل کا خرچہ بھی ان کا دینا پڑتا ہے۔۔۔ اور ابا۔۔۔ وہ تو دروازے کے باہر چارپائی ڈالے سعودیہ والے ہونہا ر بیٹے کی تعریف کرتے ہوئے ملنے والوں کی چائے پلاتے رہتے ہیں۔ ان کو یہ ارمارن کے اب دروازے پر بیٹھک کا ایک پکا کمرہ بن جائے۔
میری بیوی زرینہ کو یہ فکر کہ اب تک تو بھائی بہنوں کے لئے کمایا اب اپنے بال بچوں کا بھی تو سوچو۔ ابھی واپس آنے کی بات مت کرنا۔۔۔ یہ سلسلہ دس برس سے ہے۔۔۔ کیوں۔۔۔ کب تک؟ زبیر احمد کون ہے وہاں تمہار ا منتظر۔۔۔ کیا جب لوگ سعودی عرب نہیں آتے تھے تو کیا زندہ نہیں رہتے تھے۔۔۔ وہ بڑبڑانے لگا۔
دوپہر کی دھوپ بہت تیز ہو گئی تھی اس کی آنکھوں میں چبھنے لگی تھی۔ اسکول کے بچوں کو اسکول سے لے کران کے گھروں کو پہنچاکر وہ جلدی سے کھانے کے لئے مدینہ ہوٹل بھاگا۔ ورنہ عصر کی اذان ہو جاتی ہے تو ہوٹل بند ہو جاتا ہے۔ ہوٹل میں جہاں بہت سے ٹیکسی ڈرائیور روز کھانا کھانے آتے تھے وہیں زبیر کا بھی مہینے بھر کا دو نوں وقت کا کھانا بندھا ہوا تھا۔ کون اپنے آپ پکانے کے چکر میں پڑے۔ شروع شروع میں روم پر پکایا جاتا تھا۔ مگر دن بھر تھکنے کے بعد کھانا پکانے کی ہمت ہی نہیں ہوتی تھی۔ آج مدینہ ہوٹل میں کچھ عجب سا ماحول تھا۔ کئی ٹیکسی ڈرائیور اردو نیوز اخبار پر جھکے ہوئے تھے۔اس نے پشاور والے خان بھائی سے ہنس کر پوچھا۔
‘’کیا ہوا گل محمد خاں؟ کیا آج تمہارا نام ہے لاٹری کے انعام میں؟’‘
‘’نئیں جی، لاٹری نہیں نکلی، اب ہم سب یہاں سے نکلنے والا ہے‘‘۔ اس نے اخبار زبیر کی طرف بڑھاکر کہا۔
اخبار میں بڑی سی سرخی تھی کہ ’’سعودی عرب میں غیر ملکی لوگوں کے ٹیکسی چلانے پر پابندی، چھ ماہ کے بعد صرف سعودی شہری ہی ٹیکسی چلائیں گے۔‘‘
زبیر کا دل دھک سے رہ گیا۔۔۔ اگر ئی خبر سچ ہوئی تو کیا ہوگا۔۔۔ گھر والوں کو کیسے بتاؤں گا۔۔۔ دل نے چپکے سے کہا۔۔۔ کاش یہ خبر سچ ہوتو کتنا مزہ آئے۔ گھر کے باہر نیم کی چھاؤں میں چارپائی ڈال کر گرمی کی دوپہریں کاٹی جائیں۔۔۔ سردیوں میں چارپائی دھوپ میں ڈال کر محلے پڑوس والوں سے باتیں کروں۔۔۔ ہاں اگر یہ خبر سچ ہو جائے تو ۔۔۔ اس کے دل میں ایک ترنگ سی لہرائی۔
زبیر نے کھانے میں آج اسپیشل قورمے کا آرڈر دیا۔ جو اس کے روز والے کھانے کے پیسوں میں شامل نہیں تھا۔ جم کر کھانا کھایا اور کھانے کے بعد سیدھا روم پر آکر آرام سے پلنگ پر لیٹ گیا۔۔۔ ’’اب جو ہو سو ہو‘‘ اس نے خود سے کہا۔۔۔ اور منہ تک چادر تان لی۔ بہت دنوں بعد وہ بالکل بے خبر سویا تھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.